نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

dxbgraphics

محفلین
گو کہ میری بہت سی پوسٹیں جو کہ خالصتآ متعہ سے متعلق تھیں اور درجات سے متعق نہیں‌‌ تھیں اور حوالے بھی آپ ہی کی کتاب سے دیے گئے تھے آپ شیر مادر سمجھ کر ہضم کر چکی ہیں۔ اور اب پھر سے انہی اعتراضات کو نئے نئے پہلوں سے سامنے لا رہی ہیں۔ مگر ہم کوئی شکوہ نہیں کریں گے اور حتی الامکان کوشش کریں گے کہ موضوع سے انصاف ہوسکے اور کوئی تشگی نہ رہے۔ جیسے کہ آپ کے پسندیدہ فورم پاک نیٹ پر نظر آتی ہے۔ اور اس سلسلے میں میں برادر نبیل اور شمشاد اور جو بھی اس فورم کی منیجمنٹ میں شامل ہیں‌‌‌‌‌۔ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوںکہ انہوں نے ایک اتنی اچھی محفل سجائی کہ جس کی وجہ سے پوسٹ کرنے والے کسی بھی مفحفلین کو تشنگی کا احساس نہیں‌ہوتا۔ درحقییقت یہ موضوع اور محفلین دونوں سے حقیقی انصاف ہے۔

اب جب ہم 1300 سال بعد اس وقت کے حالات و روایات کو دیکھتے ہیں‌اور دیکھتے بھی اپنے نظریے کی عینک پہن کے تو حقیقت کیا خاک سمجھ آئے گی۔ بہت عرصہ پہلے ایک تصویر دیکھی تھی کہ جس کو ایک بندہ دیکھتا تو کہتا تھا کہ یہ نوجوان لڑکی ہے اور دوسرا دیکھتا تو کہتا تھا کہ بوڑھی بہت ہی بوڑھی عورت ہے ۔۔۔۔ اور کچھ کو دونوں ہی نظر آ جاتیں۔ علی ہذا القیاس۔

خوش قسمتی سے مجھے وہ تصویر نیٹ پر مل گئ ہے جو میں محفلین کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔

fx8jue.gif


یہی مسئلہ ہمارے درمیان ہے۔ ورنہ ایک بات تو سچ ہے کہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ یہی مسئلہ متعہ کے بارے میں ہے سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کا جو موقف ہے وہ غلط نہیں‌ہو سکتا اور ایک کم عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مذہبی معاملات ہمیشہ سے مردوں کے ہاتھوں میں رہے اور متعہ میں مردوں ہی کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں‌ اور سر کڑاھی میں۔ اوربقول آپ کے مرد جنسیات کی طرف زیادہ راغب ہیں اسی لئے اللہ نے مردوں کو یہ چھوٹ‌دی تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ امت کے کثیر تعداد مردوں نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماری اور مسلسل مارے ہی جارہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ اسلام نے انہیں رشتوں‌کی پہچان کروائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے تو متعہ کرے گا وہ کسی کی ماں ہو گی یا ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ ذرا اس کا بیٹا یا بیٹی جب بڑےہوں گے تو وہ کیا خیال کریں گے کہ انکی ماں صرف لوگوں کے پہلو ہی گرماتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی کی بیٹی بھی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ باپ کیا سوچے گا کہ اسکی بیٹی کےنصیب میں سدا مردوں کے ہاتھوں کھلونا بننا ہی لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کسی کی بہن بھی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بہن‌بھائی کیا سوچیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ انکی بہن صرف مردوں کی خواہش نفسانی بجھانے کا ایک tool ہے اور بس اس کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ماں‌یہ سوچ کر اپنی بیٹی کوجنتی ہو گی کہ اس کی بیٹی جوان ہو کر دلہن نہ بنے اور اپنے بچوں بچیوں‌کو نہ کھلائے ؟؟؟؟؟

دل لرذ اٹھتا ہے حوا کی بیٹی کا ایسا استحصال ہوتے دیکھ کر چاہے کسی بھی طرح‌سے ہو کسی بھی لبادے میں ہو ہے تو استحصال ہی ؟؟؟؟؟ آپ ہمیں دور گذشتہ کی لونڈیوں کے طعنے دیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خود جو اس روشن صدی میں دوبارہ لونڈیوں کا نظام واپس لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ (اور یہ آپ ہی کتابوں سے دیئے گئے حوالوں سے اور عقلی دلائل سےثابت شدہ ہے کہ زن متعہ کی حیثیت ایک کنیز سے زیادہ نہیں۔

یہ کیسا اندھیر ہے کہ ایک عورت مرد کے ساتھ نکاح کرتی ہے اور اسے مرد کے بستر پر بھی حق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ ایک مشین ہے مردوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے حقوق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی خواہشات کچھ نہیںِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ جب اس روشنی میں دیکھیں تو ان شا اللہ آپ کو تمام روایات میں ربط‌ بھی نظر آئے گا اور یہ جو آپ سلف‌ کی عبارتیں جو انکے دوران بحث و مباحثہ ہوتی رہیں نقل کرتی رہیں ان میں‌بھی ربط نظر آئے گا۔

اب ہم آتےہیں حدیث ممانعت متعہ فی خبیرکی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علما سچ کی تلاش میں ہر طرف ہر پہلو کی طرف دیکھتے ہیں‌اور جانچتے ہیں اور ان کی جانچ کو بیان کرنا انصاف نہیں انصاف یہ ہے کہ ان کی بحث کے نتیجے کو بیان کیا جائے۔ نتیجہ تو ظاہر ہے وہ ہے جس کو سواد اعظم نے اختیار کیا اور وقت کے اماموں اورانکے پیروکاروں نے اختیار کیا۔

بہرحال آپکی تسلی کے لئے نیچے چند حوالہ جات دے رہا ہوں‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے افاقہ ہو گا۔

خیبر میں متعہ کی حرمت بیان کی گئی وہی طریقہ جو شراب کے سلسلے میں اختیار‌کیا گیا‌ اور لوگوں کے ذہن میں بات ڈال دی گئی۔ اور فتح مکہ میں قیامت تک کے لئے ممانعت کر دی گئی۔ اور فتح مکہ اور اوطاس کے واقعات چونکہ ساتھ ساتھ ہی پیش آئے اس لیے بعض روایت میں‌جو تعارض نظر آتا ہے وہ درحقیقت تعارض‌نہیں‌ ۔‌ سورج کب نکلا ، کیسے نکلا کیوں نکلا ؟؟؟ اس سے اس بات پر فرق نہیں پڑتا کہ وہ نکل چکا ہے اور روشنی سارے عالم میں پھیل چکی ہے اب کوئی خود کو کمرے میں بند کر لے تو سورج کا کیا قصور۔ حرمت کیوں ہوئی، کب ہوئی اس سے قطع نظر یہ بات طے شدہ ہے کہ حرمت ہوئی اور قیامت تک کے لئے ہوئی اور فطرت سلیم اور عقل جو اللہ کی طرف سے دیا گیا واقعی ایک ہتھیار ہے مگر استعمال کنندہ کا محتاج ہے یہی تسلیم کرتی ہے کہ یہ ہی صحیح‌ ہے۔ اور یہ بات دلائل اور روایت سے ہماری کتابوں سے بھی اور آپکی کتابوں سے بھی ثابت ہے اور درج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کون ہے منکر روایت فاروق صاحب یا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تہذیب الاحکام جلد ۲ ص ۱۸۲ مطبوعہ ایران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں روایت کو مانا گیا ہے اور تقیہ کہا گیا۔

ان هذا الرواية وردت موردة التقية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ روایت یقینا تقیہ کے طور پر وارد ہوئی ہے۔

وسائل الشیعہ جلد ۵۔ص۔ ۴۳۸ میں‌ درج ہے۔

اباحۃ المتعۃ من ضروریات مذہب الامامیۃ۔ شیخ محمد بن حسن۔

شیخ الطائفہ بھی لکھتے ہیں‌کہ یہ روایت تقیہ ہے۔

فالوجہ فی ہذا الروایۃ ان علی التقیۃ لانہا موافقۃ لذاھب العامۃ و الاخبار الادلۃ موافقۃ لظاھر الکتاب و اجماع الفرقۃ علی موجھا فیحب ان یکون العمل بھادون ھذہ الروایۃ الشاذۃ۔

شیخ محمد بن حسن الحر العاملی کہتا ہے۔ اقول حملہ الشیخ وغیرہ علي التقية يعني في الرواية لان اباحة المتعة من ضروريات مذهب الامامية ۔ یعنی جن روایات میں حضرت علی سے متعہ کی ممانعت آتی ہے اس کو ہم تقیہ پر محمول کرتے رہیں گے۔ کیونکہ شیعہ امامیہ کی دوسری مستند روایات سے متعہ کا حلال ہونا واضح ہے اور متعہ کی اباحت مذہب امامیہ کی ضروریات دین میں سے ہے۔ اس لیے ممنوع والی روایتوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں بلکہ عمل اسی پر ہوگا جن پر شیعوں کا اجماع ہے۔ وسائل الشیعہ جلد ۷ ۴۴۱ مطبوعہ تہران

حضرت علامہ ابو جعفر احمد بن محمد نحوی مصری لکھتے ہیں ۔ ان ابن عباس لما خاطبه علي بهذا لم يحاجه فصار تحريم المتعۃ اجماھا لان الذین یحلونھا اعتمادھم علی ابن عباس ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت ابن عباسؓ سے بات چیت کی تو حضرت ابن عباسؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کوئی حجت نہ کی پس اس کے ذریعہ متعہ کی حرمت پر اجماع ہو گیا اس لیے کہ جو لوگ متعہ کی اباحت کے قائل تھے ان کا سارا دارومدار ابن عباس کے قول پر تھا ۔ تفسیر نحاس ص ۱۰۶

قاضی عبدالجبار متعزلی لکھتے ہیں وانکر ذالک علی رضی اللہ عنہ لما بلغہ اباحۃ ابن عباس انکار ظاہر اوقد عنہ رضی اللہ عنہ الرجوع عن ذالک فصار اجماعا من کل صحابۃ۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعہ کے مباح ہونے کے قول کی خبر پہنچی تو آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر سخت انکار کیا اور مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا۔پس حرمت متعہ پر تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا۔ (تفسیر تنزیہ القرآن ص ۸۴)

