مقدس
لائبریرین
84
روز کے سر اس بات کا اوپر سب ملازمان سرکار کے وحاضران دربار کے شائع و آ شکار ہوا۔ اس وقت محرمان سر اوقات عصمت کے بے مقتضائے دور اندیشی کے آنے اس کے کہ تیئں بیچ حرم سرائے خاص کے باعث رسوائی خاص و عام کا جان کے ممانعت سے پیش آئے۔ میرے تیئں کہ بغیر اس کے ایک دم آرام و قرار و خواب و خیال نہ تھا، یہ سانحہ خوش ربا سخت قیامت گزرا لیکن کیا کیجیے زمین سخت آسماں دور۔ لاچار خواجہ سرا کے ہمراہ میرا تھا، اس کے تیئں بلا کے حکم کیا کہ جو میرے تیئں پرداخت اس کی طرح منظور ہے، پس بالفعل صلاح وقت یوں ہے کہ اس جواں کے تئیں دس ہزار اشرفی سرمایہ دے کر بیچ چار سوئے بازار کے دکان جواہر کی مرتب کر دے اور نزدیک محض سراخاص کے ایک خوش تعمیر آراستہ کر کے اسباب خانہ داری کا از قسم غلام وکنیزک کے بقدر مطلوب و بروفق 261 مقصود اس کے مہیا کرکہ اس مکان میں چشم بد ناتواں بینوں کی سے محفوظ رہ کر جو کچھ متاع تجارت سے انتفاعی بہم پہنچا دے صرف مایحتاج 262 اپنے کا کرے۔ بارے خواجہ سرا یوں عمل میں لایا. بعد چند روز کے اس جوان نے فیض دوکان تجارت کے سے نقد شہرت کا بیچ کف مراد کے اس قدر جمع کیا کہ، جو کچھ جواہر گراں بہاد و ملبوسات زیبا و مصارف سرکار والی شہر کے ہوتا، دکان اس کی سے آتا تابہ حد کہ آوازہ نام آوری اس کے کا بیچ چاردانگ عالم263 کے بلند ہوا اور بدولت شغل جواہر فروشی کے گوہر فوائد کلی کا بیچ دامن آرزو کے فراہم لایا۔ حاصل کلام یہ
خدا کسی کا کسی سے دل آشنا نہ کرے
اگر کرے تو کبھی اس سے پھر جدا نہ کرے
میرے تئیں مفارقت چند روزہ اس کی نپٹ ہی شاق گزری۔ اس واسطے بہ صلاح خواجہ سرا کے، ایک نقب دولت سرائے خاص سے اس کے محل سرا تک تیار کی اور یہ اسرار خواجہ سرا اوردو دایہ کے کسی بھی ملنکشف نہ تھا۔ جس وقت خسرو آفتاب کا متوجہ خلوت گاہ مغرب کے ہوتا اور کاسہ چشم مقربان بساط قرب کا بادہ نوم 264 بےخبری کےسے لبریز ہوتا، خواجہ سرا اس جوان کے تئیں نقب کی راہ سے نزدیک میرے لے آتا اور میں تمام شب بیچ
85
صحبت اس کی کے بادہ پیمائے پیمانہ عشرت کی رہتی۔ کبھی وہ بہار حسن میری کے سے گل ہائے کامرانی کے چنتا اور کبھی میں چشمہ جمال اس کے آب زلال کامیابی کا پیتی۔ جب مؤذن صبح خیز شمس کا اوپر مصلیٰ خاور کے بانگ نماز فجر کی دیتا، خواجہ سرا اس جواں کے تئیں نقب کی راہ سے بیچ مکان اس کے پہنچا آتا۔ اسی طور ایک مدت بسر لے گئی۔ چنانچہ ایک روز کا ذکر کرتی ہوں کہ جس وقت عروس مہر کی بیچ حجلہ مغرب کی سدھاری خواجہ سرا موافق ضابطہ کے واسطہ طلب اس جوان کے گیا۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ عزیز گرفتگی طبع سے مانند غنچہ کے دل تنگ ہو رہا ہے، خواجہ سرا نے جو سبب اس کا پوچھا تو بلبل زبان اس کے کی بیچ قفس سکوت کے آ کرنغمہ پرداز نہ ہوئی۔ لاچار خواجہ سرا نے اس بات کے تئیں بیچ عرض پرستاران حضور کے پہنچایا۔ اس بندی کے تئیں، جو اغواء شیطانی خوار کیا چاہیے، ہوائے محبت اس کی نے پروانہ دیا کہ قلابہ 265 پیار اس کے کا بیچ گریبان خاطر عشق پسند اپنے کے قائم کرکے زیب گلوئے فہمید ناقص اپنے کا جانا استغفراللہ اگر یہ جانتی کہ آتش بے قراری کی خان ومان266 ناموس کو یوں جلا دے گی تو واللہ میں زنہار اسیر دام بلا کی نہ ہوتی۔ آخر عشق کمبخت وہ بد بلا ہے کہ شیشہ حیا کا، اوپر سنگ رسوائی کے ٹوٹے ہی ٹوٹے، ہائے
آنکھ اپنی طرف اس کی جب میل نہ کرتی تھی
ٹکڑوں سے مرے دل کے دامان نہ بھرتی تھی
قینچی کی طرح دل کے پرزے نہ کترتی تھی
جب عشق نہ تھا یارو کیا خوب گزرتی تھی
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے
اور اگر سچ پوچھیے تو واقعی یوں ہے
دل کی تقصیر نہیں آنکھوں کا سب سے ہے یہ داد
اول اس کام کے بنیاد کے یہ ہیں استاد
86
نین سین دل کے نصیبوں کے گویا ہے جلاد
طرفۃ العین 267 میں کر دیتے ہیں دل کو برباد
از گرفتاری چشم است گرفتاری دل
سبب چشمم بود موجب لاچاری دل
کہ تجھ تک نوبت کہنے سننے کی پہنچی، والا کہا تو اور کہاں میں۔ چیر، اس کو کہاں تک کہیے۔ غرض اس کے تئیں پیغام پہنچایا کہ جو میں باوجود اس قدر و منزلت کی محک امتحان جو ہر انسانیت کا ہے اور تاکید محارسان سلطنت کے ممکن نہیں کہ آ سکوں، پس اگر تو بھی نہیں آنے کا تو یقین جانیو کہ تیرے واسطے کیا کچھ مطاع گراں بہا امتیاز و حرمت کی بیچ سیل غفلت کے نہ بہہ جائے گی، اور کیا لعل قیمتی اعتبار و عزت کا صدمہ سنگ بےقدری کے سے چور نہ ہو گا۔ یعنی میں بہ مقتضائے اس کے کہ زلف تیری نے بیچ ہر حلقہ کے سو کمند بلا کی لٹکا کر دل میرے کے تئیں پھنسا رکھا ہے، افتاں و خیزاں آ ہی پہنچوں گی لیکن اس صورت میں نتیجہ اس کا تیرے حق میں بھی خوب نہیں۔ ان نے جو اشتیاق میرا نپٹ بے قراری سے اپنی طرف پایا اورغرض اس کی اسی میں منظور تھی، بہ ہزار ناز و نیاز آیا۔ میں نے پوچھا کہ دل تنگی و آزردگی تیری کی کیا وجہ ہے کہ اتنی شوخی سے پیش آیا.عرض کیا کہ میں جو خاک برداشتہ اس جناب کا ہوں بحکم اس کے۔۔ مصرعہ: ناز برآں کن کہ خریدار تست۔ نظر اوپر دلداری ملکہ جہانیاں کے بتوع عفو تقصیر و امید اجابت التماس کے واقعی بےادبی سے پیش آیا پر اب
بیت
یہ جان ودل سستی تقصیروار268 حاضر ہے
ذبح کروا سے یا چھوڑ دو ہوا سو ہوا
میں کے کشتہ تیغ نگاہ اس کے کی تھی، حرکت اس کی سے دیدہ و دانستہ آغماض کرکے بولی۔
87
کہ کیا وہ شکل ہے کہ جس کا حل ہونا اس قدر مشکل ہے، جوان نے عرض کیا کہ میں بچارہ خاک برداشتہ اور محتاج اس آستانہ269 دولت کا ہوں۔ اس سبب سے میرے تئیں بہ قول اس مضمون کے بہت طور مشکل ہے
