پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 300

151۔ خَظوظ: حظ کی جمع، لطف
152۔ خورسندر/خرسند: خوش
153۔ نَرد: چوسر کی گوٹ
154۔ قُرص: ٹکیہ
155۔ اَفتاں و خِیزاں: گرتے پڑتے
156۔ لَوزیات: بادام کا حلوہ
157۔ کَنجَد: بدشکل
158۔ وَاہِب العَطَایا: بہت بخشنے والا
159۔ مَطعُونی: رسوا، خوار، بدنام
160۔ مَظمنہ: قیاس، گمان
161۔ اِستِصلاح: صلاح لینا، مشورہ کرنا
162۔ خجلت دہِ خطوط شعاعی: سورج کی کرنوں کو شرمانے والا
163۔ مُنفَک: جدا کیا گیا
164۔ توڑا: تھیلی، اشرفیوں کی بھری تھیلی
165۔ بے غایات: بے شمار
166۔ پادر رکاب: چلنے کو تیار، آمادہ
167۔ بَدرقہ: وہ شخص جو راہ میں مسافر کی حفاظت کرے
168۔ مستحقطان: محافظ
169۔ چوبیں: لکڑی کا، لکڑی کا بنا
170۔ بُرج حَمل: آسمان کے برجوں میں سے پہلا برج جس کی شکل مینڈھے کی سی ہوتی ہے۔ جس دن آفتاب اس برج میں آتا ہے، شرف آفتاب ہوتا ہے اور یہی نو روز مینڈھے کا دن ہے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 325

628۔ سُم: گھوڑے یا کسی جانور کا گھر
629۔ اِنفصال: جدا ہونا
630۔ نُدَماء: ندما=ندیم کی جمع بمعنی مصاحب
631۔ مسلوک: جاری کیا گیا، احسان کیا ہوا، جس کے نقش قدم پر چلا جائے
632۔ گھاس کا ڈھیر
633۔ بھنا ہوا چنا
634۔ ایک مٹھی چنا
635۔ پسا ہوا آٹا
636۔ چنے کا آٹا، بیسن
637۔ شہر کے قریب کا علاقہ
638۔ راستے کی سواری کا جانور، دوران سفر کا سامان
639۔ کدال اور چھلنی
640۔ تھیلا، عموماً وہ تھیلا جو شکاری یا پھیری لگانے والوں کے ساتھ رہتا ہے (اردو لغت)
641۔ زَواہر: زاہرہ کی جمع بمعنی روشن، بلند، کھلا ہوا پھول
642۔ بَیع و شرا: خرید و فروخت
643۔ آلَست: عضو تناسل
644۔ کَخدا: شادہ شدہ
645۔ پانزدہ سالہ: پندرہ سالہ
646۔ مودی: اناج کا سوداگر، بنیا
647۔ مُغرق: ڈوبا ہوا
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 326

648۔ آمود: (جزواول سے مل کر) 'بھرا ہوا' کے معنی میں مستعمل جیسے کرامت آلود
649۔ چَشر: زرکار شاہی چھتری
650۔ جُفت کرنا: بیاہنا،شادی کرنا
651۔ جَوف: کسی چیز کا کھوکھلا حصہ
652۔ اَکناف: کنف کی جمع، اطراف، کنارے، سمتیں
653۔ خورم: خرم بمعنی خوش، شاد
654۔ عَشائر: عشیرہ کی جمع خاندان، گروہ
655۔ بید خواناں: بید خواں، وید کی تلاوت کرنے والا پنڈت
656۔ ہم خوابہ: ایک بستر پر سونے والا
657۔ قُر اول: شکار کھلانے والا میرِ شکار، شکاری جانوروں کی خبر دینے والا
658۔ قورخانہ: اسلحہ خانہ، وہ جگہ جہاں ہتھیار رکھتے ہیں۔
659۔ نامرَعی: نہ لحاظ کیا ہوا یا مروت نہ کرنا
660۔ عَمو: چچا
661۔ تَلطف: لطف و مہربانی
662۔ سَیلی: جالی، پیٹ اور سینے پر بالوں کی سیدھی لکیر، چانٹا، تھپڑ
663۔ نَردبان: زینہ
664۔ جواہر الوان: لَون کی جمع بمعنی رنگ، رنگ برنگ کے جواہرات
665۔ دَدا: وہ عورت جو بچوں کی پرورش کے لیے نوکر ہو
666۔ بُخور: وہ چیزیں جن کے جلانے سے خوشبو نکلتی ہے، لوبان
667۔ میمون: مبارک
668۔ زَبر جَد: ایک قسم کا زمرد
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 327

669۔ مسطور: سطر بند، لکھا ہوا
670۔ چارقَب: بادشاہوں اور امرا کا ایک طرح کا صدری نما لباس
671۔ چگونگی: اصلیت، حقیقت، کیفیت
672۔ تکَاسُل: کاہلی، سستی
673۔ فیض دَرجت: اعلیٰ مقام، بلند مرتبہ
674۔ پویہ: تیز، سرپٹ، گھوڑے کی چال
675۔ پویہ: نابینا، اندھا
676۔ مُستَمَند: ضرورت مند
677۔ مُستَجاب: جواب دیا گیا، قبول
678۔ سائر: سیر کرنے والا
679۔ تَعَدی: حد سے زیادہ تجاوز کرنا، ظلم و ستم اور چیلنج کرنا
680۔ گوسفند: بھیڑ
681۔ مَصیر: جائے باز گشت، ٹھکانا
682۔ کجاوہ: سواریوں کے بیٹھنے کے لیے اونٹ کی کمر کے دونوں طرف لٹکے ہوئے ہودے یا ٹوکرے کی وضع کی نشستیں، جن میں ایک، دو یا زیادہ سواریاں بیٹھ سکیں۔
683۔ مِحَن و سوز: محن، محنت کی جمع بمعنی تکلیف، محنت، سوز بمعنی دکھ، جلن، سوزش
684۔ جِنیاں: جنی کی جمع جنہ ہے، بہت سے دیو اور پریوں کے معنی میں ہے۔
685۔ نکَال: عذاب، رنج، دکھ
686۔ رَجولیت: عضو تناسل، قوت تولید، مجامعت کرنا
687۔ اَندک: تھوڑا، ذرا
688۔ شَنِیع: بد، خراب، قبیح
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 328

689۔ جَہندہ: کودنے والا، پھاندنے والا
690۔ ابرتِیرہ: سیاہ بادل، کالی گھٹا
691۔ جَریان: جاری ہونا، نفاذ
692۔ مُتَطمن: داخل کیا ہوا
693۔ تَوام: جڑواں
694۔ سَوگند: قسم، قول
695۔ مُتحصن: قلعہ نشین کیا ہوا، قلعہ نشین ہونے والا
696۔ صَفا صفاً: بے نشان، ویران
697۔ مَعاذب: تکلیف دینے والا

نوٹ: اس فرہنگ کی تیاری میں درج ذیل لغات سے استفادہ کیا گیا ہے:

1۔ فرہنگ آصفیہ: سید احمد دہلوی
2۔ نوراللغات: نورالحسن نیز کاکوروی
3۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) کراچی
4۔ فرہنگ امثال: سید مسعود حسن رضوی ادیب، لکھنئو، 1985
5۔ مصباح اللغات
6۔ کلاسکی ادب کی فرہنگ (پہلی جلد): رشید حسن خاں
7۔ المنجد
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۴

ملک کے نامور سائنس داں
اور فخر قوم
پروفیسر سید احتشام حسین
کے نام
جن کی رگوں میں اردو کا خون دوڑتا ہے!


