راحیل بھائی بہتر ہے جو حوالے میں نے دیے ہیں آپ ان میں سے کسی ایک مقالے کو پڑھ لیں یا کم از کم پروفیسر طارق ہاشمی صاحب سے رابطہ فرمالیں وہ اس حوالے سے تسلی بخش جواب عنایت فر مادیں گے کہ اس کے وجود کو مانا جائے یا نہ مانا جائے۔
بھائی، یہ تو جان چھڑانے والی بات ہوئی۔
دوم یہ کہ آپ نے کسی مقالے کا ربط عنایت نہیں فرمایا۔ یہ تمام مقالہ نگاروں سے متعلق روابط ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس فورم پر بحور سے آزاد شاعری کی لڑی کا بٹن موجود ہے جس میں جا کر آپ بحور سے آزاد شاعری شامل کر سکتے ہیں۔ اگر نثری نظم اتنی ہی مطعون ہے تو پہلا اعتراض تو فورم پر بنتا ہے کہ وہاں سے اس بٹن کو ختم کیا جائے تاکہ اس پر کم از کم اس فورم پر مزید بحث نہ ہوسکے۔
انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ صحیح رائے کے مقابل غلط رائے بھی مسموع ہو۔ اسے البتہ نہیں کہتے کہ صحیح رائے کو وقعت بھی غلط رائے کی سی دی جائے۔
مزید یہ کہ کیا خلیل عروضیے سے قبل شاعری نہیں تھی ؟ اگر تھی تو کیا وہ سب موزوں تھی؟
آپ کی عروض کے بارے میں، یعنی جس علم کی آپ مخالفت فرما رہے ہیں، معلومات خطرناک حد تک ناقص ہیں۔ خلیل سے قبل شاعری بھی تھی اور موزوں بھی تھی۔ خلیل بن احمد نے عروض کے قواعد ایجاد نہیں کیے بلکہ اساتذۂِ عرب کے کلام سے صرف استخراج کیے ہیں۔
سادہ لفظوں میں عرض کروں تو خلیل سے پہلے تمام اکابر شعرا موزوں شعر کہتے تھے۔ خلیل نے ان اشعار کا مطالعہ کر کے انھی کی بنیاد پر موزونیت کا ایک معیار تشکیل دے دیا جسے عروض کہتے ہیں۔
نیز،
عروضیا اردو کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ ایسی زبان کا استعمال پڑھے لکھوں کو زیب نہیں دیتا۔
آپ اپنے تئیں یہ سمجھ کر قہقہے لگائیں کہ مقدمہ شعرو شاعری کا میں نے مطالعہ نہیں کیا تو لگائیے مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔
جس بات کی دلیل موجود ہو، اسے سمجھا نہیں جاتا۔ اس پر یقین کیا جاتا ہے۔
آپ نے اگر مقدمہ کو بنظرِ غائر دیکھا ہوتا تو آپ میرؔ و غالبؔ پر ایسا طفلانہ الزام کبھی عائد نہ کرتے:
آپ بھی میر و غالب کا کوئی خیال ایسا نہیں دکھا سکتے جو ان سے پہلے موجود نا ہو۔
آپ کے آخری جملے نے مجھے ہنسا دیا۔
آپ نے جتنے بھی اعتراضات کیے میں نے سب کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
اس دعویٰ میں اور نون لیگ کے دعاویٰ میں کیا فرق ہے؟
برادرم، اوپر جائیے۔ میرے سوالات کو بغور پڑھیے۔ اور جو مؤقف آپ کا ہے، اس کی دلیل لائیے۔ آپ نے اصولِ تحقیق وغیرہ تو دیکھے ہوں گے۔ اصولِ تنقید بھی شاید نظر سے گزرے ہوں۔ کیا صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے یہی راہ اختیار کی جاتی ہے جو آپ نے انتخاب فرمائی ہے؟
---
نثری نظم کے جواز کے حوالے سے دو اہم مضامین
فرقان بھائی، نثری نظم کا ایک ہی منطقی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اوزان کی پابندیاں بعض اوقات معنیٰ کے ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر دیتی ہیں۔ لہٰذا شاعر کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ جب معنیٰ کا خون ہوتا دیکھے تو وزن کو دھتا بتا دے۔
یہ جواز منطقی تو ضرور ہے مگر حقیقی نہیں۔ایسے مسائل کو منطق کی اصطلاح میں مغالطہ کہتے ہیں۔
اس کے خلاف ہمارے پاس دو قسم کے دلائل ہیں۔ ایک تاریخی ہے اور ایک نفسیاتی۔
تاریخی دلیل یہ ہے کہ سو سوا سو سال پہلے تک شعرا کو ارفع ترین خیالات کے اظہار میں بھی وزن مانع نہیں آیا۔ اب کیونکر ممکن ہے کہ ایسے نادر خیالات انسانوں کے ذہن میں پیدا ہونے لگے ہوں جن کا اظہار وزن میں ممکن نہ ہو۔ اس کی مزید تائید تب ہو جاتی ہے جب آپ نثری نظموں کے نمونوں کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ آپ پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ قطعاً ایسے افکار نہیں ہیں جن کی ندرت یا لطافت اساتذہ کے یا بعض اوقات عامیوں کے خیالات سے بھی زیادہ ہو۔
