تعارف سورۃ النساء
ہمارا یہ سلسلہ چونکہ صرف ان آیات قرآنیہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جن میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ لیکن اس سورۃ میں بیان کر دہ کچھ نکات جاننے کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ اس سورۃ مبارکہ کا تعارف بھی پیش کر دیا جائے تاکہ وہ تشنگان علم اور محبان معرفت جو ہل من مزید کا ذوق رکھتے ہیں کے لیے مہمیز کا کام دے اور کلام الٰہی کو پڑھنے اور سمجھنے کے شوق کو ہوا دے۔ وباللہ التوفیق۔۔۔
اس سورۃ پاک کا نام النساء ہے۔ باتفاق علماء مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ اس میں ۱۷۶ آیتیں ، ۳،۰۳۵ الفاظ ، ۱۶،۰۳۰ حروف اور ۱۳۴ رکوع ہیں۔ یہ سورۃ پاک بڑی اہم اور دور رس اصلاحات پر مشتمل ہے جنہیں اگر دین اسلام کا طرہ امتیاز کہا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا۔
گھریلو زندگی: اس سورۃ میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے پر دی گئی ہے کیونکہ گھر ہی قوم کی خشت اول ہے۔ گھر ہی وہ گہوارہ ہے جہاں قوم کے مستقبل کے معمار پرورش پاتے ہیں۔ گھر ہی وہ مدرسہ ہے جہاں اخلاق و کردار کی قدریں اچھی یا بری، بلند یا پست لوح قلب پر لکھ دی جاتی ہیں جن کے نقوش کبھی مدھم نہیں پڑتے۔ صرف جذبات کتنے ہی پاکیزہ اور معصوم کیوں نہ ہوں حقائق کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں لا سکتے۔ قرآن مجید حقائق کو حقائق کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس لیے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے مبہم نصیحتوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے لیے واضح اور غیر مبہم قاعدے اور ضابطے متعین فرما دیئے۔
یتیم بچے: جس گھر میں یتیم بچوں پر زیادتیاں کی جائیں اور ان کے سر پرست اس کی دولت کو خرد برد کرنے کے لیے سازش و فریب کے جال بُنتے رہیں اس گھر کی فضا کبھی صحت مند نہیں ہو سکتی۔ اس لیے قرآن حکیم نے اپنے ماننے والوں کو صاف الفاظ میں حکم فرمایا کہ وہ یتیم بچوں اور بچیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کے حقوق کی نگہبانی اور ان کے اموال کی حفاظت کریں بلکہ ان کے احساسات تک کا پاس رکھیں۔
عورت کا مقام : عرصہ ہائے دراز سے یہ صنف نازک ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ قدرت نے اگرچہ اسے مرد کی طرح ذی روح اور ذی شعور بنایا تھا لیکن اس کے ساتھ برتاؤ مٹی کی بے جان مورتیوں کا سا کیا جاتا تھا۔ جُوا میں اسے داؤ پر لگایا جا سکتا تھا۔ خاوند کی لاش کے ساتھ اسے قانوناً جل کر راکھ ہونا پڑتا تھا۔ کہیں اسے تمام برائیوں کی جڑ اور انسان کی ساری بد بختیوں کا سر چشمہ یقین کیا جاتا تھا اور کہیں چوٹی کے نامور فلسفی اس کے انسان ہونے کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ اس کو ملکیت کے حقوق حاصل نہ تھے۔ اسے ازدواجی بندھنوں میں مقید کرنے سے پہلے اس سے کوئی رائے لینے کا تصور تک نہ تھا۔ بلکہ اس سے بھی بد تر حالات تھے جن میں اسلام سے پہلے یہ صنف نازک گرفتار تھی۔ قرآن مجید نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ جس طرح مرد کے حقوق عورت پر ہیں اسی طرح عورت کے حقوق بھی مرد پر ہیں۔ اس کی رائے ہے اور قانون اس کی رائے کا احترام کرتا ہے۔ اس کو اپنے والدین ، اپنے خاوند ، اپنی اولاد کا وارث تسلیم کیا گیا اور اس کو ملکیت کے حقوق تفویض کیے گئے۔
چونکہ
