نظریہ ارتقاء پر اعتراضات اور ان کے جواب

arifkarim

معطل
arifkarim میں دین اسلام اور سائینس کو ایک دوسرے کا مخالف نہیں سمجھتا اس لئے میرے نزدیک دونوں کے ایک ساتھ ذکر میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر آپ میرے اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ بے شک یہاں دین اسلام کا ذکر نا کریں۔
یہاں دین و سائنس میں مخالفت یا مطابقت کا سوال نہیں بلکہ یہ دونوں بالکل الگ الگ موضوعات ہیں۔ دین الہامی ہے، سائنس دنیاوی ہے۔ دین کا احاطہ قدرت سے باہربھی ہے، جبکہ سائنس قدرت سے باہر ایک انچ بھی نہیں جا سکتی۔ جیسے آپ طب کی تعلیم میں انجنیئرنگ شامل نہیں کر سکتے بالکل ویسے ہی دین کی تعلیم میں سائنس کو کیسے ٹھونس سکتے ہیں؟ یا سائنس کی تعلیم میں دین کو کیسے داخل کر سکتے ہیں جبکہ انکا محور و دائرہ ہی الگ الگ ہے۔
 
یہاں دین و سائنس میں مخالفت یا مطابقت کا سوال نہیں بلکہ یہ دونوں بالکل الگ الگ موضوعات ہیں۔ دین الہامی ہے، سائنس دنیاوی ہے۔ دین کا احاطہ قدرت سے باہربھی ہے، جبکہ سائنس قدرت سے باہر ایک انچ بھی نہیں جا سکتی۔ جیسے آپ طب کی تعلیم میں انجنیئرنگ شامل نہیں کر سکتے بالکل ویسے ہی دین کی تعلیم میں سائنس کو کیسے ٹھونس سکتے ہیں؟ یا سائنس کی تعلیم میں دین کو کیسے داخل کر سکتے ہیں جبکہ انکا محور و دائرہ ہی الگ الگ ہے۔
میں دین اسلام کو ایسا دین سمجھتا ہوں جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے۔ لہذا سائنس کا بھی کرتا ہے۔ اس لئے اسلام اور سائنس کو بالکل الگ الگ سمجھنا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔
 

عثمان

محفلین
Creative Evolution: An Anti-Darwin Theory Won a Nobel
http://www.icr.org/article/creative-evolution-anti-darwin-theory-won-nobel/



بطور مسلم میرا ایمان قرآن اور اسلام کے انسانی تخلیق کے عمل پر ہے لیکن ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ سائنس کا آج کا کوئی نظریہ اگر اس کے برعکس ہے تو یہ اٹل حقیقت ( اسلام کے نظریات) تک پہنچنے کےراستہ کا ایک ناقص مرحلہ ہے اور دستیاب وسائل ، معلومات اور آلات کی پہنچ فی الحال مذکورہ معاملے میں اٹل حقیقت ( تخلیق انسانی کا ںظریہ ) تک نہیں ہے
اگر اسمان اور زمین ایک ہوجائے پھر بھی ہمارا ایمان اسلام کے نظریہ پر ہی ہو گا۔

ہاں عقلی لحاظ سے دستیاب سائنس کی مدد سے کائنات کے مظاہر پر غور کا اسلام حکم دیتا ہے تو ہم غور کریں گے اور کوشش کریں گے کہ کسں طرح اسلام کے نظریہ کو ثابت کر سکیں ہاں اکثر ہماری نا اہلی سے غیر ہی ہمارے نظریات کو ثابت کر دیتے ہیں

نئی نسال کی تشکیل کے دوراںن نوع میں کسی حد تک تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جس بناء پرایک نوع کے ارکان دوسرے سے مختلف ہیں ، اس کو تغیر تو کہا جا سکتا ہے لیکن ارتقاٗ نہیں ، ضروری نہیں کہ یہ تبدیلی مثبت ہو اور کسی بہتری کی طرف جائے