اور اب ایک شعیہ عالم کی رائے

شیعی عالم ڈاکٹر موسی الموسوی لکھتےہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں اس حرمت کو برقرار رکھا اور جواز متعہ کا حکم صادر نہیں فرمایا۔ شیعی عرف اور ہمارے فقہاء شیعہ کی رائے کے مطابق امام کا عمل حجت ہوتا ہے خصوصاً جب کہ امام با اختیار ہو۔ اظہار رائے کی آزادی رکھتا ہو اور احکام الٰہی کے اوامر و نواہی بیان کر سکتا ہو اس صورت میں امام علی رضی اللہ عنہ کی حرمت متعہ کو برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ عہد نبوی میں حرام تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ وہ اس حکم تحریم کی مخالفت کرتے اور اس کے متعلق صحیح حکم الٰہی بیان کرتے اور عمل امام شیعہ پر حجت ہے میں نہیں سمجھ پایا کہ ہمارے فقہاء شیعہ کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ وہ اس کو دیوار پر مار دیتے ہیں۔ اصلاح شیعہ ۱۱۲

ایک روایت استبصار سے اس میں نہ فتح‌ مکہ کا خبیر کا ذکربھی نہیں مگر حرمت متعہ کا ذکر واضح ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لحرم الحمر الاھلیۃ ونکاح المتعۃ ۔ الاستبصار جلد ۳ ص ۱۴۲

یہی تو رونا ہے نہ شوکت بھائی ۔ کہ اس کو تو دوسروں کے اہل و عیال کے لئے حلال کرنے والے بہت ہیں لیکن جب اپنے آپ پر آتی ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از ابن حسن:
مہوش آپ کی ان باتوں سے اس گفتگو کا کیا تعلق ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ کے جھوٹ کو آشکار کرنے سے پہلے جو کچھ ویب کے اوپر موجود ہے اس کی میں چھان پٹک کروں اور تمام افراد کی غلط بیانی کو بیان کروں اس کے بعد آپ کی باری آئے۔؟؟ ہاشمی صاحب کیا کہ رہے ہیں یا کہاں کہاں متعہ کے بارے میں کیا کہاجارہا ہے اس کا مجھ سے کیا تعلق ہے۔ میری مخاطب آپ ہیں یا میں سارے ویب کی تطہیر کا ذمہ دار ہوں؟؟
ابن حسن،
مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنی سائیڈ والوں کے گناہ نظر نہیں آتے، مگر دوسروں کی عیوب پکڑنے کے آپ ماہر ہیں۔

یہ سارا مسئلہ شروع ہی آپ لوگوں کے اس جھوٹ سے شروع ہوا کہ شیعہ کی صحیح مستند کتاب الکافی میں یہ روایت موجود ہے۔ اور پھر پھیلتے پھیلتے یہ جھوٹ یہاں تک پھیلا کہ نیٹ پر ہر ڈسکشن فورم میں مخالفین آنکھیں بند کر کے یہ اس جھوٹ پر ایمان لے آئے۔ اور اس پورے عرصے میں ہم مسلسل یہ ہی سوال کرتے رہے کہ وہ کون سے الکافی ہے جس میں یہ روایت موجود ہے۔ مگر لاکھ ڈھونڈنے اور لاکھ چیلنج کرنے کے باوجود جب یہ جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں رکا، تو پھر جواب میں یہی کہا گیا کہ یہ ہم پر تہمت لگائی جا رہی ہے۔
اور پھر جب پہلی مرتبہ کاشانی کی کتاب کے ایک صفحے کا عکس پیش کیا گیا تو اس کے فٹ نوٹ میں روایت کےمجہول ہونے کے متعلق صاف لکھا ہوا تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوا کہ کاشانی نے خود اس روایت کو مجہول کہا ہے (اُس ایک صفحے سے کہیں پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ فٹ نوٹ کسی اور کے ہیں)۔
چنانچہ سب چیزیں صاف صاف ہونے کے بعد بات وہیں پہنچی جو ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ اس روایت کی کوئی سند نہیں اور فضائل میں بہت سی ایس روایات نقل کر دی جاتی ہیں جو ضعیف ہوں، یا پھر جن کی سند تک موجود نہ ہو۔ اسی لیے فضائل والی روایت سے کبھی حلال و حرام کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، اور یہی چیز اہلسنت کے سلف علماء میں موجود تھی جہاں انہوں نے ایسی ہزاروں ضعیف روایات نقل کی ہیں۔

از ابن حسن:
متعہ کی فضیلت اتنے ذوق و شوق سے آپ کی کتب میں پائی جاتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ تمام چیزیں اس کے مقابے میں ہیچ ہیں
آنکھیں بند کر کے اندھا بنے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ جب ثبوت بھی مہیا کیا جا چکا ہے کہ آپکی اپنی کتابوں میں مباشرت کے ایسے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ جن کے سامنے زمین و کائنات اور انکے مابین ہر چیز ہیچ ہے۔

میں اس زاہد کی، اس مجاہد کی، اس عابد کی توہین اس وقت اِس روایت سے قبول کروں گا جب آپ کاشانی کی روایت کی روشنی میں
حضرت حسین کی
حضرت حسن کی
حضرت علی کی
اور آنحضرت کی
توہین تسلیم کر کہ سب سے اپنے جھوٹ پر معافی چاہیں گی۔

اُس شخص سے اب کیا بات کی جائے جو اپنے گناہوں سے توبہ اس لیے دوسروں کا محتاج ہے، اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اپنے کنویں میں چھلانگ لگانے کے عذر میں دوسرے پر الزام لگا رہے کہ اُس نے بھی لگائی ہے۔
انسانیت ہوتی تو یہ صاحب سیدھا سادھا قبول کر لیتے کہ ہاں فضائل میں ایسی روایات انکی اپنی کتابوں میں نقل ہو گئی ہیں جو ضعیف ہیں اور ان کا حلال حرام سے تعلق نہیں۔ اب یہ چھپتے رہیں پردوں کے پیچھے مگر میرا مقصد تو پورا ہو گیا کہ انکی کی اپنی کتابوں میں یہ ضعیف روایات موجود ہیں جس سے ہر طرح کہ توہین نکلتی ہے، چاہے یہ اب مانے یا نہ مانے یا پھر چاہے کسی اور کے پردے کے پیچھے چھپتے پھریں۔

اور پھر یہی شخص آ کر زمانہ جاہلیت کی بندریا کو سنگسار کرنے کی روایت پر ایمان لا رہے ہیں، اور ابھی تک اس روایت کو رطب و یابس ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تو یہ بے شک انکار کرتے رہیں مگر میرا مقصد پورا ہو گیا اور انکے گریبان میں جو موجود ہے وہ اہل انصاف و حق کے سامنے آ گیا۔

**********************
میں نے تو ان صاحب سے کہا تھا کہ اپنی اس روش سے بعض آ جائیں اور اچھی اسلامی سپرٹ کے ساتھ حلال اللہ اور حرام اللہ کو دلائل کے ساتھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اگر انہیں فضائل والی روایات بیچ میں لا کر دوسروں کو بدنام کرنا ہی ہے تو اسکا تو جم غفیر انکی اپنی کتابوں میں موجود ہے۔ تو پھر کہاں کہاں تک انکار کریں گے اس اصول سے کہ فضائل میں رطب و یابس اور توہین آمیز روایات ہر فریق کی کتب میں موجود ہیں، اور اس بنیاد پر جب یہ دوسرے کو بدنام کرنا چاہیں گے تو انکی اپنی کتابوں کی یہ روایات انکے گلے آ کر پڑ جائیں گی۔

حضرت عمر کا تمام رسولوں و انبیاء (بشمول رسول اللہ ص) کے جنت میں داخل ہونا، حق جلالہ سے مصافحہ کرنا
امام حاکم النیشاپوری اپنی کتاب مستدرک، جلد 3، صفحہ 84 پر لکھتے ہیں:
ابی ابن کعب فرماتے ہیں:
میں نے اللہ کے رسول ص کو فرماتے سنا: روز قیامت حق جلالہ سب آگے بڑھ کر جسکا استقبال کرے گا وہ عمر ابن خطاب ہوں گے، جن سے سب سےپہلے مصافحہ کرے گا وہ عمر ابن خطاب ہوں گے، اور جسکا ہاتھ پکڑ کر سب سے پہلے جنت میں لے جائے گا وہ عمر ابن خطاب ہوں گے۔

اور حافظ ابن ماجہ اپنی سنن میں حضرت عمر کی فضیلت میں بیان کر رہے ہیں:
ابن ابی کعب فرماتے ہیں:
اللہ کے رسول ص نے فرمایا: حق جلالہ جس سے سب سے پہلے ہاتھ ملائے گا اور استقبال کرے گا وہ حضرت عمر ابن خطاب ہیں۔ اور پھر حضرت عمر کو ہاتھ سے پکڑ کر سب سے پہلے جنت میں داخل کرے گا۔

دوسروں پر پتھر پھینکنےسے پہلے یہ مخالفین ایک نظر اپنی کتابوں میں ڈال لیں تاکہ انہیں اپنے گریبان کی صفائی کا بھی اندازہ رہ سکے تو بہتر ہے:

أول من يصافحه الحق عمر



عدد الروايات : ( 10 )


أحمد بن حنبل - فضائل الصحابة - ومن فضائل عمر



603 - حدثنا : الحسين ، قثنا : إسماعيل بن محمد الطلحي ، قثنا : داود بن عطاء المدني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده يدخله الجنة.


الرابط:

http://www.sonnaonli...hadithid=129159




سنن إبن ماجه - المقدمة - فضل عمر - رقم الحديث : ( 101 )



104 ۔ حدثنا : إسماعيل بن محمد الطلحي ، أنبئنا : داود بن عطاء المديني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب ، قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة !!.



الرابط:

http://hadith.al-isl...?hnum=101&doc=5





مستدرك الحاكم - كتاب معرفة الصحابة - رقم الحديث : ( 4489 )




4464
- أخبرنا : عبد الله بن إسحاق إبن الخراساني العدل ببغداد ، ثنا : أحمد بن محمد بن عبد الحميد الجعفي ، ثنا : الفضل بن جبير الوراق ، ثنا : إسماعيل بن زكريا الخلقاني ، ثنا : يحيى بن سعيد ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب (ر) قال : سمعت النبي (ص) : يقول : أول من يعانقه الحق يوم القيامة عمر ، وأول من يصافحة الحق يوم القيامة عمر ، وأول من يؤخذ بيده فينطلق به إلى الجنة عمر بن الخطاب (ر).



الرابط:

http://www.islamweb....no=33&startno=5

http://www.sonnaonli...hadithid=523397




إبن أبي عاصم - السنة - باب في فضل



1044 - أبيه : أن : إسماعيل بن محمد بن إسماعيل بن محمد بن يحيى بن زكريا بن طلحة بن عبيد الله ، حدثنا : داود بن عطاء ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب ، قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر بن الخطاب ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة .



الرابط:

http://www.sonnaonli...hadithid=244246




إبن أبي عاصم - الأوائل - باب في فضل



55 - حدثنا : إسماعيل بن محمد بن إسماعيل بن محمد بن يحيى بن زكريا بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله ، ثنا : داود بن عطاء ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر بن الخطاب ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة .



الرابط:

http://www.sonnaonli...hadithid=242188





الطبراني - المعجم الأوسط - باب العين - من إسمه عبدالله




4461 - حدثنا : عبد الله بن أحمد بن حنبل قال : ، حدثني : إسماعيل بن محمد الطلحي قال : ، نا : داود بن عطاء المزني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة ، لم يرو هذا الحديث عن الزهري إلاّ صالح بن كيسان ، وعمر بن قيس.



الرابط:

http://www.sonnaonli...hadithid=454370

http://www.sonnaonli...hadithid=455675




المتقي الهندي - كنز العمال - الجزء : ( 11 ) - رقم الصفحة : ( 578 )



32741 - أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة.



الرابط:

http://www.al-eman.c...06&sw=32741#sr1





إبن عساكر - تاريخ مدينة دمشق - الجزء : ( 44 ) - رقم الصفحة : ( 157 / 158 )



-
أنبئنا : أبو عبد الله محمد بن أحمد بن إبراهيم بن الحطاب ح ، وأخبرنا : أبو عبد الله محمد بن إبراهيم بن جعفر ، وأبو القاسم فضائل بن الحسن بن فتح ، وأبو محمد عبد الرحمن بن أبي الحسن قالوا : ، أنا : سهل بن بشر قالا : ، أنا : محمد بن الحسين بن محمد بن الطفال ، أنا : محمد بن يحيى الذهلي ، نا : الحسين بن عمر بن إبراهيم الثقفي ، نا : إسماعيل بن محمد الطلحي ، نا : داود بن عطاء المدني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذه بيده يدخله الجنة.



-
أخبرنا : أبو القاسم بن السمرقندي ، أنا : أبو القاسم إسماعيل بن مسعدة ، أنا : حمزة بن يوسف ، أنا : عبد الله بن عدي ، أنا : أبو خولة ميمون بن مسلمة ، نا : عبد الله بن محمد الأذرمي ، نا : وهب بن وهب ، عن محمد بن أبي حميد الأنصاري ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يسلم عليه الحق يوم القيامة ، وأول من يصافحه الحق ، وأول من يحط له في الجنة بعمله عمر (ر
 

مہوش علی

لائبریرین
اس موضوع پر اور اسی مواد سے ملتی جلتی ایک پ ڈ ف فائل کئی سال سے تو یہاں بھی موجود ہے۔

مجھے نہیں علم کہ اس پی ڈی ایف فائل سے آپ لوگوں کو کیا شکایت ہے کہ جو اسکو یہاں بطور گناہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
ہاں میں اس پی ڈی ایف بنانے میں شامل تھی اور اس پی ڈی ایف فائل میں میرا نام "ایم علی" سے ٹائپسٹ کے ذیل میں موجود ہے۔ ایک صاحب نے آنسرنگ انصار کے انگلش آرٹیکل سے ایک مختصر کتابچہ اردو میں ترجمہ کیا تھا، اور آخر میں ہوتا ہوتا مجھ تک اس درخواست سے پہنچا تھا کہ اسکو اردو میں ٹائپ کر دوں۔

جب دو تین مہینے قبل پاکٹ ڈاٹ نیٹ پر عقد المتعہ پر بحث چلی تو میں ارادہ کر چکی تھی کہ اس فائل کو اپڈیٹ کر کے اسکا مواد وہاں پوسٹ کر دیا جائے، مگر پھر وہاں پر چونکہ بحث ہرگز فرقہ وارانہ شرارت کی نظر نہیں ہوئی تھی، اس لیے مجھے لگا کہ ہماری اس لڑائی کا فائدہ صرف منکر حدیث طبقے کو ہو گا، اس لیے میں نے بحث کو آگے نہیں بڑھایا اور نہ ہی اس فائل کا کوئی مواد وہاں پیش کیا۔

اسی دوران فاروق صاحب کا پی ایم موصول ہوا جس میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ میں تین دفعہ طلاقیں ایک ہی نشت میں دینے والی بدعت پر روایات پیش کر دوں، مگر میں نے اس سلسلے میں فاروق صاحب سے معذرت کر لی حالانکہ اس مسئلے پر ہمیں شدید اختلافات ہیں۔
اور یہ معذرت بھی میں نے اس لیے کی کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسی فرقہ وارانہ بحث میں پڑا جائے کہ جس کے نتیجے میں فقط اس سے بڑا فتنہ مضبوط اور پھیلتا چلا جائے۔

یہاں جو پہلے دن سے لوگ فرقہ وارانہ اختلاف ذہنوں میں رکھ کر کود پڑے، تو افسوس کہ انکو رد کرنے کے لیے مجھے ان کی سطح پر گرنا پڑا۔ مگر میرے پاس کوئی چارہ اور رہ نہیں گیا تھا۔ میں عرصہ دراز سے یہ بحثیں چھوڑ چکی تھی، مگر ۔۔۔۔ خیر۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اوپر میں نےایک اقتباس دیا تھا ڈاکٹر موسیٰ‌الموسوی کی کتاب اصلاح شیعہ سے۔ مناسب ہے کہ ان کا تھوڑا سا تعارف بھی کروا دیا جائے اور کتاب کا لنک بھی دے دیا جائے تا کہ حجت تمام ہو۔

ڈاکٹر موسٰی الموسوی، الامام الاکبر سید ابوالحسن الموسوی الاصفہانی کے پوتےہیں۔ سند پیدائش 1930 ہے اور مقام پیدائش نجف اشرف ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر فقہ اسلامی میں‌ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
1955 میں‌طہران یونیورسٹی سے اسلامی قانون میں‌ڈاکٹریٹ اور 1959 میں‌پیرس یونیورسٹی سے فلسفہ میں‌پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
منسلکہ کتاب اصلاح‌شیعہ کے صفحہ 190 سے متعہ کا بیان شروع ہوتا ہے۔

شکریہ شوکت بھائی آپ نے کتاب کا یہ لنک مہیا کر دیا۔ اب ہر کوئی جا کر خود عقد المتعہ پر موسوی صاحب کے دلائل پڑھ سکتا ہے۔ یہ اتنے پھٹیچر دلائل ہیں کہ خود آپ کو اس شخص کی شخصیت کا اندازہ ہو جائے گا کہ جسے متعہ کے خلاف شیعہ کتب میں شاید خیبر والی واحد روایت نظر آ گئی، مگر مخالفین کے حدیث کتب میں وہ بے تحاشہ روایات نظر نہیں آ سکیں جن میں تضاد نہیں اور مسلسل ایک ہی بات ثابت ہو رہی ہے کہ صحابہ اور تابعین کا ایک جم غفیر ہے جسے رسول اللہ ص کی زندگی میں پیش آنے والے کسی ایسے واقعے کا سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ جہاں رسول ص نے عقد المتعہ کو حرام قرار دیا ہو۔ چاہے یہ خیبر ہو، یا فتح مکہ، یا اوطاس، یا عمرۃ القضا یا حنین، یا تبوک یا حجۃ الوداع۔۔۔۔ ان کو سرے سے کسی ایسے واقعے کا علم ہی نہیں۔ اور یہ صورت نصف صدی گذر جانے کے بعد ہے۔ مگر بہانے بنانے والے دھڑلے سے بہانہ بناتے ہیں کہ نصف صدی تک ان صحابہ و تابعین تک حرمت کی روایات نہیں پہنچ سکیں۔

اور ڈاکٹر موسوی کا پھر پورا زور وہی ہے کہ عارضی تعلقات فحاشی ہے، مگر انکو بھی یہ نظر نہیں آتا کہ اگر محصنین اور دیگر اسلامی حدود و قیود کے ساتھ کیا گیا نکاح المتعہ فحاشی ہے تو کنیز عورت کے ساتھ عارضی تعلقات تو پھر پتا نہیں کیا ہوئے۔ یہی ہوتا کہ جب انسان کو دوسرے کے عیوب نکال کر الزام بازی کرنا ہوتی ہے کہ اُسے اپنے گریبان میں موجود چیزیں نظر آنا بند ہو جاتی ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میری مراد اس سسٹم کوغلط کہنا یا کسی قسم کا تبصرہ کرنا نہیں تھا کہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ محترمہ مہوش جو متعہ کے حوالےسے بار بار ان کا تذکرہ کر رہی تھیں۔ اس کا رد کرنا مقصود تھا۔

ان بھائی صاحب کو ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا ہے کہ اس 1300 سالہ تاریخ اور فقہی احکام کا رد ممکن ہی نہیں ہے، اور اس کو رد کرنے اور اس سے بھاگنے کے چکر میں یہ ہمیشہ ایسی ہی غلطیاں کرتے رہیں گے۔
 

دوست

محفلین
محترمہ آپ نے کئی بار پوچھے جانے والے سوال کا جواب نہیں‌ دیا
مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں متعہ کو جاری کیوں نہیں کیا۔ کوئی روایت؟ کوئی تاریخی ثبوت؟ آپ کی کتب سے ہی کوئی دلیل؟
براہ کرم نصف صدی، ابن عباس وغیرہ کی تکرار مت کیجیے گا۔
وسلام
 

باذوق

محفلین
مجھے نہیں علم کہ اس پی ڈی ایف فائل سے آپ لوگوں کو کیا شکایت ہے کہ
ایسی کوئی شکایت آپ سے بالکل بھی نہیں ہے جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے۔
ہاں ، ایک شکایت میں آپ سے کافی عرصہ سے کرتا آ رہا ہوں۔ اس کو شکایت نہیں بلکہ گذارش ہی سمجھئے۔
بقول آپ کے ، جب نیٹ پر ان نظریات کی پبلشنگ کا مقصد حق کو لوگوں تک پہنچانا ہے تو پ ڈ ف کے ساتھ ورڈ فائل بھی فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ اس طرح سطر بائی سطر جواب دینے والے کو کوٹ کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔
اس سے قبل بھی میں ایک پ ڈ ف فائل کا ٹکسٹ‌ مواد بھیجنے کیلئے آپ سے درخواست کر چکا ہوں۔ اس بار بھی متعہ پر یہ اور یہ فائلوں کا ٹکسٹ مواد اگر مل جائے تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ شکریہ۔
 

dxbgraphics

محفلین
شکریہ شوکت بھائی آپ نے کتاب کا یہ لنک مہیا کر دیا۔ اب ہر کوئی جا کر خود عقد المتعہ پر موسوی صاحب کے دلائل پڑھ سکتا ہے۔ یہ اتنے پھٹیچر دلائل ہیں کہ خود آپ کو اس شخص کی شخصیت کا اندازہ ہو جائے گا کہ جسے متعہ کے خلاف شیعہ کتب میں شاید خیبر والی واحد روایت نظر آ گئی، مگر مخالفین کے حدیث کتب میں وہ بے تحاشہ روایات نظر نہیں آ سکیں جن میں تضاد نہیں اور مسلسل ایک ہی بات ثابت ہو رہی ہے کہ صحابہ اور تابعین کا ایک جم غفیر ہے جسے رسول اللہ ص کی زندگی میں پیش آنے والے کسی ایسے واقعے کا سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ جہاں رسول ص نے عقد المتعہ کو حرام قرار دیا ہو۔ چاہے یہ خیبر ہو، یا فتح مکہ، یا اوطاس، یا عمرۃ القضا یا حنین، یا تبوک یا حجۃ الوداع۔۔۔۔ ان کو سرے سے کسی ایسے واقعے کا علم ہی نہیں۔ اور یہ صورت نصف صدی گذر جانے کے بعد ہے۔ مگر بہانے بنانے والے دھڑلے سے بہانہ بناتے ہیں کہ نصف صدی تک ان صحابہ و تابعین تک حرمت کی روایات نہیں پہنچ سکیں۔