صفحہ ۵

ترتیب

اعتذار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارتضیٰ کریم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۹
نوطرز مرصع (متن)۔۔۔۔۔میر محمد حسین عطا خاں تحسینؔ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۱
مقدمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور الحسن ہاشمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۴۹
نوطرز مرصع (مقالہ)۔۔۔۔۔جمیل جالبی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۷۱
نوطرز مرصع (مقالہ)۔۔۔۔۔گیان چند جین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۸۷
فرہنگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۹۴
عربی اقوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳۳۲
فارسی ضرب الامثال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳۳۵
اردو محاورے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳۵۸


صفحہ ۶

یہ جہل دیکھ کے بن دیکھے میں اٹھا لایا
وہ ایک بار جو تھا بیش اپنی طاقت سے
میر تقی میرؔ


صفحہ ۷

اعتذار

نوطرز مرصع، شمالی ہند کی قدیم نثری داستان ہے۔ یہ اپنی تکمیل کو ۱۷۷۵ء میں پہنچتی ہے۔ لیکن اسے پہلی بار سید نور الحسن ہاشمی نے ۱۹۵۸ء میں نہایت تحقیق و تلاش اور متعدد نسخوں کی مدد سے مرتب کر کے پیش کیا اور ہندوستانی اکیڈمی، الہ آباد سے شائع ہوئی۔ نور الحسن ہاشمی نے اپنے مقدمہ کا آغاز اس جملے سے کیا ہے :

"نو طرز مرصع شمالی ہند میں اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب ہے اس سے پہلے کی ہمیں اب تک کوئی مکمل کتاب شمالی ہند میں نہیں مل سکی ہے"

پر نو طرز مرصع کی اہمیت کے باب میں آگے لکھتے ہیں :

"تحسین کی نوطرز مرصع کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اردو کی یہ سب سے پہلی مکمل تصنیف ہے جو شمالی ہند میں ہم کو ملتی ہے، اس سے پہلے فضلی کی کربل کتھا کا نام ملتا


صفحہ ۸

ہے، لیکن اس کتاب کا اب کہیں نشان بھی نہیں ہے۔"

نور الحسن ہاشمی کے یہ بیانات، (واضح رہے کہ یہ مقدمہ ۱۹۵۸ء میں لکھا گیا تھا) اس زمانے کی تحقیق کے مطابق مبنی بر دستیاب حقائق تھے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ تحقیق کی راہیں ہمیشہ وا رہتی ہیں، سو آج کی دریافت کل رد ہو سکتی ہے یا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ نوطرز مرصع کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اس کی جگہ کربل کتھا نے لے لی، جب پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے ۱۹۶۱ء میں ‘شعبۂ اردو‘ دہلی یونی ورسٹی سے فضل علی فضلی کی نثر تصنیف کربل کتھا شائع کر دی، جس کا زمانہ ۳۳-۱۷۳۲ ہے، تو اس کے بعد کربل کتھا کو شمالی ہند کی پہلی نثری تصنیف تسلیم کر لیا گیا، اگرچہ کربل کتھا بھی باضابطہ تصنیف نہیں بلکہ ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب "روضۃ الشہدا" کا ترجمہ ہے لیکن چونکہ بہ زبان اردو ہے اور اس سے پہلے کی کوئی نثری تصنیف ہمیں تادم تحریر دستیاب نہیں ہوئی ہے، اس لیے ہم اسے ہی شمالی ہند کی پہلی نثری تصنیف مانیں گے۔ شمالی ہند میں اٹھارویں صدی کی کئی داستانیں سامنے آ چکی ہیں۔ مثلاً قصہ مہر افروز و دلبر از عیسوی خاں (۵۹-۱۷۳۲)، جذب عشق از شاہ حسین حقیقت (۹۷-۱۹۹۶)، وغیرہ۔ انہیں داستانوں میں ایک داستان "نوطرز مرصع" بھی ہے۔

نو طرز مرصع کے متعلق نور الحسن ہاشمی نے ہی یہ لکھا ہے کہ :

"۔۔۔۔۔مختصراً نوطرز مرصع کی تاریخ تصنیف کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۷۶۸ء سے شروع ہو کر ۱۷۷۵ء میں تمام ہوئی اور دو ایک سال بعد کچھ عبارتیں اور مدحیہ قصیدے میں شجاع الدولہ کے بجائے آصف الدولہ کا نام لکھ کر ان کے حضور میں پیش کر دی گئی ہو گی۔۔۔"

نوطرز مرصع کے وجود کی پہلی اطلاع اگرچہ وہ آدھی ادھوری ہی تھی، مگر سب سے پہلے


صفحہ ۹

محمد حسین آزاد کی آب حیات سے ہی ہمیں ملتی ہے۔ بعد ازاں کئی تذکرہ نگاروں اور تاریخ ادب کے مؤرخین نے اس کا ذکر تو کیا، مگر کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ کر سکے۔

ڈاکٹر سید نور الحسن ہاشمی نے نئی تحقیقات اور ڈاکٹر سید سجاد کے تحقیقی مقالے جس کا موضوع "نوطرز مرصع" ہی تھا، کی بنیاد پر اس داستان پر عرق ریزی کے ساتھ کام کیا اور اسے تفصیلی مقدمہ کے ساتھ مدون اور مرتب کیا۔ پیش نظر کتاب اسی کی اشاعتِ نو کہی جا سکتی ہے مگر کچھ اضافوں کے ساتھ۔

تاریخ ادب میں نوطرز مرصع کےچھ قلمی اور دو مطبوعہ نسخوں کا ذکر ملتا ہے جن کا تفصیلی ذکر نور الحسن ہاشمی نے بھی اپنے دیباچے میں کیا ہے۔ ان میں سے تین قلمی نسخے سید مسعود حسن رضوی ادیب کے کتب خانے میں تھے اور ایک مطبوعہ نسخہ بھی ان کی تحویل میں تھا۔ ایک مطبوعہ نسخہ ۱۸۴۶ء کا ہے مگر ناقص نسخہ کی بنیاد پر ہے۔ سید نور الحسن ہاشمی نے نوطرز مرصو کی تدوین کے لیے سید مسعود رضوی ادیب کے کتب خانے سے موصول اس نسخہ اول کو کیوں بنیاد بنایا ہے، اس کی وجہ ان کے ہی الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے:

"میں نے اس امر کی بہت کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ نسخے مہیا ہو جائیں یا کوئی مستند اور بہت صحیح نسخہ مل سکے لیکن مندرجہ بالا نسخوں کے علاوہ (ان کی تفصیلات اصل کتاب میں شامل دیباچہ سے حاصل کی جا سکتی ہیں) اور کوئی نہ مل سکا۔ ان نسخوں میں خامیاں بہت ہیں، ان نسخوں کے مقابلے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ بعض کاتبوں نے یا دیگر حضرات نے عبارت آرائی میں کہیں کہیں کچھ ترمیم یا اضافہ کر دیا ہے چونکہ نسخہ (۱) قدیم ترین مکمل نسخہ ہے اس لیے میں نے متن کا انحصار زیادہ تر اسی پر رکھا ہے۔"

اس نسخہ نمبر ایک کی تفصیل انہوں نے اس طرح درج کی ہے :

"قلمی: از کتب خانہ مسعود حسن رضوی صاحب۔ یہ دو کاتبوں کا لکھا ہے۔ ابتدا سے


صفحہ ۱۰

پہلے درویش کی داستان تک کرپا رام نے لکھا ہے خاتمے پر یہ عبارت درج ہے:

"تمام شد بتاریخ بست و چہارم ماہ فروری ۱۸۱۳ء مطابق بست و ہفتم ۱۲۲۰ فصلی درمقام بانس بریلی بہ کڑہ دیپ چند از قلم شکستہ رقم نیاز ارتسام کرپا رام صورت اتمام یافت۔"

خط شکستہ ہے اور بہت پختہ، صاف اور روشن ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ کاتب نے نظر ثانی نہیں کی، کیوں کہ بعض مقامات پر الفاظ یا ایک دو جملے چھوٹے ہوئے ہیں۔

بقیہ درویشوں کی کہانیاں پنڈت صاحب رائے، ساکن بریلی خاص کے قلم سےلکھی ہوئی ہیں۔ تاریخ کتابت یہ ہے :

"بتاریخ بست و یکم شہر ربیع الثانی ۱۲۲۷ھ مقدسہ روز شنبہ صورت اتمام یافت"

خط شفیعا ہے لیکن پہلے کاتب سے بہتر اور روشن ہے، اس حصے میں بھی جگہ جگہ الفاظ چھوٹ گئے ہیں۔ بعض اشعار بھی ناموزوں ہیں۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ کاتب محض کاتب ہے۔ آخرمیں یہ عبارت درج ہے:

"کتاب قصہ چہار درویش تصنیف زبدۂ سادات کرام میر محمد حسین عطا خاں صاحب تخلص بہ تحسین و مخاطب بہ مرصع قلم غفراللہ مرقدہ"

