وادیِ سون، کٹاس ٹیمپل اور کھیوڑہ

ابو ہاشم

محفلین
یہ لفظ کنہٹی (کِن-ہَٹّی) ہے یعنی الف کے بجائے زبر ہے۔ اسے اس علاقے میں کنہٹی باغ کہا جاتا ہے۔
بچپن میں ایک بار گیا تھا لڑکیوں کے ایک ٹرپ کے ساتھ۔ ڈَھن (قدرتی تالاب کہہ لیں صحیح لفظ نہیں مل رہا،یہ مقامی بولی کا لفظ ہے)میں نہانے،ایک دوسرے پر چُھلَکّے پھینکنے، مالٹوں کے باغ، سپیکر پر امتناعی اعلانات کے علاوہ کچھ یاد نہیں
تقریباً پندرہ منٹ کے ٹریک کے بعد آبشار آ ہی گئی۔
اس سے کافی زیادہ خوبصورت آبشار اور ساتھ ہی کافی بڑی ڈھن اوچھالی جھیل سےتین چار کلو میٹر پہلے کفری اور کورڈھی کے درمیان واقع ڈیپ شریف کے مقام پر ہے
اس کے بعد سکیسر کی جانب چلے تو راستے میں کھبیکی جھیل کے مبہوت کر دینے والے مناظر دکھائی دیئے لیکن تقریباً نیم اندھیرا ہو چکا تھا تو تصویرکشی نہ کر سکے
کھبیکی جھیل کے کنارے چار سو منظر بہت خوبصورت ہے یہ سڑک کے ساتھ واقع ہے لیکن مکمل منظر جھیل کے کنارے سے ہی نظر آتا ہے سڑک کے کنارے سے نہیں۔
ڈھائی تین مہینے پہلے ادھر سے گزرتے ہوئے وہاں رک گئے تھے، کنارے کو تفریحی مقام بنانے کے لیے تعمیراتی کام جاری تھا۔ ایک بلڈنگ تیار کھڑی تھی، جھولے آئے پڑے تھے ابھی نصب نہیں ہوئے تھے۔کنارا کچھ ڈویلپ ہو گیا تھا اور اس پر بنچ بھی لگے ہوئے تھے۔ امید ایک اچھا تفریحی مقام بن جائے گا
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
یہ لفظ کنہٹی (کِن-ہَٹّی) ہے یعنی الف کے بجائے زبر ہے۔ اسے اس علاقے میں کنہٹی باغ کہا جاتا ہے۔
بچپن میں ایک بار گیا تھا لڑکیوں کے ایک ٹرپ کے ساتھ۔ ڈَھن (قدرتی تالاب کہہ لیں صحیح لفظ نہیں مل رہا،یہ مقامی بولی کا لفظ ہے)میں نہانے،ایک دوسرے پر چُھلَکّے پھینکنے، مالٹوں کے باغ، سپیکر پر امتناعی اعلانات کے علاوہ کچھ یاد نہیں

اس سے کافی زیادہ خوبصورت آبشار اور ساتھ ہی کافی بڑی ڈھن اوچھالی جھیل سےتین چار کلو میٹر پہلے کفری اور کورڈھی کے درمیان واقع ڈیپ شریف کے مقام پر ہے

کھبیکی جھیل کے کنارے چار سو منظر بہت خوبصورت ہے یہ سڑک کے ساتھ واقع ہے لیکن مکمل منظر جھیل کے کنارے سے ہی نظر آتا ہے سڑک کے کنارے سے نہیں۔
ڈھائی تین مہینے پہلے ادھر سے گرتے ہوئے وہاں رک گئے تھے، کنارے کو تفریحی مقام بنانے کے لیے تعمیراتی کام جاری تھا۔ ایک بلڈنگ تیار کھڑی تھی، جھولے آئے پڑے تھے ابھی نصب نہیں ہوئے تھے۔کنارا کچھ ڈویلپ ہو گیا تھا اور اس پر بنچ بھی لگے ہوئے تھے۔ امید ایک اچھا تفریحی مقام بن جائے گا
معلومات بہم پہنچانے کا شکریہ جناب۔
کفری اور دیپ شریف کے علاوہ نرسنگ پھوہار، امب شریف، سوڈھی گارڈن وغیرہ بھی ہماری خواہشات میں ضرور شامل تھے، لیکن ایک تو دن کم تھے دوسرے سردیوں میں دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے میسر وقت بھی کم تھا تو ان جگہوں کی زیارت نہ کر سکے۔
 

