لاریب مرزا
محفلین
ہمارا پیارا وطن پاکستان چار ہمسایہ ممالک انڈیا، چین، ایران اور افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں کا اشتراک کرتا ہے۔ ان سرحدوں کے مخصوص مقامات پر زمینی آمدورفت کے لیے گزر گاہیں بنا دی گئی ہیں۔ ان سرحدوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1- واہگہ بارڈر:
اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان 2,912 کلومیٹر طویل سرحد سرکاری طور پر بنائی گئی تھی۔ اس سرحد کا واحد زمینی راستہ لاہور کے قریب واقع ایک گاؤں واہگہ کے مقام پر موجود ہے جسے واہگہ بارڈر کہتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ بارڈر غالباً امرتسر میں واقع ہے۔ واہگہ بارڈر پر ہر شام غروبِ آفتاب سے قبل قومی پرچم اتارنے کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس تقریب کو دیکھنے کے لیے دونوں ممالک کے لوگوں کا ایک ہجوم اپنے اپنے بارڈر پر جمع ہوتا ہے۔
گوگل سے لی گئی تصویر
ہمیں اسکول کے زمانے میں یہ تقریب دیکھنے شرف حاصل ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک کے جیالے اپنی اپنی سرحد کی حفاظت کا عزم لیے بارڈر کے گیٹ کے پاس چوکنے کھڑے ہوتے ہیں۔ تقریب کے وقت بارڈر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فوجی جوان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے اور زور زور سے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے اپنا اپنا پرچم اتارتے ہیں اور مخصوص انداز سے تہ کرتے ہیں۔ واہگہ بارڈر کی فضا "پاکستان زندہ باد" "نعرہ تکبیر، اللہ اکبر" اور "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔ اہلِ وطن اور فوجی جیالوں کا جوش و جذبہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں جنگ چھڑ جائے گی۔ ( اس وقت کے محسوسات)
پاکستان اور ہندوستان کے فوجی اپنا اپنا پرچم اتارتے ہوئے
ایک چیز جو ہمیں یاد ہے وہ یہ کہ انڈیا کے لوگ جہاں بیٹھے تھے وہ شاید اسٹیڈیم کی طرح سیڑھیاں بنی ہوئیں تھیں۔ دور سے دیکھنے پر وہ جگہ دلچسپ معلوم ہو رہی تھی۔ اور ایک بات جو جاننے کا شوق ہے کہ آیا کوئی ہندوستانی محفلین اپنا یہ بارڈر دیکھ چکے ہیں؟؟
2- درہ خنجراب:
پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں کوہ قراقرم کے بیچوں بیچ واقع خوبصورت سڑک "شاہراہ ریشم" آپ کو سیدھا چین کی سرحد تک لے جاتی ہے۔ یہ سرحد 523 کلومیٹر طویل ہے۔ قراقرم کے عالی شان اور بلند و بالا پہاڑوں میں گھرا درہ خنجراب دنیا کا بلند ترین پہاڑی درہ ہے۔ یہ مقام دیکھنے کا شرف بھی ہمیں حاصل ہو چکا ہے۔
درہ خنجراب
اس مقام تک پہنچیں تو سب سے پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ ہوا میں آکسیجن کم ہونے کے باعث سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے۔ وہاں کی فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو کچھ نوجوانوں کو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے پایا۔
ہمیں ان کی دماغی حالت پہ شبہ ہوا کہ کہاں تو سانس لینے کے لالے پڑے ہیں اور کہاں یہ لوگ زندگی سے ہاتھ دھونے کا سامان کرنے میں مصروف ہیں۔
درے کے دوسری جانب چین کے لوگ بھی سیر و تفریح کی غرض سے آئے تھے۔ بہت کوشش کی کہ گیٹ کے پاس جا کر چینی لوگوں سے بات چیت کا موقع مل سکے لیکن ہمارے فوجی جوان اصولوں کے بالکل پکے اور ارادوں کے سچے تھے سو اپنی جگہ ڈٹے رہے اور ہمیں ایک بھی قدم آگے بڑھانے کی اجازت نہ دی۔
ہم نے کہا کہ چین کے لوگ بھی تو گیٹ سے چپک کے کھڑے ہیں۔ ہمیں بھی وہاں تک جانے دیں۔ جواب آیا کہ ان کا اصول ان کے ملک میں ہمارا اصول ہمارے ملک میں۔
ہم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ نیلے لباس والی لڑکی ہماری سہیلی ہے اور ہم نے چائنہ بارڈر پر ملنے کا وعدہ کیا تھا۔
محافظ فوجی کچھ طنزیہ انداز میں فرماتے ہیں کہ اپنی سہیلی سے کچھ فاصلے پر آپ کو چائنہ کی آرمی بھی نظر آ رہی ہو گی۔ آپ ذرا سا اِدھر سے اُدھر ہوئیں تو اریسٹ کر لی جائیں گی۔ ہم نے کہا نہیں بھئی ہم تو صحیح سلامت اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔
ہمارے ہوتے ہوئے ہی گلگت فورس کی ایک گاڑی وہاں آئی اور چین کی طرف سے ایک بس پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئی۔
مجموعی طور پر درہ خنجراب بے حد شاندار اور قابل دید مقام ہے۔ ہم تو تصاویر میں صرف پہاڑ ہی دیکھتے رہتے ہیں۔
3- پاکستان-ایران بیریئر:
پاکستان اور ایران کے درمیان واقع سرحد کو پاکستان-ایران بیریئر بھی کہتے ہیں۔ یہ سرحد 909 کلومیڑ طویل ہے اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ اس سرحد پر حد بندی کے لیے کنکریٹ کی ایک دیوار تعمیر کرنے کا آغاز کیا گیا ہے جو کہ باڑ کی جگہ لے لے گی۔ یہ دیوار 3 فٹ موٹی اور دس فٹ اونچی ہے اور فی الحال زیرِ تعمیر ہے۔ یہ دیوار ایک متنازعہ حثیت رکھتی ہے کیونکہ بلوچستان کے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی زمینیں پاکستان ایران سرحدی علاقے میں واقع ہیں اور یہ دیوار ان میں رکاوٹ بنائے گی۔
بلوچستان کے شہر کوئٹہ اور ایران کے درمیان واقع سڑک پر ایک گیٹ تعمیر کیا گیا۔ 2016 میں اس بارڈر کے گیٹ کا افتتاح ہوا۔ یہ گیٹ دو کلو میٹر کے فاصلے سے بھی نظر آتا ہے۔
گوگل سے لی گئی تصویر
4-ڈیورنڈ لائن:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع سرحد ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ سرحد 2450 کلومیٹر طویل ہے اور ہندوکش اور پامیر کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ پاک افغان بارڈر دنیا کا خطرناک ترین بارڈر مانا جاتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس سرحد کی حد بندی کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور نومبر 2017 تک فاٹا میں بنیادی طور پر 43 کلو میٹر طویل بیرئیر تعمیر کر لیا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم گیٹ تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے بابِ پاکستان بھی کہتے ہیں۔
پاکستان کی یہ آخری دو سرحدیں ہم ابھی تک نہیں دیکھ پائے ہیں۔ کبھی موقع ملا تو ضرور دیکھنا چاہیں گے۔
1- واہگہ بارڈر:
اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان 2,912 کلومیٹر طویل سرحد سرکاری طور پر بنائی گئی تھی۔ اس سرحد کا واحد زمینی راستہ لاہور کے قریب واقع ایک گاؤں واہگہ کے مقام پر موجود ہے جسے واہگہ بارڈر کہتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ بارڈر غالباً امرتسر میں واقع ہے۔ واہگہ بارڈر پر ہر شام غروبِ آفتاب سے قبل قومی پرچم اتارنے کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس تقریب کو دیکھنے کے لیے دونوں ممالک کے لوگوں کا ایک ہجوم اپنے اپنے بارڈر پر جمع ہوتا ہے۔
گوگل سے لی گئی تصویر
ہمیں اسکول کے زمانے میں یہ تقریب دیکھنے شرف حاصل ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک کے جیالے اپنی اپنی سرحد کی حفاظت کا عزم لیے بارڈر کے گیٹ کے پاس چوکنے کھڑے ہوتے ہیں۔ تقریب کے وقت بارڈر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فوجی جوان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے اور زور زور سے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے اپنا اپنا پرچم اتارتے ہیں اور مخصوص انداز سے تہ کرتے ہیں۔ واہگہ بارڈر کی فضا "پاکستان زندہ باد" "نعرہ تکبیر، اللہ اکبر" اور "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔ اہلِ وطن اور فوجی جیالوں کا جوش و جذبہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں جنگ چھڑ جائے گی۔ ( اس وقت کے محسوسات)
پاکستان اور ہندوستان کے فوجی اپنا اپنا پرچم اتارتے ہوئے
ایک چیز جو ہمیں یاد ہے وہ یہ کہ انڈیا کے لوگ جہاں بیٹھے تھے وہ شاید اسٹیڈیم کی طرح سیڑھیاں بنی ہوئیں تھیں۔ دور سے دیکھنے پر وہ جگہ دلچسپ معلوم ہو رہی تھی۔ اور ایک بات جو جاننے کا شوق ہے کہ آیا کوئی ہندوستانی محفلین اپنا یہ بارڈر دیکھ چکے ہیں؟؟
