الف نظامی

لائبریرین
غمگسار اپنے ہیں سرکار یہ بس دیکھا ہے
غم کے بارے میں نہیں جان سکے ہم کیا ہے​
آپ کے لطف و کرم سے ہے سلامت ایماں
ایک محشر ہے کہ جو چار طرف برپا ہے​
دستگیری اسے کہتے ہیں کسی موڑ پہ بھی
امتی کو نہیں اندیشہ کہ وہ تنہا ہے​
کیوں نہ ہو آپ کی رحمت پہ گنہگار کو ناز
اس کے بارے میں ارشاد کہ وہ اپنا ہے​
ٹوٹ جائیں گے زمانے کے روابط سارے
مگر اک ربط کہ جو آپ کی الفت کا ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
رنگ ہستی آپ کے فیضان سے نکھرا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
[align=left:a366dec914]آپ کی آمد سے پہلے کب تھا یہ نقشہ حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)[/align:a366dec914]
آپ کا دینِ حیات آموز جب پھیلا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
مٹ گئی یکسر تمیز بندہ و آقا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)​
دیدہ خورشید نے دیکھا نہ دیکھے گا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
آپ سا خلوت گزیں و انجمن آرا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)​

حشر پھر ہے کائناتِ روح میں برپا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
بے نواوں پر ہو پھر بابِ عنایت وا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)​
عافیت کی ساری قدریں ہیں‌تہ وبالا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
ہوگیا ہے سخت مشکل سانس بھی لینا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)​
آج پامالِ ستم ہے فکر بھی میرا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
اب مسائل سے نمٹنے کا نہیں یارا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)​
داغ محرومی دکھاوں آپ کو کیا کیا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
کس قدر احباب میں‌ ہوں کس قدر تنہا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)​
زندگی تائب کی ہے تپتا ہو صحرا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)
آپ کے الطاف کا سر پر رہے سایا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)​
 

الف نظامی

لائبریرین
اس کو نہ چھو سکے کبھی رنج و بلا کے ہاتھ
اٹھے ہیں‌جس کے حق میں رسولِ خدا کے ہاتھ​
ان کی طرف بڑھیں گے نہ لطفِ خدا کے ہاتھ
جو پھر گئے رسول خدا سے چھڑا کے ہاتھ​
پہنچے کہاں کہاں‌نہ حبیبِ خدا کے ہاتھ
کونین کا ہے نظم و عمل مصطفی کے ہاتھ​
محشر میں مجھ پہ سایہ لطفِ رسول ہو
میں یہ دعا ئیں‌مانگ رہا ہوں اٹھا کے ہاتھ​
عشقِ نبی میں‌ زندہِ جاوید ہوگیا
نقدِ حیات ٹوٹ نہ پائے فنا کے ہاتھ​
ذکرِ حبیب نے وہ غنی کردیا مجھے
بیٹھا ہوا ہوں دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ​
بے حد و بے شمار خطائیں سہی مگر
کچھ غم نہیں کہ لاج ہے اب مصطفی کے ہاتھ​
طاعت ہے فرض ہم پہ خدا اور رسول کی
عزت خدا کے ہاتھ ہے یا مصطفی کے ہاتھ​
وہ خوش نصیب دولتِ کونین پا گئے
جو پوچھتے تھے اپنا مقدر دکھا کے ہاتھ​
میں‌ہوں گدائے کوچہ آلِ نبی نصیر
دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ​
 

الف نظامی

لائبریرین
بڑھ کے امکاناتِ تحسیں سے ہے ان کی ہر ادا
کون کرسکتا ہے حقِ نعتِ پیغمبر ادا؟​
اللہ اللہ مدحتِ خیرالوری کے باب میں
خود بخود ہوتا ہے مضمونِ دلِ مضطر ادا​
یاس آغشتہ بشر کی جان میں جان آگئی
دیکھ کر خُلقِ محمد کی رواں پرور ادا​
آپ کے در کی غلامی کا ملا جس کو شرف
ہیں غلام اس کے فریدوں جاہ و اسکندر ادا​
ہے سہارا آپ کا دونوں جہانوں میں مجھے
میں کروں کس منہ سے شکرِ شافعِ محشر ادا​
جاں نچھاور ہو مری ان کے مقدس نام پر
جتنا جلدی ہو سکے ہو جائے قرضِ سر ادا​
ہو عمل سے بھی زباں کے ساتھ اظہارِ نعت
سنتِ ختم الرسل بھی اب کرو جعفر ادا​
 

