بھائی ہر انسان کا الگ نکتہ نظر ہے۔ اختلاف رائے کا یہ مطلب تو نہیں کہ مخالف کی ذات پر حملہ کر دیا جائے۔ جہاں عام معافی اور امن کو ماننے والے ہیں وہیں جہادی بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ذیل کی تحریر پڑھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کے بارہ برس سے زائد مکی دور میں کل ملا کر ڈیڑھ سو سے بھی کم لوگ مسلمان ہوسکے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی مزاحمت سے منع کردیا گیا تھا اور حکم تھا کہ کفار مکہ جتنا مرضی ظلم ڈھائیں، چپ چاپ سہتے جائیں، جواب میں ان پر ہاتھ اٹھانا تو درکنار، ان کا ہاتھ روکنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مقصد یہ تھا کہ صحابہ کو اس کڑی آزمائش کی بھٹی سے گزار کر انہیں سونا بنا دیا جائے۔
پھر نبوت ﷺ کے 13 ویں برس ہجرت کا حکم آیا اور اس کے بعد مسلمانوں کو کفار کا جواب بزور بازو دینے کی نہ صرف اجازت مل گئی بلکہ حکم ہوا کہ تلوار اٹھاؤ اور کفار کی گردنیں مار دو۔ قرآن میں کئی مقامات پر جہاد کو ایمان کامل کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔
جب جہاد کا حکم آیا تو پھر اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے۔ مکی دور کے بارہ برس میں ڈیڑھ سو سے کم لوگ اسلام لائے لیکن ہجرت کے صرف دس برس میں پورے حجاز عرب میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوچکی تھی اور اس کے پھیلاؤ کا سلسلہ خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا۔
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ عبادات اہم ہیں، فرائض میں بھی شامل ہیں لیکن جہاد کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، دین کامل نہیں ہوسکتا، اقامت دین کی جدوجہد پوری نہیں ہوسکتی۔
آج اگر امت جہاد پر کھڑی ہوتی تو میں دیکھتا کہ کیسے کسی میں جرات ہوتی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی گستاخی کرتا، کیسے کوئی مسلمان عورتوں پر حجاب نہ لینے کی پابندی عائد کرتا، کیسے کوئی بدبخت بندوق اٹھا کر مسجد میں گھستا اور 50 لوگ شہید کردیتا ۔ ۔ ۔
بارہ برس کے مکی دور میں ڈیڑھ سو مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، دس برس کے ہجری دور میں مسلمانوں نے مشرکین کو مار مار کر جزیرہ نما عرب سے نکال باہر کیا ۔ ۔ ۔ دونوں ادوار میں بنیادی فرق جہاد کا تھا ۔ ۔ ۔ جہاد کا باقاعدہ آغاز دور مدنی سے ہوا ۔ ۔ ۔ اور باقی سب تاریخ ہے۔
جہاد کے بغیر مسلمان امت کبھی بھی اپنی عزت بحال نہیں کرسکتی ۔ ۔ ۔ اللہ کا دین جہاد کے بغیر نافذ ہونا ہوتا تو مکہ میں ہوجاتا ۔ ۔ ۔ اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم یعنی بنی اسرائیل کے بارے میں سورہ بقرہ میں فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی، لیکن پھر جب اسی بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسی عیلہ السلام کے حکم پر فلسطین میں داخل ہو کر جہاد کرنے سے انکار کیا تو اللہ نے اسے سزا کے طور پر چالیس برس تک صحرا میں بھٹکائے رکھا ۔ ۔ ۔ پھر موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد اگلے نبی آئے اور انہوں نے اس ادھورے مشن کو پورا کیا اور بنی اسرائیل کو دوبارہ سے حاکمیت مل گئی۔
اللہ کی سنت رہی ہے کہ وہ قوموں کو ہمیشہ جہاد کے ذریعے ہی عزت اور ذلت سے دوچار کرتا ہے ۔ ۔ ۔ آج اگر مسلمان جوتے کھا رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی جہاد سے دوری ہی ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیشک جہاد ایمان کا حصہ ہے لیکن دور حاضر میں اس کے ہر جگہ منفی نتائج ہی نکلے ہیں۔ افغان جہاد سے لے کر جہاد شام تک۔ جہادی تنظیموں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اوپر سے ان تنظیموں کی نہتے شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی وجہ سے عوام الناس میں جہاد سے محبت بڑھنے کی بجائے مزید کم ہو گئی۔ جہادیوں کو چاہیے کہ پہلے اپنے جہاد کے مثبت نتائج تو دنیا کو دکھائیں۔ مومنین اپنے آپ اس طرف راغب ہو جائیں گے۔ تاحال جو جہاد کے نتائج نکلے ہیں ہو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