نے زر کی اس قدرت، نے زور کی ہے طاقت
نے عجز سے کچھ حاصل، نے کام کرے منت
کس طرح کاٹوں میں، کٹتی نہیں یہ زحمت
کیا فکر کروں اس کا، لاحول والا قوۃ
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور آپ بفصل الٰہی ملکہ زماں اور مالک الملک ہیں، اس واسطے بقول اس مضمون کے سب طرح آسان ہے:
مخمس
حاتم کو نہیں قدرت، ہمت کو تیری آوے
منہ کس کا سخاوت کے آگے جو تیرے آوے
قاروں کے خزانے کو، اک دم میں جو لٹوا دے
اس دل کی بھی مشکل کو آسان تو ہی کرواوے
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے
آخرش بات گفتگوئے بسیار کے فحوائے کلام اس کے سے معلوم ہوا کہ ایک باغ خوش تعمیر نہایت شگفتگی و طراوت میں روح افزا متصل محل سرا اس جوان کے اور اس کے شامل ایک کنیز مغنیہ کہ، علم موسیقی میں کم و بیش مہارت رکھتی ہے، اس طرح سے جیسے اونٹ کے ساتھ بلی، یعنی اگر باغ لیجئے تو لونڈی بھی ساتھ ہی، کوئی شخص فروخت کرتا ہے اور مزا یہ کہ مثلاً قیمت اونٹ کی ایک روپیہ، تو بلی کی قیمت سو روپیہ پر جگ270 نہ پھوٹے علی ہذاالقیاس قیمت باغ اور لونڈی کی کہا چاہیے۔ غرض وہ عزیز از بس بےاختیار مائل خریداری اس کے کا ہے، لیکن
88
بسبب عدم سرانجام زر قیمت کے دست آرزو اس کے کاگل چیں مراد کا نہیں ہوسکتا اس سب سے غنچہ خاطر اس کے کا افسردہ ہو کے بہار روئے اس کے کی مانند برگ خزاں رسیدہ کے بے رونق کر رہا ہے۔ میرے تئیں کہ دلداری اس کی ہر وقت منظور نظر ملحوظ خاطر کے تھی۔ اسی وقت خواجہ سرا کے تئیں حکم کیا کہ صبح پیش از طلوع آفتاب قیمت اس کی مشخص 271 کر کے کلید تصرف اس کے کی بیچ قبضہ اختیار اس جوان کے چھوڑ۔ بارے اس بات کے سننے سے جوان نے غبار تفکر کا کہ اوپر چہرہ جمال اس کے بیٹھا تھا، دامن تشفی سے پاک کیا اور تمام شب نظاره جمال میرے کے سے اس کو اور اس کے سے میرے تئیں، ہمدوش شادمانی کے وہم آغوش کامرانی کے رہنا اتفاق ہوا۔ علی الصباح جس وقت تدرو 272 آفتاب کا بیچ سبزہ زار سپہر کے خراماں ہوا، کار پردازان 273 حضور کے یوں ہی عمل میں لائے۔ چند روز اس واردات کو گزرے تھے ایک روز اتفاقا موسم بہار میں کہ مکان بھی دلچسپ تھا اور ابر بھی زور طرح سے ہورہا تھا اور بجلی بھی یوں کوند رہی تھی جس طرح بینجنی۔ 274 پوشاک پر کناری چمکتی ہے اور ہوا بھی خوب ہی موافق پڑی تھی اور چھوٹی چھوٹی بوندیوں کے ترشح نیں عجب مزا کر رکھا تھا اور ستھری تھری گلابیاں275 شراب ارغوانی سے بھری ہوئیں، اس ڈول 276 سے رکھیاں تھیں کہ یاقوت کا جگر اس کی جھلک کی حسرت سے خون ہو جاوے۔ چاہتی ہوں کہ ایک جام اس بادہ مروق 277 سے نوش کروں کہ یکا یک ایک شعر بے اختیار زبان میری پر گزرا
