اگر کسی معاشرے میں بسنے والی اقلیت اپنے آپ کو اپنی شناخت کے اس پہلو (جس نے اسے اقلیت بنایا) کے اعتبار سے تنہا اور vulnerable سمجھے تو اس میں اپنی اس شناخت کے تحفظ کا احساس پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔ یہ احساس رفتہ رفتہ ان کی سیاست اور تہذیب میں نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایم کیو ایم اپنے تاریخی پس منظر میں مہاجروں کی لسانی اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کی دعویدار ہے۔ لہذا مہاجروں میں وہ لوگ جو اپنے آپ کو اپنی زبان ، نسل اور قومیت کے اعتبار سے پاکستان کی دیگر اقوام کے مقابلے پر تنہا اور vulnerable سمجھتے ہیں۔۔ ایم کیو ایم کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ اس میں مذہب یا سیکولرازم کا کوئی عمل دخل نہیں۔
یہ رویہ محض مہاجروں میں منفرد نہیں بلکہ دیگر اقوام میں بھی پایا جاتا ہے۔ مثلا پختونوں میں اے این پی، بلوچوں میں قوم پرستی کی تحریک ، حتی کے پنجابیوں کے بھی ایک گروہ سرائیکوں میں آپ کو یہی رویہ نظر آئے گا۔ ماضی میں انہی خطوط پر بنگالی بھی پاکستان سے الگ ہو چکے ہیں۔
اب اگر آپ یہ پوچھیں کہ سرائیکیوں کے علاوہ دیگر پنجابیوں میں یہ رویہ کیوں نہیں پایا جاتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجابی پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور معاشرے میں ناصرف یہ کہ بہت اکثریت میں ہیں بلکہ بہت پراثر اور بالادست ہیں۔ ان کی پہچان اور اثرورسوخ کو کسی دوسری قوم سے کوئی خطرہ نہیں تو بس اسی لیے پنجابی کلچر، حکومت اور حتی کے پنجابی زبان کے بارے میں کوئی غیر معمولی احساس تحفظ نہیں۔ اسی لیے جب وہ سیاست کی طرف بڑھتے ہیں تو انہیں کسی لسانی اور قومی تحریک کی طرف بڑھنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ کل کو اگر کوئی
Na'vi قوم اکثریت بن کر پاکستان میں نازل ہوگئی تو پنجابیوں میں بھی کسی متحدہ پنجابی موومنٹ کے ابھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
پنجابیوں میں وہ لوگ جو پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک جا بسے اور وہاں کے شہری بن گئے تو وہ بھی وہاں عموما ان جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کو اس نئے ملک میں ان کی شناخت اور مقام کے تحفظ کا یقین دلاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مغرب میں پنجابی سمیت دیگر پاکستانی نژاد بھی عموماً ایسی لبرل پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں جو تارکین وطن اور ملٹی کلچرلزم پر نرم موقف رکھتی ہیں۔
یہی رویہ آپ دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک میں بسنے والی اقلیتوں میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