اس تفصیل کی ضرورت اس لیے ہے کہ زیر نظر کتاب کو پڑھتے وقت ہمارے سامنے یہ نکات واضح رہنے چاہئیں۔ میں نے اس میں فرہنگ کا اضافہ کر دیا ہے، نیز عربی اور فارسی عبارت کے ترجمے دے دیے ہیں،اسی کے ساتھ نورط مرصع میں استعمال ہونے والے محاورات اور روز مروں کی ایک فہرست بھی شامل کر دی ہے۔ نور الحسن ہاشمی کے مرتب کردہ متن میں بعض جگہ املا کی غلطیاں در آئی ہیں جن کو درست کر دیا گیا ہے مثلاً اقمشہکو


صفحہ ۱۱

اقشمہ، سقنقور کو سقنفور حارص کو حارث، تتق کو تق وغیرہ لکھا گیا ہے۔ اس فرہنگ میں صرف وہی معنی لکھے گئے ہیں جن معنوں میں وہ متن میں آئے ہیں، مثال کے طور پر اردو لغت (تاریخی اصول پر) کراچی میں اسپک کے درج ذیل معانی ہیں : اسپک: ۱۔ بڑا خیمہ، ڈیرا، خرگاہ: فراش سپہر کے نے اسپک نیلگوں شب کو بیچ عرصۂ شام کے استادہ کیا۔ ۲۔ چھوٹا گھوڑا؛ ساز موسیقی کا گھوڑا۔ (پلیٹس) نو طرز مرصع میں اسپک یعنی بڑا خیمہ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے صرف یہی معنی درج کیے گئے ہیں۔

مجھے اس کتاب کے مطالعے کے دوران یہ بھی احساس ہوا کہ تحسینؔ نے ہندی کبت کے ساتھ ہندی الفاظ کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔ یہ مثالیں آب بھی ملاحظہ فرمائیں :

(۱) "مجھے تو ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ کلاونت اس وقت بدھاوا گانے آیا تھا۔
(ص ۱۲۶)

(۱۱) اس ہرن نے جو من ہرا میرا
دل کے رمنے کا یہ شکاری ہے
(ص ۱۷۹)

(۱۱۱) رو رو پتیاں میں لکھی، جی کا گد لپٹائے
ہے کاسد ایسا کوئی پیتم کو لے جائے
یہ لفظ"کاسد" کے بجائے "قاصد" ہونا چاہیے۔
(ص ۱۸۹)

(۱۱۱۱) ۔۔۔ اور ہر ایک سے پوچھا کچھ نشن نہ پایا بلکہ سوگند عظیم درمیان لائے۔"
(ص ۲۹۳)

اس عبارت میں ہندی لفظ "سوگند" بھی غور طلب ہے۔ بعض الفاظ کا استعمال چونکاتا بھی ہے۔ مثلاً یہ عبارت دیکھیے :

"۔۔۔ مجھ کو اپنے اوپر گاڑھا جان کر بہ سلوک و آدمیت پیش آیا۔"

اودھی لب و لہجہ اور اس کے استعمال کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ نوطرز مرصع کا مصنف


صفحہ ۱۲

فیض آباد سے تعلق ہے اسی لیے اس میں فیض آباد کی عمارتوں مثلاً ترپولیہ وغیرہ کا بھی ذکر آیا۔ چند مثالیں اودھی لب و لہجہ کے حوالے سے بھی حاضر ہیں

جب دانت تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے، کا ان نہ دیہے
جو جل میں تھل میں پنچھی پُش کی سُدھ لیت، سو تیری ہولیہے
کاہے کو سوچ کرے من مؤرکھ، سوچ کرے کچھ ہاتھ ایہے
جان کو دیت، آ جان کو دیت، جہان کو دیت، سو توہؤ کودیہے
(ص ۵۳)

عربی و فارسی تراکیب کی تو بھرمار ہے جس کی شکایت بھی تحسین سے نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ وہ نوطرز مرصع ہی لکھنا چاہتے تھے نیز ان کے سامنے اردو نثر کا کوئی نمونہ بھی موجود نہیں تھا ورنہ وہ خود کو اس ایجاد کا موجد کیوں کہتے، انہیں کے الفاظ ہیں :

"مضمون اس داستان بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارت رنگیں زبان ہندی کے لکھا چاہیے کیونکہ آگے سلف یں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہیں ہوا اور یہ کہ جو کوئی حوصلہ سیکھنے زبان اردوئے معلٰی کا رکھتا ہو، مطالعہ اس گلدستہ بہاریں کے سے ہوش و شعور فحوائے کلام کا حاصل کرے کہ واسطے علم مجلس کے لسانی زبان ہندوستان کی بیچ حق آدمی بیرون جات کے خراد کندۂ ناترش کے تئیں ہے۔"(ص ۴)

جمع الجمع کا استعمال بھی خوب ملتا ہے۔ جیسے :

توجہات بے غایات، برآرندۂ حاجات بستہ کاراں، بخشندۂ مرادات امیدواراں، امورات، مستحقطان، محارسان، نظارات، اکابران، کار پردازان، غلاماں غلمان، سجدات، نہایات، رنجوران، بیماران، عذاران وغیرہ وغیرہ۔


صفحہ ۱۳

بعض الفاظ کی املا کی بھی کئی صورتیں ملتی ہیں۔ مثلاً خورجین، خرجین، خرچین۔ نیں، نئیں، نہیں۔ زنہار، زینہار، مہمان، میہمان، دعوا، دعویٰ۔ خرسند، خورسند۔ یے، یہ۔ تیں، تیئں۔ کسو، کسی۔ اُس، اُوس۔ ان، اون۔ اُوپر، اُپر۔ واں، وہاں۔ ایک لفظ سے کے لئے مختلف الفاظ آئے ہیں: سے، سیتی، ستی، سی، سوں وغیرہ۔

بعض جلوں کی ساخت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جیسے یہ جملے ملاحظہ ہوں :

جب نگاہ اُس جادونگاہ کی ساتھ نگاہ میری کے ہم نگاہ ہوئی،
میرے تئیں جو آرام خاطر اس آرام خاطر کا اپنے آرام و خاطر پر مُقدم تھا،

اس نوع کے کئی جملے یہاں نقل کیے جا سکتے ہیں۔ نوطرز مرصع میں تحسین نے بعض الفاظ کا استعمال مختلف معنوں میں کیا ہے مثلاً لفظ ‘بیچ‘ کا استعمال درج ذیل جملوں میں مختلف معنی دیتا ہے :

(۱) جب طائرِ زریں بال آفتاب کے نے رُخ ‘بیچ‘ آشیانۂ مغرب کے کیا اور بیضۂ سیمیں ماہتاب کا بطن مرغِ مشکیں شب تار کے سے نمودار ہوا۔
بیچ بہ معنی طرف

(۲)۔۔۔ لاچار بیچ پناہ دیوار کے استقامت کر کے مزاج کے تئیں واسطے شغل بیداری و شب گزاری کے۔۔۔۔
بیچ بہ معنی پاس

(۳) اس کے سےداغ رشک کا بیچ سینے کے رکھا تھا۔۔۔
بیچ بہ معنی اندر

لیکن میں تو صرف اشاروں میں بات کر رہا ہوں۔ ایک لفظ شہپال / شہبال کی وضاحت بھی ضروری ہے اس سلسلے میں رشید حسن خان نے لکھا ہے :

"فسانۂ عجائب میں جس جادوگر کا ذکر ہے وہ شہپال ہے۔ جادوگروں کے ناموں پر نظر رکھی جائے تو "شہپال" مرجح


صفحہ ۱۴

نظر آئے گا۔ ایک تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ باغ و بہار میں جس بادشاہ کا ذکر ہے وہ جادوگر نہیں، بلکہ جنوں کا بادشاہ ہے اس لیے میر امن نے شہبال (شہ۔بال) لکھا ہے اور معنوی مناسبت اسی نام میں ہے بال کے کئی معنی ہیں منجملہ ان کے پرند کے بازو کا پچھلا جوڑ جس کے زور سے پرواز کرتا ہے" (باغ و بہار، ص : ۵۲۶)

کئی الفاظ اور بھی توجہ طلب ہیں مثلا ‘چکھ‘ کی بجائے ‘چھک‘۔ متن میں ‘چکھ‘ ہی مناسب معلوم ہوتا ہے ممکن ہے شعری ضرورت کے تحت ایسا کیا گیا ہو۔ مترادفات کے استعمال میں بھی تحسینؔ نے کمال دکھایا ہے۔ یہ عبارت دیکھیے :

