پنجاب حکومت نے دسویں جماعت کے کورس سے اسلام کے اسباق نکال دئیے

سید ذیشان

محفلین
فی الوقت برصغیر میں مذہبی تعلیم کا ذریعہ اردو ہے
یہ زبان پاکستان، انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال، برما، سری لنکا کے علاوہ بہت سے یورپی اور امریکی مدارس کی اکثریت میں بھی دینی تعلیم کے لیے استعمال ہوتی ہے
فارسی دوسری اقوام کے لیے ریلونٹ ہوگی ۔
ہمارے لیے اردو ہے

اسلامیات کی کتاب غالباً اردو میں ہی پڑھائی جاتی ہے۔ اب جو درس آپ اسلامیات کی کتاب میں شامل کر سکتے ہو ان کو اردو کی کتاب میں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کل کو آپ سائنس بھی سعودی طرز کی پڑھانا شروع کر دو گے تو یہ بھی قابل قبول ہونا چاہیے کیونکہ یہ دنیا آخرکار خدا نے ہی بنائی ہے اور سائنس بھی اسی نے بنائی ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
آپ نے کونسے ممالک کا نصاب دیکھا ہے جو ایسی باتیں کر رہے ہیں؟ اور ویسے بھی پوری دنیا میں مذہب کے نام پر بنائے جانے والے دو یا تین ممالک ہیں (پاکستان، اسرائیل اور ایران)۔
مغرب میں غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے لیکن ان کے نصاب میں عیسائیت کا کوئی مضمون نہیں ہے۔ ایک مضمون ہے جس کو comparative religions کہتے ہیں جس میں تمام بڑے مذاہب کی تعلیمات سے آگاہ کیا جاتا ہے (جی ہاں، عیسائی بچوں کو اسلام پڑھایا جاتا ہے!)

اگر کوئی مینڈک کوئیں میں رہنا چاہتا ہے تو ہم اس کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اس سے باہر نکلے۔
میاں جی، اگر آپ کنوئیں سے نکلے ہوتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ پاکستان، اسرائیل اور ایران تو جدید تاریخ میں مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاستیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ معلوم شدہ تاریخ میں صرف یہ تین ریاستیں ہی ہیں جو مذہب کے نام پر قائم ہوئیں؟
مغرب میں اگر غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے تو ذرا وہاں اسکول کی سطح پر اس غالب اکثریت کے فکری رجحانات کے خلاف پڑھائے جانے والے کسی ایک مضمون کی نشاندہی تو کی کیجئے۔
آپ کی اطلاع کے لئے بتاتا چلوں کہ میرا تعلق شعبہء تعلیم سے ہی ہے اور آپ نے تو شاید آج زندگی میں پہلی بار نصاب پر بحث کی ہوگی یا اس بارے میں کچھ سنا ہوگا، میرا یہ روزانہ کا کام ہے۔
 
اسلامیات کی کتاب غالباً اردو میں ہی پڑھائی جاتی ہے۔ اب جو درس آپ اسلامیات کی کتاب میں شامل کر سکتے ہو ان کو اردو کی کتاب میں شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کل کو آپ سائنس بھی سعودی طرز کی پڑھانا شروع کر دو گے تو یہ بھی قابل قبول ہونا چاہیے کیونکہ یہ دنیا آخرکار خدا نے ہی بنائی ہے اور سائنس بھی اسی نے بنائی ہے۔

سعودی کے بجائے اسلامی کرلیں تو بہت درست بات ہوگی
 
میاں جی، اگر آپ کنوئیں سے نکلے ہوتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ پاکستان، اسرائیل اور ایران تو جدید تاریخ میں مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاستیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ معلوم شدہ تاریخ میں صرف یہ تین ریاستیں ہی ہیں جو مذہب کے نام پر قائم ہوئیں؟
مغرب میں اگر غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے تو ذرا وہاں اسکول کی سطح پر اس غالب اکثریت کے فکری رجحانات کے خلاف پڑھائے جانے والے کسی ایک مضمون کی نشاندہی تو کی کیجئے۔
آپ کی اطلاع کے لئے بتاتا چلوں کہ میرا تعلق شعبہء تعلیم سے ہی ہے اور آپ نے تو شاید آج زندگی میں پہلی بار نصاب پر بحث کی ہوگی یا اس بارے میں کچھ سنا ہوگا، میرا یہ روزانہ کا کام ہے۔

