سلمان حمید
محفلین
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے اور قائد اعظم ہاسٹل میں رہتے ہوئے انٹرمیڈیٹ کا پہلا ایک سال مکمل ہونے کے دوران جب جب ہر ویک اینڈ پر ننکانہ جاتا تھا تو واپس آنے کا دل نہیں کرتا تھا۔ پہلی بار ننکانہ صاحب سے باہر پڑھنے اور رہنے کی غرض سے نکلا تھا اور امی جان کا لاڈلا بھی تھا تو گھر والوں سے دور دل کا اتنی جلدی لگ جانا ممکن بھی نہیں تھا اور مناسب بھی نہیں تھا۔ انٹر میڈیٹ کے دوسرے سال ہر ویک اینڈ پر گھر بھاگنے کی پہلی نہ سہی لیکن دوسری وجہ جیب خرچ کا ختم ہو جانا اور اگلے ہفتے کے راشن پانی کے انتظام کے لیے والد صاحب سے رابطہ کرنا تھا۔ پہلی وجہ گھر والوں سے ملنا کہی جا سکتی تھی لیکن زیادہ احساس مناسب نہ لگنے کا ہوتا تھا۔ خیر میرے والد کے گاہے بگاہے میری والدہ کے سامنے دہرائے گئے فقرے، "بلی آنکھوں والے بے دید اور بے وفا ہوتے ہیں" میں صداقت تو نہیں تھی لیکن مجھے کچھ کچھ ویسا ثابت کرنے میں لاہور کا بڑا ہاتھ تھا۔
پھر فاسٹ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو اداکاری، شاعری اور دیگر "غیر نصابی" سرگرمیوں نے میرا گھر والوں سے بالمشافہ ملاقاتوں کا سلسلہ ہر ویک اینڈ سے اٹھا کر دو یا تین ہفتوں کے بعد ملنے پر رکھ دیا۔ سونے پر سہاگہ مجھے دوسرے سمسٹر میں موٹر سائیکل کا مل جانا تھا اور ویسے بھی دوست تو میں لاتعداد بنایا کرتا تھا اور آج بھی اس کام کو ثواب کا کام سمجھتا ہوں۔ نہر پر موٹر سائیکل چلانے، دوستوں سے ملنے ملانے اور لاہور کے ساتھ اپنی تمام تر وفائیں نبھانے میں میں نے کبھی، کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر پڑھائی کے بعد نوکری بھی اسی شہر میں مل گئی تو بس جناب لاہور تو جیسے مجھے ہڑپ کر گیا۔ یہ وہ شہر تھا جس نے کہیں بھی چلے جانے پر مجھے اکیلا نہیں چھوڑا اور آوازیں دینے اور واپس بلانے کا ٹھیکہ اٹھائے رکھا سومیں اس کی محبت میں کھنچتے کھنچتے اس شہر کے ہو کے رہ گیا۔ اور پھر ایک دن مجھے اپنے سپنوں کے رانی بھی اسی شہر سے مل گئی اور تابوت میں آخری کیل بھی ٹھوک دیا گیا۔
اور جناب ایک دن پھر یوں ہوا کہ مجھے لاہور کا نعم البدل مل گیا۔ ہاں میری آنکھیں بلی جیسی ہیں اور شاید میرے والد صاحب ٹھیک فرماتے تھے لیکن رکیے، کیا پتہ میری جگہ آپ بھی ہوتے تو یہی کرتے!!! میں ماسٹرز کرنے کی غرض سے جرمنی آ پہنچا۔ جرمنی کے شمال میں سمندر کے کنارے آباد کیل (Kiel) نامی اس چھوٹے سے شہر میں میرا دل بالکل ایسے ہچکولے کھانے لگا جیسے ہمارا چھوٹا بحری جہاز (Ferry) ہمیں روز ہماری یونیورسٹی تک لے جاتے ہوئے پانی کی لہروں پر ڈولتے ہوئے جایا کرتا تھا۔ واضح رہے کہ شہر کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے سمندر کی وجہ سے میری رہائش پانی کے اِس جانب تھی اور یونیورسٹی پانی کی دوسری جانب سمندر کے بالکل کنارے پر۔ ساری ساری رات دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکنے، تاش کھیلنے، پیدل سیر پر نکل جانے اورآدھی رات کو ایک جنگل میں گھس جانےاور پھر ایک یا دو لڑکوں کے سوچے سمجھے خیال کے تحت چھپ کر گروپ میں شامل لڑکیوں (یا ایک مشہور زمانہ ڈرپوک لڑکے) کو ڈرانے، دن بھر کرکٹ کھیلنے اور کوئی بھی پروگرام یکدم بنا کر کہیں بھی نکل جانے نے نہ جانے کب لاہور کو ایک جانب کر کے کیل کو دل میں بسا دیا۔ اور پھر دس مہینے کے لیے فرینکفرٹ کی گئی انٹرن شپ کے دوران بھی کیل بھاگے چلے آنا اور اسٹیشن پر اترتے ہی "ہوم سویٹ ہوم" کے احساس سے سرشار ہو جانا ایسا ہی تھا جیسے ہم کبھی لاہور کے دیوانے ہوا کرتے تھے۔ نوکری ملی میونخ میں، جو کہ جنوب میں جرمنی کے بارڑ پر ہے تو سارا جرمنی آ گیا درمیان میں لیکن جب جب موقع ملا، سارا سارا دن سفر کر کے ہم بھاگ کر کیل چلے جاتے تھے۔
