الشفاء

لائبریرین
۱۳ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۲ میں اہل ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَO
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہوo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۰۲۔
ان کلمات کی تفسیر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رحمت دو عالم ﷺ سے ان الفاظ سے نقل کی ہے ، ان یطاع فلا یعصی وان یذکر فلا ینسی وان یشکر فلا یکفر ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت کی جائے کہ اس میں نافرمانی کا شائبہ نہ ہو۔ اور اس کو ایسا یاد کیا جائے کہ غفلت طاری نہ ہو اور اس کا یوں شکر ادا کیا جائے کہ اس میں ناشکری کی آمیزش نہ ہو۔ ایک دوسری آیت نے اس آیت کو بالکل واضح کر دیا کہ فاتقوا اللہ مااستطعتم کہ تم اپنی طرف سے تقویٰ کا حق ادا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔ پھر فرمایا کہ اسلام پر ہی مرنا یعنی تمام زندگی اس پر قائم رہنا تا کہ موت بھی اسی پر آئے۔ رب کریم کا اصول یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی جیسی رکھے ویسی ہی اسے موت آتی ہے اور جس موت مرے اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔( ضیاءالقرآن ، ابن کثیر) اللہ تعالیٰ ہمیں حسن خاتمہ کی نعمت عطا فرمائے۔آمین۔

خدایا برے خاتمے سے بچانا
پڑھوں کلمہ جب نکلے دم یا الٰہی

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۱۴ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۱۸ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو اغیار کے مکر و فریب سے بچنے ، ان کو ہمراز نہ بنانے اور ان کے دلوں میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے موجود بغض کو واضح فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَO
اے ایمان والو! تم غیروں کو (اپنا) راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری نسبت فتنہ انگیزی میں (کبھی) کمی نہیں کریں گے، وہ تمہیں سخت تکلیف پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں، بغض تو ان کی زبانوں سے خود ظاہر ہو چکا ہے، اور جو (عداوت) ان کے سینوں نے چھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) بڑھ کر ہے۔ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں واضح کر دی ہیں اگر تمہیں عقل ہو o
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۱۸۔​
کافر اور منافق مسلمان کے دوست نہیں، انہیں اپنا ہم راز نہ بناؤ۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو کافروں اور منافقوں کی دوستی اور ہمراز ہونے سے روکتا ہے کہ یہ تو تمہارے دشمن ہیں۔ ان کی چکنی چپڑی باتوں سے خوش نہ ہو جانا اور ان کے مکر کے پھندے میں نہ پھنس جانا ورنہ موقع پا کر یہ تمہیں سخت ضرر پہنچائیں گے اور اپنی باطنی عداوت نکالیں گے (ابن کثیر)۔
کپڑے کا وہ طرف جو اندر کی جانب ہوتا ہے اور جسم سے ملا ہوتا ہے اس کو بطانۃ الثوب کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اس دوست کو بطانۃ کہتے ہیں جس پر کامل اعتماد اور بھروسہ ہو اور ہمراز ہو۔ اوس و خزرج کے اسلام قبول کرنے سے پہلے یہود کےساتھ ان کے بڑے گہرے مراسم و تعلقات تھے اور ہر کام میں ایک دوسرے سے مشورہ کیا کرتے تھے اور کسی سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتے تھے۔ لیکن اوس و خزرج کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان تعلقات میں یکسر انقلاب آ گیا۔ اس بات کا احتمال تھا کہ مسلمان اپنی صاف دلی کی بناء پر اسلام کے بھید بھی حسب سابق کہیں یہود سے نہ کہہ دیا کریں جس سے مسلمانوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا کہ وہ اپنے اور اسلام کے دشمنوں کو اپنا راز دار بنائیں (ضیاء القرآن)۔
نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان حکمران کافروں اور مرتدوں کو اہم ترین عہدوں پر نہ لگائے کہ جس سے یہ لوگ غداری کرنے کا موقع پائیں۔ کیونکہ یہ لوگ تمہاری برائی چاہنے میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ ان کی دشمنیاں ان کے الفاظ اور کردار سے ظاہر ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے۔ جب زبانی دشمنی بھی سامنے آتی رہتی ہے تو جو دشمنی اور مسلمانوں سے بغض و عداوت ان کے دلوں میں ہو گی وہ کس قدر ہو گی۔ یقینا ان کے دلوں میں موجود دشمنی ظاہری دشمنی سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! ان سے دوستی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں کھول کر بیان فرما رہا ہے (صراط الجنان)۔
اللہ عزوجل ہمارے وطن پاکستان کو اور تمام امت مسلمہ اور اہل اسلام کو دشمنان اسلام کے مکر و فریب اور سازشوں سے محفوظ رکھے۔ اور امت مسلمہ کو آپس میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے۔آمین۔۔۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۱۵ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۳۰ میں سودی معاملات سے منع کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۳۰۔
سود کے متعلق بحث سورۃ بقرۃ میں بھی گزرچکی ہے۔ نزول کے اعتبار سے یہ آیت سورۃ بقرۃ کی آیات سے مقدم ہے۔ اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی تو اگر اس وقت مقروض ادا نہ کر پاتا تو قرض خواہ مدت اور سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔اس طرح سود در سود ملا کر قرض کئی گنا بڑھ جاتا۔ اللہ تعالیٰ اس طرح ناحق لوگوں کا مال غصب کرنے سے روک رہا ہے۔اگلی آیتوں میں تو یہاں تک فرما دیا کہ اگر تم نے اس سودی کاروبار کو نہ چھوڑا تو اس عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے جو کفار کے لیے تیار کیا گیا ہے۔۔۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۱۶ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۹ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تُطِيعُواْ الَّذِينَ كَفَرُواْ يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُواْ خَاسِرِينَO
