نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 113
ابتدائے عشق و مستی قاہری است
انتہائے عشق و مستی دلبری است
(پس چو با ید کرو)
جبین بندہ حق میں نمود ہے جسکی
اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود
(ضرب کلیم)
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل!
اسی نگاہ میں ہے ، قاہری و جباری
اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی
اپنے نقطہ نظر کے بارے میں انہوں نے ایک نظم "جلال و جمال"میں وضاحت کر دی ہے:
مرے لئے ہے فقط زور حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزئی ادراک !
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جسکا شعلہ نہ ہو تندو سرکش و بیباک
غالبا یہ اقبال ہی کا کہا ہوا لطیفہ ہے کہ کسی یورپی جوڑے نے جب آبشارینا گرا دیکھا تو عورت بولی "اف! کتنا حسین ہے"! جبکہ مرد نے کہا "ہاں ! بہت پر شکوہ ہے"۔ اس سے اس صحت مند ذوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال کیوں جلال و شکوہ کے قائل ہیں۔
جہاں تک فن کار کے فرائض کا تعلق ہے ، اقبال کہتے ہیں کہ اس کا انداز نظر اور اس کی افتاد طبع (Attitude) عام سطح سے بلند پاکیزہ اور معیاری ہونا چاہئے اسے وہ نظر حاصل کرنا چاہئے ، جو شئے کی حقیقت دیکھ سکے اور بادہ میں نشہ کا اندازہ کر لے (دربادہ نشہ می نگرم آں نظر بدہ) ان کے خیال میں یہ نگاہ ہی ہے جو فن کار کے نقطہ نظر کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار ٹھہرتی ہے اس لئے اسے ایسا ہونا چاہئے کہ حسن حقیقی تک پہنچنے کے لئے کوئی حجاب اس کے لئے حجاب نہ رہے، اسے رجائی اور امید پر ور ہونا چاہئے تاکہ تخریب میں تعمیر ، ویرانی میں آباد کاری اور بگاڑ میں بناؤ کی جھلک دیکھ سکے ، ان کی رائے میں
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 114
فن کار کی نگاہ شوق فطرت کا صرف آئینہ ہی نہیں بلکہ اس کا معیار اور کسوٹی بھی ہے وہ صرف دیکھتا ہی نہیں پرکھتا بھی ہے ، جانتا ہی نہیں جانچتا بھی ہے ، اس طرح وہ فطرت کے حسن میں اپنے حسن نظر سے اضافہ کرتا ہے ، اور اسے نئی معنویت عطا کرتا ہے ، وہ اپنی نظم "نگاہ شوق" میں کہتے ہیں:-
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگارہ شوق اگر ہو شریک بینائی !
اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند
ہوئے جہاں میں سزاوارکار فرمائی
اسی نگاہ سے ذرہ جنوں میرا
سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی
نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھکو
ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی
(ضرب کلیم)
فن کار کی انفرادیت اور مخصوص انداز نظر کے بارے میں کہتے ہیں :-
اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق
ان کے خیال میں فن کار اپنی ذات سے انجمن اور آپ اپنی دنیا ہوتا ہے ، یعنی خارجی دنیا کی تعمیر جدید سے پہلے عالم نو پہلے اس کی اندرونی دنیا میں کروٹیں بدلتا ہرتا ہے اور پھر وہ اس نقشے کے مطابق خیال کو عمل بنانا چاہتا ہے:-
زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالم نور کی تصویر
اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا کی تعمیر
بدن اس تازہ جہاں کا ہے اس کی کف خاک
روح اس تازہ جہاں کی ہے اسکی تکبیر
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مردان ہنر مندکہ نخچیر؟
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 115
دیھکے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
اس سے پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ اقبال فن کار کیلئے محنت و محویت ، مقصد کا عشق اور نصب العین کے لئے خلوص اور لگن کے کس قدر قائل ہیں ، ریاض اور جانسوزی کی ضرورت ان کے ہاں ذوق سلیم کے باوجود باقی رہتی ہے ، وہ "ملا سید الرحمن" کی سہل نگاری کے قائل نہیں:-
خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات
فطرت لہو ترنگ ہے ، غافل نہ جل ترنگ
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یادو نفس مثل شرر کیا
ہوتا ہے مگر محنت پرواز سے روشن
یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے
ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے
بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم دکے
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ
از ہر چہ بآئینہ نما یند بہ پرہیز!
ہر چند کہ اجیاد معانی ہے خدادا
کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد
خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد!
بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد
(ضرب حکیم)
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 116

انسان کامل اقبال کی نگاہ میں

اقبال کی نگاہ متجسس کو اس عالم رنگ و بو میں جو اپنے اندر گو ناں گوں دلفریبیاں اور دلچسپیاں رکھتا ہے ، صرف دردروں کا بھٹ اور چوپایوں کا جنگل نظر آیا اور اس کی متجسسانہ نگاہیں اس درندوں اور چوپایوں کی دنیا میں کسی "انسان" کی چوپاہیں ، اپنے اس تلاش و جستجو کی ابتدا اپنی مشہور کتاب "اسرار خودی"میں مولانا جلال الدین رومی کے ان اشعار سے کی ہے۔
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست
زیں ہمیاں سست عناصر ولم گرفت
شیر خاور ستم و ستانم آرزوست

