وحدت الوجود

جانے وحدت الوجود کی بات چلتے چلتے کہاں‌تک پہنچے اور اللہ تعالی کو ابن عربی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بیان کیا کہ “‌تم عظیم الشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد سمجھتے ہو جیسے سراب کو پانی سمجھتے ہو ،جیسے سراب پانی نہیں ہو سکتا ویسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ جب تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تم آو گے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پائو گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ کو پائو گے اور رویت محمدیہ میں اللہ کو دیکھو گے“ اور خواجہ فرید کے خلیفہ خاص محمد یار گڑھی صاحب نے ‌دیوان محمدیہ میں اسی چیز کو یوں بیان کیا

وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر


میرا خدا وہ ہے جو عرش پر مستوی ہے اس کے علم نے کائنات کے ذرے ذرے کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے ،وہی ہر ظاہر اور چھپی ہوئی بات کا جاننے والا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور جو کبھ اس کے درمیان ہے وہ سب اس کے دائرہ قدرت میں شامل ہے وہی سب کا خالق و مالک ہے وہ ذات ایسی صاحب علم ذات ہے کہ اس کے علم میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اور جو مدینہ میں اترا ان کا نام نامی احمد مجتبی ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی اپنی ذات ، صفات اور الوہیت میں یکتا ہے مخلوق کی ذات اور صفات اس کی ذات اور صفات کا احاطہ نہیں کر سکتی تو پھر اسے مخلوق کی ذات میں تلاش کرنا ندارد۔
 

قسیم حیدر

محفلین
[اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت و رُشد کےلئیے اپنا کلام نازل کیا ، جبریل علیہ السلام کے ذریعے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ، اور اپنی ذات اور صفات کے بارے میں جو چاہا جتنا چاہا اپنے کلام اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام میں ہمیں بتا دِیا ، اِن دو ذریعوں اور واسطوں کے عِلاوہ اور کوئی ذریعہ یا واسطہ ایسا نہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں کوئی ایسی خبر دے سکے جِس پر شک کی گنجائش نہ ہو اور اُس پر ایمان لانا فرض ہو ، اور اِن دو ذرائع سے آنے والی باتوں کے بارے میں شک کی کوئی گُنجائش نہیں جِس نے شک کیا وہ صاحبِ ایمان نہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان ایمان لانا فرض ہے بات کو مختصر رکھنے کےلئیے اپنے اِس وقت کے موضوع کی طرف آتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات اور ناموں کی توحید سےمتعلق ایک بُنیادی عقیدہ ہے اور ایک بُنیادی سوال بھی ہے کہ ::::

اللہ کہاں ہے ؟

آئیے اختصار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں ، بالترتیب ::

( ۱ ) اللہ تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن الکریم میں ،

( ۲ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان یعنی صحیح حدیث شریف میں ( ۳ ) صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن کے اقوال میں ،

( ۴ ) تابعین ،

( ۵ ) تبع تابعین ،

( ۶ )( اُمت کے معروف اماموں ) کےاقوال میں اور اِنشاء اللہ تعالیٰ اقوال کی صحت اور درستگی کی تحقیق کے ساتھ ،

اِس موضوع سے متعلق چند شکوک اور شُبہات لاعلمی کی وجہ سے پائے جاتے ہیں جیسا کہ:۔

:: اللہ ہر جگہ موجود ہے :: یا :: اللہ کے لئیے مکان ثابت کرنا کفر ہے :: یا :: اللہ کو کِسی ایک جگہ پر ثابت کرنے سے تجسیم وارد ہوتی ہے اور یہ کفر ہے :: وغیرہ وغیرہ اِن شا ء اللہ تعالیٰ اِن فلسفہ زدہ شُبہات کا منطقی اور فلسفیانہ جواب آخر میں دوں گا ۔

اللہ تعالیٰ میری اِس کوشش کو قبول فرمائے اور اِس کو پڑھنےوالوں کی اصلاح کا اور میری مغفرت کا سبب بنائے ۔

اللہ تعالیٰ کے فرامین

آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ سُبحانہ ُ تعالیٰ نے اِس بارے میں کیا فرمایا ہے :اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ



"بے شک تمہارا رب وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی اور پھر عرش پر قائم ہوا ، وہ دِن کو رات سے اِس طرح چھپا دیتا ہے کہ رات دِن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو اِس طرح بنایا کہ وہ سب اللہ کے حُکم کے تابع ہیں ، تو کیا اُس کےلئیے ہی نہیں ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا؟ بڑی ہی خوبیوں والا ہے تمام جہانوں کا رب"

﴿ سورت ا لاعراف / آیت 54)

۲۔اللہ تبارک تعالیٰ کا فرمان ہے :::

إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ

إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا وَعْدَ اللّهِ حَقًّا إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ



"بے شک تمہارا رب وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی اور پھر عرش پر قائم ہوا ( وہاں سے تمام ) کام کی تدبیر کرتا ہے ، کوئی اُسکی اجازت کے بغیر ( اُسکے سامنے) شفاعت کرنے والا نہیں ہے، ایسا ہے تُم سب کا رب۔ لہذا اُسکی عبادت کرو ،، کیا تُم پھر بھی سوچتے نہیں"

﴿ سورت یونس / آیت ۳

۳۔ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان ہے :::

اللّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لأَجَلٍ مُّسَمًّى يُدَبِّرُ الأَمْرَ يُفَصِّلُ الآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاء رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ



"اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بُلند کیا ( جیسا کہ ) تُم اِسے ( یعنی آسمانِ دُنیا کو)دیکھ رہے ہو پھر اللہ عرش پر قائم ہوا ، اور سورج اور چاند کو اِس طرح اپنے ماتحت کیا کہ وہ ایک مقرر شدہ وقت تک کےلئیے چل رہے ہیں ، اللہ ہی کام کی تدبیر کرتا ہے اور اپنی وضاحت کے ساتھ اپنی نشانیاں بتا رہا ہے تا کہ تُم لوگ اپنے رب سے ملنے پر یقین کر لو"

﴿ سورت الرعد / آیت ۲)

۴۔ اللہ الرحمٰن کا فرمان ہے :::

الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى

“الرحمان ( وہ ہے جو ) عرش پر قائم ہے “

(سورت طہٰ / آیت ۵)

۵۔ اللہ الخبیر کا فرمان ہے :::

الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا

"رحمٰن وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اِن کے درمیان ہے( سب کی ) تخلیق چھ دِن میں کی اور پھر عرش پر قائم ہوا ، پس آپ اِس کے بارے میں کِسی خبر رکھنے والے سے پوچھ لو"

﴿ سورت الفرقان / آیت 59 )

۶۔اللہ الحکیم کا فرمان ہے :::

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ مَا لَكُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ

"اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اِن کے درمیان ہے (سب) کی تخلیق چھ دِن میں کی اور پھر عرش پر قائم ہوا ، (اللہ کے سامنے ) اللہ کے عِلاوہ تُم سب کا کوئی مددگار نہیں اور نہ ہی کوئی سفارش کرنے والا ،، کیا تُم لوگ یاد نہیں رکھتے" (سورت السجدہ / آیت ۴ ۔ )

۷۔ اللہ الکریم کا فرمان ہے :::

هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

"اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی اور پھر عرش پر قائم ہوا ، وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے ، اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور آسمان میں چڑھتا ہے ، اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تم لوگوں کے ساتھ ہے ، اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے"

( سورت الحدید / آیت ۴ ۔)

۸۔ اللہ المُعّز کا فرمان ہے :::

مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُوْلَئِكَ هُوَ يَبُورُ



جو عزت چاہتا ہے تو ( وہ یہ جان رکھے کہ ) تمام تر عزت اللہ کےلئیے ہے ( یعنی اللہ ہی عزت دینے والا ہے ) ، پاک باتیں اُس ( اللہ ) کی طرف چڑھتی ہیں اور نیک عمل اپنے کرنے والے کو بُلند کرتے ہیں"

﴿سورت الفاطر / آیت ۱۰)

۹۔ اللہ ذی المعارج کا فرمان ہے :::

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ

لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ

مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ

"سوال کرنے والے نے اُس عذاب کے بارے میں سوال کیا جو واقع ہونے والا ہے ، کافروں پر ، جِسے کوئی ہٹانے والا نہیں ، اللہ کی طرف سے،جو معارج ( بُلندی ) والا ہے ، اِس ( اللہ ) کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دِن میں جِس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے ﴿ سورت المعارج / آیت ۴، ۳ ، ۲ ، ۱ )

۱۰۔اللہ الاعلیٰ کا فرمان ہے :::

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

“وہ ( اللہ ) آسمان سے لے کر زمین تک ( ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ ( کام) ایک ایسے دِن میں جِس کی مقدار تمہاری گنتی کے مُطابق ایک ہزار سال ہے اُس ( اللہ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے” )سورت السجدہ / آیت ۵(

۱۱۔اللہ سُبحانہ ُ تعالیٰ کا فرمان ہے :::

يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ

"وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو اُن کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو حُکم اُنہیں دِیا جاتا ہے اُس کی تعمیل کرتے ہیں"

﴿ سورت النحل / آیت ۵۰)

اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرامین سے صاف اور واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے تمام تر مخلوق کے اُوپر اُس سے جدا اور بُلند ہے ، کِسی لفظ کی کوئی تشریح یا تاویل کرنے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ذہن میں رکھنا چاہئیے جو اللہ تعالیٰ

نے اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرمایا کہ :::

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

" ہم نے یہ ذِکر ( قُرآن ) آپ کی طرف نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اُسے صاف کھول کھول کر بیان کر دیں اور شاید کہ وہ غور و فِکر کریں ﴿ سورت النحل / آیت ۴۴)

اللہ تعالیٰ کے فرامین کی تفسیر اور شرح کی ذمہ داری اللہ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی گئی ہے ہر کس و ناکس کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے آیات کی ایسی تفسیر یا شرح کرتا پھرے جو اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کے مُطابق نہ ہوں ، اللہ تعالٰی کے رسول الکریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اللہ کی اِن باتوں اور اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے اگلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیے ۔

اُس کے بعد اِنشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ کے اقوال نقل کروں گا۔ پھر آپ فیصلہ کیجیئے گا کہ اللہ تعالیٰ اُوپر ہے یا کہ کہیں اور، اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کچھ اللہ بارے میں بتایا ہے وہ کہنا کُفر ہے یا اُس کے خِلاف کہنا۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین

اُوپر ذِکر شدہ آیاتِ قرانیہ کے بعد احادیث ذِکر کرتا ہوں آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کی اِس صفتِ عُلو یعنی تمام تر مخلوق سے جُدا اور بُلند ہونے کے بارے میں کیا فرمایا ہے :::

۱۔ معاویہ بن الحکم السّلمی رضی اللہ عنہُ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنے ایک واقعے کا ذِکر کرتے ہوئے آخر میں کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک باندی تھی جو اُحد اور جوانیہ کے علاقے میں میری بکریاں چراتی تھی ، ایک دِن ایک بھیڑیا میری بکریوں میں سے ایک بکری لے گیا ، مجھے اِس بات پر دُکھ ہوا اور غصہ آیا جیسا کہ کِسی بھی آدمی کو آتا ہے تو میں نے اِس باندی کو تھپڑ مارا ، پھر یہ بات میرے دِل پر بھاری ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اِس کا ذِکر کیا ، اور اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا ”’ اے اللہ کے رسول کیا میں اُسے آزاد کر دُوں “‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "اُس کو بُلاؤ"۔ جب وہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُس سے پوچھا " اللہ کہاں ہے"؟ اُس باندی نے کہا ” آسمان پر “۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا "میں کون ہوں "؟ تو باندی نے جواب دِیا” آپ اللہ کے رسول ہیں “ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " اِسے آزاد کر دو یہ اِیمان والی ہے " (صحیح مسلم ، حدیث 537 ، سُنن ابی داؤد ، سُنن النسائی)