مرد اور عورت کا اولین رشتہ ازدواج کا رشتہ ہے اس لیے اس میں جو بے راہ رویاں پائی جاتی تھیں ان کی اصلاح کی۔ تعدد ازواج پر پابندیاں لگائیں اور اس کی اجازت دی تو بڑی شروط و قیود کے ساتھ۔ مرد کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور اگر اس کی کوئی چیز پسند خاطر نہ ہو تو اس پر صبر کرنے کی ہدایت کی۔ اور اگر باہمی تعلقات کشیدہ ہو جائیں تو اصلاح حال کی تدبیر بتائی۔ عورت کو یہ حقوق دینے کے بعد گھر کی سرداری اور نظم و نسق کی ذمہ داری مرد کو سونپی۔ کیونکہ اسی کی فطری صلاحیتں اس بار گراں کو اٹھا سکتی ہیں۔
مالی حقوق کی منصفانہ تقسیم گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں معمولی سی کوتاہی بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتی ہے۔ اس لیے میراث کا مفصل قانون نازل فرمایا۔ اسلام کے نظام میراث کی جو امتیازی خصوصیات ہیں ان کا جائزہ تو اپنے اپنے مقام پر لیا جائے گا لیکن ایک بے مثل تبدیلی یہ کی کہ عورت (ماں، بیٹی، بیوی) کو بھی مرد کی طرح وارث قرار دیا۔
حق و باطل کی جنگ جس کا آغاز بدر سے ہوا تھا ، ابھی جاری تھی۔ اُحد میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے شہید ہونے کے باعث منافق، یہودی اور مشرک قبائل کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔ اس سورۃ میں بھی مسلمانوں کو حق کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگانے کا حکم دیا گیا اور ان کے حوصلوں کے بلند کیا گیا اور منافقوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ ہر ایک کے مناسب حال رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔
انفرادی کردار کی تعمیر کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی ہے اور ان قوموں کی اقتدا سے روکا گیا ہے جو عمل سے جی چراتی ہیں اور حق کے لیے کسی جانی اور مالی قربانی کے لیے آمادہ نہیں ہوتیں۔ اور اس کے باجود اپنے آپ کو انعامات خداوندی کا واحد حق دار سمجھتی ہیں۔ امت مصطفویہ کو صاف صاف بتا دیا گیا کہ اس رزم گاہ حیات میں جیت اسی کی ہو گی جو اپنے پیہم اور نتیجہ خیز عمل سے اپنی فوقیت اور برتری ثابت کر دے۔ خیالی پلاؤ پکانے اور ہوائی قلعے تعمیر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ مسلمانوں کے باہمی برتاؤ کا دارومدار احسان اور مہربانی پر ہونا چاہیئے۔ جتنی قرابت زیادہ ہو گی اتنی ہی اس کے ساتھ مہربانی اور احسان زیادہ ہونا چاہیئے۔
اطاعت رسول : اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم رسول معظم ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم بھی دیا ہے اور
فلا وربک (اے محبوب ، تیرے رب کی قسم) کے پرجلال الفاظ سے قسم اٹھا کر بتایا کہ کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ میرے رسول کے ہر فیصلہ کو خواہ وہ اس کے خلاف بھی ہو ، دل و جان سے بخوشی قبول نہ کرے۔
زمانہ نزول : علماء محققین کی رائے میں اس سورۃ کے نزول کا آ غاز جنگ اُحد (شوال ۳ ھ) کے بعد ہوا جب ستر مسلمانوں کی شہادت کے بعد یتیموں کی کفالت اور ورثہ کی تقسیم کے مسئلہ نے بڑی اہمیت اختیار کر لی تھی۔ نماز خوف غزوہ ذات الرقاع میں پڑھی گئی جو ۴ ھ میں ہوا۔ اور تیمم کی اجازت غزوہ بنی مصطلق میں دی گئی جو ۵ھ میں پیش آیا۔ ان واقعات اور سنین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس سورۃ کا آغاز اُحد کے بعد ہوا تو اس کا سلسلہ نزول ۵ھ کے اوائل تک جاری رہا۔(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