یہاں میں بھی اپنا تجربہ شئیر کرنا چاھوں گا کہ میں والدہ کو وہیل چئیر پر پولنگ اسٹیشن(مکمل عورتوں کے لئے مخصوص) لیکر ساتھ بھابھی تھیں-
سکول کے داخلی مقام سے عمارت تک کافی فاصلہ ہے- اینٹرنس پر پنجاب پولیس کا جوان تھا، میں نے کہا وہاں تک لیکر جاؤں گا بلڈنگ میں داخل نہیں ہوں گا- اس نے کہا ٹھیک ہے- بلڈنگ تک گیا وہاں ریمپ سے اکیلا چڑھانے لگا تو ناکام ہوا- وہاں تعینات جوان دیکھ کر خودی مدد کو آیا- پھر اس نے کہا ٹھیک ہے تم ہی آگے لے جاؤ- میں تھوڑا آگے گیا تو پنجاب پولیس کے افسر نے کہا واپس چلے جاؤ- میں نے ایک دفعہ اجازت چاہی انہوں نے کہا میں واپس بلڈنگ کی اینٹرینس پر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا- پولیس جوان سے کہا جب امی فارغ ہو جائیں بتا دینا- اور اس نے بتا دیا میں واپس لے آیا-
(شاید فوجی مین اینٹرینس پر ہوتا تو داخلہ نہ ملتا اور اگر ملتا تو ریمپ پر ملنے والی مدد کو لیکر سوشل میڈیا پاک فوج کھپے وغیرہ کے نعرے لگاتا لیکن پنجاب پُلس کے بہترین رویے کے باوجود اسکو ٹھلا ہی کہا- #عمومی رویہ)
پھر اسی سالہ تایا ابو کو لیکر ووٹ ڈالنے گیا- اس وقت ڈیڑھ بج چُکے تھے اور حبس شدید تھی- پانی گاڑی میں ہی بھول گئے- اگرچہ وہاں پانی موجود تھا تاہم تایا ابو باہر کا پانی استعمال نہیں کرتے- لسٹ میں اس انکا ووٹ ڈھونڈ کر میں باہر گاڑی سے پانی لینے چلا گیا- پانی لایا تو تب تک وہ ووٹ ڈالنے کے لئے اندر جا چُکے تھے- مجھے پتہ تھا کہ پانی نہ ملا تو بزتی ہونی- میں نے فوجی جوان کا ترلا کیا کہ اندر پانی پکڑا دیں- پہلے تو وہ انکار کرنے لگا تھے لیکن پھر بزرگ دیکھ کر کہتا نام کیا ہے انکا- میں نے بتایا، اس نے اونچی آواز میں نام پُکارا تو تایا ابو نے کہا جی- جس پر اس نے وہاں موجود لڑکے کو کہا یہ بوتل انکل کو دے دو-
وغیرہ وغیرہ
پنجاب پولیس، ٹریفک پولیس یا کوئی بھی دیگر پولیس فورس سب نے ویسے ہی ڈیوٹی دی جیسے باقی سب نے لیکن پڑھی لکھی قوم نے الیکشن سے پہلے ہی ایک دوسرے کو جو ایک اچھی ترغیب دی کہ پولنگ سٹیشن پر جائیں تو گرمی میں ہمارے لیے خدمات سر انجام دینے کے لیے کھڑے فوجی جوانوں کو پھول پیش کریں اور ان کا شکریہ ادا کریں اس میں ان فورسز کا کہیں کوئی نام نہیں تھا کیوں کہ وہ ٹھلا ہیں۔
ہم لوگ جب پولنگ سٹیشن پہنچے تو گاڑی دروازے کے سامنے روکی کیوں کہ میری والدہ کا حال ہی میں ایک آپریشن ہوا ہے اور ابھی انھیں زیادہ چلنے پھرنے کی ممانعت ہے۔ گیٹ پر پولیس کے جوان موجود تھے۔ ایک فوجی بھائی بھی کچھ ہٹ کے پیچھے کھڑا تھا۔ پولیس بھائی نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی یہاں نہیں روک سکتے لیکن اتنی دیر میں میرے والد بھی گاڑی سے اتر چکے تھے اور والدہ اتر رہی تھیں سو اسے اندازہ ہو گیا کہ بیمار ہیں سو اس نے سلام کے بعد بس اتنا کہا کہ موبائل فون اندر نہیں لے کر جا سکتے نیز اندر جانے سے پہلے اپنی پرچی بنوا لیں۔
اندر گئے تو ایک ٹیچر جن کی شاید مین انٹری پر ڈیوٹی تھی سب کو قطار میں کھڑے ہونے کو کہہ رہی تھیں۔ ہم بھی لائن میں لگ گئے۔ جب میری باری آنے والی تھی تو ایک فوجی بھائی آئے اور انھوں نے قطار میں پہلے نمبر پر کھڑی خاتون سے کہا کہ آپ پیچھے ہٹ کر کھڑی ہوں۔ یہ پولنگ والے کمرے کی کھڑکی ہے، آپ اس کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتیں۔ وہ بے چاری بلکہ ہم سب بیچارے معصوم ایسے ہی پیچھے ہو گئے جیسے پاکستان ترقی کے دو قدم آگے طے کرنے کے بعد تنزلی کے چار قدم پیچھے ہو جاتا ہے۔ خیر جب اپنی باری پر میں قطار میں سے آگے ہوئی تو وہی خاتون ٹیچر پھر آ کر کہنے لگیں آپ ذرا آگے ہو جائیں۔ میں نے کہا۔۔نہیں بھئی فوج کا حکم ہے کہ اس جگہ سے آگے علاقہ ممنوع ہے اور میں سول بندی اس حکم کی سرتابی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس پر مجھے ہر طرف سے مختلف رد عمل ملے۔ خاتون تو مسکرا کر واپس چلی گئیں۔ میری بھابھی جو میرے پیچھے کھڑی تھیں انھوں نے ٹوکا کہ انسان بنو۔ ایک معصوم سا فوجی بھائی جو وہاں کھڑا تھا اس نے sheepish سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔ 'سسٹر ایسا تو نہ کہیں۔' (شاید ابھی نیا نیا سول سے فوجی بنا ہو)۔ اور وہ جنھوں نے پہلے حکم جاری کیا تھا وہ بالکل ایسے کھڑے رہے جیسے ملکہ برطانیہ کا بکنگھم پیلیس والا حفاظتی دستہ کا سپاہی صم بکم کھڑا رہتا ہے۔