ایران قطعی مذہب پر قائم نہیں ہوا۔ یہ بہت پرانا تاریخی ملک ہے
 

ساجد

محفلین
کبھی کسی نے یہ تعین کیا کہ زبان کا تعلق ثقافت سے ہوتا ہے یا مذہب سے؟۔ اور مذہب کو زبان سے جوڑنے والے صرف دو دن قبل محفل پر ہی اس بات پر اڑے ہوئے تھے کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تب بھی میں حیران ہوا تھا کہ صرف مخالفت برائے مخالفت میں یہ ایسی بات کا اقرار کر گئے جو عام حالات میں ان کو تسلیم نہیں ہوتی ۔
زبان کا تعلق ثقافت سے ہوتا ہے مذہب سے نہیں ۔ ایک ہی دھرتی پر بسنے والوں کا مذہب ایک نہیں ہوتا لیکن زبان اور ثقافت ایک ہوتی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہ چودہ سو سال کی بات کہاں سے آگئی درمیان میں اور فارسی زبان جس کا حوالہ آپ نے دیا تھا اس کا چودہ سو سال سے کیا لینا دینا ہے؟

شائد آپ کو سمجھ نہیں آئی۔ تو میں سمری پیش کر دیتا ہوں۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ اسلام کی زبان اردو ہے، جس پر میں نے اعتراز کیا کہ اگر کسی زبان کو اسلامی کہا جا سکتا ہے (میرے مطابق تو کسی زبان کا مذہب نہیں ہوتا) تو وہ عربی ہوگی۔ تو صاحب نے فرمایا کہ دوسرے نمبر پر اردو ہے۔ میں نے کہا کہ فارسی کو آپ کھا گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کے پھیلنے کے بعد کافی علماء کا تعلق ایران یا ان علاقوں سے تھا جہاں فارسی رائج تھی، برصغیر میں بھی فارسی ہی سرکاری زبان تھی۔ تو اکثر پرانی کتب جو آپ کو میسر آئیں گی وہ فارسی میں تحریر ہوں گی۔ تو اگر کوئی زبان اسلامی زبان کہلائی جا سکتی ہے تو وہ عربی یا فارسی ہوگی نہ کہ اردو۔
 

طالوت

محفلین
پاکستان کے تعلیمی نصاب میں بنیادی تبدیلیوں کی تو بلاشبہ ضرورت ہے ۔ اور اسلامی مضامین کو اسلامیات تک محدود کر دینے میں بھی کچھ حرج نہیں مگر پھر اردو کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی اسے اختیاری ہونا چاہیے کہ جس کا چاہے شعر و ادب پڑھے جو نہ چاہے تو نہ پڑھے۔ کہ اسے بطور زبان پڑھا جانا چاہیے۔
باقی اسلام کی آفاقی سچائی کا ڈھنڈورا تو ہر جگہ پیٹا جاتا ہے مگر اس آفاقی سچائی کی برکات باوجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں اور ساٹھ کے قریب مسلم اکثریت ملکوں میں کہین نظر نہیں آتی اور اس کے جواب میں دلیل بھی بہت اچھی ہے کہ یہ اسلام کا قصور نہیں ، اس کے ماننے والے نالائق ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس نالائقی کی وجہ محض اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونا تو نہیں ہو سکتیں ، کہ اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ "پریکٹس" کیا جانے والا مذہب ، مذہب اسلام ہی ہے ۔ یقینا وجہ وہ تعلیمات بھی ہیں جنھوں نے اسلام کو دین سے مذہب کی صورت دی اور دنیا کا چوتھا حصہ ذلیل و خوار اور باہم دست و گریباں ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
بحث نصاب کی تشکیل سے متعلق تھی اور چل نکلی ہے مذہب اور زبان و ثقافت کے جھگڑوں کی طرف۔ اب آگے اللہ خیر ہی کرے۔
 

عسکری

معطل
میاں جی، اگر آپ کنوئیں سے نکلے ہوتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ پاکستان، اسرائیل اور ایران تو جدید تاریخ میں مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاستیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ معلوم شدہ تاریخ میں صرف یہ تین ریاستیں ہی ہیں جو مذہب کے نام پر قائم ہوئیں؟
مغرب میں اگر غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے تو ذرا وہاں اسکول کی سطح پر اس غالب اکثریت کے فکری رجحانات کے خلاف پڑھائے جانے والے کسی ایک مضمون کی نشاندہی تو کی کیجئے۔
آپ کی اطلاع کے لئے بتاتا چلوں کہ میرا تعلق شعبہء تعلیم سے ہی ہے اور آپ نے تو شاید آج زندگی میں پہلی بار نصاب پر بحث کی ہوگی یا اس بارے میں کچھ سنا ہوگا، میرا یہ روزانہ کا کام ہے۔

بٹ جی پہلہ جملہ نا ہوتا تو ٹرپل زبردست ہوتی پوسٹ :p
 

سید ذیشان

محفلین
میاں جی، اگر آپ کنوئیں سے نکلے ہوتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ پاکستان، اسرائیل اور ایران تو جدید تاریخ میں مذہب کے نام پر قائم ہونے والی ریاستیں ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ معلوم شدہ تاریخ میں صرف یہ تین ریاستیں ہی ہیں جو مذہب کے نام پر قائم ہوئیں؟

