جہاں بھر میں پھیلے میرے وہ سب اپنے جو مجھ سے عشق کرتے ہیں ۔ اور مجھے جن سے عشق ہے ۔
ان سب کو " عید الحب " پر دلی دعاؤں بھری مبارکباد
اللہ سوہنا سب کو سدا اپنی امان میں رکھتے رحمتوں بھرے محبتوں سے بھرپور موسم عطا فرمائے آمین
بہت دعائیں
واہ جی واہ! نایاب بھائی بہت اچھے۔
آپ کی اس بات سے مجھے ایک بلاگ یاد آ گیا جو کچھ عرصہ قبل میں نے دنیا نیوز پر پڑھا تھا۔آپ کے لیے یہاں کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔
براہ کرم از رہ تفنن پڑھیے۔
کلمہ پڑھا ہوا ہے
ایک بھائی، ذہن اسلامی ، چہرہ مہرہ غیر اسلامی ، ہم ذہن پر شکر ادا کرتے ، مو صوف کچھ عرصہ کے لئے انگلینڈ تشریف لے گے، جب واپسی ہوئی تو بغل میں ایک میم تھی !
موصوف کا تعلق روایتی گھرانے سے تھا ، اس لے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ جناب میم لے کر آئے ہیں ، رشتے داروں نے گوری کے دیدار کے لئے دور دراز سے ان کے گھر تک کا سفر کیا ، عورتوں سروں پر دوپٹہ لیتی ہوئی چوری چوری میم صاحبہ کو دیکھتیں اور ہا تھ لگانے سے بھی ڈرتیں کہ کہیں گوری میلی نہ ہو جائے،دولہا کی بہنیں فخریہ لہجے میں سہیلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ بھیا انگلینڈ سے میم لائے ہیں ،بچے تو اس کمرے سے نکلتے ہی نہ تھے جہاں پر میم تھی ۔اماں کو انگلش وغیرہ تو نہ آتی تھی لیکن پھر بھی روایتاً چادر اور سوٹ گوری کو دیا
بلائیں لیتی لیتی رہ گئیں کہ پتہ نہیں میم کو کیسا لگے ۔ ہاں کو جی بھر کر دعائیں دیتی رہیں ، صرف ابا جی تھے جنہوں نے بیٹا جی سے دریافت کیا، مسلمان ہے کیا؟؟ بیٹا جی نے جواب دیا جی اس نے کلمہ پڑھا ہوا ہے ۔اس پر ابا جی مطمئن ہو گئے!
مشترکہ خاندانی نظام تھا ، کچھ عرصہ گزرا کہ ایک نیا کا م شروع ہوا، میا ں کے آفس جانے سے میم پہلے دروازے پر خاوند کی بانہوں میں جھول جاتی اور چہرے پر ایک پیار کی لمبی مہر ثبت کرتی !گھر میں کچھ چہ مہ گو ئیاں ہوئیں ، بیٹا جی نے استفسار پر بتایا کی سمجھ جائے گی ‘”کلمہ پڑھا ہوا ہے۔”
گرمیاں شروع ہوئیں تو گوری نی پینٹ اتار کر نیکر پہننی شروع کر دی ، ابا جی نے تو کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا اور بھائی رات کو دیر سے گھر آنے لگے، اماں ہر وقت گھر کی دیواروں کو تکتی رہتیں کہ کہیں سے چھوٹی تو نہیں رہ گئیں ! بیٹے سے شکوہ ہوا ،اس نے پھر بتایا “کلمہ پڑھا ہوا ہے ”
ایک شادی پر گوری نے بریک و کینبرے ڈانس کا ایسا شاندار نمونہ پیش کیا کہ بڑے بڑے دل تھام کر رہ گئے ، دریا فت کیاگیا تو بتایا گیا کہ”کلمہ پڑھا ہوا ہے”
گوری عید وغیرہ تو کرتی لیکن ہر سال کرسمس بھی بڑے تزک و احتشام سے مناتی ، بیٹا جی ھر دفعہ پوچھنے پر جواب دیتے “”کلمہ پڑھا ہوا ہے”
وقت گزرتا چلاگیا ، برداشت پیدا ہوتی چلی گئی ، بچہ ہوا تو گوری نی ختنے کروانے سے انکار کر دیا ،کہنےلگی کہ یہ ظلم ہے ، بیٹا جی کھسیانی سی ھنسی کے ساتھ بو لے سمجھ جائے گی “کلمہ پڑھا ہوا ہے”
ڈانس ، میوزک ، فلمیں ، کا ک ٹیل پارٹیز، کرسمس ، سر عا م بوس و کنار گھر کے کلچر کا حصہ بنے ، بھائی آہستہ آہستہ بھا بھی سے فری ہوتے چلے گئے ،ہاتھوں پر ہاتھ ما ر کر باتیں کرتے اور وہ ان کی گوری سہیلیاں ڈھونڈتے کی کوشش کرتے۔بہنیں بھابھی کے کمرے میں جا تیں اور جینز کی پینٹیں پہن پہن کر شیشے کے آگے چیک کرتیں ، کلمہ تو انہوں نے بھی پڑھا ہوا تھا ، بھا بھی سے دل کیہر بات کھول کر بیان کر دیتیں، گوری کبھی کبھار نماز جمعہ پڑھ لیتی تھی ، اس لئے ابا جی کہنے لگے ” کلمہ پڑھا ہوا ہے”
دوست احباب جب بھی ملنے جاتے تو گوری خاوند کے پہلو سے چپک بیٹھتی ، ایک دو بار تو جگہ تنگ ہو نے کی صورت میں گود میں بھی بیٹھنے سے گریز نا کیا ، پوچھنے پر صرف اتنا جواب ملتا ” کلمہ پڑھا ہوا ہے”
ایک کام گوری کا اچھا تھا ، جب بھی کہیں باہر بازار وغیرہ نکاتی تو جینز شرٹ میں ملبوس ہونے کے باوجود سر ایک ڈوپٹہ سا ڈال لیتی۔دیکھنے والے دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے کہ ” کلمہ پڑھا ہوا ہے”