ایچ اے خان
معطل
میں اس خبر سے متفق نہیں
میرا نہیں خیال کہ یہ کام براہ راست شہباز کا ہے۔ یہ خبرمحض پروپیگنڈا ہے
البتہ اگر نجم سیٹھی اگیا تو یہ کام ضرور ہوگا۔
میں نے تو اخبار کی خبر لگائی ہےمیں اس خبر سے متفق نہیں
میرا نہیں خیال کہ یہ کام براہ راست شہباز کا ہے۔ یہ خبرمحض پروپیگنڈا ہے
البتہ اگر نجم سیٹھی اگیا تو یہ کام ضرور ہوگا۔
بھارتی شاعر والی بات غلط ہے باقی سب ٹھیک کیا ہے اسلام کو ہر چیز مین کھسییڑ کر انجام دیکھ تو لیا کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے بھی متشدد اور بیمار ذہنیت بن گئے اسلام کو صرف اسلامیات میں رکھا جائے وہ بھی اختیاری مضمون ہو ۔
میں نے دسویں میں اقبال اور شبلی کو ہی پڑھا ہے اگر ہماری نئی نسل کو ان کا کوئی فایدہ نہیں تو اس میں اقبال اور شبلی کا قصور نہیں قصور ہمارا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی صحیح تربیت نہیں کر رہے
اللہ کریم آپ کو اسلام سے بچائے رکھے! آمین!
آسی صاحب۔ پریشان نہ ہوں۔۔۔ صبح کا بھُولا شام کو گھر لوٹ آئے گا۔۔۔
سمجھ سے باہر ہے اس قسم کی تبدیلیاں ۔
جو مضامین نکالے گئے ،ان میں کونسا تشدد اور غلط بات تھی ، کیا اس کی تشریح کوئی کرے گا؟
علامہ اقبال کی شاعری اور حالی کی شاعری اگر اردو سے نکالیں گے تو بچوں کو اردو کی کونسی شاعری پڑھائیں گے۔
میر درد کی شاعری نکالی گئی ، وہ تو ویسے ہی صوفیانہ شاعری تھی اور اس جیسے استاد کی شاعری نکال کر کس کی شاعری شامل کی گئی۔
آخر میں غالب کی شاعری پر بھی ضرب یعنی کمال ہی ہو گیا ، اب غالب کونسے اسلام کا درس دے رہا تھا اور کس تشدد کا پرچار غالب کی غزلوں میں تھا اور کیا کوئی ہوش و حواس میں غالب اور اقبال کی شاعری نکال کر کسی اور اردو شاعر کی شاعری شامل کرکے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اردو کے نصاب کو بہتر کرنے میں کامیاب رہا۔
اردو کی کتاب کا مواد دیکھیں تو اس میں کئی ابواب ہیں ، اس کے حصے کر لیں اور پھر دیکھ لیں کہ مذہب پر کتنے مضامین ہیں اور سماجی اور دوسرے موضوعات پر کتنے اور پھر یہ شکوہ کریں کہ بہت زیادہ مذہب سے پر کتاب تھی جسے متوازن کرنا ضروری تھا۔
یہ مضمون انصار عباسی نے تحریر کیا ہے اور یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔ انصار عباسی کے آرٹیکلز میں ہمیشہ مرچ مسالہ لگا ہوتا ہے۔ اس لئے You should take it with a pinch of salt
میں انصار عباسی کے آرٹیکل کی بات نہیں کر رہا ہوں کیونکہ اس میں شاید غالب کی غزلوں کے نکالنے کا بیان نہیں ہے۔
دوسرا نصاب میں تدوین کو شفاف طریقہ سے کرنا چاہیے اور اسے ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے۔
بلکل بجا ارشاد فرمایا آپ نے یہ سب کچھ پڑھا کر ہم نے صرف زرداری، پرویز مشرف، حسین حقانی جیسے لوگ ہی پائے؟ اجی حضرت ہم آج جہاں کھڑے ہیں اس کی وجہ یہ اسلامی تاریخ سے نابلد لوگ ہیں ۔۔ اگر قلمی جہاد اور غزوات پڑھے ہوئے لوگ کچھ کر تے ہوتے آج ہم بہت بہتر حالت میں ہوتے۔۔۔زیادہ مطالعہ کرنا بھی مضر صحت ہوتا ہے بچوں کو جہاد جنگ و جدل خونی ابواب مت پڑھائیں یہ کسا راکٹ سائنس ہے؟ تلواریں سر قلم جہاد غزوات کے قصے اسلام کے پھیلاؤ کی جنگیں جنوبی ایشیا پر اسلامی فاتحین کے حملے یہ سب کچے زہنوں کو پڑھا کر ہم نے کیا پایا ؟کیا ایجاد کیا ؟ آج ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں ؟
آپ شاید تاریخ، جغرافیے اور سیاست کے بارے میں بنیادی باتوں سے ہی ناواقف ہیں اس لئے پتہ نہیں کیا الٹی سیدھی ہانکنے لگ گئے ہیں۔ جناب، بات ریاستوں کی ہورہی ہے اور خاص طور پر مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی ریاستوں کی تو اس میں غاروں کا دور کہاں سے آگیا؟معلوم شدہ تاریخ سے ہمیں کیا لینا دینا؟ ہم اکیسوی صدی میں رہتے ہیں یا کہ غاروں کے دور میں؟
