پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۰

پسر تولد ہوئے کہ بیچ کار خدمت سرکار والا کے رکھے، چنانچہ ایک ملک التجار اور دوسرا قورخانہ کا داروغہ ہے۔

جس وقت کہ بادشاہ یہ سرگزشت زبان ہدایت ترجمان اپنی سے بیان کر چکا فرایا کہ اے درویشو مطلب سراسر اظہار اس داستان کے سے یہ تھا کہ تم کو ایک جرأت پیدا ہو اور بیچ کہنے حقیقت اپنی درویش چہارم حِجاب نہ کرے، اب لازم یہ ہے کہ مجھ کو بھی ایک رفقائے ہمدرد اپنے سے جان کر کسی طرح کا پردہ اور حجاب درمیان میں نہ لاؤ گے۔ میں بھی محتاج تمھاری ملاقات کا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۱

بیان سرگزشت درویش چہارم

روبرو بادشاہ فرخ سیر کہ اُمیدوار فرزند کا تھا

درویش چہارم نے زار زار مانند ابر بہار رو کے حقیقت حال خیریت اِشتمال اپنی کے تئیں قلم زبان سے اوپر صفحہ بیان کے یوں نگارش کیا؂

دن سے محشر کے نہیں عالم میں کم یہ ماجرا
کہہ نہیں سکتا جو کر گزرا ستم یہ ماجرا
بارے غم کے نہ تنہا پست ہے روئے زمیں
پُشت نہہ افلاک کو کر دے ہے خم یہ ماجرا
کام اس کے جہاں میں، ہے جو کوئی کامیاب
زندگی کے شہد کو کر دے ہے سم یہ ماجرا
گل گریباں چاک اور نالاں ہے جوئے آبشار
دے ہے باغ دہر کو، اتنا الم یہ ماجرا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۲

کہا جہاں پناہ سلامت یہ بندہ خاکسار کہ بیچ حالت درویشی کے دیکھتے ہو، بادشاہ زادہ ملک چین کا ہے اور شہر یار عالی تبار سوائے میرے کوئکی اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہ رکھتا تھا۔ یہ فقیر پنج سالہ ہوا تھا کہ والد بزرگوار نے اس جہان فانی سے رحلت فرمائی اور وقت نزع کے برادر خورد اپنے کے تیں وصیت کی کہ فرزند عزیز موجب خود سالی کے لایق سلطنت کے نہیں ہے تا آنکہ وہ چشم چراغ کا شانۂ شہر یاری کا حد بلوغ کو پہنچے، ولی عہد اپنا تجھ کو مقرر کرتا ہوں کہ بیچ رتق و فسق مُہمات مالی و ملکی کے کوئی دقیقہ از دقائق نا مرعی نہ رہے اور دختر روشن اختر اپنی کو بیچ عقد ازدواج اس کی منعقد کیجیو۔ اگر اوپر اس وصیت کے عمل کرے گا تو سلطنت خاندان ہمارے سے نہ جائے گی۔ یہ کہہ کر جان بحق تسلیم ہوا اور عمو میرا بجائے پدر کے سلطنت پناہ ہوا۔ مجھ کو فرمایا کہ بیچ حرم محترم کے پرورش ہوسے اور باہر نہ نکلے، چنانچہ تا بہ سن چہاردہ سالگی ساتھ لڑکیوں بیگمات کے بیچ بازی اور لعبت پردازی کے مشغول تھا اور نامزد ہونا دختر عمو کا گوش زد میرے ہوا تھا، بخوشی و امید واری بسر لے جات اور یہ شعر اکثر اوپر زبان کے لاتا؂

نہ پہنچایا کبھی اس سر کے تیں اُس پاؤں تک ہرگز
گلہ مند اس قدر کیوں کر نہ ہوں ہم، ان نصیبوں کے

اور مبار نام ددامیرا صاحب فراست و سراپا کیا ست کہ خددمت حضرت خُلد آرام گاہ کے میں زیادہ از حد معتمد بارگاہِ ظِل اللہ کا تھا، گاہ گاہے مردُم محل کو غافل دیکھ کر کے اُس کے پاس میں جاتا۔ وہ عزیز مہربانی بسیار و تلطُف بے شمار بیچ حق میرے کے مبذول کر کے بہ چشم حسر میری طرف دیکھتا اور عُنفوان شباب پر نظر کر کے یہ شعر پڑھتا۔ شعر؂

پھر گئی ایسی تری چاہ انخداں کی ہوا
یوسف آ کر مصر میں بھولا ہے کنعاں کی ہوا
داغ دل کو خانۂ سینہ تر و تازہ رکھے
گل کے تیں شاداب رکھتی ہے گلستاں کی ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۳

اتفاقاً ایک روز ایک کنیز، بے تمیز، سراسر ناچیز نے ایک سیلی میری گردن پر ماری۔ میں روتا ہوا مبارک پاس آیا۔ اُن نے ازراہ شفقت کے مجھ کو بغل میں لیا اور کہا کہ چل تیرے تئیں بیچ خدمت عموئے خوش خو کے لے جاؤں کہ قابل فرمنروائی اور لایق کشور کُشائی کے ہوا ہے تاکہ حق تیرا تجھ کو دے۔ چنانچہ ہمراہ مبارک دوا کے بیچ بارگاہ عمو جان کے گیا۔ اُن نے میرے تئیں دیکھ کے گلے لگایا اور باعث آنے کا پوچھا اور ددا میرے سے فرمایا کہ اے مبار فرزند دلبند جگر پیوند نے آج کیوں کر تصدیع کی۔ ددا نے عرض کیا کہ کچھ عرض رکھتا ہے۔ فرمایا کہ نامزد اپنے کو چاہتا ہو گا۔ اے مبارک بسیار مبارک۔

فرد

برتو ایں مجلس شاہانہ مبارک باشد
ساقی و مطرب و پیمانہ مبارک باشد

حکم والا صادر ہوا کہ مُنجموں کو طلب کرو۔ چنانچہ فی الفور بہ موجب ارشاد کے اہل تنجیم، اُس شیطان الرجیم، پاس آ کر حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے رِمز و ایما سے پوچھا کہ بیچ اس آرزو کے ساعت نیک کب آوے گی کہ کار خیر سے فراغت حاصل ہو، نجومیوں نے دریافت مزاج کا کر کے بعد از مامل بسیار و تفکر بے شمار عرض کیا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت تین برس تک قمر در عقرب ہے عُطارِد بیچ بُرج زُحل کے نازل ہے، بہ خیریت ارادہ کار خیر کو موقوف رکھا چاہیے۔ ان شاء اللہ تعالٰی بعد از چہار برس کے روز عید ہو گا اور ساعت سعید خوب و خاظر آوے گی۔ بادشاہ نے طرف مبارک کے مخاطب ہو کے فرمایا کہ معلوم کیا۔ اب تو نور چشم و راحت جان کو بیچ محل کے لے جات کہ ساعت خوب آوے۔ بعد ازاں امانت اس کی سلامت و بے خیانت از راہ نیک دیانت کے دی جائے گی پش مبارک اُٹھا اور میں رخصت ہو کے بیچ محل کے آیا۔ بعد تین روز کے عی محل سے کہ فی الحقیقت زندان خانہ تمام عمر کا تھا، برآمد ہوا اور پاس مبارک کے آیا، مجھ کو دیکھ کر بے اختیار رو دیا۔ دریافت حال اُس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۴

کے سے میں نے مغموم اور مُتوحش ہو کر پوچھا کہ اے مبارک خیر ہے؟

اشعار

محروم رہتا ہوں میں نظر بازیوں سیتی
زیادہ ملول میں یار سے گر دل کو بات ہو
شیریں کا کچھ قصور نہ تھا کوہ کن کے ساتھ
قسمت میں یوں لکھا تھا کہ خانہ خراب ہو

تب اُس مشفق شفیق بجان و دل رفیق نے کہا کہ کاش اُس روز میں تجھ کو حضور اُس ظالم بے رحم سِتمگار کج فہم کے نہ لے جاتا تو بہتر ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اس حرکت سے کیا واقع ہوا، کہا کہ جس وقت تو مجلس میں گیا اور اُمرا باپ تیرے کے نے تجھ کو دیکھا سب از کہ تامہ شکر بدرگاہ الٰہی بجا لائے اور کہا کہ صاحبزادہ ہمار وجان ہوا اور قابل سلطنت کے ہے، ان شاء اللہ تعالٰی چند روز میں حق بہ مرکز قرار پاوے گا اور ہم لوگ ملازمان موروثی اپنے حق کو پہنچیں گے۔ یہ خبر بادشاہ کو پہنچی اور میرے تئیں خلوت میں بلا کر کہا کہ اس شریک سلطنت کو دفع کر، میں بیچ اپنے دل کے حیران ہوا کہ مبادا تجھ کو جی سے مارے۔

کیونکہ ہو اس فکر میں مجھ کو قرار اب دیکھیے
لے چلا دل ہائے وہ غفلت شعار اب دیکھیے
سلطنت میں کچھ ملامت بھی نظر آنے لگی
کس طرح اس غم سے ہو صحبت برار اب دیکھیے

بہ مجرد سننے اس خبر وحشت اثر کے چشم اشکبار و دل بے قرار اور جان پر اضطرار ہوئی، بارے اس غلام مُرشد پرست و وفا سرشت نے کہا کہ خاطر جمع رکھ، ایک تدبیر میرے ضمیر عافیت پذیر میں آئی ہے کہ باعث نجات ذات بابرکات تیری کے ہو گی، اور ان شاء اللہ تعالٰی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۵

اِس آفت ناگہانی سے بیچ دار الامن شادمانی کے پہنچے گا۔ فی الفور اٹھ کھڑا ہوا اور مجھ کو اوپر مکان مسکنت والد بزرگوار میرے کے لے گیا اور تسلی افزائے دل وحشت منزل میرے کا ہوا۔ جس جگہ کہ کرسی حضرت ولی نعمت کی بچھی تھی اشارت نیک بشارت اُس کی سے متفق ہو کر کرسی کو اٹھایا۔ فرش کو دور کر کے قدرے زمین کھودی۔ ایک دروازہ نظر آیا کہ مُقفل ہے۔ کلید جیب اپنی سے نکال کر دروازہ کھولا اور نردبان سے آپ نیچے اترا اور مجھ کو بلایا۔ میں نے دریافت کیا کہ ان نے فکر میرا کیا اور یہیں ٹھکانے لگا دے گا۔ لا علاج کلمہ اوپر زبان کے جاری کر کے قدم نردبان پر رکھا اور کہا:

فرد

نہ کوئی دوست ہے ان جا نہ کوئی ہے ہمدم
کہ آسرا نہیں مجھ کو بغیر رب کریم

بھیتر اس مکان کے چار صُفے نظر پڑے کہ بیچ ہر ایک صُفہ کے دہ عدد خم بہ زنجیر طلا آویختہ کیے ہیں اور اوپر ہر ایک خم کے خشت طلائی اور تصویر میمون از زبر جد بٹھلائی اور ہر ایک زخم پُر از اشرفی دھرا ہے اور درمیان ایک صُفہ کے ایک حوض ہے کہ جواہر الوان سے لبریز ہے۔ میں نے کہا کہ اے ددا ان کے دیکھنے سے کیا ہو گا اور یہ کیا اسرار ہے؟ کہا حقیقت ان بندروں کی یہ ہے کہ باپ تیرا اور ابتدائے جوانی ساتھ ملک صادق کے کہ بادشاہ جنوں کا ہے، رابطۂ اتحاد و سررشتہ و داد نہایت مستحکم رکھتا تھا اور قاعدہ یہ تھا کہ ہر سال تحفہ چند در چند از عطر و عنبر و بخور ہائے خوش بو واسطے اُس کے لے جاتا تھا اور کئی روز بیچ خدمت فیض درجت اس کے رہتا تھا۔ ملک صادق وقت مراجعت کے ایک میمون زبرجد اُس کو دیتا تھا اور بادشاہ لا کر بیچ اِس مکان کے رکھتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ حضرت جہاں پناہ، ہر مرتبہ تحفے چند در چند لے جاتے ہیں، اور ایک میمون بے جان عوض اُس کے لاتے ہیں، کیا فائدہ؟ در جواب میرے تبسم کر کے فرمایا کہ کسی سے اظہار نہ کرنا خبر شرط ہے،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۶