____________________
یہ وہ مقالہ ہے جو جامعہ فوائد الاول(حال قاہرہ یونیورسٹی) کےلئے لکھا گیا تھا اور 5 رجب 1370 ہجری بمطابق 10 اپریل 1981 ء کو پڑھا گیا اور بعد میں اس مقالہ کو دو علیحدہ عنوانوں کے ماتحت دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ایک حصہ "اقبال اور عصری نظام تعلیم "کے عنوان سے پچھلے صفحات میں گذر چکا ہے۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 117
گفتم کہ یافت می نشوو جستہ ایم!
گفت آنکہ یافت می نشو و آنم آرزوست
کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اندھیری رات ہے اور ایک درویش سن رسیدہ ہاتھ میں مشعل لئے کوچہ و بازار کی خاک چھانتا پھرتا ہے جیسے اس کی نگاہ کسی گمشدہ کی تلاش میں ہو، میں نے کہا حضرت سلامت کس چیز کی تلاش ہے؟ فرمانے لگے ان درندوں اور چاپایوں کی بستی میں رہتے رہتے طبیعت عاجز آ گئی ہے ، اب اس وسیع کائنات میں کسی "انسان"کی تلاش میں نکلا ہوں ، ایک ایسا نوجوان جس کی مردانگی اور شخصیت میری روح کو تسکین اور بالیدگی عطا کر سکے میں نے کہا آپ کس دھوکے میں ہیں؟ یہ تو عنقا کی تلاش ہے ، اس کے پیچھے اپنے آپ کو کیوں مشقت میں ڈالتے ہیں؟ میں نے اس راہ میں در در کی خاک چھانی ہے ، دشت و صحرہ ، آبادی و دیرانہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں میرے قدم نہ پہنچے ہوں مگر اس کی حقیقت تو کیا پرچھائیں بھی نظر نہ آئی ، درویش نے کہا مجھے تو اس شئے کی تلاش و جستجو زیادہ محبوب ہے جس کا وجود نادر اور جس کا حصول آسان نہ ہو ۔۔۔۔۔ !
سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اس "گمشدہ انسان" کو اس وسیع کائنات میں پالیا یا حیران و سرگرداں بھٹکتے پھرے؟ اقبال کے کلام کا مطالعہ اس حقیقت کی طرف اچھی نشاندہی کرتا ہے ، بیک نظر اور بلا خوف تردید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں اقبال نے اس کھوئے ہوئے انسان کو پا لیا اور نہ صرف پا یا بلکہ اس کو اچھی طرح پہچانا اور زندگی کے طویل ایام اس کے ساتھ گذارے ، اقبال کا یہ اکتشاف کولمبس کی نئی دنیا کے اکتشاف سے زیادہ وقیع اور بڑا اکتشاف ہے اور بلا شبہ ایک فتح عظیم ہے اس لئے کہ کھوئے ہوئے انسان کی تلاش و جستجو اور پھر اس میں کامیابی اس عالم کی سب سے بڑی خوش بختی اور سب سے بڑی یافت ہے، خصوصا اس دور میں جب کہ "انسان" کھو چکا ہو اور انسانیت
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 118
افسانہ بن چکی ہو۔
اقبال کا وہ گمشدہ انسان جسے وہ "انسان کامل"سے تعبیر کرتا ہے کہاں ہے؟ اور کون ہے؟ مجھے یہ ڈر ہے کہ ہم میں سے اکثر اس سوال کا جواب سن کر چونک پڑیں گے جب کماں کے سامنے یہ حقیقت آئے گی کہ اقبال کا "انسان کامل" ایک "سچا مسلم" ہے اور ان کا یہ چونکنا بڑی حد تک بجا ہے ، کیونکہ وہ لوگ جن کی نگاہوں کے سامنے لفظ مسلم کے بعد ایک خشک جامد اور بجھی بجھی زندگی گذارنے والے انسان کی تصویر پھر جاتی ہے ، وہ کبھی بھی اقبال کے انسان کامل کا تصور کسی "مسلم"سے نہیں کر سکتے ، لیکن اقبال کا مرد مومن دراصل قرآنی نظریہ کا انسان کامل ہی ہے۔
اقبال کے اس مرد مومن اور "مسلم مثالی" کو اس کے ایمان کی قوت اور یقین کی نا قابل تسخیر طاقت دنیا کے ان سارے انسانوں سے جو شک وریب میں مبتلا ہیں ، ممتاز کر دیتی ہے اور اسی طرح وہ بزدل انسانوں کے مقابلہ میں اپنی شجاعت و مردانگی اور روحانی قوت سے ممتاز ہے ، ایک مسلم کی توحید خالص اسے بندہ انسان اور بندہ مال و ز ر سے علیحدہ کر دیتی ہے اس کی آفاقیت و انسانیت وطن پرستی اور رنگ و نسل کے امتیاز کی جڑ کاٹ دیتی ہے وہ مسلم مثالی زندگی کا ایک پیام رکھتا ہے ، جس کے ما تحت وہ زندگی گزارتا ہے ، زندگی کی قدریں خواہ بدل جائیں اور انسانی زندگی میں کتنا بڑا ہی انقلاب کیوں نہ آ جائے لیکن اس کے اندر نہ کو‌ئی تبدیلی ہوتی ہے ، اور نہ وہ خود اپنے آپ کو بدلتا ہے اس قسم کی مثال قرآن نے اپنے سادہ اور بلیغ لفظوں میں اس طرح بیان کی جاہے۔
کشجرہ طیبۃ اصلھا ثابت وفوعھا فی السماء
اس کی مثال ایسے پاک درخت کی ہے ، جس کی جڑیں جمع ہوں اور شاخیں آسمان کو چھو رہی ہوں ۔ اقبال کہتا ہے۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 119
نقطہ پر کار حق مرد خدا کا یقیں
اور یہ عالم سمام و ہم و طلسم و مجاز