اوپر میں نے نظام تعلیم سے متعلق جتنی بھی باتیں کی ہیں ان کا تعلق موجودہ عہد سے ہی ہے۔ آپ شاید بھول گئے ہیں کہ جدید تاریخ میں مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی تینوں ریاستوں کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ظاہری بات ہے کہ جس عہد میں ہم رہ رہے ہیں تعلیمی نظام بھی اسی عہد کا ہوگا اور اسی تعلیمی نظام کی ہم بات کریں گے۔ اگر آپ کو ایسے ممالک معلوم ہیں جدید دنیا میں جو مذہب کے نام پر بنے ہوں تو ان کی نشاندہی کیجئے۔ ظاہری بات ہے کی ان کی نشاندہی نہیں کر سکیں گے، تو آپ کی دلیل کی عمارت فوراً ہی ڈھے جائے گی۔
اب بات کا رخ بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ جب میں نے بہت واضح الفاظ میں نشاندہی کی ہے کہ وہاں پر اسلامیات ٹائپ کا کوئی مضمون ہی نہیں ہے اور وۃان پر تمام بڑے مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ دلیل ہی کافی ہونی چاہیے تھی۔
یہ تھیوریز کس سطح پر پڑھائی جاتی ہیں؟ کیا یہ لازمی مضامین کا حصہ ہیں؟خیر میں ایک اور مثال بھی پیش کر دیتا ہوں تاکہ آپ کی اچھ طرح سے تسلی ہو جائے۔ امریکہ کی اکثریت عیسائی ہیں اور امریکہ کی عوام کی اکثریت ڈارون کی تھیوری کو نہیں مانتی۔ صدر بش نے کوشش کی تھی کہ ایک اور تھیوری جس کی بنیاد مذہب ہے، جس کا نام ہے "intelligent design" وہ بھی ڈارون کی تھیوری کیساتھ پڑھائی جائے۔ لیکن تعلیم سے متعلق لوگوں نے ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اب امریکہ میں ایسی تھیوری پڑھائی جاتی ہے جس پر اکثر عوام کا یقین ہی نہیں ہے۔
آپ شاید جوشِ خطابت میں یہ بھول گئے ہیں کہ میں اب بھی وہی بات کررہا ہوں جو میں پہلے بار بار کہہ چکا ہوں کہ دنیا کے ہر ملک میں اسکول کی سطح کا نصاب وہاں کے عوام کی غالب اکثریت کے نظریات کے مطابق ہی بنایا جاتا ہے۔ اب یہاں میری بات کا حوالہ دے کر آپ میری بات کی حقانیت کو خود ہی تسلیم کررہے ہیں۔بحرحال کوشش اچھی تھی۔ جب خود سے کچھ نہ بن پڑے تو ثبوت کا ملبہ اگلے پر ڈال دو جب کہ خود آپ کی تحریر بہت واضح الفاظ میں کہہ رہی ہے:
دنیا کے ہر ملک میں نصاب وہاں کے باسیوں کے مذہبی و معاشرتی رویوں کے رنگوں میں گندھا ہوا ہوتا ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں جہاں نوے فیصد سے زائد لوگ اسلام سے وابستگی کے دعویدار ہیں وہاں اس بات کو بحث کا موضوع بنادینا محض اس ملک کو غیرمستحکم کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ کہاں لکھا ہے کہ صحافی کے طور پر کام کرنے والا شخص خطیب اور استاد نہیں ہوسکتا؟کبھی آپ صحافی بن جاتے ہیں، کبھی خطیب اور کبھی استاد۔ (ویسے اگر میرا مشورہ مانیں تو خطیب اور کنوئیں کے مینڈک میں سے کسی کا انتخاب کر سکتے ہیں )
میں خود پاکستان کی ٹاپ کی انجنئرنگ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوں تو مجھے بھی نصاب وغیرہ کی شد بد ہے۔ لیکن اس سے میری دلیل میں کوئی وزن پیدا نہیں ہوتا۔
ہاہاہاہا
اگر انصار عباسی کی بات مان لیں تو پھر ہمیں یقین کرنا پڑے گا کی اسلام کی اور پاکستان کی اسلامی بنیادیں نہایت ہی کھوکھلی اور متزلزل ہیں جن کا کل دارومدار میٹرک میں پڑھائے جانے والے چند اسباق پر ہے؟
ظاہری بات ہے کہ اسلام آج ایک ارب سے زیادہ آبادی کا مذہب ہے۔ اور یہ 1400 سال پہلے چند ہزار لوگوں سے شروع ہوا۔ اور اس کی تعلیمات میں اتنی جان ہے کہ یہ آئندہ بھی برقرار رہ سکے۔ تو اسلام کی بنیادیں تو چند اسباق سے متزلزل نہیں ہو سکتیں۔ ہاں ان لوگوں کی ضرور ہو سکتی ہیں جو اسلام کے نام پر اپنے کاروبار چلاتے ہیں اور اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کی ہوئی ہیں۔
