پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۹

سے دست طلب کا کھولتا ہوا آیا۔ پھر میں نے اس حرکت سے اغماض کر کے اور جو کچھ توفیق ہوئی نثار کیا۔ اسی طور سے اس نے ہر ایک در سے آنا شروع کیا۔ بندے نے دامن آرزو اُس کی کے تئیں بذل و نوال سے مالا مال کیا۔ بعد ازاں اُس نے پھر دروازہ اول سے گزر کر کے لب سوال کا کھولا۔ میرے تئیں یہ حرکت باعث گرانی خاطر کی ہوئی اور اُس قلندر سے کہا کہ اے حریص جہاں گرد خزانہ وقف کا واسطے حاجت روائی محتاجوں اور حصول مقصد مسکینوں کے مقرر کیا ہے، نہ واسطے تجھ سے بو الفضول بد روزگار و طامعِ زر بیشمار کے لیے کہ اب حیا کا چشمہ توکل سے ٹپکا کے چشمۂ قناعت کا خس و خاشاک، ہوا و حرص کے سے مکدر کیے پھرتا ہے استغفر اللہ وہ بھی درویش ہے کہ التکلِیف حرام سے خبر نہ رکتھا ہو، درویش اس بات سے نہایت بد دماغ و پریشان خاطر ہو کے جو کچھ مجھ سے پایا تھا، زمین پر پٹکإ کر بولا۔ بابا گرم کیوں ہوتا ہے؟ "عطائے توبہ لقائے تو بخشیدم" لیکن یہ یاد رکھیو کہ سخاوت کی طرف سے تکلف برطرف، ہنوز دلی دور ہے۔ آئندہ زینہار رقم سخاوت و علو ہمتی اپنی کا اوپر جریدۂ روزگار کے نہ لکھنا کہ السخِی حبِیب اللہِ ولو کان فاسِقا کا وصف کوئی بادشاہ زادی بصرہ کی سے سیکھے کہ تشریف سخاوت و مروت کا کس مرتبہ اپنے قامت پر راست کیا ہے۔ پھر میں نے ہر چند زبان معذرت کھولی اور قسم یاد دے کر کہا کہ جو کچھ چاہے حاضر ہے، ہرگز قبول نہ کیا، اور آخر کلام یہ کہہ کے چلا کہ اب اگر سلطنت بخشے تو یہاں اِستغنا سے تُف نہ کروں؂

گو کہ اب دل میں سمجھ کر کے تو پچھتاوے گا
پر مرے دل کو تو زنہار نہیں پاوے گا
کفِ افسوس کو ملتا ہی تو رہ جاوے گا
جو دل اس بات گیا ہاتھ نہ پھر آوے گا
می روم اش درِ تو باز بہ تورؤ نہ کُنم
گر درت قبلہ شود سجدہ بہ آں سؤنہ کُنم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۰

میرے تئیں اُسی وقت سے اشتیاق مُشاہدہ جمال شہزادی بصرہ کا سلسلہ جُنباں ہوا۔ ہر چند اس عاجز نے وزرائے روشن ضمیر و امرائے صاحب تدبیر سے کہ ظہیر سر پر سلطنت و مشیر تدبیر مملکت کے تھے، اجازت سفر بصرہ کی چاہی، کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ لاچار ایک روز بے اطلاع سب ارکانِ خلافت کے مدارکار سلطنت و مملکت محروسہ کا اوپر رائے زریں ایک وزیر درست تدبیر کے چھوڑ کر لباس درویشی کا بہ موجب شعر مرزا جلالی اسیرؔ کے ؂

خرقہ پوشی ست خود نمائی نیست
عشق بازی ست میرزائی نیست

اوپر اپنے آراستہ کر کے قدم تردد کا بیچ راہ سیاحت کے رکھا۔ تھوڑے عرصہ میں طے مسافت بعید کا کر کے بیچ سرحد ملک بصرہ کے پہنچا۔ اُس دیار میں بیچ جس منزل اور مقام کے وارد ہوتا، ملازم اُس کے مراسم استقبال و احترام کے بجا لا کے کوئی دقیقہ مراتب دلنوازی و مہمانداری و لوازم دلجوئی و حاجت براری کے سے فروگزاشت نہ کرتے، غرض اسی صورت چلتے چلتے، بیچ دار السلطنت بصرہ کے پہنچا وہاں ایک جوان خوش رو، چار ابرو، زیبا طلعت، خجستہ خصلت، نیکو منظر، سیاح پرور، خا،ِ رخسار مروت، گلگونِ چہرۂ فتوت، کتابِ دبستانِ سخنوری و سخندانی، سمعِ شبستاں کام بخشی کا کامرانی، جو ہر معدنِ جود و سخا، گوہر، لُجہ حِلم و حیا، بیدار بخت نامی میرے ساتھ دو چار ہوا اور زبان شیریں سے گویائی کے تئیں، اس طور فے حلاوت بخشی کہ یہ خادم الفُقراء مدت سے طلب گار، صحبت درویشوں کا ہو کے حلقۂ اِنزِیاد و اطاعت اس گروہ حق پژوہ کا بیچ گوش کے اور غاشیۂ اعتقاد واردات اس فریق ارباب تدقیق کا اوپر دوش کے رکھتا ہے، اگر کلبۂ اِحزان میرے کے تئیں مقدم شریف سے رشک افزا گلستانِ ارم کا کیجیے تو بعید عاجز نوازی و خادم پروری سے نہیں؂
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۱

گر لطف سے قدم رکھو میرے مکاں تلک
پہنچے یہ فرق فخر مرا فرق واں تلک
کیا نقص فیض عام میں خورشید کے ہو گر
ذرہ ہو جس کی تاب سے تاباں یہاں تلک

بارے یہ عاجز، بعد مبالغہ بسیار کے بیچ مہمان خانہ اُس نیک سرشت کے حاضر ہوا، چنانچہ اس عزیز نے کمال تکلف سے سامان ضیافت کا مہیا کر کے سُفرہ دعوت کا آراستہ کیا اور انواع طعام ہائے لذیذ و خوشگوار و اقسام شیرینی ہائے حلاوت بخش و چاشنی دارو اصناف شربت ہائے گلاب و بید مشک و گوناگون میوہ ہائے تر و خشک وغیرہ و لوازمہ اکل و شُرب از قسم نان یزدی و نان ورقی و نان تنکی و نان پنیری و نان خمیری و نان باقر خانی و گاؤ زبان و گاؤ دیدہ آبی و روغنی و خطائی و شیر مال و نان گُلدار، قلیہ دو پیازہ، نرگسی و شیرازی و زعفرانی و بادامی، کباب، قلیہ، کوفتہ، خاگینہ، ملغوبہ، پن بھتہ، بورانی ، بریانی نور محلی و خراسانی، رومی، تبریزی ، وشب دیگ، دم پخت، خشکہ و مزعفر و شالا و متنجن پلاؤ و قورمہ پلاؤ ویخنی پلاؤ و حبشی پلاؤ و بیگمی، چاشنی، عنبری، کاشانی و ماہی کباب و مرغ کباب و سیخ کباب و بیضہ کباب و حلیم و حریسہ و سموسہ و قبولی و طاہری و کھچڑی و فرنی و ملائی و حلوا و فالودہ و نمش، قندی بامشک نافہ، وساقِ عروس و لوزیات، اچار، مربے، ناشپاتی، بہی، انگور، انجیر، سیب، انار، کشمش، بادام، چھوہارے، پستے وغیرہ اغذیہ و اشربا قسم قسم کے کہ جن کی چاشنی کی حلاوت اور ذائقہ سے ارواح فرشتوں کی بھی تر و تازہ ہو جاوے انسان کا تو کیا ذکر ہے، نہایت سلیقہ و کاروانی سے بیچ ظروف مرصع کاری و مینا سازی و طلائی و نقرئی و غوری و فغفوری و چینی و خطائی و حلبی و بلوری کے لا کر چُنے۔ میرے تئیں کہ آٹش اِشتہا کی بیچ دل کے مشتعل تھی، غذا ہائے لطیف سے فرو ہو گئی۔ جس وقت میزبان آفتاب کا بیچ میہماں سرائے تحت الثراٰ کے رونق افزا ہوا، اور ناظورہ شب کی نے گیسوئے مشک فام اپنے کے تئیں اوپر رخسارہ گیتی کے دراز کیا، اُسی جوان زیبا طلعت نے میر تئیں اوپر بستر نفیس و نرم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۲

کے کہ ملائم ترورقِ گل سے تھا، اشارہ استراحت کا کیا۔ تب میں نے کہا کہ از برائے خدا اس تکلف سے درگزر، میری تئیں سجادہ حصیر کا بہتر مسند حریر سے ہے اور دلق کہنہ ناتوانوں کا خوشتر ہے کسوت لطیف بادشاہوں کے سے، بہ مضمون اس کے؂

سریر سلطنت سے آستانِ یار بہتر ہے
مجھے ظِل ہُما سے سایۂ دیوار بہتر ہے

جوان نے کہا کہ جو کچھ اس مکان میں ہے، وقف درویشوں کا ہے، میرا تصرف بیچ اس کے مطلق نہیں۔ چنانچہ تین دن اور تین رات گزرے اور میں نے روز چہارم جس وقت کہ مسافر جہاں پیما آفتاب کا بستاں سرائے مشرق کے سے بر آیا رخصت روانگی کی چاہی۔ در جواب فرمایا کہ اے عزیز مگر بندہ سے کچھ تقصیر صادر ہوئی کہ اوپر طبع شیریں تیری کے تلخ گزری۔ میں نے کہا کہ از برائے خدا اس کا کیا ذکر ہے لیکن بزرگوں نے کہا ہے۔

فرد

مطلب مرد مسافر بہ جہاں دیدار است
ورنہ نعمائے الٰہی بہ جہاں بسیار است

اور ایک مضمون موافق اس کے اوپر پڑھا۔ بیت

دیکھنا ہر صبح اُس رُخسار کا
ہے وٖظیفہ مجھ دلِ بیمار کا

اس کمترین کے تئیں کہ مدنظر اوپر سیاحت اور سفر کے رکھتا ہے، بقول اس کے کہ؂

ماخود بہ گرد دامنِ مردے نہ می رسم
شاید کہ گرد دامن مردے بہ مارسد

اس واسطے رخصت ہونا ضرور ہے۔ کہا کہ خوب، ایک لمحہ صبر کر کہ بیچ جناب پرستاران
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۳

حضور ملکہ کے خبر جاوے اور آپ ارادہ سفر درپیش رکھتے ہیں جو کچھ ازقسم لباس و پوشاک و ظروف و آلات، طلا و نقرہ و جواہر وغیرہ کہ بید اس میہمان خانہ کے ہے تعلق تجھ سے رکھتا ہے۔ بیچ لے جانے اس اسباب کے آمادۂ مستعدرہ۔ تب میں نے کہا کہ استغفر اللہ یہ کون بات چیت ہے۔

فرد

دریا ولیم و دیدۂ معدن دُر است
گردست ماتہی است ولے چشم ما پُراست

اور مطابق اس مضمون کے:

رباعی

گیرم کہ سریرت از بلور و یشم است
سنگش داند ہر آں کہ او را چشم است
ایں مسند قاقم و سمور و سجناب
در دیدۂ بوریانشیناں پشم است

اس آلودگی و آلایس دنیاوی سے کچھ مجھ کو سروکار نہیں۔ اُس عزیز مصر خوبی کے نے کہا کہ اگر ملکہ اس بات کے تئیں سُنے تو اس خادِم الفقراء کو درجہ عزت و اعتبار کے سے ڈال کر واللہ اعلم کس غضب میں گرفتار کرے۔ اگر تو تنہا و بے پروا ہے تو سر بہ ہر بیچ ایک حجرہ کے امانت رکھ، پھر جو چاہے گا سو عمل میں لائیو۔ آخر الامر جو مبالغہ و مُگابرہ جانبیں کا حد سے گزرا بہ موجب مصلحت اور استصواب اُس کے سب اسباب کو لے کر ایک حُجرہ میں سر بہ مہر کر کے، منتظر رخصت کا بیٹھا کہ اتنے میں دیکھتا کیا ہوں کہ ایک خواجہ سرا، سراپا مُلمع بدستیاری عصائے مرصع با چندے خدمتگار دروازے سے در آیا۔ جو نزدیک میرے پہنچا، زبان بیچ تواضؑ و مدارات و دلبری و دلداری کے کھولی اور اس قدر سلوک اور آدمیت خرچ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۴

