پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

مقدس

لائبریرین
84


روز کے سر اس بات کا اوپر سب ملازمان سرکار کے وحاضران دربار کے شائع و آ شکار ہوا۔ اس وقت محرمان سر اوقات عصمت کے بے مقتضائے دور اندیشی کے آنے اس کے کہ تیئں بیچ حرم سرائے خاص کے باعث رسوائی خاص و عام کا جان کے ممانعت سے پیش آئے۔ میرے تیئں کہ بغیر اس کے ایک دم آرام و قرار و خواب و خیال نہ تھا، یہ سانحہ خوش ربا سخت قیامت گزرا لیکن کیا کیجیے زمین سخت آسماں دور۔ لاچار خواجہ سرا کے ہمراہ میرا تھا، اس کے تیئں بلا کے حکم کیا کہ جو میرے تیئں پرداخت اس کی طرح منظور ہے، پس بالفعل صلاح وقت یوں ہے کہ اس جواں کے تئیں دس ہزار اشرفی سرمایہ دے کر بیچ چار سوئے بازار کے دکان جواہر کی مرتب کر دے اور نزدیک محض سراخاص کے ایک خوش تعمیر آراستہ کر کے اسباب خانہ داری کا از قسم غلام وکنیزک کے بقدر مطلوب و بروفق 261 مقصود اس کے مہیا کرکہ اس مکان میں چشم بد ناتواں بینوں کی سے محفوظ رہ کر جو کچھ متاع تجارت سے انتفاعی بہم پہنچا دے صرف مایحتاج 262 اپنے کا کرے۔ بارے خواجہ سرا یوں عمل میں لایا. بعد چند روز کے اس جوان نے فیض دوکان تجارت کے سے نقد شہرت کا بیچ کف مراد کے اس قدر جمع کیا کہ، جو کچھ جواہر گراں بہاد و ملبوسات زیبا و مصارف سرکار والی شہر کے ہوتا، دکان اس کی سے آتا تابہ حد کہ آوازہ نام آوری اس کے کا بیچ چاردانگ عالم263 کے بلند ہوا اور بدولت شغل جواہر فروشی کے گوہر فوائد کلی کا بیچ دامن آرزو کے فراہم لایا۔ حاصل کلام یہ


خدا کسی کا کسی سے دل آشنا نہ کرے

اگر کرے تو کبھی اس سے پھر جدا نہ کرے


میرے تئیں مفارقت چند روزہ اس کی نپٹ ہی شاق گزری۔ اس واسطے بہ صلاح خواجہ سرا کے، ایک نقب دولت سرائے خاص سے اس کے محل سرا تک تیار کی اور یہ اسرار خواجہ سرا اوردو دایہ کے کسی بھی ملنکشف نہ تھا۔ جس وقت خسرو آفتاب کا متوجہ خلوت گاہ مغرب کے ہوتا اور کاسہ چشم مقربان بساط قرب کا بادہ نوم 264 بےخبری کےسے لبریز ہوتا، خواجہ سرا اس جوان کے تئیں نقب کی راہ سے نزدیک میرے لے آتا اور میں تمام شب بیچ


85


صحبت اس کی کے بادہ پیمائے پیمانہ عشرت کی رہتی۔ کبھی وہ بہار حسن میری کے سے گل ہائے کامرانی کے چنتا اور کبھی میں چشمہ جمال اس کے آب زلال کامیابی کا پیتی۔ جب مؤذن صبح خیز شمس کا اوپر مصلیٰ خاور کے بانگ نماز فجر کی دیتا، خواجہ سرا اس جواں کے تئیں نقب کی راہ سے بیچ مکان اس کے پہنچا آتا۔ اسی طور ایک مدت بسر لے گئی۔ چنانچہ ایک روز کا ذکر کرتی ہوں کہ جس وقت عروس مہر کی بیچ حجلہ مغرب کی سدھاری خواجہ سرا موافق ضابطہ کے واسطہ طلب اس جوان کے گیا۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ عزیز گرفتگی طبع سے مانند غنچہ کے دل تنگ ہو رہا ہے، خواجہ سرا نے جو سبب اس کا پوچھا تو بلبل زبان اس کے کی بیچ قفس سکوت کے آ کرنغمہ پرداز نہ ہوئی۔ لاچار خواجہ سرا نے اس بات کے تئیں بیچ عرض پرستاران حضور کے پہنچایا۔ اس بندی کے تئیں، جو اغواء شیطانی خوار کیا چاہیے، ہوائے محبت اس کی نے پروانہ دیا کہ قلابہ 265 پیار اس کے کا بیچ گریبان خاطر عشق پسند اپنے کے قائم کرکے زیب گلوئے فہمید ناقص اپنے کا جانا استغفراللہ اگر یہ جانتی کہ آتش بے قراری کی خان ومان266 ناموس کو یوں جلا دے گی تو واللہ میں زنہار اسیر دام بلا کی نہ ہوتی۔ آخر عشق کمبخت وہ بد بلا ہے کہ شیشہ حیا کا، اوپر سنگ رسوائی کے ٹوٹے ہی ٹوٹے، ہائے


آنکھ اپنی طرف اس کی جب میل نہ کرتی تھی

ٹکڑوں سے مرے دل کے دامان نہ بھرتی تھی

قینچی کی طرح دل کے پرزے نہ کترتی تھی

جب عشق نہ تھا یارو کیا خوب گزرتی تھی

کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے


اور اگر سچ پوچھیے تو واقعی یوں ہے


دل کی تقصیر نہیں آنکھوں کا سب سے ہے یہ داد

اول اس کام کے بنیاد کے یہ ہیں استاد



86


نین سین دل کے نصیبوں کے گویا ہے جلاد

طرفۃ العین 267 میں کر دیتے ہیں دل کو برباد

از گرفتاری چشم است گرفتاری دل

سبب چشمم بود موجب لاچاری دل


کہ تجھ تک نوبت کہنے سننے کی پہنچی، والا کہا تو اور کہاں میں۔ چیر، اس کو کہاں تک کہیے۔ غرض اس کے تئیں پیغام پہنچایا کہ جو میں باوجود اس قدر و منزلت کی محک امتحان جو ہر انسانیت کا ہے اور تاکید محارسان سلطنت کے ممکن نہیں کہ آ سکوں، پس اگر تو بھی نہیں آنے کا تو یقین جانیو کہ تیرے واسطے کیا کچھ مطاع گراں بہا امتیاز و حرمت کی بیچ سیل غفلت کے نہ بہہ جائے گی، اور کیا لعل قیمتی اعتبار و عزت کا صدمہ سنگ بےقدری کے سے چور نہ ہو گا۔ یعنی میں بہ مقتضائے اس کے کہ زلف تیری نے بیچ ہر حلقہ کے سو کمند بلا کی لٹکا کر دل میرے کے تئیں پھنسا رکھا ہے، افتاں و خیزاں آ ہی پہنچوں گی لیکن اس صورت میں نتیجہ اس کا تیرے حق میں بھی خوب نہیں۔ ان نے جو اشتیاق میرا نپٹ بے قراری سے اپنی طرف پایا اورغرض اس کی اسی میں منظور تھی، بہ ہزار ناز و نیاز آیا۔ میں نے پوچھا کہ دل تنگی و آزردگی تیری کی کیا وجہ ہے کہ اتنی شوخی سے پیش آیا.عرض کیا کہ میں جو خاک برداشتہ اس جناب کا ہوں بحکم اس کے۔۔ مصرعہ: ناز برآں کن کہ خریدار تست۔ نظر اوپر دلداری ملکہ جہانیاں کے بتوع عفو تقصیر و امید اجابت التماس کے واقعی بےادبی سے پیش آیا پر اب


بیت


یہ جان ودل سستی تقصیروار268 حاضر ہے

ذبح کروا سے یا چھوڑ دو ہوا سو ہوا


میں کے کشتہ تیغ نگاہ اس کے کی تھی، حرکت اس کی سے دیدہ و دانستہ آغماض کرکے بولی۔


87


کہ کیا وہ شکل ہے کہ جس کا حل ہونا اس قدر مشکل ہے، جوان نے عرض کیا کہ میں بچارہ خاک برداشتہ اور محتاج اس آستانہ269 دولت کا ہوں۔ اس سبب سے میرے تئیں بہ قول اس مضمون کے بہت طور مشکل ہے


نے زر کی اس قدرت، نے زور کی ہے طاقت

نے عجز سے کچھ حاصل، نے کام کرے منت

کس طرح کاٹوں میں، کٹتی نہیں یہ زحمت

کیا فکر کروں اس کا، لاحول والا قوۃ

کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے


اور آپ بفصل الٰہی ملکہ زماں اور مالک الملک ہیں، اس واسطے بقول اس مضمون کے سب طرح آسان ہے:


مخمس


حاتم کو نہیں قدرت، ہمت کو تیری آوے

منہ کس کا سخاوت کے آگے جو تیرے آوے

قاروں کے خزانے کو، اک دم میں جو لٹوا دے

اس دل کی بھی مشکل کو آسان تو ہی کرواوے

کیا کام کیا دل نے دیوانے کو کیا کہیے


آخرش بات گفتگوئے بسیار کے فحوائے کلام اس کے سے معلوم ہوا کہ ایک باغ خوش تعمیر نہایت شگفتگی و طراوت میں روح افزا متصل محل سرا اس جوان کے اور اس کے شامل ایک کنیز مغنیہ کہ، علم موسیقی میں کم و بیش مہارت رکھتی ہے، اس طرح سے جیسے اونٹ کے ساتھ بلی، یعنی اگر باغ لیجئے تو لونڈی بھی ساتھ ہی، کوئی شخص فروخت کرتا ہے اور مزا یہ کہ مثلاً قیمت اونٹ کی ایک روپیہ، تو بلی کی قیمت سو روپیہ پر جگ270 نہ پھوٹے علی ہذاالقیاس قیمت باغ اور لونڈی کی کہا چاہیے۔ غرض وہ عزیز از بس بےاختیار مائل خریداری اس کے کا ہے، لیکن

88

بسبب عدم سرانجام زر قیمت کے دست آرزو اس کے کاگل چیں مراد کا نہیں ہوسکتا اس سب سے غنچہ خاطر اس کے کا افسردہ ہو کے بہار روئے اس کے کی مانند برگ خزاں رسیدہ کے بے رونق کر رہا ہے۔ میرے تئیں کہ دلداری اس کی ہر وقت منظور نظر ملحوظ خاطر کے تھی۔ اسی وقت خواجہ سرا کے تئیں حکم کیا کہ صبح پیش از طلوع آفتاب قیمت اس کی مشخص 271 کر کے کلید تصرف اس کے کی بیچ قبضہ اختیار اس جوان کے چھوڑ۔ بارے اس بات کے سننے سے جوان نے غبار تفکر کا کہ اوپر چہرہ جمال اس کے بیٹھا تھا، دامن تشفی سے پاک کیا اور تمام شب نظاره جمال میرے کے سے اس کو اور اس کے سے میرے تئیں، ہمدوش شادمانی کے وہم آغوش کامرانی کے رہنا اتفاق ہوا۔ علی الصباح جس وقت تدرو 272 آفتاب کا بیچ سبزہ زار سپہر کے خراماں ہوا، کار پردازان 273 حضور کے یوں ہی عمل میں لائے۔ چند روز اس واردات کو گزرے تھے ایک روز اتفاقا موسم بہار میں کہ مکان بھی دلچسپ تھا اور ابر بھی زور طرح سے ہورہا تھا اور بجلی بھی یوں کوند رہی تھی جس طرح بینجنی۔ 274 پوشاک پر کناری چمکتی ہے اور ہوا بھی خوب ہی موافق پڑی تھی اور چھوٹی چھوٹی بوندیوں کے ترشح نیں عجب مزا کر رکھا تھا اور ستھری تھری گلابیاں275 شراب ارغوانی سے بھری ہوئیں، اس ڈول 276 سے رکھیاں تھیں کہ یاقوت کا جگر اس کی جھلک کی حسرت سے خون ہو جاوے۔ چاہتی ہوں کہ ایک جام اس بادہ مروق 277 سے نوش کروں کہ یکا یک ایک شعر بے اختیار زبان میری پر گزرا


چھن ہے،ابر ہے عیش و طرب ہے، جام و صہبا ہے

پر اک باقی ہے مجھ کو، ساقی گلفام کی خواہش


اور اسی حالت میں میرے تئیں اشتیاق سیر باغ نو خرید کا سلسلہ جنباں ہوا۔ 278 چنانچہ ایک دایہ کے تئیں ہمراہ لے کر نقب کی راہ سے اس کی حویلی تک اور وہاں سے طرف باغ کے متوجہ ہوئی۔ دیکھتی کیا ہوں کہ واقعی باغ بڑی ہی بہار سے گوئے سبقت کی روضہ رضواں سے لے گیا ہے۔ ایک ادنی کیفیت اس کی بیان کروں کہ ترشح سے تقاطر279 کے باغ کے


89



درختوں پر یہ عالم ہورہا تھا کہ گویا چتر زمردیں پر موتیوں کی جھالر جھلکتی ہے اور سرخی گل ہائے شقائق 280 در یاحین کی شام کے وقت بدلی میں یہ لطف دیتی تھی کہ جیسے رنگریز قدرت کا ابر کے وصلچے281 شفق میں پھیلا رکھتا ہے، بوٹا کاری و رنگ طرازی نقش ونگار بنگلوں کی نے، نگارخانه ارژنگ282 کے تئیں پرے کر رکھا تھا اور شفافی آب زلال حوضوں کی نے، صفائے تختہ آئینہ حلبی 283 کے تئیں بے آب کردیا۔ سخن مختصرمیں به تلاش اس جوان کے خراماں خراماں باغ میں سیر کرتی پھرتی تھی کہ اس اثناء میں طاؤس مرصع دم آفتاب کا اوپردیوارشفق کے جلوہ گر ہوا اور کویل مشکیں بال شب کی آشیانہ مغرب کے سے بلند پرواز کر عرصہ روزگار کی ہوئی کہ نا گاہ وہ عزیز خیاباں کی طرف سے نظر پڑا خدا جانے اس کو آگے ہی سے میرے

آنے کی اطلاع تھی یا کیا تھا کہ میرے تئیں دیکھتے ہی نپٹ تپاک سے پیش آ کے ہم دست ہوکر متوجہ بارہ دری کا ہوا۔ سبحان اللہ وہاں کا جو عالم دیکھا تو شام کی بہار پر بھی کچھ فوقیت رکھتا تھا اور ازروئے انصاف کے کہئے تو تماشے کے عالم میں رات نہ تھئ گویا شب برات تھی۔ اگر چراغاں کی کیفیت کا ذکر کروں تو دل مانند قمقمہ محفل سرابستان ارم284 کے تجلی بخش دیده بصیرت ارباب ذوق کا ہو جاوے اور کنول چمن کے روشنی کا بیان کیجئے غنچہ دل کا مانند گلریز کے ہوائے محبت اس کی گل کی صورت میں پکھڑی پکھڑی ہو کے جھڑ جاوے۔ ایک طرف انار کے جھاڑ نے مانند جھاڑ درخت چنار کے گلہائے آتشیں سے صحن باغ کے تئیں گل انار کر رکھا تھا۔ گھونگھچی 285 کے گلدستہ نے گلدست شقائق وریاحین 286 کے تئیں اپنی روشنی کے شعشہ سے اس کے جگر کوحسرت سے داغ داغ کر دیا تھا۔ ہوائی 287 نے اپنی بلند پروازی کے رو برو ہوا کے تئیں بے بال و پر کر رکھا اور پٹانے نیں اپنی غرش287 کے

آگے بادل کی گرج کو صم بکم289 کر دیا۔ ہتھ پھول کے پھول کا جولطف کہوں تو بے شائبہ تکلف جس طرح کرن پھول خورشید کا بیچ بنا گوش عروس کے جھلکتا ہے اور پھلجھڑی کی گل افشانی کا جو ذکر کروں تو بےتصنع جیسے قمر کے نوشہ 290 کے مکھ پرکرن کی جوت مقیش291 کے سہرے میں جھلملاہٹ کرتی موتی کی لڑی جھمکتی ہے، اس عرصہ میں آتش باز فلک کے نے ماہتابی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 162

عاشق و معشوق ہیں۔ ملکہ نے تیرے تئیں مع رقعہ اشتیاق کے ارسال کیا تھا۔ ازروئے مخبران صادق یہ خبر حضور میں پہنچی، تب دستہ حبشیان نے تیرے تئیں خلف تیغ آبدار کا کیا اور بادشاہ نے ساتھ وزیر، خیانت تدبیر کے صلاح یوں کی ہے کہ ملکہ کو راضی او پر قتل، اُس بے گناہ کے کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں پیادے اور یہ زخمی واسطے تماشے کو، بیچ اُس حشر گاہ کے حاضر ہوئے۔

میں نے دیکھا کہ بادشاہ اوپر تخت کے بیٹھا ہے۔ پنجرہ جوان کا لاکر حاضر کیا اور بادشاہ ہزادی شمشیر برہنہ لیے، واسطے قتل اُوس سرگشتہ کے آئی اور اُس فرہاد ناشاد خانہ برباد کو پنجرے سے باہر نکالا اور وہ شیریں شمشیر آہیختہ کیے مانند جلاد کے متصل پہنچی۔ چشم چار ہوتے ہی تلوار ہاتھ سے ڈال کر نہایت اشتیاق اور تپاک سے گلے لپٹ گئی اور کہا:

ابیات
عشق میں کیا آرزو، حسرت کی بر آئی ہے آج
دیکھ اپنے سر و قد کو جی نثار اپنا کیا
دل ہمارے نے سجن تجھ صاحب شوکت سے میل
عشق میں پیدا بہت سا اعتبار اپنا کیا

یہی آرزو کمال اس پراگندہ احوال کی تھی کہ ایک مرتبہ بہ حین حیات، آب زُلال وصال تیرے کے سے سیراب ہوں۔ معائنہ اس واردات حیرت سَمات کے سے بادشاہ سخت جوش پر آیا اور وزیر کو فرمایا کہ تو بھی چاہتا تھا کہ میں یہ صورت بہ چشم خود دیکھوں۔ البتہ خواجہ سَرایوں نے ملکہ کو حضور سے دور کیا اور وزیر بے تدبیر ناواقف از کار تقدیر وہ شمشیر لے کر واسطے قتل، اُس خسروِ ملک غم کے آیا اور چاہا کہ ایک ضَربَت میں کام آخر کرے کہ ناگاہ ہاتھ تیر انداز قضا کے سے ایک تیر چاتی وزیر کے سے صاف گزرگیا اور وہ مانند قالب بے جاں کے زمین پر گرا۔ بادشاہ نے دیکھنے اس احوال کے سے خلوت خانہ کی راہ لی اور جو ان کے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 163

تئیں، قفس میں کرکے باغ میں لے گئے۔ میرے تئیں کہ ملکہ نے بہ ایں حالت زخمی اور مجروح دیکھا۔ جزاح فرنگی طلب کرکے بہ تقید تمام فرمایا کہ اس زخمی جان بلب کو بد قدغن بلیغ جتنا کہ جلد غسل صحت کا نہلاوے گا، مورد عنایات بے غایات اور مصدر انعام و جاگیر کا ہوگا۔ القصہ بہ فضل الٰہی و توجہ نامتناہی، سلطنت پناہی و ابہت دست گاہی چشم و چراغ دود مانِ بادشاہی کے سے، بیچ عرصہ چہل روز کے غسل شفا اور صحت کامل اس ناقص کو حاصل ہوئی ملکہ آفتاب طلعت نیکو خصلت مہر سپہر عظمت و کرامت، اختر برج مروت و لطافت کے نے بہ ایفائے زر موعودہ عطا کرکے رخصت فرمایا۔ پس اس بندہ نے ہمراہ رفقائے ہمدم و محبان ہم قدم کے رہ نورد بادیہ تردد کا ہوکر ہر ایک کو مرخص بہ وطن مالوفہ کیا اور آپ بیچ اس جائے رواں آسائے کوہ فلک فرسائے کے رخت اقامت کا ڈالا، بقول اس کے

پھنس گئے آکر قفس میں چھوڑ بستان بہار
رہ گئی جی میں ہمارے سخت ارمان بہار

غلامانِ مُعتمد کو زرد دے کے آزاد کیا اور کہا کہ لایق قوت لایموت کے قدرے خبر کرنی ضرور ہے بعد ازاں مختار ہو، چنانچہ ایک ایک بہ موجب رُسوخ عقیدت کے خبر لیتا ہے اور میں گوشہ فراغت میں بیچ بُت پرستی کے مشغول رہتا ہوں۔

القصہ یہ بندہ یعنی شہزادہ عجم بہ مُجرد و سُننے اس حِکایت پُر شکایت کے، عَنان اختیار کی ہاتھ سے دے کر خَرقہ گدائی کا اوپر قامت اپنی کے راست کرکے عازِم شہر فَرنگ کا در حالت عشق ملکہ کے ہوا۔ الغرض بعد چند مدت کے بصورت گدایان موئے سر تا کَمر بیچ لاغری کے گوئے سبقت کی مجنوں سے لے جا کر داخل شہر مینو سواد خِلافتُ العَالیہ کے ہوا اور یہ شعر و رد زبان کے تھا:

قطعہ
جدائی سرو قد تیری سے اے گل
مثال فاختہ کرتا ہوں کوکو
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 164

جو ہو دل تنگ تو پیجے پیالہ
کہ غم کے درد کی مستی ہے وارو

غزل
یار غافل ہے میرے درد سے ہوشیار کرو
بے خبر جان بچا، جا کے خبردار کرو
دردمندوں کے اگر دل سے ہوئے ہو محروم
رحم فرما کے مرے حال کو اظہار کرو
آکے قسمت سے ترے غم میں گرفتار ہوا
ہے تو بَرجا کہ مسافر پہ ٹُک یک پیار کرو
جن نے آدست سوں اُمید کے دامن پکڑا
یوں نہیں شرط مروت کہ اُسے خوار کرو
قدر بوجھو دل خونخوارہ عاشق کی اگر
سر چڑھا گُل کی طرح زینتِ دستار کرو
عرض احوال کیا چاہتا ہے فدوی یہ
وقت نوکر کی نوازش کا ہے دربار کرو

کوچہ گردی اختیار کرکے رات و دن گرد دولت سَرائے ملکہِ فرنگ کے پھرتا تھا کوئی طرح فتح الباب مقصد کی نظر نہ پڑتی تھی، ہمیشہ بدرگاہ چارہ ساز بیچارگان و دستگیر در ماندگاں و مُناجات نیم شبی و دعا ہائے سحری اوقات بسر کرتا تھا۔

ابیات
نہیں سنتا کوئی احوال میرا
لَبالَب دل میں یہ حسرت بھری ہے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 165

نہ دل چھوڑا نہ دیں تسِ پر تغافل
کسی نے بھی کسی سے یوں کری ہے

پھر اتفاقاً ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ مردُم بازار بَر اساں و گریزاں ہیں اور دوکاندار اپنی دوکان بند کرتے ہیں اور ایک جوان چوں شیر ژیاں ماند پِیل دَماں و رَعد غَزاں جوشاں و خَروشاں شمشیر دو دستی پھراتا ہوا مثال شراب خواران سَرمست و زِرہ دَربَر و خود برسرو جوڑی طچنچہ کی در کمر مسلح و مکمل چلا آرہا ہے۔ میں اُس کا تَخالُف اطوار و تَبَاعُد اَوضاع دیکھ دیکھ کر اپنے دل سے کہتا تھا۔

فرد
ہر گھڑی چھپ چھپ کے مت مار اُس کو اے دل مان جا
شوخ ہے ہندوستاں زا دیکھ لے تو جان جا

پیچھے اُس کے دو غلام، سیم اَندام، دل آرام، بہ لباس فرنگ با زینت تمام، ایک تابوت مُزین از جواہر و یاقوت اوپر سر کے لیے چلے آتے ہیں۔ میں نے دیکھنے اس مقدمہ ہوش ربا کے نہایت مُتعجب اور متحیر ہوکر تعاقب کیا۔ ہر چند اکثر مردم بہ ایما و اشارت مانع اس جرات بے جا کے ہوئے مطلع خاطر میں نہ لایا اور چلا۔ اُس نبرد آزما نے برائے العین مشاہدہ کرکے طرح دیا۔ جس وقت کہ وہ یکہ تاز میدان شجاعت کا داخل محل خاص کا ہوا، میں بھی جان سے گزر کے، ساتھ اُس کے شامل ہوا۔ ب تو اُس شیرنر نے غصہ ور ہوکر ایسا مجھ پر حملہ کیا کہ صرف ایک ضربت میں کام اِس ناکام کا انجام کو پہنچادے۔ میں نے قسم دے کے کہا کہ ایک ہی وار میں اس بیمار سراسر آزاد کا از وار ناپائیدار اور آلام عَا فِرجام صبح و شام سے پیچھا چھُڑا کر ایسی زندگانی سے مرگ بہتر ہے اور خون اپنا معاف کروں گا اور نہایت احسان مند اور مرہون منت رہوں گا۔ اس مرد دلاور و جوان زور آور نے دریافت کرنے احوال میرے کے سے، سحاب اپنے جنوں کا کہ بیچ ترا کم کے تھا، منتشر کیا اور
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ ۲۷۶