ذرا غور کیجیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے باندی سے کیا پوچھا اور اُس نے کیا جواب دِیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُس کے مؤمنہ ہونے کی گواہی دِی ، اگر اللہ تعالیٰ کےلئیے یہ کہنا کہ وہ اُوپر ہے کُفر ہے تو پھر کُفر کا فتویٰ دینے والا سچا ہے یا اِس باندی کو مؤمنہ قرار دینے والاصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم( اُس پر میرے باپ قُربان ہوں) سچا ہے؟

۲۔بو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

"جب رات کا آخری تیسرا پہر ہوتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے اور کہتا ہے ” کون ہے جو ( اِس وقت ) مُجھ سے دُعا کرے کہ میں اُسکی دُعا قبول کروں ، کون ہے جو ( اِس وقت) مُجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں اُس کا سوال پورا کروں ، کون ہے جو ( اِس وقت) مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اُسکی مغفرت کروں “ (صحیح البُخاری ، ابواب التہجد ، صحیح مُسلم ، حدیث 758 ، کتاب صلاة المسافرین و قصرھا ، باب 24 )

غور سے پڑہیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے رب اللہ عز و جل کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں ، پس اگر یہ کہنا ہے کُفر ہے کہ اللہ اُوپر ہے تو کُفر کا فتویٰ لگانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس فرمان پر کیا فتویٰ لگائیں گے

۳۔ ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " رات کے فرشتے اور دِن کے فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں ، ( یعنی فرشتوں کا ایک گرو ہ فجر کے وقت آتا ہے اور عصر تک رہتا ہے ، یہ دِن کے فرشتے ہیں اور دوسرا گروہ عصر کے وقت آتا ہے اور فجر تک رہتا ہے یہ رات کے فرشتے ہیں ) پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے درمیان رات گذاری ہوتی ہے ( یعنی عصر کے وقت آنے والے فرشتے ) اُس ( اللہ ) کی طرف چڑھتے ہیں تو اُنکا رب اُن سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ اُن سے زیادہ جانتا ہے ، تُم نے میرے بندوں کو کِس حال میں چھوڑا ، تو فرشتے کہتے ہیں جب ہم نے اُنہیں چھوڑا تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم اُن کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے ﴿ متفق علیہ ، صیح البُخاری ، حدیث ۵۵۵ ، کتاب مواقیت الصلاة ، باب ۶۱ کی دوسری حدیث ، صحیح مُسلم ، حدیث 632 ، کتاب المساجد و مواضع الصلاة ، باب 37 کی پہلی حدیث ، صحیح ابنِ خزیمہ ، حدیث 321 ، کتاب الصلاة ، باب 12 کی پہلی حدیث)

ملاحظہ فرمائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرشتوں کا اللہ کی طرف چڑہنے کا ذِکر فرما رہے ہیں ، چڑھا اوپر کی طرف جاتا ہے یا کِسی اور طرف؟ ۴۔ ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ یمن سے لائی جانے والی زکوة کی تقسیم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " کیا تُم لوگ مجھے امانت دار نہیں جانتے جبکہ میں اُس کا امانت دار ہوں جو آسمان پر ہے ، اور مجھے صبح و شام آسمان سے

خبر آتی ہے ﴿ صحیح البُخاری حدیث 4351 ، کتاب المغازی باب کی تیسری حدیث ، صحیح مُسلم حدیث 1064 ، کتاب الزکاة ، باب 47 )

وہ کون ہے جِس کے امانت دار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور وہ آسمان پر ہے؟

۵۔ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " جِس نے پاک ( حلال ) کمائی سے کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا ، اور ( یاد رکھو کہ ) اللہ کی طرف پاکیزہ ( چیز ) کے عِلاوہ اور کچھ نہیں چڑھتا ، تو اللہ اُس صدقہ کو اپنے سیدھے ھاتھ میں قبول فرماتا ہے اور اُسکو صدقہ کرنے والے کےلئیے بڑھاتا ہے یہاں تک وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے "

صحیح البُخاری حدیث 7430 کتاب التوحید )

۶۔ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا

" اُس کی قسم جِسکے ہاتھ میں میری جان ہے جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی انکار کرے تو وہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُسکا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا ﴿ صحیح مُسلم ، حدیث 1436 ، کتاب النکاح )

۷۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے ، تم اُن پر رحم کرو جو زمین پر ہیں ، تُم پر وہ رحم کرے گا جو آسمان پر ہے ، رحم رحمان کی صفات میں سے ہے جو اسے جوڑے گا اللہ اُسے جوڑے گا اور جو اسے توڑے گا اللہ اُسے کاٹے گا "﴿ سُنن الترمذی حدیث 1924 کتاب البر و الصلة ،امام الترمذی نے اِسے حسن صحیح قرار دِیا ہے ، سُنن ابو داود حدیث 4931 کتاب الادب )

۹۔ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " جب اللہ تخلیق مکمل کر چکا تو اُس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہو گی ، وہ کتاب اللہ کے پاس ہے ، اللہ کے عرش کے اوپر "

صحیح البُخاری حدیث 3194 کتاب بداء الخلق باب ۱ پہلی حدیث ، صحیح مُسلم حدیث 2751 کتاب التوبہ باب ۴ پہلی حدیث )

دیکھئیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صاف بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے ، آئیے دیکھتے ہیں کہ عرش کہاں ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ عرش یہیں کہیں ہو اور اللہ بھی ؟

۹۔ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " جو اللہ اور اُسکے رسول پر ایمان لایا اور نماز ادا کرتا رہا اور رمضان کے روزے رکھتا رہا ، تو اللہ پر ( اُسکا ) یہ حق ہے کہ اللہ اُسے جنّت میں داخل کرے ، خواہ اُس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی بستی میں ہی زندگی گُذاری ہو"۔﴿ صحابہ نے کہا " اے اللہ رسول کیا ہم لوگوں کو یہ خوشخبری سنائیں" ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " اللہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کےلئیے جنّت میں ایک سو درجات بنا رکھے ہیں ، ہر دو درجات کے درمیان ایسا ہے جیسا کہ زمین اور آسمان کے درمیان ہے ، لہذا جب تُم اللہ سے سوال کرو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا درمیانی اور سب سے بُلند مُقام ہے اور اُسکے اُ وپر رحمان کا عرش ہے جِس میں سے جنّت کی نہریں پھوٹتی ہیں" ﴿

صحیح البُخاری ، حدیث 2790 ، کتاب الجھاد و السیر ، باب ۴ پہلی حدیث )

۱۰۔ جریر رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " جو اُن پر رحم نہیں کرتا جو زمین پر ہیں اُس پر وہ رحم نہیں کرتا جو آسمان پر ہے "

المعجم الطبرانی حدیث 2497 ، الترغیب و الترھیب حدیث 2255، امام المنذری کا کہنا ہے کہ طبرانی نے یہ حدیث بہت اچھی اور مضبوط سند سے روایت کی ہے ۔

۱۱۔ سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " تمہارا رب بہت حیا اور بزرگی والا ہے ، جب اُسکا کوئی بندہ اُس کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو اللہ اِس بات سے حیا کرتا ہے کہ وہ اِس بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے" ﴿ سُنن ابی داود 1485 ، المشکاة 2244 ، سُنن الترمذی3556 ، امام الالبانی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔

۱۲۔ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " مظلوم کی بد دُعا سے ڈرو کیونکہ وہ چنگاری کی طرح اللہ کی طرف چڑہتی ہے "۔ المستدرک علیٰ الصحیحین ، حدیث 81 ، اور صاحبِ کتاب امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث امام مُسلم کی شرئط کے مُطابق صحیح ہے ۔

۱۳۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " معراج والی رات میں ایک بہت اچھی خوشبو کے پاس سے گزرا ، تو میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ خوشبو کیسی ہے ؟ تو اُس نے کہا ، یہ اُس عورت کی ہے جو فرعون کی بیٹی کو کنگھی کیا کرتی تھی ، ایک دِن اُسکے ہاتھ سے کنگھی گر پڑی تو اُس نے کہا ، بِسم اللہ ، فرعون کی بیٹی نے کہا ، یعنی میرا باپ ؟ کنگھی کرنے والی نے کہا ( نہیں بلکہ ) میرا اور تمہارے باپ کا رب ، فرعون کی بیٹی نے کہا ، کیا میں اپنے باپ کو یہ بتاوں ؟ ، کنگھی کرنے والی نے کہا ہاں ، فرعون نے اُس عورت کو ( بلا کر ) پوچھا ، کیا میرے عِلاوہ تمہارا کوئی اور رب ہے ؟ عورت نے جواب دِیا ، میرا اور تمہارا رب وہ ہے جو آسمان پر ہے"

مُسند احمد ، حدیث 2824 ، مُسند ابی یعلیٰ ، حدیث 2511 ۔

۱۴۔نواس بن سمعان الکلبی رضی اللہ عنہ ُ فتنہء دجال کے بارے میں ایک لمبی حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " جب یاجوج ماجوج بیت المقدس کے پہاڑ کے پاس پہنچیں گے تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے اُنہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ اُن کے تیروں کو خون کی طرح سرخ کر کے اُن کی طرف پلٹا دے گا "

صحیح مُسلم ، حدیث 2937 ، کتاب الفتن )

۱۵۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہء حج بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " کیا میں نے تم لوگوں تک بات پہنچا دی ہے"؟ ﴿ سب لوگوں نے جواب دِیا ” جی ہاں “ ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اُنگلی سے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے پھر آسمان کی طرف اُٹھا تے او ر فرماتے " اے اللہ گواہ رہ "۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسا تین مرتبہ کیا اور کہا۔ ﴿ صحیح مُسلم ، حدیث 1218 ، کتاب الحج ، باب حجة النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِن فرامین میں صاف صاف واضح طور پر یہ تعلیم دے گئی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش کے اُوپر ہے اور اپنی تمام مخلوق کے تمام احوال جانتا ہے ، اُمید تو نہیں کہ کوئی صاحبِ ایمان اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ فرامین پڑھنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود سمجھتا رہے ، اور اللہ کو اُوپر کہنے کو کفر کہے ، پھر بھی مزید تسلی کے لئیے اور جیسا کہ میں نے آغاز میں لکھا ، اب صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور اُمت کے بڑے بڑے اماموں کے اقوال نقل کرتا ہوں تاکہ وہ دِل جو ائمہ کی تقلید میں بندھے ہیں ، کہنے کی حد تک فقط ، عقیدے اور عمل میں اُن ائمہ کی تقلید نہیں کرتے اُن کے لئیے بھی حُجت ہو جائے ان شاء اللہ ، اور حق جاننے اُسے سمجھنے اور اُس پر ایمان لانے کی توفیق اللہ ہی دینے والا ہے ۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال

سابقہ ذِکر شدہ آیاتِ قرانیہ کے اور احادیثِ نبویہ کے بعد اب صحابہ رضی اللہ عنہُم اجمعین اور تابعین اور تبع تابعین اور اُنکے بعد آنے والے اُمت کے بڑے ائمہ کے اقوال نقل کرتا ہوں اُسکے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ اِس موضوع پر پائے جانے والے شکوک و شبہات کا منطقی اور فلسفیانہ جواب ہوگا ۔

۱۔ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے اور جُھک کر اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میّت کو ماتھے پر بوسہ دِیا اور کہا " آپ پر میرے باپ اور ماں قُربان ہوں آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور مر کر بھی پاکیزہ ہیں ::: اور پھر کہا ::: جو کوئی محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی عبادت کرتا تھا ( تو وہ یہ جان لے کہ ) بے شک محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) مر گئے ہیں اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے ( تو وہ یہ جان لے کہ ) اللہ آسمان پر زندہ ہے ( اور کبھی ) نہیں مرے گا "۔