کی کہ زبان بیان اُس کے سے عاجز و قاصر ہے اور کہا کہ اے عزیز۔ فرد

خوش آمدی و خوش آمد مراز آمدنت
ہزار جان گرامی فدائے ہر قدمت

اگر از راہِ اشفاق اور الطاف کے کلبۂ احزان اس مشتاق کے تئیں نور قدوم بہجت لزوم اپنے کے رشک افزا گلستان ارم کا کریے تو بعید از بندہ نوازی و آشنا پروری سے نہ ہو گا کیونکہ :

فرد

آنکھوں کے اپنے نور کو تیرے قدم تلے
اے نور دیدہ فرش بچھایا نہیں ہنوز

اگر احیانا ملکہ سُنے کہ ایک شخص مسافر اس مکان پر آ کر ، بغیر از تواضع و مدارات کے، رُخ توجہ کا نہ فرمایا اور درگزرا، واللہ کہ زندہ نہ رکھے گی اور بہ انواع شداید گرفتار رنج و مصیبت کاک رے گی اور حقیقت اپنی یہ ہے :

بیت

ماتنک ظرفاں حریف ایں قدر سختی نہ ایم
دانۂ اشکیم مارا گردشِ چشم آسیا ست

اور خواہ مخواہ میرے تئیں، بیچ ایک مکان کے کہ روشن تر آئینۂ ضمیر، صافی نہاداں کے سے تھا، لے گیا اور بہ دستور میزبان اول کے اس مہمان غریب کے تئیں زنداں خانہ فکر و آلام کے سے نکال کر بیچ دارالمعمور عیش و سرور کے سہ شبانہ روز دو وقتہ ہائے عجیب و غریب و فرش و فروش و رخوت ہائے خواب گاہ جمع ہوا تھا فرمایا کہ اس کا تو مالک و مختار ہے۔ میں نے دریافت کرتے ہی اس کلام کے متحیر اور متعجب ہو کر چاہا کہ نقد رخصت کا بیچ کف مراد کے حاصل کروں، اسی عرصے میں خواجہ سرا بولا کہ اے مرد خدا کچھ مطلب اور مُدعا اپنا اظہار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۵

کر کہ حاجت تیری بیچ حضور ملکہ کے عرض کروں۔

فرد

جا کر کہوں میں تیری طرف سیتی ایک ایک
مطلب جُدا، مراد جُدا، مدعا جُدا

میں نے کہا کہ اے عزیز لباس درویشی میں مال دنیا کے سے کیا طلب کروں کہ بغیر استدعا کے میسر ہے۔ مجھ کو ساتھ اس کے کچھ سروکار نہیں، تب اُس نے کہا :

کبت

نکہہ بن کٹا دیکھے، جوگی کن پھٹا دیکھے، سیس بھاری جٹا دیکھے، چھار لائے تن میں
مکھ میں ابول دیکھے، سیورا سر جھول دیکھے، کرت کلول دیکھے، بن کھنڈے بن میں
بیر اور سورد دیکھے، کیتے کُنی اور کوڑ دیکھے، مایا میں اپور دیکھے، پور رہے دھن میں
جنم کے دُکھی دیکھے، ادِانت کے سکھی دیکھے، ایسا کوؤ نہ دیکھے، لو بھر جا کے نہیں من میں

میں نے در جواب اُس کے لآلی شاہوار سخن کے تئیں دُرج وہان سے نکال کر بیچ میدان بیان کے اس طور سے جلوہ نمائش کا دیا کہ ایک رقعہ سر بہ مہر مدعا اپنے کا دیتا ہوں، اگر حضور موفور السرور ملکہ کے پہنچا دے تو بعید اہلیت و جواں مردی سے نہ ہو گا۔ کہا کہ البتہ کیا مضائقہ۔ پس میں نے ایک پرچہ کاغذ کا لے کر بعد از شکر الٰہی و حقوق خدمت لا متناہی کےلکھا کہ :

فرد

جام جہاں نماست ضمیر منیر دوست
اظہار احتیاج در انجاچہ حاجت است

بندہ چند روز برسرِ خوانِ احسان بے پایاں کے مہمان رہا اور جو کچھ خوبی اوضاع و اطوار ملکہ کا سُنا تھا، سو بہ چشم خود دیکھا۔ اب ملازمانِ سرکار فیض آثار کے کہتے ہیں کہ کچھ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۶

مطلب اپنا عرض کر۔ اس واسطے بے تکلف عرض کیا جاتا ہے کہ مال دنیا میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہوں۔ بیچ اپنے مُلک کے تخت سلطنت کے اوپر جلوہ افروز فرمانروا تھا، بہ اِستماع خوبی ہائے ذاتی و صفاتی ملکہ مہر طلعت کے ساتھ بدرقہ شوق کے اپنے تئیں تنِ تنہا یہاں تک لا پہونچایا ہے۔

فرد

شوق مشتاق، آرزو مشتاق، جان مشتاق تست
ایں چنیں ساماں کہ دارد غیر مشتاق شما

اور احوال میرا یہ ہے :

ریختہ

جسے عشق کا تیر کاری لگے
اُسے زندگی جگ میں بھاری لگے
نہ چھوڑے محبت دم مرگ لگ
جسے یار جانی سے یاری لگے
نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے

پس اگر ازراہ نوازش و تلطف کریمانہ کے اس خاکسار کے تئیں خاک مذلت سے اتھا کر اوپر تخت کامرانی کے سرفراز و ممتاز کیجیے گا، تو لائق ہے اس واسطے کہ مستحق و مشتاق ہوں۔

فرد

آرزو دارم کہ خاکِ آں قم
توتیائے چشم سازم دم بہ دم

پیشتر جو کچھ مرضی مبار اقتضا فرماوے، بہتر ہے۔ اگر التماس فدوی کا مقرونِ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۷

اجابت نہ ہو گا تو اس جانِ ناتواں کے تئیں، عشق تیرے میں نثار کر کے کوچہ گردی و صحرا نوردی میں گوئے سبقت کا مجنوں و فرہاد سے لے جائے گا۔؂

ما برفتیم و تو دانی و دل غم خورِ ما
بخت بد تابہ کجا می برد آب و خورِ ما

یہ رقعہ لکھ کر خواجہ سرا کو دیا اور وہ لے گیا۔ بعد ایک لمحے کے میرے تئیں اوپر دروازہ حرم سرا کے طلب کیا، جو بندہ داخل حریم حرم تعظیم کے ہوا، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پیر زن صدسالہ ذی ہوش و باشعور الفربہ خواہ مخواہ مرد آدمی اوپر کرسی زریں کے بیٹھی ہے اور کئی ایک خدمت گار و خواجہ سرا بہ لباس ملوکانہ جواہر میں غرق، دست بستہ روبرو اس کے کھڑے ہیں، میں نے حجر و دیکھنے کے مشار الیہ و معتمد جان کر نہایت ادب سے سلام کیا۔ اُس مادرِ مہربان نے جواب سلام کا دے کر کہا کہ؂

اے جواں بیاد بہ نشیں، خوش آمدی و صفا آوردی
بارے پیغام خواستگاری ملکۂ ما کردی

بندہ اس بات کو سُن کر سرنگوں و خاموش ہو رہا، بعد از ایک ساعت کے کہا کہ اے جوان، ملکہ نے بعد دعا کے فرمایا ہے کہ مجھ کو شوہر کرنے کی عار نہیں ہے۔ اگرچہ تو نے بہ حسب شرع درخواست کی لیکن فخر اپنا بیان کرنا اور باوجود اس خاکساری کے سلطنت سے دم مارنا محض بے جا ہے، کس واسطے کہ بنی آدم سب آپس میں جنسیت رکھتے ہیں۔ بقول آنکہ:

رُباعی

ایں خورد و بزرگاں کہ ہمہ انسانند
در دست زمانہ ہم چو انگشتا نند
امروز اگر بلند و پستی دارند
فردا کہ بخوانند ہمسر یکسانند

مگر بہ موجب فضلنا بعضکم علی بعض کے تفاوت شرافت دین اسلام کی ہے اور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۸

میں بھی ایک مدت سے شوہر کی مشتاق و آرزو مند ہوں۔

بیت

اشتیاقے کہ بہ دیدار تو دارد دلِ من
دلِ من داند و من دانم و داند دلِ من

جس قدر تو مالِ دنیا سے مستغنی و بے پروا ہے، اُسی قدر میں بھی دولت بے شمار کی مالک ہوں کہ یہ دولت بے زوال میری احاطبہ حساب کے سے باہر ہے۔ پر جو بیچ شرع کے ہر ایک عورت کا مہر اور شرطوں پر مقرر ہے، میرے مہر میں ایک شرط ہے، اگر عہدہ برآ ہو سکے تو تعہد اُس کا قبول کر۔ میں نےکہا، سُننے سے معلوم ہو کہ یہ کای شرط ہے۔ فرمایا کہ آج تومہمان ہمارا رہے، بعد ازاں اظہار کیا جائے گا۔

القصہ جس وقت سیاح جہاں پما آفتاب کا قطع مسافت گیتی کا کر کے بیچ آرام گاہ منزل مغرب کے پہنچا اور مسافر سریعی السیر ماہ کا منزل گاہ مشرق کے سے برآمد ہو کے روانہ منزل مقصود کا ہوا، میرے تئیں بیچ حریم حرم تعظیم کے لے گئے اور اوپر فرش مُکلف کے بٹھلایا، اتنے میں ریش سفیدان و اکابِران ملکہ کے آن کر بیچ صحبت میرے کے بیٹھے اور خوان دوت کا آراستہ کیا، بعد فراغ طعام کے ایک لمحہ کے بعد ایک دائی برآمد ہوئی اور کہا کہ بہرہ ور کو بُلا لو، وہیں خدمت گاروں نے فی الفور حاضر کیا۔ ایک مرد بصورت اکابران لباس فاخرہ پوشیدہ و قریب ہزار کلید بہ میاں آویزاں آ کر پہلو میرے بیٹھا۔ دانی نے کہا کہ جو کچھ دیکھا ہے مفصل بیان کر۔ اس عزیز نے گلدستۂ رنگین بہادر اس داستان کے تئیں بیچ چمن زار محفل مِینُو مشاکل کے یوں نشو و نما کیا؂

ہست ایں قصہ داستانِ عجیب
بہرۂ دار و این بیان عجیب
ہوش باید کہ نکتہ گوش کند
مرد باید کہ جرعہ نوش کند
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۹