گلکرائسٹ نے ’باغ و بہار‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ کثرت تراکیب و محاورہ فارسی و عربی کی وجہ سے چونکہ اس کی عبارت قابل اعتراض تھی اس لیے اس نقص کو دور کرنے کے لیے میرا من دہلوی نے اس کا یہ متن تیار کیا ہے۔ یہ وہ آرا ہیں جن میں ان تہذیبی عوامل کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو کسی تصنیف کا مزاج بناتے ہیں۔ جیسے آج ’نو طرز مرصع‘ کی سی نثر نہیں لکھی جا سکتی ، اسی طرح شجاع الدولہ کے دور میں ایسی سادہ نثر لکھنا ، جو طبقۂ خواص کو بھی پسند ہو، ممکن نہیں تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ’نو طرز مرصع‘ جس تجربے کی نمائندگی کرتی ہے وہ دراصل آج ہمارا تجربہ نہیں ہے ۔ جیسے ’باغ و بہار‘ ایک خاص ضرورت اور مقصد کے تحت لکھی گئی تھی، اسی طرح ’نوطرز مرصع‘ ایک خاص ماحول، معاشرے اور ضرورت کے تحت لکھی گئی تھی۔ ’باغ وبہار‘ ’صاحبان نو آموز‘ کو اردو سکھانے کے لیے لکھی گئی تھی اور ’نو طرز مرصع‘ نواب شجاع الدولہ کے حضور میں پیش کرنے کےلیے لکھی گئی تھی۔ اس لیے تحسین نے ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جو اس دور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں اور طبقۂ خواص کا دل پسند و محبوب اسلوب تھا۔ تحسین کا کمال یہ ہے کہ اس نے فارسی اسلوب کو اردو کا اسلوب بنا کر اس طور پر پیش کیا کہ اہل علم کے ہاتھ اردو کا ایک نیا معیاری اسلوب آ گیا۔ اسی وجہ سے یہ اتنا مقبول ہوا کہ اس دور کے ادیبوں اور انشاپردازوں نے اس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔ اس دور میں اس اسلوب میں سحر کرنے کی پوری قوت تھی۔ رجب علی بیگ سرور، جیسا کہ ہم نے ابھی کہا ہے، فسانۂ عجائب میں اسی اسلوب کو مکمل کرتے ہیں ۔ اس دور میں اس اسلوب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے میر بہادر علی حسینی نے اپنی تالیف ’نثر بے نظیر‘ دو بار لکھی۔ ایک بار عام زبان میں فورٹ ولیم کی ضرورت کے مطابق او ر دوسری بار ایسی نثر میں کہ ’ہر ایک زبان داں و شاعر اس کو سن کر عش عش کر ے اور ہیچ مداں کی ایک یادگاری اس دنیا میں رہے۔ اس دور میں نو طرز مرصع کا یہی وہ معیاری اسلوب تھا جس کو اختیار کرکے اس دنیا میں یادگاری رہ سکتی تھی۔ فضلی نے جب کربل کتھا لکھی تھی تو اس میں معذرت کا لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ یہ عورتوں کے لیے لکھی گئی ہے۔

صفحہ ۲۷۷

اس لیے اس میں ایسی زبان استعمال کی گئی ہے جو ان کی سمجھ میں آ سکے۔ میر امن نے ’باغ و بہار‘ لکھی تو اس میں بھی معذرت کا لہجہ موجود ہے۔ اردو میں تحسین اس خاص طرز و اسلوب کے بانی ہیں ۔ یہ ایک ایسا اسلوب تھا جو اس تہذیب کے تصور حقیقت اور طرز احساس سے پوری مطابقت رکھتا تھا۔ ’نو طرز مرصع‘ کے اسلوب کی اولیت وا ہمیت کی داد اسی وقت دی جا سکتی ہے جب اس تصور حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے جس نے اس منفرد اسلوب کو جنم دیا تھا۔ محمد حسن عسکری نے لکھا ہے کہ ’ہر طرز احساس حقیقت کے ایک خاص تصور سے پیدا ہوتا ہے اور جب تصور بدلتا ہے تو طرز احساس بھی بدل جا تا ہے بلکہ ایسے چپکے سے بدلتا ہے کہ ہم مدت تک یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم جیسے تھے اب بھی ویسے ہیں۔ ہمار ے ہاں جب انگریزوں کا اثر پھیلا تو ہمیں اپنے ادب میں تبدیلیاں کرنے کی ضرورت تو محسوس ہونے ہی لگی مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہوئی کہ ہم اپنی زبان کے خصائل کو سمجھنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ کھونے لگے اور اردو زبان کے قاعدے انگریزی اصولوں کے مطابق ترتیب دینے لگے۔ پرانے طریقے سے لفظ کی تین قسمیں ہوتی تھیں۔اسم ، فعل، حرف۔ اب انگریزی دستور کے مطابق لفظ کی آٹھ قسمیں بتائی گئیں اور انھیں آسان کا نام دیا گیا۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ انگریزوں کے اثر سے ہمارے لیے حقیقت کا روایتی تصور مشکل چیز بنتا جا رہا تھا اور ہم غیر شعوری طور پر انگریزوں کا تصور قبول کرتے جا رہے تھے اور حقیقت کا تصور بھی بدل رہے تھے۔ اسی بدلے ہوئے تصور حقیقت کی وجہ سے ہم ’نو طرز مرصع‘ کے اسلوب پر آج مکروہ ، ثقیل، مصنوعی او ر سطحی ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور اس طرح اپنے ماضی کو اپنے وجود سے کاٹ کر الگ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ حسن عسکری نے لکھا ہے کہ ’ماضی کو قبول کیے بغیر نہ تو ہم اس سے تخلیقی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں، نہ اس سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اس طرح تو ماضی کا بھوت ہمارا گلا دبائے رکھے گا اور ہمیں سانس تک نہیں لینے دے گا۔۔۔ آ ج کل لکھنے والے تو یہ بات اپنے آ پ سے پوچھتے بھی نہیں کہ ماضی سے ہمار ا علاقہ کس قسم کا ہے اور ہمارے طرز احساس میں ماضی کے اجتماعی تجربے کو کیا دخل ہے۔ اس بات سے واقف

صفحہ ۲۷۸

ہوئے بغیر اردو کے اسالیب میں معنی خیز تر میمات اور اضافے کیسے کر سکیں گے۔ ماضی کو سمجھے بغیر رد کرکے ہم ماضی سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتے ، مثلاً جس تصور حقیقت کے زیر اثر ’نو طرز مرصع‘ لکھی گئی اس کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صفات کا استعمال کم اور اسم کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ’نوطرز مرصع‘، ’طلسم ہوش ربا‘ یا کسی بھی داستان میں آپ باغ، خالہ باغ، دعوت یا میلے کا بیان پڑھ لیجیے۔ آپ کو یہی صورت ملے گی۔ بقول حسن عسکری ایسے موقع پر مغرب کے ادیب صفات کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں صرف چیزوں کے ناموں کی فہرست ملے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسماء کے ساتھ صفات لگانے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی گئی کہ ہر چیز صفت خاصہ رکھتی ہے اور خود چیز کا نا م اس صفت پر دلالت کرتا ہے یا نام کے ساتھ اس صفت کا خیال بھی خود ہی آ جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے اد ب میں بلکہ سارے مشرق کے ادب میں تشبیہ و استعارہ کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ وہ تصور حقیقت ہے جو ہماری اور سارے مشرق کی مخصوص مابعد الطبیعات سے پیدا ہوا ہے اور یہ جدید مغرب کی طبیعات سے مختلف ہے۔ اس دور میں ہماری تہذیب زوال آمادہ ہو کر مغلوب ہو رہی تھی لیکن اپنے مخصوص طرز احساس کا شعور بھی باقی تھا اسی لیے ’نو طرز مرصع‘ اس طرزمیں لکھی گئی جس طرز میں وہ ہمیں آج مصنوعی اور سطحی معلوم ہوتی ہے، حالانکہ اگر اس پس منظر میں دیکھیے تو وہ ہمارے ایک مخصوص طرز احساس کی منفرد تصنیف ہے۔ ’نو طرز مرصع‘میں مجلس ضیافت کا بیان پڑھیے، آپ کو اس طرز احساس کے بہت سے پہلو نظر آئیں گے:

”کبھی نکتہ ہائے شیریں سے بیچ گوش سا معان مجلس انبساط کے موتی لذت کے پروتا اور کبھی لطیفہ ہائے رنگین سے غنچہ خاطر حاضر ان مجلس نشاط کے تئیں شگفتگی عشرت کی دیتا۔ جب کاسہ دماغ کا شراب خرمی کے سے لبریز ہوا اس وقت چارامردسادہ روغلمان سرشت مانند ماہ شب چہار دہم کے زلف مسلسل اوپر رخسارے کے مثل سنبل کے گلِ یاسمیں پر پیچیدہ کیے زینت بخش محفل کے

صفحہ ۲۷۹

ہوئے اور ساز خوش آواز چھیڑ کر کے ایسی خوش الحانی سے نغمہ تہنیت آمیز شروع کیا کہ ایک مرتبہ اس کے سننے سے داؤد بھی وجد میں آ جاوے اور جو آواز اس کی بیچ سرزمین ہند کے پہنچے تو بے شائبہ تکلف اودھونائک اور تان سین سبق تربیت کا بیچ دبستان شوق کے پڑھیں۔“(ص ۹۸/ ۹۷)

اسلوب کے اس تخلیقی عمل کا تعلق ہمارے اس طرز احساس سے ہے جسے ہمارے تصور حقیقت نے جنم دیا تھا۔ جب تک یہ طرز احساس ہمارے اندر زندہ اور جاری و ساری رہا ہمیں ’نو طرز مرصع‘ کے اسلوب میں دلوں کو گرمانے والی اثر آفرینی اور استعاروں کےذریعے با ت کرنا ایک زندہ و موثر اسلوب معلوم ہوتا رہا۔ اس تصور حقیقت نے ہمیں خیال آرائی کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔ اس لیے عبارت کی رنگینی ، استعارات و تشبیہات کا استعمال ہمارے طرز احساس کا حصہ تھے۔ یہ سارے عوامل ہمارے روایتی معاشرے کے مسلمہ حقائق تھے۔ اسی لیے اس زمانے میں ’نو طرز مرصع‘ کا اسلوب سحر آفریں معلوم ہوتا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ جب کسی زبان کا اسلوب بدلتا ہے توصرف اسلوب کے مطالعے ہی سے اس زبان کے بولنے والوں کے طرز احساس کا پتا لگا کر اس کے تصور حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے جہاں وہ قوم اب پہنچی ہے۔ ’نو طرز مرصع‘ کے اسلوب کو بلا سوچے سمجھے مکروہ اور مصنوعی کہہ کر ہم نے ادبی عوامل کو پورے طور پر نہ صرف سمجھا نہیں ہے بلکہ ادب کو، زندگی سے بے تعلق کر کے، پڑھنے کی کوشش کی ہے۔

تصورِ حقیقت کے اسی اثر کی وجہ سے شاعری ہمارے مزاج سے ہمیشہ قریب رہی ہے اور شاعری کا اثر ہماری پوری زندگی ، معاشرت اور طرز احساس پر گہرا پڑا ہے۔ آداب محفل ، طریق گفتار، وضع قطع، مشغلے اور ذہن و فکر سب اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں تھی کہ نثر ، جو ہمارے تہذیبی و فکری اظہار کا ایک حصہ تھی، اس سے الگ رہتی ۔ اس لیے اس میں بھی وہ خصوصیات در آئیں جو ہمارے طرز احساس میں موجود تھیں۔ ہماری نثر کا رنگ و آہنگ اسی لیے آج تک شاعرانہ ہے او ر ہم خیال کو تشبیہ و استعارہ کے ذریعے آئینہ


صفحہ ۲۸۰

دکھاتے ہیں۔ ’نوطرز مرصع‘ کا اسلوب اسی طرز احساس کا نمائندہ اسلوب ہے اور آج یہ اسلوب اسی لیے مقبول نہیں ہے کہ ہمارا طرز احساس بدل گیا ہے۔ اگر انگریزوں کا تصور حقیقت وہی ہوتا جو چودہویں پندرہویں صدی کے انگریزی ادب میں نظر آتا ہے تو گلکرائسٹ کو ’نو طرز مرصع‘ کو میر ا من سے دوبارہ لکھوانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ خود ’نو طرز مرصع‘ میں طرز احساس بدلنے او ر کمزور پڑنے کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں فرنگی کردار موجود ہیں۔ ایک درویش ملکہ فرنگی کا بت بنا کر اس کے قدموں میں گڑ گڑا کر روتا نظر آتا ہے۔ بہزاد خاں فرنگی ایک بہادر و جری انسان ہے جو درویش کی مدد کو پہنچتا ہے۔ یہاں وہ ایسے مخلص ، ہمدرد، نیک خو، بے غرض، آڑے وقت پر کام آنے والے انسان کے روپ میں نظر آتا ہے کہ ہم اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس سے ہماری یہ محبت خالی از علت نہیں ہے۔ یہ ہماری ان چھپی ہوئی خواہشات کا اظہار ہے کہ ہم خود کو بدل کر انگریزوں کے تصورات کو اپنا لینا چاہتے ہیں۔ انیسویں صدی ان تصورات کو قبول کر لیتی ہے۔ ’نو طرز مرصع‘ میں ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ تخلیقی سطح پر تحسین خود اس نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہیں اور یہ دو طرز احساس ان کے اندر دھوپ چھاؤں کی طرح موجود ہیں۔ اسی لیے ’نو طرز مرصع‘ میں ہمیں تین اسالیب بیان ملتے ہیں:

(۱) ایک وہ اسلوب جو ہمارے روایتی طرز احساس سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔ اس سے استعاروں کی کثرت ہے۔ عبارت رنگین، مسجع و مقفیٰ ہے۔ خیال آرائی اور مرصع کاری ہے۔ عربی الفاظ و فارسی تراکیب اور ان زبانوں کے مزاج، ان کی روایت و تہذیب کی گہری چھاپ ہے۔ اردو کے ضمیر، فعل ، حرف جار وغیرہ کے علاوہ سب کچھ فارسی اسالیب کا گہرا اثر لیے ہوئے ہے۔ یہ اسلوب اردو زبان کو فارسی کے ساتھ مرصع کرنے سے وجود میں آیا ہے جملے کی ساخت اور لہجے پر فارسی جملے کی ساخت اور لہجہ اتنا غالب ہے کہ مضاف ومضاف الیہ، صفت وموصوف اور جارومجرور کا استعمال بھی اکثر اسی انداز سے ملتا ہے۔ ’نو طرز مرصع‘ میں اس اسلوب سے جو شکل بنتی ہے وہ یہ ہے:
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 166 نوطرزِ مرصّع صفہ 169

مجھ کو اپنے اوپر گاڑھا جان کر بہ سلوک و آدمیت پیش آیا اور ازراہ مہربانی بسیار و الطاب بے شمار پرسش احوال میرے کے کی۔ میں نے مفصل طومار عشق اس آفت صبر ا آرام کا نہایت درد و رقت سے پڑھا۔
غزل
یار کے رہنے کی منزل ہے سمجھ
بارگاہ حضرتِ دل ہے سمجھ
ترپھڑاوے کیوں نہ قاتل دل مرا
کیا کرے ناچار بسمل ہے سمجھ
صبر کب تک درد میں آوے مجھے
ہے نہیں ایوب، یہ دل ہے سمجھ
عشق میں حسرتؔ کو ناصح کچھ نہ کہہ
اپنے فن میں خوب کامل ہے سمجھ
اس عزیز نے دریافت کر کے کہا کہ الحمد للہ والمنت کہ یہ سرشتہ کام تیرے کا، ہاتھ میرے ہے، بذریعہ ایں خاسار مطلب بزرگ اور مہم سترگ اپنے کو پہنچے گا اور گلدستہ مراد کا ہاتھ اپنے کے لاوے گا، خاطر جمع رکھ اور اندیشہ کو مزاج اپنے میں راہ نہ دے، پس پھر میری حجامت بنوا کر خلعت پاکیزہ عنایت کیا اور کہا کہ یہ تابوت اسی شاہزادہ مرحوم و مغفور کا ہے اور میں کوکا 552 اس کا ہوں۔ وزیر کے تئیں تیر از راہ تدبیر میں نے مارا تھا کہ باعث نجات، اس عالی درجات کا اس وقت ہوا۔ آخر ندائے کُلُّ نَفسٍ ذَائِقۃُ المَوتِ کی دے کے رخت ہستی کا طرف سرائے جاودانی کے کھینچا۔ میں ہر مہینہ میں ایک دفعہ، تابوت اس کا لے کر نکلتا ہوں اور ماتم کرتا ہوں ؎
کچھ نہ پوچھ سبب اس درد کا مجھ سے یارو
دیکھ کر حال مرا نالہ و فریاد کرو
---------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 167 نوطرزِ مرصّع صفہ 170

دام میں مفت ہوا جاتا ہے یہ صید اسیر
ذبح کرنا ہے شتابی تو اے صیاد کرو
اقصہ فضل الہی جو شامل حال میرے ہوا۔ بعد مدت بسیار کے خراب آباد مفلسی و پریشانی کے سے نکل کر اوپر ساحل جمعیت و کامرانی کے پہنچا اور امید قوی ہوئی۔ جس وقت کہ فرہاد دشت پیامئے روز کا بیچ کوہ مغرب کے گیا اور شیریں شب کی نے، زلف مُشک فام اور چہرۂِ مشرق کے دراز کی، جوان مع تابوت تیار ہوا اور ایک غلام کے عوض میرے تئیں تابوت سر پر دے کر ہمراہ لیا اور فرمایا کہ بیچ سفارش، تیری کے ملکہ سے نہایت عجز و الحاح کروں گا، تو خاموش رہیو اور بیٹھا سنیو۔ میں ارشاد اس کے کو ہدایت جان کر، آداب بجا لا کر روانہ ہوا۔ جوان رستم تواں پائیں باغ بادشاہی میں پہنچا۔ وہاں جو دیکھا تو ایک اور ہی عالم نظر پڑا کہ درمیان چمن زار ارم نمودار کے چبوترہ ایک مرمر سفید تر از بیضۂِ جانور سیمرغ مثمن 553 اور صحن گلشن مستحکم ہے اور فرش چاندی و مسند زربفتی اور شامیانہ جھالر مروارید ریشم کی طنابوں اور نقرئی اِستادوں سے کھینچا ہے، تابوت اس جا پر رکھ کے ہم دونوں شخصوں کو اشارت کی کہ پیچھے ایک درخت کے نشست کرو، بعد ایک لمحہ کے روشنی مشعل کی نمودار ہوئی اور وہ ماہ شب چہار دہم باچندے کنیز، مثل انجم بادل پرغم و مزاج برہم برآمد ہو کر مسند پر آ بیٹھی۔ کوکا از راہ ادب کے دست بستہ استادہ رہا۔ آخرش وہ بہ موجب ایمائے ملکہ کے آداب بجا لا کے حاشیۂ بساط پر بیٹھا۔ بعد فراغ فاتحہ ختم کے بازار خوشامد کا گرم کیا اور پس از ذکر اذکار اور طرف کے عرض کیا کہ ملکۂ جہاں سلامت، بادشاہزادۂ عجم کا غائبانہ عاشق و دیوانہ ہو کر بہ استماع خوبی ہائے ذاتی و صفاتی شیفتہ حسن و جمال لایزال صاحبہ غنج و دِلال 554 بہ صورت گدایان بہ ہزار تباہی و جاں کاہی تخت سلطنت کو چھوڑ کر مانند ادہم 555 کے جملہ عیش و لذات ترک کر کے بہ قول اس کے:
-----------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 168 نوطرزِ مرصّع صفہ 171

دوھا
سائیں تیرے کارن چھورا شہر بَلکھ
سولہ سَے سہیلیاں توڑے اٹھارہ لکھ

اور یہ بھی اس کی شان میں ہے ؎

نہ کوئی ایوب سے صابر کا ہمدم پھر ہوا پیدا
نہ کوئی یعقوب سا مانند چشم تر ہوا پیدا
نہ کوئی اس عشق میں مجنوں سے زور آور ہوا پیدا
نہ کوئی اس مسخرے فرہاد کا ہمسر ہوا پیدا
مگر شہزادۂ ملک عجم از سر ہوا پیدا

وارد اس شہر کا ہوا ہے اور جو میں نے حملہ اس کے مارنے کا کیا تو تلوار کی آنچ کے آگے ثابت پایا۔ یہ فدوی فریفتہ جوانمردی اور قصد عظیم اس کے کا ہو کر عرض کرتا ہے کہ اگر ملکہ از راہ مسافر پروری و عاشق نوازی کے سرفراز و ممتاز باریابانِ بساط انجمن خاس کا اسے فرماوے تو بعید اہلیت و مروت سے نہ ہو گا ؎

قدر گُل بداند قدر جوہر جوہری

یہ بات سن کر نہایت متعجب ہوئی اور آرے 556 بَلے کہا۔ تب اس مرد نیک ذات و پاک سرشت نے بہ اشارہ میرے تئیں بلایا۔ میں جو مشتاق دیدار ہو رہا تھا، بہ سرعت و عجلت تمام تر جا پہنچا۔ دیکھنے صورت و مشاہدۂ جمال اس کے سے بے خود و مستغررق ورطہ تحیر کا تھا۔ آخرش مجلس برخاست ہوئی اور وہ مرد روانہ دولت خانہ کا ہوا۔ ڈیرے آ کر مجھ سے فرمایا کہ میں نے سفارش اور حقیقت تمھاری بہ وجہ احسن عرض کی ہے۔ بہ ذوق تمام، ہر شب بلا ناغہ آن کر گلشن وصال کے سے گل کامیابی کے چُن اور داد کامرانی و عیش جاودانی کی دے۔
---------------------------------------------

ریختہ صفحہ 169 نوطرزِ مرصّع صفہ 172

فرد جیار کا ملنا زندگانی ہے
زندگانی جاودانی ہے

بہ مجرد سننے اس کلام کے قدمبوس ہوا اور کوکا نے میرے تئیں گلے لگایا۔ جس وقت کہ آفتاب ہنگامہ آرا روزگار کا بیچ خلوت خانۂ مغرب کے گیا اور ماہتاب مجلس افروز شب کا نور افزائے ستارہ انجم کا ہوا۔ یہ مجنوں طالبِ وصالِ لیلیِ فِرنگ کا روانہ پائیں باغ ملکہ کا ہوا۔ آخرش اس مکان مینو نشان پر پہنچ کے اوپر چبوترۂ خاص کے مسند پر جا بیٹھا اور وہ معشوقہ بہ قصد ملاقات میری کے عہدہ داروں کو بشارت و فراغت کی دے کے ساتھ ایک کنیز محرم راز کے برآمد ہوئی اور مسند پر تشریف لائی۔ میں نے نہایت تعشق اور ولولہ سے قدمبوس کیا اور ان نے میرے تئیں ازراہ محبت کے کے "دل ہارا بہ دلہا با شد" فرمایا کہ اے نادان وقت ہاتھ سے جاتا ہے جلد روانہ ہو۔ میں نے باغ سے نکل کر مارے خوشی کے راہ گم کی۔ بلکہ اپنے تئیں آپ میں نہ پاتا تھا۔ نازنین آشفتہ اور غصہ ہوتی تھی کہ شتاب مکان سکونت کے میں پہنچ کر، میرے تئیں مخمصہ سے رہائی دے کہ تاب و طاقت پیادہ پائی کی نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ حویلی غلام میرے کی متصل ہے، خاطر جمع رکھ۔ چنانچہ ایک قفل کسی کا توڑ کر داخل اس حویلی کا ہوا۔ خالی گھر میں جو تلاش کیا تو مطبخ میں نان و کباب اور طاقچۂ ایوان پر شیشہ شراب کا ہاتھ آیا واسطے رفع ماندگی اور خوب کے شراب پُرتگال سے دو دو جام لیے اور نان و کباب نوش جان کیے۔

