واہ کینٹ میں خود کش حملہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ساجداقبال

محفلین
اگر کسی دوست کو طالبان کے ارادوں کے حوالے سے کوئ شک ہے تو ميری درخواست ہے کہ يہ ويڈيو ضرور ديکھیں۔ يہ انٹرويو تحريک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کا ہے جس ميں وہ نہ صرف واہ کينٹ کے حملے کی ذمہ داری قبول کر رہے ہيں بلکہ مستقبل ميں لاہور اور اسلام آباد کے حوالے سے اپنے ارادے بھی واضح کر رہے ہيں۔ يہ کسی غير معروف اخبار ميں طالبان سے منسوب کوئ بيان نہيں ہے اور نہ ہی يہ طالبان سے منسوب کسی غير معروف شخص کا بيان ہے بلکہ يہ تحريک طالبان پاکستان کے ترجمان کا انٹرويو ہے جو پاکستان کے ايک معروف ٹی وی نيٹ ورک کے ذريعے پاکستان کے عوام تک اپنا پيغام پہنچا رہے ہيں۔ اس بات ميں کوئ شک نہيں ہے کہ ان مجرموں نے پاکستان کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر ديا ہے۔

http://www.friendskorner.com/forum/f137/moulvi-omar-spokesman-taliban-live-tv-21st-aug-61254/


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
آپکے امریکہ اور ان میں کوئی فرق ہے کیا؟ آپ یہی کام بغیر اعلان جنگ اور بغیر خودکش حملوں کے کر رہے ہیں۔
 

خرم

محفلین
مشرک اس لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کہتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ خود بھی مشرک ہی کہتا ہے۔ ویسے آپ کی اس بات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو آپ کو مشرک کی تعریف ہی نہیں معلوم، یا پھر آپ کو ذرا گہری نیند کی ضرورت ہے۔ کیونکہ نیند کی کمی کی صورت میں انسانی دماغ صحیح طور پر کام نہیں کر پاتا۔
اسی بات کا انتظار تھا بھیا۔ کیا عیسائیوں نے اللہ کا شریک بنانا قرآن کے نزول کے بعد شروع کیا یا اس سے پہلے؟ اس کا جواب ڈھونڈئے گا۔ اور اگر وہ اللہ کا شریک قرآن سے پہلے ہی بنا چکے تھے تو پھر اللہ نے انہیں مشرک کیوں نہ کہا نصارٰی کہ کر کیوں مخاطب کیا؟ اور اگر اللہ نے انہیں مشرک نہ کہا، اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مشرک نہ کہا تو آپ نے کس حیثیت سے انہیں مشرک کہا؟ کیا آپ کا علم اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ ہے؟ کیا شریعت اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے سوا کچھ اور ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر جس کسی نے بھی آپ کو یہ پٹی پڑھائی کہ عیسائی مشرک مطلق ہیں اسے اسلام کا کچھ پتہ نہیں اور ایسوں کی اتباع جہنم کا راستہ دکھاتی ہے۔ علم شوق سے نہیں کسی صاحب علم کے فیض سے آتا ہے وگرنہ ٹھوکریں ہی انسان کا مقدر ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو شوق ہے تو کسی صاحب علم و عمل سے اکتساب فیض کیجئے وگرنہ یونہی بھٹکتے رہیں‌گے۔
 

مغزل

محفلین
اسی بات کا انتظار تھا بھیا۔ کیا عیسائیوں نے اللہ کا شریک بنانا قرآن کے نزول کے بعد شروع کیا یا اس سے پہلے؟ اس کا جواب ڈھونڈئے گا۔ اور اگر وہ اللہ کا شریک قرآن سے پہلے ہی بنا چکے تھے تو پھر اللہ نے انہیں مشرک کیوں نہ کہا نصارٰی کہ کر کیوں مخاطب کیا؟ اور اگر اللہ نے انہیں مشرک نہ کہا، اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مشرک نہ کہا تو آپ نے کس حیثیت سے انہیں مشرک کہا؟ کیا آپ کا علم اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ ہے؟ کیا شریعت اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے سوا کچھ اور ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر جس کسی نے بھی آپ کو یہ پٹی پڑھائی کہ عیسائی مشرک مطلق ہیں اسے اسلام کا کچھ پتہ نہیں اور ایسوں کی اتباع جہنم کا راستہ دکھاتی ہے۔ علم شوق سے نہیں کسی صاحب علم کے فیض سے آتا ہے وگرنہ ٹھوکریں ہی انسان کا مقدر ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو شوق ہے تو کسی صاحب علم و عمل سے اکتساب فیض کیجئے وگرنہ یونہی بھٹکتے رہیں‌گے۔

