خالد محمود چوہدری
محفلین
اس لڑی کو اگر جاری رکھا جائے جس کو جو بھی محاورہ یا اکھان یاد آئے وہ لکھ دے
اکو ای گل اے جی!گل ویلے دی،پھل موسم دا
ایہ گل تے میں تہانوں کئی واری آکھی اے، تسیں پہلوں پچھان نہیں کردے تے پھر ۔۔۔ تھ تھ تھو ۔۔۔ ہاہاہاہاتمے تربوز مُل نئیں ہندے
ایہناں دی تفسیر وی کرو، جناب!101 - آلکسیاں دے پنڈ وکھرے نئیں ہندے۔۔۔۔
102 - آٹے دی بلی بناواں میاؤں کون کرے ۔۔۔۔
103 - آئی موج فقیر دی لائی جھگی نوں اگ
104 - آدمیاں نوں آدمی ملدے نیں تے کھواں نوں کھو
ایہہ میرے تو اپنے محترم ناصر علی مرزا صاب نے ایک جگہ تے شغل لاون واسطے پچھے سن۔۔۔ میرا خیال اے کہ اتلے ساریاں اچ ایہہ شامل نئیں ہے گے۔۔۔۔
سر جی میں انہاں دی تفسیر ہی کیتی سی۔۔۔ پر جے او ایتھے شامل کر دتی تے لوگ مینوں جتیاں نہ مارن لگ پین۔۔۔۔ایہناں دی تفسیر وی کرو، جناب!
جُتیاں پہلے لکو لینا، نا ۔۔ میرا مطلب اے "پرائیویٹ" گلاں ایڈٹ کر کے ایتھے شامل کر دیو۔سر جی میں انہاں دی تفسیر ہی کیتی سی۔۔۔ پر جے او ایتھے شامل کر دتی تے لوگ مینوں جتیاں نہ مارن لگ پین۔۔۔۔
بہت سی ضرب الامثال بہت مماثل تقریبا ًجوں کی توں موجود ہوتے ہیں کئی زبانوں میںچلئے کچھ حصہ میری طرف سے بھی
۔90۔ آپ نہ جیہی گوانڈھ ولانویں
۔91۔ آپ نہ جیہی، گل کرنوں نہ رہی
-92۔ توں کون؟ میں اگل واہنڈی
۔93۔ سبھے ہوئیاں رانیاں، کیہڑی دانے چھٹے
۔94۔ جنی وڈی پگ، اونا اس دا بھار
۔95۔ آنڈے کتے تے کڑکڑ کتے
۔96۔ بکری دُدھ دیندی اے پر مینگناں پا کے
۔97۔ اک مَجھ لِبڑی تے ساریاں لِبڑیاں
۔98۔ مونہوں نکلی تے کوٹھے چڑھی
۔99۔ کھدو دا کیہ پھرولنا
۔100۔ سو ہتھ رسا سر تے گنڈھ
۔۔۔۔۔۔
سر جی ۔۔۔ پرائیویٹ کجھ وی نئیں۔۔۔ او تے پہلوں ای انٹرنیٹ تے پیا اے سب۔۔۔۔۔ جو لکھیا اے۔۔۔ ہنے شامل کر دیندا ۔۔۔۔جُتیاں پہلے لکو لینا، نا ۔۔ میرا مطلب اے "پرائیویٹ" گلاں ایڈٹ کر کے ایتھے شامل کر دیو۔
یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس میں زندگی کی بڑی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔چاہے طنز ہی کی صورت ، کہ سست لوگ بھی دیکھنے میں عام لوگوں جیسے لگتے ہیں۔ جبکہ101 - آلکسیاں دے پنڈ وکھرے نئیں ہندے۔۔۔۔
دھوکا دینا اور دھوکا کھانا انسان کی فطرت ہے۔ ہر دور انسانی میں انسان نے کچھ ایسے ہتھکنڈے ضرور ایجاد کئے رکھے ہیں جس سے وہ معصوم اور بھولے بھالے102 - آٹے دی بلی بناواں میاؤں کون کرے ۔۔۔۔
عملی زندگی میں آپ کا بارہا ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو خوشی ہو یا غم نقصان اپنا ہی کرتے ہیں۔ سیاست کی زبان میں ان کو عوام کہتے ہیں۔ جبکہ کتابی زبان103 - آئی موج فقیر دی لائی جھگی نوں اگ
اپنی طرف سے اس محاورے میں بہت ہی بڑا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ تمام کتابی104 - آدمیاں نوں آدمی ملدے نیں تے کھواں نوں کھو
مینوں ایہ تے اندازہ سی بھئی تسیں پہنچے ہوئے بزرگ او، ایہ اندازہ بالکل نہیں سی بھئی تسیں پہنچیاں والے بزرگ او۔ ہاہاہاہا۔یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس میں زندگی کی بڑی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔چاہے طنز ہی کی صورت ، کہ سست لوگ بھی دیکھنے میں عام لوگوں جیسے لگتے ہیں۔ جبکہ
