26
موردِ عنایاتِ خلعتِ فاخرۂ واہ واہ و سر پیچ (۵۵) تحسین و جیغہ (۵۶) آفریں کا حضور عالی سے نہ ہووے زینت شہرت کی نہ پاوے۔ چنانچہ ایک قصید درخورلیاقت اپنی کے بیچ مدح جناب عالی کے لکھ کر تیار کرتا ہوں اوپر مدد ستارہ سعید اپنے کے کہ ذرّہ طالع یاور میرے کے تئیں ظہور روشنی کا پر تو تجلّائے نور اُس مہر انور کے سے پایا کہ جس کے شعشۂ (۵۷) جمال جہان آرا سے میدان وسیع شش جہت عالم کا مشر قستان نیّر اعظم کا ہو رہا ہے۔
قصيدہ
اگر مِداد (۵۸) ہو دریا و ہوں قلم اشجار
نہ لکھ سکے کوئی اُس کے کمال کا طُومار
پھر اب زبان مری کو کہاں یہ طاقت ہے
جو اُس کی مدح کے لکھنے کا کچھ کیوں اقرار
مگر ضرور ہے اتناں کہ گر تمام صفت
نہ ہو سکے تو بھلا ایک تو کیوں زہزار
کہ اُس کا وصف، مدَارُ المُحام ہے سو بجا
کہ ہے وہ عقل کے میدان کا بڑا سردار
امورِ سلطنت کی سوائے فطرت کے
اگرچہ ہووے ارسطو نہ کر سکے زنہار
جو ہووے جلوہ فزا مسندِ عدالت پر
بدل کرے اور اثرِ بد زِ کوکبِ سیّار
جو اُس کے عدل کی میزان میں تُلے خردَل (۵۹)
تو کیا شبہ ہے کہ ہووے برابرِ کُہسار
27
اور اُس کی ہمّتِ عالی کی کیا کروں تعریف
ہوا ہے عرصۂ دنیا کہ جس سے گوہر بار
چمن زمانے کا شبنم سیتی رہے محروم
اگر نہ اُس کی سخاوت کابر سے ابرِ بہار
"نہیں" کا نام زمانے سے ہو گیا مفقود
زبانِ فیض ستی لفظِ "ہست" ہے دُربار
تماشا یہ ہے کہ وہ ہست و کم سے واقف نئیں
یہ فضل حق ہے کہ ہو ہست اور ہو بسیار
ق
ہے اُس کا ضبطِ شجاعت کا اس قدر جگ میں
نگاوِ کرم جدھر کو نظر کرے یک بار
اور اُس طرف کبھی رستم ہزار صف سے ہو
تو روح ڈرستی قالب سے ہو سکے نہ بَرار (۶۰)
نہ ہوئے کیونکہ شجاع ہووے جوہز برِ جنگ
کہ تیغ اُس کی جہاں میں ہے قاتلِ کفّار
فکیف (۶
mso-hansi-font-family
ubai" lang="AR-SA">۱) تیغ جسے برق سے نہیں کچھ فرق(۶۲)
پڑے جو فرق پہ دشمن کے پا تلک ہو بغار (۶۳)
ق
کمال تیر چلانے کا یہاں تلک ہے گا
کہ جس کی تیز روی کا میں کیا کروں اذکار
جہاں خیال کا پہنچے نہ تیر جلدی سے
وہاں گزر کرے اُس کے خدنگ (۶۴) کا سُو فار (۶۵)
28
ق
شناوری(۶۶) میں یہ قدرت کہ قعرِ دریا ہے
اور اُس کے دل میں یہ آوے کہ اس سے ہو جیے پار
تو اُس کے علم شنا (۶۷) کی سُبک روی آگے
مجال کیا ہے جو پانی سے ہو ہَوا کا گزار
نگاہ چشم تلک بھی نہ پنہچنے پاوے
کہ اِس طرف ستی جاء اُس طرف سے پھر ہو پار
ق
یہ زور حق نے دیا اس کے دست و باز میں
کہ اُس کی خاطرِ اشرف میں گر ہو عزم شکار
تو شیر ترس(۶۸) سے بُرجِ اسد میں جا کے چھُپے
مگر ہو بحر کے تحت الثرا (۷۰) کورُو بہ فرار
ق
اگر طیور کی صید افگنی پہ مرغوب
تو اُس شکار کی تعریف کیا کروں اظہار
جو چھوٹے دست مبارک سے چرخ پر شہباز
عقاب شمس کا مغرب میں جا چھپے درغار
وگر زمیں یہ کرے رُخ ز عالم بالا
پرند کیا ہے دو خرگوش کو کرے ہے شکار
ق
کمیت (۷۱) خامہ کا اب اُس کے سیر گلگوں کو
کرے ہے صفحۂ قرطاس کے تئیں مِضمار (۷۲)
29
بیان حلدی کا اُس کی کہاں تلک کیجے
فلک کو جس کی سواری کا عزم ہو دشوار
خیال کیجے کہ ایسے پہ کس کا ہے مقدور
کرے جو ذکر سواری کا غیر استغفار
مگر ہے راکب(۷۳) اُسی کا وہی امیر العہد