اے ایمان والو! اگر تم نے کافروں کا کہا مانا تو وہ تمہیں الٹے پاؤں (کفر کی جانب) پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھاتے ہوئے پلٹو گےo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۴۹۔
یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی، منافق ہوں یا مشرک ، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی ، بدعملی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی تباہ کر بیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں بتا دیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کر دیں گے۔ اور آج تک کا ساری دنیا میں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات چلانے میں ، اپنے کاروبار میں ہر جگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں، جس سے ہمارا رب عزوجل ہمیں بار بار منع فرما رہا ہے۔۔۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۱۷ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۵۶ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ كَفَرُواْ وَقَالُواْ لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُواْ فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُواْ غُزًّى لَّوْ كَانُواْ عِندَنَا مَا مَاتُواْ وَمَا قُتِلُواْ لِيَجْعَلَ اللّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ وَاللّهُ يُحْيِ۔ي وَيُمِيتُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌO
اے ایمان والو! تم ان کافروں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے ان بھائیوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں جو (کہیں) سفر پر گئے ہوں یا جہاد کر رہے ہوں (اور وہاں مر جائیں) کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے، تاکہ اللہ اس (گمان) کو ان کے دلوں میں حسرت بنائے رکھے، اور اللہ ہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے، اور اللہ تمہارے اعمال خوب دیکھ رہا ہےo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۵۶۔
منافقین جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارے کا دعویٰ کیا کرتے وہ اپنی بزدلی اور نامردی کو حزم و احتیاط اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور شوق سر فروشی کو دیوانگی سمجھا کرتے۔ اور جب کوئی مسلمان جہاد میں جام شہادت نوش کرتا تو رونی صورت بنا کر خیر خواہی کے انداز میں کہا کرتے کہ کاش یہ ہمارے بھائی ہماری طرح آرام سے گھروں میں ٹھہرتے تو کاہے کو یہ مصیبت آتی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہشیار فرما رہے ہیں کہ ان مکاروں کے فریب میں نہ آنا۔ موت وحیات میرے قبضہ قدرت میں ہے۔ میں چاہوں تو گھر میں روح قبض کر لوں اور چاہوں تو گھمسان کے رن میں گولیوں، توپوں اور بموں کی بارش میں بھی بچا لوں۔
تاکہ اللہ اس کو ان کے دلوں میں حسرت بنائے رکھے : حسرت یہ تھی کہ مسلمان ان کی باتوں کو نہیں مانتے تھے۔ باپ شہید ہو چکا اور بیٹا کفن باندھے میدان جہاد کا رخ کر رہا ہے۔ بھائی سر کٹا چکا ہے اور دوسرا بھائی جام شہادت سے سرخرو ہونے کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ ماں اپنے ایک شہید بیٹے کو سپرد خاک کرنے کے بعد دوسرے بیٹے کو اپنے دودھ کی لاج رکھنے کی نصیحت کر کے سر پر خود اور ہاتھ میں تلوار دے رہی ہے۔ ان منافقین کے لیے اس سے زیادہ حسرت آمیز اور الم انگیز چیز کیا ہو سکتی تھی۔۔۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۱۸ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۲۰۰ میں اللہ عزوجل مسلمانوں کو صبر کے ساتھ دین حق پر ثابت قدم رہنے اور ہر حال میں تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لئے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقوٰی قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکوo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۲۰۰۔
یہ اس جلیل القدر اور عظیم المرتبت سورۃ کی آخری آیت ہے۔ اور اس میں نہایت مختصر اور بہت ہی جامع الفاظ میں بتایا جا رہا ہے کہ ان چار باتوں میں دنیوی اور اخروی فلاح و کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ صبر، مصابرہ، رباط اور تقویٰ۔ صبر کا معنی ہے نیک اعمال کرنے اور برے اعمال سے باز رہنے پر نفس کو پابند رکھنا۔ مصابرہ کا معنی ہے مصابرۃ الاعداء یعنی دشمن کے پے در پے حملوں کے سامنے فولاد بن کر کھڑے رہنا اور رباط کا مطلب ہے نفس کو نیت حسنہ پر آمادہ رکھنا اور جسم کو عبادت پر کاربند رکھنا۔ اس کا اعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمر بستہ رہے اور گھوڑا تیار رکھے اور نفس کو نماز کا خوگر بنائے۔اور تقویٰ نام ہے اللہ عزوجل کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے کا۔ جب کسی فرد یا قوم میں یہ صفات پائی جاتی ہیں تو رحمت الٰہی اور نصرت خدا وندی اس کی پاسبان ہوتی ہے۔ مشکلات کے پہاڑ از خود راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ دنیا میں بھی عزت نصیب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی سر خروئی۔(ضیاء القرآن)۔۔۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
تعارف سورۃ النساء
ہمارا یہ سلسلہ چونکہ صرف ان آیات قرآنیہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جن میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ لیکن اس سورۃ میں بیان کر دہ کچھ نکات جاننے کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ اس سورۃ مبارکہ کا تعارف بھی پیش کر دیا جائے تاکہ وہ تشنگان علم اور محبان معرفت جو ہل من مزید کا ذوق رکھتے ہیں کے لیے مہمیز کا کام دے اور کلام الٰہی کو پڑھنے اور سمجھنے کے شوق کو ہوا دے۔ وباللہ التوفیق۔۔۔