لیکن ایک نوع سے دوسری نوع کی تشکیل کا ہونا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی اٹل ثبوت موجود ہے ہاں کچھ حقائق سے اس کا شبہ ضرور پڑتا ہے کہ شائد ایسا ہوا ہو۔
اگر کسی نوع کا کچھ عجیب الخلقت فرد پیدا ہو جائے تو کیا ضرور ہے کہ اس کی اولاد بھی اس طرح کی عجیب الخلقت ہوگی اور افزائش نسل کے قابل ہوگی
جب آپ ایک علم کی ابجد سے بھی واقف نہیں، اور نہ جاننے کی جستجو رکھتے ہیں تو بحث کا کیا سوال ہے ؟
 

عثمان

محفلین
میں دین اسلام کو ایسا دین سمجھتا ہوں جو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتا ہے۔ لہذا سائنس کا بھی کرتا ہے۔ اس لئے اسلام اور سائنس کو بالکل الگ الگ سمجھنا میرے نزدیک درست نہیں ہے۔
حاصل بحث محض یہ ہے کہ سائنس ، مذہب۔۔۔ اور مذہب سائنس کو سمجھنے میں مدد گار نہیں۔ اسی لیے سائنس اور مذہب کو الگ الگ رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ :)
 

محمد سعد

محفلین
اگر اس بحث سے ایسے لوگوں کو نکال دیا جائے جو دین و سائنس دونوں کا اچھا خاصا علم نہیں رکھتے تو یہ دھاگہ خالی ہو جانا ہے۔ لہٰذا ایسے بڑے بڑے بیانات سے گریز ہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ دین و سائنس "یقیناً" ایک دوسرے کو سمجھنے میں مددگار ہیں یا نہیں۔ بہتر ہوگا کسی ایسے شخص سے پوچھ لیں جو دونوں کو اچھی طرح جانتا ہو۔ ورنہ اگر اپنا معیار اتنا بلند نہیں رکھنا تو مجھ جیسوں سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔( لیکن میری فیس زیادہ ہے) :bulgy-eyes:
 

عثمان

محفلین
اگر اس بحث سے ایسے لوگوں کو نکال دیا جائے جو دین و سائنس دونوں کا اچھا خاصا علم نہیں رکھتے تو یہ دھاگہ خالی ہو جانا ہے۔ لہٰذا ایسے بڑے بڑے بیانات سے گریز ہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ دین و سائنس "یقیناً" ایک دوسرے کو سمجھنے میں مددگار ہیں یا نہیں۔ بہتر ہوگا کسی ایسے شخص سے پوچھ لیں جو دونوں کو اچھی طرح جانتا ہو۔ ورنہ اگر اپنا معیار اتنا بلند نہیں رکھنا تو مجھ جیسوں سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔( لیکن میری فیس زیادہ ہے) :bulgy-eyes:
"سائنس اور ہماری زندگی" کے زمرے میں موجود دھاگے پر سائنس کے حوالے سے ہی بحث کی گنجائش ہے۔ بصورت دیگر مذہب کا زمرہ اور شائد آپ کا بلاگ دستیاب ہے۔
دنیا بھر میں سائنس کی پریکٹس مذہب اور عقائد کو ایک طرف رکھ کر کی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسا بڑا بیان نہیں ہے۔
 
اس بارے یہ دیکھئے کہ کلوننگ کس چیز کو کہتے ہیں۔ ابھی کچھ صفحے قبل ڈیزل پیدا کرنے والے بیکٹیریا اور ریشم پیدا کرنے والی گائے کا تذکرہ ہو چکا ہے
یہ کلوننگ نہیں بلکہ ڈٰی این اے میں تبدیلی کر کے مختلف صفات پیدا کی جاتی ہیں
کلوننگ میں افرائش نسل میں ایک ہی فرد الف کے خلیے لے کر الف سے ہو بہو ملتی نئی نسل پیدا کی جاتی ہے
کوئی جسمانی مماثلت اور ڈی این کی مماثلت اس بات کی حتمی دلیل کیسے ہو گئی کہ یہ ارتقاء کے باعث ہوا ہے
یہ تو اس بات کی بھی نہایت مناست دلیل ہو سکتی ہے کہ ( تخلیق کی گئی) مستقل بنیادوں پر الگ الگ نوع کی آپس میں مماثلت ( جسمانی یا جینیاتی) ہے