چھن ہے،ابر ہے عیش و طرب ہے، جام و صہبا ہے
پر اک باقی ہے مجھ کو، ساقی گلفام کی خواہش
اور اسی حالت میں میرے تئیں اشتیاق سیر باغ نو خرید کا سلسلہ جنباں ہوا۔ 278 چنانچہ ایک دایہ کے تئیں ہمراہ لے کر نقب کی راہ سے اس کی حویلی تک اور وہاں سے طرف باغ کے متوجہ ہوئی۔ دیکھتی کیا ہوں کہ واقعی باغ بڑی ہی بہار سے گوئے سبقت کی روضہ رضواں سے لے گیا ہے۔ ایک ادنی کیفیت اس کی بیان کروں کہ ترشح سے تقاطر279 کے باغ کے
89
درختوں پر یہ عالم ہورہا تھا کہ گویا چتر زمردیں پر موتیوں کی جھالر جھلکتی ہے اور سرخی گل ہائے شقائق 280 در یاحین کی شام کے وقت بدلی میں یہ لطف دیتی تھی کہ جیسے رنگریز قدرت کا ابر کے وصلچے281 شفق میں پھیلا رکھتا ہے، بوٹا کاری و رنگ طرازی نقش ونگار بنگلوں کی نے، نگارخانه ارژنگ282 کے تئیں پرے کر رکھا تھا اور شفافی آب زلال حوضوں کی نے، صفائے تختہ آئینہ حلبی 283 کے تئیں بے آب کردیا۔ سخن مختصرمیں به تلاش اس جوان کے خراماں خراماں باغ میں سیر کرتی پھرتی تھی کہ اس اثناء میں طاؤس مرصع دم آفتاب کا اوپردیوارشفق کے جلوہ گر ہوا اور کویل مشکیں بال شب کی آشیانہ مغرب کے سے بلند پرواز کر عرصہ روزگار کی ہوئی کہ نا گاہ وہ عزیز خیاباں کی طرف سے نظر پڑا خدا جانے اس کو آگے ہی سے میرے
آنے کی اطلاع تھی یا کیا تھا کہ میرے تئیں دیکھتے ہی نپٹ تپاک سے پیش آ کے ہم دست ہوکر متوجہ بارہ دری کا ہوا۔ سبحان اللہ وہاں کا جو عالم دیکھا تو شام کی بہار پر بھی کچھ فوقیت رکھتا تھا اور ازروئے انصاف کے کہئے تو تماشے کے عالم میں رات نہ تھئ گویا شب برات تھی۔ اگر چراغاں کی کیفیت کا ذکر کروں تو دل مانند قمقمہ محفل سرابستان ارم284 کے تجلی بخش دیده بصیرت ارباب ذوق کا ہو جاوے اور کنول چمن کے روشنی کا بیان کیجئے غنچہ دل کا مانند گلریز کے ہوائے محبت اس کی گل کی صورت میں پکھڑی پکھڑی ہو کے جھڑ جاوے۔ ایک طرف انار کے جھاڑ نے مانند جھاڑ درخت چنار کے گلہائے آتشیں سے صحن باغ کے تئیں گل انار کر رکھا تھا۔ گھونگھچی 285 کے گلدستہ نے گلدست شقائق وریاحین 286 کے تئیں اپنی روشنی کے شعشہ سے اس کے جگر کوحسرت سے داغ داغ کر دیا تھا۔ ہوائی 287 نے اپنی بلند پروازی کے رو برو ہوا کے تئیں بے بال و پر کر رکھا اور پٹانے نیں اپنی غرش287 کے
آگے بادل کی گرج کو صم بکم289 کر دیا۔ ہتھ پھول کے پھول کا جولطف کہوں تو بے شائبہ تکلف جس طرح کرن پھول خورشید کا بیچ بنا گوش عروس کے جھلکتا ہے اور پھلجھڑی کی گل افشانی کا جو ذکر کروں تو بےتصنع جیسے قمر کے نوشہ 290 کے مکھ پرکرن کی جوت مقیش291 کے سہرے میں جھلملاہٹ کرتی موتی کی لڑی جھمکتی ہے، اس عرصہ میں آتش باز فلک کے نے ماہتابی
