مندرجہ ذیل اقتباسات کو پڑھیے اور دی گئی تاریخوں اور دعووں پر غور کیجے۔
کیونکہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ کم از کم 7 ہجری تک(یعنی رسول ص کی وفات کے تین سال قبل تک) صحابہ اور صحابیات نے رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کیے۔ چنانچہ جب یہ لوگ متعہ کو زناکاری کا الزام دیں گے تو یہ چیز ان صحابہ اور صحابیات کے لیے سب سے پہلے گالی بن جائے گا جو رسول اللہ ص کی اجازت بلکہ حکم پر عقد متعہ کرتے رہے۔ کاش کہ یہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں۔
1۔ آپ قرآن کو کھولیں۔2۔ اور پھر ان دونوں سورتوں (سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج) کے زمانے نزول کو دیکھیں۔
3۔ ان دونوں سورتوں سے قبل بالاتفاق آپ کو لکھا نظر آئے گا "المکیۃ" یعنی مکی دور میں نازل ہونے والی سورتیں۔
4۔ اب بتلائیں کہ آپ اس عقدے کو کیسے حل کریں گے کہ عقد متعہ جو باالاجماع کم از کم مدینے کے پہلے 7 سالوں (یعنی فتح خیبر یا 8 سالوں یعنی فتح مکہ) تک جاری و ساری رہا ہے اور صحابہ و صحابیات رسول ص کی اجازت بلکہ حکم سے عقد متعہ کرتے رہے۔
سورۃ النساء مدنی دور کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی جبکہ عقد متعہ بالاتفاق خود آپکی اپنی زبانی 8 ہجری تک جاری و ساری رہا۔میں اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی بلاشبہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اہل عقل و انصاف کے لیے الحمدللہ دلیل کافی ہے کہ وہ حق کو باطل سے جدا کر سکیں۔
پوری امت مسلمہ (سوائے بعد میں پیدا ہونے والے منکریں حدیث کے گروہ کے) کا اس بات پر اجماع ہے کہ عقد متعہ کم از کم سن 7 ہجری (فتح خیبر) یا پھر سن 8 ہجری (فتح مکہ) تک رسول اللہ ص کے حکم سے جاری و ساری رہا۔اختلاف اسکے بعد کے وقت کا ہے کہ آیا رسول نے اسے اپنی وفات سے تین یا دو سال قبل حرام قرار دیا یا نہیں
اہل تشیع کے نزدیک عقد متعہ کے متعلق قرآن کی سورۃ النساء کی آیت 24 نازل ہوئی۔
سورۃ النساء کی آیت 24 پر تفصیلی بحث
عقد المتعہ کے جواز کا حکم سورۃ النساء کی آیت 24 میں اللہ نےخود نازل فرمایا:
[القرآن 4:24] والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما
ٹھیک ہے سورہ نساء مدنی سورت ہے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آیت 24 متعہ کی حلت کے لیے نازل ہوئی اور اس حلت کی وجہ سے بقول مہوش صاحبہ ۸ ہجری تک متعہ ہوتا رہا۔ جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ متعہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور جو ہوتا رہا وہ مخصوص مواقع پر ہوا اجازت طلب کر کے نو مسلم لوگوں نے کیا اور اس کی قرآن نے حلت دی اور نہ یہ عام چلن تھا۔
آیے ذرا دیکھیں کہ سورۃ النساء آیت 24 کا نزول کب اور کیوں ہوا !! اس لنک پہ آپ الإمام أبو الحسن علي الواحدي النيسابوري کی اسباب نزول پڑھ سکتے ہیںِ
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعَثَ جَيْشًا
إِلَی أَوْطَاسَ فَلَقُوا عَدُوًّا فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا فَکَأَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِکَ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ أَيْ فَهُنَّ لَکُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ
عبید اللہ بن عمر بن میسرہ قواریری، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، صالح، ابی الخلیل، علقمہ ہاشمی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حنین کے دن ایک لشکر کو
اوطاس کی طرف بھیجا ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کو قتل کیا اور ان پر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلبہ حاصل کیا اور انہوں نے کافروں کو قیدی بنایا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بعض لوگوں نے ان سے صحبت کرنے کو اچھا نہ سمجھا اس لئے کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے تو اللہ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ) اور شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ جو قید ہو کر لونڈیوں کی طرح تمہارے قبضے میں آئیں۔ یعنی وہ تمہارے لئے حلال ہیں جب ان کی عدت پوری ہو جائے۔
صحیح مسلم 2643
و حَدَّثَنِيهِ يَحْيَی بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَصَابُوا سَبْيًا يَوْمَ أَوْطَاسَ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فَتَخَوَّفُوا فَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ
یحیی بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، شعبہ، قتادہ، ابی الخلیل، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اوطاس کی قیدی عورتیں ملیں جن کے خاوند تھے یعنی شادی شدہ تھیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوف کیا تو یہ آیت مبارکہ نازل کی گئی (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ)
صیحیح مسلم۔2644
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعْثًا إِلَی أَوْطَاسَ فَلَقُوا عَدُوَّهُمْ فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا فَکَأَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِي ذَلِکَ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ أَيْ فَهُنَّ لَهُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ
عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، صالح، ابوخلیل، ابوعلقمہ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
جنگ حنین میں ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ (اوطاس ایک جگہ کا نام ہے) پس وہ اپنے دشمنوں پر جا پہنچے ان سے قتال کیا اور ان کو مغلوب کر لیا اور ان کی عورتیں گرفتار کر لیں۔ پس بعض اصحاب نے
ان سے ان سے صحبت کرنا جائز نہ سمجھا کیونکہ ان کے کافر شو ہر موجود تھے تب اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما ئی۔ (ترجمہ) تم پر شوہر والی عورتیں حرام ہیں لیکن جن کے تم مالک بن جاؤ یعنی وہ تمھارے لیے حلال ہیں
سنن ابو داؤد 1841
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشًا إِلَی أَوْطَاسٍ فَلَقُوا عَدُوًّا فَقَاتَلُوهُمْ وَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ فَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي الْمُشْرِکِينَ فَکَانَ الْمُسْلِمُونَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ أَيْ هَذَا لَکُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ
محمد بن عبدالاعلی، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، ابوالخلیل، ابوعلقمہ ہاشمی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
اوطاس کی جانب لشکر روانہ فرمایا جو کہ طائف میں ایک جگہ کا نام ہے پھر دشمن سے مقابلہ ہوا اور انہوں نے ان کو مار ڈالا اور ہم لوگ مشرکین پر غالب آگئے اور ہم کو باندیاں ہاتھ لگ گئیں اور ان کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے (یعنی ان کی عورتیں ہاتھ لگ گئیں) اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کرنے سے پرہیز اختیار کیا پھر
خداوند قدوس نے آیت کریمہ آخر تک نازل فرمائی یعنی وہ عورتیں تم پر حرام ہیں جو کہ دوسروں کے نکاح میں ہیں لیکن اس وقت حرام نہیں جس وقت تم مالک ہو تم ان کے پاس جاؤ اور اس حدیث میں جو تفسیر مذکور ہے اس سے بھی یہی مطلب نکلتا ہے اور وہ تفسیر یہ ہے یعنی یہ عورتیں تم کو حلال نہیں عدت گزرنے کے بعد اس لیے کہ جس وقت یہ خواتین جہاد میں گرفتار ہوئیں تو وہ باندیاں بن گئیں اگرچہ ان کے شوہر کافر زندہ ہوں لیکن عدت کے بعد مسلمان ان سے ہم بستری کر سکتے ہیں۔
سنن نسائی 3281
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهَکَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ
احمد بن منیع، ھشیم، عثمان، ابی خلیل، حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے
جنگ اوطاس کے موقع پر کچھ ایسی عورتیں قید کیں جو شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر بھی اپنی اپنی قوم میں موجود تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو یہ آیت نازل ہو (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ) یہ حدیث حسن ہے۔ ثوری، عثمان بتی بھی ابوخلیل سے اور وہ ابوسعید سے اسی حدیث کی مثل بیان کرتے ہیں ابوخلیل کا نام صالح بن مریم ہے۔
جامع ترمذی 1051 ابواب تفسیر القرآن
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهَکَذَا رَوَی الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا ذَکَرَ أَبَا عَلْقَمَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا مَا ذَکَرَ هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ
عبد بن حمید، حبان بن ہلال، ہمام بن یحیی، قتادة، ابوالخلیل، ابوعلقمة ہاشمی، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
جنگ اوطاس کے موقع پر ہم لوگوں نے مال غنیمت کے طور پر ایسی عورتیں پائیں جن کے شوہر مشرکین میں موجود تھے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان سے صحبت (جماع) کرنا مکروہ سمجھا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُکُمْ۔ (ترجمہ۔ اور حرام ہیں خاوند والی عورتیں مگر یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آ جائیں۔ اللہ تعالی نے ان احکام کو تم پر فرض کر دیا ہے) یہ حدیث حسن ہے۔