یہ میمون کہ تو دیکھتا ہے، ہزار ہزار جن تابع و فرماں بردار ایک ایک کے ہیں و لیکن ملک صادق نے فرمایا ہے کہ جب تک چہلم میمون تمام نہ ہووے کوئی کام امداد ان کی سے نہ ہو گا۔ ہنوز یک سال میعاد میں باقی تھا کہ بادشاہ نے انتقال بہ ملک جاودانی فرمایا اور یہ راز سربسر گرہ بند رہا۔ اب میری خاطر میں آتا ہے کہ تجھ کو لے کر ملک صادق کے پاس جاؤؤں اور ایک میمون باقی ماندہ لا کر کچھ تماشا دیکھوں اور دکھلا دوں کہ شاید اس وسیلہ سے ملک موروٹی اپنا پاوے اور ہاتھ اس ظالم کے سے مارا نہ جاوے اور بادشاہ چین و ماچین کا کہلاوے اور ہاتھ اُس ناانصاف کے سے جانبر ہو کے بقیہ زندگانی بخوبی بسر لے جاوے۔ تب میں نے کہا کہ اس مقدمہ میں تو مختار ہے۔ بہتر ہو سو عمل میں لا۔ پس میرے تئیں وہاں سے لا کے بیچ محل کے پہنچایا اور آپ بیچ خرید عطر و عنبر کے مشغول ہوا۔ بعد فراغت کے بیچ خدمت عمو کے جا کر عرض کیا کہ اس کے تئیں بیچ صحرائے ہولناک کے لے جا کر ٹھکانے لگا دوں تاکہ کوئی شخص واقف اِس اسرار کا نہ ہووے۔ عمو نے یہ بات سن کر بہت پسند کی اور پروانگی میرے لے جانے کی دی۔ آخر الامر مبارک میرے تئیں وقت نیم شب کے باتحفہ ہائے مسطور شہر سے لے نکلا۔ تامدت یک ماہ طرف مشرق کے چلا جاتا تھا، ایک شب کو کہنے لگا کہ الحمد لِلہ والمِتہ لشکر جنیان نمودار ہوا اور میں منزل مقصود کو پہنچا میں نے کہا کہ مجھ کو سوائے تیرے اور کچھ نہیں نظر آتا۔ مبارک نے فی الفور سرمۂ سلیمانی بغل سے نکال کر میری آنکھوں میں کھنچا۔ بہ مجر و اثر سلیمانی سرمہ کے ایک خلقت انبوہ نظر آئی کہ ہر ایک خوشرو اور خوبصورت تھے، ساتھ مبارک کے درہزل و مطائبہ مشغول ہوئے۔ رفتہ رفتہ بابہ بارگاہ پہنچے اور داخل خیمہ کے ہوئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صندلی ہائے طرح طرح ہر مکان پر بچھی ہیں اور فُضلا و علما و ارکان دولت و اعیان مملکت جابجا بیٹھے ہیں اور اوپر ایک کرسی مرصع کے بیچ صدر مجلس کے ملک صادق باتاج زر و چارقُب مروارید و تکیہ بر مسند بہ رُزک تمام بیٹھا ہے۔ میں نے آگے جا کر باادب تمام شرائط تسلیم و کورنش شاہانہ پیش پہنچائے۔ اُن نے اش راہ مہربانی کے حکم بیٹھنے کا فرمایا۔ بہ موجب حکم کے کار پردازان نے طعام و شراب حاضر کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۷

بعد فراغ طعام کے مبارک کو بلا کر از چگونگی حالات پوچھنا شروع کیا۔ مبارک نے تمامی سرگزشت بیان کر کے عرض کیا کہ بیچ حضور لا معُ النُور کے واسطے استدعائے مدد اور اعانت کے آیا ہے اور جو انعام کہ والد بزرگوار اس کے کو مقرر تھا، پاوے کہ میمون چہلم پورا ہو اور اس مظلوم بیکس کو بجز ذات فایض البرکات تمھاری کے کوئی مربی نہیں۔

جز بدرگاہت کجا آرم نیاز
آستانہ قبلۂ آمال ماست

عموئے نابکار اس سرگشتہ روزگار اوپر زندگی نا پائیدار اس دار پُر آشوب و شرار، فرمانبرداری اس کے سے راضی نہیں ہے، تابہ سلطنت بہ مملکت چہ رسد۔ ملک صادق نے سننے اس ماجرائے ہوش رُبا کے سے متأمل ہو کے فرمایا کہ حقوق خدمتے اور دوستی اِبہت دستگاہ مرحوم و مغفور کے اوپر ذمہ دست والا ہمت ہماری کے زیادہ ازحد ہیں۔ اور یہ بیچارہ از خانماں آوارہ بیچ پناہ دامن دولت کے آیا ہے، حتی المقدور تغافُل و تکاسُل نہ ہو گا۔ بشرط ایک امتحان کے، جو کچھ کہ چاہیے دوں گا، یہ اقرار کرتا ہوں اور ایک کام فرماتا ہوں۔ اگر بے خیانت ازراہ درستی و راستی سر انجام پہنچائے گا، منزلت اور قدر اس کی زیادہ بادشاہ مغفور سے کروں گا۔ میں نے عرض کیا کہ جو کچھ کام اور خدمت لایق اس فدوی خاکسار و ذرہ بے مقدار کے ارشاد ہو بیچ تقدیم لوازم احتیاط و ہوشیاری اس کی سعادتِ کونین حاصل کرے گا۔ فرمایا کہ تو جاہل ہے، مُبادا خیانت کرے اور بیچ ایسی آفت کے گرفتار ہوے گا کہ مخلصی اس سے تاقیامت معلوم۔ میں نے عرض کیا کہ اگر شفقت ملک کی اوپر حال کثیر الاختلال اس مرغ بے پر و بال کے ہو گی تو خدا تعالٰی سب آسان کرے گا، اور میں بہ جان و دل کوشش فراواں بیچ عمل کے لاؤں گا۔ چنانچہ ایک کاغذ بغل سے نکال کر اور مجھ کو آگے بلا کے بیچ ہاتھ میرے کے دیا اور کہا کہ اس تصویر کو واسطے میرے پیدا کر کے لا اور وقت ملاقات کے یہ دو شعر میری طرف سے کہہ سنا:
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۸

شعر

سب جان بوجھ کر کے مری بے کلی میاں
کیا واسطہ تھا آ کے خبر کیوں نہ لی میاں
ناحق کہ یہ رُکھائی جو کرتے ہو ہم ستی
یہ بانکپن کی طرح نہیں ہے بھلی میاں
آخر کو ہو گا خون ہمار تمھارے سر
یہ بات ہم نے خوب طرح اٹکلی میاں

بعد اتمام اس خدمت کے جو کچھ کہ مدعا اور آرزو ہو گی زیادہ اُس سے پاسے گا۔ والا جو کچھ خیانت کرے گا، خراب ہو گا۔ جس وقت کہ نگاہ میری اوپر تصیر پارچہ حریر کے پڑی از خود بے خود ہوا لیکن خودداری، ضرور جان کر خدمتِ فیض درجت اُس کی سے مع مبارک ددا کے رخصت ہوا اور بیچ بادیۂ تلاش و تردد کے گرم پویہ ہو کر دیہہ بدیہہ، قریہ بہ قریہ، شہر بہ شہر، ملک بہ ملک متلاشی رہا اور محنت بسیار و رنج بے شمار کھینچ کر مایوس مطلق ہوا۔ بعد مدت مدید ہفت سال کے بیچ ایک شہر کے پہنچا کہ تمام مردُم سکنہ اس جگہ کے اسم اعظم الٰہی پڑھتے تھے اور کوئی متنفس خالی ازیں شغل نہ تھا، بہ مجرد داخل ہونے شہر کے ایک کور چشم عجمی ضعیف نظر ایا کہ در بدر گدائی کرتا ہے۔ اور کوئی اس کو کچھ نہیں دیتا ہے۔ میرے تئیں تعجب آیا اور اوپر احوال پُر ملال اس کے رحم کر کے دست بہ جیب ہوا اور ایک دینار طلائی دیا۔ اُس نے کہا کہ اے مرد معلوم ہوتا ہے تو اہل اس شہر سے نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ فی الواقع مدت ہفت سال سے واسطے حصول مطالب کے نکلا ہوں اور صورت مطلوب کی نہیں دیکھتا ہوں۔ وہ پیر مرد دعا کہہ کر روانہ ہوا اور ہم بھی سیر کرتے ہوئے بیچ ایک مکان ویرانہ کے در آئے کہ عمارت وسیع و جائے رفیع تھی لیکن جا بہ جا شکستہ و افتادہ۔ نہایت عبرت سے میں نے کہا کہ سبحان اللہ ایک وقت کیا تیاری ہو گی اور اب کیا صورت ہے۔ ہم کہ داخل عمارت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲۹

کے ہوئے نسیم راحت بہ مشام جان ناتواں پہنچی اور ساتھی اپنے سے کہا کہ کیا بات ہو جو وہ گنج کہ بیچ تلاش اُس کی ایک مدت العمر سرگرداں مانند دانہ تسبیح کے ہو رہا ہوں، اس ویرانہ میں ہاتھ آوے۔ اس عرصہ میں وہ مرد اعمیٰ عصا زناں آ پہنچا اور اس مکان میں کہ زمین تحت عمارت کے تھی داخل ہوا۔ ایک آواز بیچ گوش ہوش میرے کے پہنچی کہ اے پدر خیر ہے جو آج شتابی مراجعت کی، اُن نے کہا کہ اے فرزند خدا تعالٰی نے آج ایک جوان کو اوپر حال میرے کے مہربان کیا کہ ایک دینار طلائی خالص مجھ کو دیا۔ ایک مدت سے آرزو طعام لذیذ کی رکھتا تھا ، سو خرید کر کے لایا اور واسطے تیرے پارچہ پوشیدنی جو کچھ کہ ضرور تھا، لیا۔ اگرچہ اورپر حاجت اُس جوان کے اطلاع نہ پائی لیکن بہ دل دعا واسطے حصولِ مطلب اُس کے کی اور اب تو بھی اُس کے حق میں دعا کر کہ دعا مظلوموں و مستمندوں کی بیچ جناب قاضی الحاجات کے مستجاب ہوتی ہے۔ میرے تئیں سننے اس احوال کے سے ایک رقت نے لیا، اور چاہا کہ ایک مُشت درم اس کے تئیں دوں۔ جو خوب نگاہ کر کے دیکھا تو اصل تصویر کہ طومار میں تھی، بعینہ معائنہ کی پس جوں ہی نظر میری اوپر اس گوہر مقصود کے پڑی، نعرہ مار کے بے ہوش ہوا۔ بعد ایک ساعت کے افاقت میں آیا اور کہا۔ شعر؂

غم کے پیچھے راست کہتے ہیں کہ شادی ہوتی ہے
حضرت رمضاں گئے تشریف لے، اب عید ہے

مبارک نے جو میرے تئیں اس حال سے دیکھا فی الفور بغل میں لیا اور پوچھا کہ تجھے کیا ہوا تھا کہ ایسا بے خود ہو گیا۔ ہنوز جواب نہیں دیا اور نظر طرف مقصد کے تھی کہ نازنین نے آواز کی۔ کہ اے جوان شرم خدا سے رکھ کہ الحیاء مِن الاِمإیمان سے بھی خبر رکھتا ہے کہ نہیں، میں فصاحت کلام اُس کی سے نہایت والہ و دیوانہ وہا۔ مبارک اوپر احوال میرے کے بہ غایت دلبری و دلداری کرتا تھا لیکن حال اندرونہ کے سے مطلع نہ تھا میں درجواب اُس کے کہا کہ اے نازنین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳۰

فرد

جب سےئ کہ راہزن مرا وہ سیم بر ہوا
عاجز ہوا، غریب ہوا، در بدر ہوا

میں مسافر غریب ہوں، از وطن آوارہ، بیکس و بیچارہ۔ التماس یہ ہے کہ ایک لمحہ میرے تئیں بیچ خدمت بزرگ اپنے کے راہ دے۔ وہ پیر مرد پہچان کے میرے تئیں اندر لے گیا اور بغل گیر ہوا اور وہ سر و ناز بیچ ایک گوشہ کے پنہاں ہوئی اس بزرگ نے سرگزشت میری پوچھی۔ میں نے ملک صادق کے ماجرے سے کچھ ذکر اور بیان نہ کیا اور کہا کہ اے پدر میں ایک صورت تصویر کو دیکھ کر عاشق ہوا ہوں، اس سبب سے حیران و سرگرداں اور پریشان بصورت درویشاں پھرتا ہوں اور باپ میرا فرمانروا ملک چین کا ہے۔ یہ تصویر ایک سوداگر سے، بہ عوض مبلغ خطیر ناگزیر لی ہے۔ دل اپنا سب تعلقات دُنیوی سے اُٹھا کر سیر ہر ملک و ہر دیار کا کیا تا ایں کہ بہ مقصد پہنچا ہوں۔ باقی اختیار تمھارا ہے۔ پیر مرد نے کہا، اے جواننیک عنوان فرزند دلبند میری گرفتار دام بلا اور مصیبت میں مبتلا ہے، کوئی بشر مجال نہیں رکھتا ہے کہ دست ہوس کا بیچ دامن وصال اُس کے مار سکے۔ میں نے باعث اُس کا پوچھا :-

تب اس پیر مرد اعمیٰ نے حقیقت احوال اس وجہ سے اظہار کیا کہ میں بزرگ زادہ والا تبار اس دیار ناہنجار کا ہوں۔ خدائے تعالیٰ نے میرے تئیں یہ دختر ہمچوتا بندہ اختر کرامت فرمائی کہ بیچ حسن و جمال اور غنج و دلال کے ثانی و نظیر نہیں رکھتی ہے جس وقت کہ آوازہ حسن و خوبی اس کے کا افسانہ ہوا جس نے سنا دل سے دیوانہ ہوا۔

