فرقان احمد

محفلین
جناب اگر آپ جارحیت کی بات کر رہے ہیں تو عرض ہے کہ وارث سے ایک بار اسی موضوع پر بات ہورہی تھی اور جب میں نے اس سے یہ پوچھا کہ قرآن مجید کی زبان میں نثر بھی ہے اور نظم بھی اور یہ بحث کہ اسے نثر کہا جائے یا نظم بہت پرانی ہے (قرآنِ مجید کی زبان و بیان پر کئی ڈاکٹریٹ مکمل ہوچکے ہیں) آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے تو آپ حیران ہونگے کہ اس نے کیا جواب دیا۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو پڑھا لکھا سمجھتا تھا آپ اپنی اس "خچر" سے شوق جاری رکھیں۔۔۔۔ اب یہ حالات ہیں بحث کو آگے بڑھانے کے۔ کہنے کو تو ہمارے منہ میں بھی زبان ہے لیکن اپنے اپنے پس منظر کی بات ہے اس لیے اس بات کو یہیں ختم کیا اور خاموشی اختیار کی۔ میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ اس پر جتنے مقالے لکھے جاچکے ہیں ڈاکٹریٹ ہوچکی ہیں اگر ان صاحبان سے رابطہ کیا جائے تو وہ آپ کو زیادہ بہتر جواب دے سکیں گے۔ ان میں سے چند کا ربط میں نے یہاں دیا ہوا بھی ہے۔ مزید یہ کہ امجد اسلام امجد ہوں، افتخار عارف ہوں یا ریاض مجید سبھی نثری نظم کہہ رہے ہیں ان سے بھی اس حوالے سے رابطہ کیا جاسکتاہے۔ رہی بات میری تو میں کسی کی ذات پر حملہ نہیں کرتا اور نہ ہی ایسا کرنے والوں سے بحث کرنا چاہتا ہوں پھر کہوں گا اپنے اپنے پس منظر کی بات ہے۔
محمد خرم یاسین بھائی! کسی ایک مکالمے کو بنیاد بنا کر کسی کے بارے میں قطعیت اور حتمیت کے ساتھ کوئی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وارث بھائی اس فورم کا ایک معتبر نام ہیں اور ان کے چاہنے والوں نے اس انداز اور لہجے کو یقینی طور پر پسند نہ کیا ہو گا کہ جو آپ نے انہیں مخاطب کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے میں خود تذبذب کا شکار ہوں اور مجھے قوی امید ہے کہ آپ اور دیگر صاحبان ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے تشفی بخش جوابات سے ہمکنار فرمائیں گے تاہم یاد رہے، یہاں ایسی روایت کم کم ہے کہ کسی کو اس تس کے لہجے میں پکارا جائے، امید ہے آپ وارث بھائی کے حوالے سے اپنی بدگمانی جلد دور فرما لیں گے، یقینی طور پر ان کے کہنے کا مقصد وہ نہ ہو گا جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ سلامت رہیں!
 
راحیل بھائی بہتر ہے جو حوالے میں نے دیے ہیں آپ ان میں سے کسی ایک مقالے کو پڑھ لیں یا کم از کم پروفیسر طارق ہاشمی صاحب سے رابطہ فرمالیں وہ اس حوالے سے تسلی بخش جواب عنایت فر مادیں گے کہ اس کے وجود کو مانا جائے یا نہ مانا جائے۔
بھائی، یہ تو جان چھڑانے والی بات ہوئی۔
دوم یہ کہ آپ نے کسی مقالے کا ربط عنایت نہیں فرمایا۔ یہ تمام مقالہ نگاروں سے متعلق روابط ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس فورم پر بحور سے آزاد شاعری کی لڑی کا بٹن موجود ہے جس میں جا کر آپ بحور سے آزاد شاعری شامل کر سکتے ہیں۔ اگر نثری نظم اتنی ہی مطعون ہے تو پہلا اعتراض تو فورم پر بنتا ہے کہ وہاں سے اس بٹن کو ختم کیا جائے تاکہ اس پر کم از کم اس فورم پر مزید بحث نہ ہوسکے۔
انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ صحیح رائے کے مقابل غلط رائے بھی مسموع ہو۔ اسے البتہ نہیں کہتے کہ صحیح رائے کو وقعت بھی غلط رائے کی سی دی جائے۔
مزید یہ کہ کیا خلیل عروضیے سے قبل شاعری نہیں تھی ؟ اگر تھی تو کیا وہ سب موزوں تھی؟
آپ کی عروض کے بارے میں، یعنی جس علم کی آپ مخالفت فرما رہے ہیں، معلومات خطرناک حد تک ناقص ہیں۔ خلیل سے قبل شاعری بھی تھی اور موزوں بھی تھی۔ خلیل بن احمد نے عروض کے قواعد ایجاد نہیں کیے بلکہ اساتذۂِ عرب کے کلام سے صرف استخراج کیے ہیں۔
سادہ لفظوں میں عرض کروں تو خلیل سے پہلے تمام اکابر شعرا موزوں شعر کہتے تھے۔ خلیل نے ان اشعار کا مطالعہ کر کے انھی کی بنیاد پر موزونیت کا ایک معیار تشکیل دے دیا جسے عروض کہتے ہیں۔
نیز، عروضیا اردو کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ ایسی زبان کا استعمال پڑھے لکھوں کو زیب نہیں دیتا۔
آپ اپنے تئیں یہ سمجھ کر قہقہے لگائیں کہ مقدمہ شعرو شاعری کا میں نے مطالعہ نہیں کیا تو لگائیے مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔
جس بات کی دلیل موجود ہو، اسے سمجھا نہیں جاتا۔ اس پر یقین کیا جاتا ہے۔
آپ نے اگر مقدمہ کو بنظرِ غائر دیکھا ہوتا تو آپ میرؔ و غالبؔ پر ایسا طفلانہ الزام کبھی عائد نہ کرتے:
آپ بھی میر و غالب کا کوئی خیال ایسا نہیں دکھا سکتے جو ان سے پہلے موجود نا ہو۔
آپ کے آخری جملے نے مجھے ہنسا دیا۔
آپ نے جتنے بھی اعتراضات کیے میں نے سب کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
اس دعویٰ میں اور نون لیگ کے دعاویٰ میں کیا فرق ہے؟
برادرم، اوپر جائیے۔ میرے سوالات کو بغور پڑھیے۔ اور جو مؤقف آپ کا ہے، اس کی دلیل لائیے۔ آپ نے اصولِ تحقیق وغیرہ تو دیکھے ہوں گے۔ اصولِ تنقید بھی شاید نظر سے گزرے ہوں۔ کیا صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے یہی راہ اختیار کی جاتی ہے جو آپ نے انتخاب فرمائی ہے؟
---