جامع ترمذی 2942
تفسیر ابن کثیر میں حافظ ابن کثیر
رحمہ النساء آیت ۲۴ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں ہاں کفار کی عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارےقبضے میں آئیں تو ایک حیض گزارنے کے بعد وہ تم پر حلال ہیں، مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ
جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھی تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری۔ ہم پر ان سے ملنا حلال کیا گیا۔
ترمذی، ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، طبرانی کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے۔
بعض نے اس آیت سے نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے۔ بے شک متعہ ابتدائے اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہو گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور چند دیگر صحابہ سے ضرورت کے وقت اس کی اباحت مروی ہے، حضرت امام احمد حنبل سے بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے۔
مجاھد رحمہ فرماتے ہیں یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی حضرت علی والی روایت کر دیتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن نکاح متعہ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا۔
شیخ الالسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں۔
:محرمات کا ذکر فرما کر اخیر میں اب ان عورتوں کی حرمت بیان فرمائی جو کسی کے نکاح میں ہوں یعنی جو عورت کسی کے نکاح میں ہے اس کا نکاح اور کسی سے نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ وہ بذریعہ طلاق یا وفات زوج نکاح سے جدا نہ ہو جائے اور عدت طلاق یا عدت وفات پوری نہ کر لے اس وقت تک کوئی اس سے نکاح نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر کوئی عورت خاوند والی تمہاری مِلک میں آ جائے تو وہ اس حکم حرمت سے مستثنٰی ہے اور وہ تم پر حلال ہے گو اس کا خاوند زندہ ہے اور اس نے طلاق بھی اس کو نہیں دی اور اس کی صورت یہ ہے کہ کافر مرد اور کافر عورت میں باہم نکاح ہو
اور مسلمان دارالحرب پر چڑھائی کر کے اس عورت کو قید کر کے دارالاسلام میں لے آئیں تو وہ عورت جس مسلمان کو ملے گی اس کو حلال ہے گو اس کا زوج دارالحرب میں میں زندہ موجود ہے اور اس نے طلاق بھی نہیں دی اب سب محرمات کو بیان فرما کر اٰخیر میں تاکید فرما دی کہ یہ اللہ کا حکم اس کی پابندی تم پر لازم ہے۔ {فائدہ} جو عورت کافرہ دارالحرب سے پکڑی ہوئی آئے اس کے حلال ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایک حیض گذر جائے اور وہ عورت مشرک بت پرست نہ ہو بلکہ اہل کتاب میں سے ہو۔
یعنی جن عورتوں کی حرمت بیان ہو چکی ان کے سوا سب حلال ہیں چار شرطوں کے ساتھ اول یہ کہ طلب کرو یعنی زبان سے ایجاب و قبول دونوں طرف سے ہوجائے۔ دوسری یہ کہ مال یعنی مہر دینا قبول کرو۔ تیسری یہ کہ ان عورتوں کو قید میں لانا اور اپنے قبضہ میں رکھنا مقصود ہو صرف مستی نکالنا اور شہوت رانی مقصود نہ ہو جیسا کہ زنا میں ہوتا ہے یعنی ہمیشہ کے لئے وہ اس کی زوجہ ہو جائے چھوڑے بغیر کبھی نہ چھوٹے مطلب یہ کہ کوئی مدت مقرر نہ ہو
اس سے متعہ کا حرام ہونا معلوم ہو گیا جس پر اہل حق کا اجماع ہے چوتھی شرط جو دوسری آیتوں میں مذکور ہے یہ ہے کہ مخفی طور پر دوستی نہ ہو یعنی کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورت اس معاملہ کی گواہ ہوں اگر بدون دو گواہوں کے ایجاب و قبول ہو گا تو وہ نکاح درست نہ ہوگا زنا سمجھا جائے گا۔
مفتی اعظم مولانا شفیع عثمانی رحمہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں۔
لفظ استمتاع کا مادہ م۔ت۔ع ہے جس کے معنی کسی فائدہ کے حاصل ہونے کے ہیں۔ کسی شخص سے یا مال سے کوئی فائدہ حاصل کیا تو اس کو استمتاع کہتے ہیں، عربی قواعد کی رو سے کسی کلمہ کے مادہ میں س اور ت کا اضافہ کر دینے سے طلب و حصول کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں، اس لغوی تحقیق کی بنیاد پر فمااستمتعتم کا سیدھا مطلب پوری امت کے نزدیک خلفا عن سلف وہی ہے جو ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے۔ لیکن ایک فرقہ کا کہنا ہےکہ اس سے اصطلاحی متعہ مراد ہے، اور ان لوگوں کے نزدیک یہ آیت متعہ حلال ہونے کی دلیل ہے،
حالانکہ متعہ جس کو کہتے ہیں اس کی صاف تردید قرآن کریم کی آیت بالا میں لفظ محصنین غیر مسافحین سے ہو رہی ہے، جس کی تشریح آگے آ رہی ہے۔