خرم صاحب
خوب نکتہ اٹھایا ہے ، (شکریہ)، اب لگے ہاتھوں ’’مشرکین‘‘ کی تعریف بھی فرمادیں،
تا کہ مجھ ایسے جہل مرتبت کے علم میں اضافہ ممکن ہوسکے، ساری زندگی
ممنون و متشکر ہوں گا، وگرنہ میں آپ میں آپ کے مراسلے کو متذکرہ کی وکالت
پر معمول کرنے پر مجبور ہوجاؤں گا۔
 

مغزل

محفلین
ویسے عیسائی کیا عیسیٰ کو خدا کا بیٹا گردانے ہیں ؟
کیاان کے ہاں تثلیث (یعنی تین خدا) کا نظریہ نہیں ؟
میں اس ضمن میں جوابات کا شدت سے منتظر ہوں۔
 

خرم

محفلین
جی ہاں بھیا عیسائیوں کی اکثریت تثلیث کی قائل ہے (تمام عیسائیوں کا یہ عقیدہ نہیں) اور حضرت عیسٰی علیہ السلام پر خدا کا بیٹا ہونے کا بہتان باندھتی ہے۔ اسی طرح یہود بھی حضرت عزیر علیہ السلام کو نعوذ باللہ اللہ کا بیٹا کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود قرآن کریم ان دونوں گروہوں کو اہل کتاب کے ضمن میں رکھتا ہے۔ نہ تو یہ کفار کی طرح (جو اللہ کو بالکل نہیں‌مانتے) نجس ہیں اور ان کا ذبیحہ کھانا، ان سے شادی کرنا اور ان کے ساتھ ایک برتن میں کھانا جائز ہیں۔ جو کفار ہیں یعنی ہنود یا ستارہ پرست یا دہرئے وغیرہ ان کے متعلق ایسی کوئی رعائت نہیں ہے۔ قرآن میں کہیں پر بھی میرے انتہائی ناقص علم کے مطابق عیسائیوں یا یہودیوں کے لئے مشرکون کا لفظ نہیں آیا بلکہ نصارٰی، ہودا، یہودا، بنی اسرائیل کے الفاظ سے انہیں مخاطب فرمایا گیا ہے۔ میرا استدلال یہ ہے کہ اگر قرآن میں انہیں مشرک نہیں کہا گیا، اور نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مشرک نہیں فرمایا تو پھر ہم انہیں مشرک نہیں‌کہہ سکتے۔ ان کے لئے اسلام میں اہل کتاب کی اصطلاح ہے اور شریعت انہیں کافروں اور مشرکوں سے علیحدہ رکھتی ہے۔
واللہ اعلم۔
 

شمشاد

لائبریرین
مانا کہ ان کو یہود و نصارا کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے، مانا کہ یہ ایلِ کتاب ہیں، لیکن کیا یہ اللہ کے ساتھ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت عزیز علیہ السلام کو شریک نہیں گردانتے اور کیوں ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ کبھی بھی تمہارے (مسلمانوں کے) دوست نہیں ہو سکتے۔
 
