الشفاء

لائبریرین
۴۸ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۲۹ تقویٰ اختیار کرنے کی کچھ برکات بیان کی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تَتَّقُواْ اللّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَاناً وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِO
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہےo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۲۹۔​

اللہ تعالیٰ اپنے پرہیز گار بندوں کو جن انعامات سے سرفراز فرماتا ہے۔اس آیت میں ان کا بیان ہے۔ ۱۔ نعمت فرقان ، ۲۔ ستر عیوب ، ۳۔ آمرزش گناہ۔

۱ ۔ حق وباطل میں تمیز کرنے والی قوت کو فرقان کہتے ہیں۔عارفین کاملین کا ارشاد ہے کہ ذکر الٰہی سے ایک نور پیدا ہوتا ہے جس سے حقائق اشیاء منکشف ہو جاتی ہیں اور غلط و صحیح میں واضح فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں اسے کشف کہتے ہیں۔ اور حضور کریم ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنوراللہ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
۲۔ پرہیزگاروں پر دوسرا انعام یہ کیا جائے گا کہ ان کے گناہوں کو چھپا دیا جائے گا تاکہ کسی کی نگاہ ان پر نہ پڑ سکے۔ علامہ ابن منظور يُكَفِّرْ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کفر کا اصلی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کو اس طرح ڈھانپ دیناکہ اس کا نام و نشان بھی محو ہو جائے۔ علامہ موصوف آگے چل کر لکھتے ہیں والتکفیر فی المعاصی کالاحباط فی الثواب یعنی اگر ثواب ملیا میٹ ہو جائے تو اس کے لیے احباط کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور اگر گناہوں کا نام ونشان مٹا دیا جائے تو وہاں تکفیر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔(لسان العرب)۔ اللہ تعالیٰ کا پرہیز گاروں پر یہ کتنا کرم ہے کہ عالم غفلت میں ان سے جو گناہ سرزد ہوئے ان کو وہ اپنے کرم کی چادر سے ڈھانپ دے اور کسی کو ان گناہوں کی اطلاع تک نہ ہو۔
۳۔ ان نیک بختوں پر جو تیسرا احسان فرمایا جائے گا وہ یہ ہے کہ اگر بشری تقاضوں کے باعث ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے ، کسی جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں تو اس پر قلم عفو پھیر دیا جائے گا اور اسے بخش دیا جائے گا۔
بے شک تقویٰ کے تقاضے بڑے گراں ہیں لیکن ان پر جن انعامات کی بارش کی جاتی ہے ان کے باعث ان کی تلخی و گرانی کا تصور تک محو ہو جاتا ہے۔۔۔ (ضیاء القرآن)۔
الٰلھم اجعلنا للمتقین اماما۔۔۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۹ ۔ سورۃ الانفال کی آیت نمبر ۴۵ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُواْ وَاذْكُرُواْ اللّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤo
سورۃ الانفال ، آیت نمبر ۴۵۔​

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کے دو آداب تعلیم فرمائے ہیں۔
پہلا ادب جنگ میں ثابت قدم رہنا : اول تو مسلمانوں کو جنگ یا کسی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہیئے۔ لیکن جب ان پر جنگ مسلط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ۔ اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ عزوجل کو یاد کرو۔(مصنف عبدالرزاق)
دوسرا ادب لڑائی کے دوران کثرت سے اللہ عزوجل کا ذکر کرنا : دوران جنگ دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور زبان پر اللہ عزوجل کا ذکر ہونا چاہیئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو انتہائی شدید حالت میں بھی ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر ایک شخص مغرب سے مشرق تک اپنے اموال کی سخاوت کرے اور دوسرا شخص مشرق سے مغرب تک تلوار سے جہاد کرتا جائے تب بھی اللہ عزوجل کا ذکر کرنے والے کا درجہ اور اجر ان سے زیادہ ہو گا۔(تفسیر کبیر)
(صراط الجنان)
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین

سورۃ التوبہ ۔ ۹

۵۰ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۲۳ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّواْ الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اے ایمان والو! تم اپنے باپ (دادا) اور بھائیوں کو بھی دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو محبوب رکھتے ہوں، اور تم میں سے جو شخص بھی انہیں دوست رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیںo
سورۃ التوبہ، آیت نمبر ۲۳۔​

اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے۔ ان کی دوستیوں سے روکتا ہے چاہے وہ ماں باپ ہوں، بہن بھائی ہوں، بشرطیکہ وہ کفر کو اسلام پر ترجیح دیں۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اللہ اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو ہر گز اللہ اور رسول کے دشمنوں سے دوستی کرنے والا نہیں پائے گا چاہے وہ ان کے باپ ہوں، بیٹے ہوں ، بھائی ہوں یا رشتہ دار ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ۔
دار کفر کو چھوڑ کر اسلام کی طرف ہجرت کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی رشتہ داریاں تھیں جن کی محبت اور خاطر داری کی وجہ سے انسان اس فریضہ کی ادائیگی سے محروم رہ جاتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ کسی سے خواہ وہ تمھارے باپ اور بھائی ہی کیوں نہ ہوں ایسی دلی دوستی قائم نہ کرو جو کسی وقت حکم الٰہی کی بجا آوری میں حائل ہو۔ (ضیاء القرآن)۔
جب مسلمانوں کو مشرکین سے ترک موالات کا حکم دیا گیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ بھائی وغیرہ قرابت داروں سے ترک تعلق کرے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ کفار سے موالات یعنی قلبی محبت کا تعلق جائز نہیں چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو(خازن)۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں یعنی کافروں ، بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول ، رسم و راہ ، مودت و محبت ، ان کی ہاں میں ہاں ملانا ، ان کی خوشامد میں رہنا سب ممنوع ہے۔ سورۃ ھود کی آیت ۱۱۳ میں ارشاد ہوتا ہے ،" اور ظالموں کی طرف مت جھکو ورنہ تمھیں آگ پکڑے گی"۔ اور سورۃ انعام کی آیت ۶۸ میں ارشاد ہے ، "اور اگر شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ"۔۔۔صحیح مسلم میں خاتم الانبیا ﷺ کا ارشاد ہے ، "ان سے الگ رہو ، انہیں اپنے سے دور رکھو ، کہیں وہ تمھیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمھیں فتنے میں نہ ڈال دیں"۔ اور سنن ابو داؤد میں ارشاد ہے ، "اگر یہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شامل نہ ہونا"۔ ان آیات و احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہیئے کہ بد مذہبوں کے سائے سے بھی کوسوں دور بھاگیں چہ جائیکہ ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، ان کی دعوتوں میں اور ان کی شادی غمی میں شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین۔۔۔ (صراط الجنان)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۵۱ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۲۸ میں مشرکین کے ناپاک ہونے اور انھیں مسجد حرام سے دور رکھنے کے بارے میں نہایت اہم ہدایات بیان کی گئی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَ۔ذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ إِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اے ایمان والو! مشرکین تو سراپا نجاست ہیں سو وہ اپنے اس سال کے بعد (یعنی فتحِ مکہ کے بعد 9 ھ سے) مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں، اور اگر تمہیں (تجارت میں کمی کے باعث) مفلسی کا ڈر ہے تو (گھبراؤ نہیں) عنقریب اللہ اگر چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے مال دار کر دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۲۸۔​

إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ: مشرک بالکل ناپاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے اہل ایمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں۔ یہ آیت ۹ ہجری میں نازل ہوئی اور اسی سال حضور کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ حج کے مجمع میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے۔۔۔(ابن کثیر)۔
اس آیت نے آئندہ کے لیے ممانعت کر دی کہ کعبہ مقدسہ جو محض اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا ہے وہاں اب مزید کسی مشرکانہ پوجا پاٹ کی اجازت نہیں ہوگی۔ مشرکین کے نجس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد اور باطل نظریات کی وجہ سے ناپاک ہیں۔جب کفار سے قطع تعلق کا اعلان کر دیا گیا تو بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال گزرا کہ اس طرح تو تجارتی کاروبار بند ہوجائے گا، ضرورت کی چیزیں نایاب ہو جائیں گی اور کھانے پینے کی چیزوں کی بھی تنگی ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رزق کی بست و کشاد میرے دست قدرت میں ہے۔ یہ خوف دلوں سے نکال دو۔ خزائن العرفان میں حضرت صدرالافاضل فرماتے ہیں (اگر چاہے) فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہیے کہ طلب خیر اور دفع آفات کے لیے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور تمام امور کو اسی کی مشیت سے متعلق جانے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۵۲ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۳۴ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍO
اے ایمان والو! بیشک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دینِ حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کئے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیںo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۳۴۔​
یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کو عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا۔ ان کے تحفے ، ہدیے، خراج وغیرہ مقرر تھے جو بغیر مانگے انھیں پہنچ جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انھیں اسلام سے روکا۔ لیکن حق کی مخالفت کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ (ابن کثیر)۔
پادری اور روحانی درویش اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے ہیں کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں مال و دولت کے لالچ میں تحریف و تبدیلی کرتے ہیں۔ اور سابقہ کتابوں کی جن آیات میں سرکار دوعالم ﷺ کی نعت و صفت مذکور ہے ، مال حاصل کرنے کے لیے ان کی فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرص مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ۔ یاد رہے کہ مال کا جمع کرنا مباح ہے ، مذموم نہیں جبکہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں۔۔۔(صراط الجنان)۔
 

الشفاء

لائبریرین
۵۳ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۳۸ میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کے حقیر ہونے کو بیان کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌO
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین (کی مادی و سفلی دنیا) کی طرف جھک جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے)o
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۳۸۔
جب غزوہ طائف و حنین سے فارغ ہو کر مسلمان مدینہ طیبہ پہنچے تو شام سے اطلاعیں آنے لگیں کہ قیصر روم اپنے لشکر جرار اور شامی فوجوں کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کا ارادہ کر رہا ہے۔ حضور پر نور ﷺ نے اس کا یہاں انتظار کرنے کے بجائے خود اس کے ملک پر چڑھائی کا عزم فرما لیا اور مسلمانوں کو جہاد میں شرکت کی دعوت دی۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ پکی ہوئی کھجوروں کے نظر فریب خوشے لٹک رہے تھے۔ ٹھنڈا پانی پینے،گھنے سایہ میں بیٹھنے اور آرام کرنے کے دن تھے۔ ان حالات میں اتنی مسافت طے کر کے جانا اور ایک منظم اور مسلح لشکر سے نبرد آزما ہونا کوئی کھیل تماشا نہ تھا۔ منافق تو سب کےسب جھوٹے بہانے بنا کر الگ ہو گئے۔ بعض مسلمانوں کو بھی ابتداء میں یہ سفر بہت مشکل نظر آیا۔ اس وقت رب ذوالجلال نے اس پر جلال انداز میں جہاد کی دعوت دی جس سے اہل ایمان کی آنکھیں کھل گئیں۔ سستی اور کاہلی کافور ہو گئی اور وہ سر بکف اپنے محبوب رسول کی قیادت میں قیصر کی افواج قاہرہ کو للکارنے کے لیے روانہ ہو گئے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
جب نبی کریم ﷺ تبوک کے قریب پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاءاللہ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ رسول اللہ ﷺ جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں پانی کی ایک دھار بہہ رہی تھی۔ آپ ﷺ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ میں زور دار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی۔ اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔ سرکار دو جہاں ﷺ نے کافی عرصہ یہاں قیام فرمایا۔ ہرقل شاہ روم اپنے دل میں آپ ﷺ کو سچا نبی جانتا تھا اس لیے اسے خوف ہوا اور وہ آپ ﷺ سے مقابلہ کرنے سے باز رہا۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۵۴ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۱۹ میں اہل ایمان کو تقویٰ اور سچے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَO
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہوo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۱۱۹۔​

وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ : اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں، رسول اللہ ﷺ کی اخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ، بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے۔ اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۵۵ ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۱۲۳ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُواْ فِيكُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَO
اے ایمان والو! تم کافروں میں سے ایسے لوگوں سے جنگ کرو جو تمہارے قریب ہیں (یعنی جو تمہیں اور تمہارے دین کو براہِ راست نقصان پہنچا رہے ہیں) اور (جہاد ایسا اور اس وقت ہو کہ) وہ تمہارے اندر (طاقت و شجاعت کی) سختی پائیں، اورجان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہےo
سورۃ التوبہ ، آیت نمبر ۱۲۳۔
قَاتِلُواْ الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ : ان کافروں سے جہاد کرو جو تمھارے قریب ہیں۔ اس آیت میں کفار سے جنگ کے آداب سکھائے گئے ہیں کہ جنگ کی شرعی اجازت جب متحقق ہو جائے تو اس کی ابتداء قریب میں رہنے والے کفار سے کی جائے پھر ان کے بعد جو قریب ہوں۔ اسی طریقے سے تمام کفار سے جہاد ممکن ہے ورنہ ایک ہی بار سب سے جنگ کرنا متصور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے اپنی قوم سے جہاد فرمایا پھر پورے عرب سے، پھر اہل کتاب سے اور ان کے بعد روم اور شام والوں سے جنگ کی۔
وَلْيَجِدُواْ فِيكُمْ غِلْظَةً : اور وہ تم میں سختی پائیں۔ اس سختی میں جرات و بہادری، قتال پر صبر، قتل یا قید کرنے میں شدت وغیرہ ہر قسم کی مضبوطی و سختی داخل ہے۔ جو کفار اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں ان کےساتھ سختی سے نمٹنے کا حکم ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہر وقت سختی ہی کرتے رہیں کیونکہ ہمیں تو دوران جہاد بھی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔۔۔(صراط الجنان)۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الحج ۔ ۲۲
۵۶ ۔ سورۃ الحج کی آیت نمبر ۷۷ میں ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکوo
سورۃ الحج ، آیت نمبر ۷۷۔
اُس اللہ عزوجل کی بندگی کا حکم دیا جا رہا ہے جو خدا وند برحق ہے، جو قادر مطلق ہے، جس کی عظمت و کبریائی کی شہادت آسمان کی بلندیاں، زمین کی پستیاں، پہاڑوں کا سکون اور دریاؤں کی روانیاں، عندلیبوں کے نالے اور پھولوں کی مسکراہٹیں۔ کانٹوں کی چبھن اور کلیوں کی پھبن۔ غرضیکہ ہر چیز اپنی اپنی ہمت و صلاحیت کے مطابق دے رہی ہے۔ اس رب عزوجل کی ایسی بندگی کا حکم دیا جا رہا ہے جو صرف زبان تک محدود نہ ہو، جو رکوع و سجود میں مقید نہ ہو، جو مساجد و عبادت گاہوں کے دروازوں پر آ کر ختم نہ ہو جائے بلکہ ایسی بندگی جس کا زندگی کے ساتھ ہمہ وقتی تعلق ہے۔ زندگی کا قافلہ جس راہ پر گامزن رہے غم و اندوہ کے جتنے عمیق کھڈوں سے گزرے، خوشی و مسرت کے جتنے چمن راہ میں آئیں ہر ہر جگہ ہر ہر قدم پر بندگی کا نشان زندگی کی جبین پر تابندہ رہے۔ ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا سے ادائے نماز کا حکم ملا ، وَاعْبُدُوا سے اس کے تمام احکام بجا لانے کی تاکید ہوئی ، وَافْعَلُوا الْخَيْرَ سے ایسے کام کرنے کا فرمان صادر ہوا جو اس کے لیے، اس کی قوم و ملت کے لیے، سارے نوع انسانی کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق کے لیے اپنے دامن میں خیر و نفع کی نعمت سمیٹے ہوں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ النور ۔ ۲۴
۵۷ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۲۴۔​