اٹھانوے فی صد مماثلت ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے
سب سے پہلے تو ۹۸ فی صد یکسانیت کے نظرئیے کو واضح کردینا چاہیے کہ جو انسان اور چیمپینزی کے ڈی این اے کے حوالے سے ارتقا پرستوں نے پھیلایا ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ انسان اور چیمپینزی کی جینیاتی بناوٹ کے درمیان ۹۸ فی صد مماثلت کے حوالے سے کوئی دعویٰ کرتے ہوئے انسانی جینوم کی طرح چیمپینزی کے جینوم کی بھی نقشہ کشی کی جاتی او رپھر دونوں کے جینوم کا موازنہ کیا جاتا۔ اس موازنے کے نتائج کا مطالعہ کیا جاتا۔ جبکہ ایساکوئی مطالعہ دستیاب نہیں ہے، کیونکہ اب تک صرف انسانی جین کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ چیمپینزی کے لیے اب تک ایسی کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور بندر کے جین کے درمیان ۹۸ فی صد مماثلت جو ایک اہم موضوع بن چکا ہے، ایک غلط پروپیگنڈا ہے جو آج سے برسوں پہلے تیار کرلیا گیا تھا۔ دراصل انسان اور چیمپینزی میں پائی جانے والی تیس چالیس بنیادی پروٹینز کے امائنو ایسڈز کے سلسلوں (Sequences) کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا تیار کیا گیا اور غیر معمولی مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس مماثلت کو بیان کیا گیا۔ اس سلسلے کا تجزیہ ’’ڈی این اے ہائبریڈائزیشن‘‘ (DNA hybridization) نامی طریقے سے کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس طریقے میں پروٹین کا تجزیہ شامل ہے، لیکن اس میں محدود پیمانے پر پروٹینز کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ابھی ایک لاکھ جین باقی ہیں، گویا انسان میں ان جینز میں ایک لاکھ پروٹینز کوڈ ہیں۔چونکہ ایک لاکھ پروٹینز میں سے صرف چالیس میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس لیے اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ انسان اور بندر کے ۹۸ فی صد جینز یکساں ہیں۔ دوسری جانب ان چالیس پروٹینز پر مشتمل ’’ڈی این اے کا موازنہ‘‘ (DNA comparison) بھی متنازعہ ہے۔ یہ موازنہ ۱۹۸۷ء میں دو ماہرین حیاتیات سبلے (Sibley) اور آلکیسٹ (Ahlquist) نے تیار کیا تھا اور ’مالیکیولر ایوولوشن‘ (Molecular Evolution) نامی جریدے میں شائع ہواتھا۔ تاہم بعد میں سارخ (Sarich) نامی ایک اور سائنس داں نے مذکورہ بالا سائنس دانوں کی معلومات کو جانچا اور کہا کہ ان دونوں نے اس دوران جو طریقہ اختیارکیا اس کا معیار متنازعہ ہے اور نتائج میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ (Sarich et al,1989, Cladisticts, 5:3-32) ۔ ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ڈون بیٹن نے بھی ۱۹۹۶ء میں اس معاملے کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اصل مماثلت ۹۸ فی صد نہیں، ۲ء۹۶ فی صد ہے۔ انسان کا ڈی این اے کیڑے، مچھر اور مرغی سے بھی مماثل ہے اوپر ذکر کردہ بنیادی پروٹین کئی دیگر جان داروں میں بھی موجود ہے۔ انسان میں پائے جانے والی والی پروٹین صرف چیمپینزی ہی میں نہیں، بہت سی بالکل مختلف انواع میں بھی پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پر ہفتہ روزہ ’نیو سائنٹسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک جینیاتی تجزئیے سے انکشاف ہوا کہ نیماٹوڈی حشرات (Nematode Worms) اور انسان کے ڈی این اے کے مابین ۷۵ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ (نیوسائنٹسٹ، ۱۵ مئی ۱۹۹۹ء، صفحہ ۲۷) اس کا یقیناًیہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اور ان حشرات میں صرف ۲۵ فی صد فرق پایا جاتا ہے۔ ارتقا پرستوں کے تیار کردہ ’’ شجرۂ نسب‘‘ (فیملی ٹری) کے مطابق کور ڈاٹا فائیلم( Chordata Phylum236جس میں انسان شامل ہے) اور نیما ٹوڈا فائیلم گروپ کے جان دار آج سے 530 ملین سال پہلے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ دوسری جانب ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق، پھل مکھی (فروٹ فلائی236 جو ڈروسوفیلا قسم کے جان داروں میں شمار ہوتی ہے) اور انسانی جینز میں ۶۰ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ مختلف جان داروں کی پروٹینز پر کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر انسان سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے پروٹینز انسانی پروٹین سے بہت مشابہ ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے سطح زمین پر بسنے والے جانوروں کی پروٹین کا موازنہ کیا۔ حیران کن طور پر ان تمام نمونوں میں سے مرغی او رانسان کے نمونوں کو انتہائی قریب پایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا قریبی نمونہ ’مگر مچھ‘ کا تھا۔ (نیو سائنٹسٹ، ۱۶ ؍ اگست۱۹۸۴ء، صفحہ ۱۹) انسان اور بندر کے درمیان مماثلت ثابت کرنے کے لیے ارتقا پرست چیمپینزی اور گوریلا کے ۴۸ کروموسوم اور انسان کے ۴۶ کروموسوم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ ارتقا پرست دونوں جنسوں کے درمیان کروموسوم کی تقریباً یکساں تعداد کو ان دونوں کے درمیان ارتقائی رشتے کی علامت کے طورپر بیان کرتے ہیں۔ لیکن اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ ’’ٹماٹر‘‘ سے ہونا چاہیے، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے یعنی چھیالیس! جینیاتی مماثلت یا یکسانیت کا خیال، نظریہ ارتقا کی شہادت نہیں دیتا۔ او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی مماثلتیں ارتقائی ضابطے (ایوولوشن اسکیم) سے تعلق نہیں رکھتیں (جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے) اور بالکل الٹ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جینیاتی مماثلتیں ’’ارتقائی ضابطہ‘‘ کو غلط ثابت کرتی ہیں جب اس حوالے سے مجموعی طورپر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’حیاتی کیمیائی مماثلتوں‘‘ کا موضوع ارتقا کے شواہد میں سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع تو نظریہ ارتقا کو ایک لغزش قراردیتا ہے۔ ڈاکٹر کرسچین شوابے (ساؤتھ کیرولینا یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی میں حیاتی کیمیا کے محقق) ایک ارتقا پرست سائنس داں ہیں جنہوں نے سالموں میں ارتقا کے شواہد تلاش کرنے کے لیے کئی برس صرف کیے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انسولین اور ریلیکسن ٹائپ پروٹینز (Relaxin-type Proteins) پر تحقیق کی ہے اور مختلف جان داروں کے درمیان ارتقائی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم انہیں کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تحقیق کے دوران کبھی بھی ارتقا کے شواہد حاصل نہیں کرسکے۔ جریدہ ’’سائنس میگزین‘‘ میں شائع شدہ ایک مضمون میں انہوں نے کہا:
“Molecular evolution is about to be accepted as a method superior to palaeontology for the discovery of evolutionary relationships. As a molecular evolutionist I should be elated. Instead it seems disconcerting that many exceptions exist to the orderly progression of species as determined by molecular homologies; so many in fact that I think the exception, the quirks, may carry the more important message” (Christian Schwabe ‘On the Validity of Molecular Evolution’, Trends in Biochemical Sciences. V.11, July 1986)
سالماتی حیاتیات میں ہونے والی نئی دریافتوں کی بنیاد پر ایک ممتاز حیاتی کیمیا داں پروفیسر مائیکل ڈینٹن کا اس ضمن میں خیا ل ہے کہ :
“Each class at molecular level is unique, isolated and unlinked by intermediates. Thus,molecules like fossils, have failed to provide the elusive intermediates so long sought by evolutionary biology… At a molecular level, no organism is ‘ancestral’ or ‘primitive’ or ‘advanced’ compared with its relatives… There is little doubt that if this molecular evidence had been available a century avo… the idea of organic evolution might never been accepted.” (Michael Denton, Evolution; A Theory in Crisis, London; Burnett Books 1985 pp.290-291)
مماثلتیں ارتقا کا نہیں، تخلیق کا ثبوت ہیں انسانی جسم کا کسی دوسری جان دار نوع سے سالماتی مماثلت رکھنا ایک بالکل قدرتی عمل ہے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے سالموں سے بنائے گئے ہیں، یہ سب ایک ہی پانی اور فضا استعمال کرتے ہیں اور ایک جیسے سالموں پر مشتمل غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نظام ہائے استحالہ (میٹابولزم) اور جینیاتی بناوٹیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان تمام انواع (انسان اور حیوان) کا جدِ امجد ایک ہی تھا۔یہ ’’یکساں مادہ‘‘ ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کا ’’یکساں ڈیزائن‘‘ ہے، گویا ان سب کو ایک ہی منصوبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہے۔ اس موضوع کو ایک مثال سے واضح کرنا ممکن ہے: دنیا میں تمام عمارات ایک جیسے مادے (اینٹ، پتھر، لوہا، سیمنٹ وغیرہ) سے تعمیر کی جاتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ تمام عمارتیں ایک دوسرے سے ارتقا پذیر ہوئی ہیں۔ وہ تمام علیحدہ علیحدہ، مگر یکساں مادے سے تیار کی گئی ہیں۔ یہی بات جان داروں (انسانوں اور حیوانوں) کے لیے بھی درست ہے۔ یہ زندگی ایک غیر شعوری، غیر منصوبہ بند سلسلہ عوامل کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ ارتقا پرست دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ خالق عظیم اللہ عز و جل کی تخلیق کا نتیجہ ہے جو لامحدود علم اور حکمت کا مالک ہے۔
http://quraniscience.com/theory-of-darwinism-is-wrong/
 