الف نظامی

لائبریرین
سپہ سالارِ اعظم کے حضور سپاہیوں کا ہدیہ عقیدت

جب بھی سپاہیوں سے پیمبر کا پوچھیے
خندق کا ذکر کیجیے خیبر کو پوچھیے
بدر و احد کے قائدِ لشکر کو پوچھیے
یا غزوہ تبوک کے سرور کو پوچھیے
ہم کو حنین و مکہ و موتہ بھی یاد ہیں
ہم امتی بانی رسم جہاد ہیں​
رسم جہاد حق کی اقامت کے واسطے
کمزور و ناتواں کی حمایت کے واسطے
انصاف ، امن اور عدالت کے واسطے
خیر الممات مرگِ شہادت کے واسطے
لڑتے ہیں جس کے شوق میں ہم جھوم جھوم کر
پیتے ہیں جامِ مرگ کو بھی چوم چوم کر​
لاکھوں درود ایسے پیمبر کے نام پر
جو حرف لاتخف سے بناتا ہوا نڈر
ہم کو یقین ہے کبھی مرتے نہیں ہیں ہم
اور اس لیے کسی سے بھی ڈرتے نہیں‌ہیں ہم​
توپ و تفنگ و دشنہ و خنجر صلیب و دار
ڈرتے نہیں‌کسی سے محمد کے جانثار
ماں ہے ہماری ام عمارہ سی ذی وقار
ہم ہیں ابو دجانہ و طلحہ کی یادگار
جب بھی سپاہیوں سے پیمبر کا پوچھیے
خندق کا ذکر کیجیے خیبر کو پوچھیے​
 

الف نظامی

لائبریرین
مت پوچھیے کہ کیا ہے سرکار کی گلی میں
اک جشن سا بپا ہے سرکار کی گلی میں​
لطف و عطا کی اس پر برسات ہوگئی ہے
جو شخص آگیا ہے سرکار کی گلی میں​
ہوتا ہے دل منور تابانیوں سے جس کی
جلووں کی وہ فضا ہے سرکار کی گلی میں​
آنے کو آ گئے ہیں گھر پر ضرور لیکن
دل اپنا رہ گیا ہے سرکار کی گلی میں​
ہر غم کا ہے مداوا آب و ہوا میں اسکی
ہر درد کی دوا ہے سرکار کی گلی میں​
سرکار کی گلی کا رتبہ تو اس سے پوچھو
دل جس کا جھومتا ہے سرکار کی گلی میں​
جلووں کو ڈھونڈنےمیں گھر سے چلا تھا اپنے
اب خود کو ڈھونڈتا ہوں سرکار کی گلی میں​
کس کس کو میں بتاوں خود جاکے کوئی دیکھے
جنت کا در کھلا ہے سرکار کی گلی میں​
جس کی تجلیوں سے سارا جہاں منور
مسرور وہ فضا ہے سرکار کی گلی میں​
 

الف نظامی

لائبریرین
نبی کے واسطے سارا جہاں ہے
بڑی ہے قیمتی جانِ محمد​
فرشتے بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم ہیں
غلامانِ غلامانِ محمد​
 

الف نظامی

لائبریرین
بلوائیں مجھے شاد جو سلطانِ مدینہ
جاتے ہی ہوجاوں گا قربانِ مدینہ​
وہ گھر ہے خدا کا تو یہ محبوبِ خدا ہیں
کعبے سے بھی اعلی نہ ہو کیوں شانِ مدینہ​
کھولے سرِ جنت کو یہی کہتا ہے رضوان
بے خوف چلے جائیں غلامانِ مدینہ​
 

الف نظامی

لائبریرین
مبارک پیشوا جس کی ہے شفقت دوست دشمن پر
مبارک پیش رو جس کا ہے سینہ صاف کینے سے​
انہی اوصاف کی خوشبو ابھی اطرافِ عالم میں‌
شمیمِ جاں فزا لاتی ہے مکے اور مدینے سے​
 