معلوم شدہ تاریخ سے ہمیں کیا لینا دینا؟ ہم اکیسوی صدی میں رہتے ہیں یا کہ غاروں کے دور میں؟

ظاہری بات ہے کہ جس عہد میں ہم رہ رہے ہیں تعلیمی نظام بھی اسی عہد کا ہوگا اور اسی تعلیمی نظام کی ہم بات کریں گے۔ اگر آپ کو ایسے ممالک معلوم ہیں جدید دنیا میں جو مذہب کے نام پر بنے ہوں تو ان کی نشاندہی کیجئے۔ ظاہری بات ہے کی ان کی نشاندہی نہیں کر سکیں گے، تو آپ کی دلیل کی عمارت فوراً ہی ڈھے جائے گی۔
مغرب میں اگر غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے تو ذرا وہاں اسکول کی سطح پر اس غالب اکثریت کے فکری رجحانات کے خلاف پڑھائے جانے والے کسی ایک مضمون کی نشاندہی تو کی کیجئے۔
اب بات کا رخ بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ جب میں نے بہت واضح الفاظ میں نشاندہی کی ہے کہ وہاں پر اسلامیات ٹائپ کا کوئی مضمون ہی نہیں ہے اور وۃان پر تمام بڑے مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ دلیل ہی کافی ہونی چاہیے تھی۔

خیر میں ایک اور مثال بھی پیش کر دیتا ہوں تاکہ آپ کی اچھ طرح سے تسلی ہو جائے۔ امریکہ کی اکثریت عیسائی ہیں اور امریکہ کی عوام کی اکثریت ڈارون کی تھیوری کو نہیں مانتی۔ صدر بش نے کوشش کی تھی کہ ایک اور تھیوری جس کی بنیاد مذہب ہے، جس کا نام ہے "intelligent design" وہ بھی ڈارون کی تھیوری کیساتھ پڑھائی جائے۔ لیکن تعلیم سے متعلق لوگوں نے ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اب امریکہ میں ایسی تھیوری پڑھائی جاتی ہے جس پر اکثر عوام کا یقین ہی نہیں ہے۔

بحرحال کوشش اچھی تھی۔ جب خود سے کچھ نہ بن پڑے تو ثبوت کا ملبہ اگلے پر ڈال دو جب کہ خود آپ کی تحریر بہت واضح الفاظ میں کہہ رہی ہے:

دنیا کے ہر ملک میں نصاب وہاں کے باسیوں کے مذہبی و معاشرتی رویوں کے رنگوں میں گندھا ہوا ہوتا ہے تو پھر ہمارے معاشرے میں جہاں نوے فیصد سے زائد لوگ اسلام سے وابستگی کے دعویدار ہیں وہاں اس بات کو بحث کا موضوع بنادینا محض اس ملک کو غیرمستحکم کرنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
آپ کی اطلاع کے لئے بتاتا چلوں کہ میرا تعلق شعبہء تعلیم سے ہی ہے اور آپ نے تو شاید آج زندگی میں پہلی بار نصاب پر بحث کی ہوگی یا اس بارے میں کچھ سنا ہوگا، میرا یہ روزانہ کا کام ہے۔

کبھی آپ صحافی بن جاتے ہیں، کبھی خطیب اور کبھی استاد۔ (ویسے اگر میرا مشورہ مانیں تو خطیب اور کنوئیں کے مینڈک میں سے کسی کا انتخاب کر سکتے ہیں :))
میں خود پاکستان کی ٹاپ کی انجنئرنگ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوں تو مجھے بھی نصاب وغیرہ کی شد بد ہے۔ لیکن اس سے میری دلیل میں کوئی وزن پیدا نہیں ہوتا۔
 

