یہاں شاید کسر نفسی سے کام لیا جارہا ہے یا اپنی خدمات کی ہمیں خود قدر نہیں ہے کیوں کہ
خالی ڈھولوں کے باجنے سے سارا پاکستان گونج رہا ہے
اور جن کے دَم سے یہ بہار ہے وہ مزدور کسان اور کارکن شرمندہ سے کونوں میں دبکے کھڑے ہیں ( کمی کمین جو ہیں)۔
منکہ مسمی اپنی بات کرے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب علم کے طور پر میں نے اپنے پاکستانی والدین اور پاکستانی اساتذہ کو مایوس نہیں کیا۔
مجھے کار منصبی کے طور پر جو فرائض پاکستانیوں کیطرف سے سونپے گئے تھے وہ میں نے پورے ادا کیے۔
میں نے سفارش، اقربا پروری بد عنوانی کے ذریعے حقدار کا حق نہیں مارا۔
بساط بھر مظلومین کی مدد کی۔
کچی بستیوں اور مزدوروں میں کام کیا۔
پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اپوزیشن کے سیاسی جلسے جلوسوں میں شرکت کی۔ ملک کو زر مبادلہ کما کر دیا۔ (ہنڈی اور اسمگلنگ نہیں کی)
بیرونِ ملک اپنے ہنر اور محنت سے مزید پاکستانیوں کے لیے وسائلِ روزگار پیدا کیے۔
پاکستان کے طلباء و طالبات کی معاشی مدد کی۔
پاکستان میں ایک ایسا پلانٹ چلوایا کہ اگر ہم نہ آتے تو لازمًا خطیر زر مبادلہ خرچ کر کے غیر ملکیوں سے مدد لیجاتی۔
بیروں ملک رہتے ہوئے سماجی و امدادی کام کیے۔
( میری وجہ سے پاکستان کو فخر نہیں ملا تو اقوامِ عالم میں شرمندہ بھی نہیں ہونا پڑا)
زبردست رضوان۔ بہت خوشی ہوئی آپ کی تحریر پڑھ کر۔
مجھے جتنا میرے ملک نے دیا ہے اس کا میں کبھی عشر عشیر بھی نہیں لوٹا پاؤں گا۔ میں نے زندگی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اللہ تعالی نے مجھے بہت سی خوشیوں سے نوازا ہے لیکن نہ ان کامیابیوں میں میری قابلیت کا کوئی ہاتھ ہے اور نہ ہی میری کوئی ایسی نیکیاں ہیں جن کے ثواب کی میں توقع کر سکتا ہوں۔ مجھ پر اللہ کا ہمیشہ احسان رہا ہے ۔ اللہ تعالی اور میرے والدین کے بعد میرے دوستوں کا بھی مجھ پر احسانات کا بار ہے۔ میں ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر عطا کرے۔ لیکن کبھی بھی ممکن ہوتا ہے تو میں ان نیکیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش ضرور کرتا ہوں، خواہ زبانی ہی کیوں نہ کروں۔ میری جب بھی نوجوان طالب علموں سے بات ہوتی ہے تو میں انہیں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہوں اور انہیں جرمنی میں اعلی تعلیم کے مواقع کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہوں۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے والوں کو میں اپنی سمجھ کے مطابق کیریر ایڈوائس دیتا ہوں۔ مجھے اپنے وطن سے اور اپنے ہم وطنوں سے محبت ہے اور میرا خواب ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو۔