سب جانتے ہیں کہ یہ چنے ہوئے افراد ہوتے ہیں۔ جو کہ کسی بھی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ سست اور کاہل لوگ سدا سے دوسروں کے لئے باعث حسد و رشک
رہے ہیں۔ لوگ چاہ کر بھی سستی نہیں کر پاتے۔ کیوں کہ اس کے لئے جس حوصلہ برداشت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے عموماً وہ بہت کم لوگوں میں پائی جاتی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا جب جب کسی آلکسی سے آشنا ہوتی ہے اس کو سمجھتی ہے شاید یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہے۔ وگرنہ اس قدر حوصلہ ہمت و برداشت اللہ
اللہ۔۔۔ "یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔" دوسری طرف وہ لوگ جو اپنی برق رفتاری پر نازاں ہوتے ہیں وہ اس مصرعہ کی صورت "پہلے تھے تیزروی پر نازاں اب
منزل پر تنہا ہیں" خود کو محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ سچا آلکسی کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ کاررواں کے اس معتبر اور ذمہ دار شخص کی طرح ہوتا ہے جو کہ
پیچھے پیچھے آتا کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہو اور اپنی برق رفتاری میں کچھ عوامل کو نظرانداز کر گیا ہو تو اس کو احساس دلا سکے۔ لیکن بےلوث خدمت کے جذبے کو
دنیا کہاں سمجھتی ہے۔ امتیازی سلوک کر کے ہر قدم پر ان کو احساس دلاتی ہے کہ تم سست ہو۔ اور یہ بھول جاتی ہے کہ دنیا تو وجود ہی سستوں سے ہے۔ کیا ایک تیز
رفتار مکھی ایک کچھوے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ کہاں کچھوے کی عمر رواں، کہاں سمندر سمندر خشکی خشکی کے تجربات اور کہاں چند دنوں کی ایک زندگی جس کا ہر
کام بنا سوچے عجلت میں۔
ہمارے ایک محترم دوست کا فرمانا ہے کہ کیا دنیا میں کاہلی سے بڑا بھی کوئی سچ ہے۔ حضور کی اس بات سے ہم اسقدر متاثر ہوئے تھے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم
ایک کوچہ آلکساں کی بنیاد رکھیں گے۔جو کہ عرصہ پہلے ہم نے رکھ بھی دی تھی۔ اور اس محاورے کو غلط ثابت کریں گے۔ دنیا کو بتائیں گے کہ ہر آدمی سست
نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ آپ کے درمیان رہتا ہے۔ تو قدر کیجیے کہ بجائے اس کے وہ کوچہ آلکساں میں جابسے اور تمہاری بستیاں محض عجلت کی تصویر بن کر رہ جائیں۔
اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ عجلت کن لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
دھوکا دینا اور دھوکا کھانا انسان کی فطرت ہے۔ ہر دور انسانی میں انسان نے کچھ ایسے ہتھکنڈے ضرور ایجاد کئے رکھے ہیں جس سے وہ معصوم اور بھولے بھالے
لوگوں کو بیوقوف بنا سکے۔ درج بالا محاورہ بھی ایک ایسے ہی دور کی ایجاد ہے جب انسانی عقل شعور کے کچھ مراحل طے کر چکی تھی۔ اور لوگ ظاہراً ہر بات دیکھ
کر اس پر یقین نہ کیا کرتے تھے۔ بلکہ اس کے دیگر عوامل کے بارے میں سوالات کر لیا کرتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب نقادی کے فن نے زور پکڑا اور ہر قسم کے
کام کے لئے اس کے کچھ اصول وضع کر لئے گئے تھے۔