نثری نظم کے جواز کے حوالے سے دو اہم مضامین
فرقان بھائی، نثری نظم کا ایک ہی منطقی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اوزان کی پابندیاں بعض اوقات معنیٰ کے ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر دیتی ہیں۔ لہٰذا شاعر کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ جب معنیٰ کا خون ہوتا دیکھے تو وزن کو دھتا بتا دے۔
یہ جواز منطقی تو ضرور ہے مگر حقیقی نہیں۔ایسے مسائل کو منطق کی اصطلاح میں مغالطہ کہتے ہیں۔
اس کے خلاف ہمارے پاس دو قسم کے دلائل ہیں۔ ایک تاریخی ہے اور ایک نفسیاتی۔
تاریخی دلیل یہ ہے کہ سو سوا سو سال پہلے تک شعرا کو ارفع ترین خیالات کے اظہار میں بھی وزن مانع نہیں آیا۔ اب کیونکر ممکن ہے کہ ایسے نادر خیالات انسانوں کے ذہن میں پیدا ہونے لگے ہوں جن کا اظہار وزن میں ممکن نہ ہو۔ اس کی مزید تائید تب ہو جاتی ہے جب آپ نثری نظموں کے نمونوں کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ آپ پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ قطعاً ایسے افکار نہیں ہیں جن کی ندرت یا لطافت اساتذہ کے یا بعض اوقات عامیوں کے خیالات سے بھی زیادہ ہو۔
نفسیاتی دلیل یہ ہے کہ شاعر ایک جمالیاتی احساس کا حامل ہوتا ہے۔ جب کوئی معاملہ اسے اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ وہ اس کے اظہار پر مجبور ہو جائے تو وہ اس کا اظہار عام طریقے پر نہیں کرتا بلکہ اپنے ابلاغ کو مطلقاً جمالیاتی قاعدے پر استوار کرتا ہے۔ وہ خوب صورت تشبیہیں استعمال کرتا ہے۔ بلیغ الفاظ لاتا ہے۔ استعاروں اور تلمیحوں سے کام لیتا ہے۔ جس طرح یہ سب چیزیں اس کے شاعر ہونے کے ناتے خودبخود اس کے اظہار میں پیدا ہو جاتی ہیں اسی طرح اس کلام میں آہنگ بھی ازخود راہ پا لیتا ہے۔
آپ اس کے نقیض پر غور کریں گے تو بات روشن ہو جائے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ شاعر ایک احساس کا ابلاغ کرے تو وہ ابلاغ تمام صنائعِ شعریہ سے معریٰ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ شاعر کا ابلاغ ایسی کھردری اور بھونڈی زبان پر مشتمل ہو جیسی کاروباری یا بازاری لوگ بولتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس کا کلام بدآہنگ ہو؟
اگر پیارے پیارے الفاظ، نئی نئی تشبیہیں، رنگ برنگے استعارے، معنیٰ خیز تلمیحیں، بوقلموں صنعتیں وغیرہ ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں تو آہنگ کیسے آڑے آ جاتا ہے؟
جس طرح خوب صورت زبان جمالیاتی احساس کے ساتھ وابستہ ہے اسی طرح وزن بھی شاعرانہ مزاج کو مستلزم ہے کیونکہ یہ بھی حسنِ اظہار کا ایک قرینہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شاعر کا ابلاغ جو حسنِ اظہار کا کامل نمونہ ہوتا ہے، وزن جیسے چار چاند لگا دینے والے عنصر سے عاری ہو؟
اگر وزن سے آزاد کلام کو شعر کہا جا سکتا ہے تو پھر شاعرانہ زبان کی بھی کچھ ایسی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ آپ ریڑھی والے کے کسی جملے کو بھی مختصر نثری نظم کے طور پر شائع کر سکتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ شاعری احساس کے خوبصورت اور جامع ترین اظہار کا نام ہے۔ شاعر جو اس فن کا ماہر ہوتا ہے، جب اس ہدف کو پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی جمالیاتی حس جس طرح اسے زبان کی کانٹ چھانٹ پر مجبور کرتی ہے، بعینہ اسی طرح بدآہنگی پر بھی اسے مطعون کرتی ہے۔ اگر کسی شاعر کے ہاں ایسا نہیں تو غالباً وہ شاعر ہی نہیں۔
اس کی ایک بڑی واضح مثال موسیقی سے پیش کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی بےسرا، بےتالا شخص بآوازِ بلند کچھ الاپنے لگے اور اسے گیت قرار دینے پر مصر ہو تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہو گا کہ یہ شخص تو موسیقی کی بنیادی حس ہی سے محروم ہے جو گویے کو سر اور تال کا فہم عطا کرتی ہے۔ ورنہ پابندی تو کچھ ایسی نہیں۔ اگر کوئی پھر بھی کہے جائے کہ یہ موسیقی ہے تو آپ اسے مار تو نہیں ڈالتے!
---

