الف نظامی

لائبریرین
یاد وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
بیٹھے بٹھائے بدنصیب سر پر بلا اٹھائی کیوں​
دل میں چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئی
پوچھو تو آہ سرد سے ٹھنڈی ہوا چلائی کیوں​
چھوڑ کے اس حرم کو آپ بن میں ٹھگوں کے آبسو
پھر کہو سر پہ دھر کہ ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں​
باغ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آج
قمری جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں​
نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیمِ خلد
سوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں​
کس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں
نرگس مستِ ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں​
تو نے تو کردیا طبیب آتشِ سینہ کا علاج
آج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں​
فکرِ معاش بد بلا ہول معاد جاں گزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو روح بدن میں آئی کیوں​
ہو نہ ہو آج کچھ مرا ذکر حضور میں ہوا
ورنہ مری طرف خوشی دیکھ کہ مسکرائی کیوں​
حورِ جناں ستم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا
چھیڑ کے پردہِ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں​
غفلت شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفل شیر خوار
کرنے کو گدگدی عبث آنے لگی بہائی کیوں​
عرض کروں حضور سے دل کی تو میرے خبر ہے
پیٹتی سر کو آرزو دشتِ حرم سے آئی کیوں​
حسرتِ نو کا سانحہ سنتے ہی دل بگڑ گیا
ایسے مریض کو رضا مرگِ جواں سنائی کیوں​
 

الف نظامی

لائبریرین
بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے​
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے
چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے​
ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشت اَمَل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے​
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے
سونپا خدا کو تجھ کو یہ عظمت سفر کی ہے​
ہم گرد کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ
ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے​
کالک جبیں کی سجدہ در سے چھڑاو گے
مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنا حجر کی ہے​
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے
جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے​
برسا کے جانے والوں پہ گوہر کروں نثار
ابرِ کرم سے عرض یہ میزابِ زر کی ہے​
آغوشِ شوق کھولے ہے جن کے لیے حطیم
وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دُھن کدھر کی ہے​
ہاں ہاں رہِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ
او پاوں رکھنے والے یہ جا چشم وسر کی ہے​
واروں قدم قدم پہ کہ ہردم ہے جانِ نو
یہ راہِ جانفزا میرے مولی کے در کی ہے​
اللہ اکبر اپنے قدم اور یہ خاک پاک
حسرت ملائکہ کو جہاں وضع سر کی ہے​
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو
کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک گھر کی ہے​
محبوبِ ربِ عرش ہیں اس سبز قبہ میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے​
چھائے ملائکہ ہیں لگا تار ہے درود
بدلے ہیں پہرے بدلی میں بارش دُرُر کی ہے​
سعدین کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے​
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگی زلف و رخ آٹھوں پہر کی ہے​
جو ایک بار آئئے دوبارہ نہ آئیں گے
رخصت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے​
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے​
اے وائے بیکسی تمنا کہ اب مید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے​
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروروں کی آس جائے
اور بارگاہ مرحمتِ عام تر کی ہے​
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایک بار بار
عاصی پڑے رہیں تو صلا عمر بھر کی ہے​
زندہ رہیں تو حاضری بارگاہ نصیب
مرجائیں تو حیاتِ ابد عیش گھر کی ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
تو جو اللہ کا محبوب ہوا، خوب ہوا

تو جو اللہ کا محبوب ہوا، خوب ہوا
يا نبی! خوب ہوا، خوب ہوا، خوب ہوا​
شب معراج يہ کہتے تھے فرشتے باہم
سخنِ طالب و مطلوب ہوا، خوب ہوا​
حشر ميں اُمتِ عاصي کا ٹھکانہ ہي نہ تھا
بخشوانا تجھے مرغوب ہوا، خوب ہوا​
تھا سبھي پيشِ نظر معرکہء کرب و بلا
صبر ميں ثانيء ايوب ہوا، خوب ہوا​
داغ ہے روزِ قيامت مري شرم اُس کے ہاتھ
ميں گناہوں سے جو محجوب ہوا، خوب ہوا​
 