الف نظامی

لائبریرین
آیہ کائنات کا معنی دیریاب تو
نکلے تیری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو​
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا و جود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب​
عالمِ آب وخاک میں تیرے ظہور سے وجود
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب​
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب​
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل وغیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب​
 

الف نظامی

لائبریرین
لے اڑی آج صبا سوئے مدینہ دل زار
ناتوانی نے بڑا کام نکالا تیرا​
نور سے تیرے منور ہوئے دونوں عالم
نظر آتا ہے ہر اک سمت اجالا تیرا​
 

الف نظامی

لائبریرین
جس طرح ملتے ہیں لب نامِ محمد کے سبب
[align=right:bd295b7f70]کاش ہم مل جائیں سب نام محمد کے سبب[/align:bd295b7f70]
تھا کہاں پہلے ہمیں حفظ مراتب کا لحاظ
ہم نے سیکھا ہے ادب نامِ محمد کے سبب​
جب لیا نامِ نبی حاصل ہوا کیف و سرور
مٹ گیا رنج و تعب نامِ محمد کے سبب​
ایک ہی صف میں کھڑے ہیں بندہ وآقا یہاں
مٹ گئی تفریق سب نامِ محمد کے سبب​
سرورِ عالم کے دم سے ہے عجم کی آبرو
محرم ٹھہرا عرب نامِ محمد کے سبب​
جبر کے پنجے میں‌جکڑے جاں بلب انسان کو
آگیا جینے کا ڈھب نامِ محمد کے سبب​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہو جس پہ کرم سید عالم کا ذرا سا
بن جائے وہ اسرارِ الہی کا شناسا​
ہیں ارض وسما آپ کے جلووں سے ضیاگر
نبیوں میں نہیں کوئی بھی محبوبِ خدا سا​
جب دل ہو غم گردش ایام سے بیتاب
ان کی نگہِ لطف ہی دیتی ہے دلاسا​
ہے لذت؟ دیدار بھی ، کوثر بھی ، عطا بھی
امت کا کوئی فرد نہ جائے گا پیاسا​
ہے اس کی ضیا سے رخِ گیتی پہ چراغاں
تابندہ ہے سرکار کی سیرت گہر آسا​
ائے منتظر دید! گداز و تپش آموز
بادامنِ شاہ امم آویز و بیاسا​
 

الف نظامی

لائبریرین
نہیں حاجت نبی کی رحمۃ للعالمین کے بعد
سمجھ سکتا ہے یہ قلب سلیم و دیدہ بینا​
حضور پاک نے خود لانبی بعدی فرمایا
یہ قولِ حق ہے اتممت علیکم نعمتی۔۔دینا​
 

الف نظامی

لائبریرین
کوئی ان کے بعد نبی ہوا؟ نہیں ان کے بعد کوئی نہیں
کہ خدا نے خود بھی تو کہہ دیا ، نہیں ان کے بعد کوئی نہیں​
کوئی ایسی ذات ہمہ صفت ؟ کوئی ایسا نور ہمہ جہت
کوئی مصطفی کوئی مجتبی؟ نہیں ان کے بعد کوئی نہیں​
بجز ان کے رحمتِ ہر زماں ، کوئی اور ہو تو بتائیے
نہیں! ان سے پہلے کوئی نہ تھا ، نہیں ان کے بعد کوئی نہیں​
کسی ایسی ذات کا نام لو جو امیں بھی ہو جو اماں بھی ہو
ہے مرے یقین کا فیصلہ ، نہیں ان کے بعد کوئی نہیں​
یہ نگار خانہ روز وشب ، اسی مبتدا کی خبر ہے سب
مگر ایسا جلوہ حق نما ، نہیں‌ ان کے بعد کوئی نہیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
رسولِ مجتبی کہیے ، محمد مصطفی کہیے
خدا کے بعد بس وہ ہیں پھر اس کے بعد کیا کہیے​
شریعت کا ہے یہ اصرار ختم الانبیا کہیے
محبت کا تقاضا ہے کہ محبوب خدا کہیے​
جب ان کا نام آئے دنیا سراپا گوش ہوجائے
جب ان کا نام آئے مرحبا صل علی کہیے​
مرئ سرکار کے نقشِ قدم شمع ہدایت ہیں
یہ وہ منزل ہے جس کو مغفرت کا راستا کہیے​
محمد کی نبوت دائرہ ہے نورِ وحدت کا
اسی کو ابتدا کہیے اسی کو انتہا کہیے​
غبارِ راہ طیبہ سرمہ چشمِ بصیرت ہے
یہی وہ خاک ہے جس خاک کو خاکِ شفا کہیے​
مدینہ یاد آتا ہے تو پھر آنسو نہیں رکتے
مری آنکھوں کو ماہر چشمہ آبِ بقا کہیے​
 