ابیات
خدا کے واسطے ساقی پلا شراب مجھے
جِلا، خمار کے ہاتھوں نہ کر کباب مجھے
اسی سبب تو کسی سے نہیں لگاتا دل
برا لگے ہے زمانے کا انقلاب مجھے
---------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 170 نوطرزِ مرصّع صفہ 173

تمام شب بہ عیش و نشاط ادا کی ؎

نہ مجھ کو خوب دوزخ کا نہ جنت کی طمع دھرنا
مرا مطلب سَجن سے ہے طلب دیدار کی رکھنا

جس وقت کہ دُزد و شب کا بیچ بندی خانہ تَحتُ الارض 558 روز کا ہنگامہ افروز شَش جہت کا ہوا۔ بادشاہ کے تئیں خبر غائب ہونے ملکہ کی پہنچی حکم والا نے شَرف نفاذ کا پایا کہ دروازہ شہر پناہ سے راہ صادر و وارد کی بند ہو، اور نَوِشتہ جات بادشاہی بنام راہ داران و گزربانان و عاملان و کارپردازان مع ہَرکارہ ہائے معتبر ارسال ہوئے اور کٹنی و دَلالہ 559 محتالہ و ساحرہ افسوں گو کہ مشہور و معروف تھیں حضور میں بلا کر فرمایا کہ شہر میں خانہ بہ خانہ تلاش جا کے کریں۔ جو کوئی کہ خبر بادشاہ زادی کی لاوے تو ہزار اشرفی انعام پاوے بہ طمع زر کے کٹنیاں محلہ بہ محلہ سَیراں و طَیراں 560 ہوئیں۔ چنانچہ ایک پیر زن شیطان کی خالہ کا گزر، بیچ اس حویلی کے پڑا جو مانند دل ہائے بیدار کے دروازہ حویلی کا کشادہ پایا، اندرون آن کر دیکھتی کیا ہے کہ بختوں نے یاری اور طالعوں نے مددگاری کی ہے کہ ہُما اَوج سعادت کا بیچ دام کے آیا ہے، سامنے کھڑی ہو کر زبان بیچ مدح اور تعریف کے کھولی اور یہ شعر عرض کیے ؎

گناہ گاروں کی عذر خاوہی، ہمارے صاحب قبول کیجے
کرم تمھارے پہ کر توقع، یہ عرض رکھتے ہیں مان لیجے
غریب و عاجز جفا کے مارے فقیر و بے کس گدا تمھارے
سو اپنے جی میں بچاؤ کیجے اگر جو ان پر کرم نہ کیجے
پڑے ہیں ہم بیچ میں بلا کے، کرم کرو واسطے خدا کے
ہوئے ہیں بندے تری رضا کے، جو کچھ کہ حق میں ہمارے کیجے
-----------------------------------------

ریختہ صفحہ 171 نوطرزِ مرصّع صفہ 174

نپٹ پڑی ہے ہمن یہ غم کی، جگر میں آتش لگی الم کی
کہاں ہے طاقت انھیں ستم کی، کہ جن پہ اتنا عذاب کیجے
اگر کبھی جھوت کچھ ہوا ہے کہ جس سے اتنا ضرر ہوا ہے
تو ہم سے وہ بے خبر ہوا ہے، دلوں سے اس کو بھلا ہی دیجے
ہوئے ہیں ہم ظلم کے نشانے، ہوئے ہیں طعنے کے اب ٹھکانے
ترا برا ہو ارے زمانے، نباہ اس طرح کیوں کہ کیجے

بعد اس گفتگو کے کہا اے صاحب زادی میں ایک دختر عاجِزہ حاملہ رکھتی ہوں کہ درد زہ میں گرفتار اور بے اختیار نان و کباب چاہتی ہے۔ ملکہ نے عالمِ مستی شراب میں از راہ رحم دلی کے اس کے تئیں نان و کباب دیا اور انگوٹھی انوٹھی گراں قیمت، بیش بہا ہاتھ سے نکال کر انعام فرمائی کہ اس کو بیچ کر زیور بنا لیجیو، اور ماما تو گاہ بہ باہ آیا کر، گھر تیرا ہے۔ وہ آفت کا پرکالہ، شیطان کی خالہ، ہزاروں ہزار دعوات مزید حیات و ترقی عمر درجات ادا کر کے رخصت ہوئی اور باہر نکل کر نان و کباب ڈال دیا اور انگوٹھی مٹھی میں رکھی کہ یہ خوب پتا ہے۔ اس عرصہ میں مالک خانہ مرَد مردانہ طرف شکار گاہ کے سے، دلیرانہ گھوڑے تازی نژاد پر سوار، نیزہ آبدار در کنار، آہو کر کے شکار، تیز رفتار، آ پہونچا اور قفل ٹوٹا و پیر زن کو چھوٹا پایا۔ ایک ہاتھ میں جھونٹا پکڑ کے لٹکاتا ہوا لیا۔ آتے ہی ایک پیر میں رسی ڈال اور دوسرے پیر پر پیر کو دھر کھینچا و دوپارہ کیا۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے اس حالت پر ملامت کے رنگ و روپ اوپر چہرے کے متغیر کیا اور لرزہ اوپر بدن کے پڑا۔ اس جوان نے افواہ سے سنا تھا، عقل سے دریافت کیا اور میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کوئی بھی ایسی نادانی و بےوقوفی کرتا ہے کہ دروازہ کھول کر بیٹھنا اور اندیشہ اخفائے راز کا نہ کرنا۔ یہ حرکت محض بےجا ہے۔ تمھارا آنا اور ملکہ کا تشریف لانا سرفرازی اور بندہ نوازی کا موجب ہے۔ خدمت گاری و جاں نثاری میں ہر گز دریغ نہ کروں گا۔ ملکہ نے ہنس کر کہا کہ شہزادہ حویلی غلام اپنے کی مقرر کر کے مجھ کو
----------------------------------------------
ریختہ صفحہ 172 نوطرزِ مرصّع صفہ 175

لایا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ واسطے تسلی میرے کے تھا۔ اس جوان نے در جواب عرض کیا کہ گروہ سلاطین ولیٔ نعمت اور خداوند نعمت سکنہ طبقہ روئے زمین کے ہیں، اس میں کچھ جھوت نہیں، بندہ بے زر خریدہ غلام تمھارا ہے۔ بہ خوشی و خاطر عیش کیجیے۔ ان شاء اللہ کچھ خطرہ نہ ہو گا اور اگر یہ دَلّالہ محتالہ میرے ہاتھ سے سلامت جاتی تو البتہ جائے تاسُّف اور باعث خلل کا ہوتا اور اس وقت جو راز سربستہ برملا نہ ہوا تو قیامت تک ہر گز معلوم نہ ہو گا۔ بارے تا مدت شش ماہ اس صاحب مروّت و مَعدنِ فتوت نے کوئی دقیقہ 561 از دقائق مہمانداری و دلجوئی سے فروگزاشت نہ کیا۔ ایک روز یہ فقیر بیچ یاد وطن اور والدین کے دلگیر تھا، جوان نے عرض کیا کہ اگر تمام عمر خود بدولت اقبال اور ملکہ صاھب جمال تشریف ارزانی رکھ کر کلبۂ احزان اس ناتواں کے تئیں رونق افروز بہ وجود فایض الجود کے رکھیں تو بندہ سعادت دارین اور فخر اپنا جان کر ایک ساعت فرمانبرداری سے غافل و عاطل 562 (الف) نہ ہو گا اور اگر مزاج مبارک دل برداشتہ ہوا تو حسب الارشاد جس جا پر حکم ہو بہ فضلِ الہی سالِماً و غانماً 562 (ب) رکاب سعادت میں جلو داری کر کے پہنچا دے اور تو کس لایق ہے۔ تب میں نے زبان بیچ تعریف اس مرد صاحب درد کے کھولی اور کہا قدرت خدا کی معمور ہے اور اس جہاں آفریں نے تجھ سے شخص صاحب مُروت و فتوت کے تئیں پیدا کیا ؎

آفریں باد بر ایں ہمت مردانۂ تو

تیری خوبی اور خوش خلقی نے اس قدر مرہون منت بے شمار کیا ہے کہ عہدہ برآئی معلوم۔ حق تعالیٰ بہ ایں جوانمردی و غور رسی سلامت رکھے، لیکن ارادہ فقیر کا وطن مالوفہ کو ہے کہ بہ ارادۂ شکار دولت خانہ سے برآمد ہوا تھا اور میں آپ شکار غزالہ نیلی چشم کا ہوا ہوں، مدتِ مَدِید و عَہد بعید گزرا ہے کہ خبر میری والدین مخدوم نشاتین 563 کو نہیں پہونچی، واللہ اعلم احوال انھوں کا کیوں کر ہو۔ تب اس نوجوان، بہزاد خاں نے ایک راس اسپ تیز رفتار واسطے سواری میری کے اور ایک مادیان 564 باد رفتار، صاحب جان و رواں و دواں واسطے
----------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 173 نوطرزِ مرصّع صفہ 176

ملکہ کے منگوا کر آپ گلگوں صبا رفتار اپنے پر سوار ہوا اور اسباب جنگ کا اوپر اپنے آراستہ کر اور مجھ کو اور ملکہ کو آگے کر، فاتحہ پڑھ کے مُعتصِم بہ عُروۃُ الوُثقائے فضل الہی کا ہو کے روانہ ہوا۔ اوپر دروازہ شہر پناہ کے پہنچ کر ایک نعری مہیب مارا اور قفل دروازہ کا توڑا اور دربانان و چوکیداران بادشاہی کو بہ زجر و توبیخ پیش آ کے للکارا کہ جا کے اپنے آقا سے کہو کہ بہزاد خاں ملکہ مہر نگار اور شہزادہ بختیار کو کہ خوش دل ریش تمھارا ہے مردانہ وار بر باد پائے تیز رفتار سوار مستعد کار زار لیے جاتا ہے اور یہ شعر عرض کرو:

فرد
اگر جنگ جوئی بہ میداں در آئے
زما ہر کرا ملک بخشد خدائے

و اِلّا خوش رہ۔ مُلا زمان بادشاہی نے ورطۂ حیرت میں مستغرق ہو کر یہ عرض بیچ حضور باریابان بِشاط فیض مناط کے پہنچائی۔ بادشاہ از روئے غضب کے نہایت برہم ہوا وزیر اور میر بخشی کو حکم فرمایا کہ اس بدبخت کو ساتھ ان دونوں بے حیا کے اسیر دستگیر کر کے لے آؤ۔ چنانچہ ہر دو رکن السلطنت العالیہ کے با فوج نمایا فی الفور سوار ہوئے اور باہر میدان میں آئے تب بہزاد خاں رستم تواں نے ملکہ اور شاہزادہ کو زیر دیوار ایک پل کے کہ بارہ پلے سے کم نہ تھا کھڑا کیا اور مرکب تازی نژاد و جنوں نہاد کو گرم کر کے فوج میں مانند گرگ 565 دَر رَمہ 566 کے آ بیٹھا۔ دونوں سرداروں کو بہ ضرب تیغ آبدار عَلف 567 دار، بَدار 568 البوار پہنچایا اور تمام فوج نے شکست پائی۔ سننے اس خبر وحشت اثر اس حادثہ کے سے بادشاہ مضطرف ہو کر آپ با دلاوران صاحب شجاعت رو بہ میدان لایا۔ بہزاد خاں کمال تہور و دلاوری سے اس فوج پر بھی فتحیاب ہوا بقول آنکہ ع

یہ فتح داد حق ہے جسے دیوے کردگار

وہاں سے بہ دلجمعی تمام مع ملکہ و شاہزادہ ذوی الاحتشام کے روانہ ہوا۔
------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 174 نوطرزِ مرصّع صفہ 177

پس بہ عاصی بعد انقضائے چند مدت کے بیچ ولایت والد اپنے کے پہنچا اور عرضی کی، بیچ خدمت پدر بزرگوار و بادشاہ عالی مقدار کے ازروئے کمال اشتیاق قدمبوس کے ارسال کی۔ وہ گردوں جناب خورشید آفتاب 569 بہ استماع خبر فرحت اثر آمد آمد فرزند دلبند جگر پیوند سوار ہو کر واسطے استقبال کے باچندے خواص و مردم شاگرد 570 پیشہ اوپر کنارے دریا کے کہ درمیان جانبین واقع تھا، رونق افروز ہوا اور میں نے ازراہ کمال اشتیاق قدمبوسی کے گھوڑا بیچ دریا کے ڈال کر اپنے تئیں بیچ حضور پر نور حضرت قبلہ و کعبہ خداوند نعمت کے پہونچایا اور سعادت قدمبوسی حاصل کیا۔ جس گھوڑے پر میں سوار تھا وہ گھوڑا کُرہ 571 مادیان سواری ملکہ کا تھا۔ اس گھوڑی نے بچے اپنے کو دیکھ کر اپنے تئیں بیچ دریا کے ڈالا۔ بادشاہزادی بےقرار بلکہ قریب ہلاکت کے ہوئی۔ بہزاد خاں واسطے استخلاص 572 ملکہ کے، پیچھے سے دریا میں پہنچا۔ چنانچہ از گردش فلکی ملکہ اور بہزاد خاں دونوں شخص، مستغرق دریائے رحمت الہی کے ہوئے۔ بادشاہ نے جتنا کہ جال ڈلوایا اور ملاحوں کے تئیں تاکید کی، کچھ نشان نہ پایا۔ ناچار فقیر خدمت والدین کے سے دل گیر بہ حالت گَدایاں دشتِ جنوں کا ہوا اور اسی پہاڑ گذر گاہ عاشقاں پر پہونچ کے چاہا کہ اپنے تئیں ضائع کروں کہ اس پیر صاحب رائے روشن ضمیر نے فرمایا کہ دونوں شخص ملکہ و بہزاد زندہ ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ بہ خوشی ملاقات ہو گی، خاطر کو جمع رکھ۔ بہ موجب ارشاد ہدایت بنیاد اس پاک نہاد کے بیچ خدمت تمھاری کے آ پہونچا ہوں اور امیدوار دیدار سَراسَر انوار ملکہ اور بہزاد خاں کا ہوں۔ احوال کثیر الاختلال فقیر کا یہ ہے کہ گزارش کیا۔
جس وقت درویش سویم حقیقت احوال پُر اختلال نہایت قیل و قال سے گزارش کر چکا، سفید صبح کا کنارے افق کے سے منتشر ہوا اور مؤذن سحر خیز جامع مسجد کی نے، بانگ نماز بآواز بلند کی اور آوازہ نقارۂ دولت سرائے خدیو آفاق کے سے سامع افروز ہوئی۔ سلطان درویش عنوان خداداں نے زیر چار دیواری مقبرہ مُنورہ مُعنبر و معطرہ کے سے اٹھ کر قصد
------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 175 نوطرزِ مرصّع صفہ 178

دولت خانہ مبارک کا کیا اور کہا ؎

عشق کے نور سے روشن ہوا سینہ میرا
ید بیضا ہوا اب دل کا نگینہ میرا
عشق کے غم کی ہوئی جب ستی گرمی مجھ میں
عطر عنبر کا ہوا تب سے پسینہ میرا

اور جلدی سے مانند ماہ کے سریع السّیر ہو کر بیچ شاہ بُرج کے گیا اور تبدیل لباس فقیر کا کر کے خلوت فاخرہ، سلطنت کے تئیں زیب قامت کا کیا اور مانند آفتاب جہاں تاب کے برآمد ہو کے اُمراء وُذرا و ارکان دولت و اَعیان مملکت کو بہ نور جمال اپنے کے روشن و منور کیا۔ چنانچہ ہر ایک آداب و تسلیمات و کورنشات بجا لا کے اپنے اپنے پائے پر قائم ہوئے اور بادشاہ نے کسکچوں 573 سے فرمایا کہ شَرق رَویہ بیچ قبرستان کے فلانے مقبرہ میں چار درویش بہ منزہ اربعہ عناصر کے متفق اللفظ و والمعنی ہو کر مانند مصرع رباعی کے استقامت پذیر ہیں، ان سے جا کر اظہار اشتیاق ملاقات سراسر بہجت و نشاط و سر بسر مروت و انبساط میری کا کرو اور یہ شعر گزرانو ؎

نظر آتا ہے اشکِ گرم سے سیلاب آتش کا
کہیں کیونکر نہ میری آنکھ کو گرداب آتش کا
نہ نکلیں کیوں کے شعلے آہ کے، اب دل سے اے ظالم
کُھلا ہے آن کے دل پر، ہمارے باب آتش کا

چنانچہ ملازمان بادشاہی نے حسبُ الحکم اعلیٰ خاقانی حضرت ظِلِّ سُبحانی کے پیغام بادشاہ کیوان بارگارہ کا بیچ حضور موفور السرور درویشوں کے جا کر اظہار کیا اور ہر چہار فقیر روشن ضمیر استماع اس پیغام نیکو انجام کے سے متحیر و متعجب ہو کر روانہ جناب مقدس کے ہوئے۔ بادشاہ نے دیکھنا جمال فقیروں کا از جملہ مغتنمات 574 جان کر سلام علیک میں
-----------------------------------------------------------
 

محمد عمر

لائبریرین
256

کے بارے طبع مقدس جناب سالک مسالک طریقت و ناسک مناسک شریعت، قدوة العارفین وزُبدة الصالحین، حامی دین متین، چراغ ہدایت و شمع یقین، حضرت شیخ نظام الدّین قدس سرہ العزیز، بعارضہ علیل بودند، حضرت امیر خسرو دہلوی مدام ایں قصہ رازیب رقم فرمودہ بحضور پیر و مرشد خودی خواندے تا آنکہ حضرت موصوف غسل صحت فرمودند وایں دعامی نمودند کہ یا رب ہر کس کہ ایں قصہ رابخواند یا بشنو داز علت امراض نجات یابد"

اسی روایت کو میر امن نے باغ و بہار میں بھی قبول کیا ہے۔ اس عبارت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اصل قصہ امیر خسرو کی تالیف ہے اور مختصر دیباچہ کسی نے بعد میں اضافہ کر دیا، لیکن یہ محض من گھڑت ہے کیونکہ :

(۱) باوجود یکہ اس قصے کے ایک سے زیادہ متن موجود ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی زبان اور اسلوب بیان ایسا نہیں جسے امیر خسروؔ یا ان کے عہد کی طرف منسوب کیا جا سکے۔

(۲) چہار درویش کے جتن قلمی نسخے ملتے ہیں ان میں سے کوئی بارہویں صدی ہجری سے پہلے کا نہیں ہے نہ اس عہد سے پیشتر کوئی اہل قلم اس تالیف سے آشنا معلوم ہوتا ہے ۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں جہاں اپنے عہد کے مشہور افسانوں کا ذکر کیا ہے مثلا کلیلہ دمنہ نل دمن، رامائن، رزم نامہ اور قصہ امیر حمزہ وغیرہ ان میں چہار درویش کا کوئی ذکر نہیں۔

(۳) شیخ نظام الدین اولیاء کے حالات و مقالات و ملفوظات پر متعدد کتب اور رسائل موجود ہیں جو خود اسی عہد کے مشاہیر نے مرتب کیے ہیں ان ملفوظات و مؤلفات کے ذریعے تقریباً شیخ کی زندگی کے روزانہ حالات و واقعات پر اطلاع بہم پہنچ سکتی ہے لیکن ان کتابوں میں چہار درویش یا اس کے سبب تالیف کا کوئی ذکر نہیں۔

(۴) امیر خسرو کے حالات و تصنيفات بھی باتفصیل معلوم ہیں لیکن مؤرخین یا تذکرہ نگار کوئی اس نام کی تالیف کو ان سے منسوب نہیں کرتا۔

(۵) خلف شام کے اس مطبوعہ نسخے سے پہلے جتنے قدیم نسخے اس قصے کے ملتے ہیں


257

ان میں یہ امیر خسرو اور نظام الدین اولیا والی روایت نہیں ملتی۔

(۶) داخلی شواہد یہ ہیں:

(الف) فارسی کے اس نسخے میں موقع و محل کی مناسبت سے ایسے اشعار لائے گئے ہیں جو ان شعراء کے ہیں جو خسروؔ کے بعد گزرے ہیں۔ مثلاً خواجہ حافظؔ، نظیریؔ، فغانیؔ، عرفیؔ وغیرہ۔

(ب) "تومان" اور "اشرفی" مروج سکّے کی حیثیت سے جدید الاستعال اصطلاحیں ہیں۔ خسروؔ کے زمانے میں ان کا رواج نہ تھا۔

(ج) مختلف منصب داروں کے خطابات مثلاً قورچیان، وکیل السلطنت، خزانہ دار، امیر آخور وغیرہ ہندوستان میں مغلوں کی آمد کے بعد رواج پذیر ہوئے۔

(د) دوربین کا ذکر خواجہ سگ پرست کے قصے میں ملتا ہے، دوربین امیر خسروؔ کے زمانے میں کہاں؟ خود یورپ میں جو اس کا وطن ہے سترہویں صدی عیسوی میں رائج ہوئی۔

(ہ) متن کی بعض عبارتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف مذہب اثنا عشری رکھتا ہے لیکن امیر خسروؔ پکے سنّی تھے۔

ان دلائل سے ثابت ہو گیا کہ قصہ چار درویش امیر خسروؔ کی تصنیف نہیں ہے۔ تو پھر اب اس کا مؤلف کون ہے؟ ایک قدیمی قلمی نسخے کے مطالعے سے اس امر پر روشنی پڑے گی۔

اس قلمی نسخے کے مؤلف کا پورا نام حکیم مہمد على المخاطب بہ معصوم علی خاں ہے۔ وہ محمد شاہ بادشاہ (۱۱۳۱-۱۱۶۱ھ) کے عہد میں گزرا ہے۔ میر علی نے اپنے دیباچے میں لکھا ہے کہ ایک روز میں نے محمد شاہ بادشاہ کی خدمت میں کسی تقریب پر درویشوں کی ایک کہانی بہ زبان ہندی سنائی جسے اعلٰحضرت نے بہت پسند کیا اور حکم دیا کہ اسے ہندی عبارت سے فارسی زبان میں ترجمہ کر دو۔ تعمیل ارشاد عالی میں میں نے اسے فارسی زبان میں منتقل کر دیا۔ مصنف کی اصل زبان یہ ہے:

"دریں ایام کہ جہان و جہانیاں از ریزش سحاب عدل و کرم شاہنشاہی چوں روضۂ جنت و ساکنان فردوس خرم و مسرومی باشند و بندۂ درگاہ عرش اشتباہ ملائک پناہش غبار


258


آستان کیواں نشانش کحل الجواہر دیدۂ پر نورمی باشند یعنی حضرت خدیو جہا نکشائے عالمگیر اقلیم ستان جہانگیر و ملائک سپاہ، خلافت پناہ نور پیشانی صبح سعادت، دعائے جوشنِ بازوئے شجاعت ماحی اطوار جوردِ انتساف، بانی آثار عدل و انصاف، فرازندۂ تخت و تاج، معالج روزگار علیل مزاج، مسمی حضرت ختمی پناہ ظل اللہ طرزندۂ اورنگ جہاں بانی، حضرت صاحبقران ثانی، محمد شاہ دام دولتہ و قام بقابہ الی یوم القیام۔ اما بعد روزے ایں غلام مستہام در محفل اقدس و مجلس مقدس خسروِ گروں پناہ حاضر و پروانہ آسا براں شمع خورشید ناظر بود۔ بہ تقریبے حکایتے ازدل ریشاں و درویشاں و سرگزشتے از سرگزشتگان و قلندران بہ زبان ہندی بعرض ہمایوں رسانیدوآن حکایت مرغوب طبع و پسند خاطر مشکل پسند بادشاہ فیروز مند آمد۔ بہ ایں کمینہ حکیم محمد علی مخاطب بہ معصوم علی خاں فرمانِ فرماں فرمائے دل و جاں صادر شد کہ آں را از عبارت ہندی بہ زبان فارسی ترجمہ نماید، بناء علی ہذا اطاعت فرمان واجب الاذعان نمودہ آں حکایت را بالسطر بہ زبان عجمی نقل نمود۔"

حکیم میر علی نے اس قصہ کا کوئی نام نہیں رکھا تھا لیکن اس قلمی نسخے کے کاتب نے آخر