جس دور میں محاورہ ایجاد ہوا اس دور میں ٹھگی بہت عروج پر تھی۔ اور لوگ بہت ہی چھوٹی سی چیز کو بھی بڑی بتا کر عوام کو ٹھگ لیا کرتے تھے۔ لیکن محاورہ بنانے
والے کے ذہن کے پاس سے بھی یہ بات نہ گزری کہ بلی گونگی بھی ہو سکتی ہے۔ بعد کے لوگوں نے جب گونگی بلیوں پر تحقیق کی تو اس کے بعد سے اس محاورے
کی شہرت میں خاطر خواہ کمی آئی۔ چونکہ یہ محاورہ ٹھگی کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے کے لئے بنایا گیا تھا کہ جب کچھ دھوکے کا کام کرو تو اس کے بنیادی
لوازمات پورے کر لو۔ اور اس کا اطلاق عہد حاضر کی جدید ٹھگیوں پر نہیں ہوتا۔ جہاں پر ایک بات پر لوگ تیس تیس سال ایک ہی جماعت کو حکمران رکھتے
ہیں۔ جبکہ نہ اس کے پاس بلی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ میاؤں کرتی ہے۔
عملی زندگی میں آپ کا بارہا ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو خوشی ہو یا غم نقصان اپنا ہی کرتے ہیں۔ سیاست کی زبان میں ان کو عوام کہتے ہیں۔ جبکہ کتابی زبان
میں اس کو موج میں آیا فقیر کہتے ہیں۔ دونوں صورت میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ عوام قرض و امداد کے ٹکڑوں پر پلتی ہے اور فقیر ان ٹکڑوں پر پلنے والوں کے
ٹکڑوں پر۔ لہذا دونوں جب خوش ہوں تو ایک ہوائی فائرنگ کر کر کے آتش بازی کر کر کے اپنے ہی گھر جلا لیتا ہے۔ دوسرا جس کے پاس کچھ خریدنے کو نہیں ہوتا
وہ کہیں سے ماچس خرید کر آتش بازی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ گھاس پھونس ہی تو ہے دوبارہ جمع کر لوں گا۔ قصہ مختصر یہ ایک انتہائی عملی محاورہ ہے۔جس میں
ہمارے معاشرتی رویوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔
اپنی طرف سے اس محاورے میں بہت ہی بڑا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ تمام کتابی
باتیں ہیں۔ بعض لوگ ساری عمر دھوکا دیتے ہیں اور پھر بھی وہ بیچارے جلاوطنی کی زندگی کے نام پر ہیرو رہتے ہیں۔کچھ بیویوں کے مقروض رہتے ہیں جبکہ ان کی
بیوی کا کوئی کاروبار ہی نہیں ہوتا۔ بعض بیچارے اتنے غریب ہوتے ہیں کہ اپنے ملک میں مساجد میں بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن کاروبار باہر کے ممالک میں کرتے ہیں
تاکہ اس ملک میں تبدیلی کا عمل شروع ہو سکے۔ اور تمام "آدمی" ان کنووں سے پانی نکلنے کی آس میں ان کے اردگرد جمع رہتے ہیں۔ الغرض یہ ایک ایسا بیکار
محاورہ ہے۔ جس کی عملی مثالیں عہد حاضر میں ڈھونڈنا بہت ہی مشکل ہے۔
محمد یعقوب آسی سر۔۔۔
یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس میں زندگی کی بڑی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔چاہے طنز ہی کی صورت ، کہ سست لوگ بھی دیکھنے میں عام لوگوں جیسے لگتے ہیں۔ جبکہ
سب جانتے ہیں کہ یہ چنے ہوئے افراد ہوتے ہیں۔ جو کہ کسی بھی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ سست اور کاہل لوگ سدا سے دوسروں کے لئے باعث حسد و رشک
