عبدالصمدچیمہ
لائبریرین
صفحہ نمبر161
تاہنوز اُس رموزداں سرایر عشق کے نے کلام موالات التیام سے فراغت نہ پائی تھی کہ یکایک، فوج زنگیان زشت روستیزہ خود وحشیان درشت گو آزرم جو، ہر چہار طرف سے آ ٹوٹے اور میرے تئیں زخم ہائے کاری سے رشک تحتئہ ارغوان کا کیا۔ پھر اس عاجز کو خبر تن بدن اپنے کی نہ رہی۔ جس وقت کہ دریائے بیہوشی کے اوپر ساحل افاقت کے آیا، دیکھتا کیا ہوں کہ دو پیادے سرہنگ زادے میرے تئیں اوپر چارپائی کے ڈال کر لے جاتے ہیں اور آپس میں ساتھ اس کلام کے متکلم ہیں۔ ایک نے کہا کہ اس لوتھ بے جان کو صحرائے پُر جوش واشباح میں ڈال چلو کہ غذا کُتوں اور کووں کی ہو۔ دوسرا بولا کہ اگر ملکہ تحقیقات کرے اور اس احوال پر اطلاع پاوے، تو مقرر ہے کہ جیتا گڑوادے گی۔ پس تجھ کو زندگی اپنی عزیز نہیں کہ اس طرح بے تمیزی سے بات کرتا ہے۔ تب میں نے یاجوج و ماجوج سے ازراہ عجز و الحاح کے کہا کہ یارو میں زندہ ہوں اور یہ کیا ماجرا گزرا، اگر میرے تئیں راز سے مطلع کروگے، تو بعید مروت و جوانمردی سے نہ ہوگا۔ تب اُن عزیزوں نے حقیقت احوال اس واردات کے تئیں، اس طرح سے اوپر لوح بیان کے نگارش کیا کہ یہ جوان قفس فولادی میں برادر زادہ بادشاہ کا ہے۔ وقتِ رحلت کے باپ اس کے نے کہ صاحب تاج و تخت کا تھا برادر اپنے کو ولی عہد کرکے وصیت کی کہ فرزند عزیز بہ موجب خورد سالگی کے بیہوش و صغیر ہے۔ لازم کہ تعہد خلافت و فرمانروائی و قواعد سلطنت و کشور کشائی کا از راہ دولت خواہی دکار آگاہی بہ فصل الٰہی بوجہ احسن سرانجام دیجیو اور جس وقت کہ لعلِ شب چراغ کان ابہت و شہریاری کا حد بلوغ کو پہنچے تو ساتھ دختر خجستہ سیر اپنی کے نکاح کرکے اوپر تخت سلطنت مختار اور شہریار کیجیو۔ پس بعد واقعہ جاں کاہ فردوس آرام گاہ حضرت ظل اللہ کے برادر کوچک والی افسر واورنگ خلافت کا ہوا۔ بیچ امانت کے خیانت اور عہد سے بد عہد ہوکر شاہزادہ کو ساتھ دیوانگی کے نسبت دے کر، بیچ پنجرہ فولادی کے محبوس اور اِرث سے مایوس کر چوکی مستحکم او پردرواہ باغ کے تعین کی، بلکہ اکثر دفعہ زہر ہلاہل سے مسموم کیا، جو زندگی باقی تھی کارگر نہ ہوا اور دونوں عم زادے، آپس میں منسوب بلکہ
تاہنوز اُس رموزداں سرایر عشق کے نے کلام موالات التیام سے فراغت نہ پائی تھی کہ یکایک، فوج زنگیان زشت روستیزہ خود وحشیان درشت گو آزرم جو، ہر چہار طرف سے آ ٹوٹے اور میرے تئیں زخم ہائے کاری سے رشک تحتئہ ارغوان کا کیا۔ پھر اس عاجز کو خبر تن بدن اپنے کی نہ رہی۔ جس وقت کہ دریائے بیہوشی کے اوپر ساحل افاقت کے آیا، دیکھتا کیا ہوں کہ دو پیادے سرہنگ زادے میرے تئیں اوپر چارپائی کے ڈال کر لے جاتے ہیں اور آپس میں ساتھ اس کلام کے متکلم ہیں۔ ایک نے کہا کہ اس لوتھ بے جان کو صحرائے پُر جوش واشباح میں ڈال چلو کہ غذا کُتوں اور کووں کی ہو۔ دوسرا بولا کہ اگر ملکہ تحقیقات کرے اور اس احوال پر اطلاع پاوے، تو مقرر ہے کہ جیتا گڑوادے گی۔ پس تجھ کو زندگی اپنی عزیز نہیں کہ اس طرح بے تمیزی سے بات کرتا ہے۔ تب میں نے یاجوج و ماجوج سے ازراہ عجز و الحاح کے کہا کہ یارو میں زندہ ہوں اور یہ کیا ماجرا گزرا، اگر میرے تئیں راز سے مطلع کروگے، تو بعید مروت و جوانمردی سے نہ ہوگا۔ تب اُن عزیزوں نے حقیقت احوال اس واردات کے تئیں، اس طرح سے اوپر لوح بیان کے نگارش کیا کہ یہ جوان قفس فولادی میں برادر زادہ بادشاہ کا ہے۔ وقتِ رحلت کے باپ اس کے نے کہ صاحب تاج و تخت کا تھا برادر اپنے کو ولی عہد کرکے وصیت کی کہ فرزند عزیز بہ موجب خورد سالگی کے بیہوش و صغیر ہے۔ لازم کہ تعہد خلافت و فرمانروائی و قواعد سلطنت و کشور کشائی کا از راہ دولت خواہی دکار آگاہی بہ فصل الٰہی بوجہ احسن سرانجام دیجیو اور جس وقت کہ لعلِ شب چراغ کان ابہت و شہریاری کا حد بلوغ کو پہنچے تو ساتھ دختر خجستہ سیر اپنی کے نکاح کرکے اوپر تخت سلطنت مختار اور شہریار کیجیو۔ پس بعد واقعہ جاں کاہ فردوس آرام گاہ حضرت ظل اللہ کے برادر کوچک والی افسر واورنگ خلافت کا ہوا۔ بیچ امانت کے خیانت اور عہد سے بد عہد ہوکر شاہزادہ کو ساتھ دیوانگی کے نسبت دے کر، بیچ پنجرہ فولادی کے محبوس اور اِرث سے مایوس کر چوکی مستحکم او پردرواہ باغ کے تعین کی، بلکہ اکثر دفعہ زہر ہلاہل سے مسموم کیا، جو زندگی باقی تھی کارگر نہ ہوا اور دونوں عم زادے، آپس میں منسوب بلکہ