اور ڈاکٹر موسوی کا پھر پورا زور وہی ہے کہ عارضی تعلقات فحاشی ہے، مگر انکو بھی یہ نظر نہیں آتا کہ اگر محصنین اور دیگر اسلامی حدود و قیود کے ساتھ کیا گیا نکاح المتعہ فحاشی ہے تو کنیز عورت کے ساتھ عارضی تعلقات تو پھر پتا نہیں کیا ہوئے۔ یہی ہوتا کہ جب انسان کو دوسرے کے عیوب نکال کر الزام بازی کرنا ہوتی ہے کہ اُسے اپنے گریبان میں موجود چیزیں نظر آنا بند ہو جاتی ہیں۔

جو آپ کی مرضی کے خلاف ہو تو وہ پھٹیچر۔ واہ کیا طبیعت پائی ہے۔
اور ڈاکٹر موسوی نے تو پھر آپ کی اپنی کتب سے اقتباسات پیش کیئے ہیں۔ پھر اس اعتراض کا مطلب۔
جہاں تک میں سمجھا ہوں۔ جو آپ کے میزان پر پورا اترا وہ صحیح اور جو نہ اترا وہ سراسر غلط :grin:

وہی پرانے ہتھکنڈے۔ محترمہ کنیز پر الگ تھریڈ کھول لیں تو پھر وہاں یہ سوالات پوچھیں۔خود ایک تھریڈ کھول کر اس میں دوسرا موضوع شروع کرنا آپ سے کوئی سیکھے۔ حالانکہ ایڈمن کی طرف سے واضح بھی کیا جاچکا ہے کہ موضوع سے ہٹ کر پوسٹنگ نہ کی جائے۔اور آپ ہی کے موضوع سے متعلق میرے سوال کا جواب دینے سے تو آپ رہیں ۔:grin:
 

مہوش علی

لائبریرین
محترمہ آپ نے کئی بار پوچھے جانے والے سوال کا جواب نہیں‌ دیا
مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں متعہ کو جاری کیوں نہیں کیا۔ کوئی روایت؟ کوئی تاریخی ثبوت؟ آپ کی کتب سے ہی کوئی دلیل؟
براہ کرم نصف صدی، ابن عباس وغیرہ کی تکرار مت کیجیے گا۔
وسلام

جی میرے پاس تو جواب موجود ہے مگر میں نے اسے اُس وقت تک چھوڑا ہوا ہے جبتک آپ لوگ پچھلے سوالات کا جواب نہیں دے دیتے کہ علی ابن ابی طالب، عمران بن حصین اور دیگر صحابہ نے پہلے والی بدعات پر تلوار اٹھا کر کشت و خون کیوں نہیں شروع کر دیا۔
اور پھر آپکو پہلے سنت رسول سے چیز کو حلال حرام ثابت کرنا ہے، وگرنہ اگر خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب نے بھی بدعت کو جاری رکھا تو وہ بھی آپکے اصولوں کے مطابق گنہگار ہوا نہ کہ حلال اللہ کو حرام بنانا ٹھیک ٹھہرا۔


ایسی کوئی شکایت آپ سے بالکل بھی نہیں ہے جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے۔
ہاں ، ایک شکایت میں آپ سے کافی عرصہ سے کرتا آ رہا ہوں۔ اس کو شکایت نہیں بلکہ گذارش ہی سمجھئے۔
بقول آپ کے ، جب نیٹ پر ان نظریات کی پبلشنگ کا مقصد حق کو لوگوں تک پہنچانا ہے تو پ ڈ ف کے ساتھ ورڈ فائل بھی فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ اس طرح سطر بائی سطر جواب دینے والے کو کوٹ کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔
اس سے قبل بھی میں ایک پ ڈ ف فائل کا ٹکسٹ‌ مواد بھیجنے کیلئے آپ سے درخواست کر چکا ہوں۔ اس بار بھی متعہ پر یہ اور یہ فائلوں کا ٹکسٹ مواد اگر مل جائے تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ شکریہ۔

یہ پی ڈی ایف فائلیں مکمل نہیں ہیں اور امیچور ہیں اور مکمل آرٹیکل انگلش زبان میں موجود ہے۔ اگر آپ کو جواب دینا ہے تو مکمل آرٹیکل کا دیجئے تاکہ فائدہ بھی ہو۔
اس پی ڈی ایف فائل کا تقریبا آدھا مواد ادھر پیش ہو ہی چکا ہے، باقی بھی وقت کے ساتھ ساتھ پیش ہوتا جائے گا۔
سوال: آپ کیوں نہیں انکا جواب یہاں دینا شروع کر دیتے تاکہ دوبدو بات ہو سکے، دلائل پیش ہو سکیں اور بات مکمل ہو جائے؟
 

باذوق

محفلین
حضرت عمر کا تمام رسولوں و انبیاء (بشمول رسول اللہ ص) کے جنت میں داخل ہونا، حق جلالہ سے مصافحہ کرنا
امام حاکم النیشاپوری اپنی کتاب مستدرک، جلد 3، صفحہ 84 پر لکھتے ہیں:
ابی ابن کعب فرماتے ہیں:
میں نے اللہ کے رسول ص کو فرماتے سنا: روز قیامت حق جلالہ سب آگے بڑھ کر جسکا استقبال کرے گا وہ عمر ابن خطاب ہوں گے، جن سے سب سےپہلے مصافحہ کرے گا وہ عمر ابن خطاب ہوں گے، اور جسکا ہاتھ پکڑ کر سب سے پہلے جنت میں لے جائے گا وہ عمر ابن خطاب ہوں گے۔

اور حافظ ابن ماجہ اپنی سنن میں حضرت عمر کی فضیلت میں بیان کر رہے ہیں:
ابن ابی کعب فرماتے ہیں:
اللہ کے رسول ص نے فرمایا: حق جلالہ جس سے سب سے پہلے ہاتھ ملائے گا اور استقبال کرے گا وہ حضرت عمر ابن خطاب ہیں۔ اور پھر حضرت عمر کو ہاتھ سے پکڑ کر سب سے پہلے جنت میں داخل کرے گا۔

دوسروں پر پتھر پھینکنےسے پہلے یہ مخالفین ایک نظر اپنی کتابوں میں ڈال لیں تاکہ انہیں اپنے گریبان کی صفائی کا بھی اندازہ رہ سکے تو بہتر ہے:
پوسٹ نمبر:302 میں اقتباس شدہ سارا مواد یہاں سے کاپی شدہ ہے۔
اور یہ تمام ہی روایات (جو کہ درحقیقت ایک ہی روایت ہے!) شدید ضعیف ہیں !!
تفصیل ذیل میں دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

أول من يصافحه الحق عمر
عدد الروايات : ( 10 )

أحمد بن حنبل - فضائل الصحابة - ومن فضائل عمر
603 - حدثنا : الحسين ، قثنا : إسماعيل بن محمد الطلحي ، قثنا : داود بن عطاء المدني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده يدخله الجنة.
الرابط:
http://www.sonnaonli...hadithid=129159
ضعیف روایت ہے !!
[ARABIC]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/ARABIC]
حوالہ : LINK
سنن إبن ماجه - المقدمة - فضل عمر - رقم الحديث : ( 101 )
104 ۔ حدثنا : إسماعيل بن محمد الطلحي ، أنبئنا : داود بن عطاء المديني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب ، قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة !!.
الرابط:
http://hadith.al-isl...?hnum=101&doc=5
ضعیف روایت ہے !!
[ARABIC]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/ARABIC]
حوالہ : LINK
مستدرك الحاكم - كتاب معرفة الصحابة - رقم الحديث : ( 4489 )
4464 - أخبرنا : عبد الله بن إسحاق إبن الخراساني العدل ببغداد ، ثنا : أحمد بن محمد بن عبد الحميد الجعفي ، ثنا : الفضل بن جبير الوراق ، ثنا : إسماعيل بن زكريا الخلقاني ، ثنا : يحيى بن سعيد ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب (ر) قال : سمعت النبي (ص) : يقول : أول من يعانقه الحق يوم القيامة عمر ، وأول من يصافحة الحق يوم القيامة عمر ، وأول من يؤخذ بيده فينطلق به إلى الجنة عمر بن الخطاب (ر).
الرابط:
http://www.islamweb....no=33&startno=5
http://www.sonnaonli...hadithid=523397
وضعی روایت ہے !!
[ARABIC]الحكم المبدئي: إسناد فيه متهم بالوضع وهو أحمد بن محمد الجعفي وهو متهم بالكذب.[/ARABIC]
حوالہ : LINK
إبن أبي عاصم - السنة - باب في فضل
1044 - أبيه : أن : إسماعيل بن محمد بن إسماعيل بن محمد بن يحيى بن زكريا بن طلحة بن عبيد الله ، حدثنا : داود بن عطاء ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب ، قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر بن الخطاب ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة .
الرابط:
http://www.sonnaonli...hadithid=244246
ضعیف روایت ہے !!
[ARABIC]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/ARABIC]
حوالہ : LINK
إبن أبي عاصم - الأوائل - باب في فضل
55 - حدثنا : إسماعيل بن محمد بن إسماعيل بن محمد بن يحيى بن زكريا بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله ، ثنا : داود بن عطاء ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر بن الخطاب ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة .
الرابط:
http://www.sonnaonli...hadithid=242188
ضعیف روایت ہے !!
[ARABIC]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/ARABIC]
حوالہ : LINK
الطبراني - المعجم الأوسط - باب العين - من إسمه عبدالله
4461 - حدثنا : عبد الله بن أحمد بن حنبل قال : ، حدثني : إسماعيل بن محمد الطلحي قال : ، نا : داود بن عطاء المزني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة ، لم يرو هذا الحديث عن الزهري إلاّ صالح بن كيسان ، وعمر بن قيس.
الرابط:
http://www.sonnaonli...hadithid=454370
http://www.sonnaonli...hadithid=455675
ضعیف روایت ہے !!
[ARABIC]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/ARABIC]
حوالہ : LINK
المتقي الهندي - كنز العمال - الجزء : ( 11 ) - رقم الصفحة : ( 578 )
32741 - أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذ بيده فيدخله الجنة.
الرابط:
http://www.al-eman.c...06&sw=32741#sr1
[ARABIC]أحمد بن حنبل - فضائل الصحابة - ومن فضائل عمر[/ARABIC]
سے نقل شدہ ہے جو کہ شدید ضعیف روایت ہے !
إبن عساكر - تاريخ مدينة دمشق - الجزء : ( 44 ) - رقم الصفحة : ( 157 / 158 )
- أنبئنا : أبو عبد الله محمد بن أحمد بن إبراهيم بن الحطاب ح ، وأخبرنا : أبو عبد الله محمد بن إبراهيم بن جعفر ، وأبو القاسم فضائل بن الحسن بن فتح ، وأبو محمد عبد الرحمن بن أبي الحسن قالوا : ، أنا : سهل بن بشر قالا : ، أنا : محمد بن الحسين بن محمد بن الطفال ، أنا : محمد بن يحيى الذهلي ، نا : الحسين بن عمر بن إبراهيم الثقفي ، نا : إسماعيل بن محمد الطلحي ، نا : داود بن عطاء المدني ، عن صالح بن كيسان ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يصافحه الحق عمر ، وأول من يسلم عليه ، وأول من يأخذه بيده يدخله الجنة.
اس میں بھی وہی ضعیف راوی داود بن عطاء المزني ہے !
- أخبرنا : أبو القاسم بن السمرقندي ، أنا : أبو القاسم إسماعيل بن مسعدة ، أنا : حمزة بن يوسف ، أنا : عبد الله بن عدي ، أنا : أبو خولة ميمون بن مسلمة ، نا : عبد الله بن محمد الأذرمي ، نا : وهب بن وهب ، عن محمد بن أبي حميد الأنصاري ، عن إبن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي بن كعب قال : قال رسول الله (ص) : أول من يسلم عليه الحق يوم القيامة ، وأول من يصافحه الحق ، وأول من يحط له في الجنة بعمله عمر (ر
یہی روایت ، امام ابن عدی کی ضعیف رواۃ کے مجموعہ "الكامل في ضعفاء الرجال" میں یہاں بیان ہوئی ہے لہذا یہ بھی ضعیف روایت ہی ہے !
 