اس سورۃ پاک کا نام النساء ہے۔ باتفاق علماء مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ اس میں ۱۷۶ آیتیں ، ۳،۰۳۵ الفاظ ، ۱۶،۰۳۰ حروف اور ۱۳۴ رکوع ہیں۔ یہ سورۃ پاک بڑی اہم اور دور رس اصلاحات پر مشتمل ہے جنہیں اگر دین اسلام کا طرہ امتیاز کہا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا۔
گھریلو زندگی: اس سورۃ میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے پر دی گئی ہے کیونکہ گھر ہی قوم کی خشت اول ہے۔ گھر ہی وہ گہوارہ ہے جہاں قوم کے مستقبل کے معمار پرورش پاتے ہیں۔ گھر ہی وہ مدرسہ ہے جہاں اخلاق و کردار کی قدریں اچھی یا بری، بلند یا پست لوح قلب پر لکھ دی جاتی ہیں جن کے نقوش کبھی مدھم نہیں پڑتے۔ صرف جذبات کتنے ہی پاکیزہ اور معصوم کیوں نہ ہوں حقائق کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں لا سکتے۔ قرآن مجید حقائق کو حقائق کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس لیے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے مبہم نصیحتوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے لیے واضح اور غیر مبہم قاعدے اور ضابطے متعین فرما دیئے۔
یتیم بچے: جس گھر میں یتیم بچوں پر زیادتیاں کی جائیں اور ان کے سر پرست اس کی دولت کو خرد برد کرنے کے لیے سازش و فریب کے جال بُنتے رہیں اس گھر کی فضا کبھی صحت مند نہیں ہو سکتی۔ اس لیے قرآن حکیم نے اپنے ماننے والوں کو صاف الفاظ میں حکم فرمایا کہ وہ یتیم بچوں اور بچیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کے حقوق کی نگہبانی اور ان کے اموال کی حفاظت کریں بلکہ ان کے احساسات تک کا پاس رکھیں۔
عورت کا مقام : عرصہ ہائے دراز سے یہ صنف نازک ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ قدرت نے اگرچہ اسے مرد کی طرح ذی روح اور ذی شعور بنایا تھا لیکن اس کے ساتھ برتاؤ مٹی کی بے جان مورتیوں کا سا کیا جاتا تھا۔ جُوا میں اسے داؤ پر لگایا جا سکتا تھا۔ خاوند کی لاش کے ساتھ اسے قانوناً جل کر راکھ ہونا پڑتا تھا۔ کہیں اسے تمام برائیوں کی جڑ اور انسان کی ساری بد بختیوں کا سر چشمہ یقین کیا جاتا تھا اور کہیں چوٹی کے نامور فلسفی اس کے انسان ہونے کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ اس کو ملکیت کے حقوق حاصل نہ تھے۔ اسے ازدواجی بندھنوں میں مقید کرنے سے پہلے اس سے کوئی رائے لینے کا تصور تک نہ تھا۔ بلکہ اس سے بھی بد تر حالات تھے جن میں اسلام سے پہلے یہ صنف نازک گرفتار تھی۔ قرآن مجید نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ جس طرح مرد کے حقوق عورت پر ہیں اسی طرح عورت کے حقوق بھی مرد پر ہیں۔ اس کی رائے ہے اور قانون اس کی رائے کا احترام کرتا ہے۔ اس کو اپنے والدین ، اپنے خاوند ، اپنی اولاد کا وارث تسلیم کیا گیا اور اس کو ملکیت کے حقوق تفویض کیے گئے۔
چونکہ مرد اور عورت کا اولین رشتہ ازدواج کا رشتہ ہے اس لیے اس میں جو بے راہ رویاں پائی جاتی تھیں ان کی اصلاح کی۔ تعدد ازواج پر پابندیاں لگائیں اور اس کی اجازت دی تو بڑی شروط و قیود کے ساتھ۔ مرد کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور اگر اس کی کوئی چیز پسند خاطر نہ ہو تو اس پر صبر کرنے کی ہدایت کی۔ اور اگر باہمی تعلقات کشیدہ ہو جائیں تو اصلاح حال کی تدبیر بتائی۔ عورت کو یہ حقوق دینے کے بعد گھر کی سرداری اور نظم و نسق کی ذمہ داری مرد کو سونپی۔ کیونکہ اسی کی فطری صلاحیتں اس بار گراں کو اٹھا سکتی ہیں۔
مالی حقوق کی منصفانہ تقسیم گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں معمولی سی کوتاہی بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتی ہے۔ اس لیے میراث کا مفصل قانون نازل فرمایا۔ اسلام کے نظام میراث کی جو امتیازی خصوصیات ہیں ان کا جائزہ تو اپنے اپنے مقام پر لیا جائے گا لیکن ایک بے مثل تبدیلی یہ کی کہ عورت (ماں، بیٹی، بیوی) کو بھی مرد کی طرح وارث قرار دیا۔
حق و باطل کی جنگ جس کا آغاز بدر سے ہوا تھا ، ابھی جاری تھی۔ اُحد میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے شہید ہونے کے باعث منافق، یہودی اور مشرک قبائل کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔ اس سورۃ میں بھی مسلمانوں کو حق کی حفاظت کے لیے اپنی جان تک کی بازی لگانے کا حکم دیا گیا اور ان کے حوصلوں کے بلند کیا گیا اور منافقوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ ہر ایک کے مناسب حال رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔
انفرادی کردار کی تعمیر کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی ہے اور ان قوموں کی اقتدا سے روکا گیا ہے جو عمل سے جی چراتی ہیں اور حق کے لیے کسی جانی اور مالی قربانی کے لیے آمادہ نہیں ہوتیں۔ اور اس کے باجود اپنے آپ کو انعامات خداوندی کا واحد حق دار سمجھتی ہیں۔ امت مصطفویہ کو صاف صاف بتا دیا گیا کہ اس رزم گاہ حیات میں جیت اسی کی ہو گی جو اپنے پیہم اور نتیجہ خیز عمل سے اپنی فوقیت اور برتری ثابت کر دے۔ خیالی پلاؤ پکانے اور ہوائی قلعے تعمیر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ مسلمانوں کے باہمی برتاؤ کا دارومدار احسان اور مہربانی پر ہونا چاہیئے۔ جتنی قرابت زیادہ ہو گی اتنی ہی اس کے ساتھ مہربانی اور احسان زیادہ ہونا چاہیئے۔
اطاعت رسول : اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم رسول معظم ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا حکم بھی دیا ہے اور فلا وربک (اے محبوب ، تیرے رب کی قسم) کے پرجلال الفاظ سے قسم اٹھا کر بتایا کہ کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ میرے رسول کے ہر فیصلہ کو خواہ وہ اس کے خلاف بھی ہو ، دل و جان سے بخوشی قبول نہ کرے۔