دو قدموں کے درمیان جو جگہ ہوتی ہے اس کو عربی میں خُطُوَۃ کہتے ہیں جس کی جمع خُطُوَاتِ ہے۔مقصد یہ ہے کہ شیطان کی پیروی مت کرو ، اس کے نقش قدم پر مت چلو کیونکہ وہ اپنے ماننے والوں کو نیکی اور ہدایت کی دعوت نہیں دیتا بلکہ اس کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو بے حیائی اور بدکاری کی تلقین کرتا ہے اور برے کاموں کو اس حسین انداز میں پیش کرتا ہے کہ ان کے برے نتائج نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ انسان یہی سمجھنے لگتا ہے کہ ساری مسرتیں، ساری عزتیں انہی برے کاموں میں سمٹ کر رہ گئی ہیں۔ شیطان کے اکسانے سے وہ ایسی ایسی کمینی اور حیا سوز حرکتیں کرتا ہے کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب اپنی بدکاریوں کے نتائج سے وہ دوچار ہوتا ہے، جب بے حیائی کی جلائی ہوئی آگ خود اس کے اپنے گھر کو لپیٹ میں لے لیتی ہے، اس کی اپنی ناموس اور عصمت لٹنے لگتی ہے اس وقت وہ شیطان کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے لیکن وہ بے مروت ہنس کر ٹال دیتا ہے اور الٹا اس کا مذاق اڑاتا ہے۔
آخر میں اس حقیقت کو بیان فرما دیا کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ وہ تمھیں شیطان کی وسوسہ اندازیوں سے اور اس کے دام فریب سے بچا لے ورنہ تم میں یہ طاقت نہیں کہ تم اس گرگ باراں دیدہ کی فریب کاریوں سے اپنے آپ کو بچا سکو۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ پر اپنی نظر لطف و کرم فرماتا ہے تو گرتے ہوئے سنبھل جاتے ہیں اور ڈوبتے ہوؤوں کو سہارا مل جاتا ہے۔ اپنے علم و فہم پر نازاں نہ ہوا کرو، ہر وقت اس کےفضل و کرم کے امیدوار رہا کرو اور اسی کی بارگاہ اقدس میں بصد عجز و نیاز عرض کیا کرو کہ اے الہ العٰلمین ہم کمزور ہیں، شیطان کی چالیں بڑی خطرناک ہیں، ہم تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ہماری مدد فرما اور ہمیں اس کے شر سے بچا لے۔۔۔
(ضیاء القرآن)۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۵۸ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۲۷ اور اس سے متصل اگلی آیات میں اہل ایمان کو ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کروo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۲۷۔
اس آیت اور اس سے متصل اگلی آیات میں اسلامی طرز معاشرت کے چند اہم قاعدے سکھائے جا رہے ہیں۔ انصار کی ایک خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کی ، یا رسول اللہ! بسا اوقات میں گھر میں ایسی حالت میں ہوتی ہوں کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھے اس حالت میں دیکھے۔ کبھی میرے والد آ جاتے ہیں اور کبھی اہل خانہ سے کوئی اور مرد آ جاتا ہے۔ مجھے کیا ارشاد ہے کہ میں کیا کروں؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
آپ خود غور فرمائیں کہ انسان کا گھر اس کا خلوت خانہ ہے جہاں وہ بے تکلفی سے وقت بسر کر سکتا ہے۔ اگر یہاں بھی ہر شخص کو بلا اجازت، بے دھڑک آ گھسنے کی آزادی ہو تو انسان گھر میں وہ راحت و آرام نہیں پا سکے گا جس کی تلاش میں وہ باہر سے تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ نیز گھر کی مستورات ہر وقت اپنے کپڑوں کو سنبھال کر نہیں رکھ سکتیں۔ کبھی اوڑھنی سر سے اتر جاتی ہے کبھی کوئی کام کرنے کے لیے آستینیں چڑھانی پڑتی ہیں، نہانا دھونا بھی ہوتا ہے۔ ان حالات میں اگر آنے والے پر کوئی پابندی نہ ہو تو عورتیں یا تو ہر وقت سر پر چادر ڈالے رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہیں یا نامحرم کے سامنے بے حجاب ہونے کا اندیشہ مول لیں۔ نیز یہ ویسے بھی بڑی سخت زیادتی ہے کہ کسی کے گھر میں بلا اجازت گھس آئے۔ اس طرح گوناگوں خرابیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔
اگر کسی کے ہاں جانا پڑے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ باہر کھڑے ہو کر اذن طلب کرو۔ اگر اجازت مل جائے تو اہل خانہ کو سلام کہتے ہوئے اندر جاؤ۔ فرمایا ذَالِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ یہی طریقہ تمھارے لیے عمدہ اور پسندیدہ ہے۔ اذن لینے کا طریقہ یہ ہے کہ سلام بھی کہے، داخل ہونے کی اجازت بھی طلب کرے اور اپنا نام بھی بتائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب شرف باریابی حاصل کرنا چاہتے تو یوں عرض کرتے ، السلام علیک یا رسول اللہ ایدخل عمر؟ یا رسول اللہ آپ پر سلام ہو کیا عمر حاضر ہو سکتا ہے؟ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ معمول تھا کہ جب اذن طلب فرماتے تو دروازہ کے سامنے کھڑے نہ ہوتے بلکہ دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے۔ نیز دروازے کو کھٹکھٹانا بھی اذن طلب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ آج کل کئی گھروں میں گھنٹی لگی ہوتی ہے اسے بجا کر بھی اذن طلب کیا جا سکتا ہے۔ جس گھر میں ماں یا بہن رہائش پذیر ہو وہاں جاتے ہوئے بھی اذن طلب کرنا چاہیے۔ اسلام نے صرف بلا اجازت داخل ہونے پر ہی پابندی نہیں لگائی بلکہ بلا اجازت کسی کے گھر میں جھانکنا بھی ممنوع ہے۔زیادہ سے زیادہ تین بار اذن طلب کرنا چاہیے۔ اگر تیسری بار بھی جواب نہ آئے تو واپس چلا آئے کیونکہ اس سے زیادہ اذن طلب کرنا صاحب خانہ کو اذیت دینا اور پریشان کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اس وقت ایسے کام میں مشغول ہو جسے وہ منقطع نہ کر سکتا ہو۔ ایک روز حضور اکرم ﷺ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور طلب اذن کے لیے فرمایا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ سعد نے سن لیا اور آہستہ سے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ عرض کیا۔ حضور نے دوسری بار سلام فرمایا ۔ سعد نے پھر بھی چپکے سے جواب دیا۔ تیسری بار بھی حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے سلام کے جواب میں حضرت سعد نے آہستہ سے وعلیکم السلام کہہ دیا۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام واپس تشریف لے جانے لگے تو حضرت سعد دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کی ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ۔ آپ نے جتنی بار سلام فرمایا میں نے سنا اور جواب دیا۔ میری خاموشی کا مقصد یہ تھا کہ حضور مجھے بار بار سلام فرمائیں اور مجھے اس کی برکت حاصل ہو۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۵۹ ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ۵۸ اور ۵۹ میں گھر کے افراد اور بچوں کے حوالے سے گھر میں آنے جانے کے بارے میں آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo
سورۃ النور ، آیت نمبر ۵۸۔
اسلامی طرز معاشرت کا ایک اور اصول بیان کیا جا رہا ہے۔ پہلے حکم دیا گیا تھا کہ جب تم کسی کے گھر داخل ہونے لگو تو اجازت طلب کرو لیکن اگر اپنے بچوں کو اور گھر کے خدام کو جن کا ہر وقت گھر میں آنا جانا ہوتا ہے ان پر بھی لازم کر دیا جاتا کہ وہ اذن کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے تو بڑے تکلف اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس لیے ان کے متعلق اس آیت میں وضاحت فرما دی کہ بچے اور خدام اگر ان تین اوقات میں گھر (یا دوسرے کے کمرے) میں داخل ہوں جن کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے تو وہ بھی اجازت لے کر داخل ہوں۔ کیونکہ ان اوقات میں انسان ستر عورت میں سستی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ڈھکا ہوا نہ ہو یا وہ ایسی حالت میں ہو جبکہ بلا اجازت اپنے بچوں اور خدام کا گھر میں آ دھمکنا بھی اسے پسند نہ ہو۔ لیکن ان اوقات کے علاوہ بغیر اجازت گھر میں داخل ہو سکتے ہیں۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