امام بُخاری کی ” التاریخ الکبیر “ حدیث 623 امام الذھبی اور امام السخاوی نے اِسے صحیح قرار دِیا ۔

۲۔ قیس رحمہ ُ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ، جب عُمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ شام گئے تو وہ اپنی اُونٹنی پر سوار تھے ، لوگوں نے اُن سے کہا اگر آپ گھوڑے پر سوار ہوتے تو اچھا تھا کیونکہ آپ کو بڑے بڑے لوگ ملنے کے لئیے آئے ہیں تو عُمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ نے فرمایا " کیا میں تُم لوگوں کو یہاں سے دِکھائی نہیں دے رہا اور بلا شک فیصلے تو وہاں سے ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے اپنی اُنگلی سے آسمان کی طرف اِشارہ کیا ﴿ مصنف ابن ابی شیبہ ، 38021، امام الالبانی نے کہا کہ اِس کی سند بخاری اور مُسلم کی شرائط کے مُطابق صحیح ہے ۔

۱۳۔ الحافظ القاضی بو احمد محمد بن احمد العسال الاصبہانی رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے روایت کی کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے کہا " جِس نے کہا ”’ سُبحَانَ اللَّہ و الحَمدُ لِلَّہِ و اللَّہُ اکبر “‘ ” اللہ پاک ہے اور خالص تعریف اللہ کی ہی ہے اور اللہ سب سے بڑا ہے “ تو ان الفاظ کو ایک فرشتہ لے کر اللہ عز و جلّ کی طرف چڑھتا ہے ، اور جِن جِن فرشتوں کے پاس سے وہ گزرتا ہے وہ فرشتے یہ لفاظ کہنے والے کےلئے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں یہاں تک کہ اِن الفاظ سے رحمان کا چہرہ خوش ہو جاتا ہے"۔

امام شمس الدین الذہبی نے ” العلو للعل¸ الغفار “ میں کہا کہ اِس روایت کی سند صحیح ہے ۔

۱۴۔۱مام عثمان بن سعید الدارمی نے اپنی کتاب” الرد علیٰ الجھمیہ “ میں صحیح سند کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا یہ قول نقل کیا " کبھی کِسی بندے کو تجارت و حکومت کی خواہش ہوتی ہے اور جب وہ کام اُس کےلئیے آسان ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُسکی طرف ساتوں آسمانوں کے اُوپر سے دیکھتا ہے اور فرشتوں سے کہتا ہے :: اِن کاموں کو اِس بندے سے دور کر دو اگر یہ کام میں نے اس کےلئیے مہیا کر دئیے تو یہ کام اِسے جہنم میں داخل کرنے کا سببب بن جائیں گے "

امام ابن القیم نے بھی ” الجیوش الاسلامیہ “ میں اِس روایت کی سند کو درست قرار دِیا ہے ۔

۱۵۔ ابن ابی ملیکہ رحمہ ُ اللہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی موت کی بیماری کے وقت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اُن کے پاس آنے کی اجازت طلب کی تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا مجھے اُس سے کوئی کام نہیں تو عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ ( جو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بڑے بھائی ہیں ) نے کہا " ابن عباس آپ کے نیک بیٹوں میں سے ہے (بیٹا اس لیے کہا کہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیویاں تمام ایمان والوں کی مائیں ہیں) اور آپکی عیادت ( مزاج پُرسی ) کے لئیے آیا ہے " تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو آنے کی اجازت دِی ، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آنے کے بعد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مزاج پُرسی کی اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُنکی تعریف کرتے ہوئے کہا " امی جان آپ خوش ہو جائیں ،،،،،،،،،،،، آپ تو وہ ہیں جِس کی پاکیزگی کی گواہی اللہ عز و جلّ نے سات آسمانوں کے اُوپر سے نازل کی ، اور کوئی مسجد ایسی نہیں جِس میں دِن کے آغاز و اختتام کے اوقات میں اور رات میں اللہ کا ذِکر کیا جاتا ہو اور ( اُس کے ساتھ ) آپ کی اِس پاکیزگی کے ذِکر کی تلاوت نہ ہوتی ہو ﴿ مستدرک الحاکم ،حدیث 6726 ، امام الحاکم اور امام الذہبی نے صحیح قرار دِیا ، مُسند ااحمد ، حدیث 2496 )

۱۶۔ انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ " اُم المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دوسری بیگمات کو فخر کے ساتھ کہا کرتی تِھیں " تُم لوگوں کو تمہارے خاندان والوں نے بیاہا اور میری شادی اللہ نے سات آسمانوں کے اُوپر سے کی ﴿ اور دوسری روایت میں ہے کہ کہا کرتی تِھیں ﴾ اللہ تعالیٰ نے میرا نکاح آسمان پر کِیا" ﴿ صحیح البُخاری حدیث

7420 ،7421 کتاب التوحید باب ۲۲ کی تیسری اور چوتھی حدیث)





چاروں اماموں کے اقوال

امام نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمہ ُ اللہ

ابو اسماعیل الانصاری اپنی کتاب ”’ الفاروق “‘میں ابی مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی الحنفی (جنہوں نے فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب ”’ الفقہ الاکبر “‘ لکھی ، عام طور پر اِس کتاب کو امام ابو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے منسوب کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے) ، اِن ابی مطیع کے بارے میں لکھا کہ اُنہوں نے امام اابو حنیفہ رحمہ ُ اللہ سے پوچھا ”’ جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین پر ہے یا آسمان پر تو ایسا کہنے والا کا کیا حُکم ہے"؟ تو امام ابو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے کہا " تو اُس نے کفر کیا کیونکہ اللہ کہتا ہے الرحمٰن ُ علیٰ العرش استویٰ ،،،، الرحمٰن عرش پر قائم ہوا ﴿ اور اُسکا عرش ساتوں آسمانوں کے اُوپر ہے " میں نے پھر پوچھا ”’ اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ عرش آسمان پر یا زمین پر ہے ( تو پھر اُسکا کیا حُکم ہے ) “‘ تو امام ابو حنیفہ رحمہ ُ اللہ نے کہا " ایسا کہنے والا کافر ہے کیونکہ اُس نے اِس بات سے اِنکار کیا کہ اللہ کا عرش آسمانوں کے اُوپر ہے اور جو اِس بات سے اِنکار کرے وہ کافر ہے "

امام ابو حنیفہ رحمہ ُ اللہ کا ذِکر آیا ہے تو پہلے اُن سے منسوب فقہ کے اماموں کی بات نقل کرتا چلوں ،

امام ابو جعفر الطحاوی الحنفی ( تاریخ وفات 321 ھ )اپنی کتاب عقیدہ الطحاویہ میں کہتے ہیں " اللہ عرش اور اُسکے عِلاوہ ہر چیز سے غنی ہے اور ہر چیز اُس کے احاطہ میں ہے اور وہ ہر چیز سے اُوپر ہے اور اُسکی مخلوق اُسکا احاطہ کرنے سے قاصر ہے "

امام صدر الدین محمد بن العلاء الدین ، جو ابن ابی العز الحنفی کے نام سے مشہور ہیں ، اِس ”’ عقیدہ طحاویہ “‘ کی شرح میں امام الطحاوی کی اِس مندرجہ بالا بات کی شرح میں لکھتے ہیں کہ " یہ بات پوری طرح سے ثابت ہے کہ اللہ کی ذات مخلوق سے ملی ہوئی نہیں ( بلکہ الگ اور جدا ہے ) اور نہ اللہ نے مخلوقات کو اپنے اندر بنایا ہے ( یعنی اللہ کا ہر چیز پر محیط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مخلوقات اُس کے اندر ہیں بلکہ وہ محیط ہے اپنے عِلم سے اور اِس کے دلائل ابھی آئیں ان شاء اللہ تعالیٰ )۔ اسکے بعد اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے بُلند اور اُوپر ہونے کے دلائل میں لکھا " فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی اِس بات کو نہ مانا کہ اُنکا رب آسمانوں پر ہے اور اِس بات کا مذاق اور اِنکار کرتے ہوئے کہا " اے ھامان میرے لئیے بالا خانہ بناو شاید کہ میں آسمان کے قریب پہنچ جاؤں اور وہاں سے موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں اور بے شک میں اِسے ( یعنی موسی کو ) جھوٹا سمجھتا ہوں ﴿ لہذا جو اللہ تعالیٰ کے ( اپنی مخلوق سے الگ اور ) بُلند ہو نے کا اِنکار کرتا ہے وہ فرعونی اور جہمی ہے ، اور جو اقرار کرتا ہے وہ موسوی او ر محمدی ہے"۔

امام مالک بن انس بن مالک رحمہ ُ اللہ

مھدی بن جعفر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مام مالک بن انس رحمہ ُ اللہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اُس نے کہا اے ابو عبداللہ ! الرحمٰن ُ علیٰ العرش استویٰ " الرحمٰن عرش پر قائم ہوا " ، کیسے قائم ہوا ؟ ، اِس سوال پر مام مالک رحمہ ُ اللہ اتنے غصے میں آئے کہ میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا کہ غصہ کی شدت سے پسینے پسینے ہوگئے ، اور مام رحمہ ُ اللہ بالکل خاموش ہو گئے ، لوگ انتظار کرنے لگے کہ اب مام صاحب کیا کہیں گے ، کافی دیر کے بعد مام رحمہ ُ اللہ نے کہا " اللہ کا عرش پر قائم ہونا ( یعنی استویٰ ) انجانی چیز نہیں ، اور ( اللہ کے استویٰ کی ) کیفیت عقل میں آنے کی نہیں ( کیونکہ اُس کی ہمارے پاس کوئی خبر نہیں نہ اللہ کی طرف سے اور نہ ہی اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ) ، اور اِس پر یمان لانا فرض ہے ، اور اِسکے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ، اور مجھے ڈر ہے کہ تو ایک گمراہ آدمی ہے۔ ﴿ پھر مام مالک رحمہ ُ اللہ نے اُس آدمی کو مسجد ( بنوی ) سے نکال دینے کا حُکم دِیا اور اُس کو نکال دِیا گیا ۔

( اثبات الصفة العلو “‘ روایت 401 ، امام موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی۔ امام الذہبی نے کہا کہ یہ قول امام مالک سے ثابت ہے ۔

عبداللہ بن نافع کا کہنا ہے کہ مام مالک رحمہ ُ اللہ نے کہا

" اللہ آسمان پر ہے اور اُسکا عِلم ہر جگہ ہے اور اُسکے عِلم

سے کوئی چیز خارج نہیں" ( اعتقاد اہل السُّنةامام ھبة اللہ اللالاکائی ،،،، ”’ التمھید)

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ ُ اللہ

ابی شعیب ، اور ابی ثور رحمھما اللہ کہتے ہیں کہ امام الشافعی رحمہ ُ اللہ نے کہا " میں نے ا مام مالک اور امام سفیان الثوری اور دیگر تابعین ( انکا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا ) کو سُنّت کی جِس بات پر پایا میں بھی اُس پر ہی قائم ہوں اور وہ یہ ہے کہ اِس بات کی شہا دت دِی جائے کہ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور اللہ آسمان پر اپنے عرش پر ہے ، جیسے چاہتا ہے اپنی مخلوق کے قریب ہوتا ہے ، اور جیسے چاہتا ہے دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتا ہے" ( العلو للعل، الغفار،‘امام الذہبی)

امام احمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ

یوسف بن موسیٰ البغدادی کہتے ہیں کہ ، امام احمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ سے پوچھا گیا :::: کیا اللہ عز و جلّ ساتویں آسمان کے اُوپر اپنے عرش پر ، اپنی تمام مخلوق سے الگ ہے ، اور اُسکی قدرت اور عِلم ہر جگہ ہے ؟ :::: تو امام احمد بن حنبل رحمہ ُ اللہ کہا " جی ہاں اللہ عرش پر ہے اور اُس ( کے عِلم ) سے کچھ خارج نہیں "