زمانہ نزول : علماء محققین کی رائے میں اس سورۃ کے نزول کا آ غاز جنگ اُحد (شوال ؁۳ ھ) کے بعد ہوا جب ستر مسلمانوں کی شہادت کے بعد یتیموں کی کفالت اور ورثہ کی تقسیم کے مسئلہ نے بڑی اہمیت اختیار کر لی تھی۔ نماز خوف غزوہ ذات الرقاع میں پڑھی گئی جو ؁۴ ھ میں ہوا۔ اور تیمم کی اجازت غزوہ بنی مصطلق میں دی گئی جو ؁۵ھ میں پیش آیا۔ ان واقعات اور سنین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس سورۃ کا آغاز اُحد کے بعد ہوا تو اس کا سلسلہ نزول ؁ ۵ھ کے اوائل تک جاری رہا۔(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۱۹ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۹ اس سلسلے کے حوالے سے اس سورۃ کی پہلی آیت ہے جس میں اللہ جل شانہ اہل ایمان کو عورتوں سے حسن سلوک سے متعلق ہدایات عطا فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًاO
اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۹۔​

لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاءَ كَرْهًا : تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن جاؤ ۔ عرب میں یہ طریقہ صدیوں سے رائج تھا کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کا لڑکا اپنے باپ کی جائیداد کی طرح اس کی بیوی (اپنی سوتیلی ماں) کا بھی وارث ہوتا۔ چاہتا تو اس کو جبراً بغیر مہر ادا کیے اپنے نکاح میں لے آتا۔ چاہتا تو اپن مرضی سے کسی دوسرے آدمی سے اس کی شادی کر دیتا اور مہر خود وصول کرتا اور چاہتا تو اسے ساری عمر یونہی بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتا اور اس کے مرنے کے بعد اس کا تنہا وارث بن جاتا۔ مدت دراز سے یہ رسم نہ صرف عرب بلکہ روم و یونان میں بھی رائج تھی۔ قرآن حکیم نے مظلوم عورت کی فریاد رسی کی اور مردوں کو اس کی آزادی میں مداخلت کرنے سے سختی سے روک دیا۔
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ : اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔ کتنی واضح ہدایت ہے بلکہ کتنا کھلا حکم ہے۔ حضور سرور کائنات ﷺ کا ارشاد بھی سن لیجیئے کہ خیرکم خیرکم باھلہ تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کےساتھ عمدہ برتاؤ کرتا ہو۔ کاش ہم سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔
فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا : ہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز نا پسند ہو۔ خوابوں کی دنیا اور حقائق کی دنیا میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر تمہاری رفیقہ حیات کا معیار جمال اتنا اونچا نہیں جس کا تم تصور کیے ہوئے تھے۔ یا اس کے اطوار و اخلاق اتنے مثالی نہیں جن کے تم متمنی تھے تو دل برداشتہ ہو کر ازدواج کے اس رشتے کو نہ توڑو بلکہ ان کوتاہیوں اور خامیوں پر صبر کرو۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے بعید نہیں کہ وہ تمہیں اسی بیوی سے ایسی نجیب و سعید اولاد عطا فرما دے جو تمہارے نام کو روشن کر دے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۰ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۲۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاO
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۲۹۔
کسب حلال پر قرآن نے جتنا زور دیا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ ایسے موقعوں پر قرآن کا انداز بیان بڑا اثر انگیز ہوا کرتا ہے۔ یہاں ایسے نہیں فرمایا کہ دوسروں کے مال ناجائز طریقوں سے مت کھاؤ بلکہ فرمایا اپنے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ۔ اس سے یہ حقیقت واضح کرنا مطلوب ہے کہ امت کے کسی فرد کا مال پرایا مال نہیں بلکہ (اسی امت کے ایک فرد کا) اپنا ہی مال ہے اس میں ناجائز تصرف کرنا دھوکا فریب سے اس کو ہڑپ کرنا اپنے آپ سے ہی دھوکا کرنا ہے۔ ہاں اگر تم آپس میں تجارت کرو اور تجارت میں کسی کی سادہ لوحی یا مجبوری سے ناروا فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو بلکہ فریقین نے راضی خوشی سے لین دین کیا ہو۔ اور اس طرح تمہیں نفع حاصل ہو تو یہ نفع حلال ہے۔ عن تراض کے کلمات پر مزید غور فرمائیے۔ اسلام جس صاف ستھری تجارت کی اجازت دیتا ہے اس کے خدوخال آپ واضح ہو جائیں گے۔
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ : اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو۔ اس آیت میں خودکشی کی ممانعت بھی آ گئی اور کسی مسلمان بھائی کو بلاوجہ قتل کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ انفسکم کہہ کر بتا دیا کہ اگر تم کسی مسلمان بھائی کو قتل کرو گے تو اس کا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا۔ تمہاری ہی ایک مومن بہن بیوہ ہو گئی، تمہاری ہی ملت کے معصوم بچے یتیم ہو ں گے، تمہارے مسلم معاشرے کا ہی ایک گھر غم و اندوہ کے اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ایک اور لطیف معنی بھی کیا ہے کہ ایسی مذموم حرکتیں اور ذلیل اعمال مت کرو جو لوگوں کی نگاہ میں تمہیں ذلیل و رسوا کر دیں کیونکہ یہ ذلت و رسوائی ہی تو انسان کی حقیقی ہلاکت و تباہی ہے۔۔۔
(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۲۱ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۴۳ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُبًا إِلاَّ عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًاO
اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۴۳۔
عرب میں شراب کا استعمال عام تھا۔ اگر اسے یک لخت حرام کر دیا جاتا تو مسلمان بڑی مشکل میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لیے حکیم و علیم خدا نے اس حرمت کے احکام بتدریج نازل فرمائے۔ ابتداء میں تو صرف اتنا اشارہ کر دیا کہ کہ شراب مضر اور نقصان دہ چیز ہے۔ اس سے بعض لطیف طبائع نے شراب چھوڑ دی۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اوقات نماز میں شراب منع کر دی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ دن میں شراب کا استعمال بند ہو گیا۔ عشاء کے بعد ہی لوگ اس سے شوق کرتے۔ کچھ مدت بعد شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا۔(ضیاء القرآن)
