جب کوئی نئی صورتحال پیش آتی ہے تو اصول شرع کی روشنی میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ عذر کی صورت میں احکامِ شرع میں تخفیف ہونا ایک مسلمہ اصول ہے۔ ذیل میں چند احادیث نقل کر رہا ہوں جن میں عذر کی صورت میں اصل حکم شرعی میں رخصت دی گئی ہے۔ ان احادیث اور اس جیسی دوسری احادیث کی روشنی میں یہ اجتہاد کیا گیا ہے۔ میں یہاں ان پر تفصیلی کلام نہ کرسکوں گا البتہ آپ کی دلچسپی کی وجہ سے نقل کر رہا ہوں۔اس حوالہ سے حدیث بتایئے
جب کوئی نئی صورتحال پیش آتی ہے تو اصول شرع کی روشنی میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔
احادیث کی روشنی میں ایک نئی صورتحال سے متعلق اجتہاد کرنا واضح احکامات کے خلاف کیسے ہے؟ جبکہ میں احادیث بھی نقل کرچکا ہوں۔اجتہاد واضع احکامات کے خلاف نہیں ہوسکتا
احادیث کی روشنی میں ایک نئی صورتحال سے متعلق اجتہاد کرنا واضح احکامات کے خلاف کیسے ہے؟ جبکہ میں احادیث بھی نقل کرچکا ہوں۔
نیز یہ کہ "ایسی صورت حال" میں شریعت کے وہ کون سے "واضح احکامات" ہیں جن کی مخالفت کی جارہی ہے؟
"ابلاغ" کا مسئلہ عام طور پر اشعار میں ہوا کرتا ہے لیکن میں تو نثر لکھ رہا ہوں۔ ایسا کرتے ہیں کہ دونوں کچھ دیر توقف کرتے ہیں۔ تب تک آپ میری ذکر کردہ باتوں پر غور کرلیں اور میں اس پر کہ ابلاغ کس طرح کرنا ہے۔یہ نئی صورتحال نہیں ہے۔ اس میں دو چیزیں ہیں۔ ۱یک یہ کہ گھروں میں باجماعت نماز بھی ہوئی ہے یہاں تک کہ اذان میں گھروں میں نماز ادا کرنے الفاظ شامل کئے گئے۔ دوم یہ کہ حضرت محمدﷺ کے ارشادِ گرامی کا یہ مفہوم کہ وبائی مریض اپنے گھر یا گاؤں سے کہیں نا جائے اور نا ہی لوگ اس گھر یا گاؤں میں جائیں جہاں ایسا مرض پھیلا ہوا ہو۔
پاکستان کے علما نے جو ماڈل پیش کیا ہے اس سے حکومت متفق ہے اور اسی پر عمل در آمد ہوگا۔ البتہ اس تھریڈ میں جو لوگ علماء پر تنقید کر کے اپنا 'مرزا' راضی کر رہے ہیں ان کی اس روش سے مجھے سخت اختلاف ہے کہ ایک آرگنائزڈ طریقے سے مخصوص لوگ علما ئے کرام کی ٹرولنگ کرتے ہیں کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علماء پر بے جا تنقید اردو محفل کی پالیسی کا حصہ ہو لیکن پھر حسن ظن کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ہندوستان کے علماء پہلے ہی یہ حل بتا چکے ہیں کہ مسجد پر تین سے پانچ افراد کی ڈیوٹی لگا کر باقی لوگ گھروں پر نمازیں ادا کریں۔ ایسے میں ایک طرف یہ اصرار کرنا کہ مساجد میں لوگ اسی تعداد میں آتے رہیں اور دوسری طرف دکھانے کو احتیاطی تدابیر کے نام پر یہ تصاویر پیش کرنا۔ کچھ واضح تو کریں کہ آپ کس طرح کے ماڈل کے ساتھ اتفاق کر رہے ہیں؟ جو ماڈل بیشتر علماء پیش کر رہے ہیں، اس میں تو اس تصویر جتنا فاصلہ بھی رکھنا ممکن نہیں، باوجود اس کے کہ یہ فاصلہ بھی اس وباء میں محفوظ نہیں ہے۔
تو بھیا کیا میں نے آپ پر یہ لیبل لگائے؟ جس سے اختلاف ہے اس سے شکوہ کیجیے نا۔آپ نے کافی اچھی بات کہی۔ آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ بس ایک خلش دل میں رہے گی کہ کاش کسی کو یہ اچھی اچھی باتیں تب بھی یاد آئی ہوتیں جب اسی فورم پر ایک ایک تھریڈ میں سات سات بار مجھ سمیت دیگر ساتھیوں پر قادیانی، دہریے اور دیگر اقسام کے لیبل لگائے گئے۔ اب میرے صرف حقیقت ٹی وی کا نام لینے پر یکدم اخلاقیات یاد آ جاتی ہیں؟
ایسے ٹھیک ہے؟جاسم محمد! سید ذیشان کی طرح آپ بھی پورے پورے کالمز/مضامین نقل کرنے کی بجائے جامع اور مختصر مراسلہ بھیج سکتے ہیں؟
اب شیطانی کرنے کیلئے کسی شیطان کی ضرورت نہیں رہی۔اب مولویوں کو وہ حدیث یاد نہیں آ رہی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر دو نمازیوں کے درمیان فاصلہ ہو تو درمیان میں شیطان ہوتا ہے۔
باجماعت نماز کا بنیادی مقصد ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ادا کرنا ہے۔ یہاں آپ نے سابق صدر ممنون حسین والی گنجائش نکالی ہےالبتہ موجودہ حالات میں اگر حکام کی جانب سے باجماعت نماز میں مل مل کر کھڑے ہونے کی اجازت نہ دی جائے، یا مسلمان ماہرین اطباء کی جانب سے موجودہ وابائی وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری قرار دیا جائے، تو باجماعت نماز میں دو افراد کے درمیان کسی قدر فاصلے سے کھڑے ہونے کی صورت میں نماز ادا کرنے کی گنجائش ہوگی
مسئلہ وہی ہے کہ اس طرح چندہ اکٹھا نہیں ہو سکتا۔مساجد میں تین سے پانچ افراد کی ڈیوٹی لگانے اور باقیوں کے نماز گھروں پر ادا کرنے میں آخر کیا مسئلہ ہے؟
یہ کوئی نئی صورتحال نہیں ہے۔ ماضی میں بھی وبا کے دوران خانہ کعبہ کا طواف و مسجد الحرام مکمل بند رہی ہے۔ اگر کوئی نئی صورتحال ہے تو وہ اس ملک کے علامہ کرام کا وبا کے دنوں میں بھی زور زبردستی مساجد اور مدرسے کھلوانے پر اصرار ہے۔احادیث کی روشنی میں ایک نئی صورتحال
اس کا بھی مسئلہ نہیں۔ بغیر رش لگائے بھی مسجد کو عطیات پہنچائے جا سکتے ہیں۔ اور اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ وہاں رہنے والے طلباء کو کسی طرح کی پریشانی ہے تو دل کھول کر ان کے لیے ضروریات زندگی کا بندوبست کریں گے۔مسئلہ وہی ہے کہ اس طرح چندہ اکٹھا نہیں ہو سکتا۔
ایک دوست نے معلومات میں اضافہ کیا کہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے اچھے خاصے پیسے ملتے ہیں ۔ اس سے محرومی گوارا نہیں مولویوں کو۔اس کا بھی مسئلہ نہیں۔ بغیر رش لگائے بھی مسجد کو عطیات پہنچائے جا سکتے ہیں۔ اور اگر لوگوں کو معلوم ہو کہ وہاں رہنے والے طلباء کو کسی طرح کی پریشانی ہے تو دل کھول کر ان کے لیے ضروریات زندگی کا بندوبست کریں گے۔
ملتے ہیں میرے خیال میں اس میں کوئی قباحت نہیں وہ پیسے کروڑوں میں نہیں ہوتے اتنے ہوتے ہیں کہ بس عید اچھی گزر جاتی ہے.ایک دوست نے معلومات میں اضافہ کیا کہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے اچھے خاصے پیسے ملتے ہیں ۔ اس سے محرومی گوارا نہیں مولویوں کو۔
کندھے کے ساتھ کندھا ملانے کو اس کا بنیادی مقصد نہیں کہہ سکتے۔ بنیادی مقصد اجتماعیت ہے۔ ایسے میں دور کھڑے ہونے کی گنجائش تو نکل سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بالکل کندھا ملا کر نہ بھی کھڑے ہوں، تو بھی صرف غیر ضروری طور پر ایک مشترکہ کمرے میں اکٹھا ہونا ہی اپنی جگہ ایک خطرناک عمل ہے۔ ایسے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر بلند آواز سے گفتگو کے دوران منہ سے اڑنے والے خردبینی ذرات بھی انفیکشن کو پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ کمرے میں ہوا کا اچھی طرح گزر نہ ہونا مسئلے کو مزید گمبھیر بناتا ہے۔باجماعت نماز کا بنیادی مقصد ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ادا کرنا ہے۔ یہاں آپ نے سابق صدر ممنون حسین والی گنجائش نکالی ہے