مانا کہ ان کو یہود و نصارا کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے، مانا کہ یہ ایلِ کتاب ہیں، لیکن کیا یہ اللہ کے ساتھ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت عزیز علیہ السلام کو شریک نہیں گردانتے اور کیوں ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ کبھی بھی تمہارے (مسلمانوں کے) دوست نہیں ہو سکتے۔
مسیحی حضرات کا عجیب عقیدہ ہے کبھی حضرت مسیح کو خدا کہتے ہیں کبھی خدا کا بیٹا، ماضی میں ایک مسیحی دوست سے اسی حوالے سے بحث ہوئی تو پھر دوستی ختم ہوگئی۔ بندہ ماضی میں جدید اور قدیم عہدہ نام پڑہتا رہا ہے مگر حضرت امام رضا علیہ السلام کے ایک قول نے بچالیا تھا
قول
قرآن خدا کی کتاب ہے اس سے گریز مت کرو اور کہیں ہدایت تلاش نہ کرو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے"
یاد رہے یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آٹھویں تھا۔
 

خرم

محفلین
مانا کہ ان کو یہود و نصارا کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے، مانا کہ یہ ایلِ کتاب ہیں، لیکن کیا یہ اللہ کے ساتھ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت عزیز علیہ السلام کو شریک نہیں گردانتے اور کیوں ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ کبھی بھی تمہارے (مسلمانوں کے) دوست نہیں ہو سکتے۔
شمشاد بھائی یہ باتیں بالکل بجا لیکن یہ سب کچھ اس وقت بھی موجود تھا جب قرآن کا نزول ہوا۔ اب اگر علیم الحکیم نے انہیں مشرک نہیں کہا تو ہم کیوں کہیں؟ اور قرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ عیسائی یہودیوں کی نسبت مسلمانوں کے زیادہ خیرخواہ ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ انہیں کہو کہ نفاق کی باتیں چھوڑ کر ان باتوں‌پر اکٹھےہو جائیں جن پر ہمارا تمہارا اتفاق ہے۔ اب دیکھئے قرآن کفار کے معاملہ میں تو فرماتا ہے کہ وہ تمہارے کبھی دوست نہیں ہوں گے لیکن اہل کتاب میں یہ تخصیص فرماتا ہے کہ دو میں‌سے فلاں تمہارے ساتھ زیادہ نرم ہوں گے۔ پھر ان کے ساتھ روابط رکھنے کی اسلام نے اجازت دی، ان کے ساتھ کھانے پینے کی، بیاہ کرنے کی تو پھر بھی انہیں‌ مشرک کہا جائے یا باقی مشرکین کی طرح سمجھا جائے تو مجھے تو یہ جسارت ہی لگتی ہے دین میں تحریف کی۔
 

ظفری

لائبریرین
مانا کہ ان کو یہود و نصارا کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے، مانا کہ یہ ایلِ کتاب ہیں، لیکن کیا یہ اللہ کے ساتھ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت عزیز علیہ السلام کو شریک نہیں گردانتے اور کیوں ان کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ کبھی بھی تمہارے (مسلمانوں کے) دوست نہیں ہو سکتے۔