قرآن مجید کی زبان میں نثر بھی ہے اور نظم بھی اور یہ بحث کہ اسے نثر کہا جائے یا نظم بہت پرانی ہے
آپ نے یہ بحث کہاں پڑھی؟ ذرا ہمیں بھی اس اختلافِ رائے کے حوالے دیجیے۔
شعر کی تعریف اکابرینِ مللِ اسلامیہ کے نزدیک یہ ہے کہ یہ وہ کلامِ موزوں ہے جو بالقصد کہا گیا ہو۔ یعنی شعر گوئی کا ارادہ کسی کلام کے شاعری ہونے کو مستلزم ہے۔
قرآنِ کریم میں بہت کم جگہوں پر موزوں کلمات ملتے ہیں۔ ان پر تقریباً تمام ماہرینِ عروض اور شعرفہموں نے بات کی ہے مگر کسی نے کبھی بھی انھیں شعر قرار نہیں دیا۔ وجہ اس کی زیادہ تر وہی ہے جو اوپر بیان کر دی گئی۔
میرا مخلصانہ مشورہ ہو گا کہ جو مواد آپ تنقید و تحقیق کے نام پر پڑھتے ہیں اسے کبھی کبھی ناقدانہ اور محققانہ نظر سے جانچ بھی لیا کیجیے!
 
آخری تدوین:
زیادہ لمبی چوڑی بات پر تو نہیں جاؤں گا.
ایک سوال تو وارث بھائی والا برقرار ہے اور اس کا جواب فرقان بھائی کے پوسٹ کردہ مضامین میں بھی نہیں کہ اصول و قواعد کیا ہیں نثری نظم کے.

دوسرا یہ کہ نثر نگاری بھی اتنی ہی عزت اور اہمیت کا حامل ہنر ہے جتنا کہ شاعری. آخر زبردستی نثر کو نظم کہنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟
کوئی فرد اپنے خیالات کا ابلاغ شعر کی صورت میں نہیں کر پا رہا تو نثر کی صورت میں کر دے. ابلاغ کے لئے شاعر ہونا ضروری تو نہیں.
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد خرم یاسین بھائی! کسی ایک مکالمے کو بنیاد بنا کر کسی کے بارے میں قطعیت اور حتمیت کے ساتھ کوئی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وارث بھائی اس فورم کا ایک معتبر نام ہیں اور ان کے چاہنے والوں نے اس انداز اور لہجے کو یقینی طور پر پسند نہ کیا ہو گا کہ جو آپ نے انہیں مخاطب کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے میں خود تذبذب کا شکار ہوں اور مجھے قوی امید ہے کہ آپ اور دیگر صاحبان ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے تشفی بخش جوابات سے ہمکنار فرمائیں گے تاہم یاد رہے، یہاں ایسی روایت کم کم ہے کہ کسی کو اس تس کے لہجے میں پکارا جائے، امید ہے آپ وارث بھائی کے حوالے سے اپنی بدگمانی جلد دور فرما لیں گے، یقینی طور پر ان کے کہنے کا مقصد وہ نہ ہو گا جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ سلامت رہیں!
آپ کا شکریہ فرقان صاحب میری طرف سے اس لیے کہ دوسروں کو پس منظر کا بزعم خود طعنہ مارنے والوں کی ذرا اپنی زبان ملاحظہ کیجیے۔ اور بدگمانی کی مجھے فکر نہیں ہے، "خچر" میں نے نثری نظم کو کہا تھا اور اس پر اب بھی قائم ہوں، کسی "صاحب" کو نہیں کہا تھا کہ وہ صاحب دل ہی پر لگا لیں اور اس حد تک کہ اپنی زبان بھی بازاری کر لیں، حالانکہ اوپر جماعتی صاحب نے بھی نثری نظم کو "مخنث" کہا ہے، اس بات کو تو کسی نے اپنی ذات پر محمول نہیں کیا :)
 
محمد خرم یاسین بھائی! کسی ایک مکالمے کو بنیاد بنا کر کسی کے بارے میں قطعیت اور حتمیت کے ساتھ کوئی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ وارث بھائی اس فورم کا ایک معتبر نام ہیں اور ان کے چاہنے والوں نے اس انداز اور لہجے کو یقینی طور پر پسند نہ کیا ہو گا کہ جو آپ نے انہیں مخاطب کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے میں خود تذبذب کا شکار ہوں اور مجھے قوی امید ہے کہ آپ اور دیگر صاحبان ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے تشفی بخش جوابات سے ہمکنار فرمائیں گے تاہم یاد رہے، یہاں ایسی روایت کم کم ہے کہ کسی کو اس تس کے لہجے میں پکارا جائے، امید ہے آپ وارث بھائی کے حوالے سے اپنی بدگمانی جلد دور فرما لیں گے، یقینی طور پر ان کے کہنے کا مقصد وہ نہ ہو گا جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں۔ سلامت رہیں!

السلام علیکم! محمد فرقان بھائی ابھی آپ کاکمنٹ دیکھا۔ آپ درست فرما رہے ہیں کہ کچھ لوگ کسی کی پسندیدہ شخصیات میں شمار ہوسکتے ہیں لیکن یہ کہاں کی شرافت ہے کہ کسی ادبی صنف کو خچر کہہ کرپکارا جائے ؟ اور ویسا رویہ اختیار کیا جائے جیسا اس کمنٹ میں اختیار کیا گیا تھا جس کا میں نے حوالہ دیا۔ بہرحال اگر آپ کو برا لگا ہو تو معذرت۔ ادبی معاملات میں اختلافات کاجنم لینا کچھ پرانا نہیں لیکن اس میں کسی ادبی صنف کو اس طرح کے ناموں سے پکارنا بھی درست نہیں۔
 
زیادہ لمبی چوڑی بات پر تو نہیں جاؤں گا.
ایک سوال تو وارث بھائی والا برقرار ہے اور اس کا جواب فرقان بھائی کے پوسٹ کردہ مضامین میں بھی نہیں کہ اصول و قواعد کیا ہیں نثری نظم کے.