"یعنی نواب مستطاب معلٰی القاب، گردوں رکاب، شعاع شمس الضحٰی آسمانِ جلال حیدری، جلائے بدر الدجیٰ، شپہر اقبال صفدری، فرازندۂ لوائے وزارت و عالی مقداری، طرازندۂ بساطِ امارت و نامداری، لعلِ شبِ چراغِ افسرِ حشمت و اجلال، دُرۃُ التاجِ تارکِ ثروت و اقبال، فیروزۂ تاج سلطانِ ملکِ دولت و کامرانی، یاقوتِ اکلیلِ خاقان ولایتِ شوکت و حکم رانی، اخترِ بُرجِ شجاعت و فتوت، گوہرِ دُرج سخاوت و مروت، رکن السلطنت القاہرہ، عُضُد الدولہ الباہر، صاحب السیف والقلم، رافع الجاہ والعکم، وزیر اعظم، صاحب تدبیر، مدبر معظم، روشن ضمیر، دستگیر درماندگاں، چارہ سازِ بیچارگاں، افتخار ممالکِ ہندوستاں، خداوندِ نعمت، قدرداں، حلیم الوضع، سلیم الطبع، عامل، عادل، فیاض، جواد، مومن، محسن، وضیہ، جمیل، خیر، مدبر، عالم، عابد، زاہد، مصلی،


صفحہ ۱۵

متقی، صالح، مُصلح، امیر، کبیر، شجاع، منصور، غآزی، مظفر، وزیر الملک، عمدۃ الملک، مدار المہام، آصف جاہ، شجاع الملک، اعتماد الدولہ، برہان الملک، نواب شجاع الدولہ ابو المنصور خان بہادر، صفدر جنگ اوام اللہ افضالہ و اجلالہ کہ کار پردازانِ ملاء اعلیٰ میں فدوی قسمت تیری کے تئیں روزِ ازل سے بیچ زمرۂ نمک چشانی خوانِ مائدۂ فضل و کرم اُس کے کی مستفیض کیا ہے۔ (ص ۶، ۷)

کھانے کا بیان کتنا مرصع ہو سکتا ہے، اس کی مثال کے لیے یہ عبارت کافی ہے :

"اس عزیز نے کمال تکلف سے سامان ضیافت کا مہیا کر کے سفرہ دعوت کا آراستہ کیا اور انواع طعام ہائے لذیذ و خوشگوار و اقسام شیرینی ہائے حلاوت بخش و چاشنی دار و اصناف شربت ہائے گلاب و بید مشک و گونا گوں میوہ ہائے تر و خشک وٖغیرہ و لوازمہ اکل و شُرب از قسم نان یزدی و نان ورقی و نان تنکی و نان پنیری و نان خمیری و نان باقر خانی و گاؤ زبان و گاؤ دیدہ آبی و روغنی و خطائی و شیر مال و نان گُلدار، قلیہ دو پیازہ، نرگسی و شیرازی و زعفرانی و بادامی، کباب و قلیہ، کوفتہ، خاگینہ، ملغوبہ، پن بھتہ، بورانی، بریانی نور محلی و خراسانی، روم، تبریزی، و شب دیگ، دم پخت، خشکہ و مزعفر و شولا و متنجن پلاؤ و قورمہ پلاؤ و یخنی پلاؤو حبشی پلاؤو بیگمی، چاشنی، عنبری، کاشانی و ماہی کباب و مرغ کباب و سیخ کباب و بیضہ کباب و حلیم و حریسہ و سموسہ و قبولی و طاہری و کھچڑی و فرنی و ملائی و حلوا و فالودہ و نمش، قندی بامشک نافہ، و ساقِ عروس و لوزیات، اچار، مربے، ناشپاتی، بہی، انگور،


صفحہ ۱۶

انجیر، سیب، انار، کشمش، بادام، چھوہارے، پستے وغیرہ اغذیہ و اشربا قسم قسم کے کہ جن کی چاشنی کی حلاوت اور ذائقہ سے ارواح فرشتوں کی بھی تر و تازہ ہو جاوے انسان کا کیا ذکر ہے، نہایت سلیقہ و کاردانی سے بیچ ظروف مرصع کاری و مینا سازی و طلائی و نقرئی و غوری و فغفوری و چینی و خطائی، حلبی و بلوری کے لا کر چُنے۔ (ص ۱۳۰، ۱۳۱)

نوطرز مرصع میں میر محمد حسین خاں تحسین نے قدیم شعرا کے اشعار جابجا نقل کیے ہیں لیکن مرزا سودا اور حسرت کے اشعار کثرت سے ملتے ہیں۔ تحسین نے بعض اشعار میں ترمیم، تحریف اور تبدیلی بھی کر دی ہے۔ مثلاً سودا کے قصیدے "در مدح نواب عماد الملک بہادر" کے اشعار موقع بہ موقع متن میں مختلف مقامات پر استعمال کیے گئے ہیں لیکن اس میں اور رشید حسن خاں کے مرتبہ کردہ ‘انتخاب سودا‘ کے متن میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔

اردو نثر کی جدید اور ترقی یافتہ صورت کے سامنے نوطرز مرصع کا اسلوب ہمیں نامانوس نظر آ سکتا ہے۔ مگر اردو نثر کے ارتقا کے پش منظر میں اس کا اسلوب اور بیان لسانی اور تہذیبی اعتبار سے نہ صرف غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے بلکہ "باغ و بہار" جیسی سلیس نثر کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتا ہے، اس لیے اردو کی ادبی اور لسانی تاریخ میں اور اردو نثر کے ارتقائی سفر کی تفہیم میں اس کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔

میں نے حتی المقدور طلباء کی ضرورت اور سہولت کے پیش نظر اس کتاب کو از سر نو مرتب اور مدون کرنے کی کوشش کی ہے۔ راقم نے اساتذہ اور طلبا کی سہولت اور استفادے کی خاطر نور الحسن ہاشمی کا مقدمہ، نیز گیان چند جین اور جمیل جالبی جیسے محققین کے مضامین بھی شامل کتاب کر دیے ہیں۔ ان کے علاوہ فرہنگ وغیرہ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ فرہنگ کے حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ کسی لفظ کے معنی معلوم کرنے کے لیے متن میں دیے گئے لفظ کے اوپر درج شدہ نمر سے دی جا سکتی ہے۔ البتہ عربی اور فارسی کے مفاہیم تک پہنچنے کے لیے "صفحہ نمر" سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔


صفحہ ۱۷

مضمون واحد کے باعث ان مضامین میں تکرار کی صورت ہو سکتی ہے مگر ایک رنگ کو سورنگ میں باندھنے کی کوشش کا ہی نام تو ادب ہے۔ کم از کم ہم اس حوالے سے اپنے اسلاف کی تحریروں کو نئی نسل تک پہنچا سکیں گے۔ شاید یہ بھی ایک نوع کی خراج عقیدت ہو۔ امید ہے مجھے کامیابی ملے گی۔

مجھ پر کچھ شکریہ بھی قرض ، فرض اور واجب ہیں ان میں اپنے طالب علموں محمد یوسف، آیات اللہ آیت، سعد مشتاق کا شکریہ جنہوں نے کتاب کی تیاری میں مدد فرمائی۔ان کے علاوہ اس سلسلے میں میرے کئی احباب نے میری مدد فرمائی، سب کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرنا مشکل ہے۔ میں یوں بھی ذاتی طور پر ‘حساب دوستاں در دل‘ کا قائل ہوں نیزیہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ محض اظہار تشکر سے میں ان کی معاونت کا حق ادا نہیں کر سکتا۔

میرا ارادہ تھا کہ میں متن میں الفاظ پر اعراب کا پورا اہتمام کروں لیکن کمپوٹر کمپوزنگ کی اپنی کچھ دشواریاں ہیں، اس لیے مجھے اس میں پوری کامیابی نہیں مل سکی۔ کلاسیکی شعر و ادب پر کام کرنا ایک مشکل امر ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ نوطرز مرصع کو اپنی بساط بھر بہتر طریقے سے مرتب کر سکوں تاکہ یہ کتاب جو برسوں پہلے بازار میں کمیاب ہو گئی ہے طالب علموں کے مطالے میں آئے اور وہ براہ راست متن کا مطالعہ کر سکیں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی۔