الف نظامی

لائبریرین
قلم سے پھول کھلیں ، نطق درفشاں ٹھہرے
وہاں چلا ہوں جہاں گردشِ زماں ٹھہرے​
وہ آستاں کہ ارادت میں مہروماہ جھکیں
وہ خاکِ پاک کہ ہر ذرہ کہکشاں ٹھہرے​
ہوائے کوچہ محبوب ، شکریہ تیرا
تیرے کرم سے بیاباں بھی گلستاں ٹھہرے​
یہ فکر دائرے بنتی رہی خیالوں میں
کوئی تو بات بہ عنوان ارمغاں ٹھہرے​
تمام عمر مدینہ میں سونے والے کو
کہاں کہاں سے پکارا کہاں کہاں ٹھہرے​
کبھی نظیری و فیضی کی خوشہ چینی کی
کبھی نظامی و خسرو کے ہم زباں ٹھہرے​
کبھی عراقی و عطار سے نوا مانگی
کبھی ظہوری و قدسی کے رازداں ٹھہرے​
نظر جمی کبھی حسان کے قصیدے پر
کبھی قبیلہ عشاق کا نشاں ٹھہرے​
لوائے مہر علی شاہ کو دوش پر رکھ کر
دیار گنج شکر میں بھی مہماں ٹھہرے​
جنوں کا درس لیا بو علی قلندر سے
غزل سرائی میں حافظ کے ترجماں ٹھہرے​
دیار عشق میں سعدی کی ہمنوائی کی
نہ ماوری کہیں پہنچے نہ درمیاں ٹھہرے​
ادب میں مرشد رومی سے اکتساب کیا
وہ اس گروہ میں سرخیل عاشقاں ٹھہرے​
غرض اس در مشکل کشا تک آپہنچے
وہ ایک در کہ جہاں دور آسماں ٹھہرے​
بہ بارگاہ رسالت یہ ارمغان فقیر
بڑا کرم ہو جو مقبول و کامراں ٹھہرے​
سلام ان پہ کہ جن سے ہے نظم کون و مکاں
سلام ان پہ جو شاہ دوجہاں ٹھہرے​
سلام ان پہ کہ جن کا نہیں مثیل کوئی
سلام ان پہ کہ جو میر کارواں ٹھہرے​
غرض کہ ان پ درود و سلام کی بارش
جو ہر زمیں کے لیے ابردرفشاں ٹھہرے​
جنون عشق اسی آستاں پہ لے آیا
جبین شوق جہاں سنگِ آستاں ٹھہرے​
جنہیں شعور نہ تھا عقدہ حیات ہے کیا؟
اس اک نگاہ کے صدقہ کے راز داں ٹھہرے​
وہ لوگ ، تھا جنہیں بے دست وپائی کا شکوہ
اسی کے در کی غلامی سے تیغ راں ٹھہرے​
ازل کے دن کی مشیت کی مصلحت تھی یہی
کہ خاک طیبہ محمد کا آستاں ٹھہرے​
اگر چلے ہو تو سوز دوام لے کے چلو
زباں پہ ورد درود و سلام لے کے چلو​
نثار دیدہ ودل ، عشق مصطفی کی قسم
کہ یہ جنوں بھی بڑی چیز ہے خدا کی قسم​
زمیں کا عجز انہیں کے قدوم کا صدقہ
فلک کے چہرہ پرنور و پرضیا کی قسم​
سمندروں میں عمق ان کے فکر و دانش کا
ازل سے لے کر ابد تک کے رہنما کی قسم​
جو لب کھلے تو شگوفے بھی کھل کھلا اٹھے
جمال صاحب والیل و والضحی کی قسم​
بدل گئے کبھی تیور تو آسماں کانپا
کلام پاک کی آیات دل کشا کی قسم​
کھلی ہیں ان پہ غیاب وحضور کی راہیں
نظام عالم انساں کے ارتقا کی قسم​
“ بہ آں گروہ کے از عشق مصطفی مستند
سلام ما برسانید ہر کجا ہستند“​
 