آیت میں پہلا حکم یہ دیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ جب تم جنابت کی حالت میں ہو تو جب تک غسل نہ کر لو تب تک نماز کے قریب نہ جاؤ۔ یعنی پہلے غسل کرنا فرض ہے۔ ہاں اگر سفر کی حالت میں ہو اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔ یہاں سفر کی قید اس لیے ہے کہ پانی نہ ملنا اکثر سفر ہی میں ہوتا ہے۔ ورنہ اگر سفر میں پانی میسر ہو تو تیمم کی اجازت نہ ہوگی۔ اور یوں ہی اگر سفر کی حالت نہیں لیکن بیماری وغیرہ ہے جس میں پانی کا استعمال نقصان دہ ہو تو تیمم کی اجازت ہے۔تیمم کی اجازت جس طرح بے غسل ہونے کی صورت میں ہے اسی طرح بے وضو ہونے کی صورت میں بھی ہے۔
تیمم کا طریقہ : تیمم کرنے والا پاکی حاصل کرنے کی نیت کرے اور جو چیز مٹی جنس سے ہو جیسے گرد، ریت ، پتھر ، مٹی کا فرش کا وغیرہ ، اس پر دو مرتبہ ہاتھ مارے۔ ایک مرتبہ ہاتھ مار کر چہرے پر پھیر لے اور دوسری مرتبہ زمین پر ہاتھ مار کر کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر پھیر لے۔۔۔(صراط الجنان)۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۲ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۵۹ میں اہل ایمان کو اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے اور باہمی اختلافات سے بچنے اور ان کے حل کے لیے اللہ عزوجل کے احکامات اور اس کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت سے رہنمائی لینے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاًO
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۵۹۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم کی اطاعت کے علاوہ مسلمان امراء اور حکام کی اطاعت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس دار فانی میں زیادہ دیر اقامت گزیں نہیں ہونا تھا اور حضور کے بعد امور مملکت کی ذمہ داری خلفاء اور امراء نے سنبھالنی تھی اس لیے ان کی اطاعت کرنے کے متعلق بھی تاکید فرما دی۔ لیکن اطاعت رسول اور اطاعت امیر میں ایک بیّن فرق ہے۔ نبی معصوم ہوتا ہے جملہ امور میں خصوصا احکام شرعی کی تبلیغ میں اس سے خطا نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس کی اطاعت کا جہاں حکم دیا غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا۔ مثلاً ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھو۔ جو کچھ تمہیں رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ۔ رسول کا ہر حکم واجب التسلیم اور اٹل ہے اس میں کسی کو مجال قیل و قال نہیں۔ لیکن خلیفہ کا معصوم ہونا ضروری نہیں۔ اس سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کی مشروط اطاعت کا حکم دیا کہ اس کے حکم کو خدا و رسول کے فرمان کی روشنی میں پرکھو اگر اس کے مطابق ہے تو اس پر عمل کرو ورنہ وہ قابل عمل نہیں۔ حضور کریم کا ارشاد ہے لا طاعۃ للمخلوق فی معصیۃ اللہ۔ یعنی اللہ عزوجل کے فرمان کے خلاف کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ (ضیاء القرآن)
اس آیت میں ارشاد ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو یعنی اس کی کتاب کی اتباع کرو۔ اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو یعنی ان کی سنتوں پر عمل کرو۔ اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو۔ اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیئے کیونکہ ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ عزوجل کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نا فرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ پس یہ ہیں احکام علماء و امراء کی اطاعت کے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم میں کسی چیز کے بارے میں جھگڑا پڑے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی طرف۔ پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے، وہی حق ہے۔ باقی سب باطل ہے۔ (ابن کثیر)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ احکام تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو ظاہر کتاب یعنی قرآن سے ثابت ہوں دوسرے وہ جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوں اور تیسرے وہ جو قرآن و حدیث کی طرف قیاس کے ذریعے رجوع کرنے سے معلوم ہوں۔ آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، اس میں امام ،امیر ، بادشاہ ، حاکم ، قاضی ، علماء سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان)

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۲۳ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۷۱ میں اہل ایمان کو دشمن سے ہوشیار رہنے کی نصیحت فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ خُذُواْ حِذْرَكُمْ فَانْفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُواْ جَمِيعًاO
اے ایمان والو! اپنی حفاظت کا سامان لے لیا کرو پھر (جہاد کے لئے) متفرق جماعتیں ہو کر نکلو یا سب اکٹھے ہو کر کوچ کروo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۷۱۔​

خُذُواْ حِذْرَكُمْ : ہوشیاری سے کام لو۔ اللہ عزوجل کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے احکام سے محروم نہیں رکھا بلکہ ہر جگہ ہماری رہنمائی فرمائی۔ ماں باپ ، بیوی بچے ، رشتہ دار ، پڑوسی ، اپنے بیگانے سب کے متعلق واضح ہدایات عطا فرمائیں۔ اسی سلسلے میں ہماری بھلائی کے لیے ہمیں ہوشیار رہنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ دنیا کے دیگر معاملات کی طرح دشمنوں سے مقابلے میں بھی ہوشیاری اور سمجھ داری سے کام لو۔ دشمن کی گھات سے بچو اور اسے اپنے اوپر موقع نہ دو۔ اور اپنی حفاظت کا سامان لے رکھو۔ پھر موقع محل کی مناسبت سے دشمن کی طرف تھوڑے تھوڑے ہو کر نکلو یا اکٹھے چلو۔ یعنی جہاں جو مناسب ہو امیر کی اطاعت میں رہتے ہوئے تجربات اور عقل کی روشنی میں مفید تدبیریں اختیار کرو۔ یہ آیت مبارکہ جنگی حکمت عملی کے جملہ اصولوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسباب کا اختیار کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ بغیر اسباب لڑنا مرنے کے مترادف ہے۔ توکل ترک اسباب کا نام نہیں بلکہ اسباب اختیار کر کے امیدیں اللہ عزوجل سے وابستہ کرنے کا نام ہے۔(صراط الجنان)
