پاکستان | نجی تعلیمی ادارے | تین کارٹون | ایک سوال

پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کی فیس:

  • بہت زیادہ ہے۔

    Votes: 13 76.5%
  • بہت کم ہے۔

    Votes: 0 0.0%
  • ٹھیک ہی ہے۔

    Votes: 2 11.8%
  • اندازہ نہیں ہے۔

    Votes: 2 11.8%

  • Total voters
    17

جاسمن

لائبریرین
موبائل سے لکھتے هوئے کوئی گڑبڑ هوئی هے. کاش منتظم بھائی اس سمیت ان تینوں مراسلوں کو حذف کر دیں.
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
نه صرف یه که تعلیم مہنگی هے بلکہ معیار بھی پست هوتا جا رہا هے. فیسیں بڑھتی هیں تو کوئی احتجاج نہیں کرتا. لوگ خاموشی سے ظلم و زیادتی برداشت کرتے چلے جاتے هیں. فیسیں، ان کے ساتھ متفرقات اور "خواه مخواه " کے جرمانوں کے بھگتان،کتابیں+سٹیشنری یونیفارم جوتے ، آئے دن فنکشن وغیره کے نام پر لوٹ مار، سکول لانے لیجانے کا خرچه، والدین پڑھا نه پائیں تو ٹیوشن کا خرچه- یه گلی گلی محلے محلے خود رو پودوں کی طرح اگتے تعلیمی اداروں کے تین هی مقاصد هیں:-پیسه-پیسه-پیسه
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم نے بھلے دور میں ایک حکایت لکھی تھی "علم میں دولت" ۔۔۔ اس حکایت کو اس موضوع پر ہمارے خیالات سمجھا جائے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اگر سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے اور حسبِ ضرورت تعلیمی ادارے قائم کر دیے جائیں تو ہی غریبوں کو ریلیف ملنے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ سرکاری اداروں میں غرباء کے بچوں کے لیے داخلے اور میرٹ میں نرمی دی جائے تو عین انصاف ہو گا کیوں کہ وہ کم وسائل اور زیادہ مسا ئل کی بناء پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
پاکستان میں مفاد پرست طبقات چھائے ہوئے ہیں زندگی کے ہر شعبے میں مافیاز موجود ہیں جو ہر حکومت میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں سیاسی بھی، مذہبی بھی اور بیوروکریٹک بھی ہر طرف ناکہ بندی ہے اور عوام کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔
 

arifkarim

معطل
یہ نجی تعلیمی ادارے عوام میں ڈھیر سارے پیسوں کے عوض ڈگری تقسیم کرنے میں لگے ہیں اور انہیں اپنے طالب علموں کو پڑھانے اور ان کی تعلیمی قابلیت بڑھانے سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اللہ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے
ہاہاہا۔ تو حکومتی تعلیمی ادارے کونسا عوام میں تعلیمی قابلیت بڑھانے کیلئے کوئی دلچسپی لیتے ہیں۔ جبھی تو ان نجی تعلیمی اداروں کی دال گل گئی ہے وگرنہ فن لینڈ، اسویڈن، ناروے جیسے ممالک میں نجی تعلیمی ادارے دیوالیہ نہ ہو رہے ہوتے :)

اس مافیا سے ٹکر کون لے گا ؟
آپکا محبوب لیڈر نواز شریف اور اسکا چہیتا خادم اعلیٰ شہباز شریف :p

فی الوقت یہ پاکستان کا سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار ہے
جی بالکل۔ اس کاروبار نے بھتہ مافیا، لینڈ مافیا، جیسے "کاروباروں" کو پیچھے چھوڑ دیا ہے :)

اجی یہ المیہ تو بہت معمولی سا لفظ رہ گیا ہے۔ پاکستان میں بلا مبالغہ 50 فیصد سے زیادہ لوگوں کی آمدن زیادہ سے زیادہ 25 سے 30 ہزار ہو گی یہ میرا اندازہ ہے۔
25 ہزار؟ جناب سرکاری محکموں میں 10 ہزار سے زائد تنخواہ نہیں ملتی اکثر ملازمین کو۔


پیسہ ہے تو پڑھیے لکھیے اورمعاش کی لڑائی میں آگے آ جائیے۔ رہے غریب تو جیسے وہ غریب اور لاچار تھے ویسے ہی اُن کی اولاد بھی غریب و لاچار ہی رہے گی۔
پڑھ لکھ کر لوگ کونسا پاکستان میں رہتے ہیں۔ پاکستان کا سب زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ تو پاکستان سے باہر مقیم ہے۔ :)

میں ایک جملہ کہہ تو دوں مگر لوگ برا مان جائیں گے۔
کیا کوئی نیا فلسفہ شروع کرنے کا ارادہ ہے؟ :ROFLMAO:

