عثمان
محفلین
پاکستان میں تاریخ اور بین الاقوامی معاملات پر جو کچھ لکھا جاتا ہے اس سے میں بھی کچھ کم بیزار نہیں۔ لیکن تاریخ سمجھنے کے لیے اس کا ہر ممکن زاویہ سے دیکھنا بہرحال ایک مجبوری ہے۔پاکستانی مصنفین کی لکھی کتب کو پڑھنے سے میں نے توبہ کر لی ہے۔ یہ لنک دیکھیئے۔ یہ ان 30 ہائی رینکنگ ائیر فورس آفیسرز میں سے ایک ہیں جو پولینڈ سے پاکستان منتقل ہونے کے بعد 1965 کی جنگ میں پائلٹ رہے۔ کبھی کسی پاکستانی مصنف نے ان کا نام بھی لکھا؟ یہ صاحب سپارکو کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہے اور رہبر نامی راکٹ پروگرام بھی ان کی زیر نگرانی شروع ہوا۔ حتف نامی میزائل پروگرام انہوں نے شروع کیا۔ واضح رہے کہ یہ وہی پروگرام ہے جس کا کریڈٹ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے سر لیتے نہیں تھکتے، اور جس کے تحت پاکستان آج میزائل ٹیکنالوجی میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے۔ 1980 میں کراچی میں ٹریفک ایکسی ڈنٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ اب بتائیے کہ کیا میں پاکستانی مصنفین کی لکھی ہوئی جنگی کتب کو پڑھوں یا نہ پڑھوں؟
پس نوشت: عین ممکن ہے کہ پاکستانی مصنفین کی جنگ کے بارے کتب میں ان کا یا دیگر پولش آفیسرز کا تذکرہ ہو، تاہم مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا۔ شاید میرا مطالعہ اتنا وسیع نہیں
انڈین مصنفین کی جنگ سے متعلق کتب کو پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا
جنگ پر تو نہیں ، البتہ محمد علی جناح کی سوانح حیات پر پاکستانی کتب کے علاوہ بھارتی سیاستدان جسونت سنگھ کی کتاب پڑھی جس سے ان کی شخصیت ایک نئے رخ سے سامنے آئی۔