دوسرا یہ کہ نثر نگاری بھی اتنی ہی عزت اور اہمیت کا حامل ہنر ہے جتنا کہ شاعری. آخر زبردستی نثر کو نظم کہنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟
کوئی فرد اپنے خیالات کا ابلاغ شعر کی صورت میں نہیں کر پا رہا تو نثر کی صورت میں کر دے. ابلاغ کے لئے شاعر ہونا ضروری تو نہیں.

درست فرمایا کہ ابلاغ اصل معاملہ ہے خواہ نظم میں ہو یا نثر میں۔ افتخار عارف سے ریاض مجید تک سب بےوقوف ہی رہے کہ نثری نظم کا انتخاب کیا ۔ خیر یہ اس فورم پر تو کم از کم نا حل ہونے والا معمہ بن چکا ہے۔ میں اب بھی اپنے موقف پر قائم ہوں کہ جسے اس سے دلچسپی نہیں ہے وہ اس پر بحث نہ کرے۔ اس پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھے جا رہے ہیں اور لکھے جا چکے ہیں اب اگر کوئی اس کا دہشت گردی کے ساتھ موازنہ کرتا ہے تو کرتا رہے اس صنف کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔
 
بھائی، یہ تو جان چھڑانے والی بات ہوئی۔
دوم یہ کہ آپ نے کسی مقالے کا ربط عنایت نہیں فرمایا۔ یہ تمام مقالہ نگاروں سے متعلق روابط ہیں۔

انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ صحیح رائے کے مقابل غلط رائے بھی مسموع ہو۔ اسے البتہ نہیں کہتے کہ صحیح رائے کو وقعت بھی غلط رائے کی سی دی جائے۔

آپ کی عروض کے بارے میں، یعنی جس علم کی آپ مخالفت فرما رہے ہیں، معلومات خطرناک حد تک ناقص ہیں۔ خلیل سے قبل شاعری بھی تھی اور موزوں بھی تھی۔ خلیل بن احمد نے عروض کے قواعد ایجاد نہیں کیے بلکہ اساتذۂِ عرب کے کلام سے صرف استخراج کیے ہیں۔
سادہ لفظوں میں عرض کروں تو خلیل سے پہلے تمام اکابر شعرا موزوں شعر کہتے تھے۔ خلیل نے ان اشعار کا مطالعہ کر کے انھی کی بنیاد پر موزونیت کا ایک معیار تشکیل دے دیا جسے عروض کہتے ہیں۔
نیز، عروضیا اردو کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ ایسی زبان کا استعمال پڑھے لکھوں کو زیب نہیں دیتا۔

جس بات کی دلیل موجود ہو، اسے سمجھا نہیں جاتا۔ اس پر یقین کیا جاتا ہے۔
آپ نے اگر مقدمہ کو بنظرِ غائر دیکھا ہوتا تو آپ میرؔ و غالبؔ پر ایسا طفلانہ الزام کبھی عائد نہ کرتے:

آپ کے آخری جملے نے مجھے ہنسا دیا۔

اس دعویٰ میں اور نون لیگ کے دعاویٰ میں کیا فرق ہے؟
برادرم، اوپر جائیے۔ میرے سوالات کو بغور پڑھیے۔ اور جو مؤقف آپ کا ہے، اس کی دلیل لائیے۔ آپ نے اصولِ تحقیق وغیرہ تو دیکھے ہوں گے۔ اصولِ تنقید بھی شاید نظر سے گزرے ہوں۔ کیا صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے یہی راہ اختیار کی جاتی ہے جو آپ نے انتخاب فرمائی ہے؟
---