میں یہ عبارت لکھی ہے۔

"تمت حکایات عجیب و غریب بتاریخ ۱۴ شہر شوال ۱۵ محمد شاہی الراقمہ عبد الکریم۔"

ممکن ہے کہ ابتداء میں اس قصہ چہار درویش کا نام "حکایات عجیب و غریب" ہی رہا ہو۔۳

اس نسخے کی داستانوں کے اکثر مطالب اور دیگر خدوخال تو تقریباً وہی ہیں جو میر احمد خلف شاہ محمد کے مطبوعہ نسخے میں ملتے ہیں البتہ مطبوعہ متن کے مقابلے میں اس نسخے کی عبارت اکثر مختصر، سادہ اور عاری ہے۔ اس کی زبان میں وہ شگفتگی اور برجستگی نہیں ملتی جو مطبوعہ نسخے میں ہے اس میں حسن بیان کے بجائے واقعات کے بیان پر زیادہ توجہ صرف کی گئی ہے۔ داستانی واقعات کے سلسلے میں بعض موقعوں پر اس میں اور دوسری تالیف میں کسی قدر فرق ہے لیکن قصہ خواجہ سگ پرست میں یہ فرق بہت نمایاں ہو جاتا ہے۔ مثلاً

(۱) مطبوعہ نسخے میں دوسرے درویش کی کہانی کے بعد بادشاہ آزاد بخت، خواجہ سگ



259

پرست، کی کہانی شروع کرتا ہے، میر امنؔ نے "باغ و بہار" میں بھی اسی کا تتبع کیا

ہے۔ برخلاف اس کے محمد علی یہ کہانی تیسرے درویش کی کہانی کے بعد لاتا ہے۔ تحسینؔ نے

محمد علی ہی کی یہ ترتیب قائم رکھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تحسینؔ کے سامنے محمد علی ہی کا نسخہ تھا۔

(۲) خواجہ سگ پرست روم کی وزیر زادی کے ساتھ جو مردانہ بھیس میں تھی قسطنطنیہ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور شہر کے باہر خیمہ لگا کے شہر جاتا ہے۔ آزاد بخت کے دربار میں اس کی طلبی سے متعلق دونوں نسخوں میں فرق ہے۔ مطبوعہ نسخے کے مطابق شاہی قراول کی معرفت اس کی آمد کی اطلاع دربار میں پہنچتی ہے۔ محمد علی کا بیان ہے کہ خود دختر وزیر اپنی ماں کو ترغیب دیتی ہے کہ خواجہ بلایا جائے۔ یہی تحسین نے بھی لکھا ہے۔

(۳) خواجہ سگ پرست شہزادی فرنگ سے شادی کر کے ممالک فرنگ میں آباد اور شاہ بندر کے عہدے پر ممتاز ہے اور بھائیوں کو پنجروں میں قید کر چکا ہے۔ مطبوعہ نسخے میں اور اسی سے نقل کر کے باغ و بہار میں ذیلی کہانی کے طور پر ایک آذربائیجانی نوجوان کا قصہ درج ہے جو اپنے باپ کے ساتھ بغرض تجارت ہندوستان آتا ہے وہاں سے زیر بار اور زیر بار سے بہ ارادۂ دیار فرنگ سفر اختیار کرتا ہے۔ راستے میں طوفان آتا ہے، جہاز ڈوب جاتا ہے۔ یہ نوجوان تختے کے سہارے ایک دیار غیر میں جا نکلتا ہے۔ وہاں اس کی شادی ہوتی ہے، کچھ عرصہ بعد بیوی مر جاتی ہے اور یہ ایک قلعہ نما گورستان میں قید کر دیا جاتا ہے۔ وہاں کے وکیل السلطنت کا داماد مر جاتا ہے، اس کی لاش کے ساتھ اس وکیل کی لڑکی اسی گورستان میں لائی جاتی ہے، یہ نوجوان اسے اپنی بیوی بنا لیتا ہے اور آخر کار یہ دونوں بعد دشواری اس گورستان سے نکلتے ہیں اور طرح طرح کی مصیبتیں اٹھا کر خواجہ سگ پرست کے محل کے قریب پہنچتے ہیں۔ خواجہ دوربین سے ان کو آتا دیکھتا ہے۔ بلا کر اس کی رام کہانی سنتا ہے اور بڑی مہربانی سے پیش آتا ہے بلکہ جب اپنے مقید بھائیوں سمیت اپنے وطن نیشا پور روانہ ہوتا ہے تو اس آذربائیجانی نوجوان کو اپنی جگہ شاہ بندر کا منصب بادشاہ سے دلوا دیتا ہے۔


260

محمد علی کے نسخے میں اور اسی لیے "نو طرز مرصع" میں اس آذربائیجانی نوجوان کا کوئی ذکر نہیں، ان دونوں میں یہ قصہ درحقیقت خواجہ سگ پرست کی اپنی سرگزشت کا ایک جزو ہے جس میں خواجہ کا کتا بھی برابر کا شریک رہا ہے۔

(۴) اسی قسم کا ایک فرق خواجہ سگ پرست کی کہانی میں اس موقع پر ملتا ہے جب خواجہ کے بھائی خواجہ کو اپنا غلام ظاہر کر کے اس پر اپنے بھائی کے قتل کی تہمت لگاتے ہیں اور سوتومان حاکم کو رشوت دے کر پھانسی کا حکم حاصل کر لیتے ہیں۔ مطبوعہ نسخے کے متن کے مطابق خواجہ عین اس وقت جب کہ اسے پھانسی دی جانے والی تھی چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ وہاں کے حاکم کے درد قولنج اٹھا تھا اس لیے حکم ہو گیا تھا کہ قیدی رہا کیے جائیں لیکن خواجہ کے بھائی پھر حاکم کو رشوت دے کر خواجہ کو زندان سلیمان میں ڈلوا دیتے ہیں۔ یہ تیرۂ تار کنواں ایک صحرا میں تھا جس میں پڑ کر آدمی بھوک پیاس سے مر جاتا تھا۔

میر محمد علی کے نسخے میں یہ فرق ہے کہ خواجہ پھانسی کے تختے سے چھوٹ کر شہر سے باہر نکل جاتا ہے، ایک گاؤں میں پہنچتا ہے، وہاں ایک فقیر ملتا ہے جو اس کی سرگزشت سن کر اسے کچھ رقم دیتا ہے تا کہ خواجہ اس سے تجارت کر سکے، خواب کو اس رقم سے تجارت کرنے میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ وہ مالا مال ہو جاتا ہے اور چالیس غلام اس کی خدمت میں رہنے لگتے ہیں۔ پھر گاؤں جا کر اس فقیر کی کچھ خدمت کرنا چاہتا ہے لیکن فقیر منظور نہیں کرتا تو یہ رخصت لے کر شہر واپس جاتا ہے، وہاں اپنے دونوں بھائیوں کو چوری کی سزا میں ماخوذ دیکھے کر انہیں چھڑا لاتا ہے۔ اس کے بھائی چند دن بعد اسے پھر دھوکا دیتے ہیں یعنی ایک سفر کے دوران میں وہ دونوں بھائی حیلے سے اسے ایک کنویں میں دھکیل دیتے ہیں جسے چاہ سلیمان کہتے تھے۔

یہ چند مثالیں ہیں۔ اس قسم کے جزوی اختلاف تلاش سے اور نکل آئیں گے۔ عموماً یہ اختلافات اس قسم کے ہیں کہ یا تو پیرایہ بیان کو پھیلا دیا گیا ہے، یا عبارت میں اصلاح دے دی گئی ہے، چست فقرے بڑھا دیے گئے ہیں، یا مختصر عبارت کو بعض باتیں بڑھا کر


261

جو نفس قصہ پر اثر انداز نہیں ہوتیں طول دے دیا گیا ہے، یا بیان واقعہ میں آراستگی اور زمین کی خاطر کچھ تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ کہیں بیان غائب کو بہ صیغہ متکلم تبدیل کر دیا ہے۔ کہیں شخصوں اور شہروں کے نام بڑھا دیئے ہیں، مناسب موقع و محل پر اشعار داخل کر دیے ہیں۔ اس طور پر مطبوعہ نسخہ میر محمد علی والے اصل نسخے سے حجم میں دگنا ہو گیا ہے۔ پھر بھی محمدعلی کے اصل متن کے آثار طبع شدہ نسخے میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ مطبوعہ متن کا مؤلف محمد علی کے متن سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اسی کی عمارت پر اس نے اپنی عمارت کھڑی کی ہے، اس کے باوجود یہ عبارت وضع کرنا کہ امیر خسروؔ نے یہ قصہ اپنے پیر کی علالت کے موقع پر تصنیف کر کے سنایا تھا محض من گھڑت ہے اور کسی وقعت کا مستحق نہیں۔ محمد حسین عطا خاں مؤلف "نو طرز مرصع" بھی اس روایت سے بے خبر ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سب سے پہلے طبع شدہ فارسی نسخے سے شروع ہوئی اور میرا امنؔ نے اس سے نقل کیا۔ باغ و بہار کے بیان نے اس کو شہرت دے دی دراں حال کہ اس کی صحت کے حق میں کوئی دلیل بھی باوجود تلاش کے نہیں ملتی۔ مسلمانوں میں افسانوں کے متعلق ہر زمانے میں تعصب رہا ہے۔ علمائے کرام مخرب اخلاق قصوں کے ہمیشہ مخالف رہے، فسانۂ وامقؔ و عذرا اور ویسؔ ورامین اسی بنا پر ممنوع تھے، اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ امیر خسروؔ کو اس کا مصنف بنا کر اور نظام الدین اولیا سے تبریک دلوا کر مرتب قصہ نے اس کو مقبول عام بنانے کی غرض سے دروغ مصلحت آمیز والا حیلہ تراشا ہو۔ نیم مذہبی قصوں میں مصنفین، قاری و سامع کو ثواب دارین کی بشارت اکثر دیا کرتے ہیں۔


نو طرزِ مُرصَّع اور باغ و یہار


ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب نے اس مسئلہ پر بڑی تحقیق سے بحث کی ہے کہ باغ و بہار کا ماخذ کیا ہے اور اس صحیح نتیجے پر پہنچے ہیں کہ باغ و بہار کا ماخذ "نو طرز مرصع" ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر تعجب کیا ہے کہ "میر امنؔ نے فارسی کتاب اور اس کے ترجمے کا تو


262


ذکر کیا مگر "نو طرز مرصع" کا ذکر صاف اڑا گئے" معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو باغ و بہار کی ان پرانی اشاعتوں میں کا کوئی نسخہ نہیں مل سکا جو مدتوں سے کمیاب ہیں اور جن کے سرورق پر یہ عبارت ہے:

"باغ و بہار تالیف کیا ہوا میر امن دلی والے کا، ماخذ اس کا "نو طرز مرصع" کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خاں کا ہے فارسی قصہ چہار درویش سے۔"

اسی اشاعت میں ڈاکٹر گلکرائسٹ نے جو ایک دیباچہ بزبان انگریزی لکھا ہے اس میں لکھتے ہیں:

"عطا حسین خاں نے ابتداً اصل قاری سے اس کا ترجمہ شائع کیا مگر چونکہ اس کی زبان بوجہ کثرت تراکیب و محاورۂ فارسی و عربی مغلق اور قابل اعتراض مانی گئی تھی اس لیے اس نقص کو رفع کرنے کی غرض سے کالج کے ملازمین میں سے میر امنؔ دہلوی نے مذکورہ بالا تر جمہ سے موجود متن تیار کیا ہے۔"

اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ میر امنؔ نے "باغ و بہار" لکھتے وقت "نو طرز مرصع" ہی کو سامنے رکھا ہے۔ بعد کو دیگر ہندستانی ناثرین نے جب اس باغ و بہار کو چھاپا تو سر ورق کی یہ عبارت اڑا دی اس لیے مولوی صاحب موصوف کو یہ صحیح غلط فہمی پیدا ہوئی۔

لیکن ایک بات اور بھی ہے کہ میر امنؔ نے صرف تحسین کی "نو طرز مرصع" ہی کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ مطبوعہ فارسی نسخہ "چہار درویش" مصنفہ میر احمد خلف شاہ محمد کو بھی پیش نظر رکھا ہے کیونکہ باغ و بہار میں قصہ کے اجزا کی جو ترتیب ہے وہ اسی فارسی نسخے کے مطابق ہے البتہ کہانی کہنے کا ڈھنگ اور عبارت "نو طرز مرصع" ہی کی سامنے رکھی ہے۔ صرف اپنی ٹھیٹھ ہندستانی زبان میں اس کا ترجمہ کر دیا ہے۔ اشعار اور دوہے تک اکثر اس سے نقل کیے ہیں۔ پیش نظر "نو طرز مرصع" کے نسخے میں ہندی کے دوہے پانچ ہیں۔ باغ و بہار میں تین۔ ان تین میں سے دونو طرز مرصع ہی سے لیے گئے ہیں۔ بر خلاف میر امنؔ کے تحسین نے اپنے قصہ کی جزئیات میر علی کے غیر مطبوعہ نسخہ سے فارسی سے لی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ


263


تحسین کے سامنے میر احمد خلف شاہ محمر والا نسخہ کبھی آیا ہی نہیں۔ اس لیے اس میں امیر خسروؔ والی روایت کا پتہ بھی نہیں ہے۔ میر احمد کے فارسی نسخے نے بعد میں طبع ہو کر رواج پایا قصہ کی جزئیات کے سلسلے میں "باغ و بہار" اور "نو طرز مرصع" میں وہی اختلافات ہیں جو میر محمد علی اور میر احمد خالف شاھ محمد والے فارسی نسخوں میں ملتے ہیں اور جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، اس لیے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ میر امنؔ نے قصہ کی دروبست فارسی والے نسخے سے اخذ کیا ہے اور عبارت میں "نو طرز مرصع" ہی کو پیش نظر رکھا ہے۔


نو طرز مرصع کا اسلوب بیان


نو طرز مرصع جس زمانے میں لکھی گئی یعنی آخر اٹھارویں صدی عیسوی میں اس وقت زبان و بیان کا معیار فارسی انشا پردازی کے تتبع میں یہی تھا کہ عبارت میں تکلف و تصنع بہت ہو۔ سیدھی سی بات بھی تشبیہ و استعارے کے پردے میں کہی جاتی تھی، رعایت لفظی کا بہت خیال رکھا جا تھا اور صنائع لفظی و معنوی کا التزام خاص طور سے کیا جاتا تھا۔ کسی کے معائب یا محاسن بیان کرنا ہوتے تو وہاں بھی مبالغہ غلو کی حد تک پہنچ جاتا تھا، عبارت آرائی کی خاطر ذرا سی بات کو بے جا طول دیا جاتا تھا۔ غرض کہ یہ تمام لوازم اس زمانے کی انشا پردازی کا معیار تھے جو انشا پرداز ان خوبیوں کے ساتھ عبارت نہ لکھ سکتا انشا پرداز اور ادیب نہ سمجھا جاتا تھا, منشی محمد حسین عطا خاں تو منشی کے عہدے پر فائز تھے یعنی ان کو اس قسم کی ملازمت اسی لیے ملتی تھی کہ وہ اس قسم کے انشا پرداز تھے کیونکہ اس قسم کی عبارت نویسی میں امتیاز نہ رکھتے۔ "مرصع رقم" کا خطاب تو یقیناً ان کی خوش خطی کے باعث انہیں ملا تھا لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کی مرصع انشا پردازی نے بھی ان کے خطاب کو خوب اجاگر کیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ داستان انہوں نے بادشاہ کی فرمائش پر مکمل کی تھی ناممکن تھا کہ وہ اس تحریر میں ایسی انشا پرداری سے کام نہ لیتے جو اس عہد کے بادشاہوں کی سماعت کے لیے شایانِ شان ہو۔ معمولی سیدھی سادی عبارت لکھنا تو بہت ہی حقیر بات سمجھی جاتی تھی۔ اس عہد کے تمام تمدن پر تصنع چھایا ہوا تھا تو پھر اس عہد کے ادیوں کے اسلوب میں یہی طرز


264


کیوں کر نہ رچ جاتا، غرض کہ "نو طرز مرصع" میں یہی سطحی اور مصنوعی مرصع کاری ہر جگہ ملتی ہے۔ نواب شجاع الدولہ کا ذکر کیا ہے تو آٹھ نو سطروں میں توصیفی الفاظ لکھے ہیں پھر ان کا نام لیا ہے۔ جہاں داستان شروع کرتے ہیں وہاں عبارت آرائی کے جوہر ضرور دکھاتے ہیں:

"بیچ سرزمین فردوسی آئین ولایت روم کے ایک بادشاہ تھا، سلیمان قدر فریدوں فر، جہاں باں، دیں پرور، رعیت نواز ، عدالت گستر، بجا آرندۂ حاجات بستہ کاراں، بخشندۂ مراعات امیدواراں، فرخندہ سیر نام کہ اشعہ شوارق فضل ربانی کا اور شعشہ بوارق فیض سبحانی کا ہمیشہ اوپر لوح پیشانی اس کے لمعاں و نور افشاں رہتا۔"

يا: "چنانچہ رفیق اول نے غزال رعنائے اس داستان ندرت بیان و واردات احوال صدق مقال اپنے کے تئیں بیچ چراگاہ مجلس کے یوں جولاں گر عرصۂ تقریر کا کیا"

يا: "ورویش چہارم نے زار زار مانند ابر بہار رو کے حقیقت حال حیرت اشتمال اپنے کے تئیں قلم بیان سے اوپر صفحۂ بیان کے یوں نگارش کیا۔"

صبح و شام کی کیفیت کو ترصیع کے ساتھ پیش کرنے کا طریقہ قدیم روش داستان گوئی کا ایک مرغوب انداز تھا، تحسین نے بھی قدیم فارسی انشا پردازی کا تتبع اس باب میں خوب کیا ہے اور ہر موقعے پر انہوں نے بھی نئے استعارے اور نئی تشبیہیں لانے کی کوشش کی ہے۔

"جب طائر زریں بال آفتاب کے نے رُخ پیچ آشیانۂ مغرب کے کیا اور بیضۂ سیمیں ماہتاب کا بطن مرغ مشکیں شب تار کے سے نمودار ہوا۔"

يا "روز چہارم جس وقت وقت مغیچۂ مخمور خورشید کا خم خانۂ مشرق کے سے گلابی صبح کی ہاتھ میں لے کر واسطے شکست خمار کے طرف ساغر گل کے کہ شراب صبوحی شبنم کی سے پُر تھا، متوجہ ہوا۔"

قاری انشاء پردازی کا تتبع اس سے بھی ظاہر ہے کہ جگہ جگہ فارسی حروف ربط، در، بر، اور درمیان وغیرہ کے ترجمے 'پیچھے'، بیچ، کے تئیں، اوپر، اندر، لائے ہیں، اضافت کو ظاہر کرنے کے لیے 'کا'، 'کے سے'، 'کے نے' وغیرہ کا استعمال کیے ہیں تا کہ جملوں کی ترکیب وہی فارسی کی انشاء کے مطابق رہے۔ اٹھارہویں صدی میں عام طور سے یہی اسلوب رائج


265


تھا، شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین نے قرآن پاک کے جو ترجمے کیے ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہیں اور گریرسنؔ نے اسی قسم کے انداز بیان کو پیش نظر رکھ کر اپنی مشہور کتاب "جائزۂ لسانیات ہند LINGUISTIC SURVEY OF INDIA" کی جلد نہم حصہ اول صفحہ ۵۲ پر ہندی اور اردو کی قواعد کا فرق اس طرح بتایا ہے کہ اردو جملوں میں اکثر و بیشتر فارسی اور عربی جملوں اور ترتیب کلمات کی طرح افعال جملے کے وسط میں لائے جاتے ہیں برخلاف اس کے ہندی کے جملوں میں افعال ہمیشہ آخر میں لائے جاتے ہیں (ان خاص صورتوں کے سوا جب کسی امر خاص پر زور دینا ہو) اس میں شک نہیں کہ اٹھارویں صدی اور اس سے پہلے کی ہندی اور اردو تحریروں میں یہ فرق ضرور ملتا ہے لیکن جس زمانے میں گرپرسنؔ نے اپنا جائزہ ترتیب دیا ہے اس وقت یہ صورت بہت شاذ ہی رہ گئی تھی۔

"نو طرز مرصع" میں پرانے الفاظ جو (بمعنی چونکہ) سیتی (سے) ٹک، تلک، کتیں (کے تھیں) کہوں (کہیں) کسو، کے علاوہ کہیں کہیں افعال کی پرانی ترکیبیں بھی ملتی ہیں مثلا "گزرانیں" کے بجائے "گزرانیاں"، 'کریں ہیں' بجائے 'کی ہیں' ہیں املا بھی قدیم بے مثلاً نیں (نے)، توں (تو)، توڑناں (توڑنا)، اتناں (اتنا)، دھاں (واں) وغیرہ۔

بعض الفاظ کے تلفظ میں بھی آج کل کے تلفظ سے فرق ہے مثلاً گویا ، بروزن کہا، سنگار، بروزن دلدار وغیرہ۔ غرض کہ عبارت کی قدامت جگہ جگہ نمایاں ہے، البتہ بعد کے انہوں نے املا اپنی طرف سے درست کر دیا ہے اس لیے اکثر نسخوں میں وہ املا نہیں ملتا جو قدیم نسخوں میں ملتا ہے۔

اسلوب کے سلسلے میں آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ "نو طرز مرصع" کے ابتدائی حصے خصوصاً درویش اول کی کہانی میں تحسین نے عبارت آرائی کی کاوش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ تقریباً ہر صفحہ مزین اور مرصع نظر آتا ہے۔ جگہ جگہ تشبیہوں اور استعاروں کی رنگینی، پیجیدہ فقروں کی دقیق بندش، عربی و فارسی کے الفاظ کی بہتات اور صنائع و بدائع کے التزام سے نثر میں شاعری معلوم ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے داستان آگے بڑھتی ہے شہباز تخیل آسمان


266

سے زمین کی طرف مائل پرواز نظر آتا ہے یہاں تک کہ آخر میں گنجلک بہت کم ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو مصنف عجلت میں ہے کہ اپنی داستانیں ختم کر کے انہیں بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دے یا پھر آگے داستان کے واقعات مصنف کو اتنی مہلت نہیں دیتے کہ اس کا اشہب فکر کہیں ٹھہر کر پہلے کی طرح اپنے کاوے دکھا سکے۔

جگہ جگہ تحسین نے اپنے زمانے کے مشہور شعراء کے منتخب کلام سے بھی اپنی عبارتوں کو زینت دی ہے بلکہ بسا اوقات تو مواقعے پیدا کیے ہیں تا کہ ان اشعار کی کھپت وہاں ہو سکے۔ اپنے اشعار بھی موقع موقع سے درج کیے ہیں نیز اپنے عہد کے مشہور ہندی دوہے بھی پیش کیے ہیں، اگر اس بات کی تحقیق کرنا ہو کہ اس عہد میں کون کون سے شعراء مقبول تھے یا کون کون اشعار لوگوں میں معروف مروج تھے تو تحسین کی اس تصنیف سے یقیناً مدد ملے گی۔ شروع میں سوداؔ اور بعد کی کہانیوں میں حسرتؔ کے اشعار زیادہ ملتے ہیں۔

الغرض تصنیف اپنے اسلوب کے اعتبار سے ان ہندوستانی فارسی کے ادیبوں کی یاد تازہ کرتی ہے جن کی کتابیں سہ نثر ظہوری، مینا بازار، شبنم شاداب، پنج رقعہ، بہار دانش وغیرہ، آخرِ عہدِ مغلیہ میں فارسی انشا پردازی کی سنگ میل سمجھی جاتی تھیں۔

"نو طرز مرصع" کی داستانوں کے متعلق کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں دے اس لیے کہ تحسین کی جدت طبع کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ عہد محمد شاہ یا اس کے پہلے کے مؤلفین کی رہین منت ہیں۔ پیچ در پیچ واقعات، افسانے میں افسانہ، دیووں، پریوں، جنوں اور طلسمات کی مافوق الفطرت فضاء دکھانا اس عہد کی داستانوں کی عام روش تھی، سننے والا صرف اس میں محو رہتا تھا کہ "آگے پھر کیا ہو گا؟" اس زمانے کے لوگوں کا عقیدہ مافوق الفطرت عناصر میں اس قدر راسخ تھا کہ ان کی قوت تنقيد اس قسم کے قصوں کی لغویت کی طرف مائل ہی نہ ہوتی تھی، داستان گو کا فن محض اس ہنر میں صرف ہوتا تھا کہ وہ سننے والوں کی توجہ کو اپنی قوت بیان سے قائم رکھ سکے۔ بیچ بیچ میں مناسب عبارت آرائی اور شعر و شاعری کا چٹخارہ دیتا رہے۔ واقعات سے قصہ کی کڑیاں ملاتا جائے اور حسن و عشق کے رمزیہ چھینٹوں سے محفل