مدد ہے جس کی شہِ دین حیدر کرار
اگر وہ شرق میں چاہے کہ چھیڑ کر اُس کو
میں پہنچوں غرب تلک لفظ ہاں کا کہہ اک بار
زباں سے لب تلک آواز "ہاں" نہ پہنچنے پائے
کہ یہاں سے وہاں پہنچ اور وہاں سے پھر یہاں ہو دوچار
ق
زباں نہیں جو سواری کے فیل کی شوکت
بیان ہو سکے یا اُس کا کچھ کروں گفتار
کہ بیٹھنے میں ہے کوہ اُٹھنے میں ہے ابرِ سیاہ
بلند عرش سا، چلنے میں چرخ کی رفتار
جب اُس پہ لے کے کجک (۷۴) ہووے فیل باں (۷۵) قائم
گویا فلک پہ کیا ماہِ نونیں (۷۶) استقرار
ستارے جھول (۷۷) کے اس لطف سے چمکتے ہیں
اندھیری رات میں تاروں کی جس طرح ہو بہار
اور اُس کے ہودجِ زرّیں اُپر جناب نواب
ہے جیسے ابرِ سیہ بیچ مہر پُر انوار
30
جلوس وقت سواری کا کیا کہوں جو کہوں
ز بس بہار سے فوجوں کی ہو رہی گلزار
صدائے ڈنکے کی ایسی ہی بجتی ہے کہ اگر
ہو دل میں جُبن (۷۸) کس کے تو مرد ہو یکبار
ق
تجمل اُس کے عاکر کا کیا کروں تقریر
کہ موکب (۷۹) اُس کا ہے کوکب (۸۰) کی فوج سے بسیار
غلام کہنہ و دیرینہ جس کا ہے اقبال
فقح رکاب میں جس کے ہے ایک خدمت گار
تمام فوج کی تعریف تو کہاں ہووے
پر ایک ہند میں تحفہ ہوا ہے یہ اسرار
کہ اس جناب میں فطرت سے اپنی ہی بے غیر
کریں ہیں ایسی ہی جرّار پلٹنیں تیار
کہ ہووے گرچہ فلاطوں نہ کر سکے یہ فکر
جو ذات مظہر عالی سے سیتی ہوا اظہار
بہ مرتضٰی جو کہوں صف یہ صف کھڑے ہوویں
نظر پڑے ہے کچھ اور ہی طرح کا لیل و نہار
بطور فوج ولایت کے جب کریں ہیں فیر (۸۱)
تو آگے کوہ جو ہو اُس کو بھی کریں مسمار
صلابت (۸۲) ایسی ہے توپ خانہ عالی کی
کہ جسم رعد (۸۳) کا عرش سے جس کے ہے بیزار
31
گرجنا اس کا قیامت کے شور سے نزدیک
تڑپ سے جس کے عدو کا جگر فگار فگار
ق
شکوہ خیمہ کی رفعت کا گر کہوں تم سے
کہاں خیال کو طاقت کہ پا سکے وہاں بار
اُسی کے رشک سے اب تک فلک ہے گردش میں
اُسی کے باہر سے ہے تختۂ زمیں کو قرار
ق
جو اُس کے مطبخ (۸۴) عالی کو پوچھیے مجھ سے
تو کیا کہوں کہ زیادہ ہے وہ زحد و شمار
یقیں ہے حاصلِ ہندوستاں نہ ہو کافی
اگر ہو اُس کے مصارف کے واسطے درکار
زہے نواب امیرِ زمان پناہ جہاں
کہ جس کے جاہ کا حشمت کا یہ کیا اذکار
غرض کہ جس کا ہو تحسیںؔ جناب اس درجہ
کروں میں وصف کو اُس کے کہاں تک اظہار
کہ وہ ہے مہر درخشاں، ومیں ہوں ذرہ مثال
خدا کے واسطے ذرّہ کا یہاں ہے کیا مقدار
تلم زباں کی وہ، اور خامہ کی زباں یہ ہے کچھ (كذا)
بھلا ہو ضنچہ دہانوں سے کیونکہ حرف برار
بس اب زبان و قلم ہر دو معترف بہ قصور
کہاں میں اور کہاں وصفِ وارثِ تلوار
32
وہ کون شخص ہے، نواب آصف الدولہ
کہ جس کی ذات سے ہے ہند کو سکون و قرار
اگرچہ کام خوشامد کے کرنے کا جگ میں
ہمشہ سیتی چلا آتا ہے بہ ملک و دیار
ولے قسم ہے مجھے اپنے دین و ایماں کی
کہ بلا مبالغہ کہتا ہوں اس کو میں صد بار
نہیں زمانے میں ایسا بہ جاہ و حشم و شکوہ
مرے نواب کا ثانی کوئی سپہ سالار
خدا رکھے اسے تب تک سلامت اور قائم
کہ جب تلک رہے سر سبز دہر کا گُلزار
بارے الحمد اللہ و المنّتہ کہ نجم امید کا اوپر معراج مدعا کے جلوہ گر ہوا کہ فراغ خاطر سے گلدسۂ داستان تئیں اس رنگ سے بیچ محفل بیان کے زیب و زینت ترتیب کی دیتا ہوں۔