شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۱۰۹
سے دست طلب کا کھولتا ہوا آیا۔ پھر میں نے اس حرکت سے اغماض کر کے اور جو کچھ توفیق ہوئی نثار کیا۔ اسی طور سے اس نے ہر ایک در سے آنا شروع کیا۔ بندے نے دامن آرزو اُس کی کے تئیں بذل و نوال سے مالا مال کیا۔ بعد ازاں اُس نے پھر دروازہ اول سے گزر کر کے لب سوال کا کھولا۔ میرے تئیں یہ حرکت باعث گرانی خاطر کی ہوئی اور اُس قلندر سے کہا کہ اے حریص جہاں گرد خزانہ وقف کا واسطے حاجت روائی محتاجوں اور حصول مقصد مسکینوں کے مقرر کیا ہے، نہ واسطے تجھ سے بو الفضول بد روزگار و طامعِ زر بیشمار کے لیے کہ اب حیا کا چشمہ توکل سے ٹپکا کے چشمۂ قناعت کا خس و خاشاک، ہوا و حرص کے سے مکدر کیے پھرتا ہے استغفر اللہ وہ بھی درویش ہے کہ التکلِیف حرام سے خبر نہ رکتھا ہو، درویش اس بات سے نہایت بد دماغ و پریشان خاطر ہو کے جو کچھ مجھ سے پایا تھا، زمین پر پٹکإ کر بولا۔ بابا گرم کیوں ہوتا ہے؟ "عطائے توبہ لقائے تو بخشیدم" لیکن یہ یاد رکھیو کہ سخاوت کی طرف سے تکلف برطرف، ہنوز دلی دور ہے۔ آئندہ زینہار رقم سخاوت و علو ہمتی اپنی کا اوپر جریدۂ روزگار کے نہ لکھنا کہ السخِی حبِیب اللہِ ولو کان فاسِقا کا وصف کوئی بادشاہ زادی بصرہ کی سے سیکھے کہ تشریف سخاوت و مروت کا کس مرتبہ اپنے قامت پر راست کیا ہے۔ پھر میں نے ہر چند زبان معذرت کھولی اور قسم یاد دے کر کہا کہ جو کچھ چاہے حاضر ہے، ہرگز قبول نہ کیا، اور آخر کلام یہ کہہ کے چلا کہ اب اگر سلطنت بخشے تو یہاں اِستغنا سے تُف نہ کروں
گو کہ اب دل میں سمجھ کر کے تو پچھتاوے گا
پر مرے دل کو تو زنہار نہیں پاوے گا
کفِ افسوس کو ملتا ہی تو رہ جاوے گا
جو دل اس بات گیا ہاتھ نہ پھر آوے گا
می روم اش درِ تو باز بہ تورؤ نہ کُنم
گر درت قبلہ شود سجدہ بہ آں سؤنہ کُنم
سے دست طلب کا کھولتا ہوا آیا۔ پھر میں نے اس حرکت سے اغماض کر کے اور جو کچھ توفیق ہوئی نثار کیا۔ اسی طور سے اس نے ہر ایک در سے آنا شروع کیا۔ بندے نے دامن آرزو اُس کی کے تئیں بذل و نوال سے مالا مال کیا۔ بعد ازاں اُس نے پھر دروازہ اول سے گزر کر کے لب سوال کا کھولا۔ میرے تئیں یہ حرکت باعث گرانی خاطر کی ہوئی اور اُس قلندر سے کہا کہ اے حریص جہاں گرد خزانہ وقف کا واسطے حاجت روائی محتاجوں اور حصول مقصد مسکینوں کے مقرر کیا ہے، نہ واسطے تجھ سے بو الفضول بد روزگار و طامعِ زر بیشمار کے لیے کہ اب حیا کا چشمہ توکل سے ٹپکا کے چشمۂ قناعت کا خس و خاشاک، ہوا و حرص کے سے مکدر کیے پھرتا ہے استغفر اللہ وہ بھی درویش ہے کہ التکلِیف حرام سے خبر نہ رکتھا ہو، درویش اس بات سے نہایت بد دماغ و پریشان خاطر ہو کے جو کچھ مجھ سے پایا تھا، زمین پر پٹکإ کر بولا۔ بابا گرم کیوں ہوتا ہے؟ "عطائے توبہ لقائے تو بخشیدم" لیکن یہ یاد رکھیو کہ سخاوت کی طرف سے تکلف برطرف، ہنوز دلی دور ہے۔ آئندہ زینہار رقم سخاوت و علو ہمتی اپنی کا اوپر جریدۂ روزگار کے نہ لکھنا کہ السخِی حبِیب اللہِ ولو کان فاسِقا کا وصف کوئی بادشاہ زادی بصرہ کی سے سیکھے کہ تشریف سخاوت و مروت کا کس مرتبہ اپنے قامت پر راست کیا ہے۔ پھر میں نے ہر چند زبان معذرت کھولی اور قسم یاد دے کر کہا کہ جو کچھ چاہے حاضر ہے، ہرگز قبول نہ کیا، اور آخر کلام یہ کہہ کے چلا کہ اب اگر سلطنت بخشے تو یہاں اِستغنا سے تُف نہ کروں
گو کہ اب دل میں سمجھ کر کے تو پچھتاوے گا
پر مرے دل کو تو زنہار نہیں پاوے گا
کفِ افسوس کو ملتا ہی تو رہ جاوے گا
جو دل اس بات گیا ہاتھ نہ پھر آوے گا
می روم اش درِ تو باز بہ تورؤ نہ کُنم
گر درت قبلہ شود سجدہ بہ آں سؤنہ کُنم