267

گرم رکھے تا آنکہ داستان رات بھر میں ختم ہو جائے۔ داستان گوئی کوئی معمولی فن نہ تھا۔ ایک طرح کی سحر آفرینی ہوتی تھی جس کے اثر سے سامعین خود فراموشی کی حد تک مسحور ہو جاتے تھے اور بسا اوقات تو محض نیند لانے کے لیے ہی اسی قسم کی داستانیں سنائی جاتی تھیں، امراء، رؤساء اور بادشاہوں کے ہاں پیشہ ور داستان گو اسی کام کے لیے ملازم رکھے جاتے تھے کہ وہ شب کو اپنی داستانوں کے ذریعے ان کے دماغ کو افکار دنیوی سے دور، افسانوں کی دنیا میں لے جا کر میٹھی نیند سلا دیں۔ تحسین نے داستانیں تو گڑھیں نہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ انہوں نے اپنی انشا پردازی سے چہار درویش کی داستانوں کو اجاگر کر کے فن داستان گوئی کا حق اس زمانے کے معیار کے مطابق پورا پورا ادا کر دیا ہے اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ تحسین نے اس تالیف کی بدولت نثر نویسی میں ایک نیا معیار قائم کر دیا تھا۔ اس لحاظ سے "نو طرز مرصع" کی قدر و قیمت تاریخی، لسانی اور ادبی حیثیتوں سے تاریخ ادبيات اردو میں ہمیشہ مسلم رہے گی۔




268


نو طرز مرصع


ڈاکٹر جمیل جالبی


"نو طرز مرصع" اس دور کی ایک اور قابل ذکر تصنیف ہے جس میں قاری انشا پردازی کی روایت کو داستان نویسی میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے مصنف میر محمد حسین عطا خاں تحسین، مرصع رقم خاں جن کا خطاب تھا، ضلع اٹاوہ کے ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد محمد باقر شوق فارسی کے صاحب دیوان شاعر، خوش نویسی میں بے مثال و نستعلیق آمیز شکتہ کے موجد تھے۔ تحسین نے اعجاز رقم خاں کی تعلیم و تربیت سے فن خوش نویسی و انشا پردازی میں کمال حاصل کیا۔ امر اللہ الہ آبادی نے لکھا ہے کہ یہ گردیزی سید تھے اور ان کے بزرگ بابر بادشاہ کے زمانے میں گردیز سے ہندوستان آئے اور کٹرہ مانک پور میں قیام کیا لیکن تحسین کے والد بچپن ہی میں دہلی آ گئے اور اورنگ زیب کے زمانے حکومت میں سہ ہزاری منصب و جاگیر سے سرفراز ہوئے۔ تحسین انقلاب زمانہ کے باعث دہلی سے نکل کر مدت تک ناظمیان بنگال کی خدمت میں رہے اور انگریزی حکومت کے ابتدائی دور میں کمپنی کے ہندوستانی ملازمین میں شامل ہو گئے۔ تحسین کو فارسی زبان پر پوری


269


قدرت حاصل تھی۔ سوانح قاسمی، انشائے تحسین اور ضوابطِ انگریزی ان کی فارسی تصانیف ہیں۔ تحسین نے خود لکھا ہے کہ انھیں شروع ہی سے قصے اور افسانوں کا شوق تھا اور مزاج اپنے کے تئیں اور شوق مطالعہ قصہ ہائے رنگین اور لکھنے افسانہ ہائے شیریں کے از بس مصروف رکھتا تھا۔ لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں بھی بے مثال تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں وہ کلکتہ میں رہے لیکن جب جنرل اسمتھ ۱۷۶۹ میں انگلستان جانے لگا تو تحسین کو "بعضے خدمات عمدہ اور مختاری مقدمات نظامت" پر صوبہ عظیم آباد میں متعین کر دیا، لیکن 'مختار معاملہ' سے اختلافات کی وجہ سے وہ ملازمت چھوڑ کر فیض آباد آ گئے۔ 'عماد السعادت' کے مطابق تحسین ۱۷۷۰-۷۱ میں فیض آباد میں موجود تھے اور شجاع الدولہ کا خريطہ کینٹین ہارپر کو پڑھ کر سنایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ کم و بیش ڈیڑھ سال عظیم آباد میں رہے۔

"نو طرز مرصع" لکھنے کا خیال، جس کا اصل نام "انشائے نو طرز مرصع" ہے، تحسین کو اس وقت آیا جب وہ جنرل اسمتھ کے ساتھ کشیی کے ذریعے کلکتے جا رہے تھے۔ تحسین نے اپنے دیباچے میں خود لکھا ہے کہ سفر طویل تھا اس لیے ایک 'عزیز سراپا تمیز' حکایات عجیب و غریب سے دل بہلاتے تھے۔ ایک دن اسی 'عزیز' نے دوران سفر قصہ چہار درویش بھی تحسین کو سنایا اور اسے سن کر ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مضمون اک داستان بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارت رنگین زبان ہندی کے لکھا چاہیے کیونکہ آگے سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہیں ہوا اور یہ کہ جو کوئی حوصلہ سیکھنے زبان اردوئے معلی کا رکھتا ہو، مطالعہ اس گلدستہ بہاریں کے سے ہوش و شعور فحوائے کلام کا حاصل کر لے۔ تحسین نے یہ بھی لکھا ہے کہ، چنانچہ چند فقرے، بیچ تفنن طبع کے، شروع داستان اول میں نوک ریز خامہ عجز نگار کے کیے۔ ڈاکٹر سید سجاد حسین مرحوم نے 'نو طرز مرصع' کے بارے میں انڈیا آفس کے مسودات و خطوط وغیرہ سے یہ معلومات فراہم کیں۔ جنرل اسمتھ یکم جنوری ۱۷۶۸ سے ۱۹ ستمبر ۱۷۶۸ تک الہ آباد، پٹنہ اور کلکتہ آتا جاتا رہا۔ اس سفر میں تحسین اس کے ساتھ تھے اور نو طرز مرصع کا ابتدائی حصہ ۱۷۶۸ کے اوائل اور ۱۷۶۹ کے درمیان (جب جزل اسمتھ


270

انگلستان چلا گیا) لکھا گیا۔ اسمتھ کے جانے کے بعد عظیم آباد میں تحسین سرکاری خدمات کی وجہ سے اتنے مصروف ہوئے کہ انشا پردازی کا دماغ نہ رہا اور جب اس ملازمت سے الگ ہو کر فیض آباد آئے تو اس داستان کو لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ اسی زمانے میں نواب شجاع الدولہ تک ان کی رسائی ہوئی اور دو چار فقرے اس داستان کے کہ اول ذکر اس کا بیان کر گیا ہوں، بیچ سمع مبارک حضرت ولی نعمت کے پہنچائے۔۔۔ توجہ دل سے مقبول خاطر و منظور نظر اشرف کے کر کے ارشاد فرمایا کہ از سر تا پا اس محبوب دل پسندیدہ دلہا کے تئیں زیور عبارت سے آراستہ کر۔ نواب شجاع الدولہ کے ارشاد پر تحسین نے اس داستان کو لکھا لیکن ابھی وہ اسے مکمل کر کے نواب شجاع الدولہ کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ۲۹ جنوری ۱۷۷۵ کو نواب کا انتقال ہو گیا۔ جب غموں کی آندھیاں اتر گئیں اور نواب آصف الدول داد عیش دینے لگے تو انھوں نے نو طرز مرصع کو ایک قصیدے کے ساتھ نواب آصف الدولہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس طرح کی داستان شجاع الدولہ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ۱۷۷۴ میں مکمل ہوئی۔

اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا تحسین نے نو طرز مرصع کے چاروں قصوں کو ۱۷۷۴ تک مکمل کر لیا تھا یا باقی حصے بعد میں تحسین نے یا کسی اور نے مکمل کیے؟ اس سلسلے میں شعبۂ فارسی لکھنو یونیورسٹی کے قلمی نسخے کے ترقیمے کے یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں "میر محمد حسین عطا خان نے ایک قصہ لکھا تھا کہ وفات پا گئے۔ باقی ماندہ تین بھی اسی قدر تھے۔" اس ترقیمے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تحسین نے نواب شجاع الدولہ کی وفات سے پہلے نو طرز مرصع کا ایک قصہ لکھا تھا جس کا ثبوت ان مخطوطات سے بھی ملتا ہے جن میں صرف پہلے درویش کی داستان ملتی ہے، مثلاً انجمن ترقی اردو کراچی کا مخطوطہ بھی پہلے درویش کی داستان پر ختم ہو جاتا ہے۔ انڈیا آفس لندن کے نسخے میں (فہرست نمبر ۱۳۰) جو کرنل مٹکاف کے لیے لکھا گیا تھا، صرف پہلے درویش کی داستان ملتی ہے۔ اسی طرح انڈیا آفس لندن کے نسخہ نمبر ۱۳۱ میں، جو رچرڈ جانسن کے لیے لکھا گیا تھا۔ صرف پہلے درویش کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۳۲

فارسی ضرب الامثال، اقوال، اشعار اور گچارات
تشریح / وضاحت
بہ اعتبار صفحہ نمبر

۲۴
نہ پائے رفتن نہ روئے ماندن
نہ اُگلا جائے نہ نگلا جائے

۲۵
چناں نماندو چنیں نیز ہم نخواہد ماند
ویسا بھی نہیں رہا اور ایسا بھی نہیں رہے گا یعنی دنیا میں کسی حالت کو قرار نہیں، جب عیش و عشرت کے دن نہ رہے تو مصیبت کے دن بھی نہ رہیں گے۔

۲۵
چراغ مقبلاں ہرگز نمیرد
خوش نصیبوں کا چراغ کبھی گل نہیں ہوتا یعنی جب تک قسمت کسی کا ساتھ دیتی ہے اس وقت تک اس کے تمام کام بارونق رہتے ہیں۔

۵۶
زرکار کند و مرد لاف زند
روپیہ کام کرتا ہے اور آدمی ڈینگ مارتا ہے


صفحہ ۳۳۳

۵۸
حسن سبز، بخطسبز مرا کرد اسیر
دام ہم رنگ زمیں بود گرفتار شدم

میں سبزی کی خوبصورتی اور یک رنگی سے جال میں پھنسا کیونکہ زمین اور جال یکساں رنگ کے تھے۔

۵۸
چرا خود را اسیر غم زف کر بیش و کم داری
کہ نہ گزارد ترا محتاج ایزد تاکہ دمداری
مشوبے دست و پا از مفلسی و بے کسی ہرگز
مگر نشیندۂ بیدلؔ خدا داری چہ غم داری

کم و بیش کی فکر میں کیوں رہتے ہو وہ یعنی خدا تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھے گا۔ پریشانیوں میں مایوس مت ہونا کہ بیدل نے کہا تھا کہ خدا ہے تو سب کچھ ہے۔ یعنی جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے اسے کوئی فکر نہیں ہوتی۔

۶۰
آنچہ در بغداد است گرد سر خلیفہ
سارا بغداد خلیفہ کا محکوم ہے۔

۶۰
دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز
جس جھوٹ میں کوئی مصلحت شامل ہو وہ اس سچ سے اچھا ہے جس سے کوئی فساد اٹھ کھڑا ہو۔

۶۳
گوشت خر و دندان سگ
گدھے کا گوشت اور کتے کے دانت یعنی جیسی جنس ویسے خریدار۔ جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسے کو تیسا


صفحہ ۳۳۴

رفتن بہ ارادت و آمدن بہ اجازت
آنا اپنی مرضی سے جانا ہماری مرضی سے۔ اگرچہ یہ مثل اس طرح مشہور ہے :
آمدن بہ ارادت، رفتن بہ اجازت

۶۵
درمست و دیوار مست
نہایت سکون اور عیش ہونا

۶۹
ماراچہ از این قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت
مجھے اس کے کیا کہ کون آیا اور کون گیا۔ کسی معاملہ سے بے تعلقی ظاہر کرنے کےلیے یہ مصرع پڑھتے ہیں

۷۱
چون گوش روزہ دار بر اللہ اکبر است
جس طرح روزہ دار کے کان اللہ اکبر پر لگے ہوتے ہیں یعنی جس طرح روزہ دار مغرب کی اذان کا انتظار کرتا ہے۔ اس مصرع سے سخت انتظار کی حالت دکھانا مقصود ہے۔

۷۱
گل بے رخ یار خوش نہ باشد
بی بادہ ببار خوش نہ باشد

محبوب کے بغیر پھول بے کار ہے جیسے شراب کے بغیر بہار

۷۵
اختلاط پیش از آشنائی چہ معنی
پہلی ہی ملاقات میں سب نہیں ہو جاتا۔

۸۲
بایں شور اشوری وبایں بے نمکی
یا تو وہ جوش و خروش تھا یا اب بالکل ٹھنڈے پڑ گئے

۸۲
او خویشتن گم است کہ را رہبری کند
وہ خود بھٹکا ہوا ہے کسی کو راستہ کیا بتائے گا۔


صفحہ ۳۳۵

۸۳
قول مرداں جان دارد
مرد کا قول جان رکھتا ہے یعنی مرد جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں

۸۶
عشق و مشک را نتواں نبفتن
عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے

۸۹
از گرفتاری چشم است گرفتاری دل
سبب چشم بود موجب لا چاریٔ دل

دل کا راستہ نگاہوں سےہو کر جاتا ہے، دل کے مقید ہونے کی وجہ آنکھ ہے۔

۸۹
ناز برآں کن کہ خریدار تست
ناز اس سے کر جو تیرا خریدار ہو یعنی وہی شخص کسی کے ناز اٹھا سکتا ہے جس کے دل میں اس کی محبت یا عزت ہو۔

۹۳
سنگ آمد و سخت آمد
پتھر آیا اور بڑی زور سے آیا۔ یہ جملہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی ناگوار واقعہ ہو جاتا ہے یا کوئی سخت مصیبت آ پڑتی ہے۔

۹۴
گر بظاہر بہ کسی خلق نکو خواہی کرد
مشوح ہاما توچہ کردی کہ بہ او خواہی کرد

اگر دکھاوے کے لیے کسی سے نیکی کی تو یاد رکھو وہ بھی تمہارے ساتھ ویسا ہی کرے گا۔

۹۴
این زماں جائے تو در دیدۂ مردم شدہ است
روئے زیبائے تو از دیدہ ماگم شدہ است

آج کل تم لوگوں کی نگاہوں کا تارہ بن گئے ہو، ہماری آنکھوں کو تمہارا حسین چہرہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔


صفحہ ۳۳۶

تربیت نا اہل راچوں گرد گاں بر گنبد ست
نالائق کو تعلیم دینا گنبد پر اخروٹ رکھنا ہے جس طرح گنبد پر اخروٹ ٹھہر نہیں سکتا اسی طرح نااہل پر تعلیم کا اثر باقی نہیں رہ سکتا۔

۹۳
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
ہر چیز اپنی ہم جنس کی طرف رجوع کرتی ہے۔ اعلی اعلی کی طرف، ادنی ادنی کی طرف

۱۰۹
ہر چہ نصیب است بہ تومی رسد
قسمت کا لکھا مل کر رہے گا۔

۱۰۹
خنک آن کس کہ گوئے نیکی برد
جو شخص نیکی کرتا ہے اس کا شمار بھلے لوگوں میں ہوتا ہے۔

۱۱۳
عطائے تو، بہ لقائے تو
تیری دی ہوئی چیز تیرے منہ پر۔ اگر کوئی شخص کسی کو بہت بری چیز دے اور وہ اس دینے والے کے منہ پر کھینچ کر مارے تو یہ واقعہ بالکل اس فقرہ کے مطابق ہو گا مگر یہ فقرہ ایسے موقع پر بولا جا سکتا ہے جہاں کوئی شخص کسی کی دی ہوئی چیز نا خوشی کے ساتھ واپس کر دے۔

۱۱۲
می روم از در تو باز بہ تو رو نہ کنم
گردرت قبلہ شود سجدہ بہ آن سو نہ کم

تیرے در سے جانے کے بعد واپس نہ آؤں گا چاہے قبلہ بن جائے تب بھی۔

۱۱۲
خرقہ پوشی است خودنمائی نیست
عشق بازی است میرزائی نیست

خرقہ پوشی (تصوفانہ لباس) خودنمائی نہیں ہے۔ عشق ایک کھیل ہے میر و میرزا کا (ہوسناک) کام نہیں۔


صفحہ ۳۳۷

۱۱۵
مطلب مرد مسافر بہ جہاں دیدار است
ورنہ نعمائے الٰہی بہ جہاں بسیار است

مسافر دنیا کا مقصد دنیا کا دیدار ہے ورنہ خدا کی نعمتیں تو شمار بھی نہیں کی جا سکتی ہیں۔

۱۱۵
ماخود بہ گرد دامن مردی نمی رسیم
شاید کہ گرد دامن مردی بہ ما رسد

میں کسی کے دامن کی گرد تک نہ پہونچا مگر شاید اس کی گرد مجھ تک آ پہنچے۔

۱۱۶
دریا دلیم و دیدۂ ما معدن در است
گردست ما تہی است ولی چشم ما پرست

میرا ولی دریا اور میری آنکھ دروں کی کان گرچہ میرا ہاتھ خالی ہے مگر آنکھ پُر۔

۱۱۶
گیرم کہ سریرت از بلور و ریشم است
سنگش داند ہر آں کہ او را چشم است
این مسند قاقم و سمور سنجاب
دردیدہ بوریا نشیناں پشم است

مانتا ہوں اس کی آرام گاہ بہت خوبصورت ہے مگر اس کی بے اعتنائی، ہر اعتنا کرنے والے کو جانتی ہے یہ تخت و تاج زریں بوریا نشیں صوفیوں کی نگاہ میں بے قیمت ہیں۔

۱۱۶
خوش آمدی و خوش آمد مزار آمدنت
ہزار جان گرامی فدائے ہر قدمت

آپ کا مزار آنا آپ کو مبارک ہو اس سفر میں اٹھے ہر قدم پر ہزاروں جان فدا


صفحہ ۳۳۸

۱۱۷
ماتنک ظریفاں حریف این قدر سختی نہ ایم
دانۂ اشکم مارا گردش چشم آسیاست

ہم تنک مزاج لوگ سختی کے اتنے دشمن نہیں، ہماری آنسوؤں کا قطرہ، کائنات کی چشم کا تحرک ہے۔

۱۱۸
چام جہاں نما است ضمیر منیر دوست
شوق مشتاق، آرزو مشتاق، جان مشتاق تست
این چنیں ساماں کہ دارد غیر مشتاق شما
اظہار احتیاج در آنجا چہ حاجت است

میرے دوست کا روشن ضمیر جام جہاں نما ہے۔ یہ سارا سامان سوائے تیرے چاہنے والے کے کس کو میسر ہے۔ وہاں پر ضرورتوں کا اظہار لازمی نہیں ہے۔

۱۱۹
آرزو دارم کہ خاک آن قڈم
توتیائے چشم سازم دم بہ دم

میری آرزو ہے کہ اس کے پیروں کی خاک بن جاؤں تاکہ ہر لمحہ (اس مٹی کو) اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتا رہوں۔

۱۱۹
ما برتیم و تودانی و دل غم خورِ ما
بخت بد تا بہ کجا می بردِ آب و خور ما

ہم چلے گئے، تجھے معلوم ہے، اور ہمارا غم خوار دل بھی یہ جانتا ہے اور تو جانتا ہے۔ یہ میری قسمت کہ ہمارا آب و دانہ کہاں کہاں لے جائے، ہم کچھ نہیں جانتے۔


صفحہ ۳۳۹

۱۲۰
اے جواں بیاد بہ نشیں، خوش آمدی و صفا آوردی
بارے پیغام خواستگاری ملکہ ما کر دی

اے جوان آؤ بیٹھو، خوش آمدید، تم محبت اور پاکی لائے ہو، تم نے ہماری ملکہ سے شادی کا پیغام بھیجا ہے۔

۱۲۰
ایں خورد و بزرگاں کہ ہم انسانند
در دست زماں ہم چو انگشتانند
امروز اگر بلند و پستی دارند
فردا کہ بخونند ہمہ یکسانند

یہ چھوٹے بڑے سب انسان ہیں اور زمانے کے ہاتھوں میں انگلیوں کی طرح ہیں۔ آج اگر یہ اونچ نیچ نظر آ رہی ہے تو ممکن ہے کہ کل یہ کوئی کہے کہ سب برابر ہیں۔

۱۲۰
اشتیاقے کہ بہ دیدار تو دارد دلِ من
دلِ من داند و من دانم و داند دلِ من

وہ شوق جو میرے دل میں ہے، تیرے دیکھنے کےلیے ہے، وہ تو میں جانتا ہوں، میرا دل جانتا ہے اور بس۔

۱۲۱
ہست ایں قصہ داستانِ عجیب
بہرۂ دار و ایں بیانِ عجیب
ہوش باید کہ نکتہ گوش کند
مرد باید کہ جرعہ نوش کند

یہ قصہ ایک عجیب داستان ہے۔ یہ عجیب و غریب بیان بڑا سود مند ہے۔ ہوش ہونا چاہیے لوگوں کو کہ کوئی نکتہ نکال سکیں اور ایک انسان کو چاہیے کہ وہ بس ایک گھونٹ پینے والا ہو۔


صفحہ ۳۴۰

۱۲۲
گوئی بہ زمیں ستارہ آمد
یوسف بہ جہاں دوبارہ آمد

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ستارہ اتر آیا ہے اور یوسف دوبارہ اس دنیا میں آ گئے ہیں

۱۲۳
دیدہ از دیدنش نگشتی سیر
ہم چناں کز فرات مستسقی

آنکھیں اس کے دیکھنے سے سیر نہیں ہوتیں جیسے فرات سے ایک پیاسا کبھی سیرا ب نہیں ہوتا۔

۱۲۳
چوں ازیں سربابہ آن سر
یہاں سے وہاں تک

۱۲۴
اگر ایں شرط بجا آوردی بہ مطلب رسیدی و اِلا آنچہ دیدی از خود دیدی
اگر مطلب تک پہنچے کی یہی شرط ہے تو جو کچھ آپ نے دیکھا بس خود ہی دیکھا۔

۱۲۴
احد السامع المناجات
صدا کافی المبمات
ہیچ پوشیدہ از تو پنہاں نیست
عالم السر و الخفیات
ہر دعائی کہ می کنم شب و روز
استجب یا مجیب الدعوات

وہ ایک جو دعاؤں کا سننے والا ہے، تمام مشکلوں کو دور کرنے میں کافی ہے، کوئی چیز چھپی ہوئی تجھ سے پنہاں نہیں، یہ دنیا رازوں اور پوشیدہ چیزوں کی دنیا ہے، ہر دعا جو میں رات دن کرتا رہتا ہوں، اے دعاؤں کے سننے والا خدا، ان دعاؤں کو بھی قبول کر لے۔


صفحہ ۳۴۱

۱۲۵
ایں کہ می بینم بہ بیدار یست یا رب یا بخواب
خداوندا یہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں جاگتے میں دیکھ رہا ہوں یا سوتے میں۔ اکثر جب کوئی اچھی بات خلاف توقع ہو جاتی ہے تو یہ مصرع پڑھتے ہیں۔

۱۲۵
گل سرخش چو عارض خوباں
سنبلش ہم چو زلف محبوباں

اس کا لال پھول، خوبصورت لوگوں کے چہرے کی طرح ہے اور اس کی زلف بھی پھولوں کے سنبل کی طرح ہیں۔

۱۲۷
اگر فردوس، بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

اگر زمیں پر کہیں جنت ہے تو وہ یہی ہے یہی ہے یہی ہے۔ یہ شعر کسی پرفضا مقام یا کسی دلکش عمارت کی تعریف کے موقع پر آتا ہے۔

۱۳۰
کیمیا گر بہ غصہ مردہ بہ رنج
اہلہ اند و خرابہ یافتہ گنج

کیمیا گر کا غصہ ایسا ہی ہے جیسے کسی مردہ کو تکلیف کا احساس (جو نہیں ہوتا) مردے کو تکلیف پہنچانے کی کوشش ایسا ہی ہے جیسا کوئی احمق ویرانے میں خزانہ کی تلاش کر رہا ہو۔

۱۳۱
اے از نظر تو کار ما راست
آراستہ تو ہر چہ مار است
اے وہ ذات جس کی ایک نگاہ ہمارا کام بنا دیتی ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے، وہ تجھی نے دیا ہے۔


صفحہ ۳۴۲

۱۳۱
زہے طالع، زہے دولت زہے بخت
کہ تشریف آورد چوں تو جہاں بخت

کیا کہنے ہیں قست کے اور کیا کہنے ہیں سعادت کے کہ تجھ جیسا خوش قسمت یہاں آیا ہے۔

۱۳۱
اے آمدنت باعث آبادی ما
ذکر تو بود زمزمۂ شادی ما
مارا چہ بود تا نثارت سازیم
قربان سر تو باد آزادیٔ ما

تیرا آنا ہمارے لیے آبادی کا باعث ہے۔ ہماری کیا مجال کہ ہم تجھ پر کچھ نثار کر سکیں۔ تجھ پر تو ہمارے آزادی قربان ہے۔ اس سے مہمان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

۱۳۳
ہر کہ در ایں عالم است روزی خودمی خورد
واسطہ خوش نما ست ہفت کرم داشتن

جو اس دنیا میں ہے، اپنی قسمت کی روزی کھاتا ہے یہ ایک خوش نما صورت حال ہے، کہ یہ کرم اللہ کا بغیر کسی اجرت کے ہے۔

۱۳۳
شکر بجا آر کہ مہمان تو
روزی خود می خورد از خوان تو

شکر کرو کہ تمہارا مہمان، تمہارے دسترخوان سے روزی کھاتا ہے۔

۱۳۴
گاؤ سوار ہمچو رستم و اسفند یار نسہ مستی
اسی عرصے میں وہ جوان گائے پر سوار، رستم و اسفند یار کی طرح مستی میں سرشار


صفحہ ۳۴۳

۱۳۴
تبی دستان قسمت را چہ سود از رہبر کامل
کہ خضر از آب حیواں تشنہ می آرد سکندر را

قسمت کے تہی دستوں کو رہبر کامل سے کیا فائدہ جب کہ خضر سکندر کو آب حیات کے چشمے سے پیاسا لے آئے یعنی جن لوگوں کی قسمت میں محرومی و ناکامی ہے انہیں کسی می مدد سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

۱۳۷
الہی درد مندی دہ دل ہے درد منداں را
کہ ہے درداں نمی دانند حال درد منداں را

بے درد لوگوں کو درد مندی کا راستہ دکھا اس لیے کہ بر درد، درد مندوں کی تکلیف نہیں جانتے۔

۱۳۹
روضۂ ما و نبر ہا سلسال
دوختہ سجع و طیرہا موزوں
آن پُر از لالہ ہائے رنگا رنگ
و ایں پُر از میوہ ہائے گونا گوں
باد در سایہ درختانش
گسترانید فرش بو قلموں

پانی کی نہریں، رواں دواں ہیں، ان پر پرندے چہچہا رہے ہیں، یہ رنگا رنگ پھولوں سے لدے ہیں اور مختلف میووں سے بھی بھرے ہیں، ان کے درختوں کے سائے میں ہوا نے رنگ رنگ کے فرش بچھا رکھے ہیں۔

۱۳۹
بہ زیر پیر ہنش ہر کہ دید حیراں شد
چہ دید خانہ خرابی کہ دید عریانش

اس کے لباس کے نیچے جس کی نظر پڑی، حیران ہو گیا جس نے اس کو عریاںدیکھا، اس کا تو خانہ خراب ہو گیا۔


صفحہ ۳۴۴

۱۴۱
رفتیم و داغ ہجر تو بردیم یادگار
ہر یاد ما تو ہم دل خود در انگاہ دار

چلیے ہم یہاں سے گئے اور تیرے ہجر کا داغ یادگار کے طور پر لے گئے۔

۱۴۲
مہربانی ہائے لہلا کرد مجنوں را خراب
ورنہ ایں بیچارہ را میل گرفتاری نبود

لیلی کی مہربانیوں نے مجنوں کو خراب کیا ہے ورنہ اس بے چارے کو قید ہونے کی آرزو نہیں تھی۔

۱۴۳
سر نوششتے چو بد افتاد ز تدبیرچہ سود
کس بہ ناخن نہ کشاید گرہ پیشانی

اگر قسمت ہی بری ہے تو تدبیر سے کیا فائدہ، کوئی بھی اپنے ناخن سے پیشانی کی گرہ کھول سکتا ہے۔

۱۴۴
جوگی پسرے نبفتہ در خاکستر
دزدیدہ رخ لیلی و اش مجنوں سر
در خاک فزوں شود جمالش آرے
آئینہ از خاک می شود روشن تر

ایک جوگی کے لڑکے نے خود کو مٹی میں چھپا لیا، اس نے اپنا چہرہ لیلی سے اور سر مجنوں سے پنہاں کر لیا، اس کا حسن مٹی میں دوبالا ہو جاتا ہے جیسے آئینے کو آپ مٹی سے صاف کریں تو زیادہ روشن ہو جاتا ہے۔


صفحہ ۳۴۵

از فیض ہوا در تنم جاں آمد
یا قاصد خوش خبر ز ملک جاناں آمد
با دل گفتم اے اسیر غم و درد
خوش باش کہ شام غم بپا یاں آمد

یہ اس کی آرزو کا فیض ہے کہ میرے جسم میں جان آ گئی یا ایک اچھی خبر جو محبوب کے ملک سے آئی ہے۔ میں نے دل سے کہا اے غم و درد کے اسیر خوش ہو جا، غم و پریشانی کی رات ختم ہوئی۔

۱۴۵
رسید مژدہ کہ ایام غم نہ خواہد ماند
کسےہمیشہ گرفتار غم نہ خوہد ماند
فراق و ہجر دلا دم بدم نہ خواہد ماند
ز یار رسم جفا و ستم نہ خواہد ماند
چناں نماند چنیں نیز ہم نہ خواہد ماند

یہ خوش خبری آئی ہے کہ غم کے دن باقی نہیں رہیں گے اور یہ جو محبوب ظلم و ستم کرتا ہے، یہ رسم بھی ختم ہو جائے گی جب یہ صورت حال نہیں رہی تو یہ بھی نہیں رہے گی۔

۱۴۶
در فراق یار جوگی گشتہ ام
بہر آں دلدار جوگی گشتہ ام
میل دارد شاہ من با جوگیا
زیں سبب لاچار جوگی گشتہ ام

یہ یار کے فراق میں جوگی بن گیا، اس دلدار کے لیے جوگی کا لباس پہن لیا ہے چونکہ میرے بادشاہ کے تعلقات جوگیوں سے ہیں اس وجہ سے لاچاری میں جوگی بن گیا۔


صفحہ ۳۴۶

حب الوطن از ملک سلیماں خوش تر
خار وطن از سنبل و ریحاں خوش تر
یوسف کہ بہ مصر بادشاہی می کرد
می گفت گدا بودنِ کنعاں خوش تر

حب الوطنی سلیمان کے ملک سے بہتر ہے، وطن کے کانٹے بھی سنبل و ریحان سے اچھے ہیں۔ یوسف جو مصر میں بادشاہی کرتے تھے حکم فرماں تھے، کہتے تھے کہ کنعاں کا فقیر ہونا بہتر ہے۔ جب وطن کی محبت کا اظہار مقصود ہوتا ہے تو یہ رباعی پڑھتے ہیں۔

۱۴۸
میں آنچہ شرط بلاغ است با تومی گویم
توخواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال

جو کچھ بتانے کی شرط ہے، میں تجھے بتا رہا ہوں، تو میری اس بات سے نصیحت حاصل کر یا اس سے رنجیدہ ہو۔

۱۴۹
ہرچہ از دوست می رسد نیکو است
دوست سے جو کچھ مل جائے وہی بہت اچھا ہے۔

۱۵۱
اے دوستان ز حال من زار بشنوید
از داستانِ ایں دل افگار بشنوید
ہر چند نیست منزلت و قدر بندہ را
آیا کشیدہ ام ز بس آزار بشنوید

اے دوستو، میرا حال زار سنو، اس زخمی دل کی داستان سنو، میری کتنی ہی کوئی قدر و منزلت نہیں۔ لیکن میں نے کس قدر مصیبت جھیلی ہے، وہ سنو۔


صفحہ ۳۴۷

غزالے در ریاض جاں چریدہ
ز شوخی بر رخ صحرا رمیدہ

ایک غزال ہے جو میری زنگی کے باغ میں چرتا پھرتا رہا ہے او شوخی سے میرے چہرے کے جنگل میں آ نکلا ہے۔

۱۵۳
الہی بردرِ من نشیند و از رفقا بہرہ نہ بیند
میری چھوکھٹ پہ بیٹھا رہے اور دوستوں سے اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں۔

۱۵۴
بعد ازیں در عوض اشک دل آید بیروں
آب چوں کم شود از چشمہ گل آید بیروں

اس کے بعد آنسوؤں کے بجائے، آنکھوں سے دل ٹپکے گا اور دیکھ لو جب چشمے میں پانی کم رہ جاتا ہے تو پانی کی بجائے، مٹی آنے لگتی ہے۔

۱۵۵
رنگ حنا اشت برکف پائے مبارکت
یا خون عاشقانست کہ پامال کردۂ

آپ کے مبارک پیروں پر حنا کا رنگ موجود ہے یا یہ عاشقوں کا خون ہے جن کو تو نے اپنے پیروں سے پامال کیا ہے؟

۱۵۵
اے جواں کار عشق بازی نیست
عشق بازی مکن کہ بازی نیست

اے جوان یہ عشق کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ عشق بازی نہ کرو کہ یہ کھیل نہیں ہے۔

۱۵۶
کہ آفت باست در تاخیر و البر ازیاں دارد
دیر کرنے میں بڑی مصیبتیں ہیں اور جو آپ سے کچھ توقع کرتا ہے اس کو آپ کے دیر کرنے کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے۔


صفحہ ۳۴۸

۱۵۹
توہے رشک ماہ کنعانی ہنوز
تجھ کو ہے خوباں میں سلطانی ہنوز

تو ابھی بھی یوسف کے لیے رشک ہے، تو ابھی بھی حسینوں کا سلطان ہے۔

۱۵۹
دوستاں شرح پریشانی من گوش کنید
قصۂ ہے سرو سامانی من گوش کنید
داستان غم پنہانی من گوش کنید
باعث حیرت و حیرانی من گوش کنید
شرح ایں آتش جاں سوز نہفتن تاکی
سوختم سوختم ایں راز نہفتن تاکی

دوستو! میری پریشانی کا احوال سنو اور میری بے سرو سامانی کا قصہ سنو۔ چھپے ہوئے غم کی داستان سنو، میرے حیران اور حیرت زدہ ہونے کی وجہ سنو۔ اس جاں سوز آگ کی وضاحت کو میں کب تک چھپائے رکھوں۔

۱۶۲
سلامت می رساند نا توانے
غریبی مبتلائے خستہ جانی
کہ اے یار عزیز مہربانم
تمنائے دل و آرام جانم
مرا خود دل ز ہجرت غرق خون است
نمی دانم ترا احوال چون است

آسودگی، انسان کو کمزور کرتی ہے۔ انسان غریب ہو، تکلیف میں مبتلا ہو، خستہ جاں ہو تو اے میرے عزیز اور مہربان دوست تو میرے دل کی تمنا اور جان کا آرام ہے۔ تیرے ہجر کی وجہ سے، میں خون کی ندی میں غرق ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ تو کس حال میں ہے۔


صفحہ ۳۴۹

۱۶۳
آئینہ بروے دلکشا ہے تو رسد
اے نور نگاہ
ہم شانہ بہ زلف مشک ساے تو رسد
مارا چہ گناہ
ماخاک شویم و سرمہ منظور افتد
داغیم ز رشک
دل خوں شدہ وحنا بہ پائے تورسد
سبحان اللہ

ہم خاک ہو جائیں، مقصد یہ ہے کہ اس طرح ہم تیری آنکھ کا سرمہ بن جائیں گے اور ہمیں اس وجہ سے خاک کی قسمت پر رشک آ رہا ہے اور ہم جل رہے ہیں۔ میرا دل خون ہو گیا، اس امید میں کہ یہ تیرے پیروں کی مہندی بن جائے، سبحان اللہ۔

۱۷۱
قدرے گل بلبل بد اند قدر جوہر جوہری
پھول کی قدر بلبل کو معلوم ہے اور جوہری کو جوہر کی۔ ضرب المثل اس طرح بھی ہے: قدرے گوہر شاہ داند یا بداند جوہری یا قدر زر زرگر بد اند قدر جوہر جوہری۔ موتی کی قدر بادشاہ جانتا ہے یا جوہری جانتا ہے یعنی کسی چیز کی قدر وہی کر سکتا ہے جو اس کی خوبیوں سے واقف ہو۔

۱۷۲
دل ہا را بہ دلہا را باشد
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔

۱۷۵
آفریں با دبر ایں ہمت مردد انۂ تو
تیری اس ہمت مردانہ پر آفرین۔ جب کوئی آدمی کوئی بڑا کام کرتا ہے تو اس کی تعریف میں یہ مصرع پڑھتے ہیں۔


صفحہ ۳۵۰

۱۷۶
اگر جنگ جوئی بہ میدان در آئے
زما ہر کرا ملک بخشد خدائے

اگر تو جنگ جو ہے تو میدان جنگ میں آ، تو پھر جس کو خدا بخشے گا ملک اس کا ہو گا۔

۱۸۴
نہ ہر زن زن است نہ ہر مرد مرد
خدا پنچ انگشت یکساں نہ کرد

ہر عورت عورت نہیں ہوتی، نہ ہر مرد مرد ہے، خدا نے بھی ہاتھ کی پانچوں انگلیاں یکساں نہیں بنائیں۔ یعنی بعض عورتیں مردوں سے بہتر ہیں اور بعض مرد عورتوں سے بدتر۔

۱۸۵
یکے نقصان مایہ و دیگر شماتت ہمسایہ
ایک تو ہماری جان و دولت کا نقصان اور دوسرے پڑوسی کی دشمنی مول لے لی۔

۱۸۶

وہ مرد جہاندیدہ۔ گرم و سرد زمانہ چشیدہ
وہ جہاندیدہ شخص جس نے دنیا کے نشیب و فراز دیکھے اور زمانہ کے سرد و گرم سے واقف ہے۔

۱۸۷
فرزند اگرچہ ہے تمیز است
در چشمِ پدر بسی عزیز است

اولاد کیسی ہی بدتمیز ہے وہ باپ کی آنکھوں کا تارہ ہوتی ہے۔

۱۸۹
گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل
کہوں تو مشکل نہ کہوں تو مشکل۔ یہ مصرع اس وقت پڑھتے ہیں جب کوئی ایسی بات آ پڑتی ہے جو نہ کہتے بنتی ہے نہ چھپائے بنتی ہے۔

۱۹۰

نہاں کے ماند آں رازے کزوسازند محفل ہا
وہ راز کہاں چھپتا ہے جس سے محفلیں گرم کی جاتی ہیں یعنی جس راز سے بہت سے لوگ واقف ہو جاتے ہیں وہ چھپ نہیں سکتا۔


صفحہ ۳۵۱

۱۹۲
ہر کسے مصلحت خویش نکومی داند دیوانہ بہ کار خویش ہشیار
ہر کوئی اپنی مصلحت سے خوب آشنا ہے مثال کے طور پر دیوانہ (مگر) اپنے کام میں ہوشیار۔ بعض لوگ دیکھنے میں بے وقوف ہوتے ہیں مگر اپنے معاملات میں بڑی ہوشیار ہوتے ہیں۔ یہ مصرع ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے۔

۱۹۲
خوے بدر ابہانۂ بسیار
بری عادت والے کو بہانہ کافی ہے۔ یعنی اگر کسی کو کوئی برا کام کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی حیلہ سے وہ کام ضرور کرتا ہے۔

۲۰۰
چہے چوں گور، ظالم تنگ وتیرہ
ز تاریکیش چشم عقل خیرہ

وہ کنواں ایسا ہی تاریک اور تنگ تھا جیسے ظالم کی قبر اور اس کی تاریکی سے ایک عقلمند کی آنکھیں چکاچوند تھیں۔

۲۰۲
انچہ دلم خواست نہ آں می شود
ہرچہ خدا خواست ہماں می شود

جو میرا دل چاہتا ہے وہ نہیں ہوتا ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو خدا چاہتا ہے۔

۲۰۷
دلم بردی و دلداری نہ کردی
ٹم دادی و غمخواری نہ کر دی

تو میرا دل لے گیا لیکن تو نے میری دلداری نہیں کی، تو نے غم دیا لیکن غم خواری نہیں کی۔

۲۰۷
مر او را رسد کبریا و منی
کہ ملکش قدیم است و ذاتش غنی

اس کو میری یاد کب آئے گی وہ تو ایک قدیم اور دائمی ملک کا مالک ہے اور اس کی ذات غنی اور بے نیاز۔


صفحہ ۳۵۲

۲۰۸
و ہم جامے کہ با جانش ستیزد
کہ تا روز قیامت بر نہ خیزد

میں اسے ایسا جام پلانا چاہتا ہوں جو اس کی جان سے لڑتا رہے تاکہ یہ قیامت کے دن تک اٹھ نہ سکے۔ اسی کے نشے میں مست رہے۔

۲۱۶
خود کردہ را علاج و درمانے نیست
اپنےک یے ہوئے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ جملہ اس وقت بولتے ہیں جب کسی کو اپنے ہی فعل سے نقصان یا تکلیف پہنچ جائے۔

۲۲۰
بہ قید زندگی ہر کس اسیر است
فکر آب و نانش ناگزیر است

ہر شخص زندکی کی قید میں گرفتار ہے اس لیے وہ آب و دانہ کی فکر سے آزاد نہیں ہے۔

۲۲۲
بگیرد ایں ہر در قرم ساقاں را
ہر اس شخص سے اس کی خطاؤں کا بدلہ لو۔

۲۲۶
بر تو ایں مجلس شاہانہ مبارک باشد
ساقی و مطرب و پیمانہ مبارک باشد

تجھے یہ شاہانہ مجلس مبارک ہو، ساقی مطرب اور پیمانہ مبارک ہو۔

۲۳۰
جز بدرگاہت کجا آرم نیاز
آستانت قبلۂ آمال ماست

میں سوائے تیری چوکھٹ کے کہاں سر نیاز جھکاؤں تیرا آستانہ ہماری آرزؤ کا قبلہ ہے۔


صفحہ ۳۵۳

۲۳۴
نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بساکیں دولت از گفتار خیزد
درآید جلوۂ حسن از رہ گوش
زجاں آرام برباید زدل ہوش

عشق صرف دیکھنے سے ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ گفتگو سے محبت کا اظہار ہو جاتا ہے۔ اگر کہیں حسن کا جلوہ میرے کانوں سے میرے اندر داخل ہو جائے تو میری جان کا آرام اور میرے دل کا ہوش چرا کر لے جائے۔

۲۳۵
دیو بہ گریزد ازاں قوم کہ قرآن خوانند
جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں ان سے شیطان بھاگتا ہے۔

۲۳۷
مارا از خاک کویش پیراہن ست برتن
آں ہم زآب دیدہ صدچاک تابہ دامن

ہم نے اس کی گلی کی مٹی کو اپنا لباس بنا لیا ہے وہ بھی ایسا لباس جو آنکھوں سے جاری آنسوؤں کے باعث جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے۔

۲۳۸
کے از دست خواہم رہا کردنش
کنونم کہ باشد بہ کف دامنش

میں کب یہ چاہوں گا کہ اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دوں ابھی تو صرف اس کا دامن ہی میرے ہاتھ میں ہے۔

۲۳۹
صلاح ما ہمہ آنست کاں صلاح شماتست
ہماری بہتری اسی میں ہی جس میں تمہاری بہتری ہے۔

۲۳۹
قسم بجانت کہ برنہ دارم سرار ادت زخاک آں پا
تیری جان کی قسم کہ کسی بھی حالت میں ارادت کے سبب میں تیرے آستانے سے سر نہیں ہٹاؤں گا۔


صفحہ ۳۵۴

۲۴۵
چشم ترحم ز تو داریم ما
قبلہ توئی رو یہ کہ آریم ما
حاجت ما از تو بر آید تمام
دامنت از کف نہ گزاریم ما

ہم تجھ سے لطف و مہربانی چاہتےہیں تو ہمارا قبلہ ہے اس لیے ہم کس کی طرف دیکھیں، ہماری حاجت تو تو ہی پوری کر دیتا ہے تو اب ہم تیرا دامن کیسے ہاتھ سے چھوڑ دیں۔

۲۴۸
یا الٰہی دعاے خستہ دلاں مستجاب
اے اللہ تو ہم پریشان حالوں کی دعا قبول فرما۔


صفحہ ۳۵۵

اردو محاورے، ضرب الامثال، روزمرہ
بہ اعتبار صفحہ نمبر

۴۱
گوئے سبقت لے جانا
آگے بڑھ جانا

۴۷
ھم پیالہ و ھم نوالہ ھو جانا
گہری دوستی کا ہو جانا، جگری دوستی، قلبی دوستی

۵۷
عھدہ بر آ ھونا
کسی کام کو خوش اسلوبی سے انجام دینا

۷۵
مینڈگی کو بھی زکام ھوا ھے
یعنی ناشدنی بات ہوئی ۔ اس کو بھی یہ حوصلہ ہوا۔


صفحہ ۳۵۶
صفحہ ۳۵۷
(یہ دونوں صفحے ایک ہی ہیں)

۸۷
زمین سخت و آسماں دور
زمین سخت ہے اور آسمان دور ہے۔ یہ فقرہ اس وقت بولتے ہیں جب کسی شخص کے لیے کوئی پناہ کی جگہ نہ ہو یعنی اگر زمین سخت نہ ہوتی تو وہ اس میں سما جاتا اور اگر آسمان دور نہ ہوتا تو وہیں جا کر پناہ لیتا۔

۹۰
جگ نہ پھوٹےپھوٹ نہ پڑے، نااتفاقی نہ ہو

۱۰۰
ہر ایک روز عید تھا اور ہر ایک شب برات
زندگی کا مسرت سے گزرنا

۱۰۹
بارہ برس پیچھے روزہ کھولا، تو چرکین سے
کسی اچھے کام کا آغاز بھی کیا تو برے طریقے سے

۱۱۰
نیکی برباد گنہ لازم
یہ فقرہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی کا احسان نہیں مانتا بلکہ الٹا اس سے کچھ شکایت کرتا ہے یا اس پر کوئی الزام لگاتا ہے۔

عرش پہ جھنڈا گاڑا ھے
بہت رعب والا کام کرنا، شیخی بگھارنا

۲۰۱
بگلا مارے پکھنا ھاتھ
بے سود کام کرنا (چونکہ بگلے میں گوشت بہت کم ہوتا ہے اسی وجہ سے اس کے مارنے سے سوائے پروں کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

۲۰۸
اوچھی پونجی خصمی کھانے
کم مائیگی مالک کو ضرر پہنچاتی ہے۔
 

مقدس

لائبریرین
272


میں اتنی مقبول ہوئی کہ بہت سے لکھنے والوں نے اس کی پیروی کی۔ مہر چند مہر کھتری نے 'ملک محمد وگیتی افروز' کے قصے کو 89 -1203/17883ھ میں جب اردو میں لکھا تو اپنی کتاب کا نام 'نو آئین ہندی' رکھا۔ نوآئین اور نوطرز ایک طرح سے مترادف ہیں اوردیباچے میں اعتراف کیا کہ 'عطا حسین خاں چار درویش کا قصہ فارسی سے ہندی زبان میں تضمین کر کے نو طرز مرصع نام رکھا، سوالحق نو طرز مرقع ہے۔' بعد میں میرامن نے بھی نوطرز مرصع ہی کو سامنے رکھ کر اپنی مشہور زمانہ تصنیف 'باغ و بہار' لکھی جس کے ابتدائی ایڈیشنوں میں یہ عبارت ملتی ہے: 'باغ و بہار' تالیف کیا ہوا میرامن دلی والے کا، ماخذ اس کا نوطرز مرصع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خاں کا ہے فاردی قصہ چہار درویش سے۔ ' اسی طرح حکیم محمد بخش مہجور لکھنوی