الف نظامی

لائبریرین
دل کا درد لبوں تک آئے تو میں نعت کہوں
ہر دھڑکن مصرع بن جائے تو میں نعت کہوں​
دل کے مطلع پر ہو صبح عرفان و ایقان
چھٹ جائیں تشکیک کے سائے تو میں نعت کہوں​
حسنِ عمل کے کھیت ہرے ہوں خیر پھلے پھولے
دامانِ رحمت لہرائے تو میں نعت کہوں​
جو بادل نیسا نستانِ عشق سے اٹھا ہے
وہ برسے موتی برسائے تو میں نعت لکھوں​
تخیل و وجدان میں‌جشن فصل بہاراں ہو
من مہکے اور جاں مسکائے تو میں نعت کہوں​
روز فقیر محمد افضل اور حفیظ ملیں
صحبت ان کی جوت جگائے تو میں نعت کہوں​
نعت نگاری کی جعفر بس ایک ہی صورت ہے
خود اللہ مضموں سمجھائے تو میں نعت کیوں​
 

الف نظامی

لائبریرین
دل مرا اس گلِ خوبی کا تمنائی ہے
جس کی خوشبو سے زمانے نے مہک پائی ہے​
جب بھی آیا ہے مجھے ان کے تبسم کا خیال
چاندنی میرے تصور میں اتر آئی ہے​
دل میں‌ہے ان کی مہک ان کی چمک ان کی جھلک
اللہ اللہ یہ کیا انجمن آرائی ہے​
کوئے سرکار میں پہنچا تو یہ محسوس ہوا
ذرے ذرے سے مری جیسے شناسائی ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
جو دل میں عشق محمد کا آستانہ رہے
سحر کا حسن رہے رونقِ شبانہ رہے​
بدن میں سانس کا جب تک یہ آنا جانا رہے
مرئے لبوں پہ فقط نعت کا ترانہ رہے​
جیوں تو آپ کا ذکرِ جمیل کرتا رہوں
زبان پر دمِ آخر یہی فسانہ رہے​
درودِ پاک کا یہ ورد میری دولت ہے
یہ میری دولتِ بیدار تازمانہ رہے​
حضور آپ کی بستی بسی ہے آنکھوں میں
دعا یہی ہے کہ آباد یہ خزانہ رہے​
پھر اس کے بعد نہیں کوئی آرزوئے بہشت
اگر نصیب مدینے میں آب ودانہ ملے​
حضور حشر میں‌ بھی آپ کی غلامی ملے
یہ افتخارِ حضوری بھی دائمانہ رہے​
وہاں بھی نعت کی نسبت مرا مقدر ہو
گناہگار کی بخشش کا یہ بہانہ بنے​
میں‌نعت پڑھتا ہوا سرو ساتھ ساتھ چلوں
مرے عروج پہ حیراں اک زمانہ رہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
جو کام جو مشکل تھا کیا میرے نبی نے
باطل کو دیا حق کا پتہ میرے نبی نے​
دوپارہ ہوا ٹوٹ کے خورشیدِ فلک بھی
ادنی سا اشارہ جو کیا میرے نبی نے​
گل ہوگا نہ تاحشر وہ باطل کی ہوا سے
روشن جو کیا حق کا دیا میرے نبی نے​
مظلوم کے تن پہ جو لگا ظلم کے ہاتھوں
وہ زخم محبت سے سیا میرے نبی نے​
پتھر بھی سہے ، دیس بھی چھوڑا رہِ حق میں
پھر بھی نہ کیا کوئی گلہ میرے نبی نے​
تاعمر گیا پھر نہ جواز اور کے در پر
اک بار کیا اتنا عطا میرے نبی نے​
 
Top