لیکن واضح فرق یہ ہے کہ قومی ٹیم قریب قریب موجود کھلاڑیوں میں سے بہترین ٹیم تھی جبکہ کافی زیادہ تجربہ کار بھی۔
جبکہ لنکن ٹیم واضح طور پر کافی کمزور ٹیم ہے اور متعدد نئے کھلاڑیوں پر مشتمل۔
ارجونا اور ارواند کے جانے کیبعد بھی لنکن ٹیم ایسی مشکلات سے دوچارہ ہوئی تھی لیکن آگے بڑھنے کی لگن اور بہتری کی خواہش نے انہیں مزید بہتر ٹیم بنا دیا
اور آئندہ بھی ایسا ہوگا۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ جو مجھے لگا ہے۔ وہ ہے نالائق اور کمزور کپتان۔ اس میں مصباح الحق بھی شامل ہے اور شاہد آفریدی بھی اور ان سے پہلے والے بھی۔
اس کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کپتان کو ٹیم میں اپنی جگہ پکی نظر نہیں آتی تو اپنی جگہ کے ممکنہ امیدواروں کو کبھی ٹیم میں سیٹل نہیں ہونے دیں گے۔
فواد عالم کی مثال لیجئے۔ 2015 کے ورلڈکپ سے پہلے ایک سال میں اگر کوئی کرکٹر چھٹے نمبر پہ بہترین بلے بازی اور خصوصاََ چیزنگ میں مہارت کے حساب سے ابھر کے سامنے آیا تھا تو وہ فواد عالم تھا۔ اب چونکہ وہ ممکنہ طور پہ مصباح الحق کی پانچویں یا چھٹے نمبر کی پوزیشن کے لئے خطرہ ہو سکتا تھا، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فواد عالم ورلڈکپ کی ٹیم سے ہی باہر ہو گیا۔ جبکہ اس کی جگہ بوڑھے گدھ (سوری صرف ون ڈے کے اعتبار سے) یعنی یونس خان کو ٹیم میں ڈال لیا۔
اب اس ٹی 20 سے پہلے جس کھلاڑی نے اپنی پرفارمنس سے نام کمایا، وہ تھا محمد نواز۔ لیکن سپن باؤلر جمع آل راؤنڈر کے طور پہ وہ شاہد آفریدی کی جگہ کے لئے خطرہ بن سکتا تھا، تو وہ سکواڈ میں ہی منتخب نہیں ہوا۔
اسی کی نسبت اینجلو متھیوز یا کسی بھی اور ٹیم کے کپتان کے ساتھ یہ مسئلہ شاید ہی ہو۔