ش

شوکت کریم

مہمان
محترمہ آپ نے کئی بار پوچھے جانے والے سوال کا جواب نہیں‌ دیا
مولا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں متعہ کو جاری کیوں نہیں کیا۔ کوئی روایت؟ کوئی تاریخی ثبوت؟ آپ کی کتب سے ہی کوئی دلیل؟
براہ کرم نصف صدی، ابن عباس وغیرہ کی تکرار مت کیجیے گا۔
وسلام

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مسلسل ایک ہی بات ثابت ہو رہی ہے کہ صحابہ اور تابعین کا ایک جم غفیر ہے جسے رسول اللہ ص کی زندگی میں پیش آنے والے کسی ایسے واقعے کا سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ جہاں رسول ص نے عقد المتعہ کو حرام قرار دیا ہو۔ چاہے یہ خیبر ہو، یا فتح مکہ، یا اوطاس، یا عمرۃ القضا یا حنین، یا تبوک یا حجۃ الوداع۔۔۔۔ ان کو سرے سے کسی ایسے واقعے کا علم ہی نہیں۔ اور یہ صورت نصف صدی گذر جانے کے بعد ہے۔ مگر بہانے بنانے والے دھڑلے سے بہانہ بناتے ہیں کہ نصف صدی تک ان صحابہ و تابعین تک حرمت کی روایات نہیں پہنچ سکیں۔
ذرا مہربانی فرما کر اس جم غفیر میں شامل صحابہ کرام کے صرف اسمائے گرامی پر مشتمل ایک سادہ سی فہرست بھی مرتب کر دیں تو بات ریکارڈ پر رہے گی۔ تاکہ کبھی بعد میں اس کے حوالے سے گفتگو کرنے میں آسانی ہو۔
امید ہے کہ جہاں اتنی تحقیق کی ہے وہیں یہ ذرا سی محنت کا بار بھی بخوبی اٹھا لیں گی۔ شکریہ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
آنکھیں بند کر کے اندھا بنے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ جب ثبوت بھی مہیا کیا جا چکا ہے کہ آپکی اپنی کتابوں میں مباشرت کے ایسے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ جن کے سامنے زمین و کائنات اور انکے مابین ہر چیز ہیچ ہے۔

بے شک بیان کئے گئے ہیں اور میرے خیال میں کم بیان کیے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ خود اللہ سبحان و تعالٰی نے اس کے فضائل بیان کیے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مومنوں کو نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکاح ، طلاق ، عدت ، وراثت کے احکامات بیان کیے ہیں۔

ذرا لایئے تو زن ممتوعہ کی حیثیت، طلاق، عدت ، وراثت کے احکامات قرآن و حدیث‌ میں سے۔

اور پھر یہی شخص آ کر زمانہ جاہلیت کی بندریا کو سنگسار کرنے کی روایت پر ایمان لا رہے ہیں، اور ابھی تک اس روایت کو رطب و یابس ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تو یہ بے شک انکار کرتے رہیں مگر میرا مقصد پورا ہو گیا اور انکے گریبان میں جو موجود ہے وہ اہل انصاف و حق کے سامنے آ گیا۔

اس کی وضاحت برادر ابن حسن نے اوپر پوسٹ‌میں‌ خوب اچھی طرح کر دی ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہيرے کا جگر مرد نادان پہ کلام نرم و نازک بے اثر​

کہنے کا مقصد ہے ان کی پوسٹ‌ سے خوب واضح ہوتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ‌نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے اور جبلت میں یہ چیز رکھ دی گئ ہے ۔ حتیٰ‌ کہ جانور بھی جوڑے بنا کر ہی رہتے ہیں۔ مگر انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے نہیں علم کہ اس پی ڈی ایف فائل سے آپ لوگوں کو کیا شکایت ہے کہ جو اسکو یہاں بطور گناہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
ہاں میں اس پی ڈی ایف بنانے میں شامل تھی اور اس پی ڈی ایف فائل میں میرا نام "ایم علی" سے ٹائپسٹ کے ذیل میں موجود ہے۔ ایک صاحب نے آنسرنگ انصار کے انگلش آرٹیکل سے ایک مختصر کتابچہ اردو میں ترجمہ کیا تھا، اور آخر میں ہوتا ہوتا مجھ تک اس درخواست سے پہنچا تھا کہ اسکو اردو میں ٹائپ کر دوں۔

ہمیں کوئی شکایت نہیں یہ تو صرف اس لیے لنک دیا گیا کہ آپ فرما رہی تھیں کہ ہماری بحث‌ سے منکر روایت لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں تو بنتا مقصود تھا کہ یہ نیک کام تو پہلے سے کر دیا گیا ہے۔

جب دو تین مہینے قبل پاکٹ ڈاٹ نیٹ پر عقد المتعہ پر بحث چلی تو میں ارادہ کر چکی تھی کہ اس فائل کو اپڈیٹ کر کے اسکا مواد وہاں پوسٹ کر دیا جائے، مگر پھر وہاں پر چونکہ بحث ہرگز فرقہ وارانہ شرارت کی نظر نہیں ہوئی تھی، اس لیے مجھے لگا کہ ہماری اس لڑائی کا فائدہ صرف منکر حدیث طبقے کو ہو گا، اس لیے میں نے بحث کو آگے نہیں بڑھایا اور نہ ہی اس فائل کا کوئی مواد وہاں پیش کیا۔

یہاں جو پہلے دن سے لوگ فرقہ وارانہ اختلاف ذہنوں میں رکھ کر کود پڑے، تو افسوس کہ انکو رد کرنے کے لیے مجھے ان کی سطح پر گرنا پڑا۔ مگر میرے پاس کوئی چارہ اور رہ نہیں گیا تھا۔ میں عرصہ دراز سے یہ بحثیں چھوڑ چکی تھی، مگر ۔۔۔۔ خیر۔

یہاں بھی ایسا کچھ نہیں‌ ہو رہا۔ اگر چھوڑ دیں تھیں تو پھر یہ دھاگہ شروع کرنے کا مقصد ؟؟؟

شکریہ شوکت بھائی آپ نے کتاب کا یہ لنک مہیا کر دیا۔ اب ہر کوئی جا کر خود عقد المتعہ پر موسوی صاحب کے دلائل پڑھ سکتا ہے۔ یہ اتنے پھٹیچر دلائل ہیں کہ خود آپ کو اس شخص کی شخصیت کا اندازہ ہو جائے گا کہ جسے متعہ کے خلاف شیعہ کتب میں شاید خیبر والی واحد روایت نظر آ گئی۔

اور ڈاکٹر موسوی کا پھر پورا زور وہی ہے کہ عارضی تعلقات فحاشی ہے، مگر انکو بھی یہ نظر نہیں آتا کہ اگر محصنین اور دیگر اسلامی حدود و قیود کے ساتھ کیا گیا نکاح المتعہ فحاشی ہے تو کنیز عورت کے ساتھ عارضی تعلقات تو پھر پتا نہیں کیا ہوئے۔ یہی ہوتا کہ جب انسان کو دوسرے کے عیوب نکال کر الزام بازی کرنا ہوتی ہے کہ اُسے اپنے گریبان میں موجود چیزیں نظر آنا بند ہو جاتی ہیں۔

شکریہ اس سے آپ کی عالمانہ شان کا خوب پتہ لگ رہا ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
جی میرے پاس تو جواب موجود ہے مگر میں نے اسے اُس وقت تک چھوڑا ہوا ہے جبتک آپ لوگ پچھلے سوالات کا جواب نہیں دے دیتے کہ علی ابن ابی طالب، عمران بن حصین اور دیگر صحابہ نے پہلے والی بدعات پر تلوار اٹھا کر کشت و خون کیوں نہیں شروع کر دیا۔
اور پھر آپکو پہلے سنت رسول سے چیز کو حلال حرام ثابت کرنا ہے، وگرنہ اگر خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب نے بھی بدعت کو جاری رکھا تو وہ بھی آپکے اصولوں کے مطابق گنہگار ہوا نہ کہ حلال اللہ کو حرام بنانا ٹھیک ٹھہرا۔

بچپن میں اماں‌ ایک کہانی سناتی تھیں۔۔۔ ایک لڑکا ماں‌ کے پاس آیا اور کہا ماں مجھے ایک روپیہ دو باہر گلی میں گھوڑا آیا ہوا ہے میں نے کہا ہے یہ گدھا ہے اور شرط لگ گئی اب رقم دو کہ میں‌ شرط جیت کے آؤں ۔۔۔۔۔۔۔ ماں نے کہا بیٹا وہ تو واقعی گھوڑا ہے تم تو شرط ہار جاؤ گے۔ لڑکا بولا ماں مانوں گا تو ہاروں گا ناں !!!

آپکے پچھلے سارے سوالات جے جوابات حوالہ جات کے ساتھ دیے جا چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہمارے بہت سے بقایا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنت رسول سے تو الحمد للہ ہے ہی ثابت شدہ۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ متواتر اور آخری عمل تو ہے ہی نہیں بلکہ کبھی ایک بار بھی یہ فعل ثابت نہیں تو سنت کہاں سے ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے اب سنت کی تعریف بھی بتانا پڑے گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
پوسٹ نمبر:302 میں اقتباس شدہ سارا مواد یہاں سے کاپی شدہ ہے۔
اور یہ تمام ہی روایات (جو کہ درحقیقت ایک ہی روایت ہے!) شدید ضعیف ہیں !!
تفصیل ذیل میں دیکھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ضعیف روایت ہے !!
[arabic]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/arabic]
حوالہ : link

ضعیف روایت ہے !!
[arabic]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/arabic]
حوالہ : link

وضعی روایت ہے !!
[arabic]الحكم المبدئي: إسناد فيه متهم بالوضع وهو أحمد بن محمد الجعفي وهو متهم بالكذب.[/arabic]
حوالہ : link

ضعیف روایت ہے !!
[arabic]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/arabic]
حوالہ : link

ضعیف روایت ہے !!
[arabic]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/arabic]
حوالہ : link

ضعیف روایت ہے !!
[arabic]الحكم المبدئي: إسناد شديد الضعف فيه داود بن عطاء المزني وهو منكر الحديث.[/arabic]
حوالہ : link

[arabic]أحمد بن حنبل - فضائل الصحابة - ومن فضائل عمر[/arabic]
سے نقل شدہ ہے جو کہ شدید ضعیف روایت ہے !

اس میں بھی وہی ضعیف راوی داود بن عطاء المزني ہے !

یہی روایت ، امام ابن عدی کی ضعیف رواۃ کے مجموعہ "الكامل في ضعفاء الرجال" میں یہاں بیان ہوئی ہے لہذا یہ بھی ضعیف روایت ہی ہے !

شاید آپ بات کو سمجھے نہیں یا پھر سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔

ذرا دکھائیے کہ میں نے اپنے مراسلے میں کہاں اس ضعیف اور صحیح کا دعوی کیا ہے؟ بلکہ بحث اس موضوع پر ہے کہ فضائل میں ہر طرح کے رطب و یابس جمع ہیں اور ان میں آپکی کتب بھی شامل ہیں۔ چنانچہ ان فضائل کی بحث کو مقدم کر کے ان سے حلال حرام وہی ثابت کرے گا جس کا مقصد حلال حرام پتا چلانا نہیں بلکہ اپنے فرقہ وارانہ مذموم مقاصد کو پورا کرنا ہے۔
اور کیا آپ کو اس میں رسول اللہ ص کی صاف توہین نظر آتی؟ مگر اسکے باوجود یہ روایت سنن اور دیگر کتب میں فضائل کے ذیل میں نقل ہو گئی۔ اور میں شروع سے ہی یہ بات آپکی عقلوں کی نظر کر رہی ہوں مگر بات آپ لوگوں کے پلے پڑ نہیں رہی ہے۔

از شوکت کریم:
کہنے کا مقصد ہے ان کی پوسٹ‌ سے خوب واضح ہوتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ‌نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے اور جبلت میں یہ چیز رکھ دی گئ ہے ۔ حتیٰ‌ کہ جانور بھی جوڑے بنا کر ہی رہتے ہیں۔ مگر انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں جانوروں سے ہی آپ نے اپنا مذہب سیکھنا ہے۔
اور جو جانور کرتے ہیں اس میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں، مگر اتنا ضرور کہوں گی اگر جانوروں کے جوڑے میں رہنے کی وجہ سے (اگر وہ واقعی رہتے ہیں) عقد المتعہ زنا بن جاتا ہے تو پھر اسکا اتنا خطرناک مطلب نکل رہا ہے کہ 1300 سال تک سلف معاذ اللہ جانوروں سے بدتر زندگی گذارتے رہے جب وہ کنیز عورت کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے آگے بیچ دیتے تھے اور معاذ اللہ معاذ اللہ اسکی تعلیم خود اللہ کا رسول ص انہیں اپنی زندگی میں عزل والی روایات میں انہیں دے رہا ہے۔ کچھ خدا کا خوف کریں اور اپنی ان عقلی گھوڑوں کو دوڑا کر اپنی اور سلف کی مٹی پلید نہ کریں کیونکہ نفرت میں عقد المتعہ پر جتنے آپ رکیک الزامات لگاتے جائیں گے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ رکیک ہو کر 1300 سال کی تاریخ میں موجود سلف کے گلے کنیز عورت کی صورت میں جا کر پھنستے چلے جائیں گے۔
آگے بس اللہ آپ لوگوں کو ہدایت دے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اصل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مسلسل ایک ہی بات ثابت ہو رہی ہے کہ صحابہ اور تابعین کا ایک جم غفیر ہے جسے رسول اللہ ص کی زندگی میں پیش آنے والے کسی ایسے واقعے کا سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ جہاں رسول ص نے عقد المتعہ کو حرام قرار دیا ہو۔ چاہے یہ خیبر ہو، یا فتح مکہ، یا اوطاس، یا عمرۃ القضا یا حنین، یا تبوک یا حجۃ الوداع۔۔۔۔ ان کو سرے سے کسی ایسے واقعے کا علم ہی نہیں۔ اور یہ صورت نصف صدی گذر جانے کے بعد ہے۔ مگر بہانے بنانے والے دھڑلے سے بہانہ بناتے ہیں کہ نصف صدی تک ان صحابہ و تابعین تک حرمت کی روایات نہیں پہنچ سکیں۔

ذرا مہربانی فرما کر اس جم غفیر میں شامل صحابہ کرام کے صرف اسمائے گرامی پر مشتمل ایک سادہ سی فہرست بھی مرتب کر دیں تو بات ریکارڈ پر رہے گی۔ تاکہ کبھی بعد میں اس کے حوالے سے گفتگو کرنے میں آسانی ہو۔
امید ہے کہ جہاں اتنی تحقیق کی ہے وہیں یہ ذرا سی محنت کا بار بھی بخوبی اٹھا لیں گی۔ شکریہ۔

اگر آپ نے آنکھیں کھول کر اس تھریڈ میں حصہ لیا ہوتا تو آپ کو بار بار یہ محنت دوسروں سے نہ کروانی پڑتی۔
اس تھریڈ کے سب سے پہلے مراسلے میں ابن حجر العسقلانی کی کتاب کا حوالہ بمع لنک مہیا کر دیا گیا تھا۔

التَّلْخِيص الْحَبِير فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الرَّافِعِيّ الْكَبِير < الصفحة

قَالَ : وَقَدْ ثَبَتَ عَلَى تَحْلِيلِهَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةٌ مِنْ السَّلَفِ , مِنْهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَابْنُ مَسْعُودٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَمُعَاوِيَةُ , وَعَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ , وَأَبُو سَعِيدٍ , وَسَلَمَةُ , وَمَعْبَدُ بْنُ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ , قَالَ وَرَوَاهُ جَابِرٌ عَنْ الصَّحَابَةِ مُدَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمُدَّةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُدَّةَ عُمَرَ إلَى قُرْبِ آخِرِ خِلَافَتِهِ , قَالَ : وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ إنَّمَا أَنْكَرَهَا إذَا لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهَا عَدْلَانِ فَقَطْ , وَقَالَ بِهِ مِنْ التَّابِعِينَ طَاوُسٌ وَعَطَاءٌ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَسَائِرُ فُقَهَاءِ مَكَّةَ قَالَ : وَقَدْ تَقَصَّيْنَا الْآثَارَ بِذَلِكَ فِي كِتَابِ الْإِيصَالِ , انْتَهَى كَلَامُهُ . فَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ فَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُسْلِمٍ الْقَرِّيِّ قَالَ : { دَخَلْت عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلْنَاهَا عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ , فَقَالَتْ : فَعَلْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ }

امام ابن حجر العسقلان علامہ ابن حزم کے حوالے سے ان صحابہ اور تابعین کے ناموں کی لسٹ مہیا کر رہے ہیں جو کہ نکاح المتعہ کو حلال جانتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی سلف کی ایک جماعت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔ اور صحابہ میں سے یہ اسماء بنت ابی بکر، جابر بن عبداللہ انصاری، ابن مسعود، ابن عباس، معاویہ، عمروہ بن حریث، ابو سعید، سلمۃ اور معبد بن امیہ بن خلف وغیرہ ہیں۔ اوربیان ہے کہ صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نے دیگر صحابہ سے روایت کی ہے کہ عقد متعہ حلال و جاری رہا رسول اللہ ص کے زمانے میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں، اور پھر حضرت عمر کے دور خلافت کے تقریبا آخر تک۔ اور پھر وہ آگے روایت کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا اگر دو عادل گواہ نہ ہوں۔ تابعین میں سے جو عقد متعہ کو حلال جانتے تھے ان میں طاؤس، عطاء، سعید بن جبیرشامل ہیں، اور پھر اہل مکہ کے فقہاء کی اکثریت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔۔۔ اور پھر جو حضرت اسماء بنت ابی بکر کے متعلق روایت ہے، جسے نسائی نے مسلم القری سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "ہم حضرت اسماء بنت ابی بکر کے پاس گئے اور ہم نے اُن سے عقد المتعہ کے متعلق سوال کیا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ: "ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں نکاح المتعہ کیا کرتے تھے۔"
 