فرقان بھائی، نثری نظم کا ایک ہی منطقی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اوزان کی پابندیاں بعض اوقات معنیٰ کے ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر دیتی ہیں۔ لہٰذا شاعر کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ جب معنیٰ کا خون ہوتا دیکھے تو وزن کو دھتا بتا دے۔
یہ جواز منطقی تو ضرور ہے مگر حقیقی نہیں۔ایسے مسائل کو منطق کی اصطلاح میں مغالطہ کہتے ہیں۔
اس کے خلاف ہمارے پاس دو قسم کے دلائل ہیں۔ ایک تاریخی ہے اور ایک نفسیاتی۔
تاریخی دلیل یہ ہے کہ سو سوا سو سال پہلے تک شعرا کو ارفع ترین خیالات کے اظہار میں بھی وزن مانع نہیں آیا۔ اب کیونکر ممکن ہے کہ ایسے نادر خیالات انسانوں کے ذہن میں پیدا ہونے لگے ہوں جن کا اظہار وزن میں ممکن نہ ہو۔ اس کی مزید تائید تب ہو جاتی ہے جب آپ نثری نظموں کے نمونوں کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ آپ پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ قطعاً ایسے افکار نہیں ہیں جن کی ندرت یا لطافت اساتذہ کے یا بعض اوقات عامیوں کے خیالات سے بھی زیادہ ہو۔
نفسیاتی دلیل یہ ہے کہ شاعر ایک جمالیاتی احساس کا حامل ہوتا ہے۔ جب کوئی معاملہ اسے اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ وہ اس کے اظہار پر مجبور ہو جائے تو وہ اس کا اظہار عام طریقے پر نہیں کرتا بلکہ اپنے ابلاغ کو مطلقاً جمالیاتی قاعدے پر استوار کرتا ہے۔ وہ خوب صورت تشبیہیں استعمال کرتا ہے۔ بلیغ الفاظ لاتا ہے۔ استعاروں اور تلمیحوں سے کام لیتا ہے۔ جس طرح یہ سب چیزیں اس کے شاعر ہونے کے ناتے خودبخود اس کے اظہار میں پیدا ہو جاتی ہیں اسی طرح اس کلام میں آہنگ بھی ازخود راہ پا لیتا ہے۔
آپ اس کے نقیض پر غور کریں گے تو بات روشن ہو جائے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ شاعر ایک احساس کا ابلاغ کرے تو وہ ابلاغ تمام صنائعِ شعریہ سے معریٰ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ شاعر کا ابلاغ ایسی کھردری اور بھونڈی زبان پر مشتمل ہو جیسی کاروباری یا بازاری لوگ بولتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس کا کلام بدآہنگ ہو؟
اگر پیارے پیارے الفاظ، نئی نئی تشبیہیں، رنگ برنگے استعارے، معنیٰ خیز تلمیحیں، بوقلموں صنعتیں وغیرہ ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں تو آہنگ کیسے آڑے آ جاتا ہے؟
جس طرح خوب صورت زبان جمالیاتی احساس کے ساتھ وابستہ ہے اسی طرح وزن بھی شاعرانہ مزاج کو مستلزم ہے کیونکہ یہ بھی حسنِ اظہار کا ایک قرینہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شاعر کا ابلاغ جو حسنِ اظہار کا کامل نمونہ ہوتا ہے، وزن جیسے چار چاند لگا دینے والے عنصر سے عاری ہو؟
اگر وزن سے آزاد کلام کو شعر کہا جا سکتا ہے تو پھر شاعرانہ زبان کی بھی کچھ ایسی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ آپ ریڑھی والے کے کسی جملے کو بھی مختصر نثری نظم کے طور پر شائع کر سکتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ شاعری احساس کے خوبصورت اور جامع ترین اظہار کا نام ہے۔ شاعر جو اس فن کا ماہر ہوتا ہے، جب اس ہدف کو پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی جمالیاتی حس جس طرح اسے زبان کی کانٹ چھانٹ پر مجبور کرتی ہے، بعینہ اسی طرح بدآہنگی پر بھی اسے مطعون کرتی ہے۔ اگر کسی شاعر کے ہاں ایسا نہیں تو غالباً وہ شاعر ہی نہیں۔
اس کی ایک بڑی واضح مثال موسیقی سے پیش کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی بےسرا، بےتالا شخص بآوازِ بلند کچھ الاپنے لگے اور اسے گیت قرار دینے پر مصر ہو تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہو گا کہ یہ شخص تو موسیقی کی بنیادی حس ہی سے محروم ہے جو گویے کو سر اور تال کا فہم عطا کرتی ہے۔ ورنہ پابندی تو کچھ ایسی نہیں۔ اگر کوئی پھر بھی کہے جائے کہ یہ موسیقی ہے تو آپ اسے مار تو نہیں ڈالتے!
---


آپ نے یہ بحث کہاں پڑھی؟ ذرا ہمیں بھی اس اختلافِ رائے کے حوالے دیجیے۔
شعر کی تعریف اکابرینِ مللِ اسلامیہ کے نزدیک یہ ہے کہ یہ وہ کلامِ موزوں ہے جو بالقصد کہا گیا ہو۔ یعنی شعر گوئی کا ارادہ کسی کلام کے شاعری ہونے کو مستلزم ہے۔
قرآنِ کریم میں بہت کم جگہوں پر موزوں کلمات ملتے ہیں۔ ان پر تقریباً تمام ماہرینِ عروض اور شعرفہموں نے بات کی ہے مگر کسی نے کبھی بھی انھیں شعر قرار نہیں دیا۔ وجہ اس کی زیادہ تر وہی ہے جو اوپر بیان کر دی گئی۔
میرا مخلصانہ مشورہ ہو گا کہ جو مواد آپ تنقید و تحقیق کے نام پر پڑھتے ہیں اسے کبھی کبھی ناقدانہ اور محققانہ نظر سے جانچ بھی لیا کیجیے!


السلام علیکم! جناب راحیل بھائی جان۔ درست ہے کہ یہ مقالہ نگاروں کے روابط ہیں، اگر آپ یہ بحث حصولِ علم کے لیے کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مقالہ نگاروں سے بھی رابطے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ بھائی جو اس میدان کے شہہ سوار ہیں اگر ان سے رابطہ فرمالیں (جن کا میں نے ذکر کیا) تو اس میں کیا حرج ہے یا اس میں کیا جان چھڑانے والی بات ہوئی ؟ یہ تو گویا یوں ہوا کہ آپ کسی جھگڑے میں مبتلا ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ اس بات سے بحث ختم ہو سکتی ہے لیکن آپ ختم نہیں کرنا چاہتے۔ علمی ادبی معاملات میں اختلافات ہو سکتے ہیں۔ چلیے آپ نثری نظم کے وجود کو نہیں مانتے نہ مانیے اس سے آپ کی صحت یا نثری نظم کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے اور معاملات کو طول دینے کا کیا سوال ؟ رہی بات خلیل بن احمد کی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس سے قبل تمام شاعری موزوں تھی، یہ بچگانہ سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ شاعری اپنی ابتدا میں ہرگز موزوں نہیں ہوسکتی تھی۔ اگر آپ دنیا کی ابتدائی شاعری خواہ کسی بھی زبان میں ہے موزوں دکھا دیں تو یہ بحث بھی یہیں ختم ہوجاتی ہے۔
میر و غالب کے حوالے سے بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ میں نے ان پر کوئی الزام نہیں لگایا یہ شاید آپ کی بصارت کادھوکا ہے یا کچھ اور۔اگر میرے بھائی کے چہرے پر آخری جملے سے ہنسی آئی تو یہ خوشی کی بات ہے۔ خوب ہنسیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مسکراہٹ سدا قائم رکھے۔ :) ہاں اور قرآنِ مجید فرقان حمید کی زبان وبیان کا ذکر جو نا چاہتے ہوئے بھی یہاں چھڑ گیا ہے اس کے حوالے سے عرض ہے کہ کچھ کوشش خود بھی کیجیے ، کسی بھی جامعہ کے شعبہ عربی میں جائیے اور یہ سوال کیجیے آپ کو تشفی بخش جواب ملے گا کہ یہ سوال عربی زبان اور مقابلے کے امتحانات تک میں شامل ہے۔ سب کچھ یہاں انٹر نیٹ پر چند جملے لکھ کر یا اعتراض در اعتراض کر کے حاصل نہیں ہوجاتا۔ اگر کسی جامعہ میں اس کا جواب نہ ملے تو آپ کا بھائی اس سلسلے میں آپ کی مدد کرے گا۔ بےفکررہیے۔ :)
 