العلامہ ابن القیم نے ”الجیوش الاسلامیہ “ میں کہا کہ اِس روایت کو

ابو بکر الخلال نے ”’ السّنہ “‘ میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔



اقوال تابعین و تبع تابعین

۱۔ مسروق بن ا لاجداع الھمدانی الکوفی رحمہ ُ اللہ (تابعی :::تاریخ وفات 62 )

مسروق تابعی ہیں۔ بہت سے صحابہ سے سُنّتِ رسول کا عِلم حاصل کِیا اور آگے پہنچایا ، جب یہ ایمان والوں کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث روایت کرتے تو کہا کرتے " مجھے صدیق کی بیٹی صدیقہ ، اللہ کے حبیب کی حبیبہ ، جِسکی برات سات آسمانوں کے اُوپر سے ہوئی ، نے بتایا ﴿ اور پھر حدیث بیان کرتے ۔

اِمام ابن القیم نے ”’ الجیوش الاسلامیہ “‘ میں اِس قول کو صحیح قرار دِیا ۔

۲۔ سُفیان الثوری ( تابعی ::: تاریخ وفات ۱۶۱ ھ ) رحمہُ اللہ کہتے ہیں کہ میں ربعیہ بن ابی عبدالرحمان رحمہ ُ اللہ ( تابعی ::: تاریخ وفات 134 ھ ) کے پاس تھا کہ ایک آدمی نے اُنہیں پوچھا"رحمٰن عرش پر استوا کئیے ہوئے ہے ، اِس استوا کی کیفیت کیا ہے" ؟ تو اُنہوں نے جواب دِیا " استوا کیا ہے یہ سب کو معلوم ہے ، اور ( اللہ کے) اِس استوا کی کفیت کیا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں لیکن اِس پر یمان لانا فرض ہے اور اِس کفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے" ﴿ الذہبی نے ” العلو للعلی الغفار “ میں یہ روایت نقل کی ، اور الاالبانی نے اِس کو صحیح السند قرار دِیا ۔

۳۔ ابن عیینہ ابو عمران ( تبع تابعی ::: تاریخ وفات 198 ھ ) رحمہُ اللہ کہتے ہیں کہ میں ربعیہ بن ابی عبدالرحمان رحمہ ُ اللہ ( تابعی ::: تاریخ وفات 143 ھ ) کے پاس تھا کہ ایک آدمی نے اُنہیں پوچھا" رحمٰن عرش پر استوا کئیے ہوئے ہے ، اِس استوا کی کیفیت کیا ہے" ؟ تو اُنہوں نے جواب دِیا " استوا کیا ہے یہ سب کو معلوم ہے ، اور ( اللہ کے) اِس استوا کی کفیت کیا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ، اور یہ پیغام اللہ کی طرف سے ہے ، اور رسول کے ذمے اسکی تبلیغ تھی ( سو وہ اُنہوں نے کر دی ) اور ہمارے ذمے اِس کی تصدیق کرنا ہے ( جو ہم کرتے ہیں )"۔

﴿ ھبة اللہ بن الحسن اللالکائی ابو منصور سے ” اعتقاد اہل السنة “ میں صحیح سند کے ساتھ روایت کِیا ۔)

۴۔ مقاتل بن حیان النبطی ابو بسطام( تبع تابعی تاریخ وفات 150 ھ ) رحمہُ اللہ قران کی آیت " ما یکون مِن نجویٰ ،،،، تین آدمیوں کی سرگوشی ایسی نہیں ہوتی مگر اللہ اِنکا چوتھا ہوتا ہے " کی تفسرکے بارے میں ضحاک بن مزاحم الہلالی رحمہ ُ اللہ ( تبع تابعی ::: تاریخ وفات 106 ھ ) کی طرف سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا " اللہ اپنے عرش پر ہے اور اُس کا عِلم ان کے ساتھ ہے"۔ ﴿ علامہ قاضی اصبہان ابو احمد العسال اور ھبة اللہ اللالاکائی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ۔

۶۔ صدقہ ابن المنتصر کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان التیمی ( سلیمان بن بلال التیمی تبع تابعی ::: تاریخ وفات 172 ھ ) سے سُنا کہ وہ کہہ رہے " اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ اللہ کہاں ہے تو میں کہوں گا کہ وہ آسمان پر ہے" ﴿ امام الذہبی ، ”’ العلو للعل¸ الغفار “‘ روایت 114 ، الالبانی کا کہنا ہے کہ ھبة اللہ اللالاکائی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا )

ولید بن مُسلم کہتے ہیں کہ میں نے امام عبدالرحمٰن بن عَمرو الاوزاعی رحمہ ُ اللہ اور امام مالک بن انس رحمہ ُ اللہ ( تبع تابعی ::: تاریخ وفات 179 ھ) اورامام سُفیان الثوری رحمہ ُ اللہ ( تبع تابعی ::: تاریخ وفات 141 ھ) اور اللیث بن سعد الفھمی المصری ھ ) ( تبع تابعی ::: وفات 175 ھ ) رحمہ ُ اللہ سے اُن احادیث کے بارے میں لوچھا جِن میں اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا ذِکر ہے تو امام نے کہا ﴾ اِن پر ایسے ہی ایمان رکھو جیسا کہ احادیث میں آیا ہے

محمد بن ابراہیم ا لاصبہانی کا کہنا ہے کہ ابو زرعہ سے"الرحمٰن علیٰ العرش استویٰ " کی تفسیر پوچھی گئی تو اُنکو غصہ آ گیا اور اُنہوں نے کہا " اِسکی تفسیر بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ تُم اِسے پڑھتے ہو ، اللہ اپنے عرش کے اُوپر ہے اور اِس کا عِلم ہر جگہ ہے ، اور جو اِس کے عِلاو ہ کچھ اور کہتا ہے تو اُس پر اللہ کی لعنت ہو "۔ ( العلو للعلی الغفار امام شمس الدین الذہبی )

ابی القاسم الطبرانی سے روایت ہے کہ امام معمر بن زیاد(وفات 395 ھ) نے کہا " میں اپنے ساتھیوں کو اِس بات کی وصیت کرتا ہوں جو کہ سُنّت میں ہے اور جِس پر اہلِ حدیث اور اہلِ تصوف و معرفت کا اتفاق ہے اور وہ یہ ہے کہ " اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر قائم ہے اور اِس (صفت) کی کیفیت ہم نہیں جانتے ، لہذا نہ تو اِسے کِسی سے تشبیہہ دیتے ہیں اور نہ ہی اِسکی کوئی تاویل کرتے ہیں ، کیونکہ قائم ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن اللہ کے لئیے اِسکی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ، اور یہ کہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے جدا اور الگ ہے اور اُسکی تمام مخلوق اُس سے جدا اور الگ ہے ، پس خالق اور مخلوق میں نہ کوئی حلول ہے ، نہ اِک دُوجے کے ساتھ لگنا ہے اور نہ ہی اِک دُوجے سے جُڑنا ہے ، اور اللہ سُنتا ہے ، دیکھتا ہے ، عِلم رکھتا ہے ، سب کچھ جانتا ہے ، بات کرتا ہے ، خوش ہوتا ہے ناراض ہوتا ہے ، پسند کرتا ہے ، ھنستا ہے ، اور قیامت والے دِن اپنے بندوں کے سامنے ھنستا ہوا آئے گا ، اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے نزول ( یا کِسی بھی صفت ) کا

اِنکار کرے وہ گُمراہ اور بدعتی ہے "۔

الحافظ احمد بن عبدا للہ بن احمد ابو نعیم الاصبہا نی رحمہ ُ ا للہ (وفات 430 ھ)اپنی کتاب ”’ الاعتقاد “‘ میں لکھتے ہیں " ہمارا راستہ وہ ہی جو سلف ( گزرے ہوئے بزرگ ، یعنی صحابہ تابعین و تبع تابعین ) کا تھا یعنی کتاب اور سُنّت اور اجماعِ اُمت والا راستہ ، اور اُن کا عقیدہ یہ ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ اُس طرح ہی مکمل ہے جیسا کہ وہ ہمیشہ سے تھا ، اُس کی صفات میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی ، ہمیشہ کی طرح وہ اپنے عِلم کے ساتھ عالِم ہے ، اپنی بصارت کے ساتھ بصیر ہے ، اپنی سماعت کے ساتھ سمیع ہے ، بات کرتے ہوئے بولتا ہے ، پھر وہ ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا ، اور یہ کہ قُرآن اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابیں اللہ کا کلام ہیں ، اور اُسکا کلام مخلوق نہیں ہے ، اور یہ کہ قُرآن ہر لحاظ سے یعنی پڑھے جانے ، سنے جانے ، محفوظ حالت میں ، لکھی ہوئی حالت میں ، لپٹی ہوئی حالت میں ، ہر لحاظ سے اللہ کا کلام ہے حقیقی طور پر نہ کہ حکایت ہے اور نہ ہے کوئی تاویل ، اور جب ہم اُسے پڑھتے ہیں تو وہ ہمارے اِلفاظ میں بھی اللہ کا کلام ہی ہے اور غیر مخلوق ہی ہے ، اور ( قُرآن کو مخلوق قرار دینے کےلئیے ) الفاظ کا فلسفہ فرقہ جہمیہ کی طرف سے آیا ہے اور یہ کہ جو قُران کو کِسی بھی لحاظ سے کِسی بھی طور مخلوق کہتا ہے وہ سلف ( گزرے ہوئے بزرگ ، یعنی صحابہ تابعین و تبع تابعین ) کے نزدیک جہمی ہے اور جہمی کو سلف ( گزرے

ہوئے بزرگ ، یعنی صحابہ تابعین و تبع تابعین ) کافر جانتے تھے"۔

سلف ( گزرے ہوئے بزرگ ، یعنی صحابہ تابعین و تبع تابعین ) کے عقائد کو بیان کرتے ہوئےامام ابو نعیم الاصبہانی مزید لکھتے ہیں کہ " اور وہ اُن تمام احادیث پر یقین رکھتے تھے اور اُن کو بیان کیا کرتے تھے جِن احادیث میں عرش کا ہونا ثابت ہے اور اللہ کا عرش کے اُوپر قائم ہونا ثابت ہے ، اور وہ اللہ کے عرش پر قائم ہونے کو بغیر کِسی کیفیت کے مانتے تھے اور اِس کو ثابت کرتے تھے ، اور یہ عقیدہ رکھتے تھے اللہ اپنی تمام مخلوق سے الگ اور جدا ہے اور اُسکی تمام مخلوق اُس سے الگ اور جدا ہے ، نہ تو وہ کِسی کے ساتھ جُڑتا ہے اور نہ ہی کِسی میں حل ہوتا ہے ، اور وہ اپنے آسمانوں سے اُوپر اپنے عرش پر قائم ہے "۔

امام ابو نعیم الاصبہانی نے اِن تمام باتوں پر سلف ( گزرے ہوئے بزرگ ، یعنی صحابہ تابعین و تبع تابعین ) کا متفق ہونے کا ذِکر کیا اِسی لئیے میں اِس بات کو سب سے آخر میں لایا ہوں ، ہو سکتا ہے کِسی پڑھنے والے کے دِل میں یہی خیال آئے کہ جِن بزرگوں کے اقوال میں نے ذِکر کئیے ہیں اُن میں سے حدیث کے معروف اماموں میں سے کوئی بھی نہیں تو عرض یہ ہے کہ تمام تر ائمہ حدیث کی کتابوں میں وہ تمام حدیثیں موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کو ثابت کرتی ہیں ، اِن اماموں کا اپنی کتابوں میں اِن احادیث کو موضوع کے مطابق عنوان بنا کر ذِکر کرنا اُنکی فقہ اور عقیدے کا اظہار ہی تو ہے۔