ش

شوکت کریم

مہمان
جی ہاں جانوروں سے ہی آپ نے اپنا مذہب سیکھنا ہے۔
اور جو جانور کرتے ہیں اس میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں، مگر اتنا ضرور کہوں گی اگر جانوروں کے جوڑے میں رہنے کی وجہ سے (اگر وہ واقعی رہتے ہیں) عقد المتعہ زنا بن جاتا ہے تو پھر اسکا اتنا خطرناک مطلب نکل رہا ہے کہ 1300 سال تک سلف معاذ اللہ جانوروں سے بدتر زندگی گذارتے رہے جب وہ کنیز عورت کے ساتھ مباشرت کر کے اُسے آگے بیچ دیتے تھے اور معاذ اللہ معاذ اللہ اسکی تعلیم خود اللہ کا رسول ص انہیں اپنی زندگی میں عزل والی روایات میں انہیں دے رہا ہے۔ کچھ خدا کا خوف کریں اور اپنی ان عقلی گھوڑوں کو دوڑا کر اپنی اور سلف کی مٹی پلید نہ کریں کیونکہ نفرت میں عقد المتعہ پر جتنے آپ رکیک الزامات لگاتے جائیں گے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ رکیک ہو کر 1300 سال کی تاریخ میں موجود سلف کے گلے کنیز عورت کی صورت میں جا کر پھنستے چلے جائیں گے۔

ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے محترمہ کے پاس دلائل ختم ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ تمثیلی باتوں پر اتنا برہم ہو رہی ہیں۔

ویسے آپ کو بتاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم کی ایک سورت ہے جس کا کہ نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البقرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نحل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنکبوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہے ۔۔۔۔۔۔ الفیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے علاوہ اللہ سبحان و تعالٰی نے مچھر تک کی مثال بیان فرمائی ہے۔

اور آزادی اور غلامی کے فرق کو سمجھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ابن حسن،
مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو اپنی سائیڈ والوں کے گناہ نظر نہیں آتے، مگر دوسروں کی عیوب پکڑنے کے آپ ماہر ہیں۔

یہ سارا مسئلہ شروع ہی آپ لوگوں کے اس جھوٹ سے شروع ہوا کہ شیعہ کی صحیح مستند کتاب الکافی میں یہ روایت موجود ہے۔ اور پھر پھیلتے پھیلتے یہ جھوٹ یہاں تک پھیلا کہ نیٹ پر ہر ڈسکشن فورم میں مخالفین آنکھیں بند کر کے یہ اس جھوٹ پر ایمان لے آئے۔ اور اس پورے عرصے میں ہم مسلسل یہ ہی سوال کرتے رہے کہ وہ کون سے الکافی ہے جس میں یہ روایت موجود ہے۔ مگر لاکھ ڈھونڈنے اور لاکھ چیلنج کرنے کے باوجود جب یہ جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں رکا، تو پھر جواب میں یہی کہا گیا کہ یہ ہم پر تہمت لگائی جا رہی ہے۔
اور پھر جب پہلی مرتبہ کاشانی کی کتاب کے ایک صفحے کا عکس پیش کیا گیا تو اس کے فٹ نوٹ میں روایت کےمجہول ہونے کے متعلق صاف لکھا ہوا تھا۔ اس سے یہی ثابت ہوا کہ کاشانی نے خود اس روایت کو مجہول کہا ہے (اُس ایک صفحے سے کہیں پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ فٹ نوٹ کسی اور کے ہیں)۔
چنانچہ سب چیزیں صاف صاف ہونے کے بعد بات وہیں پہنچی جو ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ اس روایت کی کوئی سند نہیں اور فضائل میں بہت سی ایس روایات نقل کر دی جاتی ہیں جو ضعیف ہوں، یا پھر جن کی سند تک موجود نہ ہو۔ اسی لیے فضائل والی روایت سے کبھی حلال و حرام کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، اور یہی چیز اہلسنت کے سلف علماء میں موجود تھی جہاں انہوں نے ایسی ہزاروں ضعیف روایات نقل کی ہیں۔

مہوش میری باتوں کا یہ جواب نہیں ہے اور نہ ہی کون کیا کر رہا ہے میں کسی بھی طرح اس کا جواب دہ ہوں۔
2۔ مہوش کہا جاتا ہے کہ ایک جھوٹ کو نبہانے کے لیے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں تو یہ بات آپ پر صادق آتی ہے یہاں میں منھج الصادقین کی اس روایت کے حوالے سے کچھ مزید کہنا چاہوں گا
1۔ تحفہ اثنا عشریہ جو تقریبا سوا دو سو سال پرانی کتاب ہے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رح کی ، اس کتاب میں یہ روایت تفسیر فتح اللہ (کاشانی) سے نقل کی گئی ہے۔
2۔ اوپر شوکت کریم بھائی نے ایک کتاب متعہ نہ کیجئے کا لنک دیا ہے یہ کتاب 1993 کی ہے یعنی آج سے 17 سال پرانی اس میں یہ روایت تفسیر منھج الصادقین سے نقل کی گئی ہے۔
3۔ سپاہ‌صحابہ نے ایک کتاب بعنوان تاریخی دستا ویز شائع کی تھی 1995 میں یعنی آج سے 15 سال پہلے اس میں یہ روایت تفسیر منھج الصادقین کے حوالے سے نقل کی گئی ہے
4۔ گوگل پر تھوڑی سی سرچ کی تو پتہ چلا کہ یہ روایت اہل تشیع و اہل سنت دونوں جانب سے 2001 سے تفسیر منھج الصادقین کے ہی حوالے سے پیش کی جارہی ہے۔
(یہ تو صرف ایک سرسری سا جائزہ ہے)

اس چشم کشا حقیقت کے بعد اب آپ کی اس بات میں کتنا دم رہ جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ہماری جانب سے جھوٹی روایت کے بعد پھیلا کہ زیر بحث روایت الکافی کی ہے؟؟
افسوس صد افسوس کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزار جھوٹ بولے جاتے ہیں لیکن جھوٹ پھر بھی جھوٹ ہی رہتا ہے

امر واقعہ یہ ہے کہ آپ نے صرف یہ روایت اور اس روایت کا جواب Answerning Ansawar کی ویب سائٹ پر دیکھا اور جھٹ اس کو یہاں نقل کر دیا کیونکہ اس ویب سائٹ نے بھی صرف ہاشمی صاحب کی غلط روایت کردہ بات کا جواب دیا تھا لہذا آپ بھی یہی سمجھیں اور بعینہ اس جواب کو یہاں نقل کردیا۔پچھلی پوسٹ میں جو میں نے آپ کا اور اس ویب سائٹ کا موقف اوپر نیچے نقل کر دیا تھا اس کے بعد کیا اس بات میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے؟

(اُس ایک صفحے سے کہیں پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ فٹ نوٹ کسی اور کے ہیں)۔

اوہو یہ تو پوری آپ کے خلاف ایک سازش لگ رہی ہے یعنی جن لوگوں نے صرف ایک ہی صفحہ دیا انہوں نے کافی برا کیا ان کو پتہ نہیں تھا کہ آگے جا کر مہوش علی نے متعہ کی پوری تحقیق کرنی ہے ان کو تو پوری کتاب دینی چاہیے تھی تاکہ آپ سے ایسی غلطی ہوتی ہی نہیں یقنا اس لیئے شاید آپ ان ایک صفحہ دینے والوں کو دجالی کذاب و عیار قرار دیا تھا۔ چہ چہ چہ۔
2۔ اور پھر اس بات کا جواب آپ نے نہیں دیا کہ اگر وہ ایک صفحہ آپ کی نظروں سے پہلے ہی گذر چکا تھا تو اس میں تو وہ مزید باتیں نہیں تھیں یعنی

چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔

اب یہ بتائیے کہ یہ لائینیں کہاں سے آپ نے حاصل کر لیں؟؟؟ کیا یہ صریحا آپ کی اپنی تصنیف کردہ نہیں ہیں یعنی آپ کی فنکاری کا کیا کہنا آپ نے کئی پھرتیاں اس معاملے میں دکھائیں لیکں الحمد للہ وہ سب آپ کے گلے میں پڑ گئیں۔

3۔ویسے اگر اس ایک ہی صفحے کو غور سے پڑھا جائے تو یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حاشیہ نویس ( جو یقنا کاشانی صاحب نہیں کیونکہ وہ تو متعہ کے فضائل میں آنکھیں بند کر کہ فضائلی ٹرین‌ 2000 میل فی گھنٹہ کی رفتا سے بھگائے جارہے ہیں) کو بھی اس حدیث کی سند پر نہ اعتراض ہے اور نہ ہی سند ان کو چاہیے وہ کہتے ہیں کہ" و این حدیث بر فرض صحت معنی آن بر ما مجھول است"

یعنی یہ حدیث صحت معنی کے اعتبار سے ہمارے نزدیک مجھول ہے اور سند پر وہ اس لیے بات نہیں کرتے کہ عالم جلیل کاشانی احادیث کی سند کا اہتمام بہت کم ہی کرتے ہیں سو اگر صحت سند کی بات کی جائے تو منھج الصادقین میں تو کچھ بچتا ہی نہیں۔ اور پچھلی پوسٹ میں میں نے ایک سوال کیا تھا کہ اسی ایک صفحے پر متعی کو نبی پاک کے ساتھ جنت میں جانے کی جو گارنٹی دی گئی ہے وہ تو حاشیہ میں بھی مجھول نہیں ہے تو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟؟( اب تک جو سوال مہوش سے میں کرتا آ رہا ہوں مہوش بڑے مزے سے ان تمام کے جواب گول کرتی جارہی ہیں ، ہاں نئے اعتراضات و فضائل کی ضعیف روایات ان کو اہل سنت سے بیان کرنے کا بڑا شوق ہو رہا ہے لیکن اپنی روایات کو وہ ہر دفعہ نظر انداز کر جاتی ہیں چنانچہ اب تک زیر بحث روایت کے علاوہ جو بھی روایات ان کی کتب سے درج کر کہ ان سے سوال کیا گیا تو شاید ہی ایک آدھ کا انہوں نے جواب عنایت فرمایا ہو)


فضائل والی روایات سے چاہے حرام و حلال کا فیصلہ نہ کیا جاسکتا ہو لیکن آپ کے ہاں متعہ کی فضائل والی روایات ہی اس کے حلال و حرام کا فیصلہ کر رہی ہیں نہ متعہ کے بغیر ایمان مکمل ہو رہا ہے ، وہ شخص جو متعہ پر ایمان نہ رکھے وہ آپ کی جماعت سے خارج ہو رہا ہے اور ایک اور زبردست روایت ملاحظہ فرمائیے

ملا فتح اللہ کاشانی اپنی تفسیر منھج الصادقین میں لکھتے ہیں اور یہ کوئی حدیث نہیں جس کی سند پر آپ پھر کلام کریں بلکہ یہ بطور فتویٰ کہ رہے ہیں کہ