اے جوان ملکہ ہماری ہزار غلام تجارت یشہ رکھتی ہے کہ کمترین آنہایکے مُنم اور سب کے تئیں سرمایہ دے کر ہر طرف عالم کے بھیجتی ہے۔ جس جس طرف سے تجارت کر کے آتے ہیں، تو اوضاع اور اطوار اس دیار کے سے تفحص و تفتیش احوال کا کرتی ہے، اتفاقاً ایک مرتبہ یہ کمترین بھی واسطے تجارت کےگیا تھا کہ گزر میرا بیچ شہر نیمروز کے ہوا، تمام آدمی وہاں کے سیاہ پوش دیکھے، وہاں کی خلقت پر سخت ماتم تھا۔ چہرہ ہر ایک کا پُراز غم تھا اور باعث اس کا جس کسی سے پوچھا، جواب نہ پایا، آخرش چند روز گزرے کہ موافق قاعدہ مستمرہ کے کنارے افق کے سے جب ماہ نو پدیدار ہوا اور وقت صبح کے شاہ زریں کلا مہر کا اوپر تخت زمردیں آسمان کے جلوہ افروزہو، خلقت شہر کی وجمیؑ مردُم اش ہفت سالہ تا ہفتاد شالہ سب نکل کر بیچ ایک صحرائے وسیع کے آئے اور بادشاہ علای جاہ کیواں بارگاہ ملائک شپاہ، خلائق پناہ اُس ملک کا اوپر تخت رواں کے بیٹھا اور تمام خلق اللہ صف باندھ کے کھڑی منتظر تھی کہ ناگاہ، ایک جوان فرشتہ، طلعت زیبا، صورت کہ آفتاب نے تاب دیدار اُس کے کی نہ لا کر شیوہ ہرزہ گردِی کا اختیارکیا ہے اور ماہتاب بیچ آرزوئے جمال باکمال اُس کے، کے داغ حسرت کا اوپر جییں کے رکھتا ہے، جوشاں و خروشاں و کف بہ لب، اوپر ایک گاؤ زرد کے سوار، بیچ سن چہاردہ سالگی کے، کچھ ایک چیز بیچ ہاتھ کےلیے طرف خلقت شہر کے پہنچا۔

بیت

گوئے بہ زمیں ستارہ آمد
یوسف بہ جہاں دوبارہ آمد

اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھوں :

فرد

نکلا ہے وہ ستم گر تیغ ادا کو لے کر
سینہ پہ عاشقان کے اب فتح باب ہو گا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲۰

وہ سوار پیادہ پا ہو کر جلوگاؤ کی بیچ ہاتھ کے لیپٹ کر شمشیر برہنہ در دست دو زانو مقابل صف خلقت شہر کے بیٹھا اور ایک غلا سِیم اندام، دل آرام، پری پیکر، بدیعۃ الجما، لطیف الاعتدال۔

بیت

دیدہ از دیدنش نگشتی سیر
ہم چناں کز فرات مستسقی

ہمراہ اس کے تھا، بہ موجب امر جلیلُ القدر خداوند نعمت اپنے کے دو تحفہ ہاتھ اُس کے سے لےکر ایک سرے سے دکھلاتا چلا۔ جو کوئی اُس صنعت کو دیکھتا تھا بے اختیار بیچ توریف اور توصیف اُس کی زبان ثنا کی کھولتا تھا اور اوپر صانع اُس صنعت کے ہزار ہا باتحسین و آفریں کرتا تھا۔

فرد

کوئی کب مقابل ترے ہو سکے
خدا نے تجھے دی ہے صنعت گری

ناگاہ نوبت اُس کی مجھ تک پہنچی۔ فی الواقعہ عجب تحفہ تھا اور نہایت کاریگری کی تھی۔ چوں ازین سرتابہ آں سر، سب خلقت طواف اُس نادِرُ الا دوارکا کر چکی، بیچ خدمت خداوند نعمت اپنے کےلایا۔ اُس جوان نے اُس جا سے جست کر کے مرتبان کے تئیں اوپر زمین کے دے مارا اور ٹکڑے کیا اور ایک ضرب شمشیر کی اوپر گردن غلام کے جھاڑ کر اور اوپر گاؤ کے سوار ہو کر جس راہ سے آیا تھا، روانہ ہوا۔ جب تک کہ بیچ نظر خلقت شہر کے نمایاں تھا، سب دیکھتے تھے اور بےاختیار روتے تھے۔ جس وقت وہ جادو ادا، حور لقا ناپیدا ہوا، خاموش ہو رہے ہیں میں نے جتنا کہ اکثر مردم کو بہ زر فریفتہ کیا اور نپٹ تملُق اور چاپلوسی سے تفتیش احوال اس جوان گاؤ سوار کا کیا۔ اصلاً کسی نے میرے تئیں، اوپر حققیت احوال کثیر
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 121 نوطرزِ مرصّع صفحہ 124

الاختلال اس کے سے مطلع نہ کیا۔ ملکہ ہماری نے، جب سے میری زبانی یہ بات سنی، نہایت تعجب اور حیرت میں ہے اور کمال تَعشّق سے ساتھ اس شعر کے اِشتغال رکھتی ہے
بلائے عشق سے کچھ چھوٹنے کی راہ نہیں
بغیر مے کدہ، یارو کہیں پناہ نہیں
خجل نہ کر مجھے مہماں، میرا نہ ہو اے عشق
کہ میری آنکھوں میں آنسو جگر میں آہ نہیں
جہاں کے بیچ کہیں آبرو نہیں اس کو
یقیںؔ جو حضرت خوباں کا خاک راہ نہیں
اور اُس روز سے ملکہ نے اپنا مِہر بھی یہ مقرر کیا ہے کہ جو کوئی انکشاف اس راز سَربَستہ کا کرے، مالک ملک اور ملکہ کا ہو۔ اگر تجھ سے یہ شرائط ادا ہو سکے تو بسم اللہ، کمر عزم کی اوپر ہمت کے باندھ کر روانہ منزل مقصود کا ہو، والّا نہ پھر حرج مَوَاصلت 424 ملکہ کا اوپر زبان کے لائیو۔ اگر ایں شرط بجا آوری بہ مطلب رسیدی والّا آنچہ دیدی از خود دیدی۔ القصہ جس وقت بہرورؔ کلمات حیرت افزا اس داستان بے نظر کے روبرو میرے بیان کر چکا تب میں نے در جواب عرض کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اگر فضلِ الہی شامل حال ہے تو بعد از چند روز کے اس مکان پر پہنچ کر جواب با صواب اس بات کا دیتا ہوں لیکن اگر ملکہ ایک عُقدہ ما لا ینحل 425 کہ بیچ خاطر میری کے خلش رکھتا ہے، کھولے اور پیچھے پردے کے بلا کر، عرض میری بہ گوش ہوش استماع426 کرے بعید از مسافر پروری و بندہ نوازی سے نہ ہو گا اور یہ مناجات بیچ جناب قاضی الحاجات کے عرض کیا:
مناجات
اَحدا سامع المناجات
صدا کافی المہّمات
ہیچ پوشیدہ از تو پنہاں نیست
عالم السّر و الخفیات
------------------------------------------

ریختہ صفحہ 122 نوطرزِ مرصّع صفحہ 125

ہر دعائے کہ می کنم شب و روز
اِسَجِبُ یا مجیبُ دعوات
القصہ دائی نے التماس میرا بیچ حضور لامع النّور، اس تخت نشین کِشور حسن و غرور کے گزارش کیا چنانچہ ازراہ عنایات بے غایات میرے تئیں بہ وسیلہ دائی کے متصل پردے کے بلایا، جس وقت کہ گزر میرا بیچ خلوت سرائے خاص کے ہوا بہ مجّرد ملاحظہ کنیز کان و خادمان حضور وافر السُّرور کے کہ ہر ایک بیچ حسن و جمال کے گردا خوبان صبیح 427 و لُعبتان 428 ملیح کے سے لے گئی تھی، حواس خمسہ میرا بیچ کمال تخلُّل کے آیا اور سننے سے سرود اور دیکھنے سے رقص کے کہ بہ لحن داؤدی 429 و بہ اداہائے خوبی و غمزہ ہائے محبوبی کے، بیچ کام اپنے کے بے نظیر و عدیم المثال تھیں، ہوش بجا نہ رہا اور دل بے اختیار چاہتا تھا کہ نعرہِ عاشقانہ بہ آواز بلند سر کر کے، راہ صحرا کی لوں اور مجنوں وار اپنے تئیں، بیچ شوق جمال ان لیلیٰ نژادوں کے بیچ ہر کوئے 430 و بَرُ زن کے رسوائے خاص و عام کا کروں لیکن بہ امید وصال، اس پری تمثال کے طبیعت اپنی پر استقلال کو راہ دی اور یہ مصرعہ زبان میری پر گزرا:
ع ۔ عیں کہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بخواب
حاصل کلام یہ کہ ملکہ بیچ ایک مکان مطبوع 431 و دلکش کے
فرد
گلِ سُرخش چو عارضِ خوباں
سنبلش ہم چو زلفِ محبوباں
کہ نمونہ بہشت بَریں کا تھا، بیٹھی تھی اور باہر پردے کے ایک صندلی 432 مرصع میرے واسطے بچھوائی اور دائی باہر پردے کے متصل صندلی کے آ بیٹھی اور مجھ کو اشارہ بیٹھنے کا کیا اور فرمایا کہ کہہ جو کچھ کہنا ہے۔ میں نے اول زبان اپنی بیچ توصیف و تعریف خوبی ہائے ذاتی و صفاتی و مسافر پروری و بندہ نوازی ملکہ کے کھولی، بعد ازاں عرض کیا کہ ملکہ زمانی مَرجَع 433
-----------------------------------------

ریختہ صفحہ 123 نوطرزِ مرصّع صفحہ 126

آمال 434 و اَمانی 435 سلامت جس روز سے یہ فقیر، دیدہ سے قدم کر کے، داخل سرحد ملکہ مہر نگار سخاوت شعار کے ہوا، بیچ ہر منزل اور مقام کے کارگزاران و عہدہ داران سرکار کے نے بیچ سر انجام لوازمہ ضیافت کے اور اسباب شب خوابی کے مبلغ خطیر بہ طریق نذر و نیاز کے و انواع تحفہ جات از قسم جواہر و ظروف طلائی و نقرئی و از لوازمہ پوشاک دیبا و حَریر و پَر نیاں 436 و سَمور 437 و سَنجاب 438 و قاقم سے متواضع ہو کر تین تین روز سے کم رخصت نہ کیا بلکہ رخصت ہونا میرا موجب ناخوشی و آزردگی کے جانا اور جو کچھ کہ مبلغ نمایاں و اسباب نفیس و طلا آلات و جواہر آلات از قسم پاندان و چوگھڑہ 439 مرصّع و چلمچی 441 و آفتابہ 442 و ظروف اکل و شرب طلائی و نقرئی و پوشاک خاصہ برائے پوشش ہر روز و فرش فروش ملوکانہ و چاندنی و شامیانہ کہ درمیان مہمان خانہ بہ توجہ کارگزاران عاقل و فرزانہ جمع ہوا تھا، بیچ قبض و تَصَرّف میرے چھوڑا اور جس قدر کہ یہ فقیر در حالت تباہ ہر ایک متنفس سے منزل بہ منزل بہ سلوک و رعایت مَرعی 443 ہوا ہے اسی قدر بلکہ زیادہ ازیں جس فلک زدہ و سرگشتہ بادیہ غربت کا گزر طرف ممالک محروسہ خاس کے پڑا، مال دنیا سے مستغنی و بے نیاز ہوا ہے مگر اندیشہ یہ دل میں رہا کہ، بیچ سرکار ملکہ کے اس قدر دولت خداداد و بےزوال کہاں سے بہم پہنچائی ہے۔ چنانچہ اگر انتقاع ولایت کا مدنظر کیجیے تو فقط ایک خرچ مہمان خانہ سے عہدہ بر آئی معلوم، تابہ دیگر اخراجات چہ رسد۔ اگر یہ عقدہ مشکل بہ توجہ ملک ملک سیرت آفتاب صورت، کے سے اوپر خاطر جمع اوپر پر امر مامورہ 445 کے رہ نورد بادیہ تلاش و تردّد کا ہو کر شاہد مراد کا بیچ آغوش کامرانی کے لاوے۔ در جواب فرمایا کہ اے عزیز سراپا تمیز، اگر چاہتا ہے کہ اس سرگزشت پر اطلاع حاصل کرے، آج بیچ مہمان خانہ کے اور مقام کر۔ جس وقت کہ شاہ انجم سپاہ کا اوپر عرصہِ نیلگوں آسمان کے سَریعُ السِّر ہو، اپنے تئیں حسب الطلب حضور کے نزدیک ہمارے پہنچا، تیرے تئیں اوپر حقیقت احوال اس مقدمہ کے اطلاع مفصل دی جائے گی۔ پس میں وہاں سے اٹھ کر بیچ مہمان خانہ کے آیا اور ملکہ، بیچ خلوت سرائے خاص کے تشریف لے گئی اور
------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 124 نوطرزِ مرصّع صفحہ 127