شکوک و شبہات

اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود کہنے والوں اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کی تاویل یا اُن کا اِنکار کرنے والوں کا سب بڑا مسئلہ قُرآن کو سمجھنے کےلئیے غلط راستوں یعنی منطق ، فلسفہ ، وغیرہ کو اپنانا ہے میں نے آغاز میں جس آیت کا ترجمہ نقل کیا تھا یعنی"ہم نے یہ ذِکر ( قُرآن ) آپ کی طرف نازل کیا ہے تا کہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اُسے صاف کھول کھول کر بیان کر دیں شاید کہ وہ غور و فِکر کریں " اسے دوبارہ ذہن میں تازہ کر لیں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور احکامات کے بیان و تفسیر کی ذمہ داری اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی ہے اور اپنا کلام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف نازل کرنے کا سبب ہی یہ بتایا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُس کو بیان کریں ، اور یہ اللہ تعالیٰ کی سّنّت ہے کہ ہمیشہ اپنے رسولوں کے ذریعے ہی اپنے احکام کو نازل کیا ہے تا کہ اُن کی تفسیر و بیان اللہ کے رسول کریں اور اپنی اپنی قوم کو سمجھائیں ، اور ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام اقوام کی طرف بھیجے گئے اور آخری پیغام کے ساتھ بھیجے گئے پس قُرآن کو سمجھنے کےلئیے ہمیں صرف قُرآن اور صحیح حدیث تک ہی محدود رہنا چاہئیے ، اور احادیث کی تفسیر اور شرح کےلئیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال تک ،

جب مسلمانوں نے اِن ذرائع کو ترک کر دِیا اور قُرآن و سُنّت کو اپنی اپنی عقل اور اپنے اپنے مزاج ، اور منطق ، فلسفہ ، اور محض لغت کے قواعد ( گرائمر ) کے مطابق سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا تو اِس قِسم کے باطل عقائد دِلوں اور ذہنوں میں دِاخل ہوئے اور پھر شیطان (اللہ کی لعنت ہو اُس پر) کی کوششوں سے اِن باطل عقائد کو طرح طرح کی نئی فلسفیانہ گرہیں وقتاً فوقتاً لگتی رہی ہیں ، اور لگتی رہتی ہیں ، کیونکہ یہ اُس کا کام ہے جِس کےلئیے اُس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت مانگ رکھی ہے ، پس اُمت طرح طرح کے شبہات و شکوک کا شکار ہوتی گئی ،

اس بارے میں جو شبہات عام طور پر ذھنوں میں پائے جاتے ہیں اُن کا شکار ہونے والے لوگ اُن شبہات کا اظہار کچھ اِن اِلفاط میں کرتے ہیں :::

۱۔ اللہ کو اُوپر ( یعنی عرش ) پر مانا جائے تو اللہ کے لئیے مکان ( یعنی جگہ ) ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے ۔ ( گو کہ کفر کے اِس فتوے کی اُنکے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے منطق اور فلسفہ زدہ باتوں کے)

۲۔ "اِس طرح اللہ کے لئے ایک سمت کا تعین ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو ایک سمت میں مان لیا جائے تو باقی سمتیں اُس سے غائب ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شان شایان نہیں ، بلکہ اللہ کے فرمان " الا انہ ُ بکُل شیءٍ مُحیط ﴿ یعنی ﴾ بے شک اللہ ہر چیز کا احاطہ کئیے ہوئے ہے کے خلاف ہے " ۔

۳۔ " اِس طرح اللہ کی مخلوق سے مشابہت ہو جاتی ہے اور یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴾ لیس کمثلہ شیء "اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں " ۔
[/font]
 

قسیم حیدر

محفلین
سابقہ صفحات میں اِن شبہات کے باطل ہونے کے اتنے دلائل ذِکر کئیے جا چکے ہیں جو اِن شاء اللہ کافی سے بھی زیادہ ہیں لیکن پھر بھی منطق اور فلسفہ زدہ دِلوں اور دماغوں کےلئیے اب میں اگلے صفحات میں اِنشاء اللہ تعالیٰ اِن تمام شبہات کا کچھ منطقیانہ اور فلسفیانہ جواب دیتا ہوں تا کہ یہ کتاب پڑھنے والوں پر اِن شبہات کی حقیقت اللہ کے حُکم سے بالکل واضح ہو جائے اور وہ اِن کے چُنگل سے آزاد ہو کر حق کو قبول کر لیں ۔

شکوک و شبہات کا جواب

سابقہ حصہ میں جِن شبہات کا ذِکر کیا گیا اُن میں سے پہلا شبہہ یہ ہے کہ اللہ کو اُوپر ( یعنی عرش ) پر مانا جائے تو اللہ کے لئیے مکان( یعنی جگہ ) ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے ۔

گو کہ کفر کے اِس فتوے کی فتویٰ دینے والوں کے پاس قُرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ، جی ہاں اُن کے دلائل فقط منطق اور فلسفہ زدہ باتیں ہیں ، اِن باتوں پر اُن کے اعتماد کی وجہ صرف یہ ہی کہ اُنہوں نے قُرآن و حدیث کو اپنی عقل اور مزاج کے مطابق سمجھا ، پس گُمراہ ہوئے اور گمراہی کا ذریعہ بنے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دِین کو اُسی طرح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے جِس طرح اُس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل کیا اور اُسی پر ہمارا عمل ہو اور اُسی پر ہمارا خاتمہ ہو ۔

اُوپر بیان کئیے گئے فتویٰ دینے والوں سے یا اِس فتویٰ کو درست ماننے والوں سے چند سوالات کرتا ہوں ،

بتائیے کہ مکان یعنی جگہ کوئی موجود یعنی وجود والی چیز ہے یا معدوم یعنی بلا وجود ؟

اگر آپ کہیں کہ معدوم ہے تو میں کہتا ہوں کہ ”’ جِس چیز کا وجود ہی نہیں تو پھر وہ اللہ کے لئیے یا کِسی اور کےلئیے ثابت کہاں سے ہو گئی ؟ “‘

اور اگر آپ یہ کہیں کہ مکان یعنی جگہ وجود والی چیز ہے تو میرا سوال ہے کہ ”’ کیا اِسکا وجود ازلی ہے یا اِسے عدم سے وجود میں لایا گیا ؟ “‘

اگر آپ کا جواب ہو کہ ” ازلی ہے “ تو آپ نے اِسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دِیا ، کیونکہ اللہ ہی اکیلا ہے جو ازل سے ہے اور ابد الابد تک رہے گا ، اور اگر آپ یہ کہیں کہ مکان یعنی جگہ کو عدم سے وجود میں لایا گیا ( اور درست بھی یہی ہے)

تو میرا سوال ہے کہ ”’ کیا آپ اِسے مخلوق مانتے ؟ “‘

اگر آپ کہیں نہیںتو پھر آپ نے اِسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دِیا کیونکہ اللہ ہی اکیلا ہر چیز کا خالق ہے اور اُس کے اور اُس کی صفات کے عِلاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اُس کی مخلوق ہے ، اور اگر آپ کہیں کہ ” ہاں مکان یعنی جگہ مخلوق ہے “ ( اور درست بھی یہی ہے)

تو میرا سوال ہے کہ " آپ اور میں اور جو کچھ ہم دیکھتے ہیں سب کِسی نہ کِسی مکان یعنی جگہ میں ہیں یعنی وجود در وجود اور سب مخلوق ہیں ، اور کِسی بھی مخلوق کے موجود باوجود ہونے کےلئیے یہ لازم ہے کہ وہ مکان رکھتی ہو ، پس یہ زمین جِس پر ہم ہیں ایک مخلوق ہے اور ایک وجود میں موجود ہے اپنے وجود کے ساتھ ، اور جِس میں یہ موجود ہے وہ وجود ایک مکان ہے جو کہ مخلوق ہے ، میں یہ پوچھتا ہوں کہ اِس مخلوق مکان کے بعد کوئی اور مخلوق ہے یا نہیں ؟ “‘

اگر آپ کہیں کہ نہیں تو یہ ایسی بات ہے جِس کو آپ خود بھی جھوٹ مانیں گے ، اور اگر کہیں کہ ” ہاں آسمان ہے “ ( اور درست بھی یہی ہے ) ، لہذا میں آپ کے اِس جواب سے اتفاق کرتا ہوں اور یقیناً آپ بھی اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اس آسمان کے بعد دوسرا آسمان ، پھر تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا اور پھر سب سے آخر میں ساتواں آسمان ہے ،

تو میں پوچھتا ہوں کہ ”’ یہ ساتوں آسمان کِسی مکان میں موجود ہیں یا بلا مکان ؟ “‘

اگر آپ یہ کہیں کہ بلا مکان تو یہ بات سراسر غلط ہوئی کیونکہ اِس طرح آپ اُن کے معدوم ہونے کا اِقرار کر رہے ہیں ، کیونکہ ہر مخلوق کے موجود با وجود ہونے کےلئیے مکان کا ہونا ضروری ہے کوئی مخلوق موجود باوجود نہیں ہو سکتی جب تک کہ اُس کے وجود کےلئیے مکان نہ ہو ، جیسا کہ میں نے اُوپر بیان کیا ، لہذا آپ کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ ” ہاں ساتوں آسمان موجود ہیں “ ۔

تو پھر سوال ہے کہ ”’ یہ ساتوں آسمان جِس مکان میں موجود ہیں اُس کا نام کیا ؟ “‘

شاید آپ کہیں خلاء تو یہ ایسی بات ہے جو کہ اُوپر بیان کئی گئی باتوں کے خلاف ہے کیونکہ خلاء کا معنی ہے خالی جہاں کچھ نہ ہو اور جو خود بھی کچھ نہ ہو اور ایسی چیز کو معدوم ہی کہا جائے گا موجود نہیں اور جب موجود نہیں تو مکان نہیں اور جب مکان نہیں تو اُس میں کِسی وجود کا موجود ہونا ممکن نہیں ، اور اگر آپ کہیں کہ ” یہ ساتوں آسمان جِس مکان میں موجود ہیں اُسے کائنات کہتے ہیں “ ( اور درست بھی یہی ہے)

تو پھر سوال ہے کہ ”’ کیا اِن ساتوں آسمانوں کے اُوپر بھی کوئی چیز ہے یا کائنات ختم ہو گئی ؟ “‘

آپ شاید من گھڑت روایت کی بنا پر یہ کہیں کہ ” کروبیین فرشتے “ اگر ایسا ہے تو میں وقتی طور پر آپ کی یہ بات مان کر اگلا سوال کرتا ہوں کہ ”’ اِن نام نہاد کروبیین فرشتوں کے بعد کیا ہے ؟ “‘

اور اگر آپ کروبیین فرشتوں کی بات نہیں کرتے اور آپ عرش کے منکر نہیں تو پھر آپ کا جواب ہو گا کہ ” آسمانوں کے بعد عرش ہے “ ( اور درست بھی یہی ہے)

اب میرا سوال ہے کہ ”’ عرش کے بعد کونسی سی مخلوق ہے ؟ “‘

یقینا اِس کا جواب ” کوئی مخلوق نہیں “ کے عِلاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ،

کیونکہ یہ ہی حق ہے ، کائنات کی سب سے بلند چیز اور زمین اور آسمانوں پر محیط عرش اللہ تعالیٰ کی آخری مخلوق ہے وَسِعَ کُرسیّہ ُ السمٰواتِ والارض " اللہ کی کرسی ( عرش ) نے زمین اور آسمانوں کو گھیر رکھا ہے "

تو اب غور فرمائیے کہ اگر عرش کے بعد کوئی مخلوق نہیں ، اور یقینا نہیں لہذا کائنات ختم ہو گئی تو اُسکے اُوپر اللہ تعالیٰ کے ہونے سے اللہ تعالیٰ کےلئیے کون سا مکان یعنی جگہ ثابت ہوتی ہے جب کہ یہ بات ثابت ہو چکی کہ مکان عدم سے وجود میں لائی گئی مخلوق ہے اور جب کائنات ہی ختم ہو گئی ، مخلوق ہی ختم ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کےلئیے مکان کا ثابت ہونا کیسا ؟ کائنات کی انتہا کے بعد تو مخلوق عدم ہوئی پھر وہاں کِسی مخلوق کا وجود کیسا ؟