نفسیاتی دلیل یہ ہے کہ شاعر ایک جمالیاتی احساس کا حامل ہوتا ہے۔ جب کوئی معاملہ اسے اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ وہ اس کے اظہار پر مجبور ہو جائے تو وہ اس کا اظہار عام طریقے پر نہیں کرتا بلکہ اپنے ابلاغ کو مطلقاً جمالیاتی قاعدے پر استوار کرتا ہے۔ وہ خوب صورت تشبیہیں استعمال کرتا ہے۔ بلیغ الفاظ لاتا ہے۔ استعاروں اور تلمیحوں سے کام لیتا ہے۔ جس طرح یہ سب چیزیں اس کے شاعر ہونے کے ناتے خودبخود اس کے اظہار میں پیدا ہو جاتی ہیں اسی طرح اس کلام میں آہنگ بھی ازخود راہ پا لیتا ہے۔
آپ اس کے نقیض پر غور کریں گے تو بات روشن ہو جائے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ شاعر ایک احساس کا ابلاغ کرے تو وہ ابلاغ تمام صنائعِ شعریہ سے معریٰ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ شاعر کا ابلاغ ایسی کھردری اور بھونڈی زبان پر مشتمل ہو جیسی کاروباری یا بازاری لوگ بولتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس کا کلام بدآہنگ ہو؟
اگر پیارے پیارے الفاظ، نئی نئی تشبیہیں، رنگ برنگے استعارے، معنیٰ خیز تلمیحیں، بوقلموں صنعتیں وغیرہ ابلاغ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں تو آہنگ کیسے آڑے آ جاتا ہے؟
جس طرح خوب صورت زبان جمالیاتی احساس کے ساتھ وابستہ ہے اسی طرح وزن بھی شاعرانہ مزاج کو مستلزم ہے کیونکہ یہ بھی حسنِ اظہار کا ایک قرینہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شاعر کا ابلاغ جو حسنِ اظہار کا کامل نمونہ ہوتا ہے، وزن جیسے چار چاند لگا دینے والے عنصر سے عاری ہو؟
اگر وزن سے آزاد کلام کو شعر کہا جا سکتا ہے تو پھر شاعرانہ زبان کی بھی کچھ ایسی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ آپ ریڑھی والے کے کسی جملے کو بھی مختصر نثری نظم کے طور پر شائع کر سکتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ شاعری احساس کے خوبصورت اور جامع ترین اظہار کا نام ہے۔ شاعر جو اس فن کا ماہر ہوتا ہے، جب اس ہدف کو پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی جمالیاتی حس جس طرح اسے زبان کی کانٹ چھانٹ پر مجبور کرتی ہے، بعینہ اسی طرح بدآہنگی پر بھی اسے مطعون کرتی ہے۔ اگر کسی شاعر کے ہاں ایسا نہیں تو غالباً وہ شاعر ہی نہیں۔
اس کی ایک بڑی واضح مثال موسیقی سے پیش کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی بےسرا، بےتالا شخص بآوازِ بلند کچھ الاپنے لگے اور اسے گیت قرار دینے پر مصر ہو تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہو گا کہ یہ شخص تو موسیقی کی بنیادی حس ہی سے محروم ہے جو گویے کو سر اور تال کا فہم عطا کرتی ہے۔ ورنہ پابندی تو کچھ ایسی نہیں۔ اگر کوئی پھر بھی کہے جائے کہ یہ موسیقی ہے تو آپ اسے مار تو نہیں ڈالتے!
---
قرآن مجید کی زبان میں نثر بھی ہے اور نظم بھی اور یہ بحث کہ اسے نثر کہا جائے یا نظم بہت پرانی ہے
آپ نے یہ بحث کہاں پڑھی؟ ذرا ہمیں بھی اس اختلافِ رائے کے حوالے دیجیے۔
شعر کی تعریف اکابرینِ مللِ اسلامیہ کے نزدیک یہ ہے کہ یہ وہ کلامِ موزوں ہے جو بالقصد کہا گیا ہو۔ یعنی شعر گوئی کا ارادہ کسی کلام کے شاعری ہونے کو مستلزم ہے۔
قرآنِ کریم میں بہت کم جگہوں پر موزوں کلمات ملتے ہیں۔ ان پر تقریباً تمام ماہرینِ عروض اور شعرفہموں نے بات کی ہے مگر کسی نے کبھی بھی انھیں شعر قرار نہیں دیا۔ وجہ اس کی زیادہ تر وہی ہے جو اوپر بیان کر دی گئی۔
میرا مخلصانہ مشورہ ہو گا کہ جو مواد آپ تنقید و تحقیق کے نام پر پڑھتے ہیں اسے کبھی کبھی ناقدانہ اور محققانہ نظر سے جانچ بھی لیا کیجیے!