الف نظامی

لائبریرین
درد ان کا محبت کے بازار سے اپنا دل اپنی جاں بیچ کر لے لیا
چاند سورج ، مرے بام و در ہوگئے ان کے قدموں میں جس دن سے گھر لے لیا​
میرا دل مصطفی ، میرا غم مصطفی ، میرا سب کچھ خدا کی قسم مصطفی
قبر کے واسطے ، حشر کے واسطے چاہیے جتنا رخت سفر لے لیا​
آئے جب وہ تمناوں کے غول میں ۔ کائنات آگئی میری کشکول میں
اک نظر صرف انہیں دیکھنے کے لئے ساری دنیا کا حسنِ نظر لے لیا​
سلطنت سے بھی اعلی گدائی ملی ، ان کا قیدی ہوا تو رہائی ملی
رحمتوں کی سفارش پہ تقدیر نے میرا ہرایک جرم اپنے سر لے لیا​
کچھ نہ کچھ ہم بھی ہیں ان کی دانست میں ، نام اپنا بھی ہے ان کی فہرست میں
اب نہ توکے گا رضوان جنت ہمیں ان سے پروانہ رہگزر لے لیا​
زندگی جب سے اپنی ٹھکانے لگی ، یاد جب سے محمد کی آنے لگی
تشنگی حوض کوثر پہ جانے لگی ، معصیت نے بھی جنت میں گھر لے لیا​
ان کی کملی مظفر اٹھا کر چلوں ، خاکِ پا پتلیوں پر اٹھا کر چلوں
قتل گاہوں میں بھی سر اٹھا کر چلوں ، حوصلہ ان سے ایسا نڈر لے لیا​
 

الف نظامی

لائبریرین
نے سکندر کی ، نہ کچھ دارا و جم کی بات ہے
واہ ہم ہیں ،اور نبیِ محتشم کی بات ہے​
اوج قسمت کا مرے اندازہ کرسکتا ہے کون
میرے لب پہ خواجہ لوح و قلم کی بات ہے​
خود رفعنا کہہ کہ رفعت دی خدائے پاک نے
کتنی اونچی دیکھیئے شاہِ حرم کی بات ہے​
مجھ سا ناداں معنی حم کیا سمجھے مگر
گیسوئے والیل کے کچھ پیچ و خم کی بات ہے​
قوم و قریہ تک نہیں محدود ان کی رحمتیں
ان سے وابستہ تمام عرب وعجم کی بات ہے​
بیوفائی اور وہ بھی رحمت کونین سے
مرد مومن! سوچ یہ کتنے ستم کی بات ہے​
فیصلہ ایماں سے کر ، عقل تیرہ سے نہ کر
ان کا قرب وبعد ہی بود و عدم کی بات ہے​
ان کے دشمن کی ذرا عزت نہیں دل میں مرے
مجھ کو اچھا ہی نہیں لگتا، قسم کی بات ہے​
کون اے جان مسیحا سن سکے تیرے سوا
آہ یہ اک کشتہ رنج و الم کی بات ہے​
نقش لاثانی کا آسی ذکر ہے وجہ سکوں
کیوں نہ ہو اک مظہر فیض اتم کی بات ہے​
 

الف نظامی

لائبریرین
دل لگڑا بے پرواہاں نال
جتھے دم مارن دی نہیں مجال
صلی علیہ ذوالجلال

روندیاں نیناں نوں سمجھا رہی
لکھیا پڑھیا سب بھلا رہی
ہک نام سجن دا گا رہی
رگ رگ لوں لوں ساہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
جس دی سک مینوں اوہ تاں آیا نہیں
ہک جھٹ گھڑی سکھ پایا نہیں
پل پل گھڑی دسے سو سو سال
صلی علیہ ذوالجلال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
سوہنا میں توں کیوں چت چاگیا
لگیاں پریتاں بھلا گیا
قسمت سڑی دا واہ پیا
تتی ریت عرب دیاں رہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
جیندی جند تلی تے دھر رہی
گل پلڑا منتاں کر رہی
لکھ واری توبہ پڑھ رہی
رٹھڑا مناون دا خیال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
کراں یاد میں سوہنی جھات نوں
اس سفر عرب والی رات نوں
اس حمرا وادی دی گھات نوں
یالیتنی یوم الوصال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
سارا دن گزراں بھوندیاں
گھت پلڑا مکھ تے روندیاں
ہنجواں نال مکھڑا دھوندیاں
ساری رین سولاں تے آہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
کیتی بھج کے وانگ کباب ہوئے
پیتے باہجھ شراب خراب ہوئے
سرشار اتے بے تاب ہوئے
انہاں خونیاں مست نگاہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
کیتی وچ غمان غلطان ہوئے
اندر یاد سجن مستان ہوئے
حیان بہوں پریشان ہوئے
انہاں پیچیاں زلف سیاہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
آدم تھیں تا عیسی مسیح
نفسی بلیسن سب نبی
اتھے بولسی ہک امتی
احمد نبی صاحب کمال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
ربی الھی صمدی
صل وسلم علی النبی
فاطمۃ الزھرا و علی
حسنین جگ دی پناہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
مہر علی توں کون بچارا
نپٹ لا شے تے اوگن ہارا
سر تے چا کے عیباں دا بھارا
لاویں پریت توں شاہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
لا کے پریتاں کدی نہ نسیئے
بھیت دلاں دا مول نہ دسیئے
اندر رویئے تے باہر ہسیئے
ملیے سداں پے چاہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
مہر علی کیوں پھریں اداسی
اج کل سوہنا آ گل لاسی
ہوسن خوشیاں تے غم جاسی
ملساں لمیاں کر کر باہاں نال
دل لگڑا بے پرواہاں نال​
 

