زیف سید نے کہا:
ارے محب صاحب: شعر کیوںبدل ڈالا؟ کیا میر کی تخلیق نہ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت کم ہو گئی تھی؟ خیر، آپ کی مرضی۔
ویسے میر نے اس سے ملتا جلتا شعر کہا ہوا ہے:
پھر نہ دیکھا کچھ بجزیک شعلہٴ پر پیچ و تاب
شمع تک ہم بھی دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
نئیں؟ تو چلیے فارسی کے عظیم شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کا شعر حاضر ہے
آمدی تو و من ز خود رفتم
انتظارم ہنوز باقی ماند
مطلب یہ کہ جب تم آئے تو ہم خود سے چلے گئے، یعنی ہوش گنوا بیٹھے اور جو انتظار تھا، وہ ویسے کا ویسے ہی رہا۔ مطلب یہ کہ آپ کا آنا نہ آنا ایک برابر ہے۔
آداب عرض ہے،
زیف
میں نے سوچا کہ میں شعر بدلوں گا تو آپ کچھ ارشاد کریں گے اور دیکھا وہی ہوا چند اور خوبصورت اشعار سننے کو مل گئے۔ بیدل کا بھی بے بدل شعر سنایا ہے آپ نے۔
میر کے شعر کے دوسرے مصرعہ میں یوں لگ رہ ہے جیسے ‘نے ‘ کا لفظ بھی آنا تھا ، مجھے لگ رہا ہے ویسے میر نے اگر اسی طرح لکھا ہے تو پھر کسی کی مجال ہے جو انگشت نمائی کر سکے۔ میر ہی کی زبان دانی کا ایک قصہ سن لیجیے۔
لکھنو کے چند عمائد و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں اور اشعار سنیں۔ دروازہ پر آکر آواز دی ۔ لونڈی یا ماما نکلی۔ حال پوچھ کر اندر گئی۔ ایک بوریا لاکر ڈیوڑھی میں بچھایا۔ انہیں بٹھایا اور ایک پرانا سا حقہ تازہ کرکے سامنے رکھ گئی۔ میر صاحب اندر سے تشریف لائے۔ مزاج پرسی وغیرہ کے بعد انہوں نے فرمائش اشعار کی۔ میر صاحب نے اولا کچھ ٹالا۔ پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے ۔ اگرچہ ناگوار ہوا مگر بہ نظر آداب و اخلاق انہوں نے اپنی نارسائی طبع کا اقرار کیا اور پھر درخواست کی ، انہوں نے پھر انکار کیا۔ آخر ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا کہ حضرت ! انوری وخاقانی کا کلام سمجھتے ہیں ۔ آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے۔ میر صاحب نے کہا کہ درست ہے مگر ان کی شرحیں ، مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں اور میرے کلام کے لیے فقط محاورہ اہل اردو ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں ہیں اور اس سے آپ محروم۔۔۔۔ یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا
عشق برے ہی خیال پڑا ہے ، چین گیا ، آرام گیا
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا
اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی “ی“ کو ظاہر کرو۔ پھر کہیں گے کہ ی تقطیع میں گرتی ہے مگر یہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔ “
تو زیف صاحب ، غلط العام میں یہ شعر میر سے منسوب ہے اور میں اہل زبان کی سند کے خلاف اب جا نہیں سکتا