یاز

محفلین
سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔

سکیسر کا ہل سٹیشن سالٹ رینج کا بلند ترین مقام ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 5000 فٹ ہے۔ سردیوں کے موسم میں اس پہ کبھی کبھار برف باری بھی ہوا کرتی ہے۔ ٹاپ پہ الپائن درخت بھی موجود ہیں، جبکہ ٹاپ سے کچھ نیچے دیگر درخت ہی ہیں جن کے نام ہمیں بھی نہیں آتے۔
سکیسر کا تمام علاقہ پاکستان ایئر فورس کے پاس ہے اور یہاں رات رہنے کے لئے بھی کسی عزیز و اقارب یا دوست کا پی اے ایف میں ہونا کافی ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔

ٹرپ کے دوسرے دن کی شروعات سکیسر سے ہی ہوئی۔ ہم نے سکیسر کے مختلف مقامات کا چکر لگایا۔ بدقسمتی سے اس دن حدِ نگاہ یعنی وزیبلٹی بہت ہی کم تھی، جس کی ایک بڑی وجہ شاید کافی عرصے سے بارش کا نہ ہونا بھی ہو۔ اسی وجہ سے سکیسر کے لیک ویو پوائنٹ سے بھی کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اچھے موسم میں اس جگہ سے اوچھالی، جاہلر اور کھبیکی جھیلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اگلی کچھ تصاویر سکیسر ٹاپ کی ہیں۔

s074.jpg

s075.jpg
 

یاز

محفلین
اس کے بعد سکیسر سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ سکیسر کی چڑھائی (جو کہ اب ہمارے لئے اترائی تھی) زیادہ مشکل نہیں ہے۔ سڑک کی حالت بھی ٹھیک ہی ہے۔ سکیسر کی بیس پہ واقع اوچھالی گاؤں سے تقریباً 650 میٹر کی آسان چڑھائی ہے۔ یہ تقریباَ اتنی ہی چڑھائی ہے جتنی اسلام آباد سے پیر سوہاوہ کی ہے، لیکن پیر سوہاوہ کی چڑھائی میں چند مشکل موڑ آتے ہیں، جبکہ سکیسر کی چڑھائی اس کی نسبت کافی سیدھی سادی ہے۔
ذیلی تصاویر سکیسر سے نیچے اترتی سڑک کی ہیں۔
s087.jpg

s088.jpg

s089.jpg
 

یاز

محفلین
سکیسر کی بیس پہ اوچھالی گاؤں ہے جس کے ساتھ ہی اوچھالی جھیل واقع ہے۔ یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ میرے خیال میں منچھر جھیل کے علاوہ پاکستان میں شاید ہی کوئی جھیل اوچھالی سے بڑی ہو۔ جھیل میں اندر تک جاتی ایک سڑک بھی بنائی گئی ہے، جس کا ابتدائی حصہ سلامت ہے جبکہ آخر کا کافی حصہ اس حد تک ٹوٹ چکا ہے کہ اس پہ گاڑی نہیں جا سکتی۔
s090.jpg

s091.jpg
 

یاز

محفلین
اوچھالی جھیل پاکستان کی رامسر سائٹس میں شامل ہے۔ رامسر سائٹس کے بارے میں کچھ مزید تفصیل اس وکی پیڈیا لنک سے دیکھی جا سکتی ہے۔ مختصراً بتاتا چلوں کہ 1971 میں ایران کے شہر رامسر میں ویٹ لینڈز کے بارے میں یونیسکو یا ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کنونشن ہوا تھا جس میں ویٹ لینڈز کی بابت کچھ بات چیت یا قوانین وغیرہ طے کئے گئے تھے۔ اسی کی مناسبت سے ویٹ لینڈ سائٹس کو رامسر سائٹس بھی کہا جاتا ہے۔
وادیء سون کے کئی مقامات ویٹ لینڈز میں شامل ہیں جن میں اوچھالی کے علاوہ، کھبیکی اور جاہلر جھیلیں بھی شامل ہیں۔ اوچھالی جھیل کی اس تصویر سے ویٹ لینڈ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
s093.jpg
 

یاز

محفلین
حسبِ عادت اور حسبِ توقع یہاں پہ بھی لوگوں نے خالی بوتلیں اور دیگر اشیاء بے دردی سے پھینک رکھی تھیں۔ شکر ہے کہ یہاں ابھی زیادہ رش نہیں ہوا کرتا۔
s095.jpg

s096.jpg
 

یاز

محفلین
اوچھالی جھیل کے پار انگہ نامی گاؤں بھی ہے جو کہ یہاں سے نظر نہیں آ رہا تھا۔ انگہ گاؤں احمد ندیم قاسمی مرحوم کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔
s097.jpg
 
Top