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ۔۔۔ علامہ اقبال کی اس بات سے تو شائد ہی کوئی اختلاف کرے
مگر یاس کہتے ہیں
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی۔۔
سائنسی علوم حقیقی علم ہے۔ دیگر سب خیالی پلاؤ۔

کیا علم وہی ہے جیسے سرمایہ دار علم قرار دے ؟
یا اس پر بحث کی جا سکتی ہے کہ علم کیا ہے اور ہمارے تدریسی نظام میں ہماری نسلوں کو کیا دیا جا رہا ہے ؟
ایک بات تو طے ہے کہ ہمارے مدرسوں کے تدریسی نظام نے ہماری نسلوں کو سوائے مذہبی شدت پسندی اور دہشت کے کچھ نہیں دیا۔:cry:

یا یہ کہ دنیا بھر میں عالمگیریت کے زریعے کوئی مخصوص طرزِ فکر پروان چڑھانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی ؟
کیسی فکر؟ اسلامی جہاد کے علاوہ بھی دنیا بھر میں مختلف مکاتب الفکر موجود ہیں۔

اختلاف کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہے یہاں پہ جناب
البتہ یہاں پر موضوع مہنگی تعلیم چل رہا ہے:):)
:arrogant:

شکریہ فاروق بھائی آپ نے توجہ دلا دی :)
:dazed:

یہاں تو تعلیم کی کمی کے باعث معاشی میدان میں پیچھے رہ جانے والے غریبوں کا ذکر تھا۔

آپ نے تو فلسفیانہ بحث کا آغاز کردیا۔ آپ کا موضوع یقیناً گفتگو کا متقاضی ہے تاہم اس کا اس لڑی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
:grin:

جی مجھے اندازہ ہے ، میں خیال میں بھٹک گیا تھا فاروق احمد بھائی نے توجہ دلائی تھی۔ معذرت خواہ ہوں ۔ امید ہے آپ میری معافی کے بعد میری غلطی پر برہم نہیں ہونگے
:whistle:

نه صرف یه که تعلیم مہنگی هے بلکہ معیار بھی پست هوتا جا رہا هے. فیسیں بڑھتی هیں تو کوئی احتجاج نہیں کرتا. لوگ خاموشی سے ظلم و زیادتی برداشت کرتے چلے جاتے هیں. فیسیں، ان کے ساتھ متفرقات اور "خواه مخواه " کے جرمانوں کے بھگتان،کتابیں+سٹیشنری یونیفارم جوتے ، آئے دن فنکشن وغیره کے نام پر لوٹ مار، سکول لانے لیجانے کا خرچه، والدین پڑھا نه پائیں تو ٹیوشن کا خرچه- یه گلی گلی محلے محلے خود رو پودوں کی طرح اگتے تعلیمی اداروں کے تین هی مقاصد هیں:-پیسه-پیسه-پیسه
اسکول نہ بھیجیں۔ یہی بہترین حل ہے :)

اگر سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے اور حسبِ ضرورت تعلیمی ادارے قائم کر دیے جائیں تو ہی غریبوں کو ریلیف ملنے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ سرکاری اداروں میں غرباء کے بچوں کے لیے داخلے اور میرٹ میں نرمی دی جائے تو عین انصاف ہو گا کیوں کہ وہ کم وسائل اور زیادہ مسا ئل کی بناء پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔
تعلیم کیلئے پڑھائی کا شوق ہونا چاہئے۔ باقی سب لوازمات ہیں۔

پاکستان میں مفاد پرست طبقات چھائے ہوئے ہیں زندگی کے ہر شعبے میں مافیاز موجود ہیں جو ہر حکومت میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں سیاسی بھی، مذہبی بھی اور بیوروکریٹک بھی ہر طرف ناکہ بندی ہے اور عوام کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔
مفادستان :biggrin:
 
آپکا محبوب لیڈر نواز شریف اور اسکا چہیتا خادم اعلیٰ شہباز شریف
20 فیصد سے زائد بالغ پاکستانی رائے دہندگان کے محبوب لیڈر جناب نواز شریف ہیں۔خادم اعلیٰ کی مقبولیت ان سے کچھ زائد ہے۔
۔۔۔
مندرجہ بالا مراسلہ ریکارڈ کی درستگی اور مفاد عامہ کے لیے شائع کیا گیا۔ :battingeyelashes:
 