قرآن کی جس اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہے ۔ اللہ تعالی نے جب اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت فرمائی ۔ یعنی ایک پیغمبر نے وہاں آکر ایک دعوت دی ۔ وہاں ان کے مخاطبین میں ان کے اپنے لوگ ( بنی اسماعیل ) بھی تھے ۔ ان میں‌ یہود و نصاریٰ بھی تھے ۔ ان کو جب دعوت اور پیغام پہنچایا گیا تو ایک خاص مرحلے پر ان کی ضد اور ان کی ہٹ دھڑمی پر قرآن مجید نے یہ تبصرے کیئے ہیں ۔ یہ کوئی بحثیتِ ملت یہود یا ملتِ نصاریٰ پر تبصرہ نہیں ہے ۔ خود قرآن مجید میں نصرانیوں کے معاملے میں اللہ تعالی نے بڑی تعریف کے کلمات کہے ہیں ۔ بتایا ہے کہ ان کے دلوں میں بڑی محبت ہے ۔ وہ تمہارے ساتھ ایک تعلق پیدا کرسکتے ہیں ۔ ان کے ہاں رہبان ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کے اندر رافعت پائی جاتی ہے ۔ بہت سے مقامات پر ایسا فرمایا ہے ۔ یہ بتایا ہے کہ یہود کے اندر ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی نے کتاب سے نوازا ہے ۔ وہ اس کی آیت پڑھتے ہیں ۔ اور حق کو قبول کرنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں ۔ یہ تبصرہ قرآن مجید نے یہودیوں اور نصرانیوں پر کوئی بحیثتِ مجموعی نہیں کیا ہے ۔ اور پھر یہ خاص آیت جس کا ترجمہ شمشاد بھائی نے اپنی پوسٹ میں کیا ہے ۔ اس کاتعلق تو اصل میں دین کی دعوت سے ہے ۔ یعنی جب ہم دین ان سے منوانے کے لیئے جائیں گے تو قرآن مجید نے یہ کہا ہے کہ وہ حق کو ماننے کے لیئے تیار نہیں ہونگے ۔ یعنی جب دین کی دعوت انہیں دی جائے گی تو وہ یہی کہیں گے کہ ہماری یہودیت اور ہماری نصرانیت صحیح ہے ۔ تمام فرقوں میں یہی تعصب پیدا ہوجاتا ہے ۔ قرآن نےاس تعصب کو بیان کیا ہے ۔ اس کا تعلق کسی سیاسی معاملات سے نہیں ہے ۔ اور نہ ہی یہود اور نصاری کے بارے میں کوئی عمومی پالیسی اس کے اندر بتائی گئی ہے ۔
اس وقت دنیا میں جو اقوام ہیں ۔ ان اقوام کیساتھ آپ کا تعلق ایک خاص سطح پر قائم ہوسکتا ہے ۔ 14 سو سالوں سے نصرانی اور یہودی بھی اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی یہ عمل جاری تھا ۔ آج بھی ہے ۔ امریکہ میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب بھی اسلام ہے ۔ اور یہ اسلام کوئی مسلمان نہیں قبول کر رہے ہیں ۔ بلکہ یہی نصرانی اور یہودی ہیں ۔ اگر یہ ہمارے دوست نہیں ہوسکتے تو پھر اسلام کی دعوت کس کے لیئے رہ جاتی ہے ۔ لہذا کسی بھی آیت کو اس کے سیاق و سباق اور پس منظر سے نکال کر پیش کیا جائے گا تو مفہوم تو بلکل تبدیل ہوجائے گا ۔ لوگ یہی کام جہاد سے متعلق آیتوں کے بارے میں بھی کرتے ہیں ۔ اور لوگ قرآن فہمی سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان آیتوں کے متصادم معنی کو ایمان کا حصہ سمجھ لیتے ہیں ۔
 

خاور بلال

محفلین
قرآن کی جس اس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہے ۔ اللہ تعالی نے جب اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت فرمائی ۔ یعنی ایک پیغمبر نے وہاں آکر ایک دعوت دی ۔ وہاں ان کے مخاطبین میں ان کے اپنے لوگ ( بنی اسماعیل ) بھی تھے ۔ ان میں‌ یہود و نصاریٰ بھی تھے ۔ ان کو جب دعوت اور پیغام پہنچایا گیا تو ایک خاص مرحلے پر ان کی ضد اور ان کی ہٹ دھڑمی پر قرآن مجید نے یہ تبصرے کیئے ہیں ۔ یہ کوئی بحثیتِ ملت یہود یا ملتِ نصاریٰ پر تبصرہ نہیں ہے۔

“یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ باہم دوست ہیں ایک دوسرے کے“
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اتنے صریح کلمات محض وقتی ہٹ دھرمی اور عارضی ضد کے جواب میں نہیں آسکتے۔ اگر آپ اس جملے پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک فیصلہ کن جملہ ہے۔ اس کا مطلب مجھے یہ سمجھ آتا ہے کہ بحیثیتِ ملت یہود اور نصاریٰ مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ یعنی انفرادی طور پر تو اچھے لوگ ان میں بھی ہیں لیکن بحیثیتِ گروہ ان کے مفادات مسلمانوں کے مفادات سے ٹکراتے ہیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین، نیک فطرت یہودو نصاریٰ کے قدر دان تھے بلکہ بعض اوقات اہم معاملات میں ان پر اعتبار بھی کیا کرتے تھے لیکن بحیثیت ملی ان پر اعتبار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئ عیسائ مملکت آپ کی جانب دوستی ہاتھ بڑھائے تو آپ یہ کہہ کر ٹھکرادیں کہ قرآن میں دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ نہیں بلکہ مسلمانوں کو ظاہر پر اعتبار کرنے کا حکم ہے کوئ آپ سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو آپ کو اسے قبول کرنا ہوگا لیکن اپنے مفادات کی قربانی دے کر نہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
شمشاد بھائی یہ باتیں بالکل بجا لیکن یہ سب کچھ اس وقت بھی موجود تھا جب قرآن کا نزول ہوا۔ اب اگر علیم الحکیم نے انہیں مشرک نہیں کہا تو ہم کیوں کہیں؟ اور قرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ عیسائی یہودیوں کی نسبت مسلمانوں کے زیادہ خیرخواہ ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ انہیں کہو کہ نفاق کی باتیں چھوڑ کر ان باتوں‌پر اکٹھےہو جائیں جن پر ہمارا تمہارا اتفاق ہے۔ اب دیکھئے قرآن کفار کے معاملہ میں تو فرماتا ہے کہ وہ تمہارے کبھی دوست نہیں ہوں گے لیکن اہل کتاب میں یہ تخصیص فرماتا ہے کہ دو میں‌سے فلاں تمہارے ساتھ زیادہ نرم ہوں گے۔ پھر ان کے ساتھ روابط رکھنے کی اسلام نے اجازت دی، ان کے ساتھ کھانے پینے کی، بیاہ کرنے کی تو پھر بھی انہیں‌ مشرک کہا جائے یا باقی مشرکین کی طرح سمجھا جائے تو مجھے تو یہ جسارت ہی لگتی ہے دین میں تحریف کی۔

تو بھائی یوں کہو نا کہ اخلاقی اعتبار سے یہ اچھا نہیں لگتا کہ انہیں بھی دوسرے مشرکین کے ساتھ لا کھڑا کیا جائے۔
ورنہ پہلی نظر میں تو آپ کا اعتراض پڑھنے کے بعد سب سے پہلا خیال ذہن میں یہی آتا ہے کہ اگر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے عمل کو اگر شرک نہ کہیں تو کیا ہاتھی کہیں؟ اور اگر شرک کرنے والے کو مشرک نہ کہیں تو کیا خربوزہ کہیں؟
براہِ مہربانی اپنی بات ذرا واضح انداز میں لکھا کریں۔ بعض اوقات مجھے آپ کی بات کو صحیح طور پر سمجھنے میں ہی دو تین دن لگ جاتے ہیں جواب دینا تو بعد کی بات ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
“یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ باہم دوست ہیں ایک دوسرے کے“
بلکہ بعض اوقات اہم معاملات میں ان پر اعتبار بھی کیا کرتے تھے لیکن بحیثیت ملی ان پر اعتبار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئ عیسائ مملکت آپ کی جانب دوستی ہاتھ بڑھائے تو آپ یہ کہہ کر ٹھکرادیں کہ قرآن میں دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ نہیں بلکہ مسلمانوں کو ظاہر پر اعتبار کرنے کا حکم ہے کوئ آپ سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو آپ کو اسے قبول کرنا ہوگا لیکن اپنے مفادات کی قربانی دے کر نہیں۔

یہ رویہ تو مسلمان اپنے گروہوں کے درمیان بھی رکھتے ہیں ۔ بلکہ نصاریٰ اور یہود تو کیا کوئی اور بھی آپ کی طرف ہاتھ بڑھائے اور آپ کو اپنے مفادات خطرے میں نظر آئیں تو آپ بیشک اس کی طرف آگے ہاتھ نہ بڑھائیں ۔ مگر یہ کلیہ ۔۔۔ کلی طور پر صرف نصاریٰ اور یہود پر تو لاگو نہیں ہوتا ۔ اس صورت میں تو آپ کسی پر بھی اعتبار کرنے کے مجاز نہیں ہونگے ۔