اوپر والی آیت میں نابالغ بچوں کے احکام بیان کیے اور اگلی آیت میں جب بچے بالغ ہو جائیں تو ان کے گھر میں آنے جانے کا طریقہ ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
اور جب تم میں سے بچے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ (تمہارے پاس آنے کے لئے) اجازت لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (دیگر بالغ افراد) اجازت لیتے رہتے ہیں۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام خُوب واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب علم والا اور حکمت والا ہےo
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
سورۃ الاحزاب ۔ ۳۳

۶۰ ۔ سورۃالاحزاب کی آیت نمبر ۹ میں اس تائید و عنایت کی طرف اشارہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے غزوہ خندق میں مسلمانوں کو سرفراز فرمایا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًاO
اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب (کفار کی) فوجیں تم پر آپہنچیں، تو ہم نے ان پر ہوا اور (فرشتوں کے) لشکروں کو بھیجا جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہےo
سورۃالاحزاب ، آیت نمبر ۹۔​

غزوہ خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جو اپنا فضل و احسان کیا تھا، اس کا بیان ہو رہا ہے جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا۔ اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے مکے میں آکر قریش کو جو پہلے ہی سے تیار تھے، حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے لڑائی پر آمادہ کیا اور ان سے وعدہ کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ مل کر آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ قریش نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملا لیا اور ان سب کا سردار ابوسفیان مقرر ہوا۔ ان لوگوں نے کوشش کر کے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کر لیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو جب اس لشکر کشی کو خبریں پہنچیں تو آپ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے مدینہ شریف کی مشرقی سمت خندق یعنی کھائی کھدوائی۔ اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین و انصار شامل تھے اور خود حضور ﷺ بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے حصہ لیتے تھے۔(ابن کثیر)
کفار نے خندق کی دوسری طرف پڑاؤ ڈال دیے اور خندق عبور کرنے کی ترکیبیں کرنے میں لگ گئے۔ اسی دوران کفار کے دل ایک دوسرے سے بد ظن ہو گئے اور ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور ساتھ ہی اللہ عزوجل نے آندھی و طوفان کی صورت میں اپنا لشکر بھیجا جس نے ان کی صفوں میں بھگدڑ مچا دی اور وہ اپنے سردار ابو سفیان کی قیادت میں میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس غزوہ سے متعلق کفار کی سازشوں اور اللہ عزوجل کی طرف سے مسلمانوں کی مدد و نصرت کی تفصیل کتب تفاسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔۔۔

۔۔۔

 

الشفاء

لائبریرین
۶۱ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۱ اور ۴۲ میں اہل ایمان کو کثرت سے اللہ عزوجل کا ذکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًاO وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاO
اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو o اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو o
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۴۱ و ۴۲۔​