الف نظامی

لائبریرین
مری دھوپ تم مری چھاوں تم مری سوچ تم میرا دھیان تم
تمہی تم ہو میرے وجود میں مرا حسن تم مری شان تم​
غم ہجر و شوق وصال پر ، مرے عشق کے خدوخال پر
مرے خواب میرے خیال پر، مرے حال پر نگران تم​
مجھے تم ملے تو خدا ملا ، اور اسی سے اپنا پتہ ملا
یہ سرا ملا وہ سرا ملا ، یہ جہاں تم وہ جہاں تم​
میں رہوں تمہارے علم تلے ، مرا دل تمہارے قدم تلے
مرا آسمان حرم تلے، مرا امن میری امان تم​
کسی آئینے کا میں کیا کروں ، میں تمہارا چہرہ پڑھا کروں
جو خدا کہے وہ کہاں کروں ، ہمہ دین تم ہمہ دان تم​
تمہیں چاہتی ہے مری انا ، میں فقط تمہارے لیے بنا
میں تمہارے نام پہ ہوں فنا مری زندگی کا نشان تم​
ملی تم روشنی ہنر ، مری شاعری کی ہوں تم سحر
پس نطق بھی تمہی جلوہ گر ، مرا لہجہ مری زبان تم​
 

الف نظامی

لائبریرین
میں تھا مگر نہیں تھا ، پہنچا جو اس گلی تک
بکھرا ہوا پڑا ہوں ، دل سے در نبی تک​
اس در پہ جب کھڑا تھا قد سے بہت بڑا تھا
تاریک لگ رہی تھی سورج کی روشنی تک​
سینے میں چلنے والی ہر سانس تھی بلالی
چومی تھی کب وہ جالی ، سیراب ہوں ابھی تک​
جس پر نگاہ کردے عالم پناہ کردے
محلوں کے آنگنوں کو لے جائے جھونپڑی تک​
وہ صرف درمیاں ہے ، سب اس کی داستاں ہے
تخلیق زندگی ہے تہذیب آدمی تک​
کون و مکاں کی لہریں حجرے میں اس کے ٹھہریں
ہنگامہ و خموشی محدود ہیں اسی تک​
پہلی مراد بھی وہ اس کے بعد بھی وہ
وقت اس کا منتظر ہے دنیا کی واپسی تک​
ہر رت جگا ہے اس کا میلہ لگا ہے اس کا
اس زندگی ہے لے کر آئندہ زندگی تک​
ساتوں سمندروں پر ان شا اللہ مظفر
تاریخ نو لکھیں گے اکیسویں صدی تک​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہے لب عیسی سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں
سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں​
جودِ شاہ کوثر اپنے پیاسوں کا جویا ہے آپ
کیا عجب اڑ کر جو آپ آئے پیالی ہاتھ میں​
ابر نیساں مومنوں کو ، تیغ عریاں کفر پر
جمع ہیں شانِ جمالی و جلالی ہاتھ میں​
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں​
سایہ افگن سر پہ ہو پرچم الہی جھوم کر
جب لواء الحمد لے امت کا والی ہاتھ میں​
ہر خط کف ہے یہاں اے دست بیضائے کلیم
موجزن دریائے نورِ بے مثالی ہاتھ میں​
وہ گراں سنگی قدرِ مس وہ ارزانی جور
نوعیہ بدلا کئے سنگ و ل۔آلی ہاتھ میں​
دستگیرِ ہر دوعالم کر دیا سبطین کو
اے میں قرباں جان جاں انگشتِ لیالی ہاتھ میں​
آہ وہ عالم کہ آنکھیں بند اور لب پر درود
وقفِ سنگِ در جبیں روضہ کی جالی ہاتھ میں​
جس نے بیعت کی بہار حسن پر قرباں رہا
ہیں لکیریں نقشِ تسخیر جمالی ہاتھ میں​
کاش ہو جاوں لب کوثر میں یوں وارفتہ ہوش
لے کر اس جانِ کرم کا ذیلِ عالی ہاتھ میں​
آنکھ محوِجلوہِ دیدار ، دل پر جوشِ وجد
لب پہ شکرِ بخششِ ساقی پیالی ہاتھ میں​
حشر میں کیا کیا مزے وارفتگی کے لوں رض۔۔ا
لوٹ جاوں پاکے وہ دامانِ عالی ہاتھ میں​
 