آپ نے اپنی بات میں ایک اور بات الٹ کہہ دی ہے کہ ملی طور پر ان پر بھروسہ نہ کیا جائے ۔ یعنی اس میں تو وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ جن کو آپ انفرادی طور پر اچھا کہہ رہے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین بھی نیک فطرت اور اچھے یہود و نصاریٰ کے قدردان تھے ۔ آپ اگر یوں کہتے کہ یہود و نصاری میں کچھ گروہ ایسے ہیں جو قطعی قابلِ اعتبار نہیں ہے ۔ ان سے دوستی اور تعلقات نہ برتے جائیں تو اچھا ہے ۔ یہ منطق پھر بھی کچھ سمجھ میں آتی ہے ۔ میرا خیال ہے ایسے گروہ تو ہر قوم اور ہر مذہب میں ‌پائے جاتے ہیں ۔ اگر آپ کے اصول کا اطلاق ان پر کر دیا جائے تو اسلام چند گھروں تک ہی محدود ہوجائے گا ۔
 

خرم

محفلین
سعد بھائی اخلاقی نہیں مذہبی معیار سے اچھا نہیں لگتا۔ اب انشاء اللہ صحبت رہے گی تو پھر ہماری گنجلگ باتیں آپ کو آسانی سے سمجھ آنے لگ جائیں گی۔ ابھی تو ابتداء ہے۔ :)
 

محمد سعد

محفلین
میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے نام کے ساتھ موجود لال بتیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کیا کوئی ایسا طریقہ موجود ہے کہ میں یہ معلوم کر سکوں کہ میری کن تحاریر پر مجھے منفی پوائنٹس ملے ہیں اور ان پر کیاتبصرے کیے گئے ہیں؟ :roll:
 

شمشاد

لائبریرین
میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے نام کے ساتھ موجود لال بتیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کیا کوئی ایسا طریقہ موجود ہے کہ میں یہ معلوم کر سکوں کہ میری کن تحاریر پر مجھے منفی پوائنٹس ملے ہیں اور ان پر کیاتبصرے کیے گئے ہیں؟ :roll:

زیک / قیصرانی متوجہ ہوں اور وضاحت کر دیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

معاف کیجیے گا لیکن اب میرا اعتبار ایسی ویڈیوز پر سے اٹھ چکا ہے۔ براہِ مہربانی کوئی ایسا ثبوت فراہم کریں کہ جس پر میں یقین کر سکوں۔

پاکستانی عوام کے "مفاد" اور "سہولت" کے ليے تحريک پاکستان طلبان کے ترجمان مولوی عمر نے واہ کينٹ کے خود کش حملوں کی ذمہ داری محض ايک ٹی وی انٹرويو ميں قبول نہيں کی تھی بلکہ انھوں نے متعدد ٹی وی انٹرويوز ميں بہت سے نامور صحافيوں کو انٹرويوز ديے تھے جس ميں انھوں نے واہ کينٹ ميں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اگر آپ سمجھتے ہيں کہ جس ويڈیو کا لنک ميں نے پہلے ديا تھا وہ جعلی ہو سکتی ہے تو ميں آپ کو ايک دوسرے ٹی وی نيٹ ورک کے ٹاک شو کا لنک دے رہا ہوں جس ميں ايک بار پھر مولوی عمر نے واہ کينٹ کے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستقبل ميں ايسے مزيد حملوں کا عنديہ ديا ہے۔

http://www.friendskorner.com/forum/f155/bolta-pakistan-21st-august-2008-a-61299/

يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ يہ انٹرويوز براہ راست نشر کيے گئے تھے اور جن صحافيوں نے يہ انٹرويو کيے تھے وہ صحافتی دنيا ميں جانے پہچانے اور نامور تصور کيے جاتے ہيں۔

ان ويڈیوز کے جعلی ہونے کے حوالے سے آپ کے تحفظات اگر صحيح تسليم کر ليے جائيں تو ايسا صرف اسی صورت ميں ممکن ہے اگر تمام صحافی، ٹی وی پروڈيوسر، تکنيکی ماہرين اور يہاں تک کہ ٹی وی مالکان بھی اس "سازش" ميں شامل ہوں۔ منطق کے اعتبار سے يہ مفروضہ قابل فہم نہيں۔ مولوی عمر کے الفاظ ان کے فلسفے کی ترجانی کر رہے ہيں اور وہ بہت سے لوگوں کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top