خرم شہزاد خرم
لائبریرین
السلام علیکم
کیسی ہیں شازیہ جی؟
یوں ہی گزرتے گزرتے اس دھاگے پر نظر پڑی تو سوچا ہیلو ہائے کر لی جائے۔
ویسے خرم نے ماشاءاللہ بہت کچھ حاصل کیا ہے لیکن اس سب کی بنیاد محنت اور لگن ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان کو کتنے ہی مواقع کیوں نہ ملیں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں واقعی زندگی کچھ اتنی آسان نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ مشکل ضرور ہے لیکن اگر ہم چاہیں تو پاکستان میں رہ کر بھی یہ سب کچھ بلکہ اس سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ نہ تو پاکستان میں سب بھوک اور غربت سے مر رہے ہیں اور نہ ہی دیگر ممالک میں تمام لوگ بہت آسان زندگی گزار رہے ہیں۔ بے روزگاری، غربت اور بے گھر لوگ تو یورپ ، امریکہ میں بھی ہیں اور مڈل ایسٹ میں بھی۔
خرم کا فیصلہ یقیناً بہت اچھا تھا لیکن پلیز یہ ہر گز مت سمجھیں کہ پاکستان میں رہ کر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے لوگوں نے اپنا لائف سٹائل بہت بہتر کیا صرف اپنی محنت اور لگن کے بل پر۔ بدقسمتی سے پاکستان پر ایک عرصے سے مشکل وقت آیا ہوا ہے اس کے باوجود لوگ اچھا کما بھی رہے ہیں اور اچھی زندگی گزار بھی رہے ہیں۔
ہاں ایک اور بات۔ ہمارے لوگوں کے پاکستان سے باہر جا کر کامیاب ہونے یا اچھی کمائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ باہر جا کر وہ کام بھی ہنسی خوشی کر لیتے ہیں جو وہ پاکستان میں رہ کر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
فرحت آپی بے شک پاکستان میں بھی اگر انسان محنت کرے تو بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن پاکستان میں صرف محنت کام نہیں دیتی کیا آپ سمجھتی ہیں کہ میں نے پاکستان میں محنت نہیں کی ہوگی
جہاں تک میں سمجھا ہوں پاکستان میں وہی لوگ ترقی کر سکتے ہیں (ہمارے حکمرانوں کے نظام کی وجہ سے) جن کے باپ دادا کا بزنس ہو یا جائداد ہو اور میرے پاس ان میں سے کچھ نہیں تھا
پانچ سال چاندنی چوک میں کام کیا پہلے کام سیکھا ایک سال تک ڈھوک حسو سے چاندنی چوک اور چاندنی چوک سے ڈھوک حسو پیدل آتا جا تا رہا گرمی سردی میں ایک سال کے بعد ایک ہزار تنخواہ ملنا شروع ہوئی اس وقت مجھے تین ہزار تنخواہ کی آفر ہوئی تھی لیکن میں اپنے باس کو چھوڑ کر نہیں گیا کہ انھوں نے مجھے سیکھایا تھا اوران کے پاس پانچ سال تک کام کرتا رہا اور جب مجھے نسٹ یونی ورسٹی میں فوٹو کاپیر ٹیکنیشن کی جاب ملی تھی تو اس وقت میری تنخواہ 15 سو روپے سے 4 ہزار روپے تک چلی گئی تھی نسٹ میں چار سال کام کیا فوٹوکاپیر ٹیکنیشن ہونے کے باوجود میں نے وہاں کلرک کا کام کیا اسیسٹن انفارمیشن آفیسر کا کام کیا پی اے ٹو ڈی جی کا کام کیا لیکن اس کے باوجود مجھے چار سال میں کوئی اصافی بونس یا الانس نہیں ملا اور نا ہی مجھے اگلی پوسٹ کے لیے اپلائے کرنے کی اجازت ملی اور جب میں نوکری چھوڑ کر آیا تو قانون کے مطابق ایک مہینہ پہلے استعفیٰ دیا ایک مہینے کی بیسک تنخواہ جمع کروائی ہر کسی سے کلیرنس بھی کروائی اس کے باوجود میری آخری تنخواہ روک لی گئی اور استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا وجہ کیا ہو سکتی ہے
وجہ کچھ بھی نہیں بس وہاں جو اوپر بیٹھے تھے نا وہ نیچے والوں کو اوپر آتا نہین دیکھ سکتے تھے
مجھے اچھی طرح یاد ہے نسٹ میں ایک سعید بھائی ہوتے ہیں اب بھی ہیں وہ بی اے پاس تھے اور نائب قاصد کی نوکری کر رہے تھے اور جب انھوں نے کلرک کے لیے اپلائے کیا تو تین دفعہ ان کو ریجیکٹ کر دیا گیا چوتھی دفعہ جب ان کو کلرک کے لیے سیلکٹ کیا تو ایسے کیا جیسے بہت بڑا احسان کر دیا ہو اور اس کے بعد اس بیچارے سے ایسے کام کرواتے تھے جیسے وہ سرکاری نہیں ان کا اپنا نوکر ہو خیر
پاکستان کی محبت اب بھی دل میں ہے بلکے اب پہلے سے زیادہ ہے لیکن پاکستان میں بہت سے ایسے قصائی ہیں جو کسی کو آگے نہیں جانے دیتے