میرے واسطے سب اسبابِ عیش و طرب و اکل و شرب کا خدمت گاران اور خواجہ سرایان سرکار کے نے مہیا اور موجود کیا۔ جس وقت کہ زاہد صَومَعہ دار روز کا بیچ خلوت خانہِ مغرب کے گیا، ملکہ نے میرے تئیں معرفت دائی کے حضور میں طلب کیا۔ مکان خلوت سرا بادشاہی کا روشنی جھاڑ بندی کے سے مثل روز کے تاباں و درخشاں تھا اور شمع داں طلائی و نقرئی و بلوری و مرصع و دوشاخہ و چہار شاخہ بلکہ درخت ہائے روشنی شاخ در شاخ فروزاں و لمعاں 446 تھے اور فرش ملوکانہ و مسند زربفتی و نقرئی و طلائی و شامیانہ ہائے زردوزی پاکیزہ باطنا، بہائے ریشمی و زری و جھالر مروارید، بے شکن و شکنج، استادہ و اسباب ثروت و حشمت آمادہ۔ ایک جانب کو مردم اہل طرب منتظر مجرائی اور ایک سمت کو مردم شاگرد پیشہ از برائے خدمت مستعد مجلس آرائی۔ میں نے جو یہ اوج و حشمت اور سامان و ثروت اور روشنی مکان کی دیکھی، دائی سے پقچھا کہ ہر روز بہجت افروز و ہر شب شبِ قدر اسی طور سے ہنگامہ آرائش سے معمور ہوتے ہیں؟ کہا کہ ہمیشہ سے یہاں یہی معمول ہے، ملکہ اس وقت بیچ خلوت خانہ کے ہے۔ تو ایک دم یہاں ٹھہر تو میں جا کے خبر کروں، پھر اسی وقت اندرون خلوت سرا جا کے میرے تئیں بلوایا۔ میں کہ داخل خلوت خانہ کے ہوا تمام جڑاؤ اور آئینہ بندی سے ہر ایک تختہ حلبی دراز تر از قد آدم نظر پڑا کہ بیچ ہر ایک مِحراب اور نشیمن کے نصب کیا ہے۔ یہ کیفیت مکان کی دیکھ کر ہوش دماغ میرے سے مَرَّاں 447 ہوا اور یہ شعر بے اختیار زبان سے نکلا:
بیت
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
جو غور کر کے دیکھا تو معلوم کیا کہ جواہر تمام عالم کا جمع کر کے اس مکان میں جَڑ دیا ہے۔ بس ملکہ عقب پردے کے بیٹھی اور دائی نے، باہر پردے کے بیٹھ کر میرے تئیں حکم بیٹھنے کا فرمایا۔ القصہ دائی نے حَسبُ الاِرشاد ملکہ کے عُروس مُدعا کے تئیں اوپر مَنَصّہِ 448 اظہار کے یوں جلوہ افرز بیان کا کیا کہ والی اس دیار کا ولی نعمت ملکہ کا تھا اور ہفت دختر مثل تابندہ اختر
------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 125 نوطرزِ مرصّع صفحہ 128

کے اولاد رکھتا تھا۔ اتفاقاً روز جشن کے سبھوں نے اپنے تئیں بہ لباس ملوکانہ مرتب اور نہفت کیا تھا اور حضور بادشاہ کے حاضر تھیں۔ اس اثناء میں خسرو عالی تبار و بخت بیدار نے فرمایا کہ اگر جناب مقدس قدر قدرت و قضا سطوت حضرت ولی نعمت قبلہ حاجات تمہارا نہ ہوتا تو تم کو ملکہِ زماں و زمانیاں اور نور دیدہِ جہاں و جہانیاں کون کہتا۔ پس تم سب کے تئیں بہ سبب میرے یہ عزت اور افتخار حاصل و مُتَواصل 449 ہے۔ ان ساتوں میں سے چھ لڑکیوں نے کہا حضرت سلامت الحق است فی الواقع جو کچھ زبان مبارک بیان سے ارشاد ہوتا ہے، سچ ہے اور یہ بات بے شبہ و شک ہے مگر یہ بادشاہزادی کہ سب سے چھوٹی تھی اور بیچ سَن خورد سالگی کے ہوش و شعور سے بہر دانی و نصیبہ کافی رکھتی تھی، خاموش رہی اور بالاِتفاق ہمشیرہ ہائے کلاں کے اس کلام میں کہ کلمہ فی الحقیقت کفر کا تھا نہ بولی، بادشاہ نے بہ چشم عبرت اس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اے فرزند دلبند و جگر پیوند، باعث خاموشی تیری کا معلوم نہ ہوا۔ عرض کیا کہ اگر تقصیر معاف و جاں بخشی ہو تو یہ کمینہ پرستار عرض کرے۔ فرمایا کہ کہہ، کیا کہتی ہے۔ عرض کیا کہ حضرت سلامت اَلحقُّ مُرّ بیچ سمع مبارک کے پہنچا ہو گا۔ اگرچہ مستوجب 450 عتاب کا ہے اور اس وقت کی راست گوئی وبال جان کی ہے لیکن منشی تقدیر کے نے لوح پیشانی میری پر جو کچھ کہ روزِ ازل سے لکھا ہے کسی طور مٹ نہیں سکتا۔ جس قادر علی الاخلاق نے کہ ازراہ فضل و کرم اپنے کے ذات مَیمنت آیات تمہاری کو فرمانروائے اقالیم کا کیا ہے، ہم کو بھی اسی نے ملکہِ جہاں و جہانیاں مقرر کیا ہے، اور اَستَغفِرُاللہ آپ کا اس مقدمہ میں کیا ذکر ہے ذات فایض البرکات تمہاری کو قبلہ و کعبہ دو جہاں کا جان کر خاک پائے مبارک کو کحل الجواہر دیدہِ بینا کا کرنا مُسلّم لیکن طالع ہر کسی کے ساتھ اس کے راہ بر ہیں، بادشاہ کے تئیں بقول اس کے کہ چھوٹا منھ اور بری بات، یہ سخن سخت ناپسند آیا اور بے حد برا مانا اور جی سے بیزار ہوا اور فرمایا کہ زیور اور لباس اس کا لے کر ایک پالکی میں ڈال کر بیچ صحرائے لق و دق کے کہ جہاں کوئی انسان کا نام نہ ہو چھوڑ آؤ۔ چنانچہ نصف شب کے کہ تاریک تر از شبِ دیجور تھی، بہ موجب حکم بادشاہ کے اس ملکہ فرشتہ طلعت پاک طینت کو
---------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 126 نوطرزِ مرصّع صفحہ 129

بیچ ایک صحرائے ہولناک و جاں گداذ کے چھوڑ آئے اور بادشاہ زادی کہ بیچ دریائے غم و اندوہ کے از سر تا پا غرق تھی، کمیں داران خواب کے اوپر قافلہ بیداری اس کی کے تاخت لا کر متاع ہوش کی غارت کی۔ باقی شب بیچ خواب غفلت کے کاٹ کر جس وقت مؤذن صبح خیز۔ شمس کے نے اوپر مصلّی نیلگوں فلک کے نمازِ فجر ادا کی، ملکہ خواب غفلت سے بیدار ہوئی، اور اپنے تئیں محرمانِ ہمراز و مصاحبانِ دمساز سے تن تنہا دیکھا، دوگانہ شکر کا بیچ جناب خداوند حقیقی کے ادا کیا اور زار زار اس دشت ناہموار صحرائے پُرشیر و مار 451 میں روتی تھی
بیت
خدا کسی کو نہ دکھلاوے دن جدائی کا
تصّدق اپنے محمدؐ کی پارسائی کا
بارے پالکی میں سے اتھ کر چند چوب 452 جمع کر کے استادہ کیے اور غلاف پالکی کا اوپر اس کے ڈال کر سایہ بنایا اور یاد الہی میں مستغرق اور مشغول ہوئی۔ سچ ہے کہ برے وقت کا اللہ ہی یار ہے۔ القصہ سہ شبانہ روز گزرے۔ گُرسَنہ 453 و تشنہ، حیران و پریشاں، گریاں و نالاں، ضعیف و نَزار ہوئی۔ چنانچہ گل روئے مبارک اس کے کا آفت صرصر حوادث کے سے، پَژمردہ و خَمول 454 ہو گیا۔ روز چہارم جس وقت کہ موسیٰ فلک نے ید بیضا آفتاب کا بلند کیا، ایک فقیر مرد پیر، روشن ضمیر پیدا ہوا۔ ملکہ کو بایں حالت تباہ دیکھ کر اور اوپر حقیت حال خُسراں مآل 455 اس کے سے مطلع ہو کر کہا کے اے نور چشم راحت جانِ ایں ناتواں تو دختر روشن اختر حضرت بادشاہ ظل اللہ کی ہے، از گردش دورانِ دوں و حادثات زمانہ بو قلموں مصؤن 456 ہو گئی ہے اب اس فقیر کو اپنا خادم جان کر بیچ اس جنگل سخت کے یاد الہی میں خوش رہ، خدا خوب کرے گا اور پارچہ گدائی کا بیچ کجکول 457 کے رکھتا تھا، کھلایا اور پانی بہ تلاش میسر کر کے پلایا۔ بارے ملکہ اندک 458 ہوش میں آئی۔ جو فقیر نے بیکس و بیچارہ و از خانماں آوارہ دیکھا از راہِ لطف بزرگانہ و شفقت مُربّیانہ کے تسلی و دلاسا دلبری و دلداری از حد زیادہ کی اور اوپر احوال کثیر الاختلال اس کے بہت رویا۔ چنانچہ وہ درویش دِلریش 459
--------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 127 نوطرزِ مرصّع صفحہ 130

محبت کیش ہر روز واسطے گدائی کے بیچ شہر کے جاتا اور جو کچھ کہ خدا تعالیٰ ازراہ پرورش و بندہ پروری کے دیتا، سو لا کر بیچ خدمت ملکہ کے حاضر کرتا۔ اسی طور سے چند روز گزرے، ایک روز ملکہ نے کنگھی اور تیل طلب کیا اور وقت شانہ کشی کے ایک جوہر آبدار بالوں میں سے مانند ستارہ کے گرا۔ ملکہ نے اس کو حوالہ فقیر کے کیا اور کہا کہ اس کو شہر میں لے جا کر بیچ لا۔ چنانچہ درویش اس موتی کو بہ قیمت پانسو روپے کے بیچ لایا۔ ملکہ نے فرمایا کہ ایک حویلی لائق گزران کے اس مکان پر بنایا چاہیے۔ فقیر نے کہا کہ اے فرزند قدرے قدرے مٹی کھود کے جمع کر، ایک روز پانی لا کر دیوار بنانا شروع کروں گا۔ ملکہ نے حسبُ الاِیما فقیر کے مٹھی کھودنا شروع کیا۔ تماشا قدرت کا دیکھیے کہ جس وقت ایک گز گڑھا کھدا ہو گا۔ ایک دروازہ نظر آیا۔ بہ مجّرد کھولنے در کے ایک خانہ عالی کہ تمام جواہر و اشرفی سے مُلبَّب تھا، ملاحظہ کیا بقول آنکہ:
بیت
کیمیا گر بہ غصّہ مردہ بہ رنج
ابلہ اندر خرابہ یافتہ گنج
ملکہ نے قدرے اشرفی لے کر وہیں بدستور سابق بند کیا اور خاک اوپر اس کے ڈالی کہ اس اثنا میں فقیر آیا۔ ملکہ نے فرمایا کہ معماران استاد کار مزدوران چابک دست کو لاؤ کہ اس مکان پر ایک عمارت عالی بنیاد اور نقشہ شہر پناہ و حویلی شہر و قلعہ کا تیار کریں کہ یاد گار زمانہ رہے۔ القصہ حسبُ الامر، کرامت اثر ملکہ جہاں کے ایک عمارت عالی و شہر و شہر پناہ از خلل خالی تیار کی۔ بعد چند روز کے خبر اس بنیاد خجستہ نہاد کی بیچ عرض خدمت ظّلِ سبحانی خلیفہ رحمانی کے کہ قبلہِ دو جہانی و کعبہِ جاودانی ملکہ زمانی کے تھے پہنچی۔ وہ بادشاہ عالی جاہ، خلایق پناہ، فلک بارگاہ، انجم سپاہ، سننے اس واردات کے سے حیران و متعجب ہوا اور جتنا کہ تفّحص اس ماجرے کا کیا، از بس کہ کوئی مطلع اس مقدمہ کا نہ تھا، مفسل حضور پُر نور میں عرض نہ ہوا۔ آخر
-------------------------------------------

