خالد محمود چوہدری
محفلین
چلیں آپ کو مزید حیران کرتا ہوں، میں نے آج تک یعنی قریب قریب نصف صدی میں علامہ اقبال کا آبائی گھر بھی نہیں دیکھا!
بری بات ۔آپ تو اچھے بچے ہیں نا۔
چلیں جائیں جلدی سے دیکھ کر آئیں۔
چلیں آپ کو مزید حیران کرتا ہوں، میں نے آج تک یعنی قریب قریب نصف صدی میں علامہ اقبال کا آبائی گھر بھی نہیں دیکھا!
جیو وارث بھائی آپ تو اپنی برادری کے ہی لگتے ہیں۔ میں بھی چھ سال لاہور میں رہنے کے باوجود لاہور میں کچھ نہیں دیکھ پایا سوائے مینار پاکستان اور بادشاہی مسجد کے۔چلیں آپ کو مزید حیران کرتا ہوں، میں نے آج تک یعنی قریب قریب نصف صدی میں علامہ اقبال کا آبائی گھر بھی نہیں دیکھا!
جیو وارث بھائی آپ تو اپنی برادری کے ہی لگتے ہیں۔ میں بھی چھ سال لاہور میں رہنے کے باوجود لاہور میں کچھ نہیں دیکھ پایا سوائے مینار پاکستان اور بادشاہی مسجد کے۔
حتی کہ چڑیاگھر بھی نہیں
اوجی اپنا گھر تے ایتھے گوجرانوالہ وِچ اےمطلب اپنا گھر بھی نہیں
برا لگا ہو تو بہت بہت معذرت
اور میں نے ان میں سے کوئی بھی بارڈر نہیں دیکھا حالانکہ جموں بارڈر تو سیالکوٹ کے انتہائی قریب ہے لیکن میں کبھی اس کے قریب بھی نہیں گیا۔ بلکہ اپنے روزگار کی جگہ سے، جو میرے گھر سے بارڈر کی طرف سات آٹھ کلومیٹر فاصلے پر ہے، ایک انچ بھی آگے کی طرف نہیں گیا۔
وارث بھائی، آپ سفر بیزار ہیں یا آدم بیزار؟؟چلیں آپ کو مزید حیران کرتا ہوں، میں نے آج تک یعنی قریب قریب نصف صدی میں علامہ اقبال کا آبائی گھر بھی نہیں دیکھا!
عمدہ تحریر لاریب مرزا بہن۔
شکریہ احباب!! اس تحریر کو لکھنے کا محرک یہ تھا کہ جو سرحدیں نہیں دیکھی ہیں کم از کم ان کے بارے میں کچھ معلومات تو ہونی چاہیے۔بہت خوب لاریب!
اچھی کوشش ہے۔
خاص طور پر یہ کہ اضافی بحری ہمسایہ عمان بھی ہےایک بحری سرحد بچ رہی تھی اس کا بھی ذکر کر دیتیں
چلیں آپ کو مزید حیران کرتا ہوں، میں نے آج تک یعنی قریب قریب نصف صدی میں علامہ اقبال کا آبائی گھر بھی نہیں دیکھا!
تصاویر پلیز!!میں نے سیالکوٹ،بہاولنگر اور لاہور کے بارڈرز دیکھے ہیں۔واہگہ بہت بار دیکھا ہے۔ باقی دونوں ایک ایک بار۔
الحمدللہ ، ہمیں واہگہ بارڈر پر پریڈ دیکھنے کا شرف 2015 میں حاصل ہوا تھا ، بہت کٹھن اور لمبا سفر کر کے ہم وہاں پہنچے تھے۔بہت سخت حفاظتی انتظامات کے مراحل سے گزرنا پڑا تھا،ہمیں تو خود پر ہی شک ہو چلا تھا کہ ہم دہشتگرد یا جاسوس ہیں۔گرمی سے بے حال محب دطن لوگوں پریڈ دیکھنے کے لیے قطار میں لگے اسٹیڈیم میں داخلے کے منتظر تھے ،جب ہم اسٹیڈیم میں داخل ہوئے اور ملی نغموں کی گونج میں پریڈ کا آغاز ہوا تو ساری تھکن اور جھنجلاہٹ رخصت ہوگی تھی ،اسٹیڈیم میں موجود ہر فرد کو محبت کے جنون نے جکڑا ہوا تھا ۔1- واہگہ بارڈر:
اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان 2,912 کلومیٹر طویل سرحد سرکاری طور پر بنائی گئی تھی۔ اس سرحد کا واحد زمینی راستہ لاہور کے قریب واقع ایک گاؤں واہگہ کے مقام پر موجود ہے جسے واہگہ بارڈر کہتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ بارڈر غالباً امرتسر میں واقع ہے۔ واہگہ بارڈر پر ہر شام غروبِ آفتاب سے قبل قومی پرچم اتارنے کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس تقریب کو دیکھنے کے لیے دونوں ممالک کے لوگوں کا ایک ہجوم اپنے اپنے بارڈر پر جمع ہوتا ہے۔
گوگل سے لی گئی تصویر
