جا ن
محفلین
اصل مسئلہ غالباً ڈر کا ہے اور ڈر شاید اپنا سکھایا ہوا رٹا بھولنے پر نہیں بلکہ اس سے ہے کہ کہیں یہ سوچنا نہ شروع کر دیں!رٹا بھی کافی دیر تک چل جاتا ہے۔ ان کو تو لگتا ہے اپنے سکھائے ہوئے پر رٹے جتنا بھی اعتبار نہیں۔
اصل مسئلہ غالباً ڈر کا ہے اور ڈر شاید اپنا سکھایا ہوا رٹا بھولنے پر نہیں بلکہ اس سے ہے کہ کہیں یہ سوچنا نہ شروع کر دیں!رٹا بھی کافی دیر تک چل جاتا ہے۔ ان کو تو لگتا ہے اپنے سکھائے ہوئے پر رٹے جتنا بھی اعتبار نہیں۔
علمائے کرام کو سات سلام، ایسے ہی سلام جیسے ہمارے کالج، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کو۔ جناب من، علمائےٓ کرام کو ان بدمعاش ، رشوت خور، فرقے باز ، روپے کے پیچھے بھاگنے والے سیاسی بازیگر ملاء کے ساتھ، کوئی کیسے شامل کرسکتا ہے؟ ہم تو بات کررہے ہیں اس ابن الوقت ملاء ٹولے کی۔ علمائے کرام تو اپنا دامن بچا بچا کر چلتے ہیں جناب، وہ ایسا کب کرتے ہیں؟ آپ اپنی نیت اور سوچ دونوں پر غور کریں، کہیں ملاء نے آپ کو ہیپناٹائز کرکے، اپنے آپ کو علمائے کرام کی فہرست میں تو نہیں درج کروا لیا؟
آپ شاید ٹی وی ڈرامے زیادہ دیکھتے ہوں گے لیکن براہ کرم ہمیں ایسے الفاظ میں اپنا مدعا سمجھائیں جو ہم سمجھ بھی سکیں۔امریکی مسلمان 'میرے پاس تم' ہو کے دانش کی طرح ہیں۔ جن کوامریکی نظام دانش کی بیوی کی طرح مفاہمت سکھا دیتا ہے۔ امریکی مسلمان جو کچھ بھی ہیں برصغیر سے آنے والی روحانی خیرات سے ہیں۔
آپ کے گنوائے ہوئے ان چار میں سے پہلے تین شعبہ جات ایسے ہیں جن پر ایک عام آدمی اپنی روز مرہ زندگی کے لیے بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، یہاں تک کہ زندہ رہنے کے لیے بھی۔آپ کی نظر پولیس، بینک، بازار اور میڈیا پر نہیں گئی۔ کام جاری ہے۔ اور کام کر بھی گئے تھے۔
نہیں صاحب۔ اگر پاکستانی علماء اتنے علم و حکمت کا مظاہرہ کرتے پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ جس دانائی کا آپ انہیں کریڈٹ دینا چاہتے ہیں، وہ تب ممکن ہوتا جب علماء خود عوام کو ایسا طریقہ کار بتاتے جس سے مساجد میں عبادت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بھی لوگوں کو ایک دوسرے سے غیر ضروری میل جول سے روکا جاتا۔ ہندوستان میں علمائے دین نے عوام کو خود ایک ایسا طریقہ بتایا جو اوپر بیان کر چکا ہوں۔ تین سے پانچ افراد مسجد میں مستقل رہیں، عام آبادی سے میل جول نہ رکھیں، باقی سب گھروں پہ رہیں، وہ بھی آپس میں غیر ضروری میل جول نہ رکھیں اور گھروں پر ہی عبادات کریں۔ دیگر کئی مسلم ممالک بھی ملتا جلتا طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔ پاکستانی علماء کا اسلام نرالا ہے کہ اس حل کو رد کر کے، اس کو "مساجد کو تالا لگانے کی سازش" قرار دے کر، پورا زور لگایا گیا کہ لوگوں کی مسلسل آمد و رفت اس حد تک جاری رہے کہ مرض کو پھیلنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ معلوم ان کو بھی تھا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کے فوراً بعد بڑے بڑے مفتیوں کے یہ بیانات بھی شروع ہو گئے کہ ہم تو گھروں پہ عبادات کریں گے۔اسی لیے علماء کے اقدام سے یہ ہوا کہ مساجد کھلیں ہیں لیکن مفاد عامہ کے لیے نماز سب گھر پڑیں۔ یوں سب کو راحت آگئی۔
حضرت، اتنی عمر گزار لی۔ جائز تنقید اور بغض میں فرق کرنا سیکھ لیں۔ ثواب ہو گا۔بغض علماء ماشاءاللہ ۔۔۔۔