ریختہ صفحہ 128 نوطرزِ مرصّع صفحہ 131

الامر بادشاہ نے معرفت یکے از ملازمان بارگاہ کے پیغام کیا کہ میں واسطے دیکھنے حویلی اور باغ اور نقشہ شہر و شہر پناہ کے خصوصاً برائے دریافت کرنے حقیقت حال ملکہِ زمانی کے کہ کس خاندان سے ہے، تشریف لایا چاہتا ہوں۔ ملکہ نے بہ مجرد سننے اس مژدہِ راحت افزا کے بہ ہزار جان و دل خوش و خرم ہو کر در جواب عرض کی کہ حضرت جہاں پناہ سلامت۔
بیت
اے از نظر تو کار ما راست
آراستہِ تو ہر چہ مار است
سننے خبر بہجت اثر تشریف آوری حضرت خداوند نعمت کے سے سر عزت افتکار کا اوپر فرقِ فرق داں کے رکھا
زہے طالع زہے دولت زہے بخت
کہ تشریف آورد چوں جواں بخت
زہے طالع و نصیب اس مکان کے جس جا پر وہ شہنشاہ کَیواں بارگاہ قدم رنجہ فرما کر ساکِنان اس دشت و دیار کے تئیں بہ نظر تفضّل و ترحّم کے سرفراز و ممتاز فرماویں۔
رباعی
اے آمدنت باعث آبادیِ ما
ذکر تو بود زمزمہِ شادی ما
مارا چہ بود تا نثارت سازیم
قربان سر تو باد آزادی ما
یہ کنیز بے تمیز، سراسر ناچیز، امیدوار تفضّلات بادشاہانہ و تَفَقُّدَات 460 کریمانہ سے یوں ہے کہ فردا روز پنجشنبہ کہ روز مبارک و ساعت سعید بیچ حق اس کمترین کے بہتر از نو روز و روز عید ہے، تشریف ارزانی فرماویں اور جو کچھ کہ اس سرگشتہ بادیہ ناکامی سے سربراہ ہو سکے، نوش
-----------------------------------------------

ریختہ صفحہ 129 نوطرزِ مرصّع صفحہ 132

جان فرماویں۔ بادشاہ نے انگشت قبول کی اوپر دیدہِ رضا کے رکھ کے التماس ملکہ کا مقرونِ اجابت 461 کیا۔ بارے ملکہ نے ملازمان بارگاہ و کارگزاران درگاہ اپنے کو فرمایا کہ لوازمہ ضیافت کا بہ آئین شائستہ جیسا کہ لائق بادشاہوں کے ہوتا ہے جلد تیار کریں بلکہ آپ بھی بہ جان و دل مصروف بہ کاروبار مہمانی کے تھی۔ چنانچہ از قسم انواع طعام ہائے لذیذ و غذا ہائے لطیف و شیرینی ہائے خوشگوار و ہر گونہ مُربّہ و اچار، و ہفت خوان جواہر و اشرفی و چند خوان پشمینہ و شالینہ و تاش 462 و زری بافت و بادلہ و دو زنجیر 463 فیل فربہ، ، و طویل و دہ راس 464 اسپ خوش رنگ و باد رفتار، معرفت سوداگران شہر کے منگوا کر واسطے پیشکش کے موجود کیا۔ جس وقت کہ خسرو زرّیں کُلاہ آفتاب کے نے خلوت خانہ مغرب کے سے برآمد ہو کر اوپر تخت زمردیں فلک کے جلوس فرمایا، وہ سلطان عادل دریا دل بہ سواری تخت رواں کے سوار ہو کر بیچ منزل اور مکان ملکہ کے تشریف لایا ملکہ واسطے استقبال کے باجماعت کنیزان خوش لقا و خوش آواز و سرود خوانان جاد و نوا و طایفہ 465 خُدمہ ہمراہ برآمد ہوئی۔ جیوں ہی کہ تخت بادشاہ کا نظر آیا، ایک مجرا بدستور شاہانہ اس طور سے ادا کیا کہ باعث از دیاد 466 حیرت بادشاہ کا ہوا اور حضرت قدر قدرت کیواں منزلت کو اوپر تخت مرصؑ کے بٹھلایا اور آپ دست بستہ حضور میں کھڑی ہوئی، بادشاہ نے از سر عاطفت و الطاف کے فرمایا کہ ملکہ کس خاندان عالی سے ہے اور اس ملک بیگانہ میں آنے کا کیا باعث ہے۔ ملکہ نے در جواب آداب بجا لا کے عرض کیا کہ یہ وہی کنیز بے تمیز سراسر ناچیز ہے کہ باعث عتاب و خطاب حضرت خداوند نعمت کے بیچ صحرائے جانگداز کے پہنچی تھی۔ بادشاہ نے فی الفور دریافت کر کے از راہِ شفقت پدری کے بغل میں لے کر بوسہ، اوپر پیشانی اس سرمایہِ زندگانی کے دیا اور متصل تخت کے کرسی پر بیٹھنے کا حکم فرمایا۔ القصہ ملکہ نے تمام کشتیاں جواہرات و آلات وغیرہ کی نظر مبارک سے گزران کر خاصّہ 467 طلب کیا۔ بادشاہ بعد تناول طعام کے متعجب و متحیر بیٹھا اور بادشاہ بیگم کو دشاہزادیوں کے طلب کیا۔ ملکہ نے بیچ خدمت جناب بیگم کے خوان جواہر اور زر کے اس قدر نذر کیے کہ اگر جواہر اور خزانہ ہفت اقلیم کا جمع کریں، شاید کہ پاسنگ اس کے کو
------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 130نوطرزِ مرصّع صفحہ 133

نہ پہنچے۔ چند مدت بادشاہ نے بہ حین حیات اپنی سلطنت کی، بعد ازاں سلطنت دنیا سے اوپر مملک عقبیٰ کے کامیاب ہوا۔ بعد رحلت اس شہنشاہ فردوس آرام گاہ کے سلطنت اس ملک کی نے اوپر ملکہ زمانیہ قرار پایا۔ پس جس وقت کہ دولت خدا داد و بے زوال ہووے اور روز بروز ترقی رہے خِسّت 468 کرنا اور مہمان داری سے باز رہنا محض بے جا ہے بقول اس کے
فرد
ہر کہ دریں عالم است روزی خود می خورد
واسطہِ خوشنما ست مفت کرم داشتن
ایک مضمون اور پڑھوں
بیت
شکر بجا آر کہ مہمان تو
روزی خود می خورد از خوان تو
القصہ دائی نے زبان ہدایت ترجمان سے لآلی دلپذیر اس حکایت بے نظیر کے بیچ صدف گوش سراپا ہوش کے تئیں پُر کر کے کہا کہ اے جوان حقیقت سرگزشت ملکہ کی اور روز بروز افزونی اس دولت خداداد کی یہ ہے کہ گزارش کی اب تو روانہ منزل مقصود کا ہو۔
الغرض یہ فرہاد دَشت کَربت 469 و غربت کا مد نظر اوپر فضل الہی کے کر کے اور مُعتَصِم 470 بہ عُروَۃ الوثقیٰ فیض نا متناہی کا ہو کر چلا۔ بعد مدت یک سال کے بیچ ولایت بہجت افروز نیم روز کے پہنچا۔ سَکنَہ 471 اس دیار کے مُلَبّس بہ لباس سیاہ، جیسا کہ سنا تھا بہ چشم خود دیکھا اور کئی ایک روز چاند رات کے کہ باقی رہے تھے منقضی 472 ہوئے اور جس روز کہ ماہ نو اوپر فلک کے نمودار ہوا، بدستور مذکور علی الصباھ اس کے خلقت اس شہر کی از خورد تا کلاں و از پیر تا جواں و بادشاہ تا وزیر و از امیر تا فقیر تمامی زَن و مرد بیچ صحرائے وسیع کے مجتمع
-------------------------------
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 151 نوطرزِ مرصّع صفحہ 154

اور وہ پیر مرد سر اپنا نیچے پاؤں اس کے ڈال کر زار زار مانند ابر بہار کے روتا ہے اور کہتا ہے:
بیت
بعد ازیں در عوضِ اشک دل آید بیروں
آب چوں کم شود از چشمہ گل آید بیروں
اور گلشنِ نونہال جمال اس کے سے گُل کامیابی چنتا ہے۔
ابیات
قامت ایسا کہ بہ ہنگام خرام اس کے اگر
آگے آ جاوے قیامت تو یہ بولے کہ سرک
دست وہ تیز کہ عالم میں نہیں جس کی پناہ
چشم وہ ترک کہ ہو قوم جنھوں کا ازبک
یہ عاصی بہ مجّرد دیکھنے صورت حال اس حسن جمال کے تاب سے بےتاب ہوا اور مانند قلب بے جان کے بےہوش و بدحواس ہو کر گر پڑا۔ پیر مرد نے دریافت کرنے اس احوال کے سے اٹھ کر شیشہ گلاب کا لا کر اوپر میرے چھڑکا میں کہ بیچ عالمِ غش کے مانند صورت تصویر آپ سے غافل ہو کر بے حس و حرکت پڑا تھا، ہوشیار ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور سلام کیا۔ اس بے رحم سنگ دل کافر فرنگ نے جواب سلام کا نہ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ اے نازنین ماہ فلک چہارمی۔
فرد
حق نے خوباں میں جہاں کے تجھے ممتاز کیا
باچنیں شکل و صُوَر 512 صاحبِ اعجاز کیا
------------------------------------

ریختہ صفحہ 152 نوطرزِ مرصّع صفحہ 155

لیکن جواب سلام کا از جملہ واجبات ہے جتنا کہ عجز و الحاح 517 کیا مُطلَق مُنھ سے نہ بولی، تب تو میں سبقت کر کے ہاتھ اوپر پاؤں اس کے لے گیا اور کہا
رنگ حناست برکف پائے مبارکت
یا خون عاشقانست کہ پامال کردۂ
اور موجب شعر مرزا رفیع السودا کے ؎
فندق 518 پا لگی کہنے کہ نہ دیکھا ہو گا
سرو کے بیچ سے پھولا گل اورنگ اب تک
آخر الاَمر مساس 519 سے معلوم ہوا کہ آذر بت تراش نے پتھر تراشی ہے۔ تب تو میں نے اس بت پرست عاشق سرشت سے پوچھا کہ دعا تیری تو اثر کر چکی، اب سچ کہہ کہ یہ کیا طلسم ہے اور باعث استقامت تیری کا اس مکان پر کیا سبب ہے مجھ کو اصل حال اس کے سے مطلع کر۔تب اس عزیز مصر تمیز نے کہا ؎
اے جَواں کارِ عشق بازی نیست
عشق بازی مکن کہ بازی نیست
حق تعالیٰ انسان ضعیف البنیان کو ہر آن میں طوفان ناپیدا کنار عشق بازی کے سے برکنار رکھے تب میں نے کہا ؎
بے عشق، جو عالم میں، فراغت سے جیا ہے
اس دولت عظمیٰ سے وہ محروم رہا ہے
فرد
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
-----------------------------------------