عبد الرحمن

لائبریرین
احمد بھائی ! آپ نے بہت اچھا موضوع اٹھایا ہے۔

عصر حاضر کے نجی تعلیمی اداروں کو "مذبح خانہ " سے تشبیہ دینا یقینا ایک دانش مندانہ فعل ہوگا۔ جہاں سینہ بہ سینہ علم منتقل کرنے کے بجائے سارا زور اسی بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ کب کوئی بکرا ہماری چھری تلے آئے اور ذبح ہوجائے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ مجھے المیہ دونوں طرف ہی نظر آتا ہے۔ کراچی کے سرکاری ادارے اگر فیسوں کے لحاظ سے کچھ بہتر سمجھے جاسکتے ہیں تو ایک انتہائی منفی پوائنٹ یہ ہے کہ وہاں غنڈہ گردی ، بدمعاشی کھلے لفظوں میں یہ کہ دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔آئے دن کی لڑائیاں ، فتنے فسادات کرنے والے باہر سے اٹھ کر نہیں آ تے بلکہ اسی ادارے میں پڑھنے والے "طلبہ" ہوتے ہیں۔

معذرت میں نے موضوع سے ہٹ کر ایک بالکل ہی الگ بات شروع کردی۔ لیکن اس سے اچھا پلٹ فارم اور کوئی ملا نہیں مجھے۔
 

arifkarim

معطل
عصر حاضر کے نجی تعلیمی اداروں کو "مذبح خانہ " سے تشبیہ دینا یقینا ایک دانش مندانہ فعل ہوگا۔ جہاں سینہ بہ سینہ علم منتقل کرنے کے بجائے سارا زور اسی بات پر صرف کیا جاتا ہے کہ کب کوئی بکرا ہماری چھری تلے آئے اور ذبح ہوجائے۔
پہلے یہ بتائیں کہ علم کی "منتقلی" کے مراد ہے؟ علم تو سیکھایا جاتا ہے، منتقلی تو محض انفارمیشن کی ہوتی ہے۔ علم اور انفارمیشن میں فرق ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ مجھے المیہ دونوں طرف ہی نظر آتا ہے۔ کراچی کے سرکاری ادارے اگر فیسوں کے لحاظ سے کچھ بہتر سمجھے جاسکتے ہیں تو ایک انتہائی منفی پوائنٹ یہ ہے کہ وہاں غنڈہ گردی ، بدمعاشی کھلے لفظوں میں یہ کہ دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔آئے دن کی لڑائیاں ، فتنے فسادات کرنے والے باہر سے اٹھ کر نہیں آ تے بلکہ اسی ادارے میں پڑھنے والے "طلبہ" ہوتے ہیں۔
سیدھے لفظوں میں جمیعت طلباء اور ایم کیوں ایم کا نام لیں نا :)

معذرت میں نے موضوع سے ہٹ کر ایک بالکل ہی الگ بات شروع کردی۔ لیکن اس سے اچھا پلٹ فارم اور کوئی ملا نہیں مجھے۔
موضوع تو یہی ہے :)
 
اس وقت کہا یہ جاتا ہے کہ سب سے منافع بخش کاروبار غیرسرکاری تعلیمی ادارے ہیں۔ اور اچھے غیرسرکاری تعلیمی اداروں کی فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔
اور جو کم فیس پر تعلیم دینے والے غیرسرکاری تعلیمی ادارے ہیں ان کا مقصد محض کاروبار ہے طلباء کی تعلیم کے معیار سے ان کو کوئی خاص غرض نہیں صرف طلباء کے والدین کو متاثر کر کے ان سے فیسیں بٹورنا ان کا مقصد ہے۔
 