2- درہ خنجراب:
پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں کوہ قراقرم کے بیچوں بیچ واقع خوبصورت سڑک "شاہراہ ریشم" آپ کو سیدھا چین کی سرحد تک لے جاتی ہے۔ یہ سرحد 523 کلومیٹر طویل ہے۔ قراقرم کے عالی شان اور بلند و بالا پہاڑوں میں گھرا درہ خنجراب دنیا کا بلند ترین پہاڑی درہ ہے۔ یہ مقام دیکھنے کا شرف بھی ہمیں حاصل ہو چکا ہے۔
درہ خنجراب
اس مقام تک پہنچیں تو سب سے پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ ہوا میں آکسیجن کم ہونے کے باعث سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے۔ وہاں کی فضا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو کچھ نوجوانوں کو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے پایا۔
ہمیں ان کی دماغی حالت پہ شبہ ہوا کہ کہاں تو سانس لینے کے لالے پڑے ہیں اور کہاں یہ لوگ زندگی سے ہاتھ دھونے کا سامان کرنے میں مصروف ہیں۔
درے کے دوسری جانب چین کے لوگ بھی سیر و تفریح کی غرض سے آئے تھے۔ بہت کوشش کی کہ گیٹ کے پاس جا کر چینی لوگوں سے بات چیت کا موقع مل سکے لیکن ہمارے فوجی جوان اصولوں کے بالکل پکے اور ارادوں کے سچے تھے سو اپنی جگہ ڈٹے رہے اور ہمیں ایک بھی قدم آگے بڑھانے کی اجازت نہ دی۔
ہم نے کہا کہ چین کے لوگ بھی تو گیٹ سے چپک کے کھڑے ہیں۔ ہمیں بھی وہاں تک جانے دیں۔ جواب آیا کہ ان کا اصول ان کے ملک میں ہمارا اصول ہمارے ملک میں۔
ہم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ نیلے لباس والی لڑکی ہماری سہیلی ہے اور ہم نے چائنہ بارڈر پر ملنے کا وعدہ کیا تھا۔
محافظ فوجی کچھ طنزیہ انداز میں فرماتے ہیں کہ اپنی سہیلی سے کچھ فاصلے پر آپ کو چائنہ کی آرمی بھی نظر آ رہی ہو گی۔ آپ ذرا سا اِدھر سے اُدھر ہوئیں تو اریسٹ کر لی جائیں گی۔ ہم نے کہا نہیں بھئی ہم تو صحیح سلامت اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔
ہمارے ہوتے ہوئے ہی گلگت فورس کی ایک گاڑی وہاں آئی اور چین کی طرف سے ایک بس پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئی۔
مجموعی طور پر درہ خنجراب بے حد شاندار اور قابل دید مقام ہے۔ ہم تو تصاویر میں صرف پہاڑ ہی دیکھتے رہتے ہیں۔
3- پاکستان-ایران بیریئر:
پاکستان اور ایران کے درمیان واقع سرحد کو پاکستان-ایران بیریئر بھی کہتے ہیں۔ یہ سرحد 909 کلومیڑ طویل ہے اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ اس سرحد پر حد بندی کے لیے کنکریٹ کی ایک دیوار تعمیر کرنے کا آغاز کیا گیا ہے جو کہ باڑ کی جگہ لے لے گی۔ یہ دیوار 3 فٹ موٹی اور دس فٹ اونچی ہے اور فی الحال زیرِ تعمیر ہے۔ یہ دیوار ایک متنازعہ حثیت رکھتی ہے کیونکہ بلوچستان کے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام کی زمینیں پاکستان ایران سرحدی علاقے میں واقع ہیں اور یہ دیوار ان میں رکاوٹ بنائے گی۔
بلوچستان کے شہر کوئٹہ اور ایران کے درمیان واقع سڑک پر ایک گیٹ تعمیر کیا گیا۔ 2016 میں اس بارڈر کے گیٹ کا افتتاح ہوا۔ یہ گیٹ دو کلو میٹر کے فاصلے سے بھی نظر آتا ہے۔
گوگل سے لی گئی تصویر
4-ڈیورنڈ لائن:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع سرحد ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ سرحد 2450 کلومیٹر طویل ہے اور ہندوکش اور پامیر کے پہاڑوں میں واقع ہے۔ پاک افغان بارڈر دنیا کا خطرناک ترین بارڈر مانا جاتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس سرحد کی حد بندی کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور نومبر 2017 تک فاٹا میں بنیادی طور پر 43 کلو میٹر طویل بیرئیر تعمیر کر لیا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم گیٹ تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے بابِ پاکستان بھی کہتے ہیں۔
پاکستان کی یہ آخری دو سرحدیں ہم ابھی تک نہیں دیکھ پائے ہیں۔ کبھی موقع ملا تو ضرور دیکھنا چاہیں گے۔
آخری تدوین: