نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملہ، متعدد افراد ہلاک

جاسم محمد

محفلین
خود ہی دیکھ لیں۔ لڑکا مقامی گورا ہے اور دور دور تک اسلام یا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود جس بہادری سے اس نے سر عام متعصب سینیٹر پر انڈہ پھینکا ہے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں انتہا پسند سفید فام ہیں وہیں ان کی اپنی قوم سے مخالفت کرنے والے بھی کم نہیں ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے!
بھائی ہر انسان کا الگ نکتہ نظر ہے۔ اختلاف رائے کا یہ مطلب تو نہیں کہ مخالف کی ذات پر حملہ کر دیا جائے۔ جہاں عام معافی اور امن کو ماننے والے ہیں وہیں جہادی بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ذیل کی تحریر پڑھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کے بارہ برس سے زائد مکی دور میں کل ملا کر ڈیڑھ سو سے بھی کم لوگ مسلمان ہوسکے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی مزاحمت سے منع کردیا گیا تھا اور حکم تھا کہ کفار مکہ جتنا مرضی ظلم ڈھائیں، چپ چاپ سہتے جائیں، جواب میں ان پر ہاتھ اٹھانا تو درکنار، ان کا ہاتھ روکنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مقصد یہ تھا کہ صحابہ کو اس کڑی آزمائش کی بھٹی سے گزار کر انہیں سونا بنا دیا جائے۔

پھر نبوت ﷺ کے 13 ویں برس ہجرت کا حکم آیا اور اس کے بعد مسلمانوں کو کفار کا جواب بزور بازو دینے کی نہ صرف اجازت مل گئی بلکہ حکم ہوا کہ تلوار اٹھاؤ اور کفار کی گردنیں مار دو۔ قرآن میں کئی مقامات پر جہاد کو ایمان کامل کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔

جب جہاد کا حکم آیا تو پھر اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے۔ مکی دور کے بارہ برس میں ڈیڑھ سو سے کم لوگ اسلام لائے لیکن ہجرت کے صرف دس برس میں پورے حجاز عرب میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوچکی تھی اور اس کے پھیلاؤ کا سلسلہ خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا۔

مقصد کہنے کا یہ ہے کہ عبادات اہم ہیں، فرائض میں بھی شامل ہیں لیکن جہاد کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، دین کامل نہیں ہوسکتا، اقامت دین کی جدوجہد پوری نہیں ہوسکتی۔

آج اگر امت جہاد پر کھڑی ہوتی تو میں دیکھتا کہ کیسے کسی میں جرات ہوتی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی گستاخی کرتا، کیسے کوئی مسلمان عورتوں پر حجاب نہ لینے کی پابندی عائد کرتا، کیسے کوئی بدبخت بندوق اٹھا کر مسجد میں گھستا اور 50 لوگ شہید کردیتا ۔ ۔ ۔

بارہ برس کے مکی دور میں ڈیڑھ سو مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، دس برس کے ہجری دور میں مسلمانوں نے مشرکین کو مار مار کر جزیرہ نما عرب سے نکال باہر کیا ۔ ۔ ۔ دونوں ادوار میں بنیادی فرق جہاد کا تھا ۔ ۔ ۔ جہاد کا باقاعدہ آغاز دور مدنی سے ہوا ۔ ۔ ۔ اور باقی سب تاریخ ہے۔

جہاد کے بغیر مسلمان امت کبھی بھی اپنی عزت بحال نہیں کرسکتی ۔ ۔ ۔ اللہ کا دین جہاد کے بغیر نافذ ہونا ہوتا تو مکہ میں ہوجاتا ۔ ۔ ۔ اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم یعنی بنی اسرائیل کے بارے میں سورہ بقرہ میں فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی، لیکن پھر جب اسی بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسی عیلہ السلام کے حکم پر فلسطین میں داخل ہو کر جہاد کرنے سے انکار کیا تو اللہ نے اسے سزا کے طور پر چالیس برس تک صحرا میں بھٹکائے رکھا ۔ ۔ ۔ پھر موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد اگلے نبی آئے اور انہوں نے اس ادھورے مشن کو پورا کیا اور بنی اسرائیل کو دوبارہ سے حاکمیت مل گئی۔

اللہ کی سنت رہی ہے کہ وہ قوموں کو ہمیشہ جہاد کے ذریعے ہی عزت اور ذلت سے دوچار کرتا ہے ۔ ۔ ۔ آج اگر مسلمان جوتے کھا رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی جہاد سے دوری ہی ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیشک جہاد ایمان کا حصہ ہے لیکن دور حاضر میں اس کے ہر جگہ منفی نتائج ہی نکلے ہیں۔ افغان جہاد سے لے کر جہاد شام تک۔ جہادی تنظیموں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اوپر سے ان تنظیموں کی نہتے شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی وجہ سے عوام الناس میں جہاد سے محبت بڑھنے کی بجائے مزید کم ہو گئی۔ جہادیوں کو چاہیے کہ پہلے اپنے جہاد کے مثبت نتائج تو دنیا کو دکھائیں۔ مومنین اپنے آپ اس طرف راغب ہو جائیں گے۔ تاحال جو جہاد کے نتائج نکلے ہیں ہو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
 

فے کاف

محفلین
کون سی قوم؟

اور اس شعر کا نائن الیون سے کیا تعلق ہے؟
تاتاری قوم تو ہو نہیں سکتی۔ شعر چنگیز خان کا تو ہے نہیں، جگر مراد آبادی (اگرچہ انفرادی شعر ہے) کا ہے۔ تو قوم ہوئی مسلمان۔
شعر کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
آہ سے مراد نائن الیون
قتل سے مراد ہیرو شیما اور نگا ساکی
اسی میں پوری دنیا کی سیاست چھپی ہوئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
امریکیوں نے انھیں جہاد کی تربیت کہاں دی تھی ؟
پاکستان اور افغانستان سرحد کے پاس جہادی کیمپس قائم کیے گئے تھے جہاں سی آئی اے اور آئی ایس آئی مل کر دنیا بھر سے آئے جہادیوں کو ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرتی تھی۔ ۱۹۹۲ کی امریکی میڈیا کی خبر:
https://www.washingtonpost.com/arch...41c-99cc-d2b5d1ba6e2d/?utm_term=.0e6a6763eb23
 

فلسفی

محفلین
خود ہی دیکھ لیں۔ لڑکا مقامی گورا ہے اور دور دور تک اسلام یا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود جس بہادری سے اس نے سر عام متعصب سینیٹر پر انڈہ پھینکا ہے۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں انتہا پسند سفید فام ہیں وہیں ان کی اپنی قوم سے مخالفت کرنے والے بھی کم نہیں ہیں

یہی تو ہم بھی چیخ رہے ہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ گورے کی اچھائی نظر آتی ہے۔ بھورے یا کالے کی قربانی بھی رائیگاں۔ ہمارا موقف یہی ہے کہ جیسے سارے گورے شدت پسند نہیں ویسے ہی سارے مسلمان شدت پسند نہیں۔

بھائی ہر انسان کا الگ نکتہ نظر ہے۔ اختلاف رائے کا یہ مطلب تو نہیں کہ مخالف کی ذات پر حملہ کر دیا جائے۔ جہاں عام معافی اور امن کو ماننے والے ہیں وہیں جہادی بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ذیل کی تحریر پڑھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی کریم ﷺ کے بارہ برس سے زائد مکی دور میں کل ملا کر ڈیڑھ سو سے بھی کم لوگ مسلمان ہوسکے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی مزاحمت سے منع کردیا گیا تھا اور حکم تھا کہ کفار مکہ جتنا مرضی ظلم ڈھائیں، چپ چاپ سہتے جائیں، جواب میں ان پر ہاتھ اٹھانا تو درکنار، ان کا ہاتھ روکنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ مقصد یہ تھا کہ صحابہ کو اس کڑی آزمائش کی بھٹی سے گزار کر انہیں سونا بنا دیا جائے۔

پھر نبوت ﷺ کے 13 ویں برس ہجرت کا حکم آیا اور اس کے بعد مسلمانوں کو کفار کا جواب بزور بازو دینے کی نہ صرف اجازت مل گئی بلکہ حکم ہوا کہ تلوار اٹھاؤ اور کفار کی گردنیں مار دو۔ قرآن میں کئی مقامات پر جہاد کو ایمان کامل کی لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔

جب جہاد کا حکم آیا تو پھر اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے۔ مکی دور کے بارہ برس میں ڈیڑھ سو سے کم لوگ اسلام لائے لیکن ہجرت کے صرف دس برس میں پورے حجاز عرب میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوچکی تھی اور اس کے پھیلاؤ کا سلسلہ خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا۔

مقصد کہنے کا یہ ہے کہ عبادات اہم ہیں، فرائض میں بھی شامل ہیں لیکن جہاد کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، دین کامل نہیں ہوسکتا، اقامت دین کی جدوجہد پوری نہیں ہوسکتی۔

آج اگر امت جہاد پر کھڑی ہوتی تو میں دیکھتا کہ کیسے کسی میں جرات ہوتی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی گستاخی کرتا، کیسے کوئی مسلمان عورتوں پر حجاب نہ لینے کی پابندی عائد کرتا، کیسے کوئی بدبخت بندوق اٹھا کر مسجد میں گھستا اور 50 لوگ شہید کردیتا ۔ ۔ ۔

بارہ برس کے مکی دور میں ڈیڑھ سو مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، دس برس کے ہجری دور میں مسلمانوں نے مشرکین کو مار مار کر جزیرہ نما عرب سے نکال باہر کیا ۔ ۔ ۔ دونوں ادوار میں بنیادی فرق جہاد کا تھا ۔ ۔ ۔ جہاد کا باقاعدہ آغاز دور مدنی سے ہوا ۔ ۔ ۔ اور باقی سب تاریخ ہے۔

جہاد کے بغیر مسلمان امت کبھی بھی اپنی عزت بحال نہیں کرسکتی ۔ ۔ ۔ اللہ کا دین جہاد کے بغیر نافذ ہونا ہوتا تو مکہ میں ہوجاتا ۔ ۔ ۔ اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم یعنی بنی اسرائیل کے بارے میں سورہ بقرہ میں فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی، لیکن پھر جب اسی بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے کے بعد حضرت موسی عیلہ السلام کے حکم پر فلسطین میں داخل ہو کر جہاد کرنے سے انکار کیا تو اللہ نے اسے سزا کے طور پر چالیس برس تک صحرا میں بھٹکائے رکھا ۔ ۔ ۔ پھر موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد اگلے نبی آئے اور انہوں نے اس ادھورے مشن کو پورا کیا اور بنی اسرائیل کو دوبارہ سے حاکمیت مل گئی۔

اللہ کی سنت رہی ہے کہ وہ قوموں کو ہمیشہ جہاد کے ذریعے ہی عزت اور ذلت سے دوچار کرتا ہے ۔ ۔ ۔ آج اگر مسلمان جوتے کھا رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی جہاد سے دوری ہی ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیشک جہاد ایمان کا حصہ ہے لیکن دور حاضر میں اس کے ہر جگہ منفی نتائج ہی نکلے ہیں۔ افغان جہاد سے لے کر جہاد شام تک۔ جہادی تنظیموں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اوپر سے ان تنظیموں کی نہتے شہریوں کے خلاف دہشت گردی کی وجہ سے عوام الناس میں جہاد سے محبت بڑھنے کی بجائے مزید کم ہو گئی۔ جہادیوں کو چاہیے کہ پہلے اپنے جہاد کے مثبت نتائج تو دنیا کو دکھائیں۔ مومنین اپنے آپ اس طرف راغب ہو جائیں گے۔ تاحال جو جہاد کے نتائج نکلے ہیں ہو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

آپ اگر دین بابا کوڈا سے سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ ویسے تو مارکیٹ میں ایسے بھی موجود ہیں جو مغرب کو قابل قبول ہیں۔ :)

ساری گفتگو مزید ابہام پیدا کر رہی ہے۔ زیر بحث لڑی نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعے کے حوالے سے ہے جبکہ کبھی اس کو پاک بھارت کشیدگی کی طرف لے جایا جاتا ہے تو کبھی فتح مکہ اور جہاد کی طرف اس پر طرہ امتیاز یہ کہ بابا کوڈا کی تحریر کو جہادیوں کا موقف بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ آپ لگے رہیے، ہم تو عاجز آئے اس سے۔
 
آخری تدوین:
Top