آمدن ہم ان کو ان کے گھروں تک پہنچا دیں گے۔ آمدن کے لیے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا کیا معنی؟آمدنی بند ہو جائے گی تو ملا مسجد میں نہ اذان دے گا، نہ جماعت کرائے گا، نہ خطاب کرے گا اور نہ ہی مدرسے میں کلاس لے گا۔ کل ملا کر نتیجہ یہ ہوا کہ مساجد اور مدارس کا موجودہ انتظام بند ہو گیا۔ جو جو لوگ مسجد مدارس سے وابستہ تھے وہ چلے گئے صنعتوں، کھیتوں اور اسکول میں پڑھانے کی نوکریوں پر۔ اب تصور کریں ایک ایسی دنیا کا اسلامی علوم کا عالم ناپید ہے۔ سب اپنے گھر میں نماز پڑھتے ہیں۔ اگر کسی مسئلے میں رہنمائی چاہیے تو آن لائن جا کر معلومات تلاش کریں اور جو سمجھ میں آئے عمل کریں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ملاء کی آمدنی کم ہونے یا ختم ہوجانے سے آپ کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ مثال کے طور پر اگر تمام کے تمام ملاء ختم ہوجائیں تو آپ کیسی دنیا تعمیر کریں گے؟ مجھے پہلا مراحلہ سمجھ میں آگیا کہ ملاء ختم ہو جائیں، اب آگے بڑھتے ہیں آپ کیسی دنیا تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟
حضرت، اتنا تو مجھے بھی یاد ہے کہ اسی تھریڈ کے شروع میں فاروق صاحب حلالے کے نام پر ہونے والے بزنس پر چوٹ کر چکے ہیں۔آپ کی بات میں وزن اسوقت زیادہ ہو گا جب شریعت مطہرہ کے نام پر ہونے والے بے شرمحلالے کی چوٹ کریں۔
کیا اب ان کی بات کو وزن دیا جا سکتا ہے؟پھر ملاء اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتا ہے تو یہ بدمعاشی ہے۔
اگر اس ذہن سازی اور رہنمائی کا اثر ایک ہفتے تک بھی نہیں ٹھہر پاتا تو کوئی بہتر اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اور ایسے رہنماؤں کو واپس مدرسہ بھیجنے کی ضرورت ہے کہ پہلے سیکھ کر آئیں کہ رہنمائی کرتے کیسے ہیں۔سبق تو مسجد میں سکھائے بھی سب کو یاد ہوتے ہیں لیکن جامعات نظری تعلیم کا ادارہ ہے مسجد عملی تعلیم کا ادارہ ہے۔ مسجد میں محلے کے افراد کی ذہن سازی کی مدد سے کردار سازی کی جاتی ہے جو سودی معیشت کی بنا پر کمزوریوں کا شکار ہے۔
اگر پاکستانی علماء اتنے علم و حکمت کا مظاہرہ کرتے پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔
آمدن ہم ان کو ان کے گھروں تک پہنچا دیں گے۔
اگر اس ذہن سازی اور رہنمائی کا اثر ایک ہفتے تک بھی نہیں ٹھہر پاتا تو کوئی بہتر اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے
حضرت، اتنا تو مجھے بھی یاد ہے کہ اسی تھریڈ کے شروع میں فاروق صاحب حلالے کے نام پر ہونے والے بزنس پر چوٹ کر چکے ہیں۔
کیا اب ان کی بات کو وزن دیا جا سکتا ہے؟
یہ کیسا سلسلہ ہے اور اس سے مسائل کے حل کیسے ملتے ہیں، کچھ ہمیں بھی آگاہ کیجیے.اس جیسے لاکھوں مسائل کا عملی حل سمجھنے جاننے اور سیکھنے کے لیے آپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ سلسلہ عطاریہ میں داخل ہو جائیں۔
پی ٹی آئی حکومت غالبا سویڈن کے نقش قدم پر چل رہی ہے جہاں تا حال کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہوادنیا بھر کے مسلم ممالک میں مساجد بند ہیں سوائے پاکستان کے۔
ذاتیات، کردار کشی اچھا طعنہ ہے صاحب۔
ذرا اپنے مراسلوں پر غور کیجیے جن میں علمائے کرام کی تضحیک کی گئی ہے۔ شاید وہ ذاتیات پر حملہ نہ ہو یا ان میں اخلاقیات کا اعلی معیار قائم کیا گیا ہو؟