منٹو (خاکہ)
(سعادت حسن منٹو)
“ یہ مضمون منٹو صاحب نے اپنے انتقال سے قریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ آیئے منٹو کو انھی کے قلم سے جاننے کی سعی کرتے ہیں ۔۔۔”
“ منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔
اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔۔۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔۔۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔
لیجئے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔
اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔۔۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔۔۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔۔۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیئے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔۔۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔۔۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، اﷲ کی پناہ۔۔۔
افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔۔۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔۔۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔۔۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔۔۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور ۷۸۶ لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم اﷲ۔۔۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔
اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیئے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔۔۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔
منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔۔۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے......!!”
( سعادت حسن منٹو ۔ رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔بابت: ستمبر، اکتوبر1954ء )