روز کے سر اس بات کا اوپر سب ملازمان سرکار کے وحاضران دربار کے شائع و آ شکار ہوا۔ اس وقت محرمان سر اوقات عصمت کے بے مقتضائے دور اندیشی کے آنے اس کے کہ تیئں بیچ حرم سرائے خاص کے باعث رسوائی خاص و عام کا جان کے ممانعت سے پیش آئے۔ میرے تیئں کہ بغیر اس کے ایک دم آرام و قرار و خواب و خیال نہ تھا، یہ سانحہ خوش ربا سخت قیامت گزرا لیکن کیا کیجیے زمین سخت آسماں دور۔ لاچار خواجہ سرا کے ہمراہ میرا تھا، اس کے تیئں بلا کے حکم کیا کہ جو میرے تیئں پرداخت اس کی طرح منظور ہے، پس بالفعل صلاح وقت یوں ہے کہ اس جواں کے تئیں دس ہزار اشرفی سرمایہ دے کر بیچ چار سوئے بازار کے دکان جواہر کی مرتب کر دے اور نزدیک محض سراخاص کے ایک خوش تعمیر آراستہ کر کے اسباب خانہ داری کا از قسم غلام وکنیزک کے بقدر مطلوب و بروفق 261 مقصود اس کے مہیا کرکہ اس مکان میں چشم بد ناتواں بینوں کی سے محفوظ رہ کر جو کچھ متاع تجارت سے انتفاعی بہم پہنچا دے صرف مایحتاج 262 اپنے کا کرے۔ بارے خواجہ سرا یوں عمل میں لایا. بعد چند روز کے اس جوان نے فیض دوکان تجارت کے سے نقد شہرت کا بیچ کف مراد کے اس قدر جمع کیا کہ، جو کچھ جواہر گراں بہاد و ملبوسات زیبا و مصارف سرکار والی شہر کے ہوتا، دکان اس کی سے آتا تابہ حد کہ آوازہ نام آوری اس کے کا بیچ چاردانگ عالم263 کے بلند ہوا اور بدولت شغل جواہر فروشی کے گوہر فوائد کلی کا بیچ دامن آرزو کے فراہم لایا۔ حاصل کلام یہ
خدا کسی کا کسی سے دل آشنا نہ کرے
اگر کرے تو کبھی اس سے پھر جدا نہ کرے
میرے تئیں مفارقت چند روزہ اس کی نپٹ ہی شاق گزری۔ اس واسطے بہ صلاح خواجہ سرا کے، ایک نقب دولت سرائے خاص سے اس کے محل سرا تک تیار کی اور یہ اسرار خواجہ سرا اوردو دایہ کے کسی بھی ملنکشف نہ تھا۔ جس وقت خسرو آفتاب کا متوجہ خلوت گاہ مغرب کے ہوتا اور کاسہ چشم مقربان بساط قرب کا بادہ نوم 264 بےخبری کےسے لبریز ہوتا، خواجہ سرا اس جوان کے تئیں نقب کی راہ سے نزدیک میرے لے آتا اور میں تمام شب بیچ
85
صحبت اس کی کے بادہ پیمائے پیمانہ عشرت کی رہتی۔ کبھی وہ بہار حسن میری کے سے گل ہائے کامرانی کے چنتا اور کبھی میں چشمہ جمال اس کے آب زلال کامیابی کا پیتی۔ جب مؤذن صبح خیز شمس کا اوپر مصلیٰ خاور کے بانگ نماز فجر کی دیتا، خواجہ سرا اس جواں کے تئیں نقب کی راہ سے بیچ مکان اس کے پہنچا آتا۔ اسی طور ایک مدت بسر لے گئی۔ چنانچہ ایک روز کا ذکر کرتی ہوں کہ جس وقت عروس مہر کی بیچ حجلہ مغرب کی سدھاری خواجہ سرا موافق ضابطہ کے واسطہ طلب اس جوان کے گیا۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ عزیز گرفتگی طبع سے مانند غنچہ کے دل تنگ ہو رہا ہے، خواجہ سرا نے جو سبب اس کا پوچھا تو بلبل زبان اس کے کی بیچ قفس سکوت کے آ کرنغمہ پرداز نہ ہوئی۔ لاچار خواجہ سرا نے اس بات کے تئیں بیچ عرض پرستاران حضور کے پہنچایا۔ اس بندی کے تئیں، جو اغواء شیطانی خوار کیا چاہیے، ہوائے محبت اس کی نے پروانہ دیا کہ قلابہ 265 پیار اس کے کا بیچ گریبان خاطر عشق پسند اپنے کے قائم کرکے زیب گلوئے فہمید ناقص اپنے کا جانا استغفراللہ اگر یہ جانتی کہ آتش بے قراری کی خان ومان266 ناموس کو یوں جلا دے گی تو واللہ میں زنہار اسیر دام بلا کی نہ ہوتی۔ آخر عشق کمبخت وہ بد بلا ہے کہ شیشہ حیا کا، اوپر سنگ رسوائی کے ٹوٹے ہی ٹوٹے، ہائے
آنکھ اپنی طرف اس کی جب میل نہ کرتی تھی
ٹکڑوں سے مرے دل کے دامان نہ بھرتی تھی
قینچی کی طرح دل کے پرزے نہ کترتی تھی
جب عشق نہ تھا یارو کیا خوب گزرتی تھی
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے
اور اگر سچ پوچھیے تو واقعی یوں ہے
دل کی تقصیر نہیں آنکھوں کا سب سے ہے یہ داد
اول اس کام کے بنیاد کے یہ ہیں استاد
86
نین سین دل کے نصیبوں کے گویا ہے جلاد
طرفۃ العین 267 میں کر دیتے ہیں دل کو برباد
از گرفتاری چشم است گرفتاری دل
سبب چشمم بود موجب لاچاری دل
کہ تجھ تک نوبت کہنے سننے کی پہنچی، والا کہا تو اور کہاں میں۔ چیر، اس کو کہاں تک کہیے۔ غرض اس کے تئیں پیغام پہنچایا کہ جو میں باوجود اس قدر و منزلت کی محک امتحان جو ہر انسانیت کا ہے اور تاکید محارسان سلطنت کے ممکن نہیں کہ آ سکوں، پس اگر تو بھی نہیں آنے کا تو یقین جانیو کہ تیرے واسطے کیا کچھ مطاع گراں بہا امتیاز و حرمت کی بیچ سیل غفلت کے نہ بہہ جائے گی، اور کیا لعل قیمتی اعتبار و عزت کا صدمہ سنگ بےقدری کے سے چور نہ ہو گا۔ یعنی میں بہ مقتضائے اس کے کہ زلف تیری نے بیچ ہر حلقہ کے سو کمند بلا کی لٹکا کر دل میرے کے تئیں پھنسا رکھا ہے، افتاں و خیزاں آ ہی پہنچوں گی لیکن اس صورت میں نتیجہ اس کا تیرے حق میں بھی خوب نہیں۔ ان نے جو اشتیاق میرا نپٹ بے قراری سے اپنی طرف پایا اورغرض اس کی اسی میں منظور تھی، بہ ہزار ناز و نیاز آیا۔ میں نے پوچھا کہ دل تنگی و آزردگی تیری کی کیا وجہ ہے کہ اتنی شوخی سے پیش آیا.عرض کیا کہ میں جو خاک برداشتہ اس جناب کا ہوں بحکم اس کے۔۔ مصرعہ: ناز برآں کن کہ خریدار تست۔ نظر اوپر دلداری ملکہ جہانیاں کے بتوع عفو تقصیر و امید اجابت التماس کے واقعی بےادبی سے پیش آیا پر اب
بیت
یہ جان ودل سستی تقصیروار268 حاضر ہے
ذبح کروا سے یا چھوڑ دو ہوا سو ہوا
میں کے کشتہ تیغ نگاہ اس کے کی تھی، حرکت اس کی سے دیدہ و دانستہ آغماض کرکے بولی۔
87
کہ کیا وہ شکل ہے کہ جس کا حل ہونا اس قدر مشکل ہے، جوان نے عرض کیا کہ میں بچارہ خاک برداشتہ اور محتاج اس آستانہ269 دولت کا ہوں۔ اس سبب سے میرے تئیں بہ قول اس مضمون کے بہت طور مشکل ہے