اگر اس بحث سے ایسے لوگوں کو نکال دیا جائے جو دین و سائنس دونوں کا اچھا خاصا علم نہیں رکھتے تو یہ دھاگہ خالی ہو جانا ہے۔ لہٰذا ایسے بڑے بڑے بیانات سے گریز ہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ دین و سائنس "یقیناً" ایک دوسرے کو سمجھنے میں مددگار ہیں یا نہیں۔ بہتر ہوگا کسی ایسے شخص سے پوچھ لیں جو دونوں کو اچھی طرح جانتا ہو۔ ورنہ اگر اپنا معیار اتنا بلند نہیں رکھنا تو مجھ جیسوں سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔( لیکن میری فیس زیادہ ہے) :bulgy-eyes:
یار ۔ آپ بڑے زبردست بندے ہو ۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

عباس اعوان

محفلین
جی ہاں۔ ارتقاء سے پہلے ضروری کسی قائم و دائم زندگی کا پہلے سے موجود ہونا۔ یہ ہوا، پانی،پتھر، مٹی وغیرہ تو مردہ مادے ہیں۔ ان میں سے جاندار خلیے، ڈی این اے وغیرہ کا قدرتی طور پر یاحادثاتی طور پرظہور ہو جانا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اس زمین جیسے دیگر سیارے اس کہکشاں میں ہوں تو وہاں بھی یقیناً زندگی کے موجود ہونے کا امکان ہے۔ 1950 کی دہائی میں کھرب ہا سال پرانی زمین جیسا ماحول لیبارٹری میں پیدا کرکے ایک تجربہ کیا گیا تھا جسکے نتیجہ میں کچھ ایسے نئے عناصر سامنے آئے تھے جو کہ تمام کلیات زندگی میں موجود ہوتے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Miller–Urey_experiment