انسان کامل کے اس تصور سے ہمارے ذہنوں میں "مسلم" کی دو تقسیمیں آتی ہیں ، ایک اس کا وجود انسانی ہے ، دوسرا اس کا وجود ایمانی !اپنے وجود انسانی میں اس میں اور دوسرے انسانوں میں اشتراک ہے ، عام انسانوں کی طرح پیدا ہوتا ہے اور ویسے ہی پروان چڑھتا اور بڑا ہوتا ہے، ہر انسان کی طرح اسے بھوک بھی لگتی ہے اور پیاس بھی! اسے گرمی کا بھی احساس ہوتا ہے اور سردی کا بھی ، بیمار بھی پڑتا ہے اور صحت مند بھی ہوتا ہے ، فقر و فنا میں بھی وہ عام انسانوں کے مثل ہے ، زراعت و تجارت اور دوسرے انسانی شعبوں سے بھی اسے دل چسپی ہے ، اولاد سے محبت کرتا ہے ، اور اپنے پہلو میں بھی دل رکھتا ہے ، غرض کہ وہ اپنے وجود انسانی میں قانون طبعی کا ویسا ہی تابع ہے ، جیسے اس کے مثل اور دوسرے انسان ! انقلاب زمانہ اور حوادث روزگار اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برت سکتے ، محض اس لئے کہ اس کا کوئی خاص نام ہے ، اور اس کا تعلق کسی خاض نسل ہے یا وہ کوئی خاص قسم کا لباس پہنتا ہے ، بلکہ اس کا وجود اس وسیع کائنات میں صرف ایک ذرہ کی حیثیت رکھتا ہے ، اور عالم کے اس بحر زخار میں اس کی مثال ایک موج ہی ہے اگر ایک مسلم بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گذارنے پر اکتفا کرے تو پھر اس کی اس کائنات میں کوئی قدرو قیمت باقی نہیں رہتی اور اس کی موت پر نہ زمین روئے گی اور نہ آسمان ما تم کناں ہو گا ، اور اس دنیا کی نیرنگیوں میں کچھ بھی کمی واقع نہ ہو گی۔
لیکن اس کا وجود ایمانی اپنے اندر ایک پیام رکھتا ہے، جو انبیاء کا پیام ہے زندگی کے بارے میں اس کے کچھ اصول اور اعتقادات ہیں ، جن پر وہ ایمان رکھتا ہے اور
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 120
اس کی زندگی ایک مقصد کے لئے گذرتی ہے ، اس حیثیت سے اگر غور کیا جائے تو وہ حیات انسانی کے اسرار سر بستہ کا ایک راز ہے ، عالم کی بقا کے لئے اس کا وجود ایک لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے ، انسانی زندگی اس کے بغیر ادھوری ہے ، لہذا وہ مرد مومن اور مسلم مثالی اس بات کا مستحق ہے ، کہ اس کائنات میں زندگی گذارے ، پھلے ، پھولے اور پروان چڑھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کائنات کی بقا کے لئے اس کا وجود اور اس کا پھلنا پھولنا ، پروان چڑھنا ضروری ہے ، جس طرح اس کائنات کو پانی ، ہوا اور روشنی کی ضرورت ہے ، اسی طرح سے ایک مرد مومن کی بھی ضرورت ہے اگر حیات انسانی پانی ، ہوا ، روشنی اور حرارت و برود ت کے وجود پر منحصر ہے تو اسی طرح ایک ایسے مقصد زندگی ، روح ایمانی اور اخلاق کا وجود بھی ناگزیر ہے ، جس کی روشنی انبیاء علیہم السام کی دعوت و پیام سے حاصل کی گئی ہو اور جس کابوجھ ایک مرد مومن کا دوش ناتواں اٹھائے ہوئے ہو اور اس کے قیام و بقا کے لئے اپنی زندگی کی ساری قوتوں اور توانائیوں کو لگا رکھا ہو ، اس لئے کہ اگر مومن نہ تو تو یہ پیام زندگی اور مقصد بلند ضائع ہو جائیں گے اور ان کا وجود عالم میں ایک راز سربستہ بن کر رہ جائے گا ، اس مرد مومن کا وجود و بقا اس عالم میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو حیثیت آفتاب جہانتاب کی ہے ، اور ان روشن ستاروں کی ! نسلیں اور امتیں پیدا ہوں گی اور فنا ہوں گی ، آبادیاں ویران ہوں گی اور ویرانے آباد ، حکومتیں بنیں گی اور مٹیں گی ، ایک تہذیب و تمدن کی جگہ دوسری تہذیب لے گی اور یہ سلسلہ برابر جاری رہے گا ، لیکن اس مسلم مثالی کا وجود ہمیشہ باقی رہے گا۔
اقبال کا مرد مومن زندہ جاود ہے ، اس لئے کہ وہ اپنے پاس ایک زندہ جاوید پیام رکھتا ہے ، اس کے سینے میں ایک زندہ جاوید امانت ہے ، اور اس کی زندگی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 53
آپ یقین کیجیے کہ اگر اقبال ان میں سے کچھ بھی ہوتے تو زمانہ انہیں ویسے ہی بھلا دیتا جس طرح دنیا کے ان بڑے بڑے علماٖ اوبا و شعرا ، مصنفین اور حکومتوًں کے وزرا کو آج کے زمانے کے گوشہ ّ عزلت و گمنامی میں ڈال رکھا ہے اور آج کوئی نہیں جانتا وہ کون تھے ؟ اور کیا تھے ؟ لیکن اقبال کی ذہانت و عبقریت ان کا زندہ جاوید پیغام اور ان کی ذہنوں اور دلوں کو تسخیر کرنے کی طاقت و کشش--------ان تمام فضائل اور بلندیوں کا سبب ان دنیاوی تعلیمی اداروں سے جدا ایک دوسرا تعلیمی ادارہ ہے جس میں اقابل نے تعلیم و تربیت حاصل کی اور پروان بڑھے ۔
میرا خیال ہے آپ میں سے اکثر کا ذہن اس مخصوص "اوارہ"کی تلاش و جستجو میں پریشان ہو گا اور آپ اس کے جاننے کے لئے بے چین ہوں گے کہ آخر وہ کون سا ادارہ ہے جس نے اس عظیم الشان شاعر کو پیدا کیا ؟ اور وہ کون سے علوم ہیں جو اس میں پڑھائے جاتے ہیں ؟کس زبان میں وہاں تعلیم ہوتی ہے ؟اور کیسے معلم وہاں تعلیم دیتے ہیں؟ بلاشبہ اس میں اعلی درجے کے نگراں اور عربی ہوں گے جو اس قسم کے شخصیات پیدا کرتے ہیں ِ، (جیسے کی اقبال تھے ) مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس کے وجود اور محل و مقام سے واقف ہو جائیں تو پھر ضرور اس میں داخلہ کی کوشش کریں گے اور اپنی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو اس بے نظیر ، بے مثال ادارہ کے سپرد کر دیں گے۔
وہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس نے اس میں تعلیم حاصل کی اس کی ناکامی کا کوئی سوال نہیں ، جو وہاں سے نکلا وہ ضائع نہیں ہو سکتا، وہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں سے صرف ائمئہ فن ، مجتہدینَ َ فکر ، واضعینَ علوم ، قائدین فکر اصلاح ، اور مجددین امت ہی پیدا ہوتے ہیں ، جو کچھ لکھتے ہیں اس کے سمجھنے میں عام مدارس یونیورسٹیوں کے طلباو
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
121-122