بیت

باولے لاکھوں زلیخا سے پڑے پھرتے ہیں
کئی یوسف ہیں اسی چاہ زنخدان کے بیچ
 
236


جنات کی آئی اور الحمداللہ کہ مخت به راحت مبدل ہوئی۔ چنانچہ مبارک نے ملاقات کر کے پوچھا کہ آنا تمھارا کیوں کر ہوا۔ کہا کہ جس وقت خبر شاہ کو پہنجی که معشوقہ تمھارے ہاتھ آئی، ہم کو تعینات کیا کہ بہ محافظت تمام در ہر منزل و مقام، گام تا گام، مدام ہم عناں ہو کے چلے آو۔ اب که نزدیک تر پہنچے ہیں، اگر کہو تو ہم ایک لمحہ میں پہنچا دیں ۔ مبارک نے کہا اگرنازنین کو از راه وحشت کے کچھ آسیب پہنچے تو محنت سالہا رائیگاں ہو جائے اور موردعتاب و خطاب شاہ کے ہوویں گے، جلدی خوب نہیں۔ سب نے درجواب کہا


ع صلاح ماہمہ آنست کاں صلاح شماست


پس شب و روز بامحن 683 وسوز چلے جاتے تھے کہ ایک رات مبارک نے از بس بیداری سے بستر خواب کا گرم کیا اور میں نے اپنے تئیں زیر قدوم میمنت لزوم اس سر تکیہ ناز کے پہنچایا، گریہ و زاری اور عذرخواہی بسیار و نہایت بے قراری درمیان لا کر کہا کہ اے ناز تین مہہ جبین باعث آرام خاطر غمگیں ع قسم بجانت که بر نہ دارم سر ارادت زخاک آں پا

جس روز سے کہ صورت تیری دیکھی مبتلا زلف دل آویز کا ہوا ہوں دام الفت میں گرفتار ہوں ۔ در جواب اس نے فرمایا کہ شہر وطن مالوف میرے سے قصد اس طرف کا کیوں کیا۔ میں نے کہا کہ خوف تظلم بادشاہ کے سے چل نکلا۔ تب کہا کہ چشم کرم کی خدا تعالی سے رکھا چاہیے کہ جو کچھ چاہے سو کرے لیکن اے جوان میں نے بھی دل اپنا بیچ وفا اور دوستی تیری کے باندھا ہے، چاہے کہ بیچ کسی حال کے مجھ سے غافل اور فراموش نہ رہ۔ چنانچہ سخت زار زار ما ند ابر بہار کے روئی اور مبارک اوپر اس حال کے مطلع ہو کر نہایت غمگین ہوا اور کہا کہ ایک روغن میرے پاس ہے وہ بیچ بدن اس گلبدن کے لگاؤں گا کہ ملک صادق نفرت کرے گا اور معشوقہ تیرے ہاتھ آوے گی۔ یہ بات سن کر نہایت خوش ہوا اور شکر الہی و حقوق خدمت مبارک کا ادا کیا اور بیچ خواب غفلت کے سورہا۔ صبح کے وقت ایک آواز جنوں

کی سامعہ افروز ہوئی اور میں نے دیکھا کہ چند کس واسطے طلب ہماری کے آئے ہیں اور دو


237



خلعت فاخره لائے ہیں اور ہودج زرنگار مزین بہ جواہر آبدار واسطے اس گلعذار کے ہمراہ ہے، مبارک نے فی الفور روغن بدن میں اس معشوقہ کے لگایا اور اس ہودج پر سوار کیا۔ جنیاں684 وہیں حضور میں لے گئے اور ہمارے تیئں تحسین و آفریں کر کے امیدوار انعامات بیش از احاطہ بشری کا کیا۔ شعر


کیا کہوں اپنے دلستاں کی طرح

پر نہ آیاء گیا جو جاں کی طرح


جب وہ صنم حضور ملک صادق کے گئی، نہایت پرملال و سراپا رنج ونکال685 اورحال سے ہے حال تھی۔ بوئے ناخوش روشن کی بیچ دماغ ملک صادق کے پہنچی برہم ہو کر باہر آیا اور ہم کو بیچ حضور کے بلایا اور مبارک سے فرمایا کہ اے مرد، شرط بجا نہ لایا اور کہا تھا کہ خیانت نہ کروں گا۔ پس یہ بدبو روغن کی کیا ہے؟ یہ بات کہہ کر مورد عتاب و خطاب کا کیا۔ مبارک نے فی الحال بند شلوار کا کھول کر اندام نہاں اپنا دکھایا اور کہا کہ حضرت سلامت غلام جس وقت مامور اوپر اس امر خطیرکا ہوا اسی وقت رجولیت 686 اپنی کاٹ کر اور حوالہ خازن ملک کی کر کے اور اندک 687 مرہم سلیمانی لگا کے بعد از فرصت رو براہ ہوا۔ تب أن نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ معلوم ہوا کہ یہ خیال محال تیرے سر میں ہوگا، جو یہ امر شنیع 688 بیچ ظہور کے لایا، دیکھ تو تیرا کیا حال کرتا ہوں اور اس قدر غصہ کیا کہ میں تاب نہ لا سکا اور آگے دوڑ کر مبارک کی کمر سے خنجر لے کر اوپر ملک صادق کے مارا۔ بہ مجرد اس عمل کے میرے پیروں پر جھکا۔ میں نے متردد اور متفکر ہو کر معلوم کیا کہ ضربت نے کام پورا نہ کیا کہ اتنے میں وہ یکایک روئے زمین پر لوٹ کر مانند گیند ہوا اورطرف ہوائے آسمان کے اڑا اور نظر سے غائب ہوا۔ بعد ایک لمحے کے ہوائے فلک سے نیچے آیا، مانند رعد کے جوشاں و خروشاں اور مانند برق کے جہندہ 689۔ پاس میرے آ کر ایک لات ماری کہ میں بیہوش ہوا۔ جس وقت کہ ہوش میں آیا بیچ جنگل سخت کے پایا کہ بغیر از ریگ بیاباں و مغیلاں کے کچھ اور نہ تھا۔ ایک آہ سرد دل پر درد سے بھر لایا اور مانند مجذوبوں کے صحرا نوردو دشت پیما



238


بادیہ ضلالت و ناکامی کا ہوا اور جس کسی سے مکان ملک صادق کا پوچھا نشان نہ پایا، احوال میرا مطابق مضمون اس شعر کے ہوا۔ شعر



نام لیلی کا دم بہ دم لے لے

مارتا ہے جنگل میں مجنوں سر

أن ڈبائی ہے میرے دل کی ناو

زلف ہے جس پیارے کی لنگر


لا چار مایوس ہو کر چاہا کہ اپنے تئیں ہلاک کروں، یہ سوچ اوپر اس کوہ کے پہنچا کہ یہ درویش جہاں پہنچے ہوئے تھے اور اشارہ اس عابد کے سے بیچ اس مکان کے آیا اورتم بزرگوں سے مشرف ہوا۔ اب بیچ خدمت بادشاہ کے ملازمت کیمیا خاصیت حاصل کی۔

آگے دیکھے کہ درخواست کی کیا ہے۔


جس وقت سرگزشت درویش چہارم کی تمام ہوئی ناگاہ ایک غلغلہ شادی کا حرم سرائے شاہی سے بلند ہوا۔ خواجہ سرایان ڈیوڑھی خاص محل خبر لائے کہ تولد فرزند نونہال چمن شہر یاری مبارک باد۔ فرخندہ سیر اس خبر بہجت اثر سے نہایت خرم و دل شاد ہوا اور فرمایا کہ ظاہرمیں تو کوئی بارور نہ تھا اہل حرم سے دریافت کرو کہ مژده راحت افزا کہاں سے سامعہ افروز ہوا۔ عرض کیا کہ فلانی سہیلی کہ مورد عتاب کی ہوئی تھی اور ایک مدت سے داخل مغضوبوں کے ہو کر بیچ عافیت کے مخفی تھی اور مجرائے پابوسی سے محروم رہتی تھی اور کوئی ترس اور بیم جاں سےخدمت اس کی نہ کرتا تھا اور متحیر تھی که انجام حمل اس کے کا کیوں کر ہو اور کیا ہوگا۔


فرد


نہ ہووے کام دل کا کیونکہ حاصل عجزو خواری سے
کہ دانا سبز ہو افتادگی اور خاکساری سے


الحمد لله والمنة گلبن عصمت و بختیاری کے سے گل مراد کا شگفتہ ہوا اور بادشاہ
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 211-215
------------
صفحہ 211
------------

بعد چند روز کے حسن تد بیر و کارسازی میری سے، نوبت یہاں تک پہنچی کہ بادشاہ فرنگ کا
کوئی کام با مشورت اور بے اطلاع اس فدوی کے نہ کرتا۔ اس اوج دولت اور شان و
شوکت میں بھی خدا آگاہ ہے کہ شب و روز یہی خیال رہتا تھا کہ احوال برادران عزیز کا کیا
ہوگا۔ بعد مدت سہ سال ایک قافلہ از راه دریا کے آیا۔ ملک التجار نے میری ضیافت کی میں
سوار ہو کے گیا۔ اس قافلے میں دونوں برادروں کو پہچانا کہ مثل خدمت گاران پریشان
احوال اور تباہ ہیں۔ وقت معاودت کے ملازمان سر کار اپنے سے کہا کہ ان دونوں نوجوانوں
کو ساتھ لے آؤ۔ چنانچہ حمام کروا کے اور خلعت فاخرہ پہنا کے ملازمت شاه فرنگ کی کروائی
اور ہر ایک کو جدا جدا خدمت عمده دلوائی۔ چند روز میں گزرے کہ ان بے حیاؤں نے پاس
خاطر میرا باوجود مسلوک613 ہونے اور اس قدر جمعیت و دولت کا مدنظر نہ کر کے، بیچ قتل
کر نے میرے سے مصلحت کی، واسطے اس کے کہ ایک روز وہ نازنین مہ جبین صبح باغ میں
طرف دریا کے سیر کرتی تھی کہ ناگاہ نگاہ منجھلے صاحب کی ساتھ نگاہ اس کی کے ہم نگاہ ہوئی اور
بے اختیار عاشق ہو کر برادر کلاں سے یہ ماجرا کہا ، وہ بھی متفق مصلحت مرگ میری کا ہوا۔
اتفاقا ایک شب کو میں غافل سوتا تھا اور وہ در یکتا ، واسطے قضائے حاجت کے گئی تھی کہ ناگاه
ہر دو جوان مثل یاجوج و ماجوج کے اوپر چھاتی میری کے آن چڑھے اور رسی میرے گلے
میں ڈال کر خفا کیا کہ اس اثنا میں کتے نے فریاد کی اور میں بے ہوش ہوا۔ ان نابکار ظالم
ستمگار نے میرے تئیں دریا میں ڈالا، جس وقت کہ موج دریا نے میرے تئیں ساحل پر
پہنچایا، اس وقت ہوش میں آ کر دیکھتا کیا ہوں کہ دھوبی کپڑے دھوتے ہیں اور مجھ کو گود میں
لے کر پیچ چاولوں کی پلاتے ہیں اور شاید کہ رسی بھی میرے گلے کی انھوں نے دور کی تھی۔
آخر الامر وقت شام کے گھاٹ پر سب اپنے گھروں کو چلے اور میرے تئیں انبار کاہ 632 میں
ڈال گئے کہ کوئی جانور رات کے وقت میرے تئیں توڑ نہ ڈالے۔ میں تمام شب بے ہوش
اور بدحواس تھا صبح کے وقت جو ہوشیار ہوا تو ایک کھیت سبز نظر آیا۔ اس طرف کو روانہ ہوا۔
آن کے دیکھتا کیا ہوں کہ ایک جھوپڑی کسی کی آباد تھی اور چند مردم سیاہ فام بد سرانجام نے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
------------
صفحہ 212
------------