رہے ہیں۔ لوگ چاہ کر بھی سستی نہیں کر پاتے۔ کیوں کہ اس کے لئے جس حوصلہ برداشت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے عموماً وہ بہت کم لوگوں میں پائی جاتی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا جب جب کسی آلکسی سے آشنا ہوتی ہے اس کو سمجھتی ہے شاید یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہے۔ وگرنہ اس قدر حوصلہ ہمت و برداشت اللہ
اللہ۔۔۔ "یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔" دوسری طرف وہ لوگ جو اپنی برق رفتاری پر نازاں ہوتے ہیں وہ اس مصرعہ کی صورت "پہلے تھے تیزروی پر نازاں اب
منزل پر تنہا ہیں" خود کو محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ سچا آلکسی کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ کاررواں کے اس معتبر اور ذمہ دار شخص کی طرح ہوتا ہے جو کہ
پیچھے پیچھے آتا کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہو اور اپنی برق رفتاری میں کچھ عوامل کو نظرانداز کر گیا ہو تو اس کو احساس دلا سکے۔ لیکن بےلوث خدمت کے جذبے کو
دنیا کہاں سمجھتی ہے۔ امتیازی سلوک کر کے ہر قدم پر ان کو احساس دلاتی ہے کہ تم سست ہو۔ اور یہ بھول جاتی ہے کہ دنیا تو وجود ہی سستوں سے ہے۔ کیا ایک تیز
رفتار مکھی ایک کچھوے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ کہاں کچھوے کی عمر رواں، کہاں سمندر سمندر خشکی خشکی کے تجربات اور کہاں چند دنوں کی ایک زندگی جس کا ہر
کام بنا سوچے عجلت میں۔
ہمارے ایک محترم دوست کا فرمانا ہے کہ کیا دنیا میں کاہلی سے بڑا بھی کوئی سچ ہے۔ حضور کی اس بات سے ہم اسقدر متاثر ہوئے تھے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم
ایک کوچہ آلکساں کی بنیاد رکھیں گے۔جو کہ عرصہ پہلے ہم نے رکھ بھی دی تھی۔ اور اس محاورے کو غلط ثابت کریں گے۔ دنیا کو بتائیں گے کہ ہر آدمی سست
نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ آپ کے درمیان رہتا ہے۔ تو قدر کیجیے کہ بجائے اس کے وہ کوچہ آلکساں میں جابسے اور تمہاری بستیاں محض عجلت کی تصویر بن کر رہ جائیں۔
اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ عجلت کن لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
دھوکا دینا اور دھوکا کھانا انسان کی فطرت ہے۔ ہر دور انسانی میں انسان نے کچھ ایسے ہتھکنڈے ضرور ایجاد کئے رکھے ہیں جس سے وہ معصوم اور بھولے بھالے
لوگوں کو بیوقوف بنا سکے۔ درج بالا محاورہ بھی ایک ایسے ہی دور کی ایجاد ہے جب انسانی عقل شعور کے کچھ مراحل طے کر چکی تھی۔ اور لوگ ظاہراً ہر بات دیکھ
کر اس پر یقین نہ کیا کرتے تھے۔ بلکہ اس کے دیگر عوامل کے بارے میں سوالات کر لیا کرتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب نقادی کے فن نے زور پکڑا اور ہر قسم کے
کام کے لئے اس کے کچھ اصول وضع کر لئے گئے تھے۔
جس دور میں محاورہ ایجاد ہوا اس دور میں ٹھگی بہت عروج پر تھی۔ اور لوگ بہت ہی چھوٹی سی چیز کو بھی بڑی بتا کر عوام کو ٹھگ لیا کرتے تھے۔ لیکن محاورہ بنانے
والے کے ذہن کے پاس سے بھی یہ بات نہ گزری کہ بلی گونگی بھی ہو سکتی ہے۔ بعد کے لوگوں نے جب گونگی بلیوں پر تحقیق کی تو اس کے بعد سے اس محاورے
کی شہرت میں خاطر خواہ کمی آئی۔ چونکہ یہ محاورہ ٹھگی کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے کے لئے بنایا گیا تھا کہ جب کچھ دھوکے کا کام کرو تو اس کے بنیادی