اس تجربہ کی مدد سے اس سائنسی نظریہ کو تقویت حاصل ہوئی کہ اگر زندگی کے ابتداء اور اسکو لمبا عرصہ تک قائم رکھنے کیلئے سازگار ماحول موجود ہو تو قدرتی طور پر زندگی وجود میں آسکتی ہے۔
سورۃ 6: الاٴنعَام، آیت 95
إِنَّ اللّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللّهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ
ترجمہ(ہماری ویب): بے شک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت وغیرہ) اگاتا ہے وہی جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کا جاندار سے نکالنے والا ہے۔ یہی تو خدا ہے۔ پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔
آپ شاید اس تجربے کی بات کر رہے ہیں جس میں غالباً نامیاتی مادوں سے بجلی گزار کر زندہ یک خلوی جاندار پیدا کیے گئے تھے۔
یہاں آپ کو یہ بات ضرور مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ نامیاتی مادوں کا ماخذ کیا ہے، میرے خیال میں نامیاتی مادوں کا ماخذ بھی ماضی میں زندہ مادے یا اجسام تھے۔
جہاں تک سائنسی تجربے سے زندگی پیدا کرنے کا سوال ہے، تو مظاہرِ قدرت سے زندگی پیدا کرنے کی مثال آپ یوں لیں کہ جس قانونِ فطرت کے ذریعے آپ کی سائنس زندہ اجسام پیدا کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جیسا کہ اوپر حوالہ دی گئی آیتِ مبارکہ میں ہے۔ بار بار غور کرنے کی دعوت اس لیے بھی دی گئی ہے ، کہ ان نظاموں کو دریافت کر کے اس بنانے والے کو پہچانیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سورۃ 6: الاٴنعَام، آیت 95
إِنَّ اللّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ذَلِكُمُ اللّهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ
ترجمہ(ہماری ویب): بے شک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت وغیرہ) اگاتا ہے وہی جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کا جاندار سے نکالنے والا ہے۔ یہی تو خدا ہے۔ پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔
آپ شاید اس تجربے کی بات کر رہے ہیں جس میں غالباً نامیاتی مادوں سے بجلی گزار کر زندہ یک خلوی جاندار پیدا کیے گئے تھے۔
یہاں آپ کو یہ بات ضرور مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ نامیاتی مادوں کا ماخذ کیا ہے، میرے خیال میں نامیاتی مادوں کا ماخذ بھی ماضی میں زندہ مادے یا اجسام تھے۔
جہاں تک سائنسی تجربے سے زندگی پیدا کرنے کا سوال ہے، تو مظاہرِ قدرت سے زندگی پیدا کرنے کی مثال آپ یوں لیں کہ جس قانونِ فطرت کے ذریعے آپ کی سائنس زندہ اجسام پیدا کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جیسا کہ اوپر حوالہ دی گئی آیتِ مبارکہ میں ہے۔ بار بار غور کرنے کی دعوت اس لیے بھی دی گئی ہے ، کہ ان نظاموں کو دریافت کر کے اس بنانے والے کو پہچانیں۔
اللہ پاک نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور مٹی زندہ نہیں تھی تبھی انسان میں روح پھونکی گئی :)
 

عباس اعوان

محفلین
http://genecuisine.blogspot.com/2011/03/human-dna-similarities-to-chimps-and.html
اگر کیلے کا جینوم، انسانی جینوم کے غالباً 50 فیصد تک مماثل ہے، تو کہیں بہت پہلے انسان اور کیلے کا جد ایک ہی ہوگا، جیسا کہ بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ انسان کے سلسلہء نسب میں بندر اور چوہے بھی شامل ہیں۔
معلوم نہیں وہ کیا حالات ہوں گے کہ ایک ہی مخلوق کے آف سپرنگز میں سے ایک نے ارتقاء کرتے ہوئے درختوں سے لٹک کر زندگی بچانے کیے لیے اپنے ڈی این اے میں تبدیلی کر لی، اور دوسرے نے چوہے اور بندر سے ہوتے ہوئے انسان کی شکل اختیار کر لی۔۔۔
دوستو کوئی خبر ملی کہ انسان اور کیلے کے درمیان کی کڑی بھی موجود ہے ، یا کہ ارتقاءمیں اپنا حصہ ڈال کر یکسر غائب ہو گئے، اور ایسے غائب کے اپنے فوسلز بھی نہیں چھوڑے۔
 
آخری تدوین:

عباس اعوان

محفلین
اللہ پاک نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور مٹی زندہ نہیں تھی تبھی انسان میں روح پھونکی گئی :)
سورۃ 95: التِّین،
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (1) وَطُورِ سِينِينَ (2) وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (3) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (6) فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ (7) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ( 8۔)
اور بہترین صور ت میں پیدا کیا، نہ کہ بندر اور چوہے کی مانند پیدا کیا۔ تشریح ملاحظہ ہو۔
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=2529&idto=2529&bk_no=46&ID=2573
 