آگ جلائی تھی اور ہولے کھاتے تھے۔ مجھ کو دیکھ کر اشارہ کیا ک نخود بریاں 633 تو بھی کھا۔
میں نے مشت نخود 634 اس بے خودی میں کھائے اور خدا کو یاد کیا اور پانی پی کے ایک گوشے
میں سو رہا ۔ حقیقت احوال میرا انھوں نے نہ پو چھا نہ میں نے ان کی زبان سمجھی نہ انھوں نے
میری حالت دریافت کی۔ دوسرا روز جو ہوا تو پھر وہی نخود بریاں میری غذا ٹھہری کہ سوائے
اس کشت کاری کے اور کچھ ذکر نہ تھا۔ میں نے دو پتھر لے کر اور آرد سائیدہ 635 کرکے
روٹی پکائی۔ بدستور میرے وے بھی عمل میں لائے اور نہایت محظوظ ہوئے کہ یہ ڈول ہم
نے تجھ سے سیکھا۔ خیر وہاں سے یہ رفاقت سگ حضور بہ از فرزند دور کے روانہ ہو کر تین دن
رات چلا گیا اور وہ دشت حدت وہوا سے مانند دشت محشر کے تھا اور سوائے ریگستان کے کچھ
اور نظر نہ آتا تھا۔ وو آرد نحود636 کہ تیار کر کے ہمراہ لیا تھا، قدرے قدرے موافق تبرک کے
خرچ میں لاتا ۔ چوتھے روز ایک حصار فلک فرسا نمودار ہوا ۔ چہار طرف اس کے سیر کیا اور
دیکھا کہ ایک دروازہ تھا، مقفل ساتھ تین قفل کے۔ وہاں سے مایوس ہو کر آگے کو چلا تو
بالائے ایک کوہ کے پہنچا کہ خاک اس کی سیا مانند سرمہ تھی ، وہاں سے جو سواد 637 ایک شہر کا
نظر آیا ، خوش وقت ہوکر بہ شوق تمام رہ گزر ہوا۔ جس وقت کہ دروازۂ شہر پر پہنچا بسم اللہ کہہ
کر کے داخل ہوا۔ دیکھا تو ایک مرد، لباس فرگی پہنے ہوئے ، اوپر ایک کرسی کے بیٹھا تھا۔
آواز بسم اللہ کی سن کر میرے تئیں بلایا اور احوال میرا پوچھا میں نے عذر کیا کہ طاقت گفتار
نہیں ہے۔ وہ عزیز میرے حال پر رحم کر کے نان و کباب لایا۔ میں نے چاہا کہ اس طعام
سے رفع گرسنگی حاصل کروں کہ ناگاه لقمۂ اول کھاتے ہی بے ہوش ہو او پر زمین کے گرا۔
وقت شب کے جو میں ہوش میں آیا اس مہربان مسافران کے نے احوال پرسی میری کی۔
میں نے مشقلت دریا محنت صحرا اور نقصان مال اور تصدیعہ دادن برادران چند دفعہ ایک ایک
اظہار کیے۔ پھر ان نے پوچھا کہ اب کیا ارادہ ہے۔ میں نے کہا ، چاہتا ہوں کہ چند روز
زیست کے اس شہر میں گزران کروں۔ اب یہ طاقت سیرصحرا کی ہے اور قوت سفر دریا
اور نہ زاد راحلہ 638 مگر یہی دل پر خون و پائے پر آبلہ رکھتا ہوں؂
 

سید عاطف علی

لائبریرین
------------
صفحہ 213
------------

از ضعف بہ ہر جا کہ نشستیم وطن شد

ان نے کہا کہ اے عزیز تو عجمی ہے اور حق دین اسلام کا مجھ پر رکھتا ہے۔ بیچ اس شہر کے تو
مت جا یہ بیل وغربال 639 اورتو بڑا 640 لے کر اس ٹیلے پر جا اور زور کر کے کھودنا شروع کر جو
کچھ کہ کھودے گا غربال سے چھان کر تو بڑے میں ڈال کر میرے پاس لے آ۔ بعداس کے
جو کچھ کہوں مطابق اس کے عمل میں لاتا۔ میں بہ مجرد فرمانے ، اس مرد کے اس مکان پر گیا
اور موافق ارشاد کے عمل میں لایا۔ جواہر و زواہر641 بسیار اس خاک میں ظاہر ہوئے کہ آنکھ
دیکھنے سے خیرہ کرتی تھی ۔ تو بڑے میں پر کیے اور دانہ کلاں واسطے اپنے چھپائے اور تو بڑا
اوپر دوش کے اٹھا کر حضور اس کے حاضر گیا۔ ان نے کہا ۔ دولت عظمی نصیب تیرے کی
ہے تولے اور ایک نان اور میوہ مجھ کو دیا اور کہا کہ اس شہر میں کسی نے تجھ کو دیکھ نہیں ہے جا
اور جان اپنی سلامت لے جا۔ میں راضی نہ ہوا اور کہا کہ البتہ اس شہر میں داخل ہوں گا ۔ اس
عزیز نے لاچار ایک انگشتری اپنے ہاتھ کی نشانی دی اور کہا کہ درمیان چوک کے ایک شخص
میری صورت ہے تو اس کے پاس جا اور پوچھا کہ وہ کے عمل میں لا۔ میں نے دعا کی اور
داخل شہرکا ہوا ۔شہرے دیدم بہ کمال آراستگی و آبادی معمور بازار دلکشا ۔ زن و مرد بہ انبساط
اختلاط با ہم چکنا چور ہر ایک مست شراب ومخمور، مردان با مردان و زنان بہ زباں دربیع و
شرا 642 مشغول ومسرور ۔ میں طرف چوک کے روانہ ہوا۔ خدمت اس بزرگ کے کر پہنچ کر
سلام کیا ۔ اسی عزیز نے احوال پرسی کی اور کہا کہ برادرگردن شکستہ نے تیرے تئیں دیکھا اور
داخل ہونے شہر سے منع نہ کیا ؟ میں نے کہا کہ رات میں خدمت اس بزرگ کے رہا اور وہ
مبالغہ تمام سے مانع ہوا تھا۔ میں نے قبول نہ کیا تقصیر اس کی نہیں ہے تب اس نے از راه
تاسف کے کہا کہ افسوس اے ظالم ہی سب تکالیف کہ تجھ پر گزریں سہل تھیں لیکن یہاں نہ آنا
تھا۔ تب میں نے پوچھا کہ مجھ کوحقیقت اس شہر کی سے مطلع کرو کہ تم اور بھائی تمھارا دونوں
مانع ہوئے باعث اس کا کیا ہے؟ تب ان نے کمیت زبان اپنی کے تئیں عرصہ بیان کے
جولاں گرتقریر کا کیا کہ سکنہ اس شہر کے کافر ہیں جو کوئی مصیبت زدہ وارد اس شہر کا ہوتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
------------
صفحہ 214
------------


اپنے گھر میں جگہ ا قامت کی نہیں دیتے تاکہ فرمانروائے اس شہر کو اطلاع نہ ہو اور جب
فرمانروا کوخبر ہوتی ہے تو وہ ایک بت رکھتا ہے کہ شیطان بیچ اس کے رہتا ہے اور تکلم کرتا ہے
اور نام ونشان وحسب ونسب اس کا بتاتا ہے اور بادشاہ سجدہ اس بت کا کرواتا ہے۔ جو
کوئی چاہے کہ بے رخصت اپنے وطن کو بھاگ کر جائے ، یہ خیلے مشکل ہے۔ کس واسطے کہ
جیوں جیوں وہ چلتا ہے توں توں آلت 643 اس شخص کی بڑھتی ہے تا بہ حد کہ راہ چلنے سے
عاجز رہتا ہے اور یہ بھی کہ جوکوئی سجدہ بت کا کرتا ہے اور کتخدا 644 ہونا چاہتا ہے، اس کو
دختراپنی دیتے ہیں ۔ میں حقیقت سن کر بیزار ہوا اور اپنے بھائیوں کے حق میں دعائے بد
کی۔ اس مرد بزرگ سے کہا کہ اب دامن دولت تمھارا پکڑا ہے، میرے حق میں جو بہتر ہوسو
کرو۔ ان نے کہا کہ خاطر جمع رکھ ۔ ایک عورت تیرے واسطے تجویز کی ہے۔ میں نے کہا وہ
کون ہے کہا کہ دختر وزیر، پانزدہ 645 سالہ، سرو قد ، شکرلب ، شیریں گفتار ، نہایت خوبصورت
اور صاحب جمال ہے ۔ قاعدہ یہاں کا یوں ہے کہ جو کوئی مرد اجنبی وارد ہوتا ہے اور بت
بزرگ کو سجدہ کرتا ہے جو کچھ مرتبہ اور جس چیز کی آرزو رکھتا ہے، اس کو سرانجام کر دیتے ہیں،
انشاء اللہ تعالی رو ز آئندہ وقت صبح کے فرمانروا واسطے زیارت بتکدہ کے جائے گا۔ میں
تیرے تئیں ہمراہ اپنے لے جا کر شرف ملازمت بادشاہ اور زیارت بت بزرگ و آداب و
کورنش و قد مبوسں بادشاہ دوست بوس برہمن کہ کلید فتح الباب مقاصد کا ہے مؤدی
کرکے بیچ دامن بادشاہ کے چنگل آرزوئے درخواست دختر وزیر کا ماریو ۔ میں احوال تیرا
مفصل عرض کر کے اس مقدمہ کو کرسی نشین کروں گا۔ القصہ وقت صبح کہ بادشاہ اورخلق اللہ از
ہفت سالہ تا ہفتادسالہ پسران خوش لقا و دختران خورشید سیما و تمامی ارکان سلطنت و رئیسان
صاحب حیثیت ، رونق افزاو ہنگامہ افروز بت خانے کے ہوئے، مجھ کو وہ مردلباس فاخرہ سے
قامت آراستہ کر کے اوپر ایک مرکب کے سوار کر کے ہمراہ اپنے لے گیا۔ میں نے اس جلسے
میں پہنچ کر دیکھا کہ ایک بت تراشیده مزین بہ جواہر و زر با تاج و گہراوپرتخت مرصع کے بہ
لباس ملوکانہ زیب آرائے مسند حشمت و جلال کے ہے اور ایک چھوٹے تخت پر مادر بر ہمناں کہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
------------
صفحہ 215
------------


مرغوب اس بت کی ہے، بڑی ہی شان اور زیب تمام سے بیٹھی ہے اور دوطفل دوازده سالہ
دست راست و چپ مغرق 647 مع زروجواہر کے دوزانو اس سے لگے ہوئے بیٹھے ہیں اور
بادشاه و امراء و ساکنان فرنگ با دانش وفرہنگ دست بستہ مؤدب دوزانوحضور اس بے شعور
سنگ معذور کے تئیں معبود کرامت آمود 648 اپنا جان کر بہ جان و دل متوجہ ہیں ۔ میں نے
زمیں بوسی وسجدہ بت بزرگ کو کر کے اور قدم بوسی بادشاه و مادر برہمناں کی بجالا کے دامن
بادشاہ کا پڑا اور درخواست دختر وزیر با تدبیر کی کی ، بادشاہ نے اس مرد سے پرسش احوال
میر ے کی کی ۔ اس نے عرض کیا کہ یہ عزیز خویش و اقارب میرا ہے اور بہ امید زیارت بت
بزرگ کے آیا ہے اور دختر وزیر کو دیکھ کرتیر نگاہ اس کے سے گھائل اور جان و دل سے مائل
اور تم سے سائل ہوا ہے۔ امید وار ہے کہ امر سراسراثر صاحب تخت چتر 469 کے سے وزیر
روشن ضمیر سراپا عقل و تدبیر کے تئیں پہنچے کہ اس کےتئیں بیچ غلامی کے سرفراز ممتاز اور اس
آرزو سے بے نیاز کرے۔ بعید از غریب پروری و مسافر نوازی سے نہ ہو گا فرمان فرمانے
فرمایا کہ اس مرد کو ساتھ رختر وزیر کے جفت 650 کریں کہ علم نادر بت بزرگ کا یوں ہے۔
برہمن نے رشتہ زنار گلے میں ڈال کر ساتھ اس گلعذار کے، کہ دل اس کی آرزو میں تارتار
اور چشم اس کی امید وصال میں اشکبارتھی ، عقد ازدواج کا منعقد کیا اور سجدہ پایہ تخت اس
سنگ سخت و بد بخت کا کروایا۔ اس اثناء میں ایک آواز جوف 651 بت میں سے برآئی، کہ
اے خوا جہ زاده خوش آمدی و صفا آوردی ، اب الطاف بلا اکناف 652 ہمارے کا
امیدواررہ ۔ ایک مرتبہ سننے اس کلام کے خلائق زمیں بوس ہوئی۔ بارے بادشاہ نے خلعت
فاخر و مرحمت کیا اور حکم نوازش نقار خانے کا ہوا آوازه بیچ جہان کے منتشر ہوا کہ ایک عجمی کو
بت بزرگ نے از راہ کرم و فضل کے اپنا خاص بندہ کیا اور اختر وزیر کی مرحمت ہوئی۔ مدت
یک سال ہم بریں منوال با عیش و نشاط کمال خورم 653 و خوشحال گزرے۔ اور وہ معشوقہ حاملہ
ہوئی ، اس عرصہ میں اسقاط عمل سے بیمار ہو کر چند روز میں ودیعت حیات کی سپردکی اور مجھ کو
سخت پریشانی وخانہ خرابی نے لے لیا۔ از راه پیچ و تاب کے زار و نزار نہایت بے قرار اور
 