نے زر کی اس قدرت، نے زور کی ہے طاقت
نے عجز سے کچھ حاصل، نے کام کرے منت
کس طرح کاٹوں میں، کٹتی نہیں یہ زحمت
کیا فکر کروں اس کا، لاحول والا قوۃ
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور آپ بفصل الٰہی ملکہ زماں اور مالک الملک ہیں، اس واسطے بقول اس مضمون کے سب طرح آسان ہے:
مخمس
حاتم کو نہیں قدرت، ہمت کو تیری آوے
منہ کس کا سخاوت کے آگے جو تیرے آوے
قاروں کے خزانے کو، اک دم میں جو لٹوا دے
اس دل کی بھی مشکل کو آسان تو ہی کرواوے
کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے
آخرش بات گفتگوئے بسیار کے فحوائے کلام اس کے سے معلوم ہوا کہ ایک باغ خوش تعمیر نہایت شگفتگی و طراوت میں روح افزا متصل محل سرا اس جوان کے اور اس کے شامل ایک کنیز مغنیہ کہ، علم موسیقی میں کم و بیش مہارت رکھتی ہے، اس طرح سے جیسے اونٹ کے ساتھ بلی، یعنی اگر باغ لیجئے تو لونڈی بھی ساتھ ہی، کوئی شخص فروخت کرتا ہے اور مزا یہ کہ مثلاً قیمت اونٹ کی ایک روپیہ، تو بلی کی قیمت سو روپیہ پر جگ270 نہ پھوٹے علی ہذاالقیاس قیمت باغ اور لونڈی کی کہا چاہیے۔ غرض وہ عزیز از بس بےاختیار مائل خریداری اس کے کا ہے، لیکن
88
بسبب عدم سرانجام زر قیمت کے دست آرزو اس کے کاگل چیں مراد کا نہیں ہوسکتا اس سب سے غنچہ خاطر اس کے کا افسردہ ہو کے بہار روئے اس کے کی مانند برگ خزاں رسیدہ کے بے رونق کر رہا ہے۔ میرے تئیں کہ دلداری اس کی ہر وقت منظور نظر ملحوظ خاطر کے تھی۔ اسی وقت خواجہ سرا کے تئیں حکم کیا کہ صبح پیش از طلوع آفتاب قیمت اس کی مشخص 271 کر کے کلید تصرف اس کے کی بیچ قبضہ اختیار اس جوان کے چھوڑ۔ بارے اس بات کے سننے سے جوان نے غبار تفکر کا کہ اوپر چہرہ جمال اس کے بیٹھا تھا، دامن تشفی سے پاک کیا اور تمام شب نظاره جمال میرے کے سے اس کو اور اس کے سے میرے تئیں، ہمدوش شادمانی کے وہم آغوش کامرانی کے رہنا اتفاق ہوا۔ علی الصباح جس وقت تدرو 272 آفتاب کا بیچ سبزہ زار سپہر کے خراماں ہوا، کار پردازان 273 حضور کے یوں ہی عمل میں لائے۔ چند روز اس واردات کو گزرے تھے ایک روز اتفاقا موسم بہار میں کہ مکان بھی دلچسپ تھا اور ابر بھی زور طرح سے ہورہا تھا اور بجلی بھی یوں کوند رہی تھی جس طرح بینجنی۔ 274 پوشاک پر کناری چمکتی ہے اور ہوا بھی خوب ہی موافق پڑی تھی اور چھوٹی چھوٹی بوندیوں کے ترشح نیں عجب مزا کر رکھا تھا اور ستھری تھری گلابیاں275 شراب ارغوانی سے بھری ہوئیں، اس ڈول 276 سے رکھیاں تھیں کہ یاقوت کا جگر اس کی جھلک کی حسرت سے خون ہو جاوے۔ چاہتی ہوں کہ ایک جام اس بادہ مروق 277 سے نوش کروں کہ یکا یک ایک شعر بے اختیار زبان میری پر گزرا
