الشفاء
لائبریرین
۴۸ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۹ تقویٰ اختیار کرنے کی کچھ برکات بیان کی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے پرہیز گار بندوں کو جن انعامات سے سرفراز فرماتا ہے۔اس آیت میں ان کا بیان ہے۔ ۱۔ نعمت فرقان ، ۲۔ ستر عیوب ، ۳۔ آمرزش گناہ۔
۱ ۔ حق وباطل میں تمیز کرنے والی قوت کو فرقان کہتے ہیں۔عارفین کاملین کا ارشاد ہے کہ ذکر الٰہی سے ایک نور پیدا ہوتا ہے جس سے حقائق اشیاء منکشف ہو جاتی ہیں اور غلط و صحیح میں واضح فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اسے کشف کہتے ہیں۔ اور حضور کریم ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنوراللہ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
۲۔ پرہیزگاروں پر دوسرا انعام یہ کیا جائے گا کہ ان کے گناہوں کو چھپا دیا جائے گا تاکہ کسی کی نگاہ ان پر نہ پڑ سکے۔ علامہ ابن منظور يُكَفِّرْ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کفر کا اصلی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو اس طرح ڈھانپ دیناکہ اس کا نام و نشان بھی محو ہو جائے۔ علامہ موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں والتکفیر فی المعاصی کالاحباط فی الثواب یعنی اگر ثواب ملیا میٹ ہو جائے تو اس کے لیے احباط کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اگر گناہوں کا نام ونشان مٹا دیا جائے تو وہاں تکفیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔(لسان العرب)۔ اللہ تعالیٰ کا پرہیز گاروں پر یہ کتنا کرم ہے کہ عالم غفلت میں ان سے جو گناہ سرزد ہوئے ان کو وہ اپنے کرم کی چادر سے ڈھانپ دے اور کسی کو ان گناہوں کی اطلاع تک نہ ہو۔
۳۔ ان نیک بختوں پر جو تیسرا احسان فرمایا جائے گا وہ یہ ہے کہ اگر بشری تقاضوں کے باعث ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے ، کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں تو اس پر قلم عفو پھیر دیا جائے گا اور اسے بخش دیا جائے گا۔
بے شک تقویٰ کے تقاضے بڑے گراں ہیں لیکن ان پر جن انعامات کی بارش کی جاتی ہے ان کے باعث ان کی تلخی و گرانی کا تصور تک محو ہو جاتا ہے۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔
الٰلھم اجعلنا للمتقین اماما۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تَتَّقُواْ اللّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَاناً وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہےo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۲۹۔
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہےo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۲۹۔
اللہ تعالیٰ اپنے پرہیز گار بندوں کو جن انعامات سے سرفراز فرماتا ہے۔اس آیت میں ان کا بیان ہے۔ ۱۔ نعمت فرقان ، ۲۔ ستر عیوب ، ۳۔ آمرزش گناہ۔
۱ ۔ حق وباطل میں تمیز کرنے والی قوت کو فرقان کہتے ہیں۔عارفین کاملین کا ارشاد ہے کہ ذکر الٰہی سے ایک نور پیدا ہوتا ہے جس سے حقائق اشیاء منکشف ہو جاتی ہیں اور غلط و صحیح میں واضح فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اسے کشف کہتے ہیں۔ اور حضور کریم ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنوراللہ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
۲۔ پرہیزگاروں پر دوسرا انعام یہ کیا جائے گا کہ ان کے گناہوں کو چھپا دیا جائے گا تاکہ کسی کی نگاہ ان پر نہ پڑ سکے۔ علامہ ابن منظور يُكَفِّرْ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کفر کا اصلی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو اس طرح ڈھانپ دیناکہ اس کا نام و نشان بھی محو ہو جائے۔ علامہ موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں والتکفیر فی المعاصی کالاحباط فی الثواب یعنی اگر ثواب ملیا میٹ ہو جائے تو اس کے لیے احباط کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اگر گناہوں کا نام ونشان مٹا دیا جائے تو وہاں تکفیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔(لسان العرب)۔ اللہ تعالیٰ کا پرہیز گاروں پر یہ کتنا کرم ہے کہ عالم غفلت میں ان سے جو گناہ سرزد ہوئے ان کو وہ اپنے کرم کی چادر سے ڈھانپ دے اور کسی کو ان گناہوں کی اطلاع تک نہ ہو۔
۳۔ ان نیک بختوں پر جو تیسرا احسان فرمایا جائے گا وہ یہ ہے کہ اگر بشری تقاضوں کے باعث ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے ، کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں تو اس پر قلم عفو پھیر دیا جائے گا اور اسے بخش دیا جائے گا۔
بے شک تقویٰ کے تقاضے بڑے گراں ہیں لیکن ان پر جن انعامات کی بارش کی جاتی ہے ان کے باعث ان کی تلخی و گرانی کا تصور تک محو ہو جاتا ہے۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔
الٰلھم اجعلنا للمتقین اماما۔۔۔
۔۔۔