ہمیں اسکول کے زمانے میں یہ تقریب دیکھنے شرف حاصل ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک کے جیالے اپنی اپنی سرحد کی حفاظت کا عزم لیے بارڈر کے گیٹ کے پاس چوکنے کھڑے ہوتے ہیں۔ تقریب کے وقت بارڈر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فوجی جوان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے اور زور زور سے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے اپنا اپنا پرچم اتارتے ہیں اور مخصوص انداز سے تہ کرتے ہیں۔ واہگہ بارڈر کی فضا "پاکستان زندہ باد" "نعرہ تکبیر، اللہ اکبر" اور "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے۔ اہلِ وطن اور فوجی جیالوں کا جوش و جذبہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں جنگ چھڑ جائے گی۔ ( اس وقت کے محسوسات)
پاکستان اور ہندوستان کے فوجی اپنا اپنا پرچم اتارتے ہوئے
ایک چیز جو ہمیں یاد ہے وہ یہ کہ انڈیا کے لوگ جہاں بیٹھے تھے وہ شاید اسٹیڈیم کی طرح سیڑھیاں بنی ہوئیں تھیں۔ دور سے دیکھنے پر وہ جگہ دلچسپ معلوم ہو رہی تھی۔ اور ایک بات جو جاننے کا شوق ہے کہ آیا کوئی ہندوستانی محفلین اپنا یہ بارڈر دیکھ چکے ہیں؟؟
ارے واہ!! آپ کی اتنی جان کاری پر خوشی ہوئی۔ اس بحری سرحد کا ذکر دانستہ نہیں کیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم سمندر نہیں دیکھنا چاہتے۔ایک بحری سرحد بچ رہی تھی اس کا بھی ذکر کر دیتیں
سمندر تو بہت بار دیکھا ہے، مگر ساحل سے ہی۔ زیادہ سے زیادہ منوڑا جزیرے تک جانا ہوا ہے۔ارے واہ!! آپ کی اتنی جان کاری پر خوشی ہوئی۔ اس بحری سرحد کا ذکر دانستہ نہیں کیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم سمندر نہیں دیکھنا چاہتے۔
بہت خوب!! یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ آپ کے پاس کچھ یادداشتیں تو محفوظ ہوں گی۔الحمدللہ ، ہمیں واہگہ بارڈر پر پریڈ دیکھنے کا شرف 2015 میں حاصل ہوا تھا ، بہت کٹھن اور لمبا سفر کر کے ہم وہاں پہنچے تھے۔بہت سخت حفاظتی انتظامات کے مراحل سے گزرنا پڑا تھا،ہمیں تو خود پر ہی شک ہو چلا تھا کہ ہم دہشتگرد یا جاسوس ہیں۔گرمی سے بے حال محب دطن لوگوں پریڈ دیکھنے کے لیے قطار میں لگے اسٹیڈیم میں داخلے کے منتظر تھے ،جب ہم اسٹیڈیم میں داخل ہوئے اور ملی نغموں کی گونج میں پریڈ کا آغاز ہوا تو ساری تھکن اور جھنجلاہٹ رخصت ہوگی تھی ،اسٹیڈیم میں موجود ہر فرد کو محبت کے جنون نے جکڑا ہوا تھا ۔
پرکشش یاداشت صرف اپنی نشست سے پریڈ کے آغاز سے پریڈ کے اختتام تک کی ہیں ۔اس کے علاوہ ہر جگہ پاکستانیت عروج پر تھی ۔بہت خوب!! یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ آپ کے پاس کچھ یادداشتیں تو محفوظ ہوں گی۔
آپ سے تو سیدھی سیدھی بات کرنی پڑے گی۔ بھئی ہمارا مطلب یہ تھا کہ تصاویر ہیں تو اشتراک کیجیے۔پرکشش یاداشت صرف اپنی نشست سے پریڈ کے آغاز سے پریڈ کے اختتام تک کی ہیں ۔اس کے علاوہ ہر جگہ پاکستانیت عروج پر تھی ۔
معذرت ! شاید آپ کو میری بات سے بری لگی ۔آپ سے تو سیدھی سیدھی بات کرنی پڑے گی۔ بھئی ہمارا مطلب یہ تھا کہ تصاویر ہیں تو اشتراک کیجیے۔
ارے بالکل نہیں!! بلکہ ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ آپ کو ہماری بات بری نہ لگ جائے۔معذرت ! شاید آپ کو میری بات سے بری لگی ۔
جی شایددو چار تصویریں ہیں، میں گھر جا کر دیکھوں گا ۔ویسے کچھ تصویریں میں نےاپنے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی اپ لوڈ کی تھیں ،جو بھی ملیں میں اس لڑی میں شریک کردوں گا۔