ارتضی کریم
شعبۂ اردو
دہلی یونی ورسٹی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۲۹

عربی اقوال : تشریح / وضاحت
بہ اعتبار صفحہ نمبر

۲۳ ۔۔۔ کل امرِِ مرھُون باؤقاتِھا
معنی : ہر کام کا وقت مقرر ہے۔

۲۴۔۔۔فان مع العسرِ یُسرا و ان مع العُسرِ یُسراً
معنی : پس ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے یعنی خوشحالی کی فراوانی زیادہ ہوتی ہے۔

۲۵۔۔۔فِعل الحکیم لا یغلوؤ من الحِکمۃ
معنی دانش معند کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

۶۱۔۔۔ الکریم اِذا و عد وفا
معنی : کریم جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔


صفۃ ۳۳۰

۶۱۔۔۔الامر فوق الادب
معنی : حکم ادب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

۶۹۔۔۔ الاِنسان مرکب من الخطایِ و النسیان
معنی : آدمی خطا اور بھول کا مرکب ہے۔

۸۱۔۔۔ زین للناسِ حُب الشھواتِ من النسائی
معنی : لوگوں کے لیے عورتوں کی شہوانی محبت کو مزین کیا گیا ہے۔

۹۵

الخبیثات للخبیثین
خبیث عورتیں خبیث مردوں کےلیے ہیں

۹۶۔۔۔ العروۃ الوثقیٰ
معنی : مضبوط کڑا / کڑی

۹۹۔۔۔ الماضی لا یذکر

معنی : ماضی کو یاد نہیں کیا جاتا یعنی ماضی کو بھلا دینا ہی اچھا ہوتا ہے۔

۱۱۲۔۔۔ التکلیف حرام
معنی : تکلیف دینا حرام ہے یعنی کسی کو پریشان کرنا روا نہیں خاص طور پر ایک درویش کے لیے

۱۱۲۔۔۔السخی حبیب اللہ ولو کان فاسقاً
معنی : سخی آدمی اللہ کا محبوب ہوتا ہے خواہ وہ فاسق ہو۔

۱۲۰۔۔۔فضلنا بعضکم علی بعض
معنی : ہم نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔

۱۲۸۔۔۔الحق مُر
سچ کڑوا ہوتا ہے

۱۶۰۔۔۔النصیب والنصیف
معنی: جو نصیب میں ہو اور آدھا یعنی کم از کم آدھا مل جائے باقی جو نصیب میں ہو۔



صفحہ ۳۳۱

۱۶۰۔۔۔ کلُ نفس ذائقۃُ الموت
معنی : ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔

۱۷۹۔۔۔ الاِنتظار اشد من الموت
معنی : انتظار موت سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔

۱۸۴۔۔۔ الصبر مفتاح الفرج
معنی : صبر کشادگی کی کنجی ہے۔

۲۲۱۔۔۔ لعنت اللہِ علی القوم الظالمین
معنی ؛ ظالم لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو۔

۲۳۷۔۔۔ الحمد للہ و المنۃ
معنی : تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور (اسی کا) احسان ہے۔
 

محمد عمر

لائبریرین
26

موردِ عنایاتِ خلعتِ فاخرۂ واہ واہ و سر پیچ (۵۵) تحسین و جیغہ (۵۶) آفریں کا حضور عالی سے نہ ہووے زینت شہرت کی نہ پاوے۔ چنانچہ ایک قصید درخورلیاقت اپنی کے بیچ مدح جناب عالی کے لکھ کر تیار کرتا ہوں اوپر مدد ستارہ سعید اپنے کے کہ ذرّہ طالع یاور میرے کے تئیں ظہور روشنی کا پر تو تجلّائے نور اُس مہر انور کے سے پایا کہ جس کے شعشۂ (۵۷) جمال جہان آرا سے میدان وسیع شش جہت عالم کا مشر قستان نیّر اعظم کا ہو رہا ہے۔

قصيدہ

اگر مِداد (۵۸) ہو دریا و ہوں قلم اشجار

نہ لکھ سکے کوئی اُس کے کمال کا طُومار

پھر اب زبان مری کو کہاں یہ طاقت ہے

جو اُس کی مدح کے لکھنے کا کچھ کیوں اقرار

مگر ضرور ہے اتناں کہ گر تمام صفت

نہ ہو سکے تو بھلا ایک تو کیوں زہزار

کہ اُس کا وصف، مدَارُ المُحام ہے سو بجا

کہ ہے وہ عقل کے میدان کا بڑا سردار

امورِ سلطنت کی سوائے فطرت کے

اگرچہ ہووے ارسطو نہ کر سکے زنہار

جو ہووے جلوہ فزا مسندِ عدالت پر

بدل کرے اور اثرِ بد زِ کوکبِ سیّار

جو اُس کے عدل کی میزان میں تُلے خردَل (۵۹)

تو کیا شبہ ہے کہ ہووے برابرِ کُہسار


27

اور اُس کی ہمّتِ عالی کی کیا کروں تعریف
ہوا ہے عرصۂ دنیا کہ جس سے گوہر بار
چمن زمانے کا شبنم سیتی رہے محروم
اگر نہ اُس کی سخاوت کابر سے ابرِ بہار
"نہیں" کا نام زمانے سے ہو گیا مفقود
زبانِ فیض ستی لفظِ "ہست" ہے دُربار
تماشا یہ ہے کہ وہ ہست و کم سے واقف نئیں
یہ فضل حق ہے کہ ہو ہست اور ہو بسیار

ق

ہے اُس کا ضبطِ شجاعت کا اس قدر جگ میں
نگاوِ کرم جدھر کو نظر کرے یک بار
اور اُس طرف کبھی رستم ہزار صف سے ہو
تو روح ڈرستی قالب سے ہو سکے نہ بَرار (۶۰)
نہ ہوئے کیونکہ شجاع ہووے جوہز برِ جنگ
کہ تیغ اُس کی جہاں میں ہے قاتلِ کفّار
فکیف (۶
mso-hansi-font-family:Dubai" lang="AR-SA">۱) تیغ جسے برق سے نہیں کچھ فرق(۶۲)
پڑے جو فرق پہ دشمن کے پا تلک ہو بغار (۶۳)

ق

کمال تیر چلانے کا یہاں تلک ہے گا
کہ جس کی تیز روی کا میں کیا کروں اذکار
جہاں خیال کا پہنچے نہ تیر جلدی سے
وہاں گزر کرے اُس کے خدنگ (۶۴) کا سُو فار (۶۵)

28

ق
شناوری(۶۶) میں یہ قدرت کہ قعرِ دریا ہے
اور اُس کے دل میں یہ آوے کہ اس سے ہو جیے پار
تو اُس کے علم شنا (۶۷) کی سُبک روی آگے
مجال کیا ہے جو پانی سے ہو ہَوا کا گزار
نگاہ چشم تلک بھی نہ پنہچنے پاوے
کہ اِس طرف ستی جاء اُس طرف سے پھر ہو پار

ق

یہ زور حق نے دیا اس کے دست و باز میں
کہ اُس کی خاطرِ اشرف میں گر ہو عزم شکار
تو شیر ترس(۶۸) سے بُرجِ اسد میں جا کے چھُپے
مگر ہو بحر کے تحت الثرا (۷۰) کورُو بہ فرار

ق

اگر طیور کی صید افگنی پہ مرغوب
تو اُس شکار کی تعریف کیا کروں اظہار
جو چھوٹے دست مبارک سے چرخ پر شہباز
عقاب شمس کا مغرب میں جا چھپے درغار
وگر زمیں یہ کرے رُخ ز عالم بالا
پرند کیا ہے دو خرگوش کو کرے ہے شکار

ق

کمیت (۷۱) خامہ کا اب اُس کے سیر گلگوں کو
کرے ہے صفحۂ قرطاس کے تئیں مِضمار (۷۲)

29

بیان حلدی کا اُس کی کہاں تلک کیجے
فلک کو جس کی سواری کا عزم ہو دشوار
خیال کیجے کہ ایسے پہ کس کا ہے مقدور
کرے جو ذکر سواری کا غیر استغفار
مگر ہے راکب(۷۳) اُسی کا وہی امیر العہد
مدد ہے جس کی شہِ دین حیدر کرار
اگر وہ شرق میں چاہے کہ چھیڑ کر اُس کو
میں پہنچوں غرب تلک لفظ ہاں کا کہہ اک بار
زباں سے لب تلک آواز "ہاں" نہ پہنچنے پائے
کہ یہاں سے وہاں پہنچ اور وہاں سے پھر یہاں ہو دوچار

ق

زباں نہیں جو سواری کے فیل کی شوکت
بیان ہو سکے یا اُس کا کچھ کروں گفتار
کہ بیٹھنے میں ہے کوہ اُٹھنے میں ہے ابرِ سیاہ
بلند عرش سا، چلنے میں چرخ کی رفتار
جب اُس پہ لے کے کجک (۷۴) ہووے فیل باں (۷۵) قائم
گویا فلک پہ کیا ماہِ نونیں (۷۶) استقرار
ستارے جھول (۷۷) کے اس لطف سے چمکتے ہیں
اندھیری رات میں تاروں کی جس طرح ہو بہار
اور اُس کے ہودجِ زرّیں اُپر جناب نواب
ہے جیسے ابرِ سیہ بیچ مہر پُر انوار

30


جلوس وقت سواری کا کیا کہوں جو کہوں
ز بس بہار سے فوجوں کی ہو رہی گلزار
صدائے ڈنکے کی ایسی ہی بجتی ہے کہ اگر
ہو دل میں جُبن (۷۸) کس کے تو مرد ہو یکبار

ق

تجمل اُس کے عاکر کا کیا کروں تقریر
کہ موکب (۷۹) اُس کا ہے کوکب (۸۰) کی فوج سے بسیار
غلام کہنہ و دیرینہ جس کا ہے اقبال
فقح رکاب میں جس کے ہے ایک خدمت گار
تمام فوج کی تعریف تو کہاں ہووے
پر ایک ہند میں تحفہ ہوا ہے یہ اسرار
کہ اس جناب میں فطرت سے اپنی ہی بے غیر
کریں ہیں ایسی ہی جرّار پلٹنیں تیار
کہ ہووے گرچہ فلاطوں نہ کر سکے یہ فکر
جو ذات مظہر عالی سے سیتی ہوا اظہار
بہ مرتضٰی جو کہوں صف یہ صف کھڑے ہوویں
نظر پڑے ہے کچھ اور ہی طرح کا لیل و نہار
بطور فوج ولایت کے جب کریں ہیں فیر (۸۱)
تو آگے کوہ جو ہو اُس کو بھی کریں مسمار
صلابت (۸۲) ایسی ہے توپ خانہ عالی کی
کہ جسم رعد (۸۳) کا عرش سے جس کے ہے بیزار

31

گرجنا اس کا قیامت کے شور سے نزدیک
تڑپ سے جس کے عدو کا جگر فگار فگار

ق

شکوہ خیمہ کی رفعت کا گر کہوں تم سے
کہاں خیال کو طاقت کہ پا سکے وہاں بار
اُسی کے رشک سے اب تک فلک ہے گردش میں
اُسی کے باہر سے ہے تختۂ زمیں کو قرار

ق

جو اُس کے مطبخ (۸۴) عالی کو پوچھیے مجھ سے
تو کیا کہوں کہ زیادہ ہے وہ زحد و شمار
یقیں ہے حاصلِ ہندوستاں نہ ہو کافی
اگر ہو اُس کے مصارف کے واسطے درکار
زہے نواب امیرِ زمان پناہ جہاں
کہ جس کے جاہ کا حشمت کا یہ کیا اذکار
غرض کہ جس کا ہو تحسیںؔ جناب اس درجہ
کروں میں وصف کو اُس کے کہاں تک اظہار
کہ وہ ہے مہر درخشاں، ومیں ہوں ذرہ مثال
خدا کے واسطے ذرّہ کا یہاں ہے کیا مقدار
تلم زباں کی وہ، اور خامہ کی زباں یہ ہے کچھ (كذا)
بھلا ہو ضنچہ دہانوں سے کیونکہ حرف برار
بس اب زبان و قلم ہر دو معترف بہ قصور
کہاں میں اور کہاں وصفِ وارثِ تلوار

32


وہ کون شخص ہے، نواب آصف الدولہ
کہ جس کی ذات سے ہے ہند کو سکون و قرار
اگرچہ کام خوشامد کے کرنے کا جگ میں
ہمشہ سیتی چلا آتا ہے بہ ملک و دیار
ولے قسم ہے مجھے اپنے دین و ایماں کی
کہ بلا مبالغہ کہتا ہوں اس کو میں صد بار
نہیں زمانے میں ایسا بہ جاہ و حشم و شکوہ
مرے نواب کا ثانی کوئی سپہ سالار
خدا رکھے اسے تب تک سلامت اور قائم
کہ جب تلک رہے سر سبز دہر کا گُلزار

بارے الحمد اللہ و المنّتہ کہ نجم امید کا اوپر معراج مدعا کے جلوہ گر ہوا کہ فراغ خاطر سے گلدسۂ داستان تئیں اس رنگ سے بیچ محفل بیان کے زیب و زینت ترتیب کی دیتا ہوں۔
 

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 21 نو طرز مرصّع صفحہ 24

تصنیف کرنا، اس کا ملتوی رکھ کے داخل صوبہ کا ہوا۔ اور یہ تماشا قسمت کا دیکھیے کہ ہَرج مَرج 15 مقدمہ سلطنت اور برہمی سلسلہ بندگی دودمانِ 16 تقدس فشان خاندان تیموریہ کے و بہ سبب ارتحال والد بزرگوار اور انقلابات روزگار غدار کے کہ فی الجملہ آئینۂ روزگار میرے کا صقیل 17 توجہات بے غایات سرداران انگریز کے سے جلا پذیر ہو چلا تھا سو بواسطہ زنگ ناتواں بینی بعضے اشخاص مختار معاملہ صوبہ کے سے مُکّدر ہوا۔ لاچار گردش فلکی سے نہ پائے رفتن نہ روئے ماندن، اس وقت چندے اشعار مرزا سودا صاحب کے کہ داد سخن کی دیتا ہے میر تئیں حسب حال اپنے یاد پڑے کہ یہ سپہر رو سیا ؎

در پئے رنج و تعب 18 رہتا ہے اہلِ درد کے
دکھ دہندوں کی ہوا خواہی میں دے ہے اپنی جاں
میل 19 کھینچے دیدۂ بینا میں یہ تاریک عقل
پر کرے کحل الجواہر 20 لے کے چشم سرمہ داں
ابرِ درای بار کو برساوے دشتِ یاس پر
خشک رکھے مَزرعِ 21 امیدِ ہر پیر و جواں
ہنس کو موتی چگاتا ہے سدا یہ بے تمیز
پوست کھینچے ہے ہُما کا دے کے مُشتِ استخواں
آن میں اوج حست کو پہنچے مجہو النسب
خاک ذلت پر گرے پل میں فلاں ابن فلاں
تاکجا کیجے بیاں اس سلفۂ دوں 22 کا مزاج
اک وتیرے پر نہیں، گاہے چنیں گاہے چناں

اس کے تئیں پڑھتے پڑھتے ایک روز بیچ خوابِ شیرینِ فکر کے گیا ہوں کہ ایک مرتبہ مُلمِ غیبی 22 نے اوپر دل میرے کہ الہام دیا کہ اے بے خبر آیۂ کریمہ فَاِنَّ مَعَ العُسرِ یسراً و اِنَّ مَعَ العسرِ یسراً جو تو نیں بیشتر اوقات اپنے نہایت خوش حالی و فارغ البالی سے
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 22 نو طرز مرصّع صفحہ 25

صرف کیے پس چند روز ایام تکلیف کے بھی بسر لے جانا مضائقہ نہیں ع

"چناں نماند و چنیں نیزہم نخواہد ماند"