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۲۴ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۹۴ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُواْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًاO
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم (ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو (یقین کرو) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۹۴۔
اس آیت مبارکہ کا شان نزول کچھ اس طرح ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حضور ﷺ نے ایک سریہ روانہ فرمایا ۔ کفار کو جب لشکر اسلام کی آمد کی خبر ملی تو وہ بھاگ گئے لیکن مرداس بن نھیک جو فدک کے رہنے والے تھے اور اپنے قبیلے میں صرف وہی اسلام لا چکے تھے اپنے مال مویشی کے ساتھ وہیں ٹھہرے رہے۔ جب مسلمان وہاں پہنچے اور نعرہ تکبیر بلند کیا تو انہوں نے بھی جواب میں اللہ اکبر کہا اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اتر آئے اور مسلمانوں کو السلام علیکم کہا۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ اہل فدک تو سب کافر ہیں یہ شخص دھوکا دینے کے لیے ایمان کا اظہار کر رہا ہے۔ اس خیال سے حضرت اسامہ نے انہیں قتل کر دیا اور ریوڑ ہانک کر مدینہ طیبہ لے آئے اور بارگاہ رسالت میں سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور ﷺ بہت رنجیدہ خاطر ہوئے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو حالت جنگ میں بھی بلا وجہ قتل و غارت سے روک دیا کہ جب تک تمہیں یقین نہ ہو جائے کہ یہ محارب کافر ہے اس وقت تک ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ اور اگر کوئی عین اس وقت بھی اظہار اسلام کرے تو مال غنیمت کے حصول کے لیے اس کی شہادت اسلام کو رد نہ کردو۔ اس فنا پذیر دولت کی خاطر تم ایک مومن کی شہادت ایمان رد کر رہے ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ رزق کے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں اگر تم اس کے حکم کی تعمیل کرو گے تو وہ دوسرے ذرائع سے تم پر رزق کے دروازے کھول دے گا۔ پھر فرمایا کہ ابتداء میں تمہاری بھی زبانی شہادت اسلام پر اعتبار کر لیا گیا تھا اب تم دوسروں کی زبانی شہادت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ فَتَبَيَّنُواْ کا لفظ آیت میں دو بار آیا ہے جو قتل میں انتہائی احتیاط برتنے کی تاکید کر رہا ہے۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۵ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۳۵ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو عدل و انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے اور اس معاملے میں کسی بھی مصلحت سے بے پروا ہو جانے کی تلقین فرما رہا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًاO
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہےo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۳۵۔​

كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ : انصاف پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ۔ قوّام مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس سے مراد کثرت عددی نہیں بلکہ اس سے ثبات اور استحکام فی الشہادۃ کی تاکید مقصود ہے۔ یعنی جب شہادت دو تو خوب مستحکم ہو کر۔ اور ان تمام امور کو جو سچی گواہی دینے سے انسان کو روکتے ہیں مثلا اپنا ذاتی فائدہ، ماں باپ کا پاس، قریبی رشتہ داروں کی رعایت وغیرہ کو ذکر کر کے ان کو خاطر میں نہ لانے کی تاکید کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کبھی یہ خیال انسان کو حق کے اظہار سے روک دیتا ہے کہ جس کے خلاف میں گواہی دے رہا ہوں وہ امیر کبیر ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ کسی مسکین کی مسکنت اور غربت کا احساس انسان کے دل میں رحم و شفقت کے جذبات ابھار دیتا ہے اور اس غریب کے خلاف سچی بات کہنے سے اس لیے ہچکچاتا ہے کہ اس سے اس غریب کو نقصان نہ پہنچے۔ انسانی نفسیات کا کتنا دقیق محاسبہ ہے۔ فرمایا عدالت میں کھڑے ہو کر ان احساسات کو بالکل دل سے نکال دو اور بڑی سچائی کے ساتھ گواہی دو۔
فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا : اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سبحان اللہ۔ کتنا پیارا جملہ ہے یعنی تم کسی کی خیر خواہی بھلا کیا کرو گے تم اپنے رب کا حکم مانو۔ تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ خود ان (امیر و غریب) کا خیر خواہ ہے۔ اس آیت کی ابتدا میں دو لفظ شُهَدَاءَ لِلّهِ کتنے پر شکوہ اور اثر آفرین ہیں۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ تم کسی انسان کے لیے گواہی دے رہے ہو اور جو تمہارے دل میں آئے کہہ دیا تو کوئی تمہارا کیا بگاڑ لے گا۔ نہیں ، یہ گواہی کسی انسان کے لیے نہیں بلکہ اللہ ذوا لمجد والعلیٰ کے لیے ہے۔ اب سوچ لو کیا تم اس کو ناراض کرنے کی ہمت رکھتے ہو۔ اور وَإِن تَلْوُواْ سے مراد سچی گواہی دیتے دیتے ہیر پھیر کر دینا ہے۔ یعنی جو بات غیر اہم تھی اس پر بڑا زور دیا اور جو اہم بات تھی اس کو پی گئے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۶ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۳۶ میں اللہ عزوجل ایمان کی بنیادی باتوں کا ذکر کر کے اہل ایمان کو ان پر جمے رہنے کی ہدایت عطا فرما رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًاO
اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیاo
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۳۶۔