ایک زندہ جاوید مقصد کے لیے زندگی گذرتی ہے۔

مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد ہمیشہ باقی رہے گا اور موت کبھی اسے اپنی آغوش میں نہ لے گی بلکہ اس کی مثال اس بحر زخار کی ہے جس کی گود میں موجیں اٹھتی رہتی ہیں اور فنا ہوتی رہتی ہیں، حیات انسانی کے اس سمندر میں بھی موجیں اٹھتی رہیں گی اور فنا ہوتی رہیں گی، لیکن اس کی حقیقت ہمیشہ باقی رہے گی۔
اقبال کی نگاہ بلند ابھی یہاں پر رکتی نہیں بلکہ اس کی نگاہ کہیں اور پہنچتی ہے، وہ کہتا ہے کہ اس وسیع کائنات کا مقصد وجود ہی صرف مرد مومن ہے، عالم کا وجود اس کے لیے ہے اور وہ صرف اللہ کے لیے، علما و محدثین کے نزدیک یہ حدیث نبوی "لو لاک لما خلقت الا فلاک "کی صحت لفظاََ اور روایتاََ خواہ کیسی ہی مشکوک ہو، لیکن اس کی نگاہ حقیقت میں کچھ اور دیکھتی ہے۔ وہ قرآن کی روح اور اس کی حقیقت پر نظر رکھتا ہے، اس کے سامنے ایک "مسلمان" اور اس کا بلند "پیغام" ہے، وسیع انسانی تاریخ پر اس کی غائر نظر ہے۔ علم کی قدروں اور ایثار کی طبیعتوں کا اسے خوب اندازہ ہے اس لیے یہ حقیقت اس پر اچھی طرح واضح ہے کہ یہ کائنات اور اس کے سارے لوازمات صرف ایک سچے مسلمان کے لیے وجود میں آئے ہیں، وہ اللہ کا اس سر زمین پر نائب اور خلیفہ ہے، اس کائنات کے تمام خزانوں اور ساری چیزوں کا وہ وارث ہے:۔

عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے

اور اس عقیدہ و فکر عملا بروئے کار لانے کے لیے اس پر مسلسل جدوجہد اور کوشش واجب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کا یہ عقیدہ و ایمان تھا کہ ایک مسلمان ہوا کے رخ پر نہیں چلتا بلکہ و اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ بہتے ہوئے دھارے کا رخ پھیر دے، عالم کو اپنی راہ پر چلائے تہذیب و تمدن اور معاشرہ اور سماج کا رخ موڑ دے اور ساری انسانیت اس کے عمل و ارادہ کے تابع ہوجائے، اس لیے کہ وہ اپنے پاس اس دکھی انسانیت کے لیے ایک زندہ پیام رکھتا ہے، جو اس کے تمام دکھوں کا مداوا ہے۔ اس کے پاس ایمان و یقین کی جیتی جاگتی طاقت ہے، اس عالم کی رہنمائی کا وہی ذمہ دار ہے، دنیا کا امامت و قیادت اسی کو زیب دیتی ہے۔ اس عالم میں وہ صاحب امر و نہی کی حیثیت رکھتا ہے، اگر زمانہ اسے قبول نہ کرے، سماج اس کا مخالف ہو اور سیدھی راہوں سے ہٹا ہوا ہو تو پھر اس کے لیے یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ وہ زمانے کے آگے ہتھیار ڈال دے اور اپنے آپ کو غلط سماج کے سپرد کردے بلکہ اس پر ضروری ہے کہ زمانے کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرے اور معاشرہ اور سماج سے جنگ کرے یہاں تک کہ کامیابی و کامرانی اس کے قدموں پر آلگے، اقبال کے نزدیک " چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی" کا نظریہ زندگی ایک مرد مومن کے لیے کسی طرح صحیح نہیں وہ کہتا ہے۔
حدیث کم نظراں ہے "تو بازمانہ بساز"
زمانہ با تو نہ سازو تو بازمانہ ستیز
اقبال کا خیال ہے، ایک مومن زندگی کی غلط قدروں کے ساتھ مصالحت نہیں کرتا بلکہ وہ زندگی کی فاسد قدروں سے نبرد آزمائی کرتا ہے، اس کا کام حیات انسانی کی
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
123-124