ریختہ صفحہ 153 نوطرزِ مرصّع صفحہ 156

بہتر یہ ہے کہ بیچ اظہار کرنے ، حقیقت اصل اس نقل کی ، بالفعل تاخیر اور توقف نہ کر۔ ع
کہ آفت ہاست در تاخیر و طالب را زیاں دارد
واِلّا ہاتھ اس گم گشتۂ عقل و خرد کے سے جانبر نہ ہو گا۔ جب اس عزیز نے میرے تئیں مِشغوف 519 اور مستعد دیکھا بہ لاچارگی، بیچ گزارش احوال کثیر الاختلال اپنے کے نطق پرداز حکایت سراسر شکایت کا ہوا۔
---------------------------------------------
ریختہ صفحہ 154 نوطرزِ مرصّع صفحہ 157

حکایت
گزارش کرنا نعمان سیاح تاجر کا احوال پُر ملال اپنے کے تئیں اور مذکور ملکۂ فرنگ کا

کہ یہ گنہگار شقاوت شعار، امیدوار شفاعت بنی المختار سوداگر ہے اور میرے تئیں نعمان سیاح تاجر کہتے ہیں۔ بیچ اس عمر کے تجارت ہَفت اقلیم و شناسائی ہر صاحب تاج و دیہیم اور ملاقات صاحبان ناز و نعیم کے بہم پہنچا کر ایک روز برسرِ حساب نصآب تجارت کے آیا اور رفقائے مجلس افروز و ندمائے دلسوز سے کہ شب و روز جلیس ہمدم و انیس محرم تھے کہا کہ یہ دولت کَسب تجارت و پیشہ سوداگری کے سیر اقالیم و ملاقات بادشاہاں و مردم مشہورہ آفاق و فقرائے گوشہ نشین و خدا پرستان صحرا گزین، تمام عرصہ روئے زمین کی میسر آئی مگر آرزوئے تجارت ملک فرنگ و ملازمت آں صاحب افسر و اورنگ ناخن زن جگر کی ہے۔ بارے بہ اتفاق یارانِ موافق و دوستان صادق با تحفہ ہائے ہر دیار چار و ناچار با قافلۂ تُجّار سیاحت شعار روانہ ہوا۔ بعد اِنقضائے مدت مدید ہر روز راہِ نو و ہر شب جائے نو منزل در منزل مَراحل در مراحل قطع مسافت کر کے، بیچ اس شہر مینو سَیر کے پہنچا اور رخت اقامت کا ڈالا۔
----------------------------------------

ریختہ صفحہ 155 نوطرزِ مرصّع صفحہ 158

چنانچہ پہنچنا سوداگران متمول و مالدار با تحفہ ہائے ہر شہر و دیار کا شہرۂ آفاق ہوا۔ صبح کے وقت کہ نیّر جہاں تاب رونق افروز گیتی کا ہوا۔ ایک خواجہ سرا با چندے خدمت گاران داخل کارواں سرا کا ہو کر مردمان قافلہ سے پوچھا کہ سردار اس گروہ صاحب شکوہ کا کون ہے۔ یاروں نے طرف میرے رہنمائی کی۔ وہ شخص اس طرف کو متوجہ ہوا۔ میں نے تعظیم تمام سے پیش آ کر صدر مجلس بٹھایا اور پوچھا کہ باعث تشریف آوری سے اطلا کیجیے۔ اس ایلچی بادشاہِ کشور حسن و خوبی کے نے کہا کہ ملکہ ملک سیرت نے فرمایا ہے کہ مال تجارت سے جس قدر اسباب نفیسہ اور اجناس لطیفہ کو لایق بادشاہ کے لائے ہو در حضور افی السرور خاتون جہاں و بلقیس دَوراں کے حاضر کرو۔ میں نے عذر ماندگی اور کسل مزاج کا درپیش لا کے وعدہ صبح کا کیا۔ جس وقت کہ لیلیٔ شب کی نے پردۂ ظلمت کا چہرہ نورانی پر فَروہشتہ 521 کیا۔ میں نے سب رفقائے ہمراہی کو جمع کر کے اور تحفہ جات عجائبات ہر ایک سے لے کر یک جا کیے اور بہ مجرد نکلنے مجنوں جہاں گرد آفتاب کے یہ بےخبر از شعبدہ بازیِ فلک کج رفتار روانہ دولت سرائے ملکۂ فرنگ کا ہوا اور خبر حاضر ہونے فقیر کی معرفت باردی داران حضور کےبہ مسامع مَجامِع 522 عالیہ متعالیہ کے پہنچی، میرے تئیں اندرون حرم محترم کے طلب کیا۔ دیکھنے میں معشوقہ جادو ادا اور محبوبان حور لقا اس کے سے ایک شوق اور ولولہ میرے دل پر پیدا ہوا اور جس وقت کہ نگاہ میری اس اورنگ 523 پیرائے سلطنت عِزّ و ناز پر پڑی، بہ مجرد دیکھنے کے متاعِ گراں بہا، حواس کی غارت گئی۔ بہ مضمون اس شعر کے ؎
کرتی ہیں ہر نگہ میں وار انکھیاں
گڑتی ہیں دل پہ جوں کٹار انکھیاں
ہر نگہ میں ادا و غمزہ کی سی
کرتی ہیں کام کئی ہزار انکھیاں
اور ملاحظہ تُزک و شان پری رویانِ فرنگستان کے سے کہ صف بہ صف دست بستہ ہر آن میں غارت گر دین و ایمان، انسان ضعیف البنیان کے تھیں، یہ کمترین فدویان و کمینہ
-----------------------------------------
ریختہ صفحہ 156 نوطرزِ مرصّع صفحہ 159

غلامان مانند قالب بے جان کے بے تاب و تواں ہوا، اور در حضور وافی السرور کے بہ آئین بندہ ہائے جاں نثار و فدویان خاسار، سراسر اِضطرار، تسلیمات بجا لا کے عرض کیا۔
بیت
تو ہے رشکِ ماہ کنعانی ہُنوز
تجھ کو ہے خوباں میں سلطانی ہنوز
اور جو کچھ کہ تحفہ ہائے ہر دیار و لایق شہر یار چہ اِقمشہ 524 و چہ جواہر آبدار و لولوے شاہوار رکھتا تھا، نظر سے گزرانے، چنانچہ وہ ملکۂ فرنگ غارت گر ناموس و ننگ، دیکھنے اسباب رنگ برنگ کے سے، نہایت دنگ ہوئی اور اکثر اشیا پسند کر کے، بیچ تحویل خانساماں سرکار کے سپرد کی اور فرمایا کہ قیمت اس اشیائے نو خرید کی، کہ ازراہ خریداری کمال کے لی ہے، صبح مرحمت ہو گی۔ میں نے آداب بجا لا کر قبول کیا اور ہزار ہزار سجدات شکر و سپاس، بہ جناب واہب العطایات بجا لایا کہ بارے اس بہانے پھر کل کے روز اور اس مجلس نشاط اندوز و محفل بہجت افروز میں باریاب ہونے کا اتفاق ہو گا۔ چنانچہ باہر آتے ہی میری آنکھوں میں جہاں تاریک تھا اور مانند مجذوبوں کے کہتا کچھ اور نکلتا کچھ تھا۔ القصہ اس مکان فردوس گاہ میں سے آ کر رفقائے ہمراہی سے کہا:
مسدّس
دوستاں شرح پریشانی من گوش کنید
قصۂ بے سر و سامانی من گوش کنید
داستانِ غم پنہانی من گوش کنید
باعثِ حیرت و حیرانی من گوش کنید
شرح ایں آتش جاں سوز نہفتن تا کہ
سوختم سوختم ایں راز نہفتن تاکہ
------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 157 نوطرزِ مرصّع صفحہ 160

اکثر دوستان دمساز و رفیقان ہمراز دریافت اس سوز و گداذ کے سے رہنموں احتراز عشق خانہ برانداز سے ہوئے۔ میں نے بہ ہزار رنج و محنت صعوبت و کَربت روز و شب از راہ تَعب کاٹ کے جس وقت کہ تُرک خورشید کے نے خلوت خانہ مشرق کے سے برآمد ہو کر قصد ترک تازی کا کیا، اپنے تئیں اور دولت سرائے سرخیل خوباں جادو نگاہ کے پہنچایا اور معرفت خواجہ سرایان خاص محل کے باریاب بستاں سرائے ملکہ کا ہوا اور بدستور دیروز 525 کے سب پری زادوں کے تئیں ہنگامہ آرائے مجلس انجم تزئین کا پایا۔ ملکہ کو دیکھا کہ اوپر تخت مرصع کے جلوہ افروز ہے۔ میرے تئیں دیکھ کر اور معاملا دنیوی سے جلد فراغت کر کے ہر ایک کو رخصت کیا اور آپ خلوت کانے میں تشریف لے جا کے میرے تئیں یاد فرمایا اور حکم بیٹھنے کا کیا۔ یہ پروانہ بجاں تصدق اس شمع شبستاں کا ہو کر تسلیمات اور کورنشات بجا لا کر بیٹھ گیا۔ از راہ مہربانی بسیار و الطاف بے شمار کے ارشاد فرمایا کہ تجارت ملک فرنگ سے کس قدر منافع منظور ہے۔ میں نے عرض کیا کہ قدمبوسی حضرت خداوند زمانی کا باعث افتخار کونین و سرمایہ سعادت دارین کا جانتا ہے اور جو کچھ کہ قسمت میں ہے اَلنَّصِیبُ وَ النَّصیف۔ فرمایا کہ اسی قدر انعام از راہ توجہات تمام عوض ایک کام کے مرحمت ہو گا، اگر تجھ سے ہو سکے۔ میں نے عرض کیا:
بیت
میں بھی جس سے کر چکا ہوں، مال و جاں دونوں نثار
اس جہاں میں آن کر مرنا ہے آخر ایک بار
اگر مال و جان، اس کمترین غلامانِ سرکار کام آوے، سعادت ابدی و دولت سرمدی حاصل اس کمینہ خاکسار و ذرہ بے مقدار کی ہو گی۔ القصہ قلمدان طلب کر کے ایک رقعہ لکھا اور دُلمیان 526 زرّیں میں ڈال کر ایک رومال سے لپیت کر میرے ہاتھ میں دیا اور کہا:
-----------------------------------------

ریختہ صفحہ 158 نوطرزِ مرصّع صفحہ 161

دوھا
رو رو پتیاں میں لکھی، جی کا گد لپٹائے
ہے کاسد (قاصد) ایسا کوئی پیتم کو یہ لے جائے
اور ایک مضمون عرض کرتی ہوں:
ابیات
اس بے وفا کو شکوۂ جَور و جفا لکھوں
یا اس دل خراب کا میں مُدعا لکھوں
یا چشم اشکبار سے دریا بہا لکھوں
یا جل گئے جگر ستی شعلہ اٹھا لکھوں
قاصد نہیں ہے تاب مجھے آہ کیا لکھوں
ایک انگشتری الماس کی کہ زیب انگشت کی تھی، واسطے پتے کے دی اور کہا کہ ایک باغ عالی شان بلند مکان کہ بنام جہاں آرا موسوم ہے، تو طرف اس باغ کے جا۔ ایک جوان خوش عنوان، کیخسرو نامی، داروغہ باغ کا ہے، اس کو یہ انگشتری دیجو اور ہماری طرف سے دعا کہہ کر جواب رقعہ کا حاضر کیجو۔ اور کھانا وہاں کھائیو تو پانی یہاں پیجو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ مورد عنایات بےغایات و تلطفات بلا نہایات کا ہو گا۔ میں حضور سے رخصت ہو کر روانہ ہوا۔ قریب دو فرسخ کے ایک مکان مینو نشان تھا، گرد و نواح، اس باغ کے پہنچا کہ ایک مرد مسلّح و مستعد میرے تئیں پکڑ کے حضور کیخسرو کے لے گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ جوان شیر صولت ہِزبر 527 تواں ایک کرسی مرصع کے اوپر ذرۂ داؤدی دربر و خود آہنی برسر، با نہایت کر و فر بیٹھا ہے اور قریب ایک ہزار جوان یل 528 و پہلوان با سپر و شمشیر و ترکش و کمان روبرو دست بستہ کھڑے ہیں۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے صورت حال اس کی کے یہ دو شعر پڑھے ؎
----------------------------------------------------
ریختہ صفحہ 159 نوطرزِ مرصّع صفحہ 162

