اشتیاق علی
لائبریرین
صفحہ نمبر 113
ابتدائے عشق و مستی قاہری است
انتہائے عشق و مستی دلبری است
(پس چو با ید کرو)
جبین بندہ حق میں نمود ہے جسکی
اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود
(ضرب کلیم)
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل!
اسی نگاہ میں ہے ، قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
اپنے نقطہ نظر کے بارے میں انہوں نے ایک نظم "جلال و جمال"میں وضاحت کر دی ہے:
مرے لئے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزئی ادراک !
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جسکا شعلہ نہ ہو تندو سرکش و بیباک
غالبا یہ اقبال ہی کا کہا ہوا لطیفہ ہے کہ کسی یورپی جوڑے نے جب آبشارینا گرا دیکھا تو عورت بولی "اف! کتنا حسین ہے"! جبکہ مرد نے کہا "ہاں ! بہت پر شکوہ ہے"۔ اس سے اس صحت مند ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال کیوں جلال و شکوہ کے قائل ہیں۔
جہاں تک فن کار کے فرائض کا تعلق ہے ، اقبال کہتے ہیں کہ اس کا انداز نظر اور اس کی افتاد طبع (Attitude) عام سطح سے بلند پاکیزہ اور معیاری ہونا چاہئے اسے وہ نظر حاصل کرنا چاہئے ، جو شئے کی حقیقت دیکھ سکے اور بادہ میں نشہ کا اندازہ کر لے (دربادہ نشہ می نگرم آں نظر بدہ) ان کے خیال میں یہ نگاہ ہی ہے جو فن کار کے نقطہ نظر کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار ٹھہرتی ہے اس لئے اسے ایسا ہونا چاہئے کہ حسن حقیقی تک پہنچنے کے لئے کوئی حجاب اس کے لئے حجاب نہ رہے، اسے رجائی اور امید پر ور ہونا چاہئے تاکہ تخریب میں تعمیر ، ویرانی میں آباد کاری اور بگاڑ میں بناؤ کی جھلک دیکھ سکے ، ان کی رائے میں
ابتدائے عشق و مستی قاہری است
انتہائے عشق و مستی دلبری است
(پس چو با ید کرو)
جبین بندہ حق میں نمود ہے جسکی
اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود
(ضرب کلیم)
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل!
اسی نگاہ میں ہے ، قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
اپنے نقطہ نظر کے بارے میں انہوں نے ایک نظم "جلال و جمال"میں وضاحت کر دی ہے:
مرے لئے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزئی ادراک !
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جسکا شعلہ نہ ہو تندو سرکش و بیباک
غالبا یہ اقبال ہی کا کہا ہوا لطیفہ ہے کہ کسی یورپی جوڑے نے جب آبشارینا گرا دیکھا تو عورت بولی "اف! کتنا حسین ہے"! جبکہ مرد نے کہا "ہاں ! بہت پر شکوہ ہے"۔ اس سے اس صحت مند ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال کیوں جلال و شکوہ کے قائل ہیں۔
جہاں تک فن کار کے فرائض کا تعلق ہے ، اقبال کہتے ہیں کہ اس کا انداز نظر اور اس کی افتاد طبع (Attitude) عام سطح سے بلند پاکیزہ اور معیاری ہونا چاہئے اسے وہ نظر حاصل کرنا چاہئے ، جو شئے کی حقیقت دیکھ سکے اور بادہ میں نشہ کا اندازہ کر لے (دربادہ نشہ می نگرم آں نظر بدہ) ان کے خیال میں یہ نگاہ ہی ہے جو فن کار کے نقطہ نظر کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار ٹھہرتی ہے اس لئے اسے ایسا ہونا چاہئے کہ حسن حقیقی تک پہنچنے کے لئے کوئی حجاب اس کے لئے حجاب نہ رہے، اسے رجائی اور امید پر ور ہونا چاہئے تاکہ تخریب میں تعمیر ، ویرانی میں آباد کاری اور بگاڑ میں بناؤ کی جھلک دیکھ سکے ، ان کی رائے میں