۵۸ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۲۷ اور اس سے متصل اگلی آیات میں اہل ایمان کو ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کروo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۲۷۔
اس آیت اور اس سے متصل اگلی آیات میں اسلامی طرز معاشرت کے چند اہم قاعدے سکھائے جا رہے ہیں۔ انصار کی ایک خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کی ، یا رسول اللہ! بسا اوقات میں گھر میں ایسی حالت میں ہوتی ہوں کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے۔ کبھی میرے والد آ جاتے ہیں اور کبھی اہل خانہ سے کوئی اور مرد آ جاتا ہے۔ مجھے کیا ارشاد ہے کہ میں کیا کروں؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
آپ خود غور فرمائیں کہ انسان کا گھر اس کا خلوت خانہ ہے جہاں وہ بے تکلفی سے وقت بسر کر سکتا ہے۔ اگر یہاں بھی ہر شخص کو بلا اجازت، بے دھڑک آ گھسنے کی آزادی ہو تو انسان گھر میں وہ راحت و آرام نہیں پا سکے گا جس کی تلاش میں وہ باہر سے تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ نیز گھر کی مستورات ہر وقت اپنے کپڑوں کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتیں۔ کبھی اوڑھنی سر سے اتر جاتی ہے کبھی کوئی کام کرنے کے لیے آستینیں چڑھانی پڑتی ہیں، نہانا دھونا بھی ہوتا ہے۔ ان حالات میں اگر آنے والے پر کوئی پابندی نہ ہو تو عورتیں یا تو ہر وقت سر پر چادر ڈالے رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہیں یا نامحرم کے سامنے بے حجاب ہونے کا اندیشہ مول لیں۔ نیز یہ ویسے بھی بڑی سخت زیادتی ہے کہ کسی کے گھر میں بلا اجازت گھس آئے۔ اس طرح گوناگوں خرابیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔
اگر کسی کے ہاں جانا پڑے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ باہر کھڑے ہو کر اذن طلب کرو۔ اگر اجازت مل جائے تو اہل خانہ کو سلام کہتے ہوئے اندر جاؤ۔ فرمایا
ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ یہی طریقہ تمھارے لیے عمدہ اور پسندیدہ ہے۔ اذن لینے کا طریقہ یہ ہے کہ سلام بھی کہے، داخل ہونے کی اجازت بھی طلب کرے اور اپنا نام بھی بتائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب شرف باریابی حاصل کرنا چاہتے تو یوں عرض کرتے ،
السلام علیک یا رسول اللہ ایدخل عمر؟ یا رسول اللہ آپ پر سلام ہو کیا عمر حاضر ہو سکتا ہے؟ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ معمول تھا کہ جب اذن طلب فرماتے تو دروازہ کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے۔ نیز دروازے کو کھٹکھٹانا بھی اذن طلب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ آج کل کئی گھروں میں گھنٹی لگی ہوتی ہے اسے بجا کر بھی اذن طلب کیا جا سکتا ہے۔ جس گھر میں ماں یا بہن رہائش پذیر ہو وہاں جاتے ہوئے بھی اذن طلب کرنا چاہیے۔ اسلام نے صرف بلا اجازت داخل ہونے پر ہی پابندی نہیں لگائی بلکہ بلا اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا بھی ممنوع ہے۔زیادہ سے زیادہ تین بار اذن طلب کرنا چاہیے۔ اگر تیسری بار بھی جواب نہ آئے تو واپس چلا آئے کیونکہ اس سے زیادہ اذن طلب کرنا صاحب خانہ کو اذیت دینا اور پریشان کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اس وقت ایسے کام میں مشغول ہو جسے وہ منقطع نہ کر سکتا ہو۔ ایک روز حضور اکرم ﷺ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور طلب اذن کے لیے فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ سعد نے سن لیا اور آہستہ سے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ عرض کیا۔ حضور نے دوسری بار سلام فرمایا ۔ سعد نے پھر بھی چپکے سے جواب دیا۔ تیسری بار بھی حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سلام کے جواب میں حضرت سعد نے آہستہ سے وعلیکم السلام کہہ دیا۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام واپس تشریف لے جانے لگے تو حضرت سعد دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کی ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ۔ آپ نے جتنی بار سلام فرمایا میں نے سنا اور جواب دیا۔ میری خاموشی کا مقصد یہ تھا کہ حضور مجھے بار بار سلام فرمائیں اور مجھے اس کی برکت حاصل ہو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