بگڑی ہوئی قدروں کی اصلاح ہے اور اس سلسلے میں اسے تخریب سے بھی کام لینا پڑے تو صحیح ہے اور یہ بنائے تعمیر و اصلاح ہوگا، چنانچہ کہتا ہے:۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
اقبال کے نزدیک حالات مصائب اور حوادث کے سامنے سر جھکا دینا اور قضاء و قدر کا عذر پیش کرنا ایک مرد مومن کا کام نہیں اس قسم کا عذر تو وہ لوگ پیش کرتے ہیں، جو ضعیف الایمان اور کمزور عزم و ارادہ کے ہیں، مرد مومن خود تقدیر الہٰی ہے۔
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے۔۔۔۔۔۔ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال نے جب تاریخ عالم پر ایک نگاہ ڈالی تو انہیں نظر آیا کہ صالح انقلاب ہمیشہ "مرد مومن" کا مرہون منت رہا ہے اور وہی اس کا سر چشمہ ہے، اس کی مثال اس عالم کے مطلع پر ایک صبح سعادت کی سی ہے، وہ انقلاب کی قاید اور زندگی کا پیغامبر ہے، زندگی کی تاریک راتوں کے لیے گویا وہ صبح صادق کا موذن ہے اور اس کی اذان کی آواز عالم کے اس سکوت کو توڑ دیتی ہے جو اپنے اندر رات کی سی خوفناک خاموشی اور موت کا سا بھیانک سکون رکھتا ہے اور پھر وہ اذان اس تھکی ہاری نیند کی ماری دنیا کو ایک نشاط اور زندگی بخشتی ہے، یہ وہی اذان اور بلند پکار ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے فاران کی چوٹیوں سے بلند ہوئی جس نے اس وسیع کائنات کو ایک گہری نیند سے بیدار کیا جو کہ صدیوں سے مدہوش پڑی تھی اور یہ اذان مردہ انسانیت اور پریشان حال دنیا کے لیے ایک صورِ قیامت ثابت ہوئی اور آج بھی اس اذان میں انسانیت کو جگانے اور ضمیر انسانی کو زندہ کرنے کی وہی قوت و طاقت موجود ہے، ضرورت صرف اس مرد مومن کی ہے جو اسی روح بلالی سے پکار دے:۔
دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق
مومن کی اذاں ندائے آفاق
اور ایک مرد مومن کی اذان ہی اس "سحر" کو نمودار کرے گی، جس سے ایک "عالم نو" انگڑائی لیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوگا۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود ۔۔۔۔ ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
خرق عادت کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی طاقت کے سامنے عقل انسانی حیران ہے بلکہ وہ انسان کے لیے ایک معجزہ سے کم نہیں، وہ اپنے پیغام اور اپنے ایمان و یقین سے اپنے اندر ایک نئی قوت و توانائی حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت، قدرت اور قوت قاہرہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے، اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ تو پہاڑ روک سکتا ہے اور نہ سمندر اس کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے، اقبال ایسے ہی مرد مومن کے متعلق کہتا ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ ۔۔۔۔۔۔ غالب دکار آفریں کار کشا کارساز
خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات۔۔۔۔۔۔۔ ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اسلامی قائد، فاتح اندلس طارق ابن زیاد اندلس کے میدان جنگ میں اپنے پروردگار حقیقی کے حضور میں اسلامی فوج کے لیے دعا گو ہیں، یہ مجاہدین اسلام اقبال کے مرد مومن کی زندہ تصویریں ہیں:۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
125-126

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں نظر میں اذان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں

اور صرف یہیں تک نہیں بلکہ اقبال کی نگاہ دور رس مرد مومن کے پوشیدہ طاقتوں کا ذرا اور گہرائی سے اندازہ کرتی ہے، پھر کہتا ہے:۔
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اقبال کے اس قول پر تاریخ عالم کے صفحات شاہد ہیں اور بلاشبہ مومنین صادقین کی مٹھیک بھر جماعت نے دشت و دریا، کوہ و صحرا کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں اور قدموں سے روند ڈالا اور آگے ہی بڑھتے چلے گئے، اسلامی شہسواروں کے واقعات آج بھی تاریخ کے صفحوں پر ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں، سعود ابن ابی وقاص، خالد بن ولید، مثنیٰ ابن حارثہ، عقبہ ابن عامر، محمد ابن قاسم، موسیٰ ابن نصیر اور طارق ابن زیاد کے زندہ جاوید کارنامے تاریخ عالم کے مطلع پر ہمیشہ روشن رہیں گے اور یہ اقبال کے قول کی سچی اور عملی تصویریں ہیں۔
اقبال کے نزدیک عالم میں ایک "مسلم" کی حیثیت سے ایک عالمی حقیقت کی ہے رنگ و نسل اور وطن و ملک کی جغرافیائی حدود میں اسے پابند نہیں کیا جاسکتا، وہ مکان و زمان کی حدود سے متجاوز ہے، علامہ اقبال نے اس حقیقت کو اپنے خاص انداز میں یوں ادا کیا ہے۔
اس کی زمیں بے حدود اس کا افق نے ثغور
اس کے سمندر کی موج دجلہ و دنیوب و نیل
اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب
عہد کن کو دیا اس نے پیام رحیل
ساقی ارباب ذوق فارس میدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل
اقبال کو اس بات پر یقین تھا کہ ایک "مسلم ربانی" کا کوئی محدود وطن نہیں ہے بلکہ سارا عالم اس کا ملک و وطن ہے، اس کے مشرق و مغرب کی کوئی تقسیم نہیں۔
درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمر قند

مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
اقبال کا یہ خیال تھا کہ چونکہ ساری کائنات خدا کی ہے اور ایک "مومن" صرف خدا کا ہے اس لیے یہ ساری دنیا مرد مومن کا اپنا وطن ہے، اس سلسلہ میں طارق ابن زیاد کے اس زریں واقعہ کو جب کہ اس نے اندلس کی سرسبز و شاداب زمین پر قدم رکھا تو ان کشتیوں کو جن پر کہ وہ آیا تھا جلا دینے کا حکم دیا تاکہ پھر واپسی کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہے۔ فوج کے کچھ لوگوں کو طارق کی حرکت پسند نہ آئی انہوں نے کہا کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ ہمارا وطن یہاں سے دور ہے اور ہمیں آخر واپس بھی ہونا ہے؟ اس کے جواب میں طارق کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل گئی، اس نے تلوار اپنے ہاتھوں میں لی اور کہا کہ اب واپسی کا کیا سوال؟ ہر ملک ہمارا ہی ملک ہے اس لیے کہ یہ ساری کائنات ہمارے خدا کی ہے اور ہم خدا کے ہیں، اقبال کی شاعرانہ جولانی اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتی ہے:۔
طارق چو برکنارہ اندلس سفینہ سوخت
گفتندہ کار توبہ نگاہ خرد خطا است
دو ریم از سوا دوطن بازچوں رسیم
ترک سبب زروئے شریعت کجا روا است
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
127-128