آخری تدوین:
آپ کا شکریہ فرقان صاحب میری طرف سے اس لیے کہ دوسروں کو پس منظر کا بزعم خود طعنہ مارنے والوں کی ذرا اپنی زبان ملاحظہ کیجیے۔ اور بدگمانی کی مجھے فکر نہیں ہے، "خچر" میں نے نثری نظم کو کہا تھا اور اس پر اب بھی قائم ہوں، کسی "صاحب" کو نہیں کہا تھا کہ وہ صاحب دل ہی پر لگا لیں اور اس حد تک کہ اپنی زبان بھی بازاری کر لیں، حالانکہ اوپر جماعتی صاحب نے بھی نثری نظم کو "مخنث" کہا ہے، اس بات کو تو کسی نے اپنی ذات پر محمول نہیں کیا :)

آپ کی آمد کی بھی عین توقع تھی۔اچھا کیا کہ آپ کے حوالے سے جو باتیں محمد فرقان بھائی چھپانا چاہ رہے تھے آپ کے ان چند جملوں سے پھر سب کے سامنے آگئیں۔
 
بات بڑھ کر حد تناسب سے
گیسوئے یار ہوگئی ہوگی۔۔۔۔
ہوگی کیا ہو چکی ہے۔
مجھ جیسے کم علم کی غلطی کہ اس بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ جملہ گفتگو کہ بعد مجھے سوال کرتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے کہ یہ بحث جو پاک افغان بارڈر کی سی شکل اختیار کر چکی ہے، کہیں پاک افغان جنگ میں نہ بدل جائے۔ نہ اس موضوع کو ختم کرنے کو جی چاہ رہا نہ بڑھانے کا حوصلہ ہے۔ مذبذبین بین ذالک۔ کیا کیا جائے۔
 
دوسری بات یہ کہ بھائی جو اس میدان کے شہہ سوار ہیں اگر ان سے رابطہ فرمالیں (جن کا میں نے ذکر کیا) تو اس میں کیا حرج ہے یا اس میں کیا جان چھڑانے والی بات ہوئی ؟
بجا۔
جان چھڑانے والی بات ہمیں اس لیے معلوم ہوئی کہ آپ خود دلائل نہیں دیتے جبکہ بقول آپ کے آپ کا وسیع مطالعہ بھی ہے اورہم بیچاروں کو ادھر ادھر کے دھکے کھانے پر مجبور کرتے ہیں۔
دوسرا شبہ یہ بھی ہے کہ اگر پی ایچ ڈی اسی طرح ہوتی ہے جیسے آپ فرما رہے ہیں تو ان علامہ صاحبان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ کیا مل جائے گا جنھوں نے یہ تمغہ سجا رکھا ہے؟
رہی بات خلیل بن احمد کی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اس سے قبل تمام شاعری موزوں تھی، یہ بچگانہ سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
شاعری اپنی ابتدا میں ہرگز موزوں نہیں ہوسکتی تھی۔ اگر آپ دنیا کی ابتدائی شاعری خواہ کسی بھی زبان میں ہے موزوں دکھا دیں تو یہ بحث بھی یہیں ختم ہوجاتی ہے۔
ہومر اور ویدوں کے مصنفین سے لے کر سبعہ معلقہ اور قدیم ایرانی شاعری تک۔ سب کلامِ موزوں ہے۔
لیکن اگر آپ کا مبلغ علم بس یہی ہے تو واقعی ہم نے یہ بحث چھیڑ کر غلطی کی۔ میں اس مراسلے کے بعد یہاں کچھ نہیں لکھوں گا۔ :)
میر و غالب کے حوالے سے بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ میں نے ان پر کوئی الزام نہیں لگایا یہ شاید آپ کی بصارت کادھوکہ ہے یا کچھ اور۔
میری بصارت کا دھوکا محفل پر موجود ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ یہ رہا اقتباس، ایک دفعہ پھر:
آپ بھی میر و غالب کا کوئی خیال ایسا نہیں دکھا سکتے جو ان سے پہلے موجود نا ہو۔
نیز دھوکہ غلط املا ہے۔ دھوکا درست۔ شاید آپ کے پس منظر اور وسیع مطالعے میں اردو ہی نہیں آئی، باقی سب کچھ آ گیا۔ :sneaky:
کچھ کوشش خود بھی کیجیے ، کسی بھی جامعہ کے شعبہ عربی میں جائیے اور یہ سوال کیجیے آپ کو تشفی بخش جواب ملے گا کہ یہ سوال عربی زبان اور مقابلے کے امتحانات تک میں شامل ہے۔
اللہ کے بندے، میری بات کو سمجھیں:
قرآنِ کریم میں بہت کم جگہوں پر موزوں کلمات ملتے ہیں۔ ان پر تقریباً تمام ماہرینِ عروض اور شعرفہموں نے بات کی ہے مگر کسی نے کبھی بھی انھیں شعر قرار نہیں دیا۔ وجہ اس کی زیادہ تر وہی ہے جو اوپر بیان کر دی گئی۔
صرف بحث کا سوال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کو شاعری کون کہتا ہے؟
آپ کو یاد ہے آپ نے فرمایا کیا تھا جس کے جواب میں میں نے یہ بات کی تھی؟
قرآن مجید کی زبان میں نثر بھی ہے اور نظم بھی اور یہ بحث کہ اسے نثر کہا جائے یا نظم بہت پرانی ہے
آپ کی بات کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ قرآن نظم ہے۔ اسی لیے یہ اختلاف قدیمی ہے کہ اسے نظم کہا جائے یا نثر۔
ہم نے جواباً عرض کیا کہ اس پر گفتگوئیں تو ہوتی ہیں مگر کوئی بھی قرآن کو شاعری نہیں سمجھتا۔
اب یہ گفتگوئیں بھلے عربی کے دروس میں شامل ہو جائیں اس سے آپ کی بات کی تائید تو بہرحال نہیں ہوتی نا!
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی آمد کی بھی عین توقع تھی۔اچھا کیا کہ آپ کے حوالے سے جو باتیں محمد فرقان بھائی چھپانا چاہ رہے تھے آپ کے ان چند جملوں سے پھر سب کے سامنے آگئیں۔
دوسرے کسی اور چیز کو "خچر" اور "مخنث" کہہ دیں تو آپ کو لگے آپ کو کہہ رہے ہیں اور اس کو دل پر لگا کر آپ ابے تبے پر آ جائیں اور کوئی دوسرا آ کر وضاحت بھی نہ کرے؟ مجھے آپ کی طرح کے لوگوں سے نہ مخاطب ہونے کا شوق ہے اور نہ ہونگا، چونکہ آپ نے خود ہی یاد کر لیا تو جواب آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں، اس نیک مشورے کے ساتھ کہ "خچر" کو اپنی چھیڑ مت بنا لیں، واللہ کسی نے آپ کو نہ کہا نہ سمجھا :laugh:
 
