والیل تھیں زلفیں ، رخِ شہ ماہ مبیں تھا
اللہ غنی میرا نبی کتنا حسیں تھا
جب ماہ و کواکب تھے ، نہ فرشِ زمیں تھا
اس وقت بھی وہ نورِ مبیں ، نورِ مبیں تھا
تسلیم کہ کعبے کا ہر اک نقش حسیں تھا
جب تک وہ نہ آئے تھے یہ عالم بھی نہیں تھا
حائل کوئی پردہ شب معراج نہیں تھا
بندہ حرمِ ناز میں مولا کے قریں تھا
یہ طرفہ تماشا بھی سر عرش بریں تھا
وہ طالب دیدار تھا جو پردہ نشیں تھا
میں ہی درِ دُربار پہ خورسند نہیں تھا
جو حاضرِ دربار تھا ، فرخندہ جبیں تھا
نظروں میں تجلائے رخِ سرور دیں تھا
میں جلوہ در آغوش دمِ باز پسیں تھا
اک روز میں افلاس کے عالم میں حزیں تھا
دیکھا تو ہر اک شعر مرا لعل و نگیں تھا
ہنگامِ حضوری ادب و شوق بہم تھے
طیبہ میں کوئی ہوش سے بیگانہ نہیں تھا
بول اٹھے تھے بوجہل کے مٹھی میں بھی کنکر
یہ واقعہ اعجازِ لبِ سرورِ دیں تھا
گو بدر کے میداں میں تھے بے سروساماں
سرکار کو اللہ کی نصرت پہ یقیں تھا
اے اہل حرم کوئی دعا میرے لیے بھی
میں بھی کبھی آزادِ غمِ دھر یہیں تھا
ہر سمت مدینے میں تھے انوار فروزاں
ہر ذرہ مدینے کا درخشندہ نگیں تھا
ایک ایک نفس مژدہ تھا طیبہ کے سفر میں
ایک ایک قدم منزل معراجِ یقیں تھا
کعبے کو بھی دیکھا تھا بڑے غور سے میں نے
کعبہ بھی مرے شاہ کے جلووں کا امیں تھا
قرآن کا مفہوم ہویدا تھا نبی پر
جبریل تو بس حامل قرآن مبیں تھا
اب بھی مجھے سرکار کی رحمت پہ یقیں ہے
کل بھی مجھے سرکار کی رحمت پہ یقیں تھا
مظہر کہ ہے نعتِ شہ ذی جاہ سے مشہور
اک مردِ کم آمیز تھا ، اک گوشہ نشیں تھا