وولد متعہ افضل است از ولد زوجہ دایمہ و منکر آن کافر مرتد است
یعنی
متعہ کی اولاد افضل ہے زوجہ دائمی(منکوحہ) کی اولاد سے اور اس کا منکر کافر مرتد ہے( منھج الصادقین ج 2 جزو 4 ص 295)


اور اس پر کسی حاشیہ نویس کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اگر آپ فرمائش کریں تو یہ متعلقہ صفحہ بھی میں اپ لوڈ کر دوں گا۔

اب اس وقت تک متعہ کی کچھ یہ صورت ہمارے سامنے آتی ہے
1۔متعہ پر ایمان ضروری ہے

حضرت جعفر صادق نے فرمایا جو شخص ہمارے دور کے دوبارہ پلٹنے اور متعہ کے حلال ہونے پر ایمان نہ رکھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (من لا یحضرہ الفقیہ ج 3 ص 282)
2۔اور روایت کی گئی کہ مومن کبھی مکمل نہ ہو گا جب تک وہ کوئی متعہ نہ کرے۔( (من لا یحضرہ الفقیہ ج 3 ص 287)


2۔مومن کے لیے سات ضروری اعمال
ابن بابویہ نے کتاب صفات الشیعہ میں حضرت جعفر صادق سے روایت کی ہےکہ جو شخص سات امور کا اقرار کرے وہ مومن ہے
1۔خدا کی وحدانیت2۔رجعت(یہ بھی بڑے مزے کا عقیدہ ہے) 3۔عورتوں کے ساتھ متعہ کے جواز کا۔۔۔۔۔(بقیہ میں چھوڑتا ہوں) (بحوالہ حق الیقین ج 2 ص 26 )

3۔متعہ ایسی سنت رسول ہے جس پر عمل ضروری ہے
اور بکر بن محمد نے حضرت جعفر صادق سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے آنجناب سے متعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے وہ مرد مسلم ناپسند ہے جو دنیا سے کوچ کرے اور اس پر رسول اللہ کی سنتوں میں سے کسی سنت پر عمل کرنا باقی رہ جائے اور اس نے پورا نہ کیا ہو۔
(من لا یحضرہ الفقیہ ج 3 ،285 )

4۔اور یہی روایت آگے نقل کی گئی ہے مع اس اضافے کے جب امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ کیا نبی پاک نے متعہ کیاتھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں (نعوذ باللہ من ذالک) (من لا یحضرہ الفقیہ ج 3 ص 287، 288 )

5۔ حضرت علی نے ارشاد فرمایا کہ جوشخص اس سنت کو (متعہ کو) دشوارسمجھے اور اس پر عمل نہ کرے وہ میرے شیعوں میں سے نہیں ہے اور میں اس سے بیزار ہوں ( عجالہ حسنہ از ملا باقر مجلسی ص 15)

یہ تو کچھ وہ رویات تھیں صرف کچھ جو متعہ کی انتہائی ضرورت بیان کرتی تھیں اب متعہ کے بارے میں ایک نیا رخ خود اہل تشیع کی کتب سے

(جاری ہے)
 
متعہ کے بارے میں جو تھریڈ میں نے اوپر شروع کی ہے اس کو میں اب کل پورا کروں گا انشاءاللہ یہاں میں مہوش کی بقیہ مانند باتوں کا جواب دے رہا ہوں۔

آنکھیں بند کر کے اندھا بنے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ جب ثبوت بھی مہیا کیا جا چکا ہے کہ آپکی اپنی کتابوں میں مباشرت کے ایسے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ جن کے سامنے زمین و کائنات اور انکے مابین ہر چیز ہیچ ہے۔

مہوش مباشرت کی جو دو روایات آپ نے پیش کی ہیں وہ صرف ایک کتاب سے ہیں اور ان کی سند کا بھی پتہ نہیں لیکن اگر آپ تفسیر منھج الصادقین کی فضائل کی روایات کو الگ رکھ کر بھی دیکھیں (جن پر اپ کا اعتراض یہ ہے کہ ان کی سند موجود نہیں لہذا وہ قابل عمل نہیں)تو آپ کی معتبر کتب میں ایسی لا تعداد روایات موجود ہیں لیکن افسوس آپ کسی کابھی جواب نہیں دے پارہی ہیں بلکہ اگلی پوسٹ میں جس میں ان روایات کا جواب دینا آپ کے لیے ضروری ہوتا ہو آپ ان کا ذکر تک نہیں کرتیں اور پوری بات گول کر جاتی ہیں۔
آنکھیں بند کر کے اندھا بنے رہنے کا


متعہ (زنا)پر بحث کر رہیں ہیں اور تقیہ (جھوٹ) کا استعمال آپ فراوانی سے فرما رہیں ہیں اور ساتھ ساتھ ہر ایک گذرتی پوسٹ کے بعد آپ کی تبرا بازی (گالم گلوچ) میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اور یہی رفتار رہی تو شاید محفل کی یہ تھریڈ اس لیے بھی یادگار بن جائے گئی کہ یہاں آپ کے فرقے کے ان تین بنیادی عقائد پر بہت سارا مواد دستیاب ہو گا اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا آپ کا ہی کارنامہ قرار پائے گا۔(شاید محفل کی انتظامیہ اسی بات کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے)


اُس شخص سے اب کیا بات کی جائے جو اپنے گناہوں سے توبہ اس لیے دوسروں کا محتاج ہے، اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اپنے کنویں میں چھلانگ لگانے کے عذر میں دوسرے پر الزام لگا رہے کہ اُس نے بھی لگائی ہے۔
انسانیت ہوتی تو یہ صاحب سیدھا سادھا قبول کر لیتے کہ ہاں فضائل میں ایسی روایات انکی اپنی کتابوں میں نقل ہو گئی ہیں جو ضعیف ہیں اور ان کا حلال حرام سے تعلق نہیں۔ اب یہ چھپتے رہیں پردوں کے پیچھے مگر میرا مقصد تو پورا ہو گیا کہ انکی کی اپنی کتابوں میں یہ ضعیف روایات موجود ہیں جس سے ہر طرح کہ توہین نکلتی ہے، چاہے یہ اب مانے یا نہ مانے یا پھر چاہے کسی اور کے پردے کے پیچھے چھپتے پھریں۔

چوتھی خوبی اپ کی یہ ہے کہ تقیہ کا ایک ایڈوانس ورژن بھی آپ کے زیر استعمال ہے جس کے ذریعے آپ کسی پر کوئی بھی الزام بحوبی عائد کر دیتی ہیں ویسے اہل محفل کے لیے ایک پرچہ ہے ہزار نمبروں کا کہ مہوش کے ان الفاظ کا سلیس اردو میں ترجمہ کیجئے


اُس شخص سے اب کیا بات کی جائے جو اپنے گناہوں سے توبہ اس لیے دوسروں کا محتاج ہے، اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اپنے کنویں میں چھلانگ لگانے کے عذر میں دوسرے پر الزام لگا رہے کہ اُس نے بھی لگائی ہے۔

اور اس جناتی زبان کی keyغالب کا یہ شعر ہے

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

انسانیت ہوتی تو یہ صاحب

اوپر میں نے کچھ روایات اہل تشیع کی کتب سے متعہ کے بارے میں پیش کی تھیں جس میں حضرت علی جناب جعفر صادق نے اس شخص سے لا تعلقی کا اعلان کیا تھا جو متعہ کو نہیں مانتا اب آپ حضرات ان روایات میں محترمہ مہوش علی کا یہ قول بھی نقل کر لیں وہ شخص انسانیت سے بے بہرہ ہے جو متعقد متعہ نہیں۔

یا بقول غالب (کچھ تبدیلی کے ساتھ)
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ مہوش آپ بے بہرہ انسانیت ہے جو معتقدِ متعہ نہیں

(وزن سے بھی یہ شعر بے بہرہ ہو گیا جس کے لیے معذرت)


اور پھر یہی شخص آ کر زمانہ جاہلیت کی بندریا کو سنگسار کرنے کی روایت پر ایمان لا رہے ہیں، اور ابھی تک اس روایت کو رطب و یابس ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تو یہ بے شک انکار کرتے رہیں مگر میرا مقصد پورا ہو گیا اور انکے گریبان میں جو موجود ہے وہ اہل انصاف و حق کے سامنے آ گیا۔

مہوش وہ پچھی بار میں نے بھڑئیے والی روایت کے بارے میں کچھ پوچھا تھا اس کے جواب میں آپ نے چونکہ اب تک کچھ فرمایا نہیں ہے لہذا میں آپ کے ان ہی الفاظ میں آپ کا جواب یہاں پیش کر دیتا ہوں


اور پھر یہی عورت آ کر زمانہ اسلام کے بھڑیئے و مادہ بھڑیئے کی مشکل برائے زچگی کی روایت پر ایمان لا رہی ہیں، اور ابھی تک اس روایت کو رطب و یابس ماننے کے لیے تیار نہیں۔ تو یہ بے شک انکار کرتی رہیں مگر میرا مقصد پورا ہو گیا اور انکے گریبان میں جو موجود ہے وہ اہل انصاف و حق کے سامنے آ گیا۔


میں نے تو ان صاحب سے کہا تھا کہ اپنی اس روش سے بعض آ جائیں اور اچھی اسلامی سپرٹ کے ساتھ حلال اللہ اور حرام اللہ کو دلائل کے ساتھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اگر انہیں فضائل والی روایات بیچ میں لا کر دوسروں کو بدنام کرنا ہی ہے تو اسکا تو جم غفیر انکی اپنی کتابوں میں موجود ہے۔ تو پھر کہاں کہاں تک انکار کریں گے اس اصول سے کہ فضائل میں رطب و یابس اور توہین آمیز روایات ہر فریق کی کتب میں موجود ہیں، اور اس بنیاد پر جب یہ دوسرے کو بدنام کرنا چاہیں گے تو انکی اپنی کتابوں کی یہ روایات انکے گلے آ کر پڑ جائیں گی۔

آپ نے اب تک جن روایات کو ہمارے گلے ڈالا تک ان کا جواب تو پہلے میں نے اور اب باذوق بھائی نے دے دیا ہے آپ ذرا اپنی ان روایات کا جواب دے دیں جو اب تک آپ کے گلے پڑی ہوئی ہیں اور حضرت عمر کے بارے میں جو یہ روایات آپ نے نقل کی ہیں صرف ان کا جواب دینے کی خاطر میں ایک واقعہ آپ کی کتاب سے نقل کررہا ہوں اس کا بھی جواب درکار ہے۔ اور جتنا دل چاہے آپ بات کو پھیلاتی جائیں آپ کو اجازت ہے۔


(حذف کردہ۔۔)
 

dxbgraphics

محفلین
پہلے صفحے پر جو چوکور میں نشان زدہ الفاظ غور سے پڑھنے سے ختم نبوت کے انکار کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top