صفحہ نمبر 237
فرد
ماراز خاک کویش پیراہن ست برتن
آں ہم ز آب دیدہ صد چاک تا بہ دامن
بعد مدت کی خدائے تعالیٰ نے تیرے تئیں اوپر حال ضعیف میرے کے مہربان کیا کہ طعام لذیذ کھیا اور دختر پرہنہ تھی،اس کے کپڑے بنوائے۔اگر خوف و خلل آسیب کا نہ ہوتا تو واللہ یہ عاجزہ بیچ کنیزی تیری کے دیتا اور باعث افتخار و سعادت اپنی کا جانتا۔اب مرتکب اس زمرنا صواب کا ہونا مصلحت نہیں۔ہرچند کہ میں نے اس قدر عجز و الحاج کیا کہ بیچ شرح اور بیان کے نہ آوے ، وہ پیر مرد ہر گز راضی نہ ہوا بلکہ مبالغہ اور مکابرہ حدسے درگزرا اور وقت شام کا ہوا۔ میں اس بزرگ کو دائے خیر کہہ کےبیچ کارواں سرا آیا۔مبارک خوشی و شادی سے بیچ جامہ پھلا نہ سماتا تھا اور کہتا تھا الحمدللہ والمنۃ کہ مقصد دلی پر فائز ہوئے۔میں تخلل عشق سے بے خبر خود حیران تھا کہ واللہ اعلم بالصواب یہ مرد اختر اپنی کو مجھے دے یا نہ دے اگر وہ نہ دیوے اور مبارک جو ملک صادق کے واسطے چاہتا ہے تو کس طور سے اس کو راضی کروں اور معشوقہ کو بیچ قابو کے لادوں اور وصال جاناں کامیاب ہوں مگر شرارت جنوں نجات پاؤں یا نہ پاؤں اور جو اس شہر میں سکونت اختیار کروں تو ملک صادق یہ بات سن کر واللہ اعلم کیا سلوک کرے بیچ اس منصوبہ اور پیچ و تاب کے نہایت غرق و مشوش تھا۔بارے علی الصباح بازارکےجاکے لباس فاخرہ واسطے دخترکے اور واسطے اس پیر مرد کے خرید کیا اور میوہ ہائے گوناگوں اور غذا ہائے لطیف لےکر بیچ خدمت اس خضر گم گشتگان بادیئہ ناکامی کے پہنچا ۔ان نے نہایت مہربانی اورتلطف اوپر حال خسراں مآل میرےکے کیا اور فرمایا کہ اے عزیز تیرے تئیں جان سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں۔مبادا مفت مارا جاوے تو حسرت قیامت تک باقی رہے۔میں نے عرض کیاکہ اے پدر مہربانایک مدت سے بادل بریاں ودیدہ گریاں رنج غربت کشیدہ و مصائب سفر دیدہ از شہر بہ شہر یہہ بہ یہہ و صحرا بہ صحرا کوچہ بہ کوچہ ضیراں و سرگرداں ہوکراوپر سر چشمہ وصال
صفحہ نمبر238
اس نونہال کے پہنچا ہوں۔
فرد
کے از دست خواہم رہا کر دنش
کنونم کہ باشد بہ کف دامنش
القصہ تامدت یک ماہ بیچ خدمت اس پیر ہدایت مصر کے دوڑا اور کوئی دقیقہ بیچ عجز و انکسار کے باقی کے چھوڑا تا آنکہ وہ مرد کامل سخت بیمار و کاہل ہوا اور مجھ سے فرمایا کہ ہرچند منع کرتا ہوں اور دست ہوس کا دامن اس آرزو کے سے کوتاہ نہیں کرتاہے،خوب آج مصلحت دختر سے کروں گا ،دیکھیے کیا کہتی ہے۔میں سننے اس مژدہ راحت افزا سے بہت خوش وقت ہوا اور آداب بجالاکے رخصت ہوا۔تمام شب مارے خوشی کےنیند نہ آئی۔علی الصباح خوش و خرم بیچ خدمت اس بزرگ کے آیا۔اُن نے فرمایا کہ اے جوان میں نے دختر اپنی تجھے کودی اور اس کو اور تجھ کو بخدا سپرد کیا۔پس جب تک دم باقی ہے،میرے پاس حاضر رہ بعد ازاں جو کچھ کہ چاہیے عمل میں لائیو، مختار ہو۔بعد چند روز کے جو اس پر صاحب تدبیر نے اس جہان فانی کو لبیک بہ داعئ اجل گفتہ وداع کیا اور داغ مہاجرت کا اوپر ہمارے چھوڑا ، تجہیر وتکفین اس کی سے فراغت پاکے مبارک دختر کے تئیں چادر اڑھا کر بیچ کارواں سراکے لایا اور میں نے چاہا کہ نیچے قدم اس معشوقہ دلنواز کے سر اپنا ڈالوں ، مبارک نے کہا کہ اے عزیز ملک صادق سے اندیشہ کر کہ تمام یہ محنت و مشقت سالہاسال کی رائیگاں جائے گی۔میں سننے اس نصیحت کے سے کنارا کیا۔مبارک نے واسطے تسلی اور تسکین میری کے کہا کہ اس امانت کو سلامت بیچ حضور ملک صادق کو پہنچادیں۔اگر وہ ازراہ عنایت کے تیرے تئیں مرحمت فرمادے تو،بڑا لطف ہے والا ہاتھ اس بادشاہ جنوں کےسے جانبرنہ رہےگا۔بارے دوشتر اور کجاوے خرید کرکے روانہ منزل مقصود کے ہوئے اوربعد مدت مدید کے قریب آپہنچے ایک آواز ہنگامہ و شور کی مسموع ہوئی اور مبارک نے کہا کہ فوج