دوسرے کسی اور چیز کو "خچر" اور "مخنث" کہہ دیں تو آپ کو لگے آپ کو کہہ رہے ہیں اور اس کو دل پر لگا کر آپ ابے تبے پر آ جائیں اور کوئی دوسرا آ کر وضاحت بھی نہ کرے۔ مجھے آپ کی طرح کے لوگوں سے نہ مخاطب ہونے کا شوق ہے اور نہ ہونگا، چونکہ آپ نے خود ہی یاد کر لیا تو جواب آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں، اس نیک مشورے کے ساتھ کہ "خچر" کو اپنی چھیڑ مت بنا لیں، واللہ کسی نے آپ کو نہ کہا نہ سمجھا :laugh:

@محمدفرقان صاحب۔ جناب آپ کے آئیڈیل کی گفتگو سے ان کے پس منظر کا ایک اور ثبوت :)
 
افتخار عارف سے ریاض مجید تک سب بےوقوف ہی رہے کہ نثری نظم کا انتخاب کیا
یہ الفاظ میرے نہیں آپ کے ہیں. میں نے نہ کسی کو بے وقوف کہا نہ سمجھا. نہ مجھے اس سے کوئی شکایت کہ فلاں فلاں نے نثری نظم کیوں لکھی.
اس پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھے جا رہے ہیں اور لکھے جا چکے ہیں
بار بار پی ایچ ڈی مقالوں کا حوالہ سوال کا جواب نہیں ہے. یہ تمام پی ایچ ڈیز بے کار ہیں،اگر آپ ان مقالوں کو پڑھنے اور لکھنے کے باوجود ایک چھوٹے اور بنیادی سوال کا جواب فراہم نہ کر سکیں کہ اصول و قواعد کیا ہیں.
میری پہنچ افتخار عارف اور ان ڈاکٹروں تک نہیں، ورنہ ان سے بھی یہی سوال پوچھتا. میرے لئے آپ اس وقت نثری نظم کے ماہر کے طور پر موجود ہیں،لہٰذا یہ سوال کرنے کی گستاخی کی.

اس سوال میں نہ کوئی طنز ہے اور نہ کوئی بحث مباحثہ.
ایک مبتدیانہ سوال ہے.
 
بجا۔
جان چھڑانے والی بات ہمیں اس لیے معلوم ہوئی کہ آپ خود دلائل نہیں دیتے جبکہ بقول آپ کے آپ کا وسیع مطالعہ بھی ہے اورہم بیچاروں کو ادھر ادھر کے دھکے کھانے پر مجبور کرتے ہیں۔
دوسرا شبہ یہ بھی ہے کہ اگر پی ایچ ڈی اسی طرح ہوتی ہے جیسے آپ فرما رہے ہیں تو ان علامہ صاحبان سے ہمیں زیادہ سے زیادہ کیا مل جائے گا جنھوں نے یہ تمغہ سجا رکھا ہے؟

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ہومر اور ویدوں کے مصنفین سے لے کر سبعہ معلقہ اور قدیم ایرانی شاعری تک۔ سب کلامِ موزوں ہے۔
لیکن اگر آپ کا مبلغ علم بس یہی ہے تو واقعی ہم نے یہ بحث چھیڑ کر غلطی کی۔ میں اس مراسلے کے بعد یہاں کچھ نہیں لکھوں گا۔ :)

میری بصارت کا دھوکا محفل پر موجود ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ یہ رہا اقتباس، ایک دفعہ پھر:

