دوسری جنگ عظیم سے قبل دنیا بھر میں سب سے زیادہ یہود یورپ میں پائے جاتے تھے۔ جنگ کے اختتام تک کم ہو کرصرف 10 فیصد رہ گئے۔
اگر وہ فلسطینیوں کی ڈگر پر چلتے ہوئے اس تاریخی ظلم کے خلاف جہادی گروپس بنا کر بدلہ لینے نکل کھڑے ہوتے تو آج کہاں ہوتے؟ مگر انہوں نے
جان بھائی کے مشورہ کے مطابق ماضی بھلا کر آگے کا سوچا۔ اسرائیل میں نئے یہودی ملک کی بنیادرکھی۔ اور آج 70 سال بعد جس ملک کا نام و نشان نہیں تھا وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو آنکھیں دکھا رہاہے۔
یہ دنیا ازل سے طاقت والوں کے ساتھ ہے اور طاقت صرف تدبیر سے آتی ہے۔ فلسطینی اگر اپنے ساتھ ہوئی تاریخی نا انصافی کی تلافی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ماضی بھلا کر تدبیر پر کام کریں۔ ماضی کی تلخ یادوں میں رہنے کی بجائے اپنے آنے والی نسلوں کا سوچیں۔ اور جب کچھ اس قابل ہو جائیں کہ یہود کا مقابلہ کر سکیں تب اپنے مطالبات سامنے رکھ کر دنیا سے منوائیں۔
اور اگر یہ سب مشکل کام نہیں کر سکتے تو کم از کم یہودیوں کو مارنا تو بند کریں۔ وہ ہر فلسطینی حملے کا کئی گنا بڑھا کر جواب دیتے ہیں۔ جس سے مزید معصوم فلسطینی شہید ہو جاتے ہیں۔ اس سارے تنازع کا حل اسرائیل کی سابق وزیر اعظم نے کئی دہائیاں قبل کیا خوب دیا تھا:
We can forgive the Arabs for killing our children. We cannot forgive them for forcing us to kill their children. We will only have peace with the Arabs when they love their children more than they hate us
― Golda Meir