یعنی اے ایمان والو! اپنے ایمان پر ثابت قدم رہو۔ ومعنی آمنوا اثبتو علی الایمان ودوموا علیہ (کشاف) یعنی آمنو کا مطلب ہے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس پر مداومت یعنی ہمیشگی اختیار کرنا۔ کیونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کو کتنے ہی کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مومن تو وہی ہے جو بڑی پامردی سے کسی خطرہ، کسی وسوسہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جادہ زیست پر قدم بڑھاتا چلا جائے۔ اس آیت کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے۔ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! اپنے حسن عمل سے اس کی تصدیق بھی کرو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
ایمان کی تکمیل مکمل اطاعت میں مضمر ہے۔ ایمان والوں کو حکم ہو رہا ہے کہ ایمان میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ تمام احکام کو، کل شریعت کو، ایمان کی تمام جزئیات کو مان لو۔ ایمان لائے ہو تو اب اسی پر قائم رہو۔ اللہ کو مانا ہے تو اب جسے جس طرح وہ منوائے، مانتے چلے جاؤ۔ پھر فرمایا جو شخص اللہ کے ساتھ، اس کےفرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن کےساتھ کفر کرے، وہ راہ ہدایت سے بہک گیا اور بہت دور کی غلط راہ پڑ گیا۔۔۔(ابن کثیر)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۷ ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۴۴ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں سے دوستیاں کرنے سے منع کر رہا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُواْ لِلّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًاO
اے ایمان والو! مسلمانوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ (نافرمانوں کی دوستی کے ذریعے) اپنے خلاف اللہ کی صریح حجت قائم کر لو o
سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۴۴۔
اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی کا معنی ہے دوست، ہمراز ، مددگار۔ یعنی کافروں کے ساتھ اس قسم کے قریبی مراسم اور پختہ تعلقات منافقت کی کھلی ہوئی دلیل ہیں۔ اس کے بعد اگر تم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت آئے تو تم کو شکوہ کا موقع نہ رہے گا کہ اجی ہم تو مسلمان تھے۔ کیونکہ تم نے کفار کے ساتھ دوستی قائم کر کے اپنے منافق ہونے کا ناقابل تردید ثبوت مہیا کر دیا۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

اس آیت میں بتایا گیا کہ کفار کو دوست بنانا منافقین کی خصلت ہے۔لہٰذا تم اس سے بچو۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ کافروں کو دوست بنا کر منافقت کی راہ اختیار کرو اور یوں اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم کر لو۔۔۔(صراط الجنان)۔

کافروں سے دوستیاں کرنے سے، ان سے دلی محبت رکھنے سے، ان کے ساتھ ہر وقت اٹھنے بیٹھنے سے، مسلمانوں کے بھید ان کو دینے سے اور پوشیدہ تعلقات ان سے قائم رکھنے سے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روک رہا ہے۔ جیسے کہ اور آیت میں بھی ہے کہ مومنوں کو چاہیئے کہ بجز مومنوں کے کفار سے دوستی نہ کریں۔ ایسا کرنے والا اللہ کے ہاں کسی بھلائی کا مستحق نہیں۔ ہاں اگر صرف بچاؤ کے طور پر ظاہر داری ہو تو اور بات ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان مروی ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں ایسی عبارتوں میں سلطان کا لفظ ہے وہاں اس سے مراد حجت ہے یعنی اگر تم نے مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دلی دوستی کے تعلقات پیدا کیے تو تمہارا یہ فعل کافی ثبوت اور پوری دلیل ہو گا اس امر کی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے۔ کئی سلف مفسرین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔۔۔(ابن کثیر)۔

آج ہر مسلمان کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان آیات کے تناظر میں ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔ اللہ عزوجل ہمارے حال پر رحم فرمائے۔۔۔ آمین۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۸ ۔ یہ سورۃ المائدہ کی پہلی آیت ہے جس میں اہل ایمان کو عہد و پیمان پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس آیت اور اس کے بعد کی کچھ آیات میں حلال و حرام جانوروں کے متعلق بھی رہنمائی فرمائی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُO
اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔ تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا (لیکن) جب تم اِحرام کی حالت میں ہو، شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ بیشک اﷲ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہےo
سورۃ المائدہ ، آیت نمبر ۱۔
أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ : تمام عہد پورے کرو۔ جس طرح وعدہ کیا گیا ہو اسی کے مطابق اس کو پورا کرنا وفاء اور ایفاء کہلاتا ہے۔ عقود عقد کی جمع ہے اس کا لغوی معنی گرہ لگانا ہے۔ اب اس کا اطلاق اس پختہ وعدہ پر ہوتا ہے جو دو شخصوں کے درمیان طے پائے۔ یہاں عقود سے مراد ہر قسم کے معاہدے ہیں خواہ وہ انسان اور اس کے خالق کے درمیان ہوں یا انسان اور انسان کے درمیان ہوں۔ ان کا تعلق دینی احکام سے ہو یا دنیوی معاملات سے۔ سب اس میں شامل ہیں۔ البتہ وہ وعدہ جس کے پورا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہوتی ہو اس کا پورا نہ کرنا ضروری ہے۔حضور کریم علیہ الصلاۃ وافضل التسلیم نے عہد شکنی کو منافقت کی علامت قرار دیا ہے۔ اخلاق کا کتنا بہترین درس ان دو لفظوں میں دیا گیا ہے۔ کاش ہم سمجھیں اور عمل کریں۔