سب کا تو نہیں۔ ہاں پاکستان کی بات کرتے ہوئے میں یہ کہنا ضرور چاہوں گا کہ میری اب تک کی زندگی کا ایک بڑا حصہ درس و تدریس اور تعلیمی سلسلے سے جڑا رہا ہے اور اب تک میں اسی میں سر گرم ہوں۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو سکول سسٹم رائج ہے وہ خصوصاً نرسری اور مونٹیسری سطح پر تو برداشت کے لائق ہے اگر ایک اوسط درجے کے نجی سکول میں ہو تو۔ اس سے آگے پرائمری سطح پر آنے والے سو میں سے ننانوے بچے اپنے وقت کو صرف ضائع کرتے ہیں۔ مجھے اپنے چھوٹے تین بھائیوں (ایک بھائی اور دو کزنز) کا ذاتی تجربہ رہا ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس ٹیوشن پڑھنے والے دسیوں بچوں کا بھی۔ پرائمری لیول پر بچوں کو جو کتابیں پڑھانے کا ذمہ اسکول لیتا ہے، وہ اسے کبھی احسن طریقے سے پورا نہیں کرتا۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی جب میرے چھوٹے کزن (جو کراچی کے ایک مشہور اور نامور ادارے میں زیرِ تعلیم ہیں) رزلٹ آیا تو انگریزی میں اس کے 80 فیصد نمبر تھے۔ اب میں جب انہیں انکی کتاب سمیت انکے ٹیچر کے پاس لے کر گیا اور کہا کہ آپ انہیں کتاب کا کوئی بھی صفحہ اپنی مرضی سے پڑھوائیں، تو حال یہ تھا کہ ایک لائن بھی وہ پڑھنے کے قابل نہیں تھا، نہ ڈکٹیشن میں کامیاب ہوسکا۔ نمبرات اسی فیصد ضرور آگئے۔ اور یہی ہوتا رہا ہے ہمارے یہاں نجی تعلیمی اداروں میں۔ صرف پیسہ اور وقت برباد کرکے صرف اسی اور نوے فیصد مارکس بغیر کسی قابلیت کے، والدین کو خوش کرنے کے لیے ٹیچرز دیتے ہیں۔
اپنے چھوٹے بھائی پر میرا یہ تجربہ ہے کہ اسے تیسری جماعت تک اوسط درجے کے نجی سکول میں پڑھایا۔ پھر اسکول والوں سے انہیں چوتھی کی جگہ پانچوی میں ایڈمیشن کروایا۔ اور پانچویں سے پھر ساتویں میں۔ ساتویں سے میں نے انہیں سکول کے ساتھ ساتھ گیارھویں اور بارہویں جماعت کی کیمیا اور طبیعات کو بنیاد سے سمجھاتے ہوئے پڑھانا شروع کرکے دو سالوں میں اس کا کانسیپٹ بنا دیا۔ ساتھ ہی ٹیوشن میں صرف ریاضی کی مسلسل پڑھائی کا کرنا یہ ہوا کہ دسویں جماعت تک آتے آتے انہیں کیلکیولس کے بنیادی سوالات، ڈیرویٹوز اور اینٹی ڈیریویٹوز، انٹیگرز وغیرہ کی آگہی مل گئی۔ اب وہ بارھویں جماعت میں ہے۔ اور الحمد للہ اپنی کلاس میں سب سے آگے اور بہتر ہے۔ اور حال یہ ہے کہ ٹیچر انکو کم اور وہ ٹیچر کو زیادہ پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ پڑھنے والے کراچی کے مایہ ناز سکولوں سے فارغ التحصیل طلباء ہیں۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
تویں سے میں نے انہیں سکول کے ساتھ ساتھ گیارھویں اور بارہویں جماعت کی کیمیا اور طبیعات کو بنیاد سے سمجھاتے پڑھانا شروع کرکے دو سالوں میں اس کا کانسیپٹ بنا دیا۔
جی اور یہی سسٹم سنگاپور میں رائج ہے کہ بچوں کی جب تک بنیاد نہیں بن جاتی انہیں آگے نہ پڑھایا جائے۔ سنگاپور کے بچوے عالمی ٹیسٹس میں سب سے آگے ہیں۔
 
جی اور یہی سسٹم سنگاپور میں رائج ہے کہ بچوں کی جب تک بنیاد نہیں بن جاتی انہیں آگے نہ پڑھایا جائے۔ سنگاپور کے بچوے عالمی ٹیسٹس میں سب سے آگے ہیں۔

بھائی بنیادیں بنیں گی کیسے؟ یہاں (خصوصاً کراچی میں) تو یہ عالم ہے کہ گیارھویں جماعت کی حیاتیات کی کتاب کے مصنف کو یہ نہیں معلوم کہ بارھویں کی حیاتیات کی کتاب میں لکھا ہوا کیا ہے۔
گیارھویں تک آنے کے بعد ایک پری انجنیرنگ والا بچہ یہ بھی نہیں جانتا کہ انٹیگرل کا سمبل کیا بلا ہے۔
گیارھویں جماعت میں پھول کی ارینجمنٹ کس طرح ہے، یہ پڑھایا جاتا ہے۔ اور بارھویں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پھول کی ارینجمنٹ ہوتی کیا چیز ہے۔
طبیعات کی گیارھویں جماعت کی کتاب آج تک کسی ٹیچر نے بھی کھول کر نہیں پڑھی، چہ جائیکہ کہ طلبا پڑھیں۔ ہر سال ان کتابوں کا نیا ایڈیشن چھپ کر مارکیٹ میں آرہا ہے جو دس بارہ سالوں سے مسلسل کاپی پیسٹ ہوا جارہا ہے۔ سو میں سے نوے کالجز والے اساتذہ ریاضی کے صرف ایکسرسائز کے سوالات حل کرواتے ہیں۔ آج تک انہوں نے کسی طالب علم کو اس مشق کا آرٹیکل نہیں پڑھایا۔
اب ہم اگر مزید کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔۔ ۔
 
Top