قرآن مجید نے محرمات کا ذکر فرما کر یوں فرمایا ہےکہ ان کے علاوہ اپنے اصول کے ذریعہ حلال عوتیں تلاش کرو اس حال میں کہ پانی بہانے والے نہ ہوں یعنی محض شہوت رانی مقصود نہ ہو اور ساتھ ہی محصنین کی قید لگائی ہے یعنی یہ کہ عفت کا دھیان رکھنے والے ہوں۔ متعہ چونکہ مخصوص وقت کے لیے کیا جاتا ہے اور اس لیے جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے اس کو فریق مخالف زوجہ وارثہ بھی قرار نہیں دیتا، اور اس کو ازواج کی معروفہ گنتی میں بھی شمار نہیں کرتا اور چونکہ مقصد محض قضاء شہوت ہے اس لیے مرد و عورت عارضی طور پر نئے نئے جوڑے تلاش کرتے رہتے ہیں، جب یہ صورت ہے تو متعہ عفت و عصمت کا ضامن نہیں بلکہ دشمن ہے۔
مندرجہ بالا حدیثوں اور حوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو رہی ہے کہ
سورۃالنساء کی آیت 24 اوطاس کے موقع پر نازل ہوئی۔ اور وجہ نزول اوطاس میں قید ہونے والی مشرکین کی عورتوں کے بارےمیں ہے نہ کہ متعہ کے بارے میں؟؟؟
اور جب
فریق مخالف کی قرآنی دلیل نازل ہی 8 ہجری فتح مکہ کے بعد ہو رہی ہے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8 ہجری تک کوئی اس آیت سے متعہ کی حلت پر استدلال کیسے کر سکتا ہے ؟؟؟
جبکہ محترمہ کا سارا زور ہی اس بات پر ہے کہ اس آیت کی روشنی میں متعہ 8 ہجری تک جاری رہا۔ اور
نزول آیت ہو رہا ہے اوطاس کے موقع پر فتح مکہ کے بعد 8 ہجری میں ؟؟؟؟
جو چپ رہے گی زبان خنجر لھو پکارے گا آستین کا
اور مندرجہ بالا مراسلے کی روشنی میں حدیث عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو پڑھیے۔
جو حضرات ابتک نکاح متعہ کو زنا قرار دینے پر مصر ہیں، انکے لیے خود حضرت عمر کے اپنے فرزند عبداللہ ابن عمر کی گواہی کافی ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ابن عمر کے متعلق یہ روایت درج ہے:
حدثنا عفان حدثنا عبيد الله بن إياد قال حدثنا إياد يعني ابن لقيط عن عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي قال
سأل رجل ابن عمر وأنا عنده عن المتعة متعة النساء فغضب وقال والله ما كنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم زنائين ولا مسافحين ثم قال والله لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليكونن قبل المسيح الدجال كذابون ثلاثون أو أكثر
قال أبي و قال أبو الوليد الطيالسي قبل يوم القيامة
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
کسی نے بھوکے سے پوچھا دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں جواب ملا چار روٹیاں۔ ۔۔۔۔۔۔ تو اس سے یہ کہاں ثابت ہو رہا ہے کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ متعہ کو جائز قرار دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور غور کریں کہ وہ غصہ ہوئے اور ممانعت متعہ کر رہے ہیں اور اس فعل سے برات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کہ وہ متعہ کو زنا کاری اور سفاح کاری سمجھتے ہین۔ اور اس چیز کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
اور دوسرا یہ کہ متعہ سفاح و زناکاری و بدکاری ہرگز نہیں بلکہ عقد متعہ پاکیزہ و طیبات میں سےہے۔تو اب بتلائیں کہ آپ اس منکر حدیث شخص کی بات قبول کریں گے یا پھر لسان نبوی ص پر یقین لائیں گے؟
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي وَوَکِيعٌ وَابْنُ بِشْرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُا کُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا نِسَائٌ فَقُلْنَا أَلَا نَسْتَخْصِي فَنَهَانَا عَنْ ذَلِکَ ثُمَّ رَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْکِحَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ إِلَی أَجَلٍ ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
محمد بن عبد اللہ بن نمیر ہمدانی، وکیع، ابن بشر، اسماعیل، قیس، حضرت عبد اللہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے اور ہمارے ساتھ عورتیں نہ ہوتی تھیں ہم نے عرض کیا کیا ہم خصی نہ ہو جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا پھر ہمیں اجازت دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے کے بدلے مقررہ مدت تک کے لئے نکاح کرلیں پھر حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی اے ایمان والو! پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اور نہ حد سے تجاوز کرو بے شک اللہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
صحیح مسلم 2493
صیحیح مسلم کی یہ حدیث دیکھیں کہ جس میں حضرت عبداللہ رضی اللہ مذکورہ آیت تلاوت کر رہے ہیں لسان نبوی کا تذکرہ نہیں۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ بخاری والی روایت میں راوی سے بھول چوک ہوئی ہو۔