چھن ہے،ابر ہے عیش و طرب ہے، جام و صہبا ہے
پر اک باقی ہے مجھ کو، ساقی گلفام کی خواہش
اور اسی حالت میں میرے تئیں اشتیاق سیر باغ نو خرید کا سلسلہ جنباں ہوا۔ 278 چنانچہ ایک دایہ کے تئیں ہمراہ لے کر نقب کی راہ سے اس کی حویلی تک اور وہاں سے طرف باغ کے متوجہ ہوئی۔ دیکھتی کیا ہوں کہ واقعی باغ بڑی ہی بہار سے گوئے سبقت کی روضہ رضواں سے لے گیا ہے۔ ایک ادنی کیفیت اس کی بیان کروں کہ ترشح سے تقاطر279 کے باغ کے
89
درختوں پر یہ عالم ہورہا تھا کہ گویا چتر زمردیں پر موتیوں کی جھالر جھلکتی ہے اور سرخی گل ہائے شقائق 280 در یاحین کی شام کے وقت بدلی میں یہ لطف دیتی تھی کہ جیسے رنگریز قدرت کا ابر کے وصلچے281 شفق میں پھیلا رکھتا ہے، بوٹا کاری و رنگ طرازی نقش ونگار بنگلوں کی نے، نگارخانه ارژنگ282 کے تئیں پرے کر رکھا تھا اور شفافی آب زلال حوضوں کی نے، صفائے تختہ آئینہ حلبی 283 کے تئیں بے آب کردیا۔ سخن مختصرمیں به تلاش اس جوان کے خراماں خراماں باغ میں سیر کرتی پھرتی تھی کہ اس اثناء میں طاؤس مرصع دم آفتاب کا اوپردیوارشفق کے جلوہ گر ہوا اور کویل مشکیں بال شب کی آشیانہ مغرب کے سے بلند پرواز کر عرصہ روزگار کی ہوئی کہ نا گاہ وہ عزیز خیاباں کی طرف سے نظر پڑا خدا جانے اس کو آگے ہی سے میرے
آنے کی اطلاع تھی یا کیا تھا کہ میرے تئیں دیکھتے ہی نپٹ تپاک سے پیش آ کے ہم دست ہوکر متوجہ بارہ دری کا ہوا۔ سبحان اللہ وہاں کا جو عالم دیکھا تو شام کی بہار پر بھی کچھ فوقیت رکھتا تھا اور ازروئے انصاف کے کہئے تو تماشے کے عالم میں رات نہ تھئ گویا شب برات تھی۔ اگر چراغاں کی کیفیت کا ذکر کروں تو دل مانند قمقمہ محفل سرابستان ارم284 کے تجلی بخش دیده بصیرت ارباب ذوق کا ہو جاوے اور کنول چمن کے روشنی کا بیان کیجئے غنچہ دل کا مانند گلریز کے ہوائے محبت اس کی گل کی صورت میں پکھڑی پکھڑی ہو کے جھڑ جاوے۔ ایک طرف انار کے جھاڑ نے مانند جھاڑ درخت چنار کے گلہائے آتشیں سے صحن باغ کے تئیں گل انار کر رکھا تھا۔ گھونگھچی 285 کے گلدستہ نے گلدست شقائق وریاحین 286 کے تئیں اپنی روشنی کے شعشہ سے اس کے جگر کوحسرت سے داغ داغ کر دیا تھا۔ ہوائی 287 نے اپنی بلند پروازی کے رو برو ہوا کے تئیں بے بال و پر کر رکھا اور پٹانے نیں اپنی غرش287 کے
آگے بادل کی گرج کو صم بکم289 کر دیا۔ ہتھ پھول کے پھول کا جولطف کہوں تو بے شائبہ تکلف جس طرح کرن پھول خورشید کا بیچ بنا گوش عروس کے جھلکتا ہے اور پھلجھڑی کی گل افشانی کا جو ذکر کروں تو بےتصنع جیسے قمر کے نوشہ 290 کے مکھ پرکرن کی جوت مقیش291 کے سہرے میں جھلملاہٹ کرتی موتی کی لڑی جھمکتی ہے، اس عرصہ میں آتش باز فلک کے نے ماہتابی