اور اب جو تصدیعہ 24 کے تئیں اپنے مزاج پر گوارا کیا ان شاء اللہ تعالیٰ بیچ تلافی اس کے عنقریب عروس تما کی ہم آغوش شاہد مدعا کے ہوتی ہے۔ زینہار غبار تردد اور اندیشے کا اوپر دامن خاطر کے نہ جھاڑ اور شیشۂ جمعیت دل کا اوپر سنگ تفرقہ کے چور نہ کر، شاید اس میں کچھ بہتر ہو۔ بہ حکم اس کے کہ فَعل الحَکیمِ لَا یَخلو عَنِ الحِکمۃ لیکن تدبیر اس کی یوں ملحق ساتھ تقدیر کے ہے توں ذرۂ بے مقدار جوہر وفاداری اپنے کے تئیں اقتباس نور خورشید قدردانی اس جناب عالی کے سے منور کر کہ اگر تخم اوصاف بزرگی اس کے کا بیچ تختہ بندی خیابان کاغذ کے بووے تو بے شائبہ تکلف، نہال عبارت کا رونق بہار شجرِ طوبیٰ 25 کی لا کے رشک گلزارِ جنت کا ہو۔ یعنی نواب مستطاب 26 معلیٰ القاب، گردوں رکاب 27، شعاعِ شمس الضحیٰ آسمانِ جلال حیدری، جلائے بدر الدجیٰ، سپہرِ اقبال صفدری، فرازندۂ لوائے وزارت و عالی مقداری، طرازندۂ بساطِ امارت و نامداری، لعلِ شبِ چراغِ افسرِ حشمت و اجلال، دُرّۃُ التاجِ تارکِ 28 ثروت و اقبال، فیروزۂ تاج سلطانِ ملکِ دولت و کامرانی، یاقوتِ اکلیلِ 29 خاقان ولایتِ شوکت و حکم رانی، اخترِ برجِ شجاعت و فتوت 30، گوہرِ درج سخاوت و مروت، رکن السلطنت القاہرہ، عُضُد الدولہ 31 الباہر، صاحب السیف و القلم، رافع الجاہ و العلم، وزیر اعظم، صاحب تدبیر، مدبر معظم، روشن ضمیر، دستگیر درماندگاں، چارہ سازِ بیچارگاں، افتخار ممالکِ ہندوستاں، خداوندِ نعمت، قدرداں، حلیم الوضع، سلیم الطبع، عامل، عادل، فیاض، جواد، مومن، محسن، وجیہ، جمیل، خیّر، مدبر، عالم، عابد، زاہد، مصّلی، متقی، صالح، مُصلح، امیر، کبیر، شجاع، منصور، غازی، مظر، وزیر المالک، عمدۃ الملک، مدار المہام 32، آصف جاہ، شجاع الملک، اعتماد الدولہ، برہاں الملک، نواب شجاع الدولہ ابوالمنصور خان بہادر، صفدر جنگ ادامَ اللہ افضالہٗ و اجلالہٗ کہ کارپردازانِ ملاء اعلیٰ میں فدوی قسمت تیری کے تئیں روز ازل سے بیچ زمرۂ نمک چشانی خوانِ مائدۂ 33 فضل و کرم اس کے کی متفیض
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 23 نو طرز مرصّع صفحہ 26

کیا ہے اور دروازہ کشائش مطالب دلی تیرے کا کلید تفضّلات اسی عالی جناب کے سے کھولا۔ بارے بندہ بہ موجب حکم اس سروش غیب کے بیچ زینت البلاد فیض آباد کے کہ فی الحقیقت نگین خاتم مملکتِ ہندوستان کا ہے دیدہ سے قدم کر کے داخل ہوا سبحان اللہ، ہر صفحہ اس صحیفۂ فیض کا برائے خود ایک گلشن ہے کہ ہر طرف تختہ تختہ بہار خط و خال شاہدانِ زرّیں لباس کی بیچ اس کے رونق افزائے دیدہ نظارگیوں کے ہو رہی ہے اور ہر کوچہ اس بلدۂ خاص الخاص کا علیٰحدہ علیٰحدہ ایک گلبن ہے کہ ہر سمت رنگ برنگ گلزار حسن و جمال مہوشان گلگوں قبا کے فروغ بخش چشم تماشبینوں کے ہوتی ہے۔ وسعت صحن قطعہ چوک کی اگر ملاحظہ کیجے تو لذت سیر قطعہ بہشت کی گوشۂ خاطر سے فراموش ہو جاوے اور جو رفعت محراب ترپولیہ 34 کی دیکھیے تو ثنا پردازی کی بہار ارتفاع 35 کمانچہ قوس و قزح کے سے زبان دل کی خاموش ہو جاوے۔ واقعی کہ شہر کیا ہے ایک تماشا قدرتِ الہیٰ کا ہے۔ ایزد تعالیٰ اس دار الامن کے تئیں ہمیشہ رونق سواد دیدۂ ہفت کشور 36 کا رکھے۔

زبس ہوانیں طراوت سے واں کیا ہے گزار
عقیق رنگ بدل کر کے ہے زمرد وار
کمال فیضِ طراوت سے بر سرِ ہر سنگ
شرر کے تخم سے جمتا ہے وھاں درختِ انار
گر اس طرف سے صبا ہو کے باغ میں جاوے
درخت خشک وہیں سبز ہو کے لاوے بار

ق

ہے بے مبالغہ گر ساکنانِ جنت سے
کرے جو سیر کوئی اس دیار کا گلزار
یقین جانیو دل میں زبس تماشے سے
بہ طور دیدۂ نرگس کے ہو رہے سرشار
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 24 نو طرز مرصّع صفحہ 27

جو خوب غور سے دیکھا چمن میں قدرت کے
تو رشک خلد ہے، اس قطعۂ زمیں کی بہار
کبھو نہ اس کے گزندِ سپہر سے ہو ہراس
جسے ہے مسکن و ماوا کے واسطے یہ دیار
شہر پناہ کی خوبی کا گر بیاں کیجے
کتاب خوب پہ جدول کا جیسے ہو سنگار
شجاع گڑھ 37 کی صفت مجھ سے گر کوئی پوچھے
قلعہ کی شکل زمیں پر ہوا فلک کو قرار
حَصَانت 38 اس کی حصانت سے آسماں کی زیاد
ہے بلکہ رشک سے اس کے دو تا سما 40 کا حصار
خدا نے جب کیا شرف البلاد فیض آباد
کہ سب صفت میں یہ موصوف ہے بہ عّز و وقار
غرض میں کر نہیں سکتا ہوں اس کی کچھ تعریف
کہ ہے وہ زینتِ ہندوستاں بہ نقش و نگار

الحمدللہ و المِنّۃ کہ بہ مجرد پہنچنے کے حضیض 41 غربت سے اوپر اوج عزت کے فائز ہو کر شرف ملازمت اس عالی جناب کرامت مآب کا حاسل کیا اور اسی وقت سے مہ متقاضائے تفضلات کمال سے بیچ سِلکِ بندگانِ خاص کے منسلک ہوا۔ جب خورشید قدردانی پرورش خدا یگانی کا اوپر مطلع فیض رسانی روز افزوں کے منور ہو کر نخل تمنا میرا کا گلِ مراد سے بارور ہوا، ایک دن تقربیاً دو چار فقرے اس داستان کے کہ اول ذکر اس کا بیان کر گیا ہوں، بیچ سمعِ مبارک حضرت ولی نعمت کے پہنچائے۔ از بس کہ شاہد رعنا 42 اس حکایت دل فریب کا جلوہ گری کے عالم میں شوخ و شنگ، توجہ دل سے مقبول خاطر و منظور نظرِ اشرف کے کر کے ارشاد فرمایا کہ از سر تا پا اس محبوب دل پسندیدۂ دلہا کے تئیں زیور عبارت سے
---------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 25 نو طرز مرصّع صفحہ 28

آراستہ کر۔ اس قلیل البضاعت نیں حسب الامر جلیل القدر کے درخور حوصلہ اپنے کے اس داستان کے معشوق کو حُلّی بند 43 زیب و زینت کا کر کے چاہتا تھا کہ اس نازنیں کے تئیں نظر مبارک سے گزرانوں کہ اس عرصے میں زمانے نیں اور ہی رنگ دکھلایا اس وقت بہ مقتضائے اس کہ ؎

جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
آہ ٹک اس سے ملاقات نہ ہونے پائی