محمد عمر

لائبریرین
201


گزرا۔ ایک روز خورشید آسمان دلبری کی حمام میں جا کر نہا آئی، مگر غافل ازیں کہ ہر دو مرد مردانے گھر میں ہیں چادر سر سے دور کیا۔ برادرمیانہ کی نظر جیوں ہیں کہ اُس کے قد و قامت پر پڑی تفنگ عشق کی جگر کے پار ہوئی اور تلاش ہلاکت میری کے مستعد ہوا۔ چنانچہ ایک رات کو یاد وطن کی کر کے آہ سر دل پُر درد سے برلایا اور کہا کہ پردیس کی بادشاہی پر وطن کی گدائی فخر رکھتی ہے میں نے کہا کہ خوب کہتے ہو، مجھ کو بھی اشتیاق وطن کا سلسلہ جنباں ہے۔ بارے اَندک فرصت میں تیاری کر کے روانہ ہوا۔ ایک منزل میں منجھلے بھائی صاحب بولے کہ اگر مقدور ہوتا تو ایک مقام کرتے کہ فضا اس سیر کی نہایت دلچسپ ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم نے کیوں کر جانا، کہا کہ ایک دفعہ ہمارے تئیں اتفاق اس راہ کا پڑا ہے۔ یہاں سے ایک فرسخ پر ایک چشمہ واقع ہے کہ آب زُلال اُس کا یا داز سَلسبيل (۶۰۳) و تسنیم بہشت کی سے دیتا ہے اور گل و اشعار اُس کے کام عطر گل کا کرتے ہیں کہ روضۂ رضوان اور فردوس الجنان پر فخے رکھتا ہے۔ میں نے قافلے میں صلاح اقامت کی دی اور کوچ موقوف کیا۔ وقت صبح کے کہ ہنوز روشنی کامل نہ ہوئی تھی، ہر دو برادر مسلّح اور مکمل ہو کر کہنے لگے کہ وقت بہار کا ہاتھ سے جاتا ہے۔ شتاب روانہ جیے کیونکہ دھوپ میں کچھ لطف نہیں۔ جس وقت کہ میں نے سواری طلب کی اُس وقت کہا کہ پیادہ پا بڑا لطف ہے اور مکان بھی متصل ہے، کچھ احتياج سواری کی نہیں۔ ہم تینوں بھائی اور یہ کتّا اور دو غلام مع حقہ و قہوہ طرف صحرا کے روانہ ہوئے، اور تیر اندازی کرتے ہوئے متصل ایک بار کے آئے۔ اتنے میں ایک غلام کو کسی کام کے بہانے طرف قافلے کے بھیجا۔ جب کہ اس کو دیر لگی، دوسرے کے تئیں اُس کے بلانے کو روانہ کیا۔ اس عرصہ میں مجھ کو احتیاج قضائے حاجت درپیش آئی۔ ایک جھاڑ کے نیچے بیٹھ کر متوجہ و مشغول استنجے کا ہوا کہ یکایک برادر کلاں نے سر پر پہنچ کر ایک تلوار ماری کہ تابنا گوش (۶۰۴) پارہ کیا۔ میں کہ یہ کہتا ہی تھا کہ اے ظالم یہ ظلم ناحق کیا ہے، کہ دوسرے نے دوڑ کر اوپر پشت کے تلوار ماری کہ بے ہوش و خموش ہو کر گرا۔ اس کتے نے کئی ایک زخم پنجے و دَندان تیز تراز نوک سَنان سے اُن کو زخمی کیا اور اُن کے ہاتھ سے آپ بھی زخمی ہوا۔


202


القصہ برادران بے ایمان نے از راہ مکر و فریب کے ایک ایک زخم ہلکا سا اپنے بدن پر لگا کے اور پارچہ پوشیدنی (۶۰۵) اپنے خون میں سرخ رنگ کر کے قافلے میں جا کر کہا کہ قزّاق بد ذات درعین سیر و طیر ہمارے سر پر آئے اور جنگ عظیم واقع ہوئی۔ چنانچہ ایک بھائی مارا گیا اور ہم زخمی و خوار یہاں تک آئے۔ اُس ملکہ زیر آباد نے کہ حقیقت اُن کی سے خوب مطلع نہ تھی اپنے تین بہ ضرب خنجر ہلاک کیا اور یہ دونوں شخص فکر و خَدع (۶۰۶) سے روتے تھے اور بہ زبان حال کہتے تھے ؎


عجب نصیب ہمارے ہیں اس دیار میں ہائے

پڑے ہیں دام میں صیاد کے بہار میں ہائے

تو کچھ تو درد ہمارا بھی اب سمجھ ساقی

کریں ہیں بادہ پرستی کے ہم خمار میں پائے


آخر کو یہ دونوں صاحب مال و دولت ہمراہ لے کر ساتھ قافلے کے روانہ ہوئے اور میں مجروح جنگل میں بے ہوش پڑا تھا۔ اس عرصہ میں دختر بادشاہ فرنگ کی برائے مسیر باغ با مَہو شان گُل اندام کے پہنچی اور حقیقت احوال میرا دیکھ کر سواری کھڑی کی اور فِرنگی جَراح اُستاد کامل کو بلا کر امیدوار انعام کا کیا اور کہا کہ بیچ غسل سحت اس کی کے جس قدر جلدی کرے گا، مورد عنایات بے غایات کا ہو گا۔ اُس مرد جَرّاح نے زخموں کو دھو کر بخیہ کیا اور مرہم لگایا اور وہ ملک شفیقہ ہر روز دو تین بار واسطے خبر گیری میری کے تشریف لاتی اور شوربائے مرغ، اپنے ہاتھ سے پلاتی اور اکثر کہتی کہ کس ظالم و ستمگار، جفا کار، مردم آزار نے یہ ظلم و ستم روا رکھا ہے۔ بُتِ بزرگ سے نہ ڈرا۔ القصہ بہ فضل شان مطلق در عرصہ یک ماہ بہ حالت اصلی درست ہوا اور وہ نازنین مہ جبین ایک آہ جاں سوز و جگر دوز سینہ سے بر لا کر تفحص احوال میری پر متوجہ ہوئی۔ میں نے مفصل حقیقت اپنی گزارش کی فرمایا کہ کچھ غم نہ کر۔ جس وقت عاشق آفتاب کا بیچ کوچۂ مغرب کے گیا اور معشوق ماہ تاب، بیچ صحن سما کے جلوہ پرداز ہوا، بیچ نصف شب کے اپنے تئیں میرے پاس پہنچایا اور میں ہر توجہ سے بیچ خاطر داری و دل جوئی



203


اُس کے مُقصر نہ تھا اور گلشن وصال اُس پری تمثال کے سے گل کامیابی کے چُنتا۔ چنانچہ دایہ اُس کی بھی اس راز پر مطلع ہوئی۔ ایک روز وقت شب کے وہ ملکہ جادو ادا خورشید لقا در حضور پُر نور والد بزرگوار اپنے کے تشریف رکھتی تھی اور میں فرصت کو غنیمت جان کر گوشتۂ باغ میں بیچ ادائے قضائے نماز کے مشغول تھا کہ نا گاہ وہ ملکہ خدمت پدر کے سے مُرخّص ہو کر اوپر بستر خواب کے آ بیٹھی اور دایہ سے کہا کہ وہ کم مایہ آج فرصت پا کر ساتھ کسی خواص(۶۰۷) کے ہو گا، دیکھوں تو کہاں ہے اور کیا کرتا ہے۔ اس تلاش میں اُٹھ کر رو برو میری آئی اور طرز عبادت میری کا دیکھ کر تعجب کرتی تھی کہ یہ دیوانہ ہو گیا، اُٹھا بیٹھی کر رہا ہے۔ جس وقت کہ میں نے فرض سنت و نفل سے فارغ ہو کر دست دعا کا بیچ جناب حضرت قاضی الحاجات کے اٹھا کر ساتھ گریہ وزاری کے مناجات پڑھی، ملکہ قہقہہ مار کے ہنسی اور کہا کہ اے مرد عجمی دیوانہ ہوا ہے۔ میں بجائے خود خشک و ہراساں ہو گیا۔ معشوقہ آگے میرے آئی اور پوچھا کہ کیا کرتا تھا، دایہ نے کہا کہ یہ مرد مسلمان، خدائے نادیدہ کی پرستش کرتا ہے، ملکہ برہم ہوئی اور کہا کہ پس دشمن اپنا بغل میں پانتی ہوں۔ یہ کہہ کر از راہ غم و غصہ کے میرے پاس سے اُٹھ گئی۔ میں بھی اپنے حجرہ میں آیا اور دروازہ بند کر کے نماز کے مشغول رہا۔ دو روز کے بعد شب سویم کو نشہ شراب میں سرشار آ گئی اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اور پیالہ پی کر دائی سے کہا کہ یہ شخص، بیچ غضب بُت بزرگ کے گرفتار ہو کر زندہ ہے یا مردہ۔ دائی نے کہا کہ رمقے از جان باقی دارد۔ کہا کہ ہر چند نظروں سے گر گیا ہے لیکن یہ اس سے کہہ کہ باہر آوے۔ میں بہ مُجر و طلب مست غضب کے سراسیمہ دوڑا گیا اور سلام کر کے ایک طرف کو کھڑا ہوا۔ بعد ایک ساعت کے خشمگیں نظروں سے دیکھ کر دائی سے کہا کہ اگر میں اس کو مار ڈالوں تو بت بزرگ مجھ سے راضی ہووے۔ دائی نے کہا کہ یہ بہتر ہے مگر یہ بات بت بزرگ ہی پر موقوف رکھیے۔ تب ملکہ نے فرمایا کہ اس کو کہہ کہ بیٹھے۔ میں بہ موجب ارشاد کے بیٹھ گیا۔ ملکہ نے دہائی سے کہا کہ اس کو شراب دے کہ وقت مرگ کے سختی نہ دیکھے۔ دائی نے ایک جام پراز شراب گلفام میرے تئیں دیا۔ جس وقت کہ اُس کے پینے سے دماغ میرا گرم ہوا از راہ



204

دلیری کے برسر سخن آیا اور کہا:

فرد

دلم بردی و دلداری نہ کردی

غم داری و غمخواری نہ کردی


یہ سن کر زیر لب خندہ کیا اور کہا کہ اے دائی، شاید تجھ کو نیند آتی ہے۔ اُن نے از راہ وقل دریافت کر کے کہا کہ واقعی ملکہ کو صاحب کرامات کہا چاہیے۔ دعا و ثنا کہہ کر اُٹھی اور محل خواب گاہ اپنی میں جا کر سو رہی۔ ملکہ نے بعد ایک لمحہ کے پیالہ مانگا، میں نے پُر کر کے دیا۔ جس وقت شراب پی کر پیالہ میرے تئیں دینے لگی، میں نے بوسہ اوپر دست مبارک کے دیا اور پیروں پر پڑا۔ نازنین صنم نے ہاتھ جھاڑ کر کہا کہ اے جاہل، بت بزرگ سے کیا بدی دیکھی کہ پرستش خدائے نادیدہ کی کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ اے سرخیلِ معشوقانِ طَنّاز پرستش اس خدائے بے ہمتا کی کرتا ہوں کہ تجھ سا گل بیچ گلزار جہاں کے نشوونما کیا ہے اور مجھ سے بیچارے کے تئیں، اسیر طرۂ تابدار تیری کا کیا ہے اور تیرا بت بزرگ کیا بلا ہے ایک سنگ تراشیدہ بے حس و حرکت ہے کہ جس کی پرستش سے نہ فائدہ دین کا نہ دنیا کا، جس وقت عبارت معبودِ حقیقی کی کرے گی اور اس راہ ضلالت سے کہ از رہ گمرہی تیری کے ہے، نکلے گی، معلوم ہو گا کہ عبادت الہیٰ کیا اثر رکھتی ہے۔

فرد

مَر اُو را رسد کبریا و منی

کہ ملکش قدیم است و ذاتش غنی


جس وقت میں نے دیوان معرفت الہیٰ کا کھولا و از دلائل قاطع و حُجت ساطع وَحدانیت سے آگاہ کیا تب ان نے بہ صدق دل کلمہ طیبہ زبان پر جاری کیا اور تا صبح روتی اور استغفار کرتی


205

رہی اور فرمایا کہ والدین میرے کافر ہیں، اس کا کیا علاج ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اُن کے کفر و اسلام کی باز پرس تجھ سے نہیں ہونے کی۔ کہا کہ میں نامزد و پَسر عِمّو کی ہوں، اگر وہ مجھ سے نزدیکی کرے گا تو نطفہ کافر کا پیٹ میں قرار پکڑے گا۔ اِس واسطے ایک ترکیب میرے ضمیر پر آ گئی کہ فکر بھاگنے کی کیا چاہیے تا اس تہلکہ سے خلاص ہوں لیکن چند روز مفارقت میری اختیار کرنا از جملہ واجبات ہے۔ قافلۂ سوداگران میں جا کر مقام کر، میں دائی کو ہر روز واسطے خبر تیری کے بھیجوں گی اور جواہر گراں بہا تجھ تک پہنچا دوں گی، جس وقت کہ سوداگرانِ بلادِ عجم کے از راہ دریا کے مسافت کریں، تو بھی تیاری اپنی کر کے مجھ کو اطلاع دے تو میں رات کے تئیں تن تنہا تیرے پاس پہنچوں گی، میں نے کہا فدایت شوم، بہتر ہے۔ دایہ کے ساتھ کیا کروں گی۔ کہا ؎