پھر احکام الٰہی کا ذکر شروع ہو رہا ہے کہ جن کی تعمیل کا وعدہ ہر مسلمان اسلام قبول کرتے وقت اپنے رب سے کیا کرتا ہے۔ پہلا حکم یہ ہے کہ اُن جانوروں کے علاوہ جن کا ذکر آگے (کی آیات میں) آ رہا ہے دوسرے مویشی تمہارے لیے حلال ہیں۔ مشرکین عرب نے اپنے باطل عقائد کی وجہ سے کئی مویشی اپنے اوپر حرام کر رکھے تھے مثلاً بحیرہ وغیرہ۔ نیز کئی مویشی بطور سزا بنی اسرائیل پر حرام کر دیےگئے تھے۔ مسلمانوں کو حکم دیا کہ یہ جانور تمہارے لیے حلال ہیں۔ دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ جب تم نے حج و عمرہ کے لیے احرام باندھ لیا ہو تو پھر تمہارے لیے خشکی کا شکار ممنوع ہے۔
إِنَّ اللّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ : بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے۔ بیشتر احکام جو اس وقت نازل ہو رہے تھے وہ عرب کے دیرینہ رسم و رواج اور ان کے آبائی عقائد کے بالکل خلاف تھے۔ اس لیے احتمال تھا کہ سوال و جواب کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔ لہٰذا یہ فرما کر ان تمام چہ میگوئیوں کا دروازہ ہی بند کر دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور وہ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے۔ جب تم نے اس کا بندہ ہونے کا اعتراف کر لیا، اس کو علیم و حکیم تسلیم کر لیا اور اس کے احکام کی تعمیل کا وعدہ کر لیا تو اب قیل و قال کیسی۔ یقین محکم سے ہر ارشاد کی پیروی کرتے جاؤ۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۹ ۔ اگلی آیت یعنی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۲ میں مزید تفصیل سے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلاَ آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْ۔بِ۔رِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِO
اے ایمان والو! اﷲ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرمِ کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں، اور جب تم حالتِ اِحرام سے باہر نکل آؤ تو تم شکار کرسکتے ہو، اور تمہیں کسی قوم کی (یہ) دشمنی کہ انہوں نے تم کو مسجدِ حرام (یعنی خانہ کعبہ کی حاضری) سے روکا تھا اس بات پر ہرگز نہ ابھارے کہ تم (ان کے ساتھ) زیادتی کرو، اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہےo
سورۃ المائدہ ، آیت نمبر ۲۔​

شَعَآئِرَ اللّهِ : اللہ کی نشانیاں۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ شعائر کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے وہ علامت جس سے کسی چیز کی پہچان ہو سکے۔ یعنی جن سے حق و باطل کی شناخت ہو سکے ان کو شعائراللہ کہتے ہیں۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن احکام کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا طرہ امتیاز مقرر فرمایا ہے ان کی پابندی کرو، جن حدوں کو قائم کیا ہے ان سے تجاوز نہ کرو اور جن چیزوں کے استعمال سے روکا ہے ان کے قریب مت جاؤ۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۳۰ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۶ میں وضو اور تیمم کے احکام بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَ۔كِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَO
اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۶۔​

إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ : جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو۔ آیت مبارکہ میں وضو اور تیمم کا طریقہ اور ان کی حاجت کب ہوتی ہے اس کا بیان کیا گیا ہے۔ وضو کے چار فرض ہیں۔ ۱۔ چہرہ دھونا ، ۲۔ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا دھونا، ۳۔ چوتھائی سر کا مسح کرنا، ۴۔ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا۔ (فرائض، سنن ومستحبات کی رعایت کے ساتھ وضو کرنے کا طریقہ ہمارے ہاں معروف ہے الحمدللہ۔ تیمم کا طریقہ مراسلہ نمبر ۳۰ میں گزرا۔) وضو میں اعضاء کو جتنا دھونے کا حکم ہے اس سے کچھ زیادہ دھو لینا مستحب ہے کہ جہاں تک اعضائے وضو کو دھویا جائے گا قیامت کے دن وہاں تک اعضاء روشن ہوں گے۔ اگرچہ ایک ہی وضو سے بہت سی نمازیں پڑھنا درست ہے مگر ہر نماز کے لیے جداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا ذریعہ ہے۔ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لیے جداگانہ وضو کرنا فرض تھا، بعد میں منسوخ کیا گیا۔۔۔ (صراط الجنان)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۳۱ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۸ میں اہل ایمان کو عدل و انصاف پر مضبوطی سے جمے رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَO
اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۸۔
كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ : اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ۔ بعینہ یہی الفاظ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۵ میں گزر چکے ہیں۔ اس کے دوبارہ نزول کی وجہ یہ ہے کہ مکہ فتح ہونے والا ہے۔ مسلمانوں کے جان و ایمان کے نہایت ظالم اور بے رحم دشمن ان کے سامنے پیش ہونے والے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اسلام کے علم بردار جوش غضب میں ان پر زیادتی کرنے لگیں۔ اس لیے انہیں وقت سے پہلے ہی تنبیہ فرما دی کہ احکام الٰہی کی اطاعت میں تساہل نہ برتیں۔ کفار مسلمانوں کے شہیدوں کے ناک کان کاٹ کر مثلہ کر دیا کرتے تھے۔ مسلمان عورتوں اور بچوں کے قتل سے بھی نہیں شرماتے تھے۔ مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے روک دیا گیا۔ چونکہ اب قوت و اقتدار مسلمانوں کے پاس آ رہا تھا اس لیے انہیں واضح طور پر حکم دیا کہ خبردار ! کسی قیمت پر انصاف کا دامن تمہارے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ اور حق یہ ہے کہ کوئی قوم حکومت و سلطنت کے تخت کی مستحق اس وقت تک ہی رہتی ہے جب تک وہ صفت عدل سے متصف رہے۔ جس قوم نے ظلم پر کمر باندھ لی وہ آج نہیں تو کل ضرور اس نعمت سے محروم کر دی جائے گی۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 
Top