فاعتبروا یا اُولیٰ الابصار

اے عقل والو عبرت حاصل کرو

ذرا اِدھر بھی توجہ فرمائیے ، اُوپر ذِکر کئیے گئے فتوے کا غلط ہونا ثابت ہو چکا ، اگر وقتی طور پر اِس کو مان بھی لیا جائے کہ یہ کہنے سے کہ اللہ اُوپر ہے ، اللہ کےلئیے مکان ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے ، تو میں کہتا ہوں کہ اِس طرح اللہ کے لئیے ایک مکان ثابت ہوتا ہے ، اور جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے وہ اللہ کےلئیے کتنے مکان ثابت کرتے ہیں ؟

اگر ایک مکان یعنی جگہ ثابت کرنا کفر ہے تو پھر یہ فلسفہ زدہ فتویٰ دینے والے جو اللہ کو ہر جگہ موجود کہتے ہیں اُن کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟

ذرا یہ بھی سوچئیے کہ اگر یہ درست ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے تو کیا نعوذ باللہ ، اللہ تعالیٰ غسل خانوں ، بیت الخلاء ، زنا کے اڈوں ، شراب کے اڈوں ، جوئے کے ٹھکانوں ، سینما گھروں ، گرجا گھروں ، مندروں اور اِن سے بھی پلید اور گندی جگہوں پر جہاں سراسر حرام اور پلید کام ہوتے ہیں وہاں بھی موجود ہے ؟

کِس قدر گندہ عقیدہ ہے یہ کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ کی شان میں کتنی بڑی گستاخی ہے ، اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ ایسی جگہوں میں نہیں بلکہ صرف پاک جگہوں میں ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ اللہ کے ہر جگہ موجود ہونے کی تو کوئی دلیل آپ کے پاس ہے نہیں اب اُس میں کِسی جگہ ہونے اور کِسی جگہ نہ ہونے کی دلیل کہاں سے لائیں گے ؟



دوسرا شک جِس کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ :::

”’ اِس طرح اللہ کےلئے ایک سمت کا تعین ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو ایک سمت میں مان لیا جائے تو باقی سمتیں اُس سے غائب ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شان شایان نہیں ، بلکہ اللہ کے فرمان ﴾ الا انہ ُ بکُل شیءٍ مُحیط ﴿ یعنی ﴾ "بے شک اللہ ہر چیز کا احاطہ کئیے ہوئے ہے "کے خلاف ہے ۔

اِس کے جواب میں بھی مجھے یہ ہی کہنا پڑتا ہے کہ ، منطق اور فلسفہ کو بنیاد بنا کر قُرآن کو سمجھنے کی وجہ سے اِسی قِسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ،

آئیے اِس موضوع پر اُمت کے اماموں کی بات سُنیں ،

امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں ”” اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جِس جِس بات ( صفت )کی خبر اپنے رب کے بارے کی ہے اُس پر ایمان لانا فرض ہے ، خواہ اُس کے معنیٰ ہم جانیں یا نہ جان پائیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صداقت کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے ، لہذا جو کچھ کتاب اور سُنّت میں آیا ہے اُس پر ایمان رکھنا ہر صاحب ایمان کے لئیے فرض ہے ،

اور اِسی طرح جو صفت صحابہ اور اُمت کے اماموں کے اتفاق کے ساتھ ثابت ہے اُس پر ایمان رکھنا بھی واجب ہے ، کیونکہ اِن کا اتفاق کتاب اور سُنّت کے دلائل کی بنیاد پر ہی ہے۔

اور ( الفاط کے عام معنی کو بنیاد بنا کر اصل مراد جانے بغیر جِس صفت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بعد آنے والوں نے اختلاف کیا تو جائز نہیں کہ اِلفاط کی مراد جانے بغیر اُن کے درست یا نادرست ہونے کی بات کرے ، پس اگر جو مراد وہ لیتا ہے حق ہے تو اُس کی موافقت کی جائے گی اور اگر اُس کی مراد باطل ہے تو اُس کی مخالفت کی جائے گی اور اگر اُس کی بات اِن دونوں مراد ( حق و باطل ) پر مشتمل ہے تو نہ تو اُسکی بات پوری کی پوری قبول کی جائے گی اور نہ ہی پوری کی پوری رد کی جائے گی ، جیسا کہ لوگ ( اللہ کے بارے میں ) لفظ ”’ الجھة یعنی سمت “‘ اور ”’ التحیز یعنی ایک جگہ میں ہونے “‘ کی مراد میں مخالفت کا شکار ہوئے ،

پس لفظ ”’ سمت “‘ سے کبھی تو اللہ کے عِلاوہ کوئی اور موجود چیز مراد لی جاتی ہے اور جب ایسا ہو تو یقینا وہ چیز مخلوق ہے ، جیسا کہ اگر لفظ ”’ سمت “‘ سے مراد عرش یا آسمان لیا جائے ،،، اور کبھی اِس سے مراد غیر موجود چیز لی جاتی ہے جیسا کہ جو کائنات کے اُوپر ہے ،

یہ چیز معلوم ہے کہ ( اللہ تعالیٰ کےلئیے قُرآن و سُنّت میں ) لفظ ”’ الجھة یعنی سمت “‘ کا کوئی استعمال نہیں ملتا نہ تائید کرتا ہوا نہ مخالفت کرتا ہوا ، جیسا کہ ، ”’ العلو ، یعنی بلندی “‘ اور ”’ الاستوا یعنی قائم ہونا ، براجمان ہونا “‘ اور ”’ الفوقیة یعنی اُوپر ہونا “‘ اور

”’ العروج الیہ یعنی اللہ کی طرف چڑھنا “‘ وغیرہ کا صاف ذکر ملتا ہے ،

اور یہ بات بھی یقینی طور پر جانی جا چکی ہے کہ سوائے خالق اور مخلوق کے کہیں کچھ اور موجود نہیں ہے اور خالق سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی مخلوق سے الگ ہے ، نہ اُس کی مخلوقات میں کوئی چیز اُس کی ذات میں سے ہے ، اور نہ ہی اُس کی ذات میں کوئی چیز اُس کی مخلوقات میں سے ہے ،

پس جو کوئی ”’ سمت “‘ کی نفی کرتا ہے اُسے کہا جائے گا کہ ”’ کیا تم سمت سے مراد کوئی موجود مخلوق لیتے ہو ، اگر ایسا ہے تو اللہ اِس بات سے پاک ہے کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کِسی کے اندر ہو ، اور اگر تم ”’ سمت “‘ سے مراد کائنات کے بعد لیتے ہو تو یہ درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اُوپر ہے اور اپنی تمام تر مخلوق سے الگ اور جدا ہے "۔

اِسی طرح جو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ”’ سمت “‘ میں ہے تو اُسے بھی یہ کہا جائے گا کہ ”’ کیا تُم یہ کہنے سے یہ مراد لیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اُوپر ہے ؟ یا تم یہ مراد لیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کِسی کے اندر ہے ؟ اگر تمہارا جواب پہلی بات ہے تو حق ہے اور اگر دوسری بات ہے تو باطل ہے "

( بحوالہ ”’ التد مریہ “‘ صفحہ 45، 44، 47، محمد بن عودہ کی تحقیق کے ساتھ شرکة العبیکان کی چھپی ہوئی )

امام ابن تیمیہ کی بیان کردہ وضاحت کے بعد یہ شک باقی نہیں رہتا کہ اللہ کو اُوپر کہنے سے اللہ تعالیٰ کےلیئے سِمت کا تعین ہوتا ہے لیکن ، اِس کے بعد بھی اگر کِسی کے ذہن میں یہ شک کروٹیں لیتا رہے تو اُس کے لئیے ابو محمد عبداللہ بن عمر الجوینی کا یہ قول نقل کرتا ہوں جو اُنہوں نے اپنی کتاب ”’ الستوا و الفوقیة “‘ میں لکھا ،

”’ اہلِ عِلم نے جو کہا ہے اُس میں کوئی شک نہیں کیونکہ اُن کا کہنا دلیل و برہان سے ثابت ہے ، اور وہ یہ کہ " زمین کائنات کے اوپر والے حصے کے اندر ہے ، اور یہ کہ زمین ایک گیند کی طرح ہے اور تربوز کے اندر تربوز کی طرح آسمان کے اندر ہے ، اور آسمان نے زمین کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ، اور زمین کا مرکز سب سے نچلی جگہ ہے ، پس اُسکے نیچے جو کچھ آتا ہے اُسے نیچے نہیں کہا جا سکتا بلکہ اُوپر کہا جائے گا جیسا کہ اگر زمین کے مرکز سے کوئی چیز سوراخ کرتے ہوئے کِسی بھی رخ سے باہر کو آئے تو اُسکا سفر اُوپر کی سِمت میں ہی ہوگا ، ( جیسا کہ اگر کوئی میزائل زمین کے اندر کی طرف داغا جائے ، جب تک اُسکا سفر زمین کے مرکز کی طرف ہو گا اُس وقت تک یہی کہا جائے گا کہ یہ نیچے کی طرف جا رہا ہے اور جب وہ مرکز کو پار کر کے دوسری طرف کے سفر میں داخل ہو گا تو کوئی بھی صاحبِ عقل یہ نہیں کہے گا کہ یہ نیچے کی طرف جارہا ہے بلکہ یہ ہی کہا جائے گا کہ یہ اُوپر کی طرف جا رہا ہے)

اِس بات کی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زمین کی سطح پر مشرق سے مغرب ( یا کِسی بھی ایک سِمت میں ، سِمت تبدیل کئیے بغیر ، ناک کی سِیدھ میں مسلسل ) چلتا رہے تو وہ ساری زمین کا چکر لگا کر وہیں پہنچ جائے گا جہاں سے اُس نے سفر کا آغاز کیا تھا ، اور اِس دوران زمین مسلسل اُسکے نیچے رہے گی اور آسمان اُوپر ، پس آسمان کا وہ حصہ جِسے زمین کے نیچے سمجھا جاتا ہے وہ حقیقتا ً نیچے نہیں اُوپر ہے ، لہذا ثابت ہوا کہ آسمان کِسی بھی سِمت سے اپنے حقیقی وجود کے ساتھ زمین کے اُوپر ہے( کیونکہ زمین اِس کے اندر ہے ) یعنی زمین کِسی بھی سِمت سے آسمان کے نیچے ہے ۔

اور مزید لکھا کہ " اگر ایک مخلوق جِسم یعنی آسمان ( کا معاملہ یوں ہے کہ وہ ) اپنے وجود کے ساتھ زمین کے اُوپر ہے ( اور اُس کا ہر طرف سے احاطہ کئیے ہوئے ہے ) تو اُس ( خالق اللہ سُبحانہ ُ تعالیٰ ) کا معاملہ کیا ہے جِس کے جیسی کوئی چیز نہیں ، اُس کے ہر چیز سے بلند اور محیط ہونے کا معاملہ اُسکی شان کے مطابق ہے “‘

اُوپر بیان کئی گئی اِن وضاحتوں کے بعد کیا کوئی صاحب عقل اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ آسمان نے ہر طرف سے زمین کا احاطہ کر رکھا ہے ، آسمان ہر سِمت سے اُوپر اور زمین ہر سِمت سے اُسکے نیچے ہے ، یہ حقائق اِن اماموں نے اُس وقت لکھے جب اُنکے پاس ہمارے اِس وقت میں موجود وسائل نہیں تھے ، اور اب اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو جو وسائل اور علوم اِس موجودہ وقت میں میسر کر رکھے ہیں وہ اِن تمام باتوں کی تصدیق کرتے ہیں ،

اِس تصدیق کے بعد یہ جاننے میں کوئی مشکل نہیں رہ جاتی کہ جِس طرح زمین کو ایک آسمان نے اپنے احاطہ میں لے رکھا اِسی طرح باقی آسمانوں نے ایک کے اُوپر ایک نے اپنے سے نیچے والے کو اپنے احاطہ میں لے رکھا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴾ وَسِعَ کُرسیُّہ ُ السَمٰواتِ و الارض " اللہ کی کرسی ( عرش ) زمین اور آسمانوں پر وسیع ہے"۔

، تو اب اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور اپنی تمام مخلوق سے الگ اور جدا ہے تو کسی سِمت کا تعین کہاں سے ہو گیا !

´ تیسرا شک جِس کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ

"اللہ تعالیٰ کو اُوپر کہنے سے اللہ کی مخلوق سے مشابہت ہو جاتی ہے اور یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴾ لیس کمثلہ شیء " اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں "

اگر یہ بات کہنے والے اپنی دلیل کے طور پر پیش کئیے جانے والے آیت کے اِس حصے کے بعد آیت کو آخر تک پورا پڑھ کر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر کو سمجھ لیتے تو یہ فلسفہ اُنکو شکار نہ کرتا ، اللہ تعالی نے فرمایا ہے ﴾ لیس کمثلہ شیء و ھُوِ السَّمِیع ُ البَصِیر " اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں ، اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے" ﴿ سورت الشوریٰ آیت ۱۱ )

اللہ تعالیٰ خود یہ بتا رہا ہے کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے ، اور اِسکے عِلاوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے رب کے بارے میں جِس جِس صفت کا ذِکر کیا ہے فلسفہ زدہ ذہنوں نے آیت کے ایک حصے کو اپنی منطق کے مطابق صرف سمجھ کر اُن سب صفات کا اِنکار کر دِیا اور اُلٹی سیدھی تاویلیں کیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کا اِنکار یا تاویل کرنے والے یہ سوچ لیتے کہ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں پہلے یہ بتا رہا کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور پھر یہ بتایا کہ وہ سنتا بھی اور دیکھتا بھی ہے ، تو اِس کا معنیٰ یقینا یہ ہے کہ اُس کا سننا اور دیکھنا کِسی مخلوق کے جیسا نہیں ، اِسی طرح اُس کا ہنسنا ، ناراض ہونا ، خوش ہونا ، نیچے اُترنا ، اُس کا چہرہ ، اُس کے ہاتھ ، اُس کی پنڈلی ، اُس کا پاؤں ، سب جو کچھ اُس نے اپنے بارے میں بتایا ہے یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بتایا ہے حق ہے اور اُسکی شان کے مطابق ہے یہی مفہوم ہے اس آہت کا کہ لیس کمثلہ شیء و ھُوِ السَّمِیع ُ البَصِیر "اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں ، اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے" ۔ وہ مفہوم جو ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات میں ملتا ہے۔

ذرا عقل سے سوچا جائے تو صاف سمجھ میں آتا ہے کہ غصہ ، محبت ، ہنسنا ، سننا ، دیکھنا ، وغیرہ یہ تمام صفات خالق نے اپنی مخلوق میں بھی رکھی ہیں ، اور کِسی ایک کی صفت کی کیفیت دوسرے سے نہیں ملتی ، میرا غصہ ، محبت ، ہنسنا ، سننا ، دیکھنا ، وغیرہ ، آپ جیسا نہیں ، اور آپکی یہ صفات میری صفات جیسی نہیں اور اِسی طرح ہر ایک اِنسان میں فرق ہے حتیٰ کہ حیوانات کی صفات میں بھی فرق ہے ، یہ تو بات ہوئی کِسی ایک مخلوق کا دوسری مخلوق سے موازنہ کرنے کی ، اب اگر ایک شخص کی ایک ہی صفت کو دو مختلف حالتوں میں دیکھا جائے تو وہ بھی ایک جیسی نظر نہیں آتی جیسا کہ ماں سے محبت اور بیوی سے محبت ایک جیسی نہیں ،

لہذا یہ بات ہر اچھی عقل قبول کرتی ہے کہ ، کوئی سی دو مخلوق میں کِسی ایک صفت کے ہم نام ہونے کی وجہ سے اُن دو کا ایک دوسرے جیسا ہونا یا مشابہہ ہونا ضروری نہیں ہو جاتا ، اِنسانوں اور حیوانات کی بہت سی صفات کے نام ایک ہی جیسے ہیں ، جیسا کہ دیکھنا ، سننا ، چلنا ، بھاگنا ، کھانا ، محبت ، غصہ ، غیرت بے غیرتی وغیرہ ،

کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ اِنسانوں اور حیوانات میں یہ صفات ایک جیسی ہیں لہذا وہ ایک دوسرے کے مشابہہ ہو گئے ، اور پھر اِس مشابہت کو دور کرنے کے لئیے کوئی بھی اِن دونوں مخلوقات میں سے کِسی کی کِسی صفت کا اِنکار نہیں کرتا ،

جب یہ معاملہ مخلوق کا ہے تو خالق کا معاملہ اُسکی شان کے مطابق ہے اور ویسا ہی ہے جیسا کہ اُس نے اُوپر ذِکر کی آیت میں بتایا ہے ،

تو یہ بات عقل سے ثابت ہوتی ہے کہ دو مختلف چیزوں کا نام ایک جیسا ہونے سے اُن کا ایک جیسا ہونا ہر گِز ضروری نہیں ہوتا ، اور یہ ہی مفہوم ہے " اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں ، اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے" کا ، پس اللہ تعالیٰ کی تمام صفات جو اُس نے خود اور جو اُسکے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بتائی ہیں اُن پر بلا چوں و چراں یمان لانا واجب ہے اور اُن کی کِسی طور تعطیل کرنا یا کوئی تاویل کرنا کفر ہے ، جیسا کہ کوئی یہ کہے اللہ کے ہاتھ سے مراد اُس کی قدرت ہے ، یا اللہ کی پنڈلی سے مراد اُسکی زبردستی ہے ، وغیرہ ، جیسا کہ ہمارے کئی مشہور تفسیریں اور کتابیں لکھنے والوں نے لکھ رکھا ہے ، ولا حول و لا قوة اِلا باللہ و اللہ المستعان ۔





آیات کا صحیح مفہوم

وحدت الوجود کو ثابت کرنے والے بعض آیاتِ قرآنی کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر استدلال کرتے ہیں۔ ایسی چند آیات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

و فی الارض آیات اللموقنین و فی انفسکم افلا تبصرون

"زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے، اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی ہیں، کیا تم کو سوجھتا نہیں"

اس آیت میں صاف اور سیدھی بات یہ کہی گئی ہے کہ زمین اور انسانی نفس میں یقین اور ایمان رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں

"یعنی ان دونوں چیزوں (زمین اور انسان) میں بہت نشانیاں ہیں جو ان کے خالق کی عظمت اور قدرت کو ظاہر کرتی ہیں۔ زمین میں اس نے قسم قسم کی نباتات اگا دیں، اس پر انواع و اقسام کے جانور پیدا کر کے پھیلا دیے اس میں پہاڑ، دریا، سمندر بنائے وغیرہ۔ انسانوں میں اس کی نشانیاں دیکھنی ہوں تو غور کرو کہ کس طرح لوگوں کے رنگ اور ان کی زبان ایکدوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ان کی جسمانی اور عقلی قوتوں میں کتنا فرق ہے، کس طرح سے انسان کا ہر عضو ٹھیک اپنی جگہ پر لگایا گیا ہے وغیرہ"۔ جو آیت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مخلوق پر اس کی برتری ثابت کر رہی ہے اسے وحدت الوجود کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

وهو معكم أينما كنتم والله بما تعملون بصير ( اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔۔۔۔۔۔)

اس آیت کو اگر دوسری آیات اور صحیح احادیث سے الگ کر کے پڑھا جائے تو واقعی اس سے یہ بات نکل سکتی ہے کہ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ ہے لیکن القرآن یفسر بعضھا بعضا "قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے" کے مصداق اسے اس بارے میں دوسری آیات کےساتھ ملا کر پڑھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں ساتھ ہونے سے مراد معیت علم ہے۔ ابن القیم نے اپنی کتاب "اجتماع الجیوش الاسلامیہ علی غزو المعطلہ و الجہمیہ" میں امام مالک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہےکہ و ھو معکم اور اس طرح کی دوسری آیات میں معیت سے مراد علم کی معیت ہے۔ اسی کتاب میں صفحہ ۵۷ پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اس بارے میں موقف بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

"نوح بن ابی مریم کہتے ہیں کہ ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس موجود تھے ۔ ان کے پاس ترمذ کی ایک عورت آئی جو جہمیہ فرقے سے متاثر تھی۔۔۔ وہ امام صاحب کے پاس آ کر کہنے لگی " کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جو لوگوں کو مسائل کی تعلیم دیتے ہیں حالانکہ آپ تو خود اصل دین کو چھوڑے ہوئے ہیں، (ذرا بتائیں کہ) آپ کا معبود جس کی آپ عبادت کرتے ہیں، کہاں ہے"؟ امام صاحب خاموش ہو گئے اور سات دن تک اس بات کا جواب نہ دیا، پھر ساتویں دن وہ (اپنے گھر سے ) نکلے اور فرمایا

ان اللہ سبحانہ و تعالٰی فی السماء دون الارض

"اللہ تعالٰی آسمان پر ہے، زمین پر نہیں"

اس پر ایک آدمی بول اٹھا اور کہنے لگا کہ پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے کہ

و ھو معکم

"وہ (اللہ) تمہارے ساتھ ہے"

امام صاحب نے اسے جواب دیا

هو كما تكتب للرجل إني معك وأنت عنه غائب

"یہ ایسے ہی ہے جیسے تو کسی شخص کو خط لکھ کر کہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں حالانکہ تو اس سے غائب ہے"۔

ابن کثیر اس کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں

أي رقيب عليكم

"یعنی وہ تمہارے حالات کو دیکھ رہا ہے"

اور یہ کہ فسيمع كلامكم ويرى مكانكم ويعلم سركم ونجواكم " وہ تمہاری باتیں سنتا ہے، تمہاری جگہ پر تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے چھپے اور کھلے ہر کام سےواقف ہے"۔

ایک لمحے کے لیے اوپر بیان کی گئی آیات، احادیث اور سلف کے اقوال کو تازہ کر لیجیے اور پھر سوچیے کہ کیا یہ آیت ان میں سے کسی کو بھی سمجھ میں نہ آئی تھی کہ وہ ہمیں بتاتا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عرش پر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر جگہ پر بھی بذاتہ موجود ہے۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں تو اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کا اظہار مراد لیا جائے اور بعد میں آنے والے اس سے وحدت الوجود کا اثبات کریں۔ یا للعجب۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کسی نے اس شخص کے قول کے بارے میں حکم دریافت کیا جو کہتا تھا کہ اللہ بذاتہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ والی آیت سے دلیل پکڑتا تھا۔امام صاحب نے اس سے کہا "یہ لوگ آیت کےپہلے حصے کو چھوڑ دیتے ہیں اور صرف آخری حصے کو لے کر اپنا مطلب نکالتے ہیں، ذرا پڑھ کر دیکھ کہ پہلے یہ الفاظ ہیں "أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ" یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ معیت علم کی معیت ہے نہ کہ ذات کی۔

اسی طرح وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو کچھ وسوسہ اس کے دل میں گزرتا ہے، ہم تو اسے بھی جانتے ہیں اور ہم اس کے گلے کی رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں جبکہ دو فرشتے ضبطِ تحریر میں لانے والے، اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے سب کچھ ریکارڈ کرتے جاتے ہیں" (سورہ ق آیت ۱۶۔ ۱۷)