الف نظامی

لائبریرین
گھڑی مڑی جی بھر آوندا اے

گھڑی مڑی جی بھر آوندا اے
یاد اوہ نور نگر آوندا اے
بہندیاں اٹھدیاں ٹردیاں پھردیاں
روضہ پاک نظر آوندا اے
ادبوں اکھ چکی نہیں جاندی
سامنے جد اوہ در آوندا اے
حرف لباں تے آون دی تھاویں
اکھیاں دے وچ تر آوندا اے
اوہدے درد بنا کد تائب
شعر گُلاں تے زر آوندا اے
 

الف نظامی

لائبریرین
الصّبحُ بَدَا مِن طَلعَتہ

الصّبحُ بَدَا مِن طَلعَتہ
[align=left:3551c900f9]وَالَّلیلُ دَجے مِن وفرَتِہ[/align:3551c900f9]
جِبرِیلُ اَتی لَیلَۃَ اَسری
[align=left:3551c900f9]وَالرَّبُ دَعَا فِی حَضرَ تہ[/align:3551c900f9]
فَاقَ الرُّسُلَا فَضلا وَ عُلا
[align=left:3551c900f9]اَھَدَی السُّبُلَا لِدَلَالَتِہ[/align:3551c900f9]
کَنزُ الکَرَم مَولیَ النِّعَم
[align=left:3551c900f9]ھَادِی الاُمَم لِشَرِ یعَتِہ[/align:3551c900f9]
اَزکَی النَّسَب اَعلَی الحَسَبِ
[align=left:3551c900f9]کُلُّ العَرَبِ فِی خِدمَتِہ[/align:3551c900f9]
سَعَۃِ الشَّجَرُ نَطَقَ الحَجَرُ
[align=left:3551c900f9]شَقَّ القَمَرُ بِاشَارَتِہ[/align:3551c900f9]
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
یہ بھی ارودمحفل کاایک ايسادھاگہ ہے میں نے بھی سوچاکہ یہ ناچیزبھی اس میں کوئی چیزبھیج دے تویہ نعت حاضرخدمت ہے جوکہ حسن نثار نے لکھی ہے۔
نعت شریف
تیرے ہوتے جنم لیاہوتا کوئی مجھ سانہ دوسراہوتا
ہجرتوں میں پڑاؤ ہوتامیں اورتوکچھ دیر کورکاہوتا
تیرے حجرے کے آس پاس کہیں میں کوئی کچاراستہ ہوتا
بیچ طائف بوقت سنگ زنی تیرےلب پرسجی دعاہوتا
کسی غزوہ میں زخمی ہوکرمیں تیرے قدموں پہ جاگراہوتا
کاش احدمیں شریک ہوسکتا اورباقی نہ پھربچاہوتا
تیری پاکیزہ زندگی کامیں کوئی گمنام واقعہ ہوتا
میں کوئی جنگجوعرب ہوتا جوتیرے سامنے جھکاہوتا
میں بھی ہوتا تراغلام کوئی لاکھ کہتانہ میں رہاہوتا
پوراہوتامیں جلتے صحرامیں اورترے ہاتھ سے لگاہوتا
خاک ہوتامیں تیری گلیوں کی اوترے پاؤں چومتاہوتا
پیڑہوتاکجھورکامیں کوئی جس کاپھل تونے کھالیاہوتا
بچہ ہوتاغریب بیوہ کا سرتری گودمیں چھپاہوتا
رستہ ہوتاترے گزرنے کا اورترارستہ دیکھتاہوتا
بت ہی ہوتامیں خانہ کعبہ میں جوترے ہاتھ سے فناہوتا
مجھ کومالک بناتاغارحسن اورمیرانام بھی حراہوتا