نے 1220/1805ھ میں 'گلشن نو بہار' کے نام سے ایک قصہ لکھا اور اس کے دیباچے میں اعتراف کیا کہ 'اس قصہ فصیح اور ملیح کو بہ خط گلزار بہ صفحہ رنگین زبان ہندی میں بہ طرز نو مرصع کے لکھے۔' محمد غوث زریں کا قصہ چہار درویش بھی نوطرز مرصع کے بعد لکھا گیا۔ نوطرزمرصع نے اس قصے کو وہ شہرت دی کہ سب کی نظروں میں آ کر مقبول ہو گیا۔


اس تصنیف کا نام 'نوطرز مرصع' رکھنے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو تحسین نے اپنے خطاب کی مناسبت سے کہ مرصع رقم کہلاتے تھے، اس کا نام نوطرز مرصع رکھا۔ دوسرے یہ کہ مرصع رقم نے اردو انشا کا ایک نیا طرز نکالا تھا جس میں 'عبارت رنگیں' کو 'ہندی زبان' میں لکھا تھا اور جس کے موجد ہونے کے وہ خود دعویدار تھے کہ 'آگے سلف میں کوئی شخص موجود اس

ایجاد تازہ کا نہیں ہوا۔' یہ نیا طرز بھی تھا اور مرصع بھی۔ 'نو طرز مرصع' کے نام سے مصنف کے بام اور کام، اس کی شخصیت اور ایجاد کا پورا اظہار ہوتا ہے۔


قصہ چہار درویش بارہویں صدی ہجری کی تخلیق ہے اور جیسے الف لیلہ کا کوئی ایک مصنف نہیں ہے بلکہ پوری تہذیب نے اپنی تخلیقی قوتوں سے اسے جنم دیا ہے اسی طرح قصہ چہار درویش بھی کئی ارتقائی منازل سے گزر کر اپنی اس صورت تک پہنچا ہے۔ یہ قصہ نہ ہندی الاصل ہے اور نہ فارسی الاصل بلکہ ان دونوں تہذیبوں کے صدیوں کے میل ملاپ کا


273


نتیجہ ہے۔ اس قصے کو 'ہندو مسلم کلچر' کے اس روپ نے جنم دیا ہے جو محمد شاہی دور میں سنبھالا لے رہا تھا۔ اس میں مختلف ایرانی و ہندوستانی عناصر ایک دوسرے سے گھل مل کر ایک ایسی شکل اختیار کر گئے تھے کہ ان کو پہچانے کے باوجود الگ کرنا مشکل تھا۔


کہانی کا ڈھانچہ یہ ہے کہ آغاز میں ولایت روم کے بادشاہ فرخندہ سیر کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس کے کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی۔ اپنی ڈھلتی عمرکو دیکھ کر وہ بہت غمگین اور اداس رہتا تھا۔ آخر کار وہ دنیا ترک کر کے ایک گوشے میں جا بیٹھا۔ خردمند نامی وزیر کے سمجھانے بجھانے پر وہ دوبارہ دن میں امور سلطنت پر توجہ دینے لگا لیکن رات عبادت اور مقابر کی زیارت میں گزارتا۔ ایک دن وہ خلاف معمول آدھی رات کے وقت محل سے نکلا۔ ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔ کیا دیکھتا ہے کہ دور ایک چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ اسے خیال ہوا کہ تجلی کسی مرد خدا کے مکان پر متجلی ہے۔ یہ سوچ کر وہ ادھر روانہ ہوا کہ شاید اس کی آرزو کا چراغ بھی منور ہو۔ وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ چار درویش پیٹھے آپس میں سرگرم سخن ہیں۔ بادشاہ چھپ کر کھڑا ہو گیا اور ان کی باتیں سنے لگا۔ پہلے ایک درویش نے اپنا قصہ سنایا جو کہ ملکہ دمشق کی سرگزشت پرمشتمل تھا۔ پھر دوسرے درویش نے حاتم طائی کی سرگزشت اور اسی سے متعلق ملکہ بصرہ اور شہزادہ نیمروز کا قصہ سنایا۔ جب تیسرے درویش نے اپنی داستان ختم کی تو صبح ہوگئی۔ باوشاہ محل میں واپس آگیا اور دوسرے دن درویشوں کو دربار میں بلوایا۔ درویش آئے توسب درباریوں کو رخصت کر کے بادشاہ ان سے مخاطب ہوا کہ تین درویشوں کی سرگزشت اس نے کل رات سنی۔ اب چاہیے کہ چوتھا درویش بھی اپنی سرگزشت سے

استفاده بخشے لیکن درمیان سے حجاب کا پردہ اٹھانے کے لیے پہلے خود بادشاہ نے فرخ سیر کا قصہ بیان کیا۔ خواجہ سگ پرست کا قصہ بھی اسی سرگزشت کا ایک حصہ ہے۔ اس کے بعد چوتھا درویش اپنی سرگزشت سناتا ہے اور جیسے ہی یہ سرگزشت ختم ہوتی ہے، اندر محل سے غلغہ شادی کا بلند ہوتا ہے اور خبرملتی ہے کہ فرخندہ سیر کے ہاں فرزند تولد ہوا ہے لیکن یہ خوشی

جلد ہی غمی میں بدل جاتی ہے۔ کالے بادل کا ایک ٹکڑا آتا ہے اور شہزادہ کو لے جاتا ہے دو



274


دن بعد شہزادہ اسی طرح واپس آتا ہے۔ اس کے بعد ہر مہینے ابر تیرہ آتا اور شہزادے کو لے جاتا۔ جب اس طرح کافی عرصہ گزر گیا تو ایک دن، چاروں درویشوں سے مشورہ کر کے، بادشاہ نے ایک خط شہزادے کے گہوارے میں ڈال دیا۔ اس بار شہزادہ واپس آیا تو خط کا جواب موجود تھا اور بادشاہ کو شاہ جنات ملک شہپال بن شاہ رخ نے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ بادشاہ درویشوں کی رفاقت میں روانہ ہوا اور ملک شہپال کی مدد سے ہر

درویش اینی مراد کو پہنچا۔ اس جملے پر قصہ ختم ہوجاتا ہے کہ "الہی جس طرح یہ چاروں درویش مع بادشاہ فرخندہ سیر و شہزادہ نیمروز و بہزاد خاں فرنگی ہر ایک اپنی مراد کو پہنچے اسی طرح ہر ایک کی مراد اور مقصد برآوے۔"

کہانی کے اس ڈھانچے میں چاروں قصوں کو بادشاہ روم فرخندہ سیر اور دوسرے ضمنی قصوں کے ساتھ ملا کر ایسا باہمی ربط پیدا کیا گیا ہے کہ یہ الگ الگ داستانیں مل کر ایک بڑی وحدت بن جاتی ہیں۔ 'نو طرز مرصع' کے اس قصے کو ناول کی تکنیک اور معیار سے دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے کپڑے کو ناپنے کے بجائے تولا جائے۔ ناول اور داستان میں قصے کی دلچسپی اور تجسس ضرور مشترک ہے لیکن داستان کی دنیا الگ ہے۔ اس کا الگ مزاج اور تقاضے ہیں۔ داستان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دلچسپ و حیرت انگیز قصے سے سنے والوں کا دل بہلایا جائے اورانہیں ایسی دور دراز کی دنیاؤں اور فضاؤں میں پہنچا دیا جائے جو ان کی حقیقی زندگی

سے مختلف ہوں۔ عشق اس دور کا تہذیبی مزاج تھا اسی لیے بنیادی طور پر داستانیں عشق ورومان کی ایسی کہانیاں پیش کرتی ہیں جن کو سن کر افسرده دل بھی افسردہ نہیں رہتے۔ یہاں ذہن کو سکون اور ٹھنڈک بہم پہنچانے کاعمل ملتا ہے۔ ہجر اور راستے کی دشواریاں عارضی ہوتی ہیں اور ہر کردار دنیا کے عیش و آرام کو چھوڑ کر اسی لیے ہفت اقلیم سر کرنے پر آمادہ ہے کہ اسے یقین ہے ایک نہ ایک دن وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا ۔ ان کرداروں کا مزاج اس اسلامی عقیدے سے بنا ہے جہاں مایوسی کفر ہے۔ کسی بھی کردار میں عزم کی کمزوری اس لیے محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اللہ کی ذات سے، جو کار کشاو کارساز ہے، ذرا بھی مایوس نہیں ہوتا۔


275


وہ لوگ جو ذہن انسانی پرات مابعد الطبیعات کے اثر کو بھلا دیتے ہیں، اس امید پرستی کو ازمنہ وسطی کی امید پرستی کا نام دیتے ہیں۔ ان داستانوں کے مطالعے سے اس تہذیب کا انداز نظر، طرزفکر واحساس، عقائد اور زندگی کے اٹل قوانین کا سراغ ملتا ہے۔ یہاں زندگی کا سارا تضاد گھلا ملا ایک ساتھ نظر آتا ہے۔ درویش نماز بھی پڑھتا ہے اور شراب گل فام سے اپنے دماغ کو گرم بھی کر لیتا ہے۔ وہ ایک طرف فرنگن سے شراب وصل پی رہا ہے اور دوسری طرف خدائے بے ہمتا کی عبادت بھی کر رہا ہے۔ اس سطح پروہ کی قسم کی مصالحت نہیں کرتا

بلکہ اپنے عقیدے کی گرمی سے کافر فرنگن کو بھی مسلمان کر لیتا ہے۔ اس دور کی داستانوں میں ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ اور دوسرے کرداروں کے ساتھ فرنگی کردار بھی نظر آنے لگتا ہے اور دوسرے کرداروں کے مقابلے میں یہ کردار ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہی صورت ہمیں 'نو طرزمرصع' میں بھی نظر آتی ہے۔

'نو طرز مرصع' اور 'باغ و بہار' میں، کہانی کے جزوی اختلاف کے باوجود، بنیادی فرق زبان و بیان اور طرز ادا کا ہے۔ 'نو طرز مرصع' ایک مخصوص طرز احساس کی ترجمان ہے اور 'باغ و بہار' اس بدلتے ہوئے طرز احساس کی ترجمان ہے جو آئندہ دور میں واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ تحسین بنیادی طور پر انشا پرداز تھے۔ انہوں نے 'نو طرز مرصع' میں اپنی انشا پردازی کا کمال دکھایا ہے اور وہ کام، جو اب تک فارسی میں کرتے رہے تھے، اسے اردو میں کیا ہے۔ اس لیے 'نو طرز مرصع' کا اسلوب مقفی ومسجع ہے اور اس میں بیان کی رنگینی اور

عبارت آرائی موجود ہے۔ رجب علی بیگ سرور کا 'فسانہ عجائب' نو طرز مرصع کے اسی اسلوب کی ایک ارتقائی کڑی ہے۔

'نو طرز مرصع' کے اسلوب کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ اس کی زبان رنگین، دقیق اور طرز ادا مصنوعی و پرتکلف ہے۔ عربی وفارسی الفاظ و تراکیب، تشبیہات

واستعارات کی اتنی کثرت ہے کہ اکثر فقرے دشوار فہم ہونے کے علاوہ مذاق سلیم کے لیے نہایت ثقیل و مکروہ ہیں۔ اور اسلوب پرسطحی و مصنوعی مرصع کاری چھائی ہوئی ہے۔ یہی بات
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 291

فرہنگ
بہ اعتبار نمبر
الفاظ معانی / تشریحات

1۔ لولاک: حدیث قدسی لو لاک کما خلقت الافلاک کی طرف اشارہ ہے، یعنی اگر تیری (رسول اکرمؐ) ذات نہ ہوتی تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔
2۔ نادِ علی: ایک مشہور دعا کا نام جسے اکثر زہر مہرے یا چاندی کے پتر پر کھود کر بچوں کے گلے میں ڈالا کرتے ہیں، اسی وجہ سے صرف زہر مہرے کی تختی کو بھی جو گلے میں ڈالنے کے واسطے بنائی جاتی ہے، ناد علی کہنے لگے۔
3۔ آل عبا: وہ لوگ جن پر رسول اکرمؐ نے اپنی کملی ڈال کر محبت ظاہر فرمائی، یعنی حضرت علی و فاطمہ، حسن اور حسین
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 292

4۔ دِرایت: عقل، دانائی
5۔ رِزانت: استواری، مضبوطی
6۔ نافہ: کستوری، مشک نافہ، مشک کی تھیلی۔ جو ایک قسم کے ہرن کی ناف کے پاس تھیلی سے نکلتی ہے۔
7۔ موہبت: عطا، بخشش، سخاوت
8۔ استفاضہ: فیض پانا، فیض اٹھانا
9۔ مُبارِ زالملک: شاہی خطاب، جنگجو، بہادر
10۔ بَجرا: ایک قسم کی چھوٹی کشتی جو مور کی شکل کی بنی ہوتی ہے۔ ہلکی پھلکی سیر و تفریح کی سبک رفتار چھوٹی کشتی جس کو ایک آدمی آسانی کے ساتھ کھے لے۔
11۔ مور پنکھی: ایک طرح کی خوبصورت، سیر و تفریح کی کشتی جو مور کی سی شکل کی بنی ہوتی ہے۔
12۔ قُمری: فاختہ کی قسم کا ایک طوق دار پرند
13۔ فَحوائے کلام: گفتگو کا انداز
14۔ بَیرون جات: دیہات، گاؤں
15۔ ہَرَج مَرج: مصیبتیں، پریشانیاں
16۔ دُود مان: خاندان
17۔ صَیقل: جلا، چمک، صفائی
18۔ تَعب: رنج، دکھ، تکلیف
19۔ میل: سرمہ لگانے کی سلائی
20: کُحل الجَواہر: وہ سرمہ جس کو آنکھوں میں طاقت کے لیے لگاتے ہیں اور جس میں مروارید اور دوسرے جواہر ڈالے جاتے ہیں۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 293

21۔ مَزرَع: کھیتی
22۔ سِفلہ دوں: کمینہ، حقیر
23۔ مُلہم غیبی: غیب کی خبر دینے والا
24۔ تَصدیعہ: تکلیف، دکھ، زحمت
25۔ شَجر طوبی: جنت کا درخت
26۔ مُتطعاب: مبارک، خجستہ
27۔ گردوں کا رَکاب: آسمان پر سوار، گردوں بمعنی آسمان، رکاب: لوہے کا وہ حلقہ جو گھوڑے کی زین میں دونوں طرف لٹکتا رہتا ہے اور سوار اس پر پاؤں رکھ کر گھوڑے پر چڑھتا ہے۔
28۔ تارَک: مانگ، سر کے بالوں کے درمیان جو لکیر ہوتی ہے
29۔ اَکیل: تاج مرصع، جواہرات کا سر پیچ
30۔ فَتوت: شجاعت، سخاوت
31۔ عَضد: بازو، عُضد الدولہ: شاہی خطاب
32۔ بَرارُ المُہام: وزیر اعظم
33۔ مائدہ: دسترخوان جس پر کھانا چنا ہوا ہو۔ قرآن شریف کی ایک سورت
34۔ تِرپولیہ: فیض آباد میں تین بلند دروازے اس نام سے شجاع الدولہ نے بنوائے تھے جو آج بھی چوک فیض آباد میں موجود ہیں۔
تین بڑے در جو بازاروں میں اس طرح بنائے جاتے تھے کہ شاہی جلوس کے ہاتھی وغیرہ بآسانی نکل سکیں۔
35۔ اِرتِفاع: اونچائی، بلندی
36۔ ہَفت کِشوَر: ہفت اقلیم، دنیا کی سات بڑی سلطنتوں کا نام، جیسے چین، ترکستان، ہند، ایران، توران، روم، شام
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 294

37۔ شُجاع گڑھ: شجاع الدولہ نے ایک قلعہ فیض آباد میں اس نام سے بنوایا تھا۔
38۔ حِصانت: پائیداری، مضبوطی
39۔ زیاد: زیادہ کا مخفف
40۔ سما: آسمان، فلک
41۔ حَضیض: گڈھا، پستی
42۔ شاہد رِعنا: بہت خوبصورت، حسین
43۔ حُلی بند: چاندی سونے کا زیور
44۔ اِعتضاد السلاطین: بادشاہوں کو قوت پہنچانے والا شاہی خطاب
45۔ (الف) مُلاد المَساکین: مسکینوں کو پناہ دینے والا
45۔ (ب) بدرالدجی: اندھیری رات کا چاند، اجالا پھیلانے والا
46۔ کہف الورا: خلق کی پناہ گاہ
47۔ غَرہ: غرور
48۔ ناصیہ: پیشانی، ماتھا، جبین
49۔ شہامت: بزرگی، بہادری
50۔ ہزبَر: ملک عرب اور براعظم افریقہ کا ایالدار شیر بَبر
51۔ ضیعف البنیان: جس کی بنیاد کمزور ہو، عموماً انسان کے لیے بولا جاتا ہے۔
52۔ صَراف: چاندی سونے پرکھنے والا
53۔ عبارت کُستری: عبارت آرائی
54۔ مَروارید: موتی
55۔ سرپیچ: پگڑی، دستار، عمامہ
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 295

56۔ جیغہ: ایک مرصع زیور کا نام جو پگڑی پر لگایا جاتا ہے۔
57۔ شَعشَہ: چمک، آفتاب کی روشنی
58۔ مِداد: روشنائی، دوات کی سیاہی
59۔ خَردَل: رائی
60۔ بَرار: باہر لانے والا
61۔ نکیف: پس، کیوں کر
62۔ فرق: (سر) کی مانگ
63۔ بَغار: زخم، گھاؤ
64۔ خَدنگ: تیر
65۔ سوفار: تیر کا وہ سراخ یا شگاف جو تیر کے گز میں جس طرف سے کمان رکھتے ہیں اس جانب ہوتا ہے اور اسے چلاتے وقت چلہ میں رکھ کر چھوڑتے ہیں، تیر کی چٹکی (فرہنگ آصفیہ)
66۔ شناوری: تیراکی
67۔ علم شنا: تیراکی کا فن
68۔ ترس: ڈر، خوف
69۔ بُرج اسد: آسمان کا وہ حصہ جس میں چاند ستارے مل کر شیر کی شکل میں واقع ہیں۔
70۔ تحت الشرا: پاتال
71۔ کُمیت: گہرا سرخ گھوڑا
72۔ مِضمار: میدان، وسیع میدان
73۔ راکِب: سوار
74۔ کَجک: ہاتھی کا آنکس
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 296

75۔ فِیل بان: مہاوت، ہاتھی دان
76۔ ماہِ نو: مہینے کا پہلا چاند
77۔ جھول: ہاتھی کی پیٹھ پر ڈالنے کا کپڑا
78۔ جُبن: بزدلی
79۔ مَوکب: مواکب، موکبہ کی جمع، سواروں کے لشکر (شاہی سواری کے ساتھ)
80۔ کَوکب: روشن تارہ
81۔ فیر: (انگریزی Fire)، بندوق کو آگ دینا
82۔ صلابت: مضبوطی، استحکام
83۔ رَعد: بجلی کی کڑک
84۔ مطبخ: باورچی خانہ
85۔ فریدوں فر: فارس کے ایک عظیم الشان بادشاہ کا نام، جو ضحاک کو قتل کرکے آپ بادشاہ ہوا تھا۔
86۔ عدالت گستر: انصاف کرنے والا، مصف
87۔ برآندہ حاجات: حاجت پوری کرنے والا
88۔ اَشعہ: شعائیں، کرنیں، شعاع کی جمع
89۔ شوارِق: شارقہ کی جمع، روشن چیز، سورج کی روشنی
90۔ بَوارق: برق کی جمع بمعنی روشن چیز
91۔ لَمعاں: چمکیلا، روشن
92۔ بادسموم: زہریلی ہوا، گرم ہوا
93۔ ہَودج: اونٹ کا گجاوہ
94۔ تتق: پردہ
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 297

95۔ سِپہر: آسمان
96۔ قران السعدین: دو مبارک ستاروں کا ایک برج میں جمع ہونا، نیک شگون
97۔ جمثال: پیکر، صورت
98۔ ابرنیساں: شمسی مہینے نیساں میں برسنے والا بادل (جو کہ ستمبر کے مطابق ہوتا ہے)
نیساں ساتویں رومی مہینے کا نام ہے کہ آفتاب برج حمل میں ہوتا ہے (یہ موسم بہار کے آغاز کا زمانہ ہوتا ہے)۔ اس مہینے میں جو پانی برستا ہے اس کو ابر نیساں یا آب نیساں کہتے ہیں۔ یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اس کے قطروں سے سیپ میں موتی اور بانس میں بنسلوچن پیدا ہوتا ہے۔
99۔ دِل بریاں: دل جلا، ناراض
100۔ خویش: رشتہ دار
101۔ مُشتعل: مصروف
102۔ تخلل: جھگڑا، نااتفاقی
103۔ نیکِ سگالان: نیک سگال کی جمع، خیرخواہ
104۔ اَشہب: سیاہی مائل سپید رنگ کا گھوڑا، سبزہ (اردو لغت)
105۔ جَولاں: دوڑ، کود پھاند
106۔ خدیو: شاہ مصر کا لقب تھا، بادشاہ، مالک
107۔ کِیاست: دانائی
108۔ اِستصواب: مشورہ لینا، صلاح لینا
109۔ (الف) اَبدہ: منتخب، چنندہ
 

محمد عمر

لائبریرین
301

۱۷۱: مسبب الاسباب: سبب پیدا کرنے والا یعنی خدا

۱۷۲: فروغ : روشنی، چمک

۱۷۳: مَہروَرزی: دوستی، عاشقی

۱۷۴: شب زندہ دار: رات بھر جاگنے والا، متقی، عابد

۱۷۵: ساحت: احاطہ، میدان

۱۷۶: خُورجین: وہ تھیلا جو گھوڑی کی پیٹھ پر ضروری اسباب وغیرہ کے واسطے باندھ دیتے ہیں، خرجی ، خرجین

۱۷۷: مستفر: پوچھنے والا، استفسار کرنے والا

۱۷۸: سُویدا: وہ سیاہ نقطہ جو انسان کے دل پر رہتا ہے۔

۱۷۹: سیمیں : چاندی جیسا

۱۸۰: گُلبانگ: خوش خبری

۱۸۱: بَسان گل: پھول کی مانند

۱۸۲: على الاطلاق : بلا شرط

۱۸۳: خَدنگ: تیر

۱۸۴: کلبۂ اَحزاں: ماتم کدہ

۱۸۵: قُدوم میمنت لزوم: ایسا آنا جس سے برکت ہو

۱۸۶: یَراق: اسباب، سامان

۱۸۷: مُرخَّص: رخصت کیا گیا

۱۸۸: قاقُم: نیولے کے خاندان کا سفید بالوں والا سنجاب کی قسم کا جانور، جس کی کھال پوستین بنانے کے کام آتی ہے۔ بہت گرم ہوتی ہے۔

۱۸۹ گُلعَذار: پھول جیسے رخساروں والا، خوبصورت


302


۱۹۰: غَبغَب: ٹھوڑی کے نیچے کا لٹکا ہوا گوشت

۱۹۱: اللہ مَعَک: اللہ تیرے ساتھ ہے

۱۹۲: بہ مقتضا: کے مطابق، کے رو سے

۱۹۳: اِسترضا: رضامندی پوچھنا

۱۹۴: اَثاثُ البیت: اسباب خانہ داری، گھر کا سامان

۱۹۵: اِنتِقاع: منافع، آمدنی، محاصل

۱۹۶: تَفَقَّد: مہربانی، دلجوئی، توجہ، پر کشش

۱۹۷: عہدہ برآ ہونا: وعدہ وفا کرنا، اقرار پورا کرنا

۱۹۸: عُطارِد: ایک ستارہ کا نام، دبیر فلک

۱۹۹: سیاہہ نویسی: کچا کھاتہ

۲۰۰: پُشت دَوتا: دُہری کمر، لس کی پیٹھ خمیدہ ہو

۲۰۱: پھٹیا: سر سے باندھنے کا چھوٹا دوپٹہ، ، چھوٹی پگڑی، سر پیچ صافہ

۲۰۲: تورہ پوش: بانس کی تیلیوں کا سر پوش، جوتورے کے خوانوں پر رکھتے ہیں۔ تورا ، تورہ: مختلف کھانوں کا ایک خوان یا کئی خوان، جو امرا کے یہاں شادی وغیرہ کے موقعوں پر اقارب اور خاص احباب کے گھر بھیجے جاتے تھے۔ تورہ پوش بانس سے بنا ہوا وہ خوان پوش جس سے تورے کے خوان کو ڈھانکتے تھے۔ اس پر کار چوبی کام کا غلاف پڑا ہوتا تھا۔

