واہ کینٹ کا حملہ افسوسناک ہے !!!! مگر ایک افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے الفاظ عموما ہمارے شدید جذبات کو بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور چھوٹے ہوجاتے ہیں اب اس حملے پر کوئی کیا کہے اور کس طرح اپنے جذبات کو اظہار کرے کیا ان مجرموں کو ان پایہ انسانیت سے ساقط لوگوں کو برا بھلا کہنے سے اس سانحے کا حق ہم ادا کر سکیں گئیں نہیں بلکہ ہمارے مہذب الفاظ کم پڑ جاتے ہیں گالیاں ہم دے نہیں سکتے کہ ہمارا شیوہ نہیں لیکن بس اللہ سے دعا ہے کہ ہر دہشت گرد ملک، گروہ جماعت، تنظیم ف،رقے ،افراد اور فرد سے اس ملک کے رہنے والے ہر باسی کو، تمام مسلمانوں کو اور امن و سلامتی کے ہر قائل کو محفوظ رکھے آمین۔
واہ کینٹ پرحملہ کا تیسرا ملزم گرفتار ہو گیا تھا اخباری اطلاع کے مطابق اس شخص کا نام حمید اللہ تھا اس سے ابھی تفتیش جاری ہے تاہم اس حملے سے بعض غیر ملکی اور ملکی اخباروں اور صحافیوں نے کچھ معلومات ہم سے شیئر کی ہیں کچھ وقت اور گزرے گا تو شاید صورت حال مزید واضح ہو جائے
پہلی خبر جنگ کی ہے
http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=299999
ایک اور خیبر جو Aisa Times کی ہے اس میں بھی اس حملے کا انتساب پاکستانی حقیقی طالبان سے نہیں جوڑا گیا ہے
درحقیقت یہ پورا تجزیہ جو اس وقت پاکستانی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے اور اس میں امریکی مفادات جو پاکستانی نقصانات ہیں کو بھی بیان کیا گیا ہے، پڑھنے کے قابل چیز ہے
http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/JH23Df01.html
واہ کینٹ پرحملہ کا تیسرا ملزم گرفتار ہو گیا تھا اخباری اطلاع کے مطابق اس شخص کا نام حمید اللہ تھا اس سے ابھی تفتیش جاری ہے تاہم اس حملے سے بعض غیر ملکی اور ملکی اخباروں اور صحافیوں نے کچھ معلومات ہم سے شیئر کی ہیں کچھ وقت اور گزرے گا تو شاید صورت حال مزید واضح ہو جائے
پہلی خبر جنگ کی ہے
http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=299999
اسلام آباد :… سیکورٹی کے اداروں نے ایک بڑی پیش رفت کے طور پر جمعرات کو واہ کینٹ میں ہونے والے بم حملوں کی تحقیقات میں اہم معلومات حاصل کر لی ہیں۔ موقع سے گرفتار ہونے والا تیسرا خودکش حملہ آور حکام کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور اس نے اپنے نیٹ ورک سے متعلق بہت سی تفصیلات فراہم کی ہیں اور ان تفصیلات سے افغانستان میں بھارت کے کردار کے متعلق کچھ اور سوالات اٹھے ہیں۔ ممکنہ خود کش بمبار حمید اللہ خان کا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے۔ اس نے تحقیقات کے دوران انکشاف کیا کہ اس کا نیٹ ورک مستقبل قریب میں پشاور، کوہاٹ اور نوشہرہ میں اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کریگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حمید اللہ کا تعلق سوات یا باجوڑ سے نہیں ہے جہاں سیکورٹی فورسز آپریشن کر رہی ہیں اور اس بات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ باجوڑ یا سوات میں آپریشن کا انتقام لے رہا تھا۔ اسے یقین ہے کہ دیگر دو خودکش حملہ آوروں کا تعلق بھی خیبر کے علاقے سے تھا۔ سیکورٹی ایجنسیوں کو تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کے اس دعوے پر شک ہے جس میں انہوں نے جمعرات کے بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ ان کے دعوے کو حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ جمعرات کے واقعے کی نگرانی کرنے والے حکام اس بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ حمید اللہ خان جنوبی وزیرستان، سوات یا باجوڑ میں متحرک گروپوں میں سے کسی کا حصہ ہے۔ اس نے اپنا زیادہ تر وقت خیبر میں دیگر بمباروں کے ہمراہ مکمل تنہائی میں گزارا۔ وہ باجوڑ میں ہونے والے آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ نہیں تھا کیونکہ اسے خیبر میں اس کی خفیہ کمین گاہ سے ایک ماہ تک باہر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے سرپرستوں نے اسے بتایا تھا کہ پاک فوج اسلام دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی مسلمانوں کو قتل کر رہی ہے لہذا پاک فوج پر حملہ کرنا جہاد ہے۔ اس نے بدھ کو علی الصباح خیبر سے مہمند ایجنسی کا سفر کیا اور ایک رات وہاں گزاری۔ اگلے روز انہیں ایک سیاہ رنگ کی ٹیوٹا کرولا کار میں مہمند سے پی او ایف ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے لایا گیا۔ 20 برس کے حمید اللہ خان نے جمعرات کو پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کے سامنے دوپہر کو اپنی ڈیڈ لائن سے چند منٹ قبل اپنا ذہن تبدیل کیا۔ اس نے دیگر دو خود کش حملہ آوروں کے ہمراہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے والے فوجی جوانوں پر حملے کیلئے مہمند ایجنسی سے واہ کینٹ تک کا سفر کیا۔ تینوں خود کش حملہ آوروں کو ایک رات قبل ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بارود سے بھری اپنی جیکٹیں اس وقت اڑا دیں جب کافروں سے تعاون کرنے والے بڑی تعداد میں باہر آئیں۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ لوگ وہ ہتھیار بناتے ہیں جنہیں قبائلی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوپہر میں ڈھائی بجے جب پی او ایف کے کارکن باہر آنا شروع ہوئے تو نوجوان حمید اللہ خان نے یہ اندازہ لگایا کہ اس کا ہدف فوج کے جوان نہیں بلکہ عام شہری ہیں۔ اس کے دو دیگر ساتھی اپنے ہدف کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن اس نے اپنا ذہن تبدیل کیا اور قریبی مسجد پہنچ گیا۔ اس نے مسجد کے بیت الخلا میں اپنی خود کش جیکٹ اتاری اور ایک ٹیکسی میں بچ نکلنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ہلاکت خیز بم دھماکوں کے چند منٹ کے اندر اسے گرفتار کر لیا۔ معلوم ہوا ہے کہ حمید اللہ خان بہت مطمئن ہے کہ اس نے اپنے کسی برادر مسلمان کو قتل نہیں کیا۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ دیگر خود کش بمبار جنت نہیں بلکہ جہنم میں جائیں گے کیونکہ انہوں نے صرف غریب مزدوروں کو قتل کیا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کی جانے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کابل میں بھارتی سفارت خانہ پاکستان کے اندر کچھ دہشتگرد گروپوں کو چلا رہا ہے۔ ان گروپوں نے گزشتہ برس اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا اور قبائلی علاقوں سے ان متعدد برہم نوجوانوں کو بھرتی کیا تھا جن کے خاندان قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ ایک گروپ سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے خلاف 2 خود کش حملوں میں بھی ملوث تھا۔ گزشتہ سال گرفتار ہونے والے اس گروپ کے دو افراد نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے کابل میں بھارتی سفارت خانے کے حکام کے ساتھ رابطے ہیں۔ جمعرات کو واہ کینٹ میں بمباری پر وزیر اعظم کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خود کش حملے اس سال جولائی میں کابل میں بھارتی سفارت خانے پر ہونے والے خود کش حملے میں پاکستان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے پر بھارت افغان انتقام کا منصوبہ ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بھارتی ایجنسی ”را“ نے خیبر ایجنسی میں قائم گروپ کو کراچی، یا اسلام آباد کے بجائے پشاور، کوہاٹ اور نوشہرہ میں حملے منظم کرنے کا ہدف دیا ہے اور اس کی منطق یہ ہے کہ بڑے شہروں میں حملوں سے انگلیاں براہ راست بھارت کی جانب اٹھیں گی جبکہ فاٹا کے قریبی علاقوں میں حملوں کو آسانی سے طالبان کی سرگرمی سمجھا جا سکتا ہے۔
ایک اور خیبر جو Aisa Times کی ہے اس میں بھی اس حملے کا انتساب پاکستانی حقیقی طالبان سے نہیں جوڑا گیا ہے
Thursday's attack at Wah is a portend of what lies in store for the country. That attack, although claimed by the Pakistan Taliban, was carried out by Pakistani criminal gangs with religious orientations and allied with the Takfiris.
درحقیقت یہ پورا تجزیہ جو اس وقت پاکستانی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے اور اس میں امریکی مفادات جو پاکستانی نقصانات ہیں کو بھی بیان کیا گیا ہے، پڑھنے کے قابل چیز ہے
http://www.atimes.com/atimes/South_Asia/JH23Df01.html