واہم جامے کہ باجانش ستیزد

کہ تا روزِ قیامت بر نہ خیزد


وقت صبح یُک مشت زر سرخ میرے تئیں دے کے رو برو دایہ کے رخصت فرمایا اور میں مفارقت کر کے بادل پُر حسرت خدمت اس کی سے مرخّص ہو کے کارواں سرائے کے آیا۔ تب ایک کوٹھری لے کر شب و روز بیچ فراق اُس دلفریب کے آہ و سوز خونِ جگر کھاتا تھا۔ ایک مدت پیچھے سوداگروں نے از راہ دریا ارادہ وطن کا کیا۔ جس وقت کہ مجھ کو کہا، کہ تو بھی تیاری اپنی کر، میں نے واسطے رفع تہمت کے کہا مگر کسی سرمایہ پر ارادہ کروں، بقول آں کہ اوچھی پونجی خصمی کھائے۔ تب انہوں نے کہا کہ اس کفرستان میں کب تلک رہے گا، میں نے کہا کہ خوب اگر تم ایسا ہی کہتے ہو تو ایک میں اور ایک لونڈی اور ایک کتا اور ایک صندوقچہ یہ کچھ بساط ہے۔ میرے لایق جہاز میں جگہ مقرر کیجیو، میں شہر میں جا کے اور اسباب لا کے تمہارے ساتھ ہوتا ہوں۔ سبھوں نے متفق ہو کر کہا کہ جلد جا کر اسباب اپنا لا۔ چنانچہ لباس خواب کا اور کتّا جہاز میں سوار کیا۔ جو معلوم ہوا کہ وقت صبح کے بادبان بلند ہو گا رُفقائے سفر سے مُرخّص ہو کر شہر کو آیا کہ کنیز اپنی کو لے آؤں۔ وہاں سے شہر میں آ کر دائی


206

سے کہا کہ اے مادر مہربان واسطے رخصت ہونے کے تیری خدمت میں آیا ہوں، اگر بہ توجہ عالیہ یک مرتب و بیدار مکہ کا نصیب ہو تو بعید اشفاق کے نہ ہو گا اور یہ بندہ بے درم خریدہ ہو کر خطِ غلامی کا نقوش خاطر عقیدت مآثر کے رکھے گا۔ دائی نے از راہ مَہر وَ رزی کے نظر اوپر حال تباہ میرے کر کے فرمایا کہ فلانی جا پر متصلِ حَرم سَرا کے اقامت پذیر ہو، میں خبر کر کے بلا دوں گی۔ چنانچہ اندرون دولت سرائے اُس بدیع الجمال نیکو خصال کے دائی نے اظہار عرض اور شیفتگی میری کا کیا ملکہ درمیان لوگوں کے راضی نہ ہوئی اور جواب صاف دیا۔ لیکن پچ نصف شب کے سب کو رخصت کر کے صندوقچہ جواہر بے بہا کا لے کر بغل میں برآمد ہوئی۔ میں جو منتظر آمد آمد کا تھا، دیکھ کر نہایت شاد ہوا اور صندوقچہ اس کے ہاتھ سے لیا۔ دونوں باہم جلد قدم اُٹھا کر وقت نور کے دریا پر پہنچے اور سوار ہوئے۔ ملاحوں نے لنگر اُٹھا کر بادبان بلند کیا اور شَلّک توپ (۶۰۸) کی سر دے کر جہاز روانہ ہوا۔ از بس خوشی سے کہ گویا فرمان دہی ہفت اقلیم پر دست رس پایا، خوش و خرّم چلے۔ تا پاشت بہ سُرعت اتم کشتی چلی جاتی تھی کہ سمت بندر (۶۰۹) کے سے صدا توپ کی سر زد ہوئی۔ القصہ جس وقت بادشاہ کو خبر ہوئی کہ وائی موئی پڑی ہے اور ملکہ غائب ہے، سننے اس حقیقت کے سے حکم والا صادر ہوا کہ مُستَحَقطان طَرق (۶۱۰) و شَوارِع (۶۱۱) جَزایر و بَنادر (۶۱۲) کو فرمان عالی پہنچے کہ تفحص و تجسس کریں اور جتنے تاجر و مسافر کنیزک خوبرو رکھتے ہوں لا کر نذر گزرانیں، جو کنیز کہ سرکار والا لیویں گے اس کی قیمت عنایت ہو گی اور باقی بجنسہ پھیر دی جائیں گی۔ سوداگروں نے کنیز کیں خوبرو صاحب جمال خرید کر واسطے محصول و کرایہ جہاز کے صندوقوں میں چھپائی تھیں اور میں نے بھی اُس گرامی گوہر کو ایک صندوق میں رکھا تھا۔ یکایک کشتیوں پر فوج ملازمان شاہِ بندر کہ نواح دیگ تھا آن پہنچے اور کہا کہ کنیز کیں جہاں تک لی ہیں، قیمت اُن کی کہو اور سب کنیز کیں لے چلو۔ جو کنیزک کہ بادشاہ پسند کر کے رکھیں گے، قیمت اُس کی ملے گی اور باقی پھیر آویں گی۔ چنانچہ ہمراہ سب کنیزکوں کے معشوقہ میری کو بھی لے گئے ۔ شام کے وقت سب کنیزکیں پھیریں مگر مجھ برگشتہ طالع کی معشوقہ پسند کر کے رکھ لی۔ جس وقت کہ، میں مفارقت اس کی



207

سے متردد اور متفکر ہوا سب سوداگروں نے کہا کہ تجھ کو قیمت اُس کی سے دو چند دیتے ہیں کچھ غم و غصہ نہ کر۔ میں راضی نہ ہوا اور وہاں سے پھر کر شہر میں آیا۔ وقت شب کے جانبازی کر کے بیچ دولت سرائے شاہ بندر کے پہنچا اور ہر چند جستجو کی نشان نہ پایا اور مدت ایک ماہ تک کوچہ گردی کی، کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تا آں کہ ایک روز، بیچ حویلی وزیر کے آیا اور ہر چہار طرف نگاہ کی، وہاں بھی سراغ نہ ملا مگر ایک بد رو دیکھا کہ چند سیخچے (۶۱۵) آہنی اُس کے دہانے پر لگے ہیں فی الفور ایک حربہ معقول پیدا کر کے، وقت شب میں سیخچے توڑے اور مثل سگ کے تنگ ہو کر در آیا اور ہر چہار طرف کھوج کیا۔ نا گاہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک باغیچہ میں، نیچے ایک درخت کے بہ آواز ھزیں دعا بیچ جناب حضرت مُسببُ الاسباب کے مانگتی ہے کہ الہیٰ میں مسلمان ہوئی اور تجھ کو پہچانا۔ جس شخص کے سبب سے یہ دولت ایمان کی نصیب میرے ہوئی اس سے ملا، بہ تصدق حضرت پیغمبر و پنجتن پاک دواز دہ امام و چہاردہ معصوم کے، میں یہ سُن کر آواز پر چلا اور جا کے قدمبوس ہوا۔ بارے اُن نے دیکھتے ہی بہ اشتیاق تمام گلے لگایا اور حقیقت پوچھی۔ میں نے جو کچھ کہ تھا ظاہر کیا۔ اُس ماہتاب آسمان شہر یاری کے نے کہا کہ وزیر نے لونڈیوں میں مجھ کو پسند کر کے رکھ لیا اور باقی کنیزکیں حضور میں لے گیا۔ بادشاہ نے ان میں مجھ کو نہ پایا، سبھوں کو پھیر دیا۔ اب میں یہاں گرفتار رنج و مصیبت کی ہوں۔ ہر چند کہ چاہتی تھی، اپنے تئیں ہلاک کروں مگر پس و پیش مترصد لطائف غیبی کی تھی، بارے اب تجھ کو دیکھا تو خاطر جمع ہوئی اور اب ایک فکر اور کیا چاہیے کہ جس سبب سے اغلب ہے کہ اس قید سے چھوٹوں اور تیرے ہاتھ آؤں۔ تب میں نے پوچھا کہ وہ فکر کہو کیا ہے۔ کہا کہ بُت بزرگ کو دیکھا ہے، میں نے کہا کہ البتہ نام سُنا ہے۔ کہا کہ دستور ہے کہ جس شخص پر کچھ ستم ہوتا ہے یا کوئی اسے ستاتا ہے، وہ لباس سیاہ پہن کر بت خانہ میں جا بیٹھتا ہے بعد اس کے جو لوگ کہ واسطے زیارت کے آتے ہیں، اُسے بھی کچھ دیتے ہیں اور روز چہارم، ایک خلعت سرکار سے مرحمت کر کے رخصت کرتے ہیں۔ تو جا کر وہاں بیٹھ۔ زائر وہاں کے مال و متاع بسیار تجھ کو دے کر رخصت کریں گے۔ تو ہرگز قبول نہ کیجیو اور کہیو


208

کہ مجھ کو مال درکار نہیں۔ آیا ہوں کہ درد میرا پوچھو اور دوا کرو۔ و اِلّا یہیں رہ کر عید کے روز اپنے تئیں قربانی کروں گا۔ داد مجھ عاجز غریب کی بُت بزرگ لے گا اور مادر برہمناں، ایک پیرزال کہ یک صَد و ہِیجدَہ (۶۱۶) سال سن اُس نا پاک کے سے گزرے ہیں اور چھتیس بیٹے رکھتی ہے اور تمامی برہمن اور سکنہ فرنگ کے اُسے محبوبہ بُت بزرگ جانتے ہیں۔ جس وقت کہ وہ آوے یا تجھ کو بُلاوے دامن اُس کا نہ چھوڑیو اور گریہ و زاری اس قدر عمل میں لائیو کہ احوال پرستی تیری کرے تب اُس وقت کہیو کہ میں مرد عجمی ہوں آوازہ عدل و انصاف تمھارے کا سُن کر واسطے طواف بُت بزرگ کے آیا تھا شاہ بندر نے عورت میری کو لیا ہے اور عاشق اس کا ہو کر گھر میں رکھا ہے اور قاعدہ ہمارا یہ ہے کہ اگر ہاتھ مرد نا محرم کا عورت ہماری کے لگے طعام ہم پر لازم ہے کہ اس کو جان سے ماریں تب کھانا پینا حلال ہو اور جب تک وہ جیتا رہے، طعام ہم پر حرام ہے۔ یہ کہیو دیکھیو فضل الہیٰ سے کیا ہوتا ہے۔ القصہ نازنین کو وداع کیا اور خدا کو سونپا۔

فرد

رخصت ہوتا ہے مرا یار، خدا کو سونپا

کیا کروں بس نہیں لاپار، خدا کو سونپا


بیچ دیو ہَرہ کے آ کر مکان مذکور میں اقامت کی۔ تین روز گزرے اس قدر زر و زیور اور لباس جمع ہوا کہ حد قياس سے باہر تھا۔ چوتھے روز برہمن موجب قاعدہ مستمرہ کے آئے اور خلعت فاخرہ دلائے اور تکلیف رخصت کی کی۔ میں نے قبول نہ کیا اور فریاد بر لایا کہ اے ساکنانِ عَتبہ (۶۱۷) بلند رتبہ میں واسطے گدائی کے نہیں آیا بلکہ داد خواہی کو آیا ہوں اور حضور بُت بزرگ کے اپنا ماجرا لایا ہوں اور مادر برہمناں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جس وقت کہ حقیقت احوال میری کی بیچ خدمت اُس پیرزال کے گزارش کی بندہ کو حضور طلب کیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک تخت مرصع پر بُت بزرگ یا جواہر گراں بہا و لباس ہائے فاخرہ و مَردار بیش



209


بہا پہنے ہے اور آگے دست بزرگ کے ایک تختہ کہ زر سے آراستہ کیا ہے اُس پر مادر برہمناں بیٹھی ہے اور وہ طفل دہ سال دو از دہ سالہ چپ و راست اس کے حاضر ہیں اور اس کے ساتھ بیچ عیش اور بازی کے مشغول ہیں۔ میں نے رو برو آ کر پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور بہ موجب تعظیم اُس ملکہ عاقلہ کے عمل میں لایا اور بہ گریہ و زاری تمام دامن اس کا پکڑا جب اُن نے احوال میرا سُنا کہا کہ اے عجمی مگر تم عورت اپن کو تنہا رکھتے ہو اور کہتے ہو کہ دوسرے کا ساجھا مطلق نہ ہو۔ میں نے کہا کہ آرے(۶۱۸)۔ یہ عیب ہم میں مقرر ہے۔ کہا کہ یہ عیب نہیں، یہ خوب قاعدہ ہے۔ پھر پوچھا کہ حاکم بندر کون ہے؟ بیٹے اور خادموں اُس کے نے کہا کہ فلانا شخص ہے۔ اُس کا نام سُن کر بہت برہم ہوئی اور کہا بڑا مَردَک (۶۱۹) ہے۔ دونوں فرزند اپنے کو فرمایا کہ سوار ہو کر بارگاہ فرمانروا میں جاوو اور کہو کہ اے غافل و جابل، والدہ ہماری نے کہا ہے کہ حکم بُت بزرگ کا یوں ہے کہ فلانے کو جو حاکم بندر کیا ہے۔ مرد ظالم و مردم آزار ہے اور اس مرد عجمی پر ستم روا رکھا ہے۔ لازم ہے کہ رقم قتل حاکم بندر کا لکھ کر اس مرد عجمی کو اور جو کچھ کہ مال و اموال اثاث البيت خواہ کم خواہ زیادہ ہووے یہ نظر کردہ ہمارا ہے، اُس کو بخش دے اور راضی کرے، اِلّا آج کی رات تجھ کو سنگ سیاہ (۶۲۰) کروں گی۔ وے دونوں برہمن زادے بہ موجب فرمانے مادر اپنی کے، بُت کدہ سے باہر آئے اور سوار ہوئے۔ ایک جماعت پنڈواں"(۶۲۱) کُنشتياں (۶۲۲) وزُنّار (۲۲۳) داراں بیچ جلو ان کے بادُہل (۶۲۴) وكوس(۶۲۵) وسُرنا (۶۲۶) و کُرَّنا (۶۲۷) و ذکر گویاں و ناقوس نوازاں داخل شہر ہوئے اور طرف پائے گاہ بادشاہ کے متوجہ ہوئے۔ خلقت شہر کی اور از اہل فرنگ خاک سُم (۶۲۸) مرکبان ہر دو برہمن زادوں کے بہ طریقِ تبرک لے کر، سرمۂ چشم بینا کا کرتے تھے اور کحل الجواہر جانتے تھے۔ خبر اُن کی آنے کی سُن کر بادشاہ عالیجاہ کیوان بارگاہ، ملائک سپاہ واسطے استقبال کے آیا اور گلے لگایا۔ ہمراہ اپنے لے جا کر اوپر مسند کے بٹھلایا اور باعث قدم رنجہ فرمانے کا پوچھا۔ انھوں نے پیغام زبانی والدہ اپنی کا، جو کچھ کہ اُن نے کہا تھا، اظہار کیا۔ بادشاہ نے تامل کر کے کہا کہ، خوب شاہ بندر کولاویں اور برابر اس مرد عجمی کے کھڑا کریں، تا کہ حقیقت اس مقدمہ کی پوچھوں اور


210


وجہ احسن موافق شرع اپنی کے عمل میں لاووں۔ یہ بات سُن کر میں مضطرب ہوا کہ اگر رو برو بادشاہ کے یہ ماجرا اِنفصال(۶۲۹) ہو گا تو مقرر وہ بدرِ منیر آسمان عقل و تدبیر کی حضور میں طلب ہو گی اور بادشاہ اپنی بیٹی کو پہچان کر داخل محل کرے گا اُس وقت کی یہ تمام سیاست اپنے ہی اوپر آتی ہے، یہ طرز خوب نہیں۔ برہمن زادوں نے قرینے سے دریافت کیا کہ یہ حکم، خلافت مرضی اس جوان کے ہوا ہے، ازراہ کمال طیش اور غصہ کے اُٹھ کھڑے ہوئے اور مُتّفق اللفظ وَالمعنی ہو کر کہا، کہ دولت دنیاوی و حشم ظاہری نے تجھ کو خبط اور دیوانہ کیا ہے کہ حکمِ بُتِ بزرگ سے انحراف کرتا ہے یا یہ کہ قول ہماری والدہ کا خلاف جانتا ہے۔ اگر فرمانا بُتِ بزرگ کا اور ہماری ماں کا تو سب جھوٹ جانتا ہے تو آج رات کو معلوم ہو گا۔ ہم نے دریافت کیا ہے کہ غضب بتِ بزرگ کے سے تو نہیں ڈرتا۔ یہ کہہ کر روانہ ہوئے بادشاہ فرنگ نے بہ التجائے تمام اُن کو بٹھلایا۔ اتنے میں اُمراونُدَ ما(۶۳۰) نے متفق ہو کے زبان بیچ بد گوئی شاہ بندر کے کھولی کہ اکثر خلقت ہاتھ ظلم و ستم اُس کے سے عاجز و جاں بلب ہے۔ بارے بادشاہ نے رقم قتل شاہ بندر کا اور معانی مال و اموال اور گھر بار اُس کے کا جوان عجمی کو لکھ کر حوالے کیا اور نذر و نیاز بسیار برہمن زاروں کے آگے رکھ کر نہایت اعزاز و اکرام سے رخصت کیا اور عرضی بیچ خدمت مادر برہمناں کے لکھی کہ حسب الامر کرامت اثر رقم قتل شاہ بندر و ضبطی اموالش بہ این مرد تاجر عجمہ کو لکھ کر حوالے کیا۔ آگے اختیار ہے، جو کچھ مناسب جانیں عمل میں لاویں۔ آپ بہر صورت خاوند اور مختار ہیں۔ مادر برہمناں نہایت خوش دل ہوئی اور فرمایا کہ نقارہ بجاویں۔ بہ ہجر و صدائے نقارہ کے پان صد سوار و مکمل حاضر ہوئے۔ فرمایا کہ شاہ بندر کو پکڑ لا دو اور حوالے اس مرد عجمی کے کرو چنانچہ سوار حسب الحکم فی الفور عمل میں لائے۔ میں زمین بوسی کر کے روانہ ہوا اور تین بے دریغ سے شاہ بندر کا سر کاٹا اور مال و اموال اور گھر بار اُس کا بیچ قبضہ و تصرف کے لایا اور خلعت شاہ بندر کا کہ عنایت ہوا تھا پہنا۔ بعد ازاں داخل محل کے ہوا اور اس معشوقہ دلنواز سے بغل گیر ہو کر دو گانہ شکر کا بیچ درگاہ کار ساز بے نیاز کے ادا کیا۔ دوسرے روز دربار کر کے سپاہ و رعیت کو بقدر حوصلہ و مقدور اپنے کے راضی کیا۔
 
صفحہ نمبر 237
فرد

ماراز خاک کویش پیراہن ست برتن
آں ہم ز آب دیدہ صد چاک تا بہ دامن​

بعد مدت کی خدائے تعالیٰ نے تیرے تئیں اوپر حال ضعیف میرے کے مہربان کیا کہ طعام لذیذ کھیا اور دختر پرہنہ تھی،اس کے کپڑے بنوائے۔اگر خوف و خلل آسیب کا نہ ہوتا تو واللہ یہ عاجزہ بیچ کنیزی تیری کے دیتا اور باعث افتخار و سعادت اپنی کا جانتا۔اب مرتکب اس زمرنا صواب کا ہونا مصلحت نہیں۔ہرچند کہ میں نے اس قدر عجز و الحاج کیا کہ بیچ شرح اور بیان کے نہ آوے ، وہ پیر مرد ہر گز راضی نہ ہوا بلکہ مبالغہ اور مکابرہ حدسے درگزرا اور وقت شام کا ہوا۔ میں اس بزرگ کو دائے خیر کہہ کےبیچ کارواں سرا آیا۔مبارک خوشی و شادی سے بیچ جامہ پھلا نہ سماتا تھا اور کہتا تھا الحمدللہ والمنۃ کہ مقصد دلی پر فائز ہوئے۔میں تخلل عشق سے بے خبر خود حیران تھا کہ واللہ اعلم بالصواب یہ مرد اختر اپنی کو مجھے دے یا نہ دے اگر وہ نہ دیوے اور مبارک جو ملک صادق کے واسطے چاہتا ہے تو کس طور سے اس کو راضی کروں اور معشوقہ کو بیچ قابو کے لادوں اور وصال جاناں کامیاب ہوں مگر شرارت جنوں نجات پاؤں یا نہ پاؤں اور جو اس شہر میں سکونت اختیار کروں تو ملک صادق یہ بات سن کر واللہ اعلم کیا سلوک کرے بیچ اس منصوبہ اور پیچ و تاب کے نہایت غرق و مشوش تھا۔بارے علی الصباح بازارکےجاکے لباس فاخرہ واسطے دخترکے اور واسطے اس پیر مرد کے خرید کیا اور میوہ ہائے گوناگوں اور غذا ہائے لطیف لےکر بیچ خدمت اس خضر گم گشتگان بادیئہ ناکامی کے پہنچا ۔ان نے نہایت مہربانی اورتلطف اوپر حال خسراں مآل میرےکے کیا اور فرمایا کہ اے عزیز تیرے تئیں جان سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں۔مبادا مفت مارا جاوے تو حسرت قیامت تک باقی رہے۔میں نے عرض کیاکہ اے پدر مہربانایک مدت سے بادل بریاں ودیدہ گریاں رنج غربت کشیدہ و مصائب سفر دیدہ از شہر بہ شہر یہہ بہ یہہ و صحرا بہ صحرا کوچہ بہ کوچہ ضیراں و سرگرداں ہوکراوپر سر چشمہ وصال


صفحہ نمبر238

اس نونہال کے پہنچا ہوں۔

فرد

کے از دست خواہم رہا کر دنش
کنونم کہ باشد بہ کف دامنش​

القصہ تامدت یک ماہ بیچ خدمت اس پیر ہدایت مصر کے دوڑا اور کوئی دقیقہ بیچ عجز و انکسار کے باقی کے چھوڑا تا آنکہ وہ مرد کامل سخت بیمار و کاہل ہوا اور مجھ سے فرمایا کہ ہرچند منع کرتا ہوں اور دست ہوس کا دامن اس آرزو کے سے کوتاہ نہیں کرتاہے،خوب آج مصلحت دختر سے کروں گا ،دیکھیے کیا کہتی ہے۔میں سننے اس مژدہ راحت افزا سے بہت خوش وقت ہوا اور آداب بجالاکے رخصت ہوا۔تمام شب مارے خوشی کےنیند نہ آئی۔علی الصباح خوش و خرم بیچ خدمت اس بزرگ کے آیا۔اُن نے فرمایا کہ اے جوان میں نے دختر اپنی تجھے کودی اور اس کو اور تجھ کو بخدا سپرد کیا۔پس جب تک دم باقی ہے،میرے پاس حاضر رہ بعد ازاں جو کچھ کہ چاہیے عمل میں لائیو، مختار ہو۔بعد چند روز کے جو اس پر صاحب تدبیر نے اس جہان فانی کو لبیک بہ داعئ اجل گفتہ وداع کیا اور داغ مہاجرت کا اوپر ہمارے چھوڑا ، تجہیر وتکفین اس کی سے فراغت پاکے مبارک دختر کے تئیں چادر اڑھا کر بیچ کارواں سراکے لایا اور میں نے چاہا کہ نیچے قدم اس معشوقہ دلنواز کے سر اپنا ڈالوں ، مبارک نے کہا کہ اے عزیز ملک صادق سے اندیشہ کر کہ تمام یہ محنت و مشقت سالہاسال کی رائیگاں جائے گی۔میں سننے اس نصیحت کے سے کنارا کیا۔مبارک نے واسطے تسلی اور تسکین میری کے کہا کہ اس امانت کو سلامت بیچ حضور ملک صادق کو پہنچادیں۔اگر وہ ازراہ عنایت کے تیرے تئیں مرحمت فرمادے تو،بڑا لطف ہے والا ہاتھ اس بادشاہ جنوں کےسے جانبرنہ رہےگا۔بارے دوشتر اور کجاوے خرید کرکے روانہ منزل مقصود کے ہوئے اوربعد مدت مدید کے قریب آپہنچے ایک آواز ہنگامہ و شور کی مسموع ہوئی اور مبارک نے کہا کہ فوج
 

مومن فرحین

لائبریرین
251
نو طرز مرصع
جو شجاع الدولہ کی فیاضیوں کی بدولت مرجع انام بنا ہوا تھا۔ وہاں جا کر دربار سے وابستہ ہو گئے۔ ایک دن موقع پاکر انہوں نے چند مقامات اس داستان کے شجاع الدولہ کو سنائے ۔ اس نے سن کر اسے بہت پسند کیا اورحکم دیا کہ اسے لکھ کرمکمل کرو۔ چنانچہ یہ اس کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ کچھ دنوں بعد وہ اسے ختم کر کے شجاع الدولہ کی خدمت میں پیش کرتا ہی چاہتے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا اور تحسین بقول خود " لاچار پائے تردد و تلاش کا بیچ دامن قناعت کے کھینچ کر بیچ کنج خموشی کے چپکاہور ہا۔ اب آصف الدول تخت نشین ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اس تصنیف کو ان کے حضور میں گزرانیں ۔ چنانچہ دیباچے میں چندکلمات توصیف کے اور ایک قصیدہ ان کی تعریف میں بڑھا کر آصف الدولہ کے حضور میں پیش کیا اور کامیاب وکامگار ہوئے۔

