ذرا ایک نظر ڈالئے حکمرانوں میں خلفاء راشدین ، مجاہدہ و فقر میں خانوادہ اہل بیت، ایثار ووفا میں حضراتِ صحابہ، تفقہ وتدبر میں ائمہ اربعہ ، روایت میں محدثین، فلسفہ و حکمت میں اما م غزالی ، رازی،بوعلی،ا بن رشد،فارابی،البیرونی اور کندی ، زہد وتصوف میں شیخ جیلان،بایزید بسطامی،فضیل بن عیاض، فاتحین میں محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی،اور نورالدین زنگی ، مصنفین میں ابن تیمیہ اور ابن القیم ،شعراء ادباء میں مولانا روم،شیخ سعدی، عمر خیام،حافظ شیرازی،حکمتِ دین کے حوالے سے ابنِ خرم اور شاہ ولی اللہ ایسے نام محض نمایاں افراد نہیں بلکہ یہ گرامی قدر شخصیات ایک پوری تاریخ، بھرپور تہذیب، اور کامل فلسفہ ہیں۔اتنا عظیم سرمایہ رکھنے والی قوم اب بھی مناظروں،شعبدوں ،حکایتوں اور افسانوں میں گھری ہوئی ہے ،سچ ہے کہ جب مذہب گورکھ دہندہ، تاریخ وتحقیق روایت،حقیقت افسانہ، اور علم فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ جائے تو جلیل اقدر شخصیتوں کے ساتھ ایسی ہی بے انصافی ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرے میں امام حسین کے کام کو اتنی توجہ نہیں مل رہی جتنی ان کے نام سے فرقہ بندی کو مل رہی ہے حالانکہ عظیم شخصیتیں کسی فرقے کا حوالہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مقدس ورثہ ہوتی ہیں۔