میں بھی پہلے علم کا ذکر کر کے بتا دیا ہےکہ اللہ تعالٰی کی یہ قربت اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے لحاظ سے۔ جبکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہاں "ہم" سے مراد فرشتے لیتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔

ونحن أقرب إليه من حبل الوريد » يعني ملائكته تعالى أقرب إلى الإنسان من حبل وريده إليه



"یہ اللہ کے فرشتے ہیں جو انسان سے اس کی شاہ رگ سے بھی قریب ہوتے ہیں"۔ اپنے اس قول کے دلائل انہوں نے سورہ ق کی تفسیر میں بیان کیے ہیں۔ تفصیل کے طالب وہاں رجوع کریں۔

وحدت الوجود کی جڑ کٹ جاتی ہے اگر اللہ تعالٰی کو عرش پر مان لیا جائے۔ ہم نے عقلی اور نقلی دلائل سے اس مسئلے کو واضح کر دیا ہے۔ اللہ تعالٰی حق کے لیے دلوں کو کھولے اور سیدھی راہ پر قائم رکھے۔ (امین)
 

قسیم حیدر

محفلین
مندرجہ بالا مضمون عادل سہیل صاحب کا ہے۔ موصوف نے مختلف دینی مسائل پر اپنے انداز میں قلم اٹھایا ہے۔ ان کی اجازت سے میں نے اس مضمون میں کچھ کانٹ چھانٹ کی ہے۔ اور چند ایک ضروری اضافے بھی کیے ہیں۔ اصل کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں دستیاب ہے۔ اگر کسی بھائی کو چاہیے تو وہ مجھے پیغام بھیج کر منگوا سکتا ہے
 

رضا

معطل
مسئلہ وحدت الوجود

Title.gif

03.gif


04.gif


05.gif


06.gif


07.gif
 
السلام علیکم
وحدت الوجود کے حق میں اور خلاف خوب دلائل کا انبار لگا ہے مگر کسی نے وحدت الوجود کی تعریف کرنے یا بیان کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک نے کہا یہ حق ہے اورعلماء کا یہ قول ہے تو دوسرے نے کہا نہیں یہ باطل ہے اور کفر ہے بھئی جب یہ موضوع شروع کیا ہے تو کم از کم یہ تو بتا دو کہ یہ ہے کیا؟ حق باطل کا فیصلہ بعد میں ہو جائے گا۔
 
السلام و علیکم!
وحدت الوجود کے بارے میں ابن عربی جسے آپ محی الدین کہتے ہیں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں “کہ تم عظیم الشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد سمجھتے ہو جیسا کہ تم سراب کو پانی سمجھتے ہو ،جیسے سراب پانی نہیں ہو سکتا ویسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب تم آؤ گے تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاٰؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ کو پاؤ گے اور رویت محمدیہ میں اللہ کو دیکھو گے۔“(بحوالہ فتوحاتََََََِ مکیہ)
یہ وہ تعریف ہے جو ابن عربی نے بیان کی اور جسے شاکر صاحب پی گئے اور بیان نہ کیا کہ اصل میں وحدت الوجود کا مبدا کیا ہے وحدت الوجود کا عقیدہ اللہ تعالی کو مخلوق میں ماننا ہے حالانکہ اللہ کی بزرگی ، عظمت اور بڑائ اسی میں ہے کہ ہم آللہ تعالی کو مخلوق سے جدا مانیں کہ اللہ علیحدہ ہے بندہ علیحدہ ہے ساجد علیحدہ ہے مسجود علیحدہ ہے۔

سلام علی من اتبع الہدی
راجپوت صاحب سے گذارش ہے کہ اس عبارت کا تفصیلی حوالہ مہیا کردیں
 
میں نے عمومآ دیکھا ہے کہ اس طرح کے مسائل کے حوالے سے جب بھی ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو آسان پیرائے میں بیان کیجئے تو بات کو فلسفیانہ رنگ دے کر الجھا دیا جاتا ہے۔لیکن بات واضح نہیں کی جاتی۔
 
میں نے عمومآ دیکھا ہے کہ اس طرح کے مسائل کے حوالے سے جب بھی ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو آسان پیرائے میں بیان کیجئے تو بات کو فلسفیانہ رنگ دے کر الجھا دیا جاتا ہے۔لیکن بات واضح نہیں کی جاتی۔

جن حضرات نے یہ دھاگا کھولا ہے انہیں سے ہی گذارش کی جاتی ہے کہ وہی اس کو سلجھائیں تا کہ بات واضح ہو سکے
 

jaamsadams

محفلین
میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں کو قرآن و حدیث میں دونوں حوالے موجود ہیں کہ اللہ تعالی عرش پر بھی جلوہ فرما ہے اور دوسری جگہ وہ زمین و آسمان کی ہر شے پر محیط ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے

وسع کرسیہ السموت والارض
کیا اللہ کی کرسی زمینوں اور آسمانون کو محیط نہیں؟؟
قلوب المومنین عرش اللہ تعالی
پر بھی غور فرایئے گا اور "نحن اقرب" کو بھی خیال میں رکھیے گا
اللہ نورالسموات والارض
اللہ ہی زمین و آسمان کا نور ہے

ان آیات ربانی سے تو بڑاے سے بڑا وھابی حتی کہ تیمیہ بھی انکار نھیں کرسکتا-

اب دوسرا نقطہ نظر کہ اللہ صرف عرش پر ہی ہے
رہا سوال عرش کہاں ہے؟
یہ نقطہ کہاں ہے کہ عرش صرف اور صرف آسمانوں پر ہی ہے؟
یا یہ کہ عرش کوئی آسمانوں کیبعد ہی کوئی شے ہے؟

عرش آسمانوں پر بھی ہوسکتا ہے اور آسمان و ارض پر بھی محیط ہوسکتا ہے

اللہ تعالی کا عرش مومن کے دل میں بھی ہوسکتا ہے

بھائی لوگوں کیلئے صحیح بخاری کی حدیث قدسی کا مفہوم پیش کرتا ہوں شائد اس طرح یہ مسئلہ سلجھے
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پر ذیشان - حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر: 6021 ''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ: ”جس نے میرے ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ میرا بندہ میرا تقرب کسی دیگر عمل سے جو مجھے پسند ہو اتنا حاصل نہیں کرسکتا جتنا اس عمل سے حاصل کرسکتا ہے جو میں نے اس پر فرض کیاہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ سے میرے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا وہ کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا وہ ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا وہ پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس دوں گا اور اگر وہ میری پناہ میں آنا چاہے گا تو میں اسے پناہ میں لے لوں گا۔ اور مجھے کسی کام کے کرنے میں جو مجھے کرنا ہے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد مجھے مومن کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے۔ وہ موت سے دلگیر ہوتا ہے اور مجھے اس کا دلگیر ہونا گوارا نہیں ہوتا اور موت اس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے''

اب کوئی ہمارے نبی سے بڑھ کر بھی اللہ کے قریب ہوگا- اورکیا اللہ نے تو خود آقا کریم کے ہاتھ مبارک کو قرآن میں اپنا ہاتھ قرار نہ دیا -
وَمَارَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰکِنَّ اﷲَ رَمٰي - الأنفال، 8 : 17(یہ کنکریان جو (حبیب مکرم) آپ نے ماریں وہ آپ نے نھیں ماریں بلکے وہ اللہ نے ماریں) -
اسی طرح فرمایا
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ - الفتح، 48 : 10 (جن لوگوں نے(بظاہر) آپ کے ہاتھ پر بیت کی انھوں نے درحقیقت اللہ کے ہاتھ پر بیت کی، ان کے ہاتھ پر (ظاہرا آپ کا ہاتھ) درحقیقت اللہ کا ہاتھ تھا )

اب وھابی حضرات کوئی تاویل ڈھونڈیں اس کو رد کرنے کی یا پھر اللہ اور اسکے حبیب مکرم پر فتوی فٹ کردیں، بھلا کونسا؟ آھو شرک کا
 

jaamsadams

محفلین
میں نے عمومآ دیکھا ہے کہ اس طرح کے مسائل کے حوالے سے جب بھی ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو آسان پیرائے میں بیان کیجئے تو بات کو فلسفیانہ رنگ دے کر الجھا دیا جاتا ہے۔لیکن بات واضح نہیں کی جاتی۔

لو کر لو گل، پہلے کہتے تھے کہ قرآن و حدیث سے ثابت کرو اور فلسفیانہ رنگ نہ چڑھاو اب اعتراض کہ حدیث سے کیوں ثابت کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو آپ نے یہ تو منیا کہ ثابت ہوگیا ہے۔
 

خرم

محفلین
بھائیو یہ باتیں اس طرح کرنے کی نہیں۔ وحدت الوجود کو بیان کیوں کیا جائے؟ یہ تمام فلسفے ارتقائی ہیں اور اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے انہیں لیکن انہیں اس طرح عوام میں بیان کرنے سے ان کی اور اپنی گمراہی کا ڈر ہے۔ جو شراب ہاتھیوں کو مست کرنے والی ہو وہ چوہے کو نہیں پلائی جاتی۔ لہٰذا میری گزارش ہے کہ اس بحث کو اب مقفل کردیا جائے۔
 
السلام علیکم ۔۔۔۔انشاء اللہ اس مسئلے یعنی وحدت الوجود کا حل میرے پاس مؤجود ہے۔۔۔۔ہم نے اس کو اپنی تصنیف جس کا نام باب المعارفت ہے اس کے مقدمے میں تفصیل سے بیان فرمایا ہےلیکن ہم کو اس کا طریقہ نہیں آتا ہے کہ اس فورم میں اس کو کیسے پیش کیا جائے اگر کوئی دوست ہماری مدد کرسکے تو ہم اس کو بیان کریں چاہے ادھر اسی جگہ یا کوئی نیا تھریڈ بنا کر جو بھائی بھی میری مدد کرنا چاہیں ازراہ کرم وہ مجھے اس آئی ڈی پر وائس چیٹ کے ذریعے بتا سکتے ہیں میریyahooآئیڈی نوٹ فرما لیجیے۔----------
آپ سب کا خادم روحانی بابا
 
وحدت الوجود کے نظریہ کو آسان الفاظ میں‌لکھ دیجئے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسئلہ کو چھیڑنے والوں کو بھی علم نہیں‌کہ یہ ہے کیا۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
السلام علیکم ۔۔۔۔انشاء اللہ اس مسئلے یعنی وحدت الوجود کا حل میرے پاس مؤجود ہے۔۔۔۔ہم نے اس کو اپنی تصنیف جس کا نام باب المعارفت ہے اس کے مقدمے میں تفصیل سے بیان فرمایا ہےلیکن ہم کو اس کا طریقہ نہیں آتا ہے کہ اس فورم میں اس کو کیسے پیش کیا جائے اگر کوئی دوست ہماری مدد کرسکے تو ہم اس کو بیان کریں چاہے ادھر اسی جگہ یا کوئی نیا تھریڈ بنا کر جو بھائی بھی میری مدد کرنا چاہیں ازراہ کرم وہ مجھے اس آئی ڈی پر وائس چیٹ کے ذریعے بتا سکتے ہیں میریyahooآئیڈی نوٹ فرما لیجیے۔----------
آپ سب کا خادم روحانی بابا


روحانی بابا، پہلے تو اپنا تعارف دیں، دوسرا آپ کو کس قسم کی مدد درکار ہے؟ مزید یہ کہ آپ نے لکھا ہے " ہم نے اپنی تصنیف ۔۔۔۔۔۔۔ " یہاں "ہم" سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ اپنے آپ کو "ہم" کہہ رہے ہیں یا یہاں ہم سے مراد ایک سے زیادہ ہیں؟
 
میں نظریہ وحدت الوجود کے خلاف ہوں۔ لیکن اس کے بارے میں‌ کچھ لکھنے سے پہلے یہ بہتر ہوگا کہ وہ حضرات جنہوں نے یہ مسئلہ چھیڑا ہے اس نظریہ کو کم از کم بیان تو کریں :)
 
Top