لوازمات پورے کر لو۔ اور اس کا اطلاق عہد حاضر کی جدید ٹھگیوں پر نہیں ہوتا۔ جہاں پر ایک بات پر لوگ تیس تیس سال ایک ہی جماعت کو حکمران رکھتے
ہیں۔ جبکہ نہ اس کے پاس بلی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ میاؤں کرتی ہے۔
عملی زندگی میں آپ کا بارہا ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو خوشی ہو یا غم نقصان اپنا ہی کرتے ہیں۔ سیاست کی زبان میں ان کو عوام کہتے ہیں۔ جبکہ کتابی زبان
میں اس کو موج میں آیا فقیر کہتے ہیں۔ دونوں صورت میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ عوام قرض و امداد کے ٹکڑوں پر پلتی ہے اور فقیر ان ٹکڑوں پر پلنے والوں کے
ٹکڑوں پر۔ لہذا دونوں جب خوش ہوں تو ایک ہوائی فائرنگ کر کر کے آتش بازی کر کر کے اپنے ہی گھر جلا لیتا ہے۔ دوسرا جس کے پاس کچھ خریدنے کو نہیں ہوتا
وہ کہیں سے ماچس خرید کر آتش بازی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ گھاس پھونس ہی تو ہے دوبارہ جمع کر لوں گا۔ قصہ مختصر یہ ایک انتہائی عملی محاورہ ہے۔جس میں
ہمارے معاشرتی رویوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔
اپنی طرف سے اس محاورے میں بہت ہی بڑا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ تمام کتابی
باتیں ہیں۔ بعض لوگ ساری عمر دھوکا دیتے ہیں اور پھر بھی وہ بیچارے جلاوطنی کی زندگی کے نام پر ہیرو رہتے ہیں۔کچھ بیویوں کے مقروض رہتے ہیں جبکہ ان کی
بیوی کا کوئی کاروبار ہی نہیں ہوتا۔ بعض بیچارے اتنے غریب ہوتے ہیں کہ اپنے ملک میں مساجد میں بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن کاروبار باہر کے ممالک میں کرتے ہیں
تاکہ اس ملک میں تبدیلی کا عمل شروع ہو سکے۔ اور تمام "آدمی" ان کنووں سے پانی نکلنے کی آس میں ان کے اردگرد جمع رہتے ہیں۔ الغرض یہ ایک ایسا بیکار
محاورہ ہے۔ جس کی عملی مثالیں عہد حاضر میں ڈھونڈنا بہت ہی مشکل ہے۔
محمد یعقوب آسی سر۔۔۔
ہاہاہاہااا۔۔۔ سر جی شکریہ۔۔۔۔مینوں ایہ تے اندازہ سی بھئی تسیں پہنچے ہوئے بزرگ او، ایہ اندازہ بالکل نہیں سی بھئی تسیں پہنچیاں والے بزرگ او۔ ہاہاہاہا۔
گل بنانا کوئی تہاڈے توں سکھے! پر، اک گل رہ گئی! نہیں، رہی نہیں! شاباش تہاڈا اصلی تے کھرا حق بندا اے۔
تہاڈی آلکسی والے محاورے توں ۔۔۔ نہیں، نہیں، نہیں! تہاڈے آلکسی والے محاورے توں اک لطیفہ یاد آیا۔
اک تھاں آلکسی دا مقابلہ رکھیا گیا، چنگے بھلے بھارے انعام دا اعلان کیتا گیا، کئی لوگ آئے وی، مقابلہ وی ہوئیا، پر انعام اصل حق دار نوں نہیں ملیا۔
کیوں جے اوس نوں کسے نے مقابلے دے بارے دسیا تے اوہ کہن لگا: ’’چھڈ یار، کون جاوے مقابلے وچ!‘‘
۔۔۔۔
نیرنگ خیال ۔۔
سر آپ کی محبت ہے۔
میرا خیال ہے آپ کو اپنے تخیل کی پرواز،تخیلیقی صلاحیت کا خود بھی اندازہ نہیں ہے، یہ بہت ہی شاندار ہے
ایہ امام دین المعروف "استاد مام دین" دے وڈے بھرا نیں؟ انعام دین!ہاہاہاہااا۔۔۔ سر جی شکریہ۔۔۔۔
سر جی ایسے واسطے اسی اپنا کوچہ محفل اچ ای لایا ہویا اے۔۔۔۔۔ انعام دین والے اوتھے ای آجان۔۔۔۔