تصانیف حسین

تحسین نے نو طرز مرصع میں اپنی تین اور کتابوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے فارسی زبان میں ’’نوطرز مرصع سے پہل لکھی تھیں ۔ تاریخ قاسمی ، ضوابط انگریزی اور انشاے تحسین وغیرہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کچھ اور بھی کتابیں تصنیف کی تھیں جن کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ یہ کتابیں اب کہیں نہیں ملتیں صرف ان کے نام باقی ہیں ۔ ایک بات البته لائق تحقیق ہے یعنی" تواریخ قاسمی‘‘ کے بجائے اکثر نسخوں میں " تاریخ فارسی“ کا ذکر ملتا ہے۔ سید سجاد صاحب کا یہ خیال درست ثابت ہوگیا کہ تاریخ فارسی تو کوئی چیز نہیں مکن ہے کہ تواریخ یا تاریخ قاسمی نام ہو اور اس میں نواب قاسم علی خان کا ذکر ہو جن کو چند سال پہلے 1760 ء میں بنگال، بہار اور اڑیسہ کی مسند نیابت ملی تھی۔ یہ تحسین کے ہمعصر بھی تھے اور ممکن ہے کہ جب تحسین بنگال گئے ہوں تو وہ ان کے مربی بھی رہے ہوں ۔ ضوابط انگریزی بظاہر انگریزی کی گرامر معلوم ہوتی ہےممکن ہے کہ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کچھ ضوابط وغیرہ درج ہوں، صحیح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا


252
لبعض قدیم تذکروں اور " نو طرز مرصع‘‘ کے پرانے نسخوں میں کتاب کا نام " انشاء نو طرز مرصع" ہے لیکن بعد کے نسخوں میں صرف نو طرز مرصع باقی رہ گیا ہے۔ بات یہ ہےکہ پرانے زمانے میں انشاء کا لفظ ہر اس شر کے ساتھ استعمال کیا جا تا تھا جس میں اسلوب بیان کی کچھ ندرت ہوتی تھی۔ بعد میں کاتبوں کے سہو سے یا عمداً ناشرین نے یہ لفظ اڑادیا
اور ویسے دیکھئے تو یہ لفظ تھا بھی کچھ بیکارہی کیوں کہ نو طرز مرصع کے معنی ہی میں اسلوب بیان کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔
”نو طرز مرصع‘ کی تاریخ تدوین کے سلسلے میں ناقدوں اور تذکرہ نویسوں نے بڑی غلطیاں کی ہیں ۔ ڈاکٹر سید سجاد صاحب نے اس کی تصنیف کی صحیح تاریخ دریافت کرنے میں قابل تعریف کاوش کی ہے ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے :
آزاد نے اس کا سال تصنیف جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے 1798ء قرار دیا تھا۔ چنانچہ بلوم ہارٹ اور بعض تذکرہ نویسوں مثلاً تنها، صاحب گل رعنا اور بیلی وغیرہ نے بھی یہی تسلیم کرلیا لیکن چونکہ چوبیس برس بعد بلوم ہارٹ نے دوبارہ جب اس کتاب کے دیباچے پر نظر ڈالی اور اسے اپنی غلطی نظر آئی تو اس نے انڈیا آفس کی فہرست مخطوطات میں نو طرز مع‘‘ کے باب میں نوٹ بڑھادیا:۔
آزاد کے بیان کے مطابق ( آب حیات ص ۲۴) یہ تصنیف ۱۲۱۳ھ مطابق ١٧٩٨ء میں مکمل ہوئی لیکن غلط ہے کیونکہ مصنف کے دیباچے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس نے شجاع الدولہ کے انتقال کے وقت ( تقریبا۱۷۷۵) ختم کر لی تھی اور آصف الدولہ کے انتقال (۱۷۹۰ء) سے تو بہت پہلے ختم ہو چکی تھی، اس لیے تاریخ تصنيف ١٧٨٠ء کے قریب ہوگی۔ "
یہ بیان آزاد کے بیان سے زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے پھربھی اس میں ایک کمی رہ گئی ہے وہ یہ کہ در حقیقت به استثنا قصيدة مدح آصف الدول خود تحسین کے بیان کے مطابق پوری


253
تصنیف شجاع الدولہ کی وفات (۱٧۷۵ء) سے پہلے ختم ہو چکی تھی بلکہ اس کا شروع کا کچھ حصہ تو بہت پہلے لکھا جا چکا تھا، چونکہ قیام پٹنہ کے زمانے میں یہ کام ملتوی ہوگیا تھا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس قصہ کی داغ بیل ١٧٧۵ء سے بہت پہلے پڑ چکی تھی البتہ ختم ١٧٧۵ء سے کچھ پہلے ہوا لیکن شجاع الدولہ کی وفات کی وجہ سے پیش نہ کیا جاسکا اور آصف الدولہ کی تخت نشینی کے بعد ان کی مدح میں قصیدہ بڑھا کر اسے تحسین نے بعد میں پیش کر دیا۔

اب اگر ہم کسی صورت سے یہ پتہ لگائیں کہ تحسین کو کلکتے کا سفرکشتی کے ذریے کب پیش آیا تھا تو اس کے پہلے حصہ کی تاریخ تر تیب صحیح طور پر مرتب کی جاسکتی ہے۔
دیباچے میں تحسین نے ایک انگریز مسمی بہ جنرل اسمتھ کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ یہ کشتی میں کلکتہ گئے۔ یہ جنرل اسمتھ کون تھے اس زمانے میں یہ ہندوستان میں رہے اور کب کلکتے سے انگلستان گئے۔ ان کو خطابات مبارز الملک، افتخار الدولہ ، صولت جنگ کس نے دیے؟ کلکتہ کا سفر انہوں نے کب اور کیوں کیا؟ اگر یہ سب باتیں تاریخ سے معلوم
ہوسکیں تو یہ عقدہ تحسین نے کب یہ قصہ لکھنا شروع کیا حل ہوجائے گا، ڈاکٹر سجاد نے اس
سلسلہ میں بڑی تحقیق اور جستجو اور محنت سے کام لیا ہے اور انڈیا آفس وغیرہ کی لائبریریوں کی
تمام وہ مشہور و مستند کتابیں دیکھ لیں جن میں ان انگریز افسروں کا ذکر ملتا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں یہاں ملازم رہے۔ ایک کتاب میں ایک شخص جنرل جوزف اسمتھ کا پتہ چلا جو تقریبا حسین کا ہمعصر تھا لیکن یہ افسر زیادہ تر دکن میں ملازم رہا تھا اور شمالی ہند کی کسی سرکار سے اس کو ہندوستانی خطابات نہیں ملے تھے اس لیے اسے بھی نظرانداز کر دینا پڑا۔ انجام کار انڈیا آفس کے متفرق ریکارڈ کے کاغذات میں ایک دوسرے شخص رچرڈ اسمتھ کا پتہ چلا۔ اس شخص کی زندگی کا بیشتر حصہ شمالی ہند میں خاص کر دہلی اور کلکتے میں گزرا تھا اور شمالی ہند کی سرکاروں سے اسے ہندوستانی خطابات بھی ملے تھے ،مزیدتحقیق سے شاہ عالم کے ایسے خطوط ملے جن میں سے ایک میں اس کا ذکر کرنل اسمتھ بہادر کے نام سے تھا اور
دوسرے میں (جو گورنر فورٹ ولیم کے نام ہے اس کا ذکر مبارز الملک اور صولت جنگ کے

254
خطابات سے ہے اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہی جنرل اسمتھ بہادر تھے جن کے ہمراہ تحسین غالباً الہ آباد سے کلکتہ گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سفر کب ہوا تھا تا کہ معلوم ہو جائے کہ صحیح تاریخ "نو طرز مرمع‘‘ کے شروع کرنے کی کیا ہے۔ دیباچے میں تحسین نے اسمتھ کے نام کے ساتھ "جزل“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ اسمتھ نے جزل ہونے کے
بعد کلکتے کا یہ سفر کیا۔ انڈیا آفس کے کاغذات سے معلوم ہوا کہ وہ ۲ نومبر 1768 میں جنرل بنایا گیا تھا لیکن اس سے پہلے کے ان دوخطوں سے جو اسمتھ نے انگلستان لکھے تھے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں وہ ۳۴ پیدل دستوں کا کمانڈر تھا اور فوجی افسروں کو اس وقت ہندوستانی لوگ بالعموم جنرل ہی کہتے تھے، اس لیے اگر تحسین نے اس کو واقعی جنرل ہونے
سے پہلے جزل لکھ دیا تو چنداں تعجب کی بات نہیں۔ اسمتھ کے مز ید خطوں سے جو سجاد صاحب
کو یورپین مخطوطات کے ایک پرانے بستے میں بندھے ہوئے ملے یہ پتہ چلا کہ اسمتھ یکم جنوری 1768ء سے ۱۹ ستمبر 1768 ء تک الہ آباد ، پٹنے اور کلکتے میں گھومتا رہا۔ اس سے تحسین کے بیان کی مطابقت ہوگی کہ تحسین اور ان کے ساتھی اس سفر میں گرفتگی دل کے باعث داستانیں سننے سنانے میں اپنا اور سب کا دل خوش کرتے رہے۔
بعض اور خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمتھ نے غالباً 1769ء کے آخر میں ہندوستان کو خیر باد کہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحسین کلکتے سے پٹنہ آئے اور اسی جرنیل کی سفارش پر مقدمات نظامت کے مختار ہو گئے۔ دیباچے میں اصل عبارت یوں ہے:
بعدازاں جرنیل بہادر نے وقت روانگی ولایت کے اس بنده عاجز کے تئیں کلکتہ سے بہ سرفرازی بعضے خدمات عمدہ صوبہ عظیم آباد کے ومختاری مقدمات نظامت کے امتیاز بخشے‘‘۔
تقریبا ایک یا ڈیڑھ سال پٹنہ میں رہنے کے بعد تحسین فیض آباد آ گئے۔ تاریخ " عماد السعادت " سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ 1772 میں تحسین فیض آباد میں تھے اور کپتان ہار پر کی ملازمت میں تھے۔
اس تمام بحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ تحسین نے " نو طرز مرصع " کا ابتدائی حصہ غالباً

255
1768ء کی ابتداء میں لکھنا شروع کیا ہوگا جب کہ انہوں نے سفر گنگا اختیار کیا اور اواخر 1769ء تک لکھا جا تارہا ہوگا جب کہ جنرل اسمتھ کلکتے سے انگلستان چلا گیا اور تحسین کوعظیم آباد میں مختار بنا گیا۔ ڈاکٹر سجاد " نوطرز مرصع " کے دیباچے سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ سفر کشتی ہی کے درمیان یعنی 19 ستمبر 6817ء تک اس کا ابتدائی حصہ ضرور لکھ لیا ہو گا۔ یہ اندازه آزاد اور بلوم ہارٹ کے اندازوں سے ظاہر ہے کہ بہت زیادہ مستند ہے اب مختصرة
’’نو طرز مرصع " کی تاریخ تصنیف کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1768 سے شروع ہوکر 1775ء میں تمام ہوئی اور دو ایک سال بعد بھی عبارتیں اور مدحیہ قصیدے میں شجاع الدولہ کے بجائے آصف الدولہ کا نام لکھ کر ان کے حضور میں پیش کر دی گئی ہوگی۔

نو طرز مرصع کے قصے کا ماخذ

نو طرز مرصع میں چار درویش کا مشہور قصہ ہے ۔ یہ قصہ کہاں سے آیا۔ اس کے متعلق محمود شیرانی نے بڑی تحقیق کی ہے۔ اس جگہ انہیں کی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا جا تا ہے ۲ قصہ دراصل پہلے فارسی میں لکھا گیا۔ فارسی کے قدیم مولفین میں سے دو نام ہم کو اب تک معلوم ہو سکے ایک تو حکیم محمد على المخاطب به معصوم علی خاں کا، دوسرے انجب جن کا ذکر مصحفی نے اپنے تذکرہ ’’عقد ثریا‘‘ میں کیا ہے۔ انجب کا قصہ چار درویش اب ناپید ہے۔ بعد کے مولفین میں میر احمد خلف شاہ محمد کی فارسی تالیف زیاد مشہور ہوئی اورکئی بار چھپ کر ملک میں رائج ہوئی لیکن ایک خاص فرق قدیم اور بعد کے مولفین میں یہ ہے کہ قدیمی مولفین کا اسلوب بیان بہت سادہ اور صاف زبان میں ہے اور بعد کے مولفین نے عبارت کو بہت رنگین اور شگفتہ بنادیا ہے۔ میر احمد خلف شاہ محمد کی تالیف کو پہلے قاضی محمد ابراہیم بن قاضی نور محمد نے چھاپا بعد کوشیخ الہی بخش محمد جلال احمد تاجر کتب کثیری بازار، لاہور نے شائع کیا اور یہی نسخہ بہ اختلاف قلیل مطبع محمدی بمبئی نے ۱۳۱۸ھ میں طبع کیا۔ میر احمد خلف شاہ محمد کی اس تالیف میں اس چہار درویش کے قصے کی تصنیف امیر خسرو کے نام منسوب کی گئی ہے۔
" باعث تصنیف این داستان از راز پژوهان اخبار پیشیاں بایں نوع مفہوم گردید
 
Top