الشفاء
لائبریرین
۳۲ ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۱۱ میں ارشاد ربانی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَO
اے ایمان والو! تم اﷲ کے (اُس) انعام کو یاد کرو (جو) تم پر ہوا جب قوم (کفّار) نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے ہاتھ (قتل و ہلاکت کے لئے) تمہاری طرف دراز کریں تو اﷲ نے ان کے ہاتھ تم سے روک دیئے، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور ایمان والوں کو اﷲ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئےo
سورۃ المائدۃ ، آیت نمبر ۱۱۔
اذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ : تم اﷲ کے (اُس) انعام کو یاد کرو ۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کریم ﷺ ایک منزل میں اترے، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے۔ آپ ﷺ نے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دیے۔ ایک اعرابی نے آکر آپ کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر حضور اکرم ﷺ کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اب بتائیے مجھ سے آپ کو کون بچا سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے فوراً جواب دیا ، اللہ عزوجل۔ اس نے تین دفعہ کہا اور آپ نے یہی جواب دیا تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ آپ نے صحابہ کو بلا کر سارا واقعہ بتایا اور اس اعرابی کو معاف کر دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودیوں نے آپﷺ اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کی لیکن اللہ عزوجل نے آپ کو آگاہ کر دیا اور آپ بچ رہے۔ ابن اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنھوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر سے آپ کے سر پر گرانا چاہا تھا۔ ان شریروں نے عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم حضور کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مغشول کر لیں گے تم اوپر سے چکی کا پاٹ ان کے اوپر پھینک دینا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو ان کی شرارت وخباثت سے آگاہ کر دیا۔ آپ مع اپنے صحابہ کے وہاں سے چلے گئے۔ (ابن کثیر)۔
اس آیت میں اللہ عزوجل اہل ایمان پر حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی سلامتی کا احسان ذکر فرما رہا ہے۔ جو قیامت تک آنے والے تمام غلامان مصطفٰے پر ہے۔۔۔
۔۔۔