میرے علم کے مطابق حکومت پاکستان نے مساجد کی تعمیر نا ہونے کے برابر کروائی ہے۔ مساجد عام طور پر لوگوں کے چندوں سے بنائی جاتی ہیں۔ مسجد کمیٹیوں کے ذریعہ امام مسجد، مؤذن اور مسجد خادمین وغیرہ کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسجد بنانے کے لئے عموماً زمین خریدی نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ درست ہے لیکن بات حکومت پاکستان کی نہیں ہے، میں نے مثال 'سرکاری مسجد' کی دی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل کی بیشتر مساجد سرکاری ہیں۔ سرکاری، نیم سرکاری اور پرائویٹ اداروں کی تعمیر کردہ بیشتر مساجد سرکاری ہیں۔ سرکاری یا نیم سرکاری زمین پر تعمیر شدہ مساجد چاہے سرکاری نہ ہوں لیکن ان میں سرکاری عمل دخل ہوتا ہے۔ مزاروں وغیرہ کی بیشتر مساجد وقف ہوتی ہیں اور ان میں محکمہ اوقاف کا دخل ہوتا ہے۔ بیشتر فیکٹری ٹاؤن شپس (مثلاً واہ کینٹ اور بڑی پرائویٹ فیکٹریوں میں رہائشی سہولتوں) کی مساجد میں سرکاری عمل دخل ہوتا ہے، کیونکہ ملا تفرقہ بازی سے باز نہیں آتے اور فیکٹریوں والے جھگڑے برداشت نہیں کرتے۔ چھاؤنیوں میں مساجد کنٹونمنٹ بورڈ کے تحت ہوتی ہیں۔
کسی زمانے میں مساجد زیادہ ہوتی تھیں اور جامع مساجد کچھ کم، یعنی جہاں جمعے کی جماعت ہوتی ہے۔ عید گاہیں تو بہت ہی کم ہوتی تھیں۔ جہاں عید گاہ نہیں ہوتی تھی وہاں عام طور پر سکول کے گراؤنڈ میں اور کچھ جگہوں پر پارکوں میں نمازعید ادا ہوتی تھی۔ اب دو تین سو افراد کی گنجائش والی مساجد میں جمعہ بھی پڑھایا جاتا ہے اور عید کی نماز بھی۔ کیا ایسی مسجد میں جمعہ کی جماعت ہونی چاہیے جہاں جمعے کے لیے پوری سڑک بند کر دی جاتی ہو؟ اور ایسی مسجد میں عید کی نماز؟؟؟ بدقسمتی سے یہ سب پیسے (چندے) کی وجہ سے ہے جس سے ملا ازم چلتا ہے۔
اگر پرائویٹ مسجد ہو اور میں وہاں جاؤں تو چندہ ضرور دوں گا۔ لیکن جب میں ایک سرکاری مسجد میں جاتا ہوں، جہاں کے 'عملے' کو سرکاری تنخواہ ملتی ہے اور دیکھ بھال کا سرکاری بجٹ ملتا ہے تو میں وہاں چندہ نہیں دوں گا۔
عام حالات میں، میں ان معاملات میں نہیں پڑتا۔ لیکن یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔ میں تو ایک مہینے سے گھر کی قریبی مارکٹ میں سب سے سستے سٹور میں نہیں گیا، کیونکہ وہ اس مسجد کے قریب ہے جہاں تبلیغی بھی جاتے ہیں اور نماز کے بعد کئی نمازی اس سٹور میں آتے ہیں۔