ہر گھڑی برہم نہ کر، ناحق دماغ اپنے کے تیں
باغباں جاتے ہیں ہم، رکھ چھوڑ باغ اپنے کے تیں
شان خورشید قیامت دیکھیو اٹھ جائے گی
حشر میں جب ہم دکھا بیٹھیں گے، داغ اپنے کے تیں
تب اس نے ازراہ تَبَنُحتر529 کے میرے تئیں نزدیک اپنے طلب کیا اور میں نے زبان بیچ مدح و ثنا اس رشک تہمتن و اسفند یار کے کھولی اور عرض کیا ؎
تمھارے دیکھنے واسطے، آئے ہیں شدت سے
نہ ملنا اس قدر، جائز نہیں، اہلِ مروت سے
غریبی، عاجزی، بےچارگی سے عرض کرتے ہیں
اکڑنا اس سے برجا 531 ہے جو کہتا ہووے قوت سے
اور وہ انگوٹھی دکھا کر اظہار رقعہ ملکہ کا کیا۔ اس نے انگشت تحیّر کی دندان تحسّر 532 کے سے کاٹ کر کہا کہ اے اجل گرفتہ سخت جرأت کر دی، اندرون باغ کے جا، نیچے درخت تاڑوں کے ایک جوان قفس فولادی میں بیٹھا ہے، رقعہ جلد دے کے اور جواب حاصل کر کے شتاب آنا۔ میں نے قدم اندرون باغ رکھا، تو باغ بوستاں لایق دوستاں، با درخت ہائے آبدار و فوارہ ہائے بے شمار، و آب جو ہائے رواں، چہچۂ مرغاں و قہقۂ کَبکاں 533 رشک رضواں و محسود فردوس جناں تھا۔ نیچے ایک درخت کے ایک جواں بخت بیچ قید سخت کے پنجرۂ فولادی میں بیٹھا ہے، میں نے سلام با آداب تمام بہ آئین اہل اسلام بجا لا کے رقعہ سر بمہر مَع خریطہ 534 زَربفت روزن قفس کے سے گزرانا۔ اس جوان نے وہ رقعہ پڑھا، بہ ایں مضمون:
مسدس
سلامت می رساند ناتوانے
غریبے مبتلائے ، خستہ جانے
-------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 160 نوطرزِ مرصّع صفحہ 163

کہ اے یار عزیز مہربانم
تمنائے دل و آرام جانم
مرا خود دل ز ہجرت غرق خون است
نمی دانم ترا احوال چوں است
رباعی
اس درد سے دل کے نہیں کوئی آگاہ
مرتی ہوں خبر لے مری اے نورِ نگاہ
بے رحم ستی جا کے کہو اے قاصد
دن رات گزرتے ہیں کہ اللہ اللہ
درجواب اس کے جوان نے کہا کہ اسباب لکھنے کا تو موجود و مہیا نہیں۔ میری طرف سے زبانی یہ شعر پڑھ دیجیو۔
رباعی مستزاد
آئینہ بروئے دِلکشائے تو رَسد- اے نورِ نگاہ
ہم شانہ بہ زلفِ سائے تو رسد -مارا چہ گناہ
ما خاک شویم و سرمہ منظور اُفتد- دا غیم زرشک
دل کوش شدہ و حنا بہ پائے تو رسد- سبحان اللہ
قطعہ
دل ہے تیرے پیار کرنے کو
جی ہے تجھ پر نثار کرنے کو
اک لہر لطف کی ہمیں بس ہے
غم کے دریا سے پار کرنے کو
-------------------------------------------------
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ۱۷۶

سبقت کی اور کہا ؎
آئیے بیٹھیے کرم کیجیے
بے تکلّف یہ گھر تمہارا ہے
اور درویشوں نے علیکی دے کر پُشت تعظیم کی خم کی اور موافق ارشاد خَجستہ بنیاد حضرت ظلِّ الہیٓ سلطنت پناہی اَ بہت دستگاہی کے بہ فراغت بیٹھے اور بادشاہ نے سب ارکان خلافت کو ُمرخّص کرکے مجلس خلوت کی آراستہ کی اور ساتھ فقیروں کے متکلم ہوا کہ یہ خاکسار ذّرہ بے مقدار امیدوار الطاف درویشانہ و اَعطَاف بزرگانہ سے یوں ہے کہ شب گزشتہ میں اوپرحقیقت حال خیریت اشتمال تین صاحبوں کے اطلاع حاصل کی اب متَرصد ۵۷۵ ہے کہ درویش چہار میں بھی سرگزشت اپنی سے استفادہ بخشے کہ اَلِانِتظَارُ اَشدُّ مِنَ المَوتِ میں گرفتار ہوں ؎
ہمیشہ اس تمنا ہی میں حسرت ؔ کی گزرتی ہے
نہ جانوں کب تلک اُس سے مرا دل بہرہ یاب ہو گا
فقیر بہ سبب دبدبۂ سلطنت اور اوّل ملاقات کے باعث سے محجوب اور مؤدّب مانند غنچہ گل کے منقبض تھے، اتنے میں ایک شعر ایک شخص زبان اپنی سے بر لایا اور کہا ؎
قیامت جیتے جی ہی آ گئی، سر پر خدائی میں
نہ سمجھے تھے کہ اس گردوں کا ایسا انقلاب ہو گا
ہم اپنے قتل کا چرچا جو، از بس سب سے سنتے ہیں
نہیں کرتے خبر دل کو، کہ اس کو اضطراب ہو گا
بادشاہ نے فرمایا کہ واسطے رفع حجاب کے یہ عاصی تمھارے آگے سرگزشت اپنی مفصّل بیان کرتا ہے کہ مجھ کو بھی ایک رفقاء اپنے سے جان کر بےتکلّف ہو جاؤ اور حرف بے گانگی کا
صفحہ ۱۷۷

درمیان سے اُٹھ جائے ؎
اب جو میں تم سے ملا اور سب کو یار اپنا کیا
اور بھی جی دوستی میں ، بے قرار اپنا کیا
القصّہ ہر چہار درویش متوجہ بہ استماع داستان مبارک بادشاہ کے ہوئے۔

صفحہ ۱۷۸
بیان قصّہ بادشاہ فرخ سیر کہ باعث ا س احوال کا ہے

قصے جَور و جفا کے سَو سَو ہیں
دل میں میرے کباب کی سی طرح
آبرو سے نباہ دیوے حق
زندگی ہے سراب کی سی طرح
یہ خاکسار بعد رحلت والد بزرگوار کے تخت سلطنت کے اوپر رونق افزا اِس دیار کا ہوا۔ ایلچی ہر چہار طرف کے ، واسطے مبارک باد کے آئے اور نامہ و پیام و سوغات و تحفہ جات ہر انواع کے لائے اور کہا:
ع تخت شاہی کے تیئں فخر ہے تجھ ذات سے آج
اس ضمن میں ایک سوداگر وارد اس دِیار عالی تَبار کا ہوا اور ایک لعل بے بہا ساڑھے تین مِشقال ۵۷۶ وزن کا نذر گزرانا کہ آگے آب و تاب اُس کی کے، لعل بدخشاں کا بھی بے

صفحہ ۱۷۹
آب تھا۔ چنانچہ ثانی اُس کے کوئی رقم از قِسم جواہر کے سے بیچ جَواہر خانہ کے بلکہ بیچ تمام سلطنت میری کے نہ تھا۔ میں نے اُس کے تیئں از جملہ مغتنمات جان کر مقر ر فرمایا تھا، کہ جس وقت دربار مجرائیوں سے معمور ہووے اس لعل پارے کو حاضر کیا کریں۔ اوّل میں ملاحظہ کرتا بعد ازاں سب حاضران دربار معلّٰی کے دیکھتے اور بے اختیار زبان بیچ تعریف و توصیف آبداری اور رنگینی اس کی کے کھولتے۔ ایک روز ایلچی فرنگ کا دربار میں حاضر تھا کہ ملا زمان حضور موافق قاعدہ مستمرہ کے لعل کو لائے۔ میں نے دیکھا اور سبھوں کو دکھایا۔ سب ارکان خلافت بیچ تعریف اُس کی مدح پرداز ہوئے۔ ایک وزیر صاحب تدبیر کہ وقت اعلٰی حضرت کے سے بیچ کاروبار وزارت مقرروممتاز تھا، دست بستہ ہو کر آداب بجا لایا اور عرض کیا کہ اگر جاں بخشی ہو تو غلام کچھ عرض رکھتا ہے۔ میں نے فرمایا کہ کہہ۔ تب اُن نے عرض کیا کہ قِبلۂ عالم سلامت ذات ملکی صفات بادشاہوں کی حق سبحانہ تعالٰی نے عدیم المثال اور بے نظیر پیدا کی ہے، اوپر ممالک محروسہ روئے زمین کے صاحب حکم کیا ہے اور زروجواہرو تحفہ جات جہاں کے نصیب اولیائے دولت قاہرہ کے ہوئے ہیں، بادشاہان دریا دل سے یہ بات خیلے ۵۷۷ بعید اور نہایت تعجب کی ہے، کہ ایک پارہ لعل کو ہر روز طلب کرنا اور تعریف بیش از قیاس فرمانا اور سب کو رطب اللسان اور عذَبُ ۵۷۸ البنیان ہونا نہایت نازیبا اور خلاف ریاست ہے۔ اگر حاضران محفل مُنِیف وکا رپردازان بارگاہ شریف روبرو از راہ ادب کے خاموش ہیں لیکن غائبانہ کہتے ہوں گے کہ بادشاہ نہایت ندیدہ جواہر کا اور مفلوک مزاج ہے۔ حضرت پیرومرشد سلامت بیچ دَارالسُّرورنیشاپور کے ایک سوداگر ہے کہ اس کے پاس ایک کُتّا ہے کہ اُس کے گلے میں جو پٹّہ پڑا ہے سات سات مشقال وزن کے لعل اس میں جڑے ہیں اور برسرِبازار بیچ دوکان کے رہتا ہے اور تمام خلقت آیندوروند ۵۷۹ دیکھتی ہے اور اس عزیز کو خواجہ سگ پرست کہتے ہیں۔ بہ مجرد استماع اِس بات کے میرے دل میں آتش غضب شعلہ افروز ہوئی کہ سوداگر کا مزاج کفایت شَعار و خسّت اطوار ہوتا ہے یہ بات خلاف قیاس اور باہر احاطۂ بشریت سے ہے اور فرمایا کہ وزیر کو لے جا کے دار پر
صفحہ ۱۸۰