۲۰۳: بِالفعل: اب، اس وقت

۲۰۴: اَگِرہ: گرہ نہ کھلنا۔

۲۰5: بَسان ہالہ: ہالہ کی مانند


303


۲۰۶: مَودَّت: پیار، محبت ، خوشی

۲۰۷: جَانِبین: دونوں مقابل شخص

۲۰۸: پرچاؤنی: بہلانا، پھسلانا

۲۰۹: نَزاہت: بری باتوں سے دور رہنا، عیب سے پاک ہونا

۲۱۰: مقصر: قصور کرنے والا

۲۱۱: نوشانُوش: پے در پے پینا

۲۱۲: رَخت: اسباب، سامان

۲۱۳: رُوب: جھاڑ پونچھ

۲۱۴: مُخدارات: مخدّر کی جمع، پردہ نشین عورتیں

۲۱۵: سَقَف: چھت، شامیانہ

۲۱۶: بھدڈریا: جمع بھنڈریے، (ہندو) گرہن کے موقع پر اناج کی خیرات یا دان دیتے لینے والے (اردو لغت)

۲۱۷: نِپٹ: محض، بالکل، نرا، تماا، پوری طرح سے

۲۱۸: تَنک: چھوٹا، ذرا سا

۲۱۹: اَولک: رشید حسن خان نے اس لفظ کے بارے میں لکھا ہے:اولک: اس لفظ کے قطعی معنی میں معلوم نہ کر سکا۔ بہ ظاہر بھگت کی طرح، ہولی کے کسی سوانگ یا گانے بجانے کےایسے ہی کسی جلسے کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔ انتخاب سودا: تصحیح و ترتیب رشید حسن خاں مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، ۱۹۹۳ ص ۳۹۲

۲۲۰: مُغبچَہ: خوبصورت لڑکا

۲۲۱: گَلیم: کمبل، اونی کپڑا


304


۲۲۲: تاخُت: تباہی ،لوٹ

۲۲۳: مُخلّا: خالی کیا گیا، آزاد کیا گیا

۲۲۴: صُومَعہ دار : عیسائیوں کا راہب

۲۲۵: مَشاط: وہ عورت جو عورتوں کا بناؤ سنگار کرے / وہ عورت جو نسبت تلاش کرے اور شادی کرائے۔

۲۲۶: شَبّو : ایک قسم کا سفید پھول جس میں بھینی بھینی خوشبو آتی ہے اور رات کی قریب کجلتا ہے۔

۲۲۷: بہ مجرد: (کسی بات کے ) وقوع میں آتے ہی فوراً

۲۲۸: تصدق ہونا : نچھاور ہونا

۲۲۹: مُلْتَہت: بھڑکا ہوا، بھڑکانے والا

۲۳۰: ناقہ : اونٹنی، سانڈنی

۲۳۱: بے خواب و خور/ بے خرر و خواب: : بے بقرار، وہ جو کھائے نہ سوئے، بے چین، بے آرام

۲۳۲: فَصّاد: جراح

۲۳۳: اَكل و شرب: کھانا پینا

۲۳۴: مَذْبُوحی: ذبح کیا ہوا

۲۳۵: مُنْطَفِی: بجھنے والا

۲۳۶: پرسیاؤ شان: ایک قسم کی گھاس، بالچھڑ (اردو لغت)

۲۳۷: ذَقن: ٹھوڑی، ٹھڈّی

۲۳۸: حَجر الیَہٌود : ایک قسم کا پتھر جو زخموں کے بھرنے کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے اور بطور دوائی استعمال کرتے ہیں۔

۲۳۹: فِندَق: ایک ولایتی میوہ نہایت سرخ اور جھاڑی کے بیر کے برابر ہوتا ہے



305

۲۴۰: سَقَنقور: ایک قسم کا رینگنے والا ریگستانی جانور

۲۴۱: ساق: پنڈلی، درخت کا کانٹا

۲۴۲: مُداومَت: ہمیشگی، دوام

۲۴۳: الخاموشی نیم رضا: : چپ رہنے میں بھی ایک طرح کی رضامندی پائی جاتی ہے۔

۲۴۴: سِر: بھید، راز

۲۴۵: مُتعزِّرت: عذر کرنے والا

۲۴۶: نفس الامر: در حقیقت، فی نفسہ

۲۴۷: مَخطور: اندیش کیا گیا

۲۴۸: دُرریز: موتی بکھیرنے والا

۲۴۹: مِشکوے خلافت: : امیروں اور بادشاہوں کا محل

۲۵۰: مُباعَدت: دوری، مفارقت

۲۵۱: کَلبہ: چھوٹا سا گھر، گوشہ

۲۵۲: تیرہ روز: بد قسمت

۲۵۳: تَگاپو: تگ و دو، دوڑ دھوپ

۲۵۴: قَصایا: : اتفاقاً

۲۵۵: ورق الخیال: : بھنگ

۲۵۶: مُسْتَمَرّہ: استوار، رواں، دائم ، پیوستہ، پیشۂ دائمی

۲۵۷: ہَزل و اِستہزاء: مذاق اڑانا، بیہودگی

۲۵۸: تفحص: تلاش جستجو

۲۵۹: کِسوَت: لباس

۲۶۰: مُجوِّز: رائے دینے والا

۲۶۱: بروفق مقصود: حسب مراد


306


۲۶۲: مایَحتاج: وہ شئے جس کی طرف انسان کو حاجت پڑتی ہے، ضروریات

۲۶۳: چاردانگ: تمام دنیا

۲۶۴: بادۂ نوم: خواب آور شراب

۲۶۵: قُلّابہ: حلقہ، کنڈا، کڑی

۲۶۶: خان و مان : گھر کا مال و اسباب

۲۶۷ : طُرفۃ العین: : ذرا سی دیر میں، پلک جھپکتے ہی

۲۶۸: تقصیر وار: قصوروار

۲۶۹: آستانۂ دولت: : چوکھٹ

۲۷۰: جگ نہ پھوٹے: : اصل میں جگ پھوٹنا یا جگ ٹوٹنا ایک محاورہ ہے جس کے معنی ہیں: چوسر میں دو گوٹوں کا جدا ہونا، پھوٹ پڑ جاتا ، نااتفاقی ہو جانا۔

۲۷۱: مُشَخَّص: تجویز کیا گیا، تشخیص کیا ہوا

۲۷۲: تَدرَو : چکور کی طرح ایک نہایت خوب صورت اور خوش رفتار پرندہ جو ایران کے جنگل میں پایا جاتا ہے۔

۲۷۳: کار پردازان: : کارندے، کام کرنے والے

۲۷۴: بِینجنی: سیاہ مائل بہ سرخی بینگن کے رنگ

۲۷۵: گلابی: شراب کا پیالہ

۲۷۶: ڈول : ڈھنگ، طریقہ

۲۷۷: مُروَّق : صاف کیا ہوا، خالص

۲۷۸: سلسلۂ جُنباں : بات نکالنے والا

۲۷۹: تَقاطُر: بوندا باندی


307

۲۸۰: شَقائق: گل لالہ۔ اس کا مفرد بھی اور جمع بھی یہی ہے۔ کبھی مجازاً مطلقاً پھولوں کے لیے بھی آتا ہے۔

۲۸۱: وَصلچہ: ٹکڑا، پارہ

۲۸۲: اَرژنگ: چین کے مشہور مصور مانی کی شاہکار تصاویر کا مرقع

۲۸۳: آئینۂ حَلَبی: ملک شام کے مشہور شہر حلب کے بنے ہوئے آئینے جو پرانے زمانے میں بہت مشہور تھے اور اعلیٰ درجے کے مانے جاتے تھے۔

۲۸۴: بُستان اِرم: ارم کا باغ، بستان۔ بوستاں کا مخفف، باغ، مجازاً باغ بہشت۔ ارم: عرب کے شہر عدن میں شداد (نسل عاد) کی بنوائی ہوئی جنت (جسے اس نے نہایت عالی شان، خوب صورت، آرام دہ عمارتوں اور دلکش و رنگین باغات وغیرہ سے آراستہ کیا تھا اور اس کی نظر میں یہ خدا تعالیٰ کی جنت کا جواب تھا۔

۲۸۵: گھونگھچی: اسے بھوچینی بھی کہتے ہیں، ایک طرح کا پھول دار درخت ہے، از قسم چنار

۲۸۶: رِیاحین: ریحان کی جمع، خوشبو دار گھاس

۲۸۷: ہوائی: ایک قسم کی آتش بازی

۲۸۸: غُرّش: ناراض ہونا، غرانا

۲۸۹: صُم بکم: گونگا، بہرا، خاموش

۲۹۰: نَوشہ: دولہا

۲۹۱: مُقّیش: سونے چاندی کے تار، زری، بادلہ

۲۹۲: کُسُوف: سورج گرہن


308

۲۹۳: مُنَغَّض: کدر، رنجیدہ

۲۹۴: زاغ: کوا

۲۹۵: نفسِ اَمّارہ: : انسان کی وہ خواہش جو برائی کی طرف مائل کرے

۲۹۶: حَلقُوم: گلا، ٹینٹوا

۲۹۷: رنڈی: عورت

۲۹۸: عِشوہ سازی: ناز معشوقانہ

۲۹۹ : چِبلّا: شرارتی

۳۰۰: کَنیزک: کنیز کی تصغیر

۳۰۱: دھتورا: : ایک طرح کا پودا جس کا بیج نشہ آور ہوتا ہے

۳۰۲: مَکر و تَزویر : مکر، فریب

۳۰۳: دُزد: چور

۳۰۴: اَرغواں: : مہین شاخوں اور سرخ بنفشی پھولوں کا ایک ایرانی پودے کا پول (اردو لغت)

۳۰۵: مَرنج مرَنجاں: : نہ کی اور کو رنجیدہ کرو نہ خود رنجیدہ ہو۔

۳۰۶: حَبل المَتِین : مضبوط رسی، محکم وسیلہ، مجازاً قرآن شریف

۳۰۷: شُوّہ : وہ رقعہ جو بادشاہ اپنے امراء کو کسی ضروری امر کے لیے لکھے۔ خط

۳۰۸ : بَجِد : اصرار کرنا

۳۰۹: مَقرُون: نزدیک کیا ہوا، ملایا ہوا، پاس، قریب

۳۱۰: اَیّام سَلف: گزرے ہوئے دن

۳۱۱: مُعاودَت: لوٹ آنا، واپسی

۳۱۲: محجوبی: حجاب کیا ہوا، پوشیدہ


309

۳۱۳: کِلک: تمیز و سالم بناتے ہیں۔

۳۱۴: سیہ بخت: بد نخت

۳۱۵: مافات: کو گزر گیا

۳۱۶: عَطوفت: مہربانی، عنایت، شفقت

۳۱۷: صغر سن: کم عمری

۳۱۸: فِراسِ سپہر: آسمان

۳۱۹: اَسپک: بڑا خیمہ، ڈیرا، خرگاہ۔

۳۲۰: اِستادہ: کھڑا ہوا

۳۲۱ : تَقّید: تنبیہ، تاکید

۳۲۲: کمیں دار: گھات لگانے والے

۳۲۳: قِلماق: پہرے دار

۳۲۴: گوئے: گیند

۳۲۵: سَوابق: سابقہ کی جمع، گزشتہ زمانے کے

۳۲۶: کَزلک: تیز چھری

۳۲۷: اِغماض: در گزر، چشم پوشی

۳۲۸: بادپا: ہوا کی طرح تیز چلنے والا، کنایہً گھوڑا

۳۲۹: گلگوں: گلاب کی طرح

۳۳۰: صَنع: کاری گری

۳۳۱: عِناں: لگام، باگ ڈور

۳۳۲: باج: خراج، محصول، مالگزاری

۳۳۳: شَب دیز: سیاہ رنگ کا گھوڑا، مشکی گھوڑا

۳۳۴: شب رنگ: سیاہ رنگ کا گھوڑا تاریک سیاہ


310


۳۳۵ : کَمیّت : سیاہی مائل سرخ رنگ کا گھوڑا

۳۳۶: مَسامِع: مسمع کی جمو جس کے معنی کان کے ہیں۔

۳۳۷: دِہ: گہرا پانی

۳۳۸: سپہر بہ مہر: بے رحم آسمان

۳۳۹: اَفعی: ایک قسم کا زہریلا سانپ

۳۴۰: گزند: صدمہ، تکلیف

۳۴۱: نُقل: شراب کے اوپر کھانے کی چیز، مثل کباب، میوہ، گزک وغیرہ

۳۴۲: خربوں: معشوقوں

۳۴۳: تَلوّن: رنگ بدلنا

۳۴۴: زَہرہ: ایک سیارہ کا نام، زہرہ آب ہونا ایک محاورہ بھی ہے جس کے معنی حوصلہ پست ہونا یا رعب اور خوف طاری ہونا کے ہوتے ہیں۔

۳۴۵: خار مُغیلاں: ببول کے کانٹے

۳۴۶: سَرشک: آنسو

۳۴۷: ریزش: زکام، نزلہ، ناک بہنا، جھڑنا

۳۴۸: اِستیلا: غلبہ، غالب ہونا، تسلط

۳۴۹: مَفقون: عاشق:

۳۵۰: قُلۂ کوہ : پہاڑ کی چوٹی

۳۵۱: مَرزُ بوم: پیدائش کی جگہ

۳۵۲: فتح الباب: آغاز، ابتدا

۳۵۳: شبِ دیجور: اندھیری رات

۳۵۴: کُلبۂ احزاں: غموں کا گھر، ماتم کدہ


311


۳۵۵: اِصغا: غور سے سننا، کان لگا کر سننا

۳۵۶: اِستِماع : غور سے سننا

۳۵۷: شِیوَن: شبون(غم، نوحہ)

۳۵۸: شہریاری : بادشاہت

۳۵۹: اَتالِیقان: اتالیق کی جمع، استاد

۳۶۰: کِشور کُشا : بادشاہ

۳۶۱: فَروگُذاشت : بھول، خطا

۳۶۲: مَعاش: : زندگی گزارنے کے لیے آمدنی کا ذریعہ

۳۶۳: تمتّع: فائدہ اٹھانا، نفع حاصل کرنا

۳۶۴: فِطنت: زیرکی، دانائی، عقلمندی

۳۶۵: مُنازَعت: جھگڑا، بحث

۳۶۶: کَرم جِبِلّی : فطری سخاوت

۳۶۷: مُستواری: پوشیدہ ہونے والا، چھپنے والا

۳۶۸: اِذن عام: عام اجازت، اعلان

۳۶۹: ہَیزَم کَشی : سوکھی لکڑی یا جلانے کی لکڑی بیچنے کا کام

۳۷۰: واژوٗں: اوندھا، منحوس

۳۷1: وَرطَہ: ہلاکت کا مقام، جان جوکھوں کی جگہ

۳۷۲: مُل: شراب، مے، بادہ

۳۷۳: دُوٗں: کم ہمتی

۳۷۴: مَگَس: شہد کی مکھی

۳۷۵: مخیّر: فیاض

۳۷۶: زَجر و تَوبیخ: ڈانٹ ڈپٹ، لعنت ملامت


312


۳۷۷: حَارِص: حارص؛ حریص، لالچی

۳۷۸: پاپوش کاری : جوتیاں پڑتا

۳۷۹: تونبی: اندر سے خالی اور خشک کیا ہوا کدو جو مختلف چیزوں کے رکھنے کے کام آتا ہے، عموماً فقرا اس کے چھاگل یا کشکول بنا لیتے ہیں۔ (اردو لغت)

۳۸۰: گلاونت: مغنّی، گویّا

۳۸۱: بَدھاوا: خوشی کی تقریب کا شادیانہ، باجا گاجا (اردو لغت)

۳۸۲: تونبا: ایک قسم کا کدوئے تلخ جس کو اندر سے خالی کر کے فقیر کشکول بناتے ہیں۔

۳۸۳: جوو: سخاوت، کرم

۳۸۴: جلیس: ساتھی

۳۸۵: نُجَبا: نجیب کی جمع، شریف لوگ، خاندانی لوگ

۳۸۶: واہب: بخشنے والا

۳۸۷: بَذل و نَوال: بذل (انعام)، نوال (مہربانی)، انعام و اکرام

۳۸۸ : عُلوہمتی : بلند ہمت

۳۸۹: مَدارکار: کام کا انحصار، موقوف الیہ

۳۹۰: فُتُّوت: سخاوت، مروت، مردانگی، جواں مردی

۳۹۱: لجّہ: دریا، ندی

۳۹۲: اِنقیاد: اطاعت، فرماں برداری

۳۹۳: حق پِژدہ: سچ کا طالب

۳۹۴: غاشیہ : ڈھانکنے والی چیز، قیمتی فرش، پردہ، زین پوش

۳۹۵: تدقیق: غور و فکر کرنا


313


۳۹۶: سُفرہ: دسترخوان

۳۹۷: نمش: دورھ کے جھاگ جن میں مصری ڈال کر کھاتے ہیں۔

۳۹۸: مَغفوری: چین کے بنے ہوئے (برتن)

۳۹۹: بِلّوری: بلور کی بنی ہوئی۔ بلّور بمعنی ایک چمک دار معدنی جوہر کا نام، صاف شفاف

۴۰۰: ناظورہ: نظر سے گزرا ہوا

۴۰۱: حصِیر: بوریا، چٹائی

۴۰۲: حَریر: ریشمی کپڑا

۴۰۳: دَلق: گدڑی، پشمینے کا لباس جو درویش پہنتے ہیں۔

۴۰۴: خوشتر: بہت اچھا

۴۰۵: مُکابرہ: شیخی مارنا، بڑائی جتانا

۴۰۶: مُلمّع: روشن کیا گیا

۴۰۷: اَحیانا: اتفاقاً، بھولے سے

۴۰۸: دارُ المُعمور: آباد گھر:

۴۰۹: رَخوت: رخت کی جمع بمعنی اسباب، سامان

۴۱۰: لآلی: لولو کی جمع بمعنی موتی، مروارید

۴۱۱: مَوفور: بکثرت، زیادہ

۴۱۲: اَوضاع: وضع کی جمع، ڈھنگ، طریقے، افعال و کردار

۴۱۳: مَذَلّت: رسوائی، بدنامی

۴۱۴: مقرون: قریب، نزدیک

۴۱۵: مُشارٌ الیہ: جس کی طرف اشارہ کیا جائے۔

۴۱۶: تعہد: وعدہ، عہد نامہ


314

۴۱۷: سَریع السیر: جلد سفر کرنے والا

۴۱۸: مَینو مُشاکِل: بہشت کے مانند

۴۱۹: پَریدار: واضع، روشن

۴۲۰: کَیواں: ستارہ زحل، جو ساتویں آسمان پر ہے۔ مجازاً ساتواں آسمان

۴۲۱: ہِرزہ گردی: آوارہ گردی

۴۲۲: جَلو: باگ، لگام

۴۲۳: تَملّق: چاپلوسی، خوشامد

۴۲۴: مُواصَلت: مباشرت

۴۲۵: عقد ہمالایخل : اہ پے چیدہ مسئلہ جو حل نہ ہو

۴۲۶: استماع: سننا

۴۲۷: صَبیح: گورا، خوبصورت

۴۲۸: لُعْبَت : لعبتان لعبت کی جمع ہے جس کے معنی کھلونا، کھیلنے کی چیز کے ہوتے ہیں، اور اس کپڑے کی گڑیا کو کہتے ہیں جس سے لڑکیاں کھیلتی ہیں۔

۴۲۹: لحن داؤدی: حضرت داؤد کی آواز جو سریلے پن کی وجہ سے مشہور ہے، سریلی آواز

۴۳۰: کوئے و بَرزن: گلی، کوچے

۴۳۱: مطبوع: پسندیدہ

۴۳۲: صندلی: کرسی

۴۳۳: مَرجَع: جائے رجوع، لوٹنے کی جگہ، امیدوں اور خواہشوں کی جائے پناہ

۴۳۴: اَمل: امید، جمع آمال


315

۴۳۵: اَمانی: آرزو، امید

۴۳۶: پَرنیاں: ایک قسم کا پھول دار ریشمی کپڑا، دیبا

۴۳۷: سُمور: ایک پشم والا برفانی جانور۔ سامنے

۴۳۸: زَنجاب: چوہے سے ذرا بڑا جانور جس کی ملائم پشم دار کھال کی پوستین بناتے ہیں۔

۴۳۹: چوگھڑا: چار خانوں کا سونے یا چاندی خواہ تانبے وغیرہ کا بکس

۴۴۰: چنگیر: پھولوں کی ٹوکری

۴۴۱: چلمی: ہاتھ منہ دھونے کا برتن، طشت

۴۴۲: آفتابہ: ایک قسم کا دستہ دار لوٹا، اس میں گرم پانی لے کر ہاتھ منہ دھوتے یا دھلاتے ہیں۔

۴۴۳: مَرعی: رعایت کیا گیا۔ عائد کیا گیا

۴۴۴: مآثر: اچھے آثار، نشانیاں

۴۴۵: مامُوٗرہ: مقرر، متعین

۴۴۶: لماں: روشن

۴۴۷: پَرّاں: اڑنے والا

۴۴۸: مَنصّہ: کسی چیز کے ظاہر ہونے کی جگہ

۴۴۹: مُتواصِل : ملا ہوا۔ آپس میں

۴۵۰: مُستوجب : واجب کرنے والا، سزا وار

۴۵۱: مار: سانپ:

۴۵۲: چوب: لکڑی

۴۵۳: گُرسنہ: بھوکا

۲۵۴ : خُموٗل: گمنامی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 298
109۔ (ب) توام: جڑواں بچہ، جوڑواں
110۔ تلشیم: چومنا، بوسہ لینا
111۔ سریر: شاہی تخت
112۔ نائرہ: شعلہ، لپٹ
113۔ تَصَدق: صدقہ، خیرات
114۔ سرنوشت: تقدیر
115۔ قَریب الاِنقضاء: مدت پوری ہونے کے قریب
116۔ ذوالخزدان: صاحب عقل و فہم
117۔ گوئے سبقت: غالب آنا، بڑھ جانا
118۔ فَسخ: ارادہ منسوخ ہونا
119۔ دوں ہمت: کم ہمت
120۔ طَوف: طواف کرنا، گرد پھرنا
121۔ کاف رعایا: سبھی لوگ
122۔ رِتق و رِقق: بست و کشاد
123۔ بَہجت: مسرت، شادمانی
124۔ خُسرو: مجازاً ہر ایک بادشاہ
125۔ وَالاحَبار: عالی خاندان
126۔ مَحک: کسوٹی، وہ سیاہ پتھر جس پر چاندی پرکھا جاتا ہے۔
127۔ طَلائے ناب: خالص سونا
128۔ گُللونہ: ایک قسم کے سرخ کا غازہ جو عورتیں اپنے چہرے پر ملا کرتی ہیں (ابٹن)
129۔ سَحاب: بادل
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 299

130۔ گنبد و دار سپہر: مراد آسمان سے ہے۔
131۔ صَفیر: پرندوں کی آواز
132۔ نَفیر: شہنائی کی آواز کی طرح تیز آواز
133۔ مراحِم: مرحمت کی جمع، مہربانیاں
134۔ رفاہت: خوشی، آرام، تن آسانی
135۔ خَجستہ: مبارک
136۔ بسط: کشادگی
137۔ اِستِعَاد: سعادت حاصل کرنا، نیکی چاہنا، برکت یا خوش بختی حاصل کرنا
138۔ مُنقضی: گزرا ہوا، گزشتہ
139۔ مَعبُود: عہد کیا گیا، پیمان کیا
140۔ شَب یمانی: پھٹکری
141۔ لاہوت: سلوک کا وہ مقام جہاں فنا فی اللہ کا درجہ ہے۔
142۔ اِسِکشاف: کسی چیز کے اظہار یا انکشاف کی خواہش، طلب وضاحت
143۔ مَیمنت: مبارک
144۔ سرگشتہ: حیران، بھٹکا ہوا
145۔ بادیہ: جنگل
146۔ فِتن: فتنہ کی جمع، آفت، بلا
147۔ حِین حیات: دوران زندگی، جاہلیت، جیتے جی
148۔ اِبتہباج: خوشی کی حالت، لطف اندوزی
149۔ تیرہ بخت: بدقسمت
150۔ شَب یلدا: سخت تاریک رات
 
Top