آخری تدوین:
سورۃ 95: التِّین،
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (1) وَطُورِ سِينِينَ (2) وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ (3) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (4) ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (5) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (6) فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ (7) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ ( 8۔)
اور بہترین صور ت میں پیدا کیا، نہ کہ بندر اور چوہے کی مانند پیدا کیا۔ تشریح ملاحظہ ہو۔
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=2529&idto=2529&bk_no=46&ID=2573
احسنِ تقویم کا مطلب یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تمام تخلیقات میں سب سے جدید اور سب سے زیادہ خوبیاں رکھنے والا انسان ہے۔ اور سائنس اس بات کی نفی تو نہیں کرتی۔ نہ یہ آیت نظریۂ ارتقا کی نفی ہی کرتی ہے۔ :)
 
اس بارے یہ دیکھئے کہ کلوننگ کس چیز کو کہتے ہیں۔ ابھی کچھ صفحے قبل ڈیزل پیدا کرنے والے بیکٹیریا اور ریشم پیدا کرنے والی گائے کا تذکرہ ہو چکا ہے

جی ایم فوڈ(GM food)
(جینیٹکلی موڈیفائیڈ فوڈ(Genetically modified food
بائیوٹک فوڈ(Biotech food) ،
جینیٹکلی انجینئرڈ فوڈ(Genetically engineered food) ،
اور جی ایماوGMOیعنی جینیٹکلی موڈیفائیڈ آر گینزم Genetically modified organism
۔جب سائنسدانوں نے اس حقیقت کو دریافت کیاکہ جانداروں کی مختلف خصوصیات کا تعلق ان کے ڈ ی این اے میں پائے جانے والے جینز سے ہوتاہے ،تو انہوں نے اس پر تجربات شروع کئے کہ کسی جاندار کے ڈی این اے میں تبدیلی کرکے اس کی خصوصیات میں تبدیلی کی جاسکتی ہے یانہیں؟اسی طرح جینز کی منتقلی کے ذریعے ایک پودے یا جاندار کی خصوصیات دوسرے پودے یا جاندار میں منتقل کی جاسکتی ہیں یانہیں؟ایسے تجربات کی روشنی میں سائنسدانوں کو معلوم ہواکہ ایسا بالکل ممکن ہے۔چنانچہ پہلے پہل سائنسدانوں نے 1946 ء میں یہ دریافت کیا کہ جانداروں کے جینز (Genes) کا تبادلہ ہو سکتا ہے۔اس دریافت کے بعد سائنسدانوں نے نباتات کے جینزمیں تبدیلی اور مختلف نباتات کی آپس میں پیوند کاری کے ذریعےایک قسم کی سبزیوں میں دوسری قسم کی سبزیوں کی خصوصیات پیداکرنے کے کامیاب تجربات کئے،جن سبزیوں میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں ان کو جی ایم فوڈ(GM food) یا (جینیٹکلی موڈیفائیڈ فوڈ(Genetically modified foodکہا جانے لگا۔بعد میں اس کے اور بھی نام پڑے مثلاً بائیوٹک فوڈ(Biotech food) ، جینیٹکلی انجینئرڈ فوڈ(Genetically engineered food) ، اور جی ایماوGMOیعنی جینیٹکلی موڈیفائیڈ آر گینزم Genetically modified organism)(وغیرہ ۔
 

عباس اعوان

محفلین
احسنِ تقویم کا مطلب یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تمام تخلیقات میں سب سے جدید اور سب سے زیادہ خوبیاں رکھنے والا انسان ہے۔ اور سائنس اس بات کی نفی تو نہیں کرتی۔ نہ یہ آیت نظریۂ ارتقا کی نفی ہی کرتی ہے۔ :)
جیسا کہ اوپر قیصرانی برادر نے بتایا کہ
اللہ پاک نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور مٹی زندہ نہیں تھی تبھی انسان میں روح پھونکی گئی :)
آپ احسن تقویم سے پہلے خلق کا لفظ بھول گئے ہیں، تخلیق ہی احسن تقویم پر ہوئی نہ کہ احسن تقویم ،خلق سے بعد میں حاصل کی گئی، اور ماشاء اللہ تقویم کا لفظ بہت خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ آپ اس آیت مبارکہ کی تفسیر پڑھیں تو اندازہ ہو گا کہ احسن تقویم سے مراد کیا ہے اور کیا کیا اس کے مطالب ہیں، احسن تقویم تمام تر خوبیوں کا احاطہ کرتی ہے جو کہ اس اشرف المخلوقات میں موجود ہیں۔ اور یہ تمام تخلیق کے وقت سے ہی موجود ہیں، نہ کہ بعد میں ارتقاء سے حاصل کی گئیں۔
 