ساجد

محفلین
عسکری جوان ، تمہارا فلسفہ خود اختیاری ادھورا ہے۔ اگر تم لبا س کے بارے میں آزادی کے قائل ہو تو اس سے زیادہ ضروری ہے کہ تم نظریات کے بارے میں بھی دوسروں کی آزادی کو سمجھو اور اپنے ان دوستوں سے بھی یہی عرض کروں گا جو دوسروں پر زبردستی اسلامی نظریہ نافذ کرنے کے قائل ہیں۔
تمہیں مذہب بیزاری کا حق ہے لیکن اس حق کے استعمال میں احتیاط تمہاری ذمہ داری ہے۔ یاد رکھو کہ نظریہ ارتقاء ہی سب کچھ نہیں اور وہ ایک سائنسی نظریہ ہے جو کل کو تبدیل بھی ہو سکتا ہے لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تیرہویں صدی کے اوائل میں میگنا کارٹا سے لے کر 1945 کے اقوام متحدہ کے منشور تک مذہب کو کسی نہ کسی طور پر ریاست کے رہنما کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ خود برطانوی جب امریکہ میں وارد ہوئے تو ملکہ الزبتھ اول نے کہا تھا "ان کافر امریکیوں کو خدا کے ماتحت کرو"۔
جدید مغربی جمہوریت جس الحاد کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اس کا وجود مغرب کی کسی ریاست میں نہیں پایا جاتا۔ کسی مغربی بھی ملک میں نظریہ ارتقاء کی بنیاد پر قوانین نہیں بنائے جاتے اور کہیں بھی مذہب کو سرکاری طور پر متروک ڈیکلئیر نہیں کیا گیا۔ دور مت جائیں اپنے ہمسائے میں واقع سیکولر بھارت اور بے دین چین میں بھی مذہب کو کسی نہ کسی طور تسلیم کیا جاتا ہے۔
جب تک پاپائیت کلیسا تک محدود رہی یہ مذہب کو خدائی احکام کا درجہ دیتی رہی لیکن جب یہ روما پر قابض ہو گئی تو اپنے ہر حکم کو خدا کا حکم قرار دے کر جبر کی راہ پر چل نکلی۔ تبھی جبر کی راہیں کھلیں اور سلطنت فلاحی رہی نہ افراد کی آزادی باقی رہی۔ یہی بات آج اسلامی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ مذہب اور سیاست کو یوں گڈ مڈ کر دیا گیا ہے کہ دونوں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ مذہب آسمانی ہدایات ہے جو انسانوں کو یہ احساس دلاتی ہے کہ تم بلا مقصد دنیا میں نہیں بھیجے گئے اور ایک دن تمہیں اپنے خالق کے سامنے پیش ہو نا ہے۔ یہیں سے اندازہ کر لیجئے کہ آج سلطنت کیوں ناکام ہے اور اس ناکامی میں مذہب کا نہیں بلکہ اس کو اپنے مقاصد کے لئے ستعمال کرنے والوں کا قصور ہے۔
 

پردیسی

محفلین
میرے پاس آنے والی گذشتہ روز کی آخری خبر جو کہ پاکستان کے آج کے اخبارات میں شائع ہوگی ۔۔

وزیراعلی پنجاب کا دسویں جماعت کے سلیبس سے اسباق حذف کئے جانے کا سخت نوٹس
محکمہ سکولز اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے حکام کوحذف شدہ اسباق فوری طور پر دوبارہ سلیبس میںشامل کرنے کا حکم
سلیبس میں تبدیلی کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے قائم 4رکنی کمیٹی 2روز میں وزیر اعلی کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی
لاہور ‘(اردو ویب نیوز ڈاٹ کوم ) وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے دسویں جماعت کے سلیبس سے بعض اسباق حذف کئے جانے کا سخت نوٹس لے لیا ہے ۔پنجاب حکومت کے ترجمان نے اس حوالے سے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب نے محکمہ سکولز اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے حکام کوحذف شدہ اسباق فوری طور پر دوبارہ سلیبس میںشامل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ترجمان نے مزیدبتایا کہ وزیر اعلی پنجاب نیسلیبس میں تبدیلی کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے 4رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے ۔سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو ،چیئر مین وزیر اعلی معائنہ ٹیم ،چیئر مین پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ ڈاکٹر امجد ثاقب اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ پر مشتمل یہ کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ یہ اقدام کس اختیار کے تحت کیا گیااور اس عمل میں کون کون شامل تھے۔کمیٹی 2روز میں وزیر اعلی پنجاب کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
 

عسکری

معطل
عسکری جوان ، تمہارا فلسفہ خود اختیاری ادھورا ہے۔ اگر تم لبا س کے بارے میں آزادی کے قائل ہو تو اس سے زیادہ ضروری ہے کہ تم نظریات کے بارے میں بھی دوسروں کی آزادی کو سمجھو اور اپنے ان دوستوں سے بھی یہی عرض کروں گا جو دوسروں پر زبردستی اسلامی نظریہ نافذ کرنے کے قائل ہیں۔
تمہیں مذہب بیزاری کا حق ہے لیکن اس حق کے استعمال میں احتیاط تمہاری ذمہ داری ہے۔
میں سمجھ گیا ویسے بھی یہ سارا مسئلہ ان 24 گھنٹوں میں ہوا ہے اور بڑھتا گیا ہے پر میں آئندہ احتیاط کروں گا دوبارہ سے جیسے پہلے کر رہا تھا
 

زرقا مفتی

محفلین
1427.gif
 
Top