بے شمار نعمتوں کا انعام کرنے والے اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ اہل ایمان کو اس کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے اور اس پر مزید نعمتوں اور اجر و ثواب کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ ترمذی شریف و ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کیا میں تمھیں ایک بہتر عمل اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ کام اور سب سے بڑے درجے کی نیکی اور سونے چاندی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بھی بڑھ کر اور جہاد سے بھی افضل کام نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا ، وہ کیا ہے یا رسول اللہ۔ فرمایا ، اللہ عزوجل کا ذکر۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ہر فرض کام کی کوئی حد ہے۔ پھر عذر کی حالت میں وہ معاف بھی ہے۔ لیکن ذکر اللہ کی کوئی حد نہیں ، نہ وہ کسی وقت ٹلتا ہے۔ ہاں کوئی دیوانہ ہو تو اور بات ہے۔ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، رات کو، دن کو، خشکی میں، تری میں، سفر میں، حضر میں، غنا میں، فقر میں، صحت میں، بیماری میں، پوشیدگی میں، ظاہر میں ، غرض ہر حال میں ذکر اللہ کرنا چاہیے۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرنی چاہیے۔ تم جب یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور فرشتے تمھارے لیے ہر وقت دعا گو رہیں گے۔۔۔ (ابن کثیر)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۶۲ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت ۴۹ میں طلاق کے بارے میں کچھ اہم ہدایات دی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًاO
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کروo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۴۹۔
یہاں شرعی حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر تم اپنی کسی ایسی منکوحہ کو طلاق دو جس سے تم نے خلوت صحیحہ نہیں کی تو اس مطلقہ کا عدت گزارنا لازمی نہیں۔ لیکن جب ان کو عقد نکاح سے آزاد کرو تو بے مروتی کا ثبوت نہ دو۔ طلاق دے کر تم نے ان کا دل توڑا ہے۔ ان کی کچھ مالی اعانت کردو تا کہ ان کی دلجوئی ہو جائے۔ اگر ایسی عورت کا مہر مقرر تھا تو نصف مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں ایک جوڑا کپڑوں کا دینا لازمی ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۶۳ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۳ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو اللہ کے رسول ﷺ کے گھر آنے جانے ، ان کے گھر کھانے پینے ، بات چیت کرنے اور امھات المؤمنین سے برتاؤ کا ادب و سلیقہ سکھا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًاO
اے ایمان والو! نبیِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب) تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہوجایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقیناً تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکرم) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطّہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لئے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد ابَد تک اُن کی اَزواجِ (مطّہرات) سے نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہےo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۵۳۔​

یہاں مسلمانوں کو حضور ﷺ کے حجروں میں داخل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق ہدایات دی جا رہی ہیں۔ فرمایا، جب تک حضور اجازت نہ دیں تمہارا داخل ہونا قطعاً ممنوع ہے اور جب اجازت ملے تو داخل ہو سکتے ہو اور وہ بھی اتنے وقت کے لیے کہ کھانا کھاؤ اور اس کے بعد فوراً اٹھ کر چلے جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتیں کرنے لگو اور حضور کو اس طرح تمہارے دیر تک بیٹھنے سے تکلیف پہنچے۔ حضور تو شرم کی وجہ سے تمہیں اٹھ کر چلے جانے کا حکم نہیں فرمائیں گے اور خاموش رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی باتوں پر خبردار کرنے سے حیا نہیں کرتا جن کا جاننا تمہارے لیے ضروری ہے۔ یہاں دوسرا ادب یہ سکھایا جا رہا ہے کہ تمہیں حضور کے اہل خانہ سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر مانگو، اندر گھس آنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ ارشاد فرمایا کہ تمہیں کسی ایسے کام کرنے کی اجازت نہیں جس سے میرے رسول کو تکلیف پہنچے۔ تمہارا فرض ہے کہ ہر ایسے کام سے اجتناب کرو جو نبی کریم ﷺ کی گرانئ طبیعت کا سبب بن سکتا ہو۔ یہاں ایک اور حکم بیان فرمایا کہ حضور کے وصال کے بعد حضور کی ازواج مطہرات سے کسی کو نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ وہ تمہاری مائیں ہیں اور تم پر قطعاً حرام ہیں۔ تم اس چیز کو معمولی بات مت خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی بڑا جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔

۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۶۴ ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۶ میں اللہ عزوجل نے اپنی اور اپنے فرشتوں کی ایک سنت کا ذکر کر کے اہل ایمانکو دعوت دی ہے کہ وہ بھی اس کام میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہ کام آقا علیہ الصلاۃ والسلام پر درود و سلام بھیجنا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo
سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر ۵۶۔​