جیسا کہ اوپر قیصرانی برادر نے بتایا کہ

آپ احسن تقویم سے پہلے خلق کا لفظ بھول گئے ہیں، تخلیق ہی احسن تقویم پر ہوئی نہ کہ احسن تقویم ،خلق سے بعد میں حاصل کی گئی، اور ماشاء اللہ تقویم کا لفظ بہت خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ آپ اس آیت مبارکہ کی تفسیر پڑھیں تو اندازہ ہو گا کہ احسن تقویم سے مراد کیا ہے اور کیا کیا اس کے مطالب ہیں، احسن تقویم تمام تر خوبیوں کا احاطہ کرتی ہے جو کہ اس اشرف المخلوقات میں موجود ہیں۔ اور یہ تمام تخلیق کے وقت سے ہی موجود ہیں، نہ کہ بعد میں ارتقاء سے حاصل کی گئیں۔

جی محترم میں تو یہ نہیں کہہ رہا کہ انسان اشرف المخلوقات میں سے نہیں ہے۔ البتہ میں یہ ضرور کہہ رہا ہوں یہ آیت ارتقا کی نفی نہیں کرتی۔ کیونکہ تخلیق کے معنوں کو اگر آپ اتنا محدود کردیں کہ اس میں اس میں بلا واسطہ بنے بنائے "انسان" کی در آمد کو مانیں تو پھر نطفہ، حمل، شیر خواری، بچپن، لڑکپن، نو جوانی اور جوانی کی ساری منازل کی بھی نفی ہوتی۔ لیکن واضح ہے کہ لفظ "خلق" ان سب مدارج کی نفی نہیں کرتا، تو پھر ارتقا کی نفی کیسے ہوگی اس آیت سے؟
ممکن ہے تخلیقی منازل میں قران کے تفسیری اختلافات کی وجہ سے ارتقا کا ہونا موجود نہ مانا جائے۔ لیکن اس ککی نفی بھی موجود نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
ارتقاء کے وہ مخالف جو مذہبی نظریہ پر یقین رکھتے ہیں، سے صرف ایک سوال:

اگر مذہبی نکتہ نظر غلط ثابت ہوا تو کیا وہ اسے چھوڑ دیں گے؟

اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو پھر آئیے بحث جاری رکھتے ہیں۔ اگر آپ کا جواب نہیں ہے تو پھر مجھے براہ راست قرآنی آیات اور احادیث کو جھٹلانے کی وجہ سے قتل کا فتویٰ قبول نہیں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
http://genecuisine.blogspot.com/2011/03/human-dna-similarities-to-chimps-and.html
اگر کیلے کا جینوم، انسانی جینوم کے غالباً 50 فیصد تک مماثل ہے، تو کہیں بہت پہلے انسان اور کیلے کا جد ایک ہی ہوگا، جیسا کہ بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ ان کے سلسلہء نسب میں بندر اور چوہے بھی شامل ہیں۔
معلوم نہیں وہ کیا حالات ہوں گے کہ ایک ہی مخلوق کے آف سپرنگز میں سے ایک نے ارتقاء کرتے ہوئے درختوں سے لٹک کر زندگی بچانے کیے لیے اپنے ڈی این اے میں تبدیلی کر لی، اور دوسرے نے چوہے اور بندر سے ہوتے ہوئے انسان کی شکل اختیار کر لی۔۔۔
دوستو کوئی خبر ملی کہ انسان اور کیلے کے درمیان کی کڑی بھی موجود ہے ، یا کہ ارتقاءمیں اپنا حصہ ڈال کر یکسر غائب ہو گئے، اور ایسے غائب کے اپنے فوسلز بھی نہیں چھوڑے۔
ثابت کیجئے کہ ایسے افراد ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرد نہیں ہے جو یہ دعویٰ کرے تو پھر سوچ لیجئے کہ آپ اپنے دعویٰ میں کتنے سچے ہیں
 
Top