یہ سلسلہ بھی ایک روحانی سلسلہ ہے جو شیخ عبد القادر جیلانی، جناب علی کرم اللہ وجہ سے ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوتا ہے۔ یہ بھی چاند کی سیاحت کرنے والے انسانوں کی طرح ایک گروہ انسانی ہے جو سات آسمانوں اور اس سے آگے کے سیاح ہیں۔
جیسے چاند کی سیاحت کے لیے اسپیس شٹل چاہیے۔ اس سلسلے کے لوگوں کو چاند کی نورانیت سے بڑھ کر لطافت چاہیے۔ یہی لطافت انکی سواری ہے۔
جیسے چاند پر جانے والوں کو مضر شعاؤں، آکسیجن اور فضائی دباؤ سے حفاظت کے لیے اسپیس سوٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ان حضرات کو نفس اور شیطان سے حفاطت کے لیے اور اپنی لطافت و نوارنیت برقرار رکھنے کے لیے اوراد و وظائف کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو شجرہ کہا جاتا ہے۔
جس طرح چاند پر جانے والوں کو کئی کئی سال ایک سخت مشکل ٹریننگ سے گزرنا پڑتا ہے اسی طرح ان حضرات کو اپنی لطافت و نوارنیت برقرار رکھنے کے لیے شریعت مطہرہ کی سخت پابندی کرنی پڑتی ہے۔
جس طرح چاند پر جانے والوں کو قلیل غذا و پانی اور محدود سامان پر گزارنا کرنا سیکھنا پڑتا ہے ایسے ہی ان حضرات کو آہستہ آہستہ اپنے جسم کو مختصر کلام، مختصر خوراک کا عادی بنانا پڑتا ہے۔
جیسے چاند پر جانے والوں کے لیے ایک یا ایک سے زائد ٹریننر ہوتا ہے اسی طرح ان حضرات میں سلسلے کے شیخ ہوتے ہیں۔ اگر وہ شیخ خود کسی بات کے بارے میں نہیں جانتے تو اپنے سے اوپر کے شیخ سے رابطہ کر اسکی وضاحت حاصل کرتے ہیں۔
جیسے چاند پر جانے والوں کے لیے شیٹل صحیح تیار نہ کی جائے تو حادثہ ہوتا ہے اسی طرح سے شیخ کاذب ہو یا سلسلہ منقطع ہو تو ہلاکت ہوتی ہے۔
جیسے چاند تک جانے کے لامحدود راستے ہیں لیکن یقینی کامیابی کے لیے منتخب ایک کو کیا جاتا ہے اسی طرح سات آسمانوں اور اس سے آگے کی سیر کے لامحدود راستے ہیں لیکن ہلاکت سے بچنے کے لیے یقینی سلامتی کی گزرگاہیں اختیار کی جاتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اندر آسمان کی سیر کا جذبہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا لیکن اسپیس سائنس سے بہت کم لوگ سیر کر پائیں گے۔ اسکے بجائے ہمیں وہ صاف ستھرا ماحول بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ذہن سوزی بھی نہ کرنی پڑے اور ہر امیر و غریب کل کی کل مادی دنیا اور اس سے آگے کی سیر کرے۔