کفار نے بڑے کروفر اور شکوہ و طمطراق کے ساتھ مدینہ طیبہ پر بار بار یورش کی لیکن انہیں ہر بار ان مٹھی بھر اہل ایمان سے شکست کھا کر واپس آنا پڑا۔ اب انہوں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات اقدس و اطہر پر طرح طرح کے بے جا الزامات تراشنے شروع کر دیے تا کہ لوگ رشد و ہدایت کی اس نورانی شمع سے نفرت کرنے لگیں اور یوں اسلام کی ترقی رک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی ان امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ فرمایا کہ یہ میرا حبیب اور میرا پیارا رسول وہ ہے جس کی وصف و ثنا میں اپنی زبان قدرت سے کرتا ہوں اور میرے سارے ان گنت فرشتے اپنی نورانی اور پاکیزہ زبانوں سے اس کی جناب میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تم چند لوگ اگر اس کی شان عالی میں ہرزہ سرائی کرتے بھی رہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جس طرح تمہارے پہلے منصوبے خاک میں مل گئے اور تمہاری کوششیں ناکام ہو گئیں اسی طرح اس ناپاک مہم میں بھی تم خائب و خاسر ہو گے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ میں اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ جملہ اسمیہ ہے لیکن اس کی خبر جملہ فعلیہ ہے تو یہاں دونوں جملے جمع کر دیے گئے ہیں۔ اس میں راز یہ ہے کہ جملہ اسمیہ استمرار و دوام پر دلالت کرتا ہے اور فعلیہ تجدد و حدوث کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر دم، ہر گھڑی اپنے نبی مکرم پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرماتا ہے اور آپ کی شان بیان فرماتا ہے۔ اسی طرح اس کے فرشتے بھی اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ عراقی نے کیا خوب لکھا ہے۔
ثنائے زلف و رخسار تو اے ماہ ، ملائک ورد صبح و شام کروند۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندے پر ہمیشہ اپنی برکتیں نازل فرماتا رہتا ہے اور اس کے فرشتے اس کی ثنا گستری میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور اس کی رفعت شان کے لیے دعائیں مانگتے رہتے ہیں، تو اے اہل ایمان تم بھی میرے محبوب کی رفعت شان کے لیے دعا مانگا کرو۔ اگرچہ صلوٰۃ بھیجنے کا ہمیں حکم دیا جا رہا ہے (اور ہم بساط بھر بھیجتے بھی ہیں) لیکن ہم نہ شان رسالت کو کما حقہ جانتے ہیں اور نہ اس کا حق ادا کر سکتے ہیں اس لیے اعتراف عجز کرتے ہوئے ہم عرض کرتے ہیں : اللٰھم صل ۔۔ یعنی اے مولا کریم تو ہی اپنے محبوب کی شان کو اور قدر و منزلت کو صحیح طور پر جانتا ہے۔ اس لیے تو ہی ہماری طرف سے اپنے محبوب پر درود بھیج جو اس کی شان کے شایاں ہے۔۔۔(ضیاء القرآن)۔
اس موقع پر غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
تیرِ قضا ہر آئنہ در ترکش ِ حق است ، اما کشاد آں زِ کمان محمد است۔
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم ، کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است۔
یعنی قضا کا تیر بلا شبہ حق ہی کے ترکش میں ہوتا ہے ، لیکن یہ تیر حضور ﷺ کی کمان سے چلتا ہے۔ غالب ؔنے حضور ﷺ کی نعت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے ،کیونکہ وہ ذاتِ پاک ہی حضرت محمد ﷺ کی شان و عظمت سے صحیح معنوں میں آگاہ ہے ۔۔۔​
اللٰھم صل وسلم وبارک علیٰ سیدنا ومولانا و حبیبنا وشفعینا و سندنا محمد وعلیٰ آلہ و اصحابہ وازواجہ وعترتہ اجمعین۔​

۔۔۔​
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍO
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہےo
سورۃ القمر ، آیت نمبر 17 ۔​

خاتم الانبیاء ﷺ کا فرمان جنت نشان ہے
" خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ "
تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔۔۔
( صحیح بخاری، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لیے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب منیر پر نازل فرمایا ، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم و معرفت کا آفتاب جہاں تاب بھی۔ جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یکجاں ہیں۔ اس کا فیض ہر پیاسے کو اس کی پیاس کے مطابق سیراب کرتا ہے۔
اگرچہ قرآن مجید پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہر شخص کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر خالق ارض و سماوات نے "یا ایھا الذین آمنو " کہہ کر بڑے پیار بھرے انداز میں خاص طور پر ہم مسلمانوں سے خطاب فرمایا ہے۔ اور" اے ایمان والو" کا لقب عطا فرما کر ہماری عزت افزائی فرمائی ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم کم از کم قرآن پاک کی ان آیات کا علم تو حاصل کر ہی لیں کہ جہاں پر ہمارے رب عزوجل نے ہمیں خاص طور پر مخاطب کر کے کوئی پیغام عطا فرمایا ہے۔ بعید نہیں کہ اللہ عزوجل اس کی برکت سے پورے قرآن مجید کو اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس پر کما حقہ عمل کرنے کی سعادت عطا فرما دے۔۔۔
"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تم قرآن کریم میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو۔ کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہوگی۔ حضرت خیثلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے یا ایھا المساکین فرمایا ہے لیکن امت محمدیہ کو يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے" (تفسیر ابن کثیر)۔
ایک مرتبہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام اصحاب صفّہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :" تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ صبح کو وادی بطحان یا عقیق جائے اور وہاں سے موٹی تازی خوبصورت دو اونٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ وقطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو ؟" صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم سب یہ چاہتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :" تمہارا ہر روز مسجد جاکر دو آیتیں سیکھ لینا دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے اور تین آیتیں سیکھ لینا تین اونٹنیوں سے بہتر ہے اسی طرح جتنی آیتیں سیکھو گے اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہے"
{ صحیح مسلم و ابو داود }
قرآن مجید میں تقریباً ۸۹ آیات " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ" کے الفاظ کے ساتھ شروع ہو رہی ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ان تمام آیات کو افادہ عامہ کے لیے عام فہم اردو ترجمہ اور مختصر تفسیر کے ساتھ پیش کر دیا جائے۔ ان شاء اللہ العزیز اس حوالے سے مختلف کتب و تفاسیر سے خوشہ چینی کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وباللہ التوفیق۔۔۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
ماشاءاللہ بہت زبردست کوشش ہے یہ۔
اللہ قبول فرمائے اور اس کوشش کا ثمر ہماری توقع سے کہیں زیادہ عطا فرمائے۔آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
اس سلسلے کی پہلی آیت سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۰۴ ہے۔ جس میں خالق کائنات مسلمانوں کو اپنے پیارے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ بے کس پناہ کا ادب سکھا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت ۱۰۴۔​
"راعنا" ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ہماری رعایت فرمائیے اور صحابہ کرام جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے کسی ارشاد گرامی کو اچھی طرح سمجھ نہ سکتے تو عرض کرتے راعنا یا رسول اللہ۔ ہم پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ ہماری رعایت فرماتے ہوئے دوبارہ سمجھا دیجیئے۔ لیکن یہود کی عبرانی زبان میں یہی لفظ ایسے معنی میں استعمال ہوتا جس میں گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی۔ اللہ تعالٰی کو اپنے محبوب کی عزت و تعظیم کا یہاں تک پاس ہے کہ ایسے لفظ کا استعمال بھی ممنوع فرما دیا جس میں گستاخی کا شائبہ تک بھی ہو۔ چنانچہ علماء کرام نے تصریح کی ہے "فیھا دلیل علی تجنب الالفاظ المحتملۃ التی فیھا التعریض للتنقیص والغض" (قرطبی)۔ یعنی اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر ایسے لفظ کا استعمال بارگاہ رسالت میں ممنوع ہے جس میں تنقیص اور بے ادبی کا احتمال تک ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کو حد قذف لگانے کا حکم دیا ہے۔
"راعنا کی جگہ انظرنا" (یعنی ہماری طرف نگاہ لطف فرمائیے) کہا کرو۔ کیونکہ یہ لفظ ہر طرح کے احتمالات فاسدہ سے پاک ہے۔ اور "واسمعو" کا حکم دے کر یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ جب میرا رسول تمہیں کچھ سنا رہا ہو تو ہمہ تن گوش ہو کر سنو۔ تاکہ انظرنا کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ بھی تو شان نبوت کے مناسب نہیں کہ ایک ایک بات تم بار بار پوچھتے رہو۔
یہ کمال ادب اور انتہائے تعظیم ہے جس کی تعلیم عرش و فرش کے مالک نے غلامان مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام کو دی ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں اس آیت مبارکہ کے فیضان سے بہرہ مند فرمائے اور اس کی برکت سے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے ادب اور تعظیم کو ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے کہ "ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں"۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
کہ اس آسماں کے نیچے عرش عظیم سے بھی نازک تر جگہ بارگاہ رسالت ﷺ ہے کہ جہاں جنید بغدادی و بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہما جیسی بزرگ ہستیاں بھی دم بخود حاضر ہوتی ہیں۔۔۔

۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 

جاسمن

لائبریرین
۲۔ اس سلسلے کی دوسری آیت سورۃ البقرۃ ہی کی آیت نمبر ۱۵۳ ہے۔ جس میں اللہ عزوجل اپنے اہل ایمان بندوں کو اپنی مدد پانے اور اپنی معیت حاصل کرنے کا راز بتا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 153۔

اس سے پہلے کی آیت میں شکر کی تلقین کی گئی ہے اور اب اس کے ساتھ صبر اور نماز کا ذکر کر کے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کو حکم ہو رہا ہے۔حدیث میں ہے کہ مومن کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام اس کے لیے سراسر بھلائی ہے۔ اسے راحت ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔اور اگر رنج پہنچتا ہے تو صبر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔
صبر اور نماز ۔ صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں۔ اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی ، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلہ میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستہ پر لگاتار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر انسان اپنے اندر یہ قوت پیدا کر لے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نماز کے ذریعے اپنا رشتہ عبدیت اپنے رب حقیقی سے محکم کر لے تو پھر کوئی مشکل اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ حضور کریم ﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی مشکل کام آ پڑتا تو فوراً نماز پڑھنے لگتے۔
صبر ، حرام اور گناہ کے کاموں کے ترک کرنے، اطاعت اور نیکی کے کاموں کو انجام دینے، دکھ درد اور مصیبت کے پہنچنے پر کیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں پر استقلال سے جمے رہنا ، چاہے انسان پر شاق گزرے اور طبیعت کے خلاف ہو، یہ بھی صبر میں داخل ہے۔ اسی طرح اللہ عزوجل کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا بھی صبر ہے چاہے طبعی میلان اس طرف ہو اور خواہش نفس اکسا رہی ہو۔

امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ اٹھیں ، اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں چلے جائیں۔ کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف بڑھیں گے۔ فرشتے کہیں گے ، کہاں جارہے ہو؟ یہ کہیں گے جنت میں۔ وہ کہیں گے، ابھی تو حساب بھی نہیں ہوا۔ کہیں گے کہ ہاں حساب سے بھی پہلے۔ پوچھا جائے گا کہ آخر آپ کون لوگ ہیں۔جواب دیں گے کہ ہم صابر لوگ ہیں، اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کرتے رہے اس کی نافرمانی سے بچتے رہے اور آخر تک اس پر جمے رہے۔ فرشتے کہیں گے ، پھر تو ٹھیک ہے۔ بے شک تمہارا یہی بدلہ ہے اور تم لوگ اسی لائق ہو۔۔۔
اللہ عزجل کی معیت سے مراد یہاں خصوصی معیت ہے، یعنی تائید و نصرت کی معیت۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں۔ "بل معیہ غیر متکیفہ یتضح علی العارفین" ۔ یعنی اس سنگت سے وہ خاص سنگت مراد ہے جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ صرف عارف ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ اللہ عزوجل ہمیں اس میں سے حصہ وافر عطا فرمائے۔آمین۔۔۔

۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 
Top