ہوتا ہے کوئی ایسا ایک شہر بھی جس میں آپ کسی نہ کسی وجہ سے جا بستے ہیں اور وہ آپ کے اندر کہیں بس جاتا ہے۔
کیوں ٹھیک کہا نہ میں نے؟ تو آپ کا کونسا شہر ہے وہ؟ کچھ بتلائیے
تو جناب ہم چلے کیل ایسڑ کی چھٹیوں میں کل، اور خوب مستی کریں گے، کرکٹ کھیلیں گے اور بار۔ بی۔ کیو بھی کریں گے۔ موسم اچھا ہوا تو سمندر کنارے جا کر والی بال بھی کھیلیں گے۔ بہت مزہ آنے والا ہے بھائی صاحب
پھر فاسٹ یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو اداکاری، شاعری اور دیگر "غیر نصابی" سرگرمیوں نے میرا گھر والوں سے بالمشافہ ملاقاتوں کا سلسلہ ہر ویک اینڈ سے اٹھا کر دو یا تین ہفتوں کے بعد ملنے پر رکھ دیا۔ سونے پر سہاگہ مجھے دوسرے سمسٹر میں موٹر سائیکل کا مل جانا تھا اور ویسے بھی دوست تو میں لاتعداد بنایا کرتا تھا اور آج بھی اس کام کو ثواب کا کام سمجھتا ہوں۔ نہر پر موٹر سائیکل چلانے، دوستوں سے ملنے ملانے اور لاہور کے ساتھ اپنی تمام تر وفائیں نبھانے میں میں نے کبھی، کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر پڑھائی کے بعد نوکری بھی اسی شہر میں مل گئی تو بس جناب لاہور تو جیسے مجھے ہڑپ کر گیا۔ یہ وہ شہر تھا جس نے کہیں بھی چلے جانے پر مجھے اکیلا نہیں چھوڑا اور آوازیں دینے اور واپس بلانے کا ٹھیکہ اٹھائے رکھا سومیں اس کی محبت میں کھنچتے کھنچتے اس شہر کے ہو کے رہ گیا۔ اور پھر ایک دن مجھے اپنے سپنوں کے رانی بھی اسی شہر سے مل گئی اور تابوت میں آخری کیل بھی ٹھوک دیا گیا۔
اور جناب ایک دن پھر یوں ہوا کہ مجھے لاہور کا نعم البدل مل گیا۔ ہاں میری آنکھیں بلی جیسی ہیں اور شاید میرے والد صاحب ٹھیک فرماتے تھے لیکن رکیے، کیا پتہ میری جگہ آپ بھی ہوتے تو یہی کرتے!!! میں ماسٹرز کرنے کی غرض سے جرمنی آ پہنچا۔ جرمنی کے شمال میں سمندر کے کنارے آباد کیل (Kiel) نامی اس چھوٹے سے شہر میں میرا دل بالکل ایسے ہچکولے کھانے لگا جیسے ہمارا چھوٹا بحری جہاز (Ferry) ہمیں روز ہماری یونیورسٹی تک لے جاتے ہوئے پانی کی لہروں پر ڈولتے ہوئے جایا کرتا تھا۔ واضح رہے کہ شہر کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے سمندر کی وجہ سے میری رہائش پانی کے اِس جانب تھی اور یونیورسٹی پانی کی دوسری جانب سمندر کے بالکل کنارے پر۔ ساری ساری رات دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکنے، تاش کھیلنے، پیدل سیر پر نکل جانے اورآدھی رات کو ایک جنگل میں گھس جانےاور پھر ایک یا دو لڑکوں کے سوچے سمجھے خیال کے تحت چھپ کر گروپ میں شامل لڑکیوں (یا ایک مشہور زمانہ ڈرپوک لڑکے) کو ڈرانے، دن بھر کرکٹ کھیلنے اور کوئی بھی پروگرام یکدم بنا کر کہیں بھی نکل جانے نے نہ جانے کب لاہور کو ایک جانب کر کے کیل کو دل میں بسا دیا۔ اور پھر دس مہینے کے لیے فرینکفرٹ کی گئی انٹرن شپ کے دوران بھی کیل بھاگے چلے آنا اور اسٹیشن پر اترتے ہی "ہوم سویٹ ہوم" کے احساس سے سرشار ہو جانا ایسا ہی تھا جیسے ہم کبھی لاہور کے دیوانے ہوا کرتے تھے۔ نوکری ملی میونخ میں، جو کہ جنوب میں جرمنی کے بارڑ پر ہے تو سارا جرمنی آ گیا درمیان میں لیکن جب جب موقع ملا، سارا سارا دن سفر کر کے ہم بھاگ کر کیل چلے جاتے تھے۔
ہوتا ہے کوئی ایسا ایک شہر بھی جس میں آپ کسی نہ کسی وجہ سے جا بستے ہیں اور وہ آپ کے اندر کہیں بس جاتا ہے۔
کیوں ٹھیک کہا نہ میں نے؟ تو آپ کا کونسا شہر ہے وہ؟ کچھ بتلائیے
تو جناب ہم چلے کیل ایسڑ کی چھٹیوں میں کل، اور خوب مستی کریں گے، کرکٹ کھیلیں گے اور بار۔ بی۔ کیو بھی کریں گے۔ موسم اچھا ہوا تو سمندر کنارے جا کر والی بال بھی کھیلیں گے۔ بہت مزہ آنے والا ہے بھائی صاحب
آخری تدوین: