ذوالقرنین
لائبریرین
صفحہ 63
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا، نہ تن
ان کے کلام میں معنوی بلندی کے ساتھ ساتھ، لفظوں کی بندش، ہم آہنگی، اتار چڑھاؤ، روانی و تسلسل اور موسیقیت اس قدر زیادہ ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
علامہ اقبال کو خودی کی تربیت اور عرفانِ نفس پر بڑا اعتماد تھا، ان کے نزدیک خود شناسی و خود آگاہی انسان کو اسرار شہنشاہی سکھلاتے ہیں، عطار ہوں یا رومی، رازی ہوں یا غزالی، بغیر عرفانِ نفس کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی عرفانِ نفس کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے اس رزق پر موت کو ترجیح دی جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو اور دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اقبال کے خیال میں زیادہ بہتر ہے جس کی فقیری میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خوُ بوُ اور ان کا اسوہ ہو، اور حق تو یہ ہے کہ عرفانِ نفس اور عرفانِ ذات ہی کے حصول کے بعد انسان جرأت سے اس بات کا اظہار کر سکتا ہے کہ :۔
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی
اقبال کا تصور خودی خود اقبال میں اس قدر رچ بس گیا کہ ان کی زندگی عرفانِ نفس کا زندہ نمونہ تھی، ان کی زندگی کے اوراق میں ان کی خودی، خود داری، خود اعتمادی کے نقوش بہت ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں، عرفانِ نفس ہی کے لیے دوسروں کو مخاطب کرکے وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں۔