والسلام
جاویداقبال
 

الف نظامی

لائبریرین
سبحان اللہ ، جاوید اقبال بہت خوب، اسی زمین میں ایک نعت ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی لکھی ہے۔

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا​
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا​
دست گیری میری تنہائی میں تو نے ہی تو کی
میں تو مرجاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا​
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا​
میں تجھے عالم اشیا میں بھی پالیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا​
کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا​
مری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارہ تیرا​
ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصے تیرا​
 

الف نظامی

لائبریرین
نسیما جانب بطحا گذر کن

نسیما جانب بطحا گذر کن
ز احوالم محمد را خبر کن​
توئی سلطان عالم یامحمد
ز روئے لطف سوئے من نظر کن​
بہ بر ایں جانِ مشتاقم بہ آنجا
فدائے روضہ خیرالبشر کن​
مشرف گرچہ شد جامی زلطفش
خدایا ایں کرم بارِ دگر کن​
 

الف نظامی

لائبریرین
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم​
پری پیکر نگارے سرو قدے لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم​
رقیباں گوش بر آواز ،او در ناز و من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم​
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم​
اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد و بارک وسلم
 

الف نظامی

لائبریرین
عرش است کمیں پایہ ز ایوانِ محمد

عرش است کمیں پایہ ز ایوانِ محمد
جبریل امیں خادم و دربانِ محمد​
آں ذات خداوند کہ مخفی ست بعالم
پیدا و عیاں است بچشمانِ محمد​
توریت کہ بر موسی و انجیل کہ بر عیسی
شد محو بیک نقطہ فرقانِ محمد​
از بہر شفاعت چہ اولوالعزم چہ مرسل
در حشر زند دست بدامانِ محمد​
یک جان چہ کند سعدی مسکین کہ دو صد جاں
سازیم فدائے سگ دربانِ محمد​
 

الف نظامی

لائبریرین
واہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحا تیرا

واہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا​
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا​
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا​
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کہ صدقہ تیرا​
ایک میں کیا میرے عصیاں کی حقیقت کیسی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا​
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا دیکھیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا​
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا​
 

الف نظامی

لائبریرین
نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں

نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں
لئے ہوئے یہ دل بے قرار ہم بھی ہیں

ہمارے دست تمنا کی لاج بھی رکھنا
ترے فقیروں میں اے شہریار ہم بھی ہیں

تمہاری ایک نگاہ کرم میں سب کچھ ہے
پڑے ہوئے تو سر راہ گذار ہم بھی ہیں

جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعل پاک حضور
تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں

ادھر بھی تو سَنِ اقدس کے دو قدم جلوے
تمہاری راہ میں مشت غبار ہم بھی ہیں

ہماری بگڑی بنی ان کے اختیار میں ہے
سپرد انہیں کے ہیں سب کاروبار ہم بھی ہیں

حسن ! ہے جن کی سخاوت کی دھوم عالم میں
انہیں کے تم بھی ہو اک ریزہ خوار ہم بھی ہیں

حسن رضا بریلوی رحمۃ ‌اللہ علیہ
 

الف نظامی

لائبریرین
دل میں ہو یاد تری گوشہ تنہائی ہو

دل میں ہو یاد تری گوشہ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو​
آستانہ پہ تیرے سر ہو اجل آئی ہو
اور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو​
اس کی قسمت پہ فدا تختِ شہی کی راحت
خاکِ طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو​
آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رسوائی ہو​
یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے
ایسے یکتا کے لئے ایسی ہی یکتائی ہو​
کبھی ایسا نہ ہوا ان کے کرم کے صدقے
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو​
بند جب خواب اجل سے ہوں حسن کی آنکھیں
اس کی نظروں میں ترا جلوہ زیبائی ہو​
 
Top