خندید دوست خویش بہ شمشیر بردوگفت
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست
ایک "مرد مومن" مختلف اور متضاد و اخلاق و صفات کا حامل ہوتا ہے، جو اس کی طبعی رنگا رنگی اور تنوع پسندی کی آئینہ دار ہوتی ہے اور وہ مختلف و متضاد صفات دراصل اللہ تعالیٰ کے صفات و احوال کے مظاہر ہیں اور ایک "مسلم" اللہ تعالیٰ کے ان صفات کا مظہر ہوتا ہے، مثلاََ کشادہ قلبی، عفو و درگذر اور حلم و بردباری میں وہ خدا کی صفت "غفار" کا پرتو ہے، اور اسی طرح دین و حق کے بارے میں شدت، کفر و باطل پر غصہ و غضب میں اس کی صفت "قہار" کا مظہر ہے اور پاکی و پاکدامنی، پاک نفسی صفت "قدوس" کی آئینہ دار ہے، ایک مسلمان اپنے دین کا ہو بہو نمونہ اور اسلام کی سچی تصویر اس وقت تک نہیں بن سکتا، جب تک کہ ان تمام اخلاق و صفات کا اپنے آپ کو پرتو نہ بنالے:۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروات
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اقبال کہتا ہے کہ ایسے ہی مرد مومن کی مثال اس روشن آفتاب کی سی ہے جس کے لیے غروب نہیں جو ہمیشہ طلوع ہی رہتا ہے، اگر ایک طرف غروب ہوا تو دوسری جانب طلوع ہوا
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اور یہ بات یقیناََ سچ ہے تاریخ کے صفحات اس بات پر شاہد ہیں کہ جب کبھی عالم اسلام کے کسی حصہ پر مسلمانوں ہی کی کمزرویوں کے باعث کوئی افتاد پڑی تو فوراََ ہی اس کی تلافی کسی دوسرے حصہ میں ہوگئی، اگر اسلام کو عالم کے ایک حصہ میں کچھ نقصان پہنچا تو دوسرے حصہ میں اسے فتح حاصل ہوئی، اسلام کا اگر ایک ستارہ گردش میں آیا تو مطلع عالم پر ایک "نیا ستارہ" نمودار ہوا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اندلس کا خاتمہ ملت اسلامیہ کے لیے ایک اندوہناک واقعہ اور عظیم حادثہ تھا لیکن ساتھ ہی یورپ کے قلب پر حکومت ترکیہ کی ایک نئی اسلامی حکومت نمودار ہوئی، غرناطہ کا سقوط اور دولت عثمانیہ کا عروج یہ دو واقعے ہیں، جو ایک ہی زمانہ میں واقع ہوئے۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی بھی تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ ہے، لیکن اسی زمانہ میں ہندوستان کی حکومت نے ترقی و وسعت اختیار کی اور اس بیسویں صدی کے شروع میں یورپ کے ہاتھوں عالم اسلامی کو سخت چرکے لگے اور یورپ کی حکومتوں نے حکومت ترکیہ کو وراثت کے طور پر تقسیم کرلیا لیکن ساتھ ہی سارا عالم اسلام جیسے جاگ اٹھا، ذہنی بیداری عام ہوئی، آزادی و حریت کا سیاسی شعور پیدا ہوا اور مختلف اسلامی تحریکیں چل پڑیں، آج ایسا نظر آرہا ہے کہ جیسے سارا عالم اسلام ایک نئی کروٹ لینے کو ہے، دیکھیئے پردہ غیب میں کیا پوشیدہ ہے؟ تاریخ اسلالی ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے، اسلام کا آفتاب اگر ایک افق میں چھپتا ہے تو دوسرے افق سے اس کی تیز کرنیں نمودار ہوتی ہیں اور یہ اس لیے کہ اسلام ہی اللہ کا وہ آخری پیغام ہے جو ساری انسانیت کے لیے شمع ہدایت ہے۔ اس کے بعد اس عالم کے لیے اب کوئی دوسرا پیام نہیں اور مسلمان اس "پیام" کے حامل آخری امت ہے۔ اگر یہ ہلاک اور ضائع ہوگئے تو پھر وہ آخری پیغام ضائع ہوجائے گا اور انسانیت کی کشتی ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کا وجود اس کائنات میں کفر و باطل کے لیے ہمیشہ ایک "خطرہ" رہا کیا ہے اور اسلام ہی وہ واحد نظام زندگی ہے جس کی بقا سارے باطل نظامہائے حیات کے لیے پیام موت ہے، کافرانہ نظام زندگی اور ابلیس کی خدائی اسی وقت تک جاری ہے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
129-130


جب تک اسلامی نظامِ حیات ابھر کر سامنے نہیں آجاتا اور "مرد مومن" کا کوئی گروہ اس دنیا میں موجود نہیں ہے لیکن جس دن یہ امت بیدار ہوئی جس کی خاکستر میں "شرار آرزو" پوشیدہ ہے تو پھر ابلیس کی خدائی اور کافرانہ نظامِ حیات نقش بر آب ثابت ہوگا۔ علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم "ابلیس کی مجلس شوریٰ" میں اس حقیقت کی اچھی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے تمثیلی انداز مین یہ بات واضح کی ہے کہ آج ابلیسی نظام کو سارا خطرہ و خوف "اسلام" ہی سے ہے، ابلیس کہتا ہے کہ اسلام کا آئین چشم عالم سے پوشیدہ رہے تو اچھا ہے کیونکہ اسی میں ہماری بقا ہے اور بسا غنیمت ہے کہ آج خود مومن محروم یقین ہے اور پھر اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اچھا ہے انہیں الہٰیات اور علم کلام کے مباحث میں الجھائے رکھو تاکہ بساط زندگی میں ان کے تمام مہرے مات ہوں اور اسی میں ہماری خیر ہے کہ اس جہان پر اوروں کا قبضہ رہے اور مومن قیامت تک غلام رہے۔ کیونکہ :۔
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
اقبال کی یہ تمثیلی نظم ابلیس کی زبان میں اس حقیقت کی اچھی طرح پردہ کشائی کرتی ہے کہ اس عالم میں "مسلمان" ہی کا وجود کفر و باطل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کائنات میں پھیلے ہوئے ابلیسی نظام کو اگر کوئی خوف و خطر ہے تو وہ صرف اسلام سے ہے۔
اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باطل پرستوں اور ابلیس کے کارندوں نے اپنی "مسلم دشمنی" کی اس مہم میں کامیابی حاصل کی اور یہ دراصل اسلام اور اس کی آنے والی نئی نسلوں کے خلاف ایک منظم سازش تھی ان کی سب سے بڑی کوشش یہی رہی کہ مسلمان کی نئی نسلوں کے سینوں میں ایمان و یقین کی جو چنگاریاں دبی پڑی ہیں انہیں جس طرح بھی ہوسکے بجھا دیا جائے اور عرب و عجم ہر جگہ ان کی جرات دینی اور جذبہ اسلامی کو فنا کردیا جائے کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو ایک مسلمان کو ہر قسم کی قربانی اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے آمادہ کرتا ہے، بڑے سے بڑے مصائب میں بھی اس کے پائے استقامت میں لغزش نہیں ہوتی بلکہ نہایت خندہ پیشانی سے اس کا مقابلہ کرتا ہے، اقبال نے اپنی نظم "ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام" میں اس حقیقت کی طرف خوب نشاندہی کی ہے:۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدً اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کی حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کے غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے آسان اور بہتر راستہ ایسا نظام تعلیم جاری کرنا تھا، جو مسلمان نوجوانوں کے دل دماغ سے دینی روح، جذبہ اسلامی اور فکر اسلامی کو یکسر ختم کردے اور ان میں ایسا مادی نقطہ نظر پیدا کردے جو انہیں مادی زندگی کا رسیا اور عارضی و فانی زندگی کا دلدادہ بنائے، خود اعتمادی جاتی رہے اور رشک و ریب میں مبتلا ہوجائے، اکبر مرحوم نے ایسے ہی نظام تعلیم کے متعلق کہا تھا:۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اقبال کی نگاہ حقیقت شناس دیکھتی ہے کہ کفر و باطل اپنے مقصد میں کامیاب ہورہا ہے۔ دینی شعور سارے عالم میں کمزور ہوچکا ہے، ایمان کی چنگاریاں بجھ چکی ہیں روح جہاد ختم ہوچکی ہے، مادیت اور نفع پرستی کا دور دورہ ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے:۔
ذکر عرب کے سوز میں فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات نے عجمی تخیلات
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
131-132