Professor Syed Qamar Abbas, Department of History, Punjab University,1. Lahore.2. Sabir Afaqi, Professor of Pakistan Studies (retd), University of Azad Jammu andKashmir, Muzaffarabad3. Hajra Ahmad, Principal, Khaldunia High School, Islamabad4. Dr. Syed Jaffar Ahmed, Professor, Pakistan Studies Centre, University of Karachi,Karachi5. Dr. Khalil Ahmed, Department of Philosophy, Government College of Education, Lahore6. Dr. Anis Alam, Professor of Physics, Punjab University, Lahore7. Mohsin Babbar, Sustainable Development Policy Institute, Diplomatic Enclave,Islamabad.8. Kalpana Devi, Advocate, Mohallah Jarral Shah, Larkana9. Sibte Hasan, formerly with the Punjab Textbook Board, Lahore as author and editor oftextbooks.10. Dr. Khurshid Hasanain, Professor of Physics, Quaid-i-Azam University, Islamabad11. Neelam Hussain, Simorgh, Lahore12. Ayesha Inayat, Sustainable Development Policy Institute, Diplomatic Enclave,Islamabad.13. Dr. Sarfraz Khan, Professor, Area Studies Centre, University of Peshawar, Peshawar14. Arfana Mallah: ASR, Khurram Square, Saddar, Hyderabad.15. Aamna Mattu, Sustainable Development Policy Institute, Diplomatic Enclave,Islamabad.16. Fatima Mujtaba, Beaconhouse School, Islamabad17. Haroon Nasir, Christian Study Centre, Murree Road, Rawalpindi.18. Tahira Naqvi, Beaconhouse School, Islamabad19. Dr. A. H. Nayyar, Research Fellow, Sustainable Development Policy Institute,Islamabad.20. Dr. M. Pervez, Professor, National Institute of Psychology, Quaid-i-Azam University,Islamabad.21. Dr. Seema Pervez, Professor, National Institute of Psychology, Quaid-i-AzamUniversity, Islamabad.22. Dr. Tariq Rahman, Professor of Linguistics, National Institute of Pakistan Studies,Quaid-i-Azam University, Islamabad.23. Professor Bahadur Khan Rodani, Director, Pakistan Studies Centre, BalochistanUniversity, Quetta; former Vice-Chancellor, Balochistan University, Quetta24. Mahboob Sada, Director, Christian Study Centre, Murree Road, Rawalpindi.25. Dr. Zarina Salamat, Retired Historian from National Institute of Historical and CulturalResearch, Islamabad.26. Ahmed Salim, Director Urdu Publications, Sustainable Development Policy Institute,Islamabad27. Dr. Rubina Saigol, Private Consultant, Gender, Human Rights and Education, formerlywith Society for the Advancement of Education, Lahore28. Prem Shevani: THARDEEP, 58-B, PECHS, Karachi29. Nadeem Omar Tarar, Assistant Professor, National College of the Arts, Lahore
آپ سے یہی توقع تھی (اور بہت شکریہ اس توقع پر پورا اترنے کے لئے)۔پاکستانی educationalists اور academics نے پاکستانی نصاب کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے: رپورٹ کا لنک
اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فزکس اور آرٹس کے پروفیسر بھی شامل ہیں۔ تو یہ ان لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ صرف دسویں اور بارہیوں کے استاد ہی نصاب کے بارے میں جانتے ہیں۔