لاچار پائے تردد و تلاش کا بیچ دامنِ قناعت کے کھینچ کر کے بیچ کنجِ خموشی کے چپکا ہو رہا۔
بعد ازاں کہ اس جناب مغفرت مآب کے خلف الاعظم امیر المعظم زیب دودمانِ عالی شان، فخر ہندوستان جنت نشان تاج الامارت العلیا، سراج الوزارت الکبریٰ، اعتضاد السلاطین 44، افتخار المومین، ملاذ المساکین 45 (الف) ، شمس الضحیٰ، بدر الدجیٰ 45 (ب)، صدر العلیٰ، کہف الورا 46، قرۂ باصرۂ صلابت و اقبال، غرّۂ 47 ناصیۂ 48 شہامت 49 و اجلال، مہر سپہر عظمت و کرامت، سپہرِ مہر شجاعت و سخاوت، جامع علوم دانش و فرہنگ، یعنی نواب آصف الملک آصف الدَّولہ امیر یحییٰ خاں بہادر ہِزبَر 50 ، جنگ، دام عمرہٗ و اقبالہٗ کے کہ خضرِ تَفَضُّلاتِ بے غایات نیں اوپر جانِ ناتواں اس ضعیف البنیان 51 کے آبِ حیات سرفرازی کا چھڑکا، تب بہ مضمون اس کے کہ صرّاف 52 چار سوئے عبارت گُستری 53 کے نقودِ الفاظ کے تئیں جب تلک اوپر سکّۂ حرفِ تحسین زبانِ فصاحت بیانِ بندگان ممدوحِ جہاں کے نہ پہنچاویں، دوکان بیان کی نہ کھولیں اور جوہری، بازار مضمون شناسی کے، مروارید 54 معانی کے تئیں جب تلک بیچ رشتۂ الفاظ آفریں دہانِ معجز نشان جناب مخدوم عالم کے نہ کھینچیں، قیمت رواج کی نہ بولیں، بیچ خیال میرے کے گزرا کہ شاہد اس افسانۂ موزوں کا کہ ساتھ زیور تجویز نام "انشائے نو طرز مرصع" کے آرائش پاتا ہے جب تک کہ طرّہ بسم اللہ دیباچہ مدح طرازیِ بندگانِ جنابِ عالی مُتعالی کا اوپر دستارِ عبارت کے رکھ کے
------------------------------------------------------------------
 

مقدس

لائبریرین
18


نو طرز مرصع

بسم اللہ الرحمن الرحیم


دیپاچہ ثنائے خداوند ذوالجلال

ایسا نہیں کہ لکھ سکے اس کا کوئی کمال

منشی کے ہو رہا ہے قلم کا جگر شگاف

شاعر کی اس کی حمد میں ہوئے زبان لال

مقدور کیا کہ وصف پیمبر کا لکھ سکے

پہنچے ہے کس کا نعت مبارک پہ کچھ خیال

لولاک¹ جس کے حق میں خدا نے کیا نزول

ہے دین کے چمن میں وہی سرو نونہال

پس بعد نعت حضرت خیر البشر کے میں

کرتا ہوں وصف شیر خدا مظہر کمال


19

نازل ہوئی ہے ناد علی² جس کی شان میں

تحسیں کو اس کی مدح کے لکھنے کی کیا مجال

بہتر ہے یہ کہ آل عبا³ پر پڑھوں درود

من بعد داستان کا لکھنا کروں خیال

ہر چند فارسی کی بھی ایسی ہے دستگاہ

رکھتا ہوں لیکن اس کی سمجھ ہے نپٹ محال

اس واسطے یہ ریختہ کی طرز خوب ہے

جو فہم میں ہر ایک کے آوے مرا مقال


اوپر دانشوران شیریں سخن بزم درایت⁴ و رزانت⁵ کے اور عقالان صاحب طبع انجمن بلاغت ومتانت مخفی و پوشیدہ نہ رہے کہ یہ عاجز ترین خلق اللہ میر محمد حسین عطا خاں متخلص بہ تحسین مخاطب بہ خطاب "مرصع رقم" بعد رحمت والد بزرگوار حضرت میر محمد باقر خان صاحب متخلص بہ شوق کے کہ تمام ممالک ہندوستان میں نزدیک ارباب کمال کے کمالات دینی و دینوی سے شہرہ آفاق تھے اور اور واقعی یوں ہے کہ بیچ میدان تشریح و توصیف ذات اس مفرط کائنات کے نسریں ہلال آ ہوئے قلم کا، اوپر صفہ گلشن افلاک چراگاہ سفیدہ کاغذ کے جلوہ نمائش کا پا کر نافہ⁶ ریز بہار عرصہ تحریر کا نہیں ہو سکتا۔ اگر ذات فائض البرکات ان کے تئیں طغرا منشور فراست عالی یا عنوان مثال، بے مثالی کا کہوں، بجا ہے۔ ایزد تعالیٰ غریق رحمت کا کرے۔ برکت صحبت، فیض موہبت⁷, سر حلقہ سخن طرازان دقائق فصاحت و قابلیت، سردفتر نقطہ پردازان حقائق لطافت و اہلیت، فہرست مجموعہ فنون سخنوری و سخن دانی، بسم اللہ نسخہ جامع قانون الفاظ ومعانی، انجمن آرائے ضوابط آئین خوشنویسی و عبارت طرازی، چمن پیرائے شرایط رنگین فن شاعری و انشاپردازی، خطاط زبردست، صاحب کمال روشن قلم یعنی حضرت اعجاز رقم خان صاحب کے سے کہ بیچ اس زمانے کے اقلیم رقم علم و ہنر کے تئیں آرائش دے کر علم استادی کا بلند رکھتے ہیں، استفاضہ⁸ آغاز تربیت و


20


شاگردگی کا حاصل کر کے مزاج اپنے کے تئیں اوپر شوق مطالعہ قصہ ہائے رنگیں اور لکھنے افسانہ ہائے شیریں کے از بس مصروف رکھتا تھا، اتفاقاً ایک مرتبہ بیچ رفاقت نواب مبازر⁹ الملک افتخار الدولہ، جرنیل اسمتھ بہادر، صولت جنگ، سالار افواج انگریزی کے درمیان گنگ بہ سواری بجرہ¹⁰ و مور پنکھی¹¹" کے سفر کلکتہ کا درپیش آیا لیکن بہ سبب مسافت دور دراز کے بعضے وقت طوطی فارغ البال دل کی خفگی مکان کے سے بیچ قفس کشتی کے رکتی۔ اس وقت واسطے شغل قطع منازل کے ایک عزیز سراپا تمیز کہ بیچ رفاقت میری کے قمری¹² وار حلقہ محبت و اخلاص کا اوپر گردن کے رکھتے تھے، عندلیب زبان کے تئیں بیچ داستان سرائی حکایات عجیب و غریب کے اوقات خوش کرتے۔ چنانچہ ایک روز بلبل ہزار داستان اس حکایت دلفریب کے تئیں بھی بیچ گلزار گفتگوئے کہانی کے مترنم کیا۔ جو ہر ایک صدائے ترنم اس کے کی بےاختیار دل کو لبھاتی تھی، کہ سننے سے تعلق ہے، طاؤس نگارین خیال کا، بیج دماغ خاطر کے یوں جلوہ گر ہوا، کہ اگر بیشتر دو تین ںسخے از قسم انشائے تحسین و ضوابط انگریزی و تواریخ قاسمی وغیرہ کے بقدر حوصلہ عبارت فارسی کے تصنیف کیے ہیں، لیکن مضمون اس داستان بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارت رنگین زبان ہندی کے لکھا چاہیے کیونکہ آگے سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہیں ہوا اور یہ کہ جو کوئی حوصلہ سیکھنے زبان اردوئے معلٰی کا رکھتا ہو، مطالعہ اس گلدستہ بہاریں کے سے ہوش و شعور فحوائے کلام¹³ کا حاصل کرے کہ واسطے علم مجلس کے لسانی زبان ہندوستان کی بیچ حق آدمی بیرون جات¹⁴ کے خراد کندہ نا تراش کے تئیں یے، چنانچہ چند فقرے بیج تفنن طبع کے شروع داستان اول میں نوک ریز خامہ عجز نگار کے کیے بعد ازاں کہ جرنیل بہادر نے وقت روانگی ولایت کے اس بندہ عاجز کے تئیں کلکتے سے بہ سرفرازی بعضے خدمات عمدہ عظیم آباد کے و مختاری مقدمات نظامات کے امتیاز بخشے، اس وقت بیچ تردد خدمات متعلقہ کے دماغ انشاپردازی کا معلوم، مگر منظور نظرومرکوز خاطر کے تھا کہ اگر زمانہ چند صباح موافقت کرے تو اس آغاز کا انجام دینا گویا بنا زندگانی کی روز محشر تلک مستحکم کرنا ہے۔ آخرش بی مضمون اس کے کل امرھون باوقاتھا چند روز
 
Top