قافلہ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
اقبال کی طبیعت حساس کو جب مسلمانوں کی موجودہ زندگی کا احساس ہوتا ہے تو وہ بے چین ہوجاتا ہے اور خون کے آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہوجاتے ہیں اور اس کی شاعری سے خون دل و جگر ٹپکنے لگتا ہے اور وہ توحید اسلامی کے اس وارث سے شکوہ سنج ہوتا ہے:۔
اے لا الہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ ، کردار قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا، جذب قلندرانہ
اسی قسم کا شکوہ اور دوسری جگہ بھی فرماتے ہیں۔
وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ سیماب

تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف

اقبال کے نزدیک ان تمام خرابیوں کا باعث مومن کا وہ قلب ہے ایمان سے خالی ہوچکا ہےاور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہیں، کہتا ہے:۔
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
اقبال کی نگاہوں کے سامنے مسلمانوں کی موجودہ حالت و کیفیت عیاں ہے اور وہ اس حالت زار پر بے چین و پریشان اور شکوہ سنج بھی ہے، لیکن چونکہ اقبال یاس و قنوط کا شاعر نہیں بلکہ امید اور آس، یقین و ایمان کا "پیغامبر" ہے اس لیے وہ مایوس نہیں ہے اسے اس بات پر یقین ہے کہ عالم اسلام کو جو سیاسی تھپیڑے لگے ہیں، اس نے مسلمانوں کو بیدار کردیا ہے اور ان میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے اپنی مشہور نظم "طلوع اسلام" میں وہ کہتا ہے:۔
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
عروق مردہ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
شکوہ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی
ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اقبال کی نگاہیں یہ دیکھ رہی ہیں کہ مغربی تہذیب نے اپنا پارٹ اب ادا کردیا ہے، اس کی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہیں، اس کے چہرے سے ضعف و اضمحلال کے آثار نمایاں ہیں، اس عالم میں اس کا وجود اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، اس کی مثال اس پکے ہوئے پھل کی ہے جو عنقریب ٹوٹ کر گرنے والا ہو، اس کی جگہ اب ایک نئی تہذیب لینے والی ہے، یہ "عالم پیر" مر رہا ہے اور ایک "جہان نو" پیدا ہورہا ہے، مگر اقبال کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ جب تک اس جہان نو کی امامت و قیادت "مرد مومن" کے ہاتھوں میں نہیں آتی اس وقت تک یہ انسانیت ان فرنگی مقامروں کے ہاتھوں بلاکت و بربادی سے دوچار ہوتی ہی رہے گی ضرورت ہے کہ "مرد مومن" اٹھے اور ایک "جہان نو" کے بانی کی حیثیت سے موجودہ بیمار انسانیت کے دکھوں کا مداوا بن کر اسے ایک نئی زندگی اور توانائی عطا کرے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
133-134

جہان نو ہورہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرد مومن کا مقام


مصنف مدظلہ نے مولانا روم کے تذکرے میں لکھا ہے کہ مستبد شخصی سلطنتوں کے اثرات، پیہم مظالم اور مسلسل جنگوں کے نتیجے میں عام انسانوں میں زندگی سے بیزاری، اپنے مستقبل سے مایوسی اور احساس کمتری پیدا ہوگیا تھا اور انسان خود اپنی نگاہ میں ذلیل ہوگیا تھا، عجمی تصوف نے فنائیت، افکارِ ذات اور خود شکنی کی تلقین اتنے جوش اور قوت سے کی تھی کہ خود نگری اور خود شناسی جس پر حرکت جدوجہد اور کشمکش موقوف ہے ایک اخلاقی جرم اور مانع ترقی سمجھی جانے لگی تھی، انسانوں کے سامنے ملکوتی صفات کے حصول اور لوازمِ بشریت سے گریز ، تجرد و تفرید کی تبلیغ اس انداز میں ہوئی تھی کہ انسان کو اپنی انسانیت سے شرم آنے لگی تھی اور وہ اپنی ترقی انسانیت میں نہیں بلکہ ترک انسانیت میں سمجھنے لگا تھا، عام طور پر مقام انسانیت سے غفلت اور انسان کی رفعت و شرافت سے ذہول پیدا ہوگیا تھا اور اس وقت کی ادبیات و شاعری میں تحقیر انسانیت کی روح سرایت کر گئی تھی، اس کا نفسیاتی اثر یہ تھا کہ لوگوں میں عام طور پر اپنے بارے میں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 54
استاتذہ مشّغول رہتے ہیں ، ان کی لکھی ہوئی چیزیں درس کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں، ان کی تصنیفوں کی شرحیں لکھی جاتی ہیں اور ان کے اجمل کی تفصیل کی جاتی ہے، ان کے ثابت شدہ نظریات کی تائید و تشریح ہوتی ہے ، اور ان کے ایک ایک لفظ پر کتاب لکھی جاتی ہے اور ان کیا ایک ایک کتاب سے پورا پورا کتاب خانہ تیار ہو جاتا ہے ، وہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی ، وہآں افکار و نظریات کی تشریح و توصیح نہیں کی ہوتی بلکہ افکار و نظریات وضع کیے جاتے ہیں ، آثار و نشانات پیدا ہوتے ہیں ، یہ ادارہ اور مدرسہ ہر جگہ ہر زمانے میں پایا جاتا ہے ، یہ دراصل ایک داخلی مدرسہ ہے ، جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہےاور ہر انسان اسے اٹھائے ہر مقام پر لئے پھرتا ہے اور وہ دل کا مدرسہ اور ضمیر و وجدان کا دبستان ہے اور ایک ایسا مدرسہ ہے جہاں روحانی پرداخت اور آلہی تربیت ہوتی ہے ۔

