ابھی میں ایک پروگرام دیکھ رہا ہوں جس میں آغا وقار کے ساتھ مشہور سائینسدان ثمر مبارک بھی موجود ہیں ۔ آپ سب کی بانسبت ڈاکٹر ثمر مبارک نے کلی طور پر اس واٹر کٹ مسترد نہیں کیا ہے۔ کل اس کی مکمل جانچ کی جائے گی پھر حتمی نتیجے پر پہنچیں گے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کو شکوک ضرور ہیں اور اس ہر انہوں نے بات بھی کی پر اس آئیڈیا کو سراہا بھی بہت۔
میں ابھی کیپیٹل ٹاک دیکھ رہا ہوں پہلے وقت نہیں مل سکا۔دل سے ایک دعا نکل رہی ہے کہ سائنس کے قوانین بدلتے ہیں تو بدل جائیں لیکن آغا وقار کے آیڈیے اور کوشش کو ناکامی نہ ہو۔
تو اگر آغا وقار حب الوطن ہے اور وہ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اس وجہ سے ہم یہ مان لیں کہ یہ گاڑی سائنس کے اصولوں پر پورا اترتی ہے؟موضوع کو دوسری طرف نہیں لے جانا چاہتا لیکن چند دن قبل میرے ایک دوست جو دبئی میں ہی کام کرتے ہیں مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اب انہوں نے پاکستان زندہ واپس نہیں جانا۔۔۔
پاکستان میں زندگی مشکل ہو جانے کی وجہ سے لوگوں کی یہ سوچ ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے برعکس آغا وقار صاحب نہ صرف پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا درد رکھتے ہیں بلکہ اتنے اعتراضات اور مشکلات کے باوجود پاکستان میں ہی رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور ان کا یہ کہنا کہ میں پاکستان چھوڑ کر نہیں جاؤں گا سرمایہ دار جو دلچسپی رکھتے ہیں پاکستان آکر سرمایہ داری کریں حب الوطنی کا صحیح ثبوت ہے۔
معجزے بھی ہو جایا کرتے ہیں۔یہی سہل پسندی ہے ہماری جس کی وجہ سےآغا وقار جیسے لوگ ٹی وی پر آ کر سائنس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہم اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب کوئی معجزہ ہو اور ہمیں من و سلوا مل جائے۔ لیکن دنیا بہت پیچیدہ ہے اس کے قانین بہت ہی سخت ہیں۔ اور ایک قانون یہ ہے کہ پانی ایندھن نہیں ہے۔ جتنی جلدی ہم اس بات کو سمجھ لیں اور اس ڈرامے کا اختتام کریں اتنا ہی بہتر ہے۔
اگر آپ طنز نہیں کر رہے تو میں اس پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ اس دھاگے کے مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔معجزے بھی ہو جایا کرتے ہیں۔
کچھ نہ کچھ تو ہے آپ سو فیصد تو انکار نہیں کر سکتے ۔تو اگر آغا وقار حب الوطن ہے اور وہ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اس وجہ سے ہم یہ مان لیں کہ یہ گاڑی سائنس کے اصولوں پر پورا اترتی ہے؟
نہیں جناب طنز ہر گز نہیں ہے۔تھوڑا سا انتظا ر کرتے ہیں صورت حال واضح ہو جائے گی۔اگر آپ طنز نہیں کر رہے تو میں اس پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ کیونکہ اس دھاگے کے مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
کچھ نہ کچھ تو ہے آپ سو فیصد تو انکار نہیں کر سکتے ۔
میں اس بحث میں تو حصہ نہیں لے سکتا کہ سائنسی طور پر ایسا کس حد تک ممکن ہے اور کس حد تک نہیں لیکن بار ہا سائنسی نظریا ت بدلتے رہے۔کبھی زمین کھڑی تھی سورج اس کے چکر لگاتا تھا اور پھر پتا چلا سورچ ساکن ہے زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے اور اب یہ ہے کہ سبھی گھوم رہے ہیں اپنے اپنے راستے پر
جی میں آپ کی بات سے متفق ہوں اوپر شئیر کی گئی ویڈیو میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ بیٹری واپس چارج ہو جاتی ہے یا جتنی توانائی ضائع ہوتی ہے اس کی مقدار کوئی اتنی زیادہ نہیں۔
آپ ایک فل چارج شدہ بیٹری سے کتنے کلومیٹر یا کتنی دیر تک گاڑی چلا سکتے ہیں؟ اگر بیٹری کو آؤٹ سورس سے چارج کرنا بھی پڑے تو بھی یہ ٹیکنالوجی فائدے میں ہی ہے۔بالکل واپس چارج ہوتی ہے- لیکن چارج کا کرنٹ اتنا نہیں ہوتا کہ چند گھنٹے سے زیادہ گاڑی چل سکے۔
اک تجربہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ آپ یو پی ایس کو مین سپلائی سے ڈسکنیکٹ کر دیں۔ یو پی ایس کےآگے ایک بلب لگا لیں (جو کہ electrolysis kit کی جگہ آپ نے لگایا۔ کیونکہ اس کٹ کو بھی بجلی چاہیے جو بلب سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس تجربے کے لئے بلب سے بھی کام چل جائے گا۔)
اور یو پی ایس کی output لے کر ایک چارجر میں لگا دیں جو بیٹری کو چارج کر رہا ہو۔
اب آپ یہ دیکھیں کہ آپ کا بلب کتنی دیر کے لئے جل سکتا ہے۔
ظاہری بات ہے بیٹری اسی توانائی سے چارج ہو رہی ہے جو کی اسی بیٹری میں ہے۔ لیکن بلب کی وجہ سے چارج کرنے والی تونائی اس توانائی سے کم ہے جو کی یو پی ایس سے نکل رہی ہے۔ اس فرق کی وجہ سے بیٹری کا چارج ختم ہوتا جائے گا۔ اور کچھ دیر میں بلب بجھ جائے گا۔
یہ پورا تجربہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی۔ بلب کی جگہ آپ electrolysis kit لگا دیں۔ جس کو کافی توانائی درکار ہوتی ہے پانی کو ہائڈروکسل گیس میں تبدیل کرنے کے لئے۔ اور چارجر کی جگہ آپ گاڑی کا انجن اور جینریٹر لگا دیں۔ تو اب آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کہ ایسا سسٹم زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ کچھ دیر میں ہی بیٹری میں چارج ختم ہو جائے گا اور اسے دوبارہ باہر کے کسی سورس سے چارج کرنا پڑے گا۔ تو ایسی گاڑی پانی پر نہیں بلکہ تیل یا بجلی پر چل رہی ہے۔