عبداللہ محمد
محفلین
لاریب بھائی انکی باتوں میں مت آنا یہ چاچے تارڑ کا سوشل میڈیائی تائیوانی ورژن ہیں-ارے واہ!! زبردست یاز بھائی!! شیوسر جھیل کے کنارے ٹینٹ لگا کر وہاں رات بسر کی۔ پھر تو آپ تو قدرت کی رنگینیوں اور حُسن سے خوب خوب لطف اندوز ہوئے۔
لاریب بھائی انکی باتوں میں مت آنا یہ چاچے تارڑ کا سوشل میڈیائی تائیوانی ورژن ہیں-ارے واہ!! زبردست یاز بھائی!! شیوسر جھیل کے کنارے ٹینٹ لگا کر وہاں رات بسر کی۔ پھر تو آپ تو قدرت کی رنگینیوں اور حُسن سے خوب خوب لطف اندوز ہوئے۔
آپ کا مراسلہ بیک وقت معلوماتی،غیر متفق، پرمزاح، پسندیدہ، غمناک وغیرہ ہے ۔لاریب بھائی انکی باتوں میں مت آنا یہ چاچے تارڑ کا سوشل میڈیائی تائیوانی ورژن ہیں-
جی، اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ایسے لمحات نصیب کئے۔ شیوسر کے علاوہ ہمیں شندور جھیل اور سیف الملوک کے کنارے بھی راستے گزارنے کا موقع نصیب ہوا۔ پہاڑی علاقے کی جھیلیں واقعی سحرانگیز ہوتی ہیں۔ارے واہ!! زبردست یاز بھائی!! شیوسر جھیل کے کنارے ٹینٹ لگا کر وہاں رات بسر کی۔ پھر تو آپ تو قدرت کی رنگینیوں اور حُسن سے خوب خوب لطف اندوز ہوئے۔
عبداللہ بھائی!! ہم جانتے ہیں کہ گوگل میں ہر چیز کو کچھ زیادہ ہی تصوراتی بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ لیکن بہر حال یہ بات بھی سچ ہے کہ شمالی علاقہ جات میں قدرتی حسن اور رنگینیوں کے جلوے ہر جا بکھرے نظر آتے ہیں اور اصل میں دیکھنے میں زیادہ حسین معلوم ہوتے ہیں۔لاریب بھائی انکی باتوں میں مت آنا یہ چاچے تارڑ کا سوشل میڈیائی تائیوانی ورژن ہیں-
اتنی خوبصورت نہ ہوتی تو اسے چھپڑ کہنا زیادہ مناسب تھا۔کھدومی یا کھڈومی جھیل
یہ جھیل اتنی چھوٹی ہے کہ اس کو بھی زبردستی جھیل کے زمرے میں داخل کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ جھیل نہ صرف غیرمعمولی خوبصورت ہے، بلکہ اس کی لوکیشن بھی کچھ زیادہ ہی غیرمعمولی ہے۔ یہ تین اطراف سے تقریباً عمودی پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے اور بارشوں کے موسم میں اس میں پانی کی آمد آبشار کی شکل میں ہوتی ہے۔ کلرکہار سے اس جھیل تک پہنچنے کا راستہ کچھ یوں ہے کہ کلرکہار۔سرگودھا روڈ سے جابہ موڑ کی جانب مڑنے کی بجائے چمیل موڑ کی جانب مڑ جائیں اور نرسنگ پھوہار نامی آثارِ قدیمہ والی جگہ کے قریب گاڑی پارک کریں۔ وہاں سے تقریباً پون گھنٹے کی مشکل اترائی ہے۔ تب جا کے کھڈومی جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے۔
جی بالکل زیک بھائی! فیملی کے ساتھ بالکل جایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی جگہ جانے میں کوئی خدشہ یا خطرہ نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو سن کے حیرانی ہوتی ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات پرامن ترین علاقہ ہیں۔شمالی علاقوں کی جھیلوں تک ہائیکنگ، بیک پیکنگ اور کیمپنگ کی بات ہو رہی ہے تو یہ کام فیملی کے ساتھ ہو سکتا ہے؟
بہت سال پہلے کی بات ہے جب ہم گئے تھے مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شمالی علاقہ جات میں لوگ سیاح خواتین کو ایسے نہیں گھورتے جیسے باقی پاکستان میں ہوتا ہے۔جی بالکل زیک بھائی! فیملی کے ساتھ بالکل جایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی جگہ جانے میں کوئی خدشہ یا خطرہ نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو سن کے حیرانی ہوتی ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات پرامن ترین علاقہ ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم شمشال نامی انتہائی دور افتادہ مقام سے واپس ٹریک کرتے آ رہے تھے کہ پولینڈ کی ایک خاتون جس کے ساتھ صرف ایک مقامی گائیڈ تھا، وہ شمشال کی جانب جاتی دکھائی دی۔ اس سے پوچھا کہ بی بی کہاں کا ارادہ ہے، تو اس نے بتایا کہ شمشال پاس کا ٹریک کرنے کا ارادہ ہے۔ خیال رہے کہ ہم شمشال گاؤں سے واپس لوٹ رہے تھے جبکہ شمشال پاس وہاں سے بھی مزید ہفتہ بھر آگے کا ٹریک تھا۔
14000 فٹ کی بلندی پر واقع ننگا پربت بیس کیمپ میں وہ دہشت گردی شاید تاریخ انسانی میں اس قسم کا واحدسانحہ ہے۔دوسری طرف پچھلے کچھ سالوں میں غیرملکی کوہ پیماؤں کو قتل کیا گیا تھا اور کئی بار شیعوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے۔
جی بالکل! کم از کم دو دہشت گردی کی بڑی وارداتیں ہوئی ہیں۔ ایک نانگاپربت کے دیامیر بیس کیمپ میں اور چند سال قبل فیئری میڈوز پہ چند سیاحوں کا قتل بھی ہوا تھا۔ لیکن ایسے جرائم سے تو دنیا کی کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ بحیثیتِ مجموعی شمالی علاقہ جات میں امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے اسی امن و امان کے قائم رہنے سے مقامی لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔بہت سال پہلے کی بات ہے جب ہم گئے تھے مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شمالی علاقہ جات میں لوگ سیاح خواتین کو ایسے نہیں گھورتے جیسے باقی پاکستان میں ہوتا ہے۔
دوسری طرف پچھلے کچھ سالوں میں غیرملکی کوہ پیماؤں کو قتل کیا گیا تھا اور کئی بار شیعوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے۔