نیز دھوکہ غلط املا ہے۔ دھوکا درست۔ شاید آپ کے پس منظر اور وسیع مطالعے میں اردو ہی نہیں آئی، باقی سب کچھ آ گیا۔ :sneaky:

اللہ کے بندے، میری بات کو سمجھیں:

صرف بحث کا سوال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کو شاعری کون کہتا ہے؟
آپ کو یاد ہے آپ نے فرمایا کیا تھا جس کے جواب میں میں نے یہ بات کی تھی؟

آپ کی بات کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ قرآن نظم ہے۔ اسی لیے یہ اختلاف قدیمی ہے کہ اسے نظم کہا جائے یا نثر۔
ہم نے جواباً عرض کیا کہ اس پر گفتگوئیں تو ہوتی ہیں مگر کوئی بھی قرآن کو شاعری نہیں سمجھتا۔
اب یہ گفتگوئیں بھلے عربی کے دروس میں شامل ہو جائیں اس سے آپ کی بات کی تائید تو بہرحال نہیں ہوتی نا!

جناب اگر کسی ایم فل، پی ایچ ڈی کے مقالہ نگار کا حوالہ دیا جاتا ہے تو اسکاواضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس شخص نے اس متعلقہ میدان میں محنت کی ہے، وقت لگایا ہے، اب یہ کیسے سمجھایا جائے کہ پی ایچ ڈی میں کسی مقالے کا موضوع دیا جاتا ہے اور صاحبِ مقالہ اس پر کم از کم دوسالہ اور زیادہ سے زیادہ کا کوئی تعین نہیں محنت کرتا ہے اور اس میدان کا ماہر مانا جاتا ہے۔ تمام پی ایچ ڈی ہولڈر ایک ہی موضوع پر مقالہ نہیں لکھتے۔ چلیے یہ تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض کر دیا۔دوسرا سوال ابھی وہیں قائم ہے کہ دنیا بھر کی ابتدائی شاعری موزوں تھی یا غیر موزوں ؟جواب کے لیے آپ کو ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ آپ معلقات کی بات کرتے ہیں وہ تو ابتدائی شاعری ہر گز نہیں تھی۔ پہلی بات دل سے شکریہ اس بات پر کہ کم از کم آپ نے یہ تومانا کہ قرآن مجید کی زبان سے متعلق مباحث تو موجود ہیں۔ اب رہی بات میر و غالب کی تو یہ سوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ انہوں نے کائنات میں موجود جن چیزوں کا ذکر کیا ان کا ذکر پہلے شاعری میں یا نثر میں ہوچکا ہے لیکن میں نے ان کی شاعری کو غیر موزوں تو نہیں کہا ناں؟ یہاں تو بحث موزوں اور غیر موزوں کی چل رہی تھی ۔:)
 
یہ الفاظ میرے نہیں آپ کے ہیں. میں نے نہ کسی کو بے وقوف کہا نہ سمجھا. نہ مجھے اس سے کوئی شکایت کہ فلاں فلاں نے نثری نظم کیوں لکھی.

بار بار پی ایچ ڈی مقالوں کا حوالہ سوال کا جواب نہیں ہے. یہ تمام پی ایچ ڈیز بے کار ہیں،اگر آپ ان مقالوں کو پڑھنے اور لکھنے کے باوجود ایک چھوٹے اور بنیادی سوال کا جواب فراہم نہ کر سکیں کہ اصول و قواعد کیا ہیں.
میری پہنچ افتخار عارف اور ان ڈاکٹروں تک نہیں، ورنہ ان سے بھی یہی سوال پوچھتا. میرے لئے آپ اس وقت نثری نظم کے ماہر کے طور پر موجود ہیں،لہٰذا یہ سوال کرنے کی گستاخی کی.

اس سوال میں نہ کوئی طنز ہے اور نہ کوئی بحث مباحثہ.
ایک مبتدیانہ سوال ہے.

سر جی یہ جان کر ہی میں تو کانپ کر رہ گیا ہوں کہ آپ مجھے نثری نظم کے ماہر طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایسا ہر گز ہرگز نہیں۔ یہ تو علمی ادبی بحث تھی جس میں میں نے بھی تھوڑا سا اضافہ کیا۔ باقی رہی ڈاکٹر صاحبان کی بات تو ان کے لنکس فراہم کر دیے ہے۔ مزید یہ کہ اس سوال پر مجھے جب بھی وقت میسر آیا میں ضرور تحقیق کی کوشش کروں گا۔ انشا اللہ۔
 
خدارا اب کوئی دوسرا سوال نہ چھیڑا جائے۔ گفتگو کو نثری نظم تک ہی محدود کرتے ہوئے تابش صدیقی صاحب کی بات کو اس بحث کا پہلا سوال گردانہ جائے۔ اب سوالات و جوابات ہوں گے کوئی طعن و تشنیع اور پس منظر کی بات نہ کرے۔ ادب کی بات ادب کے دائرہ میں رہ کر۔ حقیر سی التجا ہے کوئی پوری کردے۔۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
جہاں تک محترم محمد تابش صدیقی بھائی کے سوال کا تعلق ہے تو میری گزارش فقط یہی ہے کہ موزوں کلام کہنے کی اہلیت رکھنے والے شعراء بھی اگر اس صنف کی طرف رجوع کر رہے ہیں تو اس کی اہمیت ضرور واضح ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس صنف کے کوئی مخصوص اصول و قواعد نہ ہیں اور شاید ترنم اور آہنگ کو پسند کرنے والے اہل ذوق اسے کبھی بھی قبولیت کا درجہ نہ دیں۔ فی الوقت یہ ایک رجحان ہے جو تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے تاہم اس صنف کے مستقبل کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
 
آخری تدوین:
Top