اقبال نے اس ادارے سے اسی طرح تکمیل کی جس طرح دوسرے بہت سے وہپی انسان اس عظیم ادارہ تعلیم و تربیت کے بعد نکلے ، اقبال کی سیرت و شخصیت اس کا علم ق فضل اور اخلاق ، یہ سب کا سب مرہون منت ہے اسی قلبی دبسان کا جس میں اقبال نے برسوں زانو تلمذ تہ کیا ہے اقبال کے کلام کا مطالعہ اس حقیقت کی اچھی نشاندہی کرتا ہے کہ خارجی مدرسہ کی بہ نسبت داخلی مدرسہ نے اس کی زندگی میں ایک درد و سوز ، تب و تاب اور ایک نئی قوت و توانائی بخشی ، اگر وہ اپنے داخلئ مدرسہ میں تعلیم و تربیت حاصل نہ کرتا تو پھر نہ اس کی یہ جاذب نظر شخصیت ہی ظاہر ہوتی اور نا اس کا شعور و وجدان اس قدر شعلہ جانسوز نظر آتا ، اور نہ اس کا آتشیں پیام قلب و نظر کے لئے سوز جان داں ثابت ہوتا اقبال کے کلام میں اس ادارہ کے استاتذہ و معلمین اور مرتبن کا ذکر و اعتراف بہت ہی
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 60​
اور مقصد سے اخلاص کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے، اس لیے کہ اس کا مقصد ، موضوع اور غرض و غایت اس کی روح میں سرایت کر جاتی ہے، قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور فکر و عمل پر چھا جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت تحلیل ہو جاتی ہے، اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے، جب کچھ لکھتا ہے، تو مقدر کے قلم سے لکھتا ہے، غرض یہ کہ اس کے فکر و خیال، دل و دماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔​
ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے، وہ ہے مادہ پرستی اور پھر اس سے نفع پسندی، جنسی محبت اور نفسانی خواہش! جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے، جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے، اور آج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب و ایمان کی حرارت، حب صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں، اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے اور نہ کوئی روح، نہ شعور وجدان ہے، نہ مسرت و غم کا احساس! اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے، جو کسی جابر و قاہر شخص کے دست تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔​
جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعراء سے بہت کچھ مختلف ہے، اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس قلب و وجدان اور اعصاب میں حرکت و حرارت، سوز و گداز، درد و تپش پیدا کرتا ہے، اور پھر ایک ایسا شعلہ جوالا بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں کے ڈھیر، جل کر فنا ہو جاتے ہیں، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقتور ایمان، پردرد، پرسوز سینہ اور بے چین روح​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 61​
رکھتا ہے، قابل صد ستائش ہے و ہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اور ایسی قابل قدر شخصیت تیار کی۔​
اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھر میں موجود ہے، مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم، اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں، میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر۔۔۔۔ اثر انداز ہوئی ہے، اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں، اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے، اقبال کا ایمان چونکہ "نومسلم" کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انہیں نہیں ملا ہے اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف، تعلق اور شعور و احساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت زیادہ ہے، اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے پڑھنے سے بہت مختلف رہا ہے، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کا یہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعد نماز صبح قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، اقبال کے والد جب انہیں دیکھتے تو فرماتے کیا کر رہے ہو؟ اقبال جواب دیتے قرآن پڑھ رہا ہوں، کچھ دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر ایک دن اقبال نے پوچھا، ابا جان! آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں، اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے، اس کے بعد اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے، اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں:۔​
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب​
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 62​
علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گزاری، قرآن مجید پڑھتے، قرآن سوچتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا، اس سے انہیں ایک نیا یقین، ایک نئی روشنی اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی، جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا، ان کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی، اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو ۔۔۔۔ علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے، وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیات انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبہ پر بھی اسے لگائیے، فوراً کھل جائے گا، وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے۔​
تیسرا عنصر جس کا اقبال کی شخصیت میں بڑا دخل ہے، وہ "عرفان نفس" اور "خودی" ہے۔ علامہ اقبال نے عرفان ذات پر بہت زور دیا ہے، انسانی شخصیت کی حقیقی تعمیر ان کے نزدیک منت کش "خودی" ہے، جب تک عرفانِ ذات نہ حاصل ہو، اس وقت تک زندگی میں نہ سوز و مستی ہے اور نہ جذب و شوق۔ اس سلسلہ میں اقبال کے یہ شعر ان کے فکر کی پوری ترجمانی کرتے ہیں:۔​
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی​
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن​
من کی دنیا؟ من کی دنیا، سوز و مستی ،جذب و شوق​
تن کی دنیا؟ تن کی دنیا، سود و سودا، مکرو فن​
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں​
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دھن، جاتا ہے دھن​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top