کھینچو کہ بار دیگر کوئی شخص خلاف گوئی بہ حضور بادشاہ عظیم الشان کے نہ کرے۔ پس حسبُ الحکم قضا قَوام میرے کے ملازمین بادشاہی وزیر کو واسطے گردن مارنے کے لے چلے کہ یکایک ایلچی فرنگ کا دست بستہ کھڑا ہوا اور زبان بیچ شفاعت وزیر کے کھولی اور عرض کیا۔ فرد ؎
کیجیے جاں بخشی اور تقصیر معاف
بات اس کی کونہ بوجھو تم زِ لاف ۵۸۰
تجھ سا بادشاہ عادل رعیت پرور جو خون ناحق کرے اور وبال جان وزیر کا اپنے اوپر لیوے جائے فَراواں تاَسُّف اور تَلہف ۵۸۱ کا ہے۔ اول لازم یہ ہے کہ تحقیق فرمائیے۔ بعد ثبوت راست و دروغ کے جیسا مناسب ہو عمل میں لائیے۔ بارے التماس ایلچی فرنگ کا مُلتفی ساتھ اجابت کے کر کے حکم محبوس کرنے کا فرمایا اور کہا کہ اگر یہ بات اور صورت حال ، ساتھ صدق مقال کے جلوہ گر ہوئی تو جاں بخشی ہے، و اِلّا بہ انواع عذاب مَودعتاب اور خطاب کا ہو گا۔ القصہ وزیر کو بیچ زنداں خانہ کے لے گئے۔ پس یہ خبر، وحشت اثر، بیچ گھر اُس کے پہنچی ۔ زن وزیر نے بہ گریہ وزاری و نوحہ و بے قراری سر کے بال کھسوٹ کے زیور دور کیا اور لباس بدن کا پھاڑا لیکن وزیر ایک دختر عاقلہ اور فرزانہ ۵۸۲ رکھتا تھا کہ ہمیشہ بیچ عیش و عشرت کے اور راگ و رنگ و شراب و کباب میں مشغول رہتی تھی۔ والدہ اُس کی نے آ کر اُس کو سرگرم نائے و نوش کا پایا۔ ایک جھکّڑ دودستی کہ جس کو کہ دو ہتھڑ کہتے ہیں اوپر سر کے ماری اور کہا کہ اے کمبخت باوفا و اے بدبخت پُر جفا اگر آج کے روز ایک کانا کھدرا یا کَنُو نڈا بیٹا ہوتا تو وہ بھی کام آتا اور اپنے باپ کو قید سے چھڑاتا ، تجھ کمبخت کو کیا کروں کہ وارث میرا قید ہے اور تو شراب و کباب اور راگ ورنگ کی صید ۵۸۳ ہے۔

فرد
جَلا دے حُسن کے شعلے سے اپنے خاک کر مجھ کو
میں اس جینے سے تنگ آئی ہوں ظالم، پاک کر مجھ کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۶

بیرون شہر کے بنایا

روضۃً ما ء و نہر با سلسال
دوحۃً سجع و طیر با موزوں
آن پُر از لالہ ہائے رنگا رنگ
دیں پُر از میوہ ہائے گونا گوں
باد در سایہ درختانش
گسترانید فرش بوقلوں

اور دیوار ہاے بلند اور جا ہائے طبع پسند چند روز میں بیچ اُس کے تیار ہوئے اور گنبد نمد کا آراستہ بنوا کے شیشہ ہائے حلبی واسطے روشنی کے بیچ اُس کے نصب کیے کہ تابش آفتاب و ماہتاب کی بیچ اُس کے دخل نہ پاوے۔ بندہ مع دایہ و چند خادمہ اور ایک اوستاد، ادیب، صاحب فضل و کمال کے اُس مکان بہشت نشاں میں پرورش پاتا تھا اور حقیقت تعلیم علم اور لکھنے ہفت قلم کی، ہمیشہ بیچ حضور لامع النور خلیفۃ الرحمانی، قبلہ و کعبۂ دو جہانی، مرجع آمال دامانی کے عرض ہوتی تاکہ بیچ مدت وہ سال از جمیع علوم، بہرہ ور و کامیاب ہوا اور اس باغ کو روضۂ رضواں جان کر فصل بہار میں بہ گلہائے رنگا رنگ و میوہ ہائے گونا گوں بیچ کھانے اور کھیلنے کے مشغول رہتا کہ ناگاہ بیچ ایک دریچہ باغیچہ کے گنبد کے نیچے، ایک عجائب گل نظر آیا۔ میں نے اس کے لینے کے لیے ہر چند ہاتھ چلایا، اُس کو نہ پایا اور نہایت تعجب نے منھ دکھلایا اور وہ گل شعاعی اوپر جائے اپنی کے ہر دم زیادہ ہوتا تھا اور میرا ہوش و عقل کھوتا تھا اور میں ملاحظہ اُس کے سے ایک دم غافل نہ ہوتا تھا۔ ناگاہ بلندی گنبد سے ایک آواز تبسم کی بیچ گوش ہوش اُس مدہوش کے پڑی، گردن بلند کر کے کیا دیکھتا ہوں کہ نمد پارہ شق ہوا ہے اور گویا بدلی کو چیر کر چودھویں رات کا چاند نمودار ہوا ہے:

فرد

بہ زیر پیر ہنش ہر کہ دید حیراں شد
چہ دید خانہ خرابی کہ دید عریانش
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۷

بہ مجرد دیکھنے آفتاب جمال اس پری نژاد کے یہ ذرہ ناچیز خالی از ہوش و تمیز کے ہوا اور یہ کبت کب دیو کا پڑھ اٹھا۔

کبِت

گوری مکھ کنول پڑے لو چن بول بول موتی باسیںلاج پر (؟)
سوبھا کے لال دِکھے کود للچات کود پھاسے اٹھت روپ کی سماج پر
بادلے کی ساری در دامن کناری جگمگے جیوں تارے چھٹے جھالر کی ساج پر
موتی گوندھے، گوری چمک، جیوں آوان، جیوں نرون کے پاس، دُج راج پر (؟)

پھر اپنے کو سنبھال کر دیکھا تو ایک تخت مرصع، بیچ ہوا کے اوپر دوش پریزادوں کے مُعلق ٹھہر رہا ہے اور وہ پری نژاد تاج ُکلل بر سر اور چارقب مروارید دربر، جام یاقوت در دست نشہ شراب کے سے سرشار متوجہ زمین کی عالم بالا سے ہوئی اور میرے تئیں، اس ماہ دلبری کے نے، اپنے آگے بٹھا لیا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور ساتھ کلمات محبت آمیز کے اور سخن ہائے عشق انگیز کے سے میرے تئیں فریفتہ و بندۂ بے درم خرید کیا۔

بند مخمس

نکلے جو بچن منھ سے جھڑی پھول کلی گویا
تب بیچ محبت کا دل بیچ مرے بویا
امید ستی جل کے دن رین نہیں سویا
سدھ بُد نہیں تن من کی سب ہوش و خرد کھویا
کیا کام کیا دل نےدیوانہ کو کیا کہیے

اور دو جام شراب ارغوانی کے پلا کر کہا؂

آدی زادہ بے وفا ہے گا
گرچہ دل تجھ پہ مبتلا ہے گا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۸

چنانچہ عجب حالت بشاشت اور خُرمی کی حاصل اور متواصل ہوئی اور اُس آرام جاں و باعثِ تاب و تواں نے مہربانی ہائے بسیار و الفت ہائے بے شمار سے، اس قدر دلبری و دلداری و مہر ورزی و غم خواری کی کہ کسی سے نہ سنی تھی، نہ دیکھی تھی۔ ناگاہ عین مزے میں ایک پری زاد، خانہ برباد نے ہوائے فلک سے آن کر کچھ اپنی زبان میں کہا، تب وہ نازنیں بہ قول اس کے؂

خوبرو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
پل میں دل لے کے بھول جاتے ہیں
صبح عاشق کوں، شام کرتے ہیں

چہرہ افروختہ کر کے میری طرف مخاطب ہوئی اور کہا کہ اے یار عزیز چاہتی تھی کہ ایک دم تردوات دنیوی سے یکسو ہو کر ساتھ تیرے داد مُعاشرت اور مُباشرت کی دوں لیکن از انجا کہ زمانۂ سفلہ پرور عیش برہم زن و روزگار خدا جہاں کہیں کہ دو دل کو یکجا دیکھتا ہے ووہیں نغمہ دوری و مہجوری کا آغاز کرتا ہے۔ لاچار اور معذور ہوں۔

بیت

رفتیم و داغ ہجر تو بُردیم یادگار
بریاد ما تو ہم دل خود را نگاہ دار

میں نے کہا کہ اے مجموعہ خوبی ہائے بے کراں، واے باعث آرام جان ناتواں، پھر کب تشریف لاوو گی و اِلا ہم کو نہ پاووگی؂

تیرے خیال آنے کی پاووں اگر خبر
سینے کو داغ عشق سے گلزار کر رکھوں

اس واسطے چاہتا ہوں کہ یہ جمال باکمال پھر دیکھوں اور ملاقات سراسر بہجت و نشاط
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۹

حاصل کروں۔ اس بے سر و ساماں کے تئیں اپنے نام اور مکان سے نشان دیجیے۔

فرد

ترس تجھ کو نہیں اے شوخ اتنی کیا ہے ترسائی
ترے دیدار کو میں دیدۂ ترسوں کھڑا ترسوں

کہا کہ میں دختر بادشاہ جنوں کی ہوں اور اوج مکان میرے کے اگر مُرغ تیز رو وہم و خیال کا بال پرواز کا کھول سکے کیا مقدور۔ اس قدر کہا اور تیغ جدانی سے میرے تئیں بسمل کر کے روانہ ہوئی۔ جب تک کہ تخت اس عالی بخت کا مقابل تھا میں اس کو دیکھتا تھا اور وہ مجھ کو دیکھتی تھی۔ آخرش بہ مضمون اس مصرع پر آن ٹھہری۔ ع۔

آرام دل برفت و دلم بے قرا ماند

واردات اس احوال کے سے عقل و ہوش میرا کاخ دماغ سے رخصت ہوا اور جہاں آنکھوں میں تاریک نظر آیا اور آشفتہ و پریشاں خاطر، نالاں و گریاں، بادل بریاں و تن عریاں اوپر زمین کے غلطاں بے قرار اور سرشار مانند ابر کے روتا تھا اور کہتا تھا :

فرد

مہربانی ہائے لیلا کرد مجنوں را خراب
ورنہ ایں بیچارہ رامیل گرفتاری نہ بود

اور کبھی دل اپنے کےتئیں ساتھ اس شعر کے مشغول کرتا تھا :

نطم

کہاں ہے وہ عزیزاں وہ رشک پری
کہ جس کا بہ ضاں ہے دو جگ مشتری
کہاں ہے وہ گلزار باغ وفا
کہ ہے شان جس کی سدا دلبری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۰

وہی ہے مرے حرف کا قدرداں
کہ جوہر نہ بوجھے بہ جُز جوہری
کوئی جا کہے اُس سے میرا پیام
کہ کہتا ہوں از جان و دل ہر گھڑی
شتابی خبر لے کہ بے تاب ہوں
ترے عشق میں بے خور و خواب ہوں

آخرش اوپر احوال کثیر الاِختلال خسراں مآل میرے کےدایہ اور معلم نے اطلاع حاصل کر کے نہایت خوف و رِجا میں ہو، بیچ عرض سلطانی معروض کیا۔

فرد

سر نوشتے چو بد افتاد ز تدبیر چہ سود
کس بہ ناخن نہ کشاید گرہِ پیشانی

بادشاہ نے سننے اس سانحۂ ہوش رُبا و حیرت افزا کے سے بیہوش و حواس ہو کر وُزرائے صائب راے اور حکمائے ذوفنون اور علمائے مُتجر کے تئیں تعین گیا کہ بیچ دریافت کرنے اس آفت ناگہانی کے سعیِ موفورہ تقدیم پہنچا کر، بیچ چارہ جوئی شفائے شاہزادہ بلند اقبال کے کوشش فراواں و جہد بے پایاں عمل میں لاویں اور حضرت خدیو کشور جہانیاں، دیں پرور، رعیت نواز، عدالت گستر، بذات خود بیچ باغ کے تشریف لائے اور مجھ کو بہ ایں حالت تباہ دیکھا، ازراہ شفقت پدری کے اشفاق اور الطاف ازحد زیادہ فرمایا اور بیچ بغل کے لیا اور بوسہ اوپر پیشانی کے دیا اور ہر چند حُکما بہ دوا و شربت و غذا اور فضلا بہ دعا اور فقرا بہ تعویذ اور منجمان بہ تصدق چارہ گری کرتے تھے لیکن سعی کسی کی پیش نہ جاتی تھی اور میں روز بروز زرد و لاغر اور بے خور و خواب اور بے قرار و آرام، گرفتار رنج و آلام، بہ تکلیف تمام روز و شب باگریہ و